text
stringlengths
224
443k
Article: How purity culture impacts the film and television we interact with This article contains discussion of sexual assault. In the popular TV show Jane the Virgin, the opening scene involves the young protagonist Jane learning about female purity from her grandmother. Jane’s grandmother shows her a beautiful flower and then crumples it up, teaching Jane the consequences of giving away her “flower” before marriage. This example is widely used to teach youth about purity. I was given a similar talk with the example of a piece of tape: the dirtier the tape got, the less likely it was to stick to the piece of paper. Charming, right? These dehumanizing examples used in media and enacted in real life feed into a misogynistic narrative; that women are simply objects and their value decreases after becoming sexually active. In countless film and television series targeted towards young adults, the concept of female virginity is used as a plot device to signify their loss of innocence or morality. Many of the characters in these shows discuss the consequences of “losing their virginity;” they fear that once they “give away a part of themselves” to another person that they will never be the same. This mainstream notion of “giving away a piece of yourself” when you lose your heteronormative virginity is extremely damaging because the worth of women as human beings is equated to their virginity or lack thereof. The mainstream portrayal of virginity as a “gift” in film and television is harmful to both women and sexual assault survivors. The idea that virginity is a gift has been around for a long time but a distinct purity movement grew in the 1990s that aimed to protect young women from the sexual immorality of the world. This movement is reflected in our media that depicts characters worrying about who they will become after they have sex for the first time. In films and television shows like After and Riverdale, various female characters are depicted as innocent and wholesome before they have their first sexual encounter. After they “lose their virginity”, characters like Betty and Tessa are depicted as more promiscuous and mature as shown through changes in their physical appearance and in their behavior. Many of the films and TV shows that perpetuate this harmful narrative that you must protect that “innocent” part of yourself until you are married or in love are directed by men. Older shows like Degrassi feature plots about purity culture and slut-shaming with some of these episodes directed by men, who lack understanding around young women’s experiences with their sexuality and identity. Fortunately, the media industry is making better efforts to feature stories written by more diverse womxn voices. While there is still significant work to be done in dismantling harmful stereotypes surrounding female sexuality in media, films and TV shows like The Sex Lives of College Girls, Girls, To All the Boys I’ve Loved Before: Always and Forever, and Never Have I Ever work to break tired stereotypes about female sexuality and virginity. Teaching young people about sexual autonomy and ensuring they have proper education on their bodies is essential, no matter what they choose to do with that information or their bodies. Purity culture disproportionately impacts women. Having this idea that your sexuality is a special gift meant only for one person perpetuated and normalized in mainstream media can also harm sexual assault survivors. By furthering the belief that a woman’s worth can be defined by what is between her legs, we also allow her to believe that a sexualized attack has “ruined” her and that she can never go back to her once “pure” self. The idea that virginity is a gift that needs to be guarded is damaging. No one’s worth should be determined by their sexuality. If we continue to normalize these harmful beliefs in film and television, then we normalize the idea that women’s bodies are not their own. Virginity is not a gift and we need to stop portraying it as so.
مضمون: کوہاٹ : گھر میں پانی کی ٹینکی گرنے سے پانچ بچے جاں بحق، تین شدید زخمی کوہاٹ : کوہاٹ کے نواحی علاقے ڈاکٹر بانڈہ میں ایک گھر میں پانی کی ٹینکی اچانک ٹوٹ کر گرنے کے نتیجے میں پانچ معصوم بچے جاں بحق اور تین زخمی ہوگئے۔ جاں بحق اور زخمی بچوں کی عمریں 8 سے 10 سال کے درمیان بتائی جاتی ہیں۔ ابتدائی اطلاعات اور باخبر ذرائع کے مطابق نماز جمعہ کےبعد کوہاٹ کے نواحی علاقے ڈاکٹر بانڈہ میں عبدالرشید نامی ایک شخص کے گھر میں چھت پر بنائی گئی پانی کی نئی ٹینکی اس وقت اچانک ٹوٹ کر گری جب ٹینکی کو پانی سے بھر دیا گیا۔ ٹنکی پانی کا زور برداشت نہ کرسکی اور اچانک ٹوٹ کر گرپڑی، جس کے ملبہ تلے آکر پانچ بچے جاں بحق اور تین زخمی ہوگئے۔ افسوسناک واقعہ کی اطلاع ملتے ہی مقامی لوگوں نے امدادی سرگرمیاں شروع کرکے جاں بحق و زخمی بچوں کو ہسپتال پہنچادیا جہاں دوبچوں کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جاں بحق اور زخمی بچوں کی عمریں 8 سے 10 سال کے درمیان ہیں۔ جاں بحق و زخمی بچوں میں دو بچیاں بھی شامل ہیں، باخبر ذرائع کے مطابق دو شدید زخمی بچوں کو پشاور منتقل کردیا گیا۔
مضمون: بدھ کو کیلی فورنیا کے شہر، سان برنارڈینو میں شوٹنگ کی واردات میں ملوث خاتون کے بارے میں خود اُس کے سسرال والوں کو یہ ماننے میں دقت پیش آرہی تھی، جس دہشت گردی میں 14 افراد ہلاک ہوئے۔ سسرال والوں کے بقول، 27 برس کی تاشفین ملک ایک 'خیال کرنے والی' اور 'خاموش طبع' خاتون تھیں۔ تاہم، اُن کے وکلا کہتے ہیں کہ اُن کے بارے میں ہم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا سنا گیا ہے، جو ڈیڑھ برس قبل 28 سالہ سید فاروق سے شادی کے لیے سعودی عرب سے یہاں آئیں۔ فاروق فیملی کے وکیل، محمد ابو ارشاد نے جمعے کے روز ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'اہل خانہ کو اُن کے بارے میں صرف اتنا پتا ہے کہ وہ خیال کرنے والی اور حلیم الطبع خاتون تھیں'۔ خاندان تاشفین ملک کی کوئی تصویر تلاش نہیں کر سکا۔ (تاشفین اور فاروق کی تصاویر اُن کے ڈرائیورز لائسنس سے حاصل ہوئیں جنھیں کیلی فورنیا محکمہ موٹر وہیکلز نے 5 سمبر، 2015ء کو جاری کیا)۔ ابو ارشاد نے بتایا کہ اُن کا خاندان بہت ہی روایت پسند تھا۔ بقول اُن کے، 'جب خاندان کے لوگ تاشفین اور فاروق کے گھر گئے، تو خاتون زنان خانے تک محدود تھیں، جب کہ مرد حضرات مردوں کے ساتھ بیٹھے'۔ اس کے نتیجے میں، خاندان کے لوگوں کو تاشفین کے بارے میں کچھ زیادہ پتا نہیں، جو برقعہ پہنا کرتی تھیں، روزے رکھتیں اور پنج گانہ نماز ادا کیا کرتی تھیں۔ اِس گھریلو خاتون جن پر سر عام گولیاں چلانے کا شبہ ہے، اُنھوں نے گاڑی خود نہیں چلائی۔ کرائے کے ایک ٹائون ہائوس میں، فاروق کی ماں اُن کے ساتھ رہتی تھیں۔ لیکن وہ بھی یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اُنھیں بھی تاشفین کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا۔ خاندان کے دوسرے وکیل، ڈیوڈ چیزلی کے بقول، 'والدہ اپنے تک محدود تھیں۔ وہ مکان کے اوپر والے حصے میں رہتی تھیں'۔ دونوں وکلا نے بتایا کہ اُنھیں نہیں معلوم کہ شادی شدہ جوڑے کو کیا ہوا کہ اُنھوں نے گولیاں چلائیں۔ اُنھوں نے فاروق کو 'اپنے اندر مگن شخص' قرار دیا۔ لیکن، اُنھوں نے اِن رپورٹوں کو رد کیا جن میں بتایا گیا تھا کہ وہ اُس وقت اچانک تیش میں آئے جب سان برنارڈینو کائونٹی کے محکمہ صحت کے لوگوں نے، جہاں وہ کام کیا کرتا تھا، اُن کی داڑھی کا مذاق اڑایا۔ ابو ارشاد نے بتایا کہ فاروق زیادہ تر وقت اپنے گیراج میں گزارتے تھے جہاں وہ پڑی ہوئی چیزوں کو ٹھیک کیا کرتے تھے۔ وکیل نے بتایا کہ، 'اُنھوں نے اپنی بہن کے لیے جوتوں کا ایک 'ریک' تیار کیا تھا۔ اُنھوں نے یہ ہنر اپنے والد کو دیکھ کر سیکھا تھا۔ کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ زیادہ تر وہ کاروں کے بارے میں مطالعہ کیا کرتے تھے'۔ وکلا نے کہا کہ فاروق کے خاندان نے گھر میں کبھی حملے میں استعمال ہونے والی دو رائفلیں، ہزاروں کی تعداد میں کارتوس، 12 عدد پائپ بم نہیں دیکھے، جن کے لیے حکام کا کہنا ہے کہ یہ اُنہی کے پاس سے برآمد ہوئے ہیں۔ وکلا نے بتایا کہ یہ بات اُن کے علم ہے کہ فاروق کے پاس دو ہینڈ گن تھے۔ تاہم، اُنھوں نے اِنہیں بھی نہیں دیکھا، چونکہ یہ تالے میں بند رہتی تھیں۔ ابو ارشاد کے بقول، 'خاندان پر سکتہ طاری ہے۔ وہ ہلاک شدگان کے لیے غم زدہ ہیں۔ اُنھوں نے اپنی دو لاشیں بھی اٹھائی ہیں'۔
مضمون: یوم آزادی پر اپوزیشن رہنماؤں کا پیغام اسلام آباد: پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر اپوزیشن رہنماؤں نے بھی اپنے پیغامات میں پاکستان کو بہترین بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے تمام اہل وطن کو یوم آزادی کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ امن کے لیے دہشت گردی، انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ انہوں ںے کہا کہ بطور قوم بنیادی اقدار کی حفاظت اور انہیں فروغ دینا ہوگا، جمہوری نظام اور دستور پسندی قوم کو مضبوط کر سکتی ہے۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی پاکستان کو مثالی جمہوری ملک بنانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ چند نہیں معاشرے کے تمام طبقات کے لیے یکساں مواقع میسر کرنا ہیں۔ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ ہم راستے سے بھٹک گئے، غلطیوں سے سبق حاصل کرنا ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہم اسمبلی میں بھرپور کردار ادا کریں گے، ہمیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے۔
المقال: 15 قتيلا بتعز ومظاهرات معارضة ومؤيدة |ساحة الحرية بتعز تتعرض للقصف منذ الليلة الماضية (الجزيرة-أرشيف)| لقي 15 مدنيا بينهم طفل مصرعهم وجرح العشرات اليوم الجمعة، في قصف نفذته القوات الموالية للرئيس اليمني علي عبد الله صالح على محيط ساحة الحرية بمدينة تعز، ويأتي القصف رغم تواصل جهود الوساطة لإنهاء الأزمة اليمنية. وقال مراسل الجزيرة إن القوات الموالية لصالح عاودت قصف ساحة الحرية وحي الروضة ومنطقة الحصب بمدينة تعز التي تتعرض للقصف منذ الليلة الماضية, وأضاف أن قوات صالح قصفت كذلك مستشفى الروضة حيث المستشفى الميداني لساحة الحرية في تعز. وقد ألحق القصف أضرارا بالطابق الرابع حيث يرقد المصابون من ضحايا القصف السابق, فيما ارتفع عدد القتلى بالمدينة إلى 11 قتيلا بينهم ثلاث نساء وطفل, إضافة إلى حوالي عشرين جريحا ما زالوا يتلقون العلاج. وقال شهود عيان ومصدر طبي إن عمليات القصف بدأت بعد منتصف ليلة الجمعة من مواقع قوات الحرس الجمهوري على الأحياء المحيطة بساحة الحرية التي يعتصم فيها المطالبون بإسقاط النظام. وأضاف الشهود أن القصف اشتد صباح اليوم الجمعة وهو مستمر، وقد استهدف خصوصا حييْ الروضة وزيد الموشكي في تعز التي تعد رأس حربة في الحركة المناهضة للنظام، وهي أكبر مدينة في اليمن من حيث عدد السكان. وذكر سكان لوكالة الصحافة الفرنسية أن القصف اشتد في فترة الظهر بينما كان الآلاف يحاولون الوصول إلى ساحة الحرية لأداء صلاة الجمعة، ضمن سلسلة التجمعات التي دعت إليها قوى "شباب الثورة السلمية" تحت شعار "جمعة لا حصانة للقتلة". وأكد شاهد عيان أن قذيفة سقطت بالقرب من الساحة وأسفرت عن سقوط ضحايا في صفوف نساء كن يحاولن الوصول إلى الساحة للمشاركة في الصلاة والمظاهرة. وقد شهدت العاصمة اليمنية صنعاء و18 محافظة أخرى اليوم الجمعة مظاهرات أطلق عليها "جمعة لا حصانة للقتلة"، طالبت بمحاكمة الرئيس صالح وأركان نظامه، ورفضت المبادرة الخليجية التي تمنحه حصانة من المقاضاة. وقد تجمع عشرات الآلاف من المناوئين لصالح في العاصمة صنعاء للصلاة في ساحة التغيير، على أن يتظاهروا بعد الصلاة ضمن "جمعة لا حصانة للقتلة". ويشدد المحتجون على رفض منح الرئيس اليمني وأقربائه ومعاونيه الحصانة التي تنص عليها المبادرة الخليجية لنقل السلطة، والتي وافقت عليها المعارضة البرلمانية. وفي المقابل تجمع عشرات الآلاف من المؤيدين لصالح دعما للرئيس اليمني في منطقة شارع السبعين في صنعاء حيث أدوا صلاة الجمعة, وتظاهروا بالقرب من القصر الرئاسي، معبرين عن تأييدهم لصالح ولبقائه في الحكم إلى نهاية ولايته الدستورية عام 2013. وقالت وكالة الأنباء اليمنية الرسمية (سبأ) إن "ملايين اليمنيين سيحتشدون اليوم الجمعة في الساحات والميادين العامة بالعاصمة صنعاء وأنحاء البلاد في جمعة "إن للمتقين مفازا"، تأكيدا لثبات مواقفهم المؤيدة للشرعية الدستورية". وأضافت أن هؤلاء المتظاهرين سيدعون أحزاب اللقاء المشترك وأنصارهم إلى "احترام إرادة الشعب اليمني المؤيد للشرعية الدستورية، والقبول بالحوار لكونه السبيل الوحيد لإخراج اليمن من أزمته الراهنة". وساطة وتزامنت هذه التطورات الميدانية مع زيارة مبعوث الأمين العام للأمم المتحدة الخاص إلى اليمن جمال بن عمر الذي بحث مع وزير الخارجية اليمني أبو بكر القربي الخميس في صنعاء الجهود المتواصلة لاستعادة الأمن والاستقرار في البلاد. وذكر الموقع الإلكتروني التابع لصحيفة "26 سبتمبر" أنه جرى خلال اللقاء بحث الجهود المتواصلة بين كافة الأطراف لاستكمال الآلية التنفيذية لمبادرة مجلس التعاون الخليجي بشأن اليمن. |صالح أعلن مرارا أنه سيفوض نائبه | لتوقيع المبادرة (الفرنسية-أرشيف) وسيسعى الموفد الأممي إلى إقناع الرئيس اليمني بالتوقيع على مبادرة دول مجلس التعاون الخليجي التي تهدف إلى تسوية سياسية للأزمة المستمرة منذ مطلع هذا العام عبر انتقال سلمي للسلطة. وأعلن الرئيس صالح مرارا أنه فوض أو سيفوض نائبه عبد ربه منصور هادي لتوقيع المبادرة التي لا تزال السلطة والمعارضة تختلفان على آلية تنفيذها. وقال الناطق باسم أحزاب اللقاء المشترك المعارض محمد قحطان للجزيرة إن المعارضة مستعدة للتوقيع على آلية التنفيذ بعدما وقعت على المبادرة نفسها, مضيفا أن المشكلة الآن في معسكر الرئيس صالح. وتؤكد المعارضة أنه جرى الاتفاق مع حزب المؤتمر الشعبي العام الحاكم على آلية تنفيذية "تحفظ ماء الوجه" للرئيس اليمني، بناء على طلب المبعوث الأممي، إلا أن صالح رفضها في النهاية. ونقلت وكالة الصحافة الفرنسية عن مصادر في المعارضة اليمنية أنه في حال تم الاتفاق على النقاط الخلافية، فإنه يفترض أن يوقع صالح أو نائبه على المبادرة الخليجية في صنعاء, ثم يتم التوقيع على آلية التنفيذ في العاصمة السعودية الرياض. وتكمن أبرز نقاط الخلاف -فيما يتعلق بآلية التنفيذ- في إعادة هيكلة الجيش والمؤسسات الأمنية التي يسيطر أبناء وأقرباء الرئيس صالح على المناصب الحساسة فيها، فضلا عن بقاء صالح في منصبه شرفيا حتى انتخاب رئيس جديد.
المقال: “الخدمات الصحّيّة هي بمثابة الصمغ الاجتماعيّ الذي يوفّر الحماية للمواطنين. فهي تبني التضامن وأُسُس المجتمعات المحلّيّة، وتغيّر الطريقة التي ينظر فيها الناس إلى الدولة”. هذا ما قاله ريتشارد هورطون محرر إحدى أهمّ المجلّات الطبّيّة في العالم “The Lancet”، في مقابلة مع صحيفة هآرتس في التاسع عشر من أيار 2017، على شرف صدور عدد كامل من المجلّة يتناول جهاز الصحّة في إسرائيل. أثنى هورطون على مَناحٍ معيّنة في الجهاز الطبّيّ في اسرائيل، كصناديق المرضى والعلاقات الوثيقة بين الأبحاث والعلاجات الطبّيّة، لكنّه وجّه انتقادات شديدة ولاذعة لسياسة إسرائيل الصحّيّة في المناطق الفلسطينيّة، ولا سيّما في قِطاع غزّة (راجِعوا هنا). ارتأينا في هذا العدد من “منبر” أن نلقي نظرة على الجهاز الصحّيّ في إسرائيل من زاوية العلاقات اليهوديّة – العربيّة، وأن نناقش الأضواء والظلال على حدّ سواء. سنعرض في هذا الإطار الضيّق مقالات قصيرة كتبها باحثون ومهنيّون يعملون في الحقل، وأعضاء جمعيّات مدنيّة تعمل في هذا المضمار. بطبيعة الحال، نحن هنا إزاء قراءات سريعة وخاطفة لهذا الموضوع الرحب والشائك، ونسعى من وراء ذلك إلى تسليط الضوء على هذا الموضوع وإثارة النقاش حوله. كلّ من يحتاج إلى خدمات طبّيّة (أي نحن جميعنا) لا يستطيع إلّا أن يلحظ الثورة الحقيقيّة الجارية في السنوات الأخيرة في جميع المؤسّسات الطبّيّة ومؤسّسات الرعاية في أنحاء البلاد. حضور العرب في جميع المهن الطبّيّة بارز وواضح وضوح الشمس، والمزيد من الشبّان والشابّات العرب يتّجهون لدراسة موضوع الطبّ في البلاد وخارجها، وينخرطون لاحقًا في الجهاز الطبّيّ على جميع المستويات. بعض مديري المستشفيات في شمال البلاد هم من العرب، وبعض رؤساء الأقسام الطبّيّة عرب، وثمّة العديد من الأطبّاء العرب المرموقين. الأطبّاء والصيادلة وعاملو التمريض العرب يشكّلون اليوم نسبة ملحوظة في القوة العاملة البشرية في جهاز الصحة في اسرائيل، ويصل معدل الصيادلة نحو 40%. وخلال عملنا لإصدار هذا العدد، علمنا أنّ أكثر من مئتَيْ طبيب عربيّ نجحوا في امتحانات الترخيص. على هذا النحو تحوّلت المستشفيات إلى مختبرات للعيش المشترك، حيث يمكث معالِجون ومعالَجون (بكسر اللام تارة، وبفتحها تارة أخرى) من المجموعتين تحت سقف واحد، ويعملون معًا في فضاء إنسانيّ عامّ، يخلو -وإنْ ظاهريًّا- من السياسة ومن الاعتبارات غير الموضوعيّة. التقرير الواسع والمفصّل الذي نشرته الحركة اليهوديّة الإصلاحيّة (“هَتنوعاه لِيَهَدوت مِتكَديمِت”)، في شباط عام 2017 تحت عنوان “رفوءاه شليما” (وهو تعبير بالعبريّة يُستخدم لتمنّي الشفاء التامّ للمريض، لكنّه يعني كذلك مجازيًّا في هذا السياق: “طبّ كامل ومتكامل” -المترجم)، طرح أنّ هذه الظاهرة تشكّل “مثالًا للحياة المشترَكة” (انظروا هنا). ويقول البروفيسور رياض إغباريّة الذي رأَسَ دائرة الصيدلة في جامعة بن غوريون لسنوات عديدة: “اللقاء اليوميّ بين مزوِّد العلاج العربيّ والمريض اليهوديّ ضروريّ من أجل تقليص التباعد والنفور بين المجتمعين. اللقاء في الصيدليّة والثقة بالصيدلانيّ أنّه سيوفّر الدواء للأوجاع الجسديّة يولّدان التعاون والثقة المتبادلة بين الطرفين، وهو ما يؤدّي تدريجيًّا إلى انهيار منظومة الأفكار النمطيّة وبناء العلاقات التي ترتكز على الاحترام”. هل الصورة “ورديّة” إلى هذا الحدّ حقًّا؟ هل تتحقّق في هذا الموضوع الحسّاس والمهمّ مساواة بين اليهود والعرب يمكن لها أن تشكّل مثالًا يُحتذى به في المجالات الأخرى؟ المسح الصحّيّ والبيئيّ الذي أجرته جمعيّة الجليل في صفوف السكّان العرب في إسرائيل يكشف النقاب عن نتائج مقلقة جدًّا، ويُظهر وجود أزمة صحّيّة خطيرة في المجتمع العربيّ، ويقترح مُعِدّو المسح وضع خطّة إستراتيجيّة بنيويّة للتعامل مع هذه الأزمة. في هذا العدد، نورِدُ موجَزًا للنتائج والتوصيات التي يقدّمها د. محمّد خطيب أحد مُعِدّي المسح، وننشر مقابلة مع بكر عواودة المدير العامّ لجمعيّة الجليل. في مقالة د. نهاية داوود، الاختصاصيّة في الصحّة العامّة من جامعة بن غوريون في النقب، تسلّط الكاتبة الضوء على العلاقة الوثيقة بين غياب المساواة في الصحّة وبين الفجوات الاجتماعيّة- الاقتصاديّة، والطّبقيّة، والسياسيّة، والجندريّة، الأمر الذي يخلق مستويات متدنّية من الصحّة البدنيّة والنفسيّة في صفوف مجموعات الأقليّة حول العالم، ولا يحيد الجمهور الفلسطينيّ في إسرائيل عن هذه القاعدة. تتناول د. داوود الأسباب التاريخيّة للفجوات، وتشير بأنّ عملياّت الخصخصة المتزايدة في الجهاز الصحيّ تَنهش في مبدأ المساواة الذي يرتكز عليه قانون التأمين الصحيّ الرسميّ. في الجزء الأخير من المقالة تعرض المؤلّفة باقةً من التوصيات لتحسين الوضع القائم. غياب المساواة بين الفئات الاجتماعيّة في إسرائيل يتجاوز الهُويّات الإثنيّة والقوميّة ليشمل المناطق الجغرافيّة، حيث تعاني البلدات التي تقع في الأطراف من صعوبات في مناليّة العلاجات الطبّيّة المرموقة. هذا الأمر ينعكس جليًّا في مقالة مرغَنيت غوطلير والمحامية نوريت ديساو من المنتدى المدنيّ لتطوير الصحّة في الجليل. في الفترة الأخيرة، علت أصوات رؤساء سلطات محلّيّة يهوديّة وعربيّة في الجليل محتجّة على ما يدّعون أنّه تدهوُر متواصل في أوضاع الخدمات الصحّيّة في الشمال. طبيب الأسنان د. عارف مطر يعالج اليهود والعرب على حدّ سواء، ويرى أن عمله ينطوي على رسالة إنسانيّة، ويرى أنّه يسبح هو ومعالَجوه ضدّ التيّار المتعكّر في السياسة الإسرائيليّة، ويتحدّث عن غياب المساواة بين أطبّاء الأسنان داخل الجهاز، وهو ما دفعه مع زملاء له إلى إقامة نقابة عربيّة مستقلّة هي “جمعيّة أطبّاء الأسنان العرب”. تتحدّث البروفيسورة أورلي مانور في مقالتها عن حيثيّات قرار المجلّة الطبّيّة العريقة The Lancet المذكورة أعلاه تخصيص عددها الحاليّ لجهاز الصحّة في إسرائيل ويجري التشديد في سلسلة المقالات الخاصّة التي نُشرت في هذا العدد (وكانت البروفيسورة مانور من بين محرّريه) على تفرُّد المجال الصحّيّ في إسرائيل في كلّ ما يتعلّق بالتعاون بين اليهود والعرب، كما تسلّط المقالات الضوء على التحدّيات الأساسيّة التي تواجه الجهاز الصحّيّ في إسرائيل، بما في ذلك الفجوات المتواصلة في الخدمات التي تتلقّاها الفئات السكّانيّة المختلفة. على الرغم من تخصيص العدد الحاليّ من “منبر” للجهاز الصحّيّ داخل دولة إسرائيل، لا يمكن تجاهل مسؤوليّة إسرائيل عمّا يحصل في ما وراء الخطّ الأخضر، حيث يُعتبر الوضع الصحّيّ في “المناطق” إلى مدى بعيد جزءًا من الواقع الإسرائيليّ، ولذا قرّرنا اختتام هذا العدد بمقالة عن هذا الموضوع كتبها هداس زيف والبروفيسور داني فيلك (من منظّمة “أطبّاء من أجل حقوق الإنسان”). ترسم المقالة صورة قاتمة وصعبة للوضع الصحّيّ في صفوف السكّان الفلسطينيّين في الأراضي المحتلّة، حيث تسعى المنظّمة بقدراتها المتواضعة إلى تطبيق قَسَم أبقراط بمنح العلاج المتساوي للجميع. نأمل أن يقدّم هذا العدد* إسهامًا متواضعًا في تحويل هذا الموضوع المهمّ والشائك -بجوانبه المتفائلة والإشكاليّة- إلى جزء من النقاش الواسع حول العلاقات بين المجتمعَيْن القوميَّيْن في هذه البلاد. ثمّة أهمّيّة في اعتقادنا لإجراء أبحاث معمّقة حول التعاون اليهوديّ – العربيّ الوثيق في الجهاز الصحّيّ في إسرائيل، والنظر إليه باعتباره أنموذجًا محتمَلًا للتعاون في مضامير أخرى. نأمل أن ينال هذا العدد من مجلة منبر إعجابكم ويسرّنا تلقّي ملاحظاتكم وردود أفعالكم. ساره أوستسكي-لزار – المحرّرة يوني مندل وحنان سعدي – عضوا هيئة التحرير * ترجم المقالات من العبرية جلال حسن
مضمون: قومی اسمبلی اجلاس: شہباز شریف کے اداروں پر بھرپور الزامات اسلام آباد: مسلم لیگ ن کے رہنما، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور نیب کے زیر حراست اپوزیشن لیڈر شہباز شریف پروڈکشن آرڈر کے تحت قومی اسمبلی کے اجلاس میں پہنچے تو اپنے خطاب میں انہوں نے اداروں پر الزامات کی بھرمار کردی۔ تفصیلات کے مطابق قومی ادارہ احتساب (نیب) کی زیر حراست اپوزیشن لیڈر شہباز شریف قومی اسمبلی کے اجلاس میں پہنچے۔ شہباز شریف نے بلاول بھٹو اور راجہ پرویز اشرف سے ہاتھ ملایا۔ اس موقع پر قومی اسمبلی میں ن لیگی ارکان نے ’شیر آیا شیر آیا‘ کے نعرے لگانے شروع کردیے۔ اجلاس میں شہبازشریف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر صاحب کے پروڈکشن آرڈر نکالنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اسپیکر صاحب نے پارٹی سے بالاتر ہو کر پروڈکشن آرڈر جاری کیے۔ انہوں نے کہا کہ اسپیکر صاحب نے قانونی اور آئینی ذمہ داری ادا کی، تمام لوگوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے پروڈکشن آرڈر جاری کروانے میں کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلا موقع ہے اپوزیشن لیڈر کو بغیر کسی چارج کے گرفتار کیا گیا، منتخب اپوزیشن لیڈر کو بغیر کسی چارج کے اور بھونڈے طریقے سے گرفتار کیا گیا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میں پاکستان تحریک انصاف اور نیب کے اتحاد پر بات کرنا چاہتا ہوں، ن لیگ کے لیڈرز کے خلاف 13 مئی کو دہشت گردی کے پرچے کاٹے گئے۔ ہمارے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت پرچے درج ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ نیب میں حاضریاں اور گرفتاریاں ن لیگی اراکین کی ہوئیں۔ چیئرمین نیب نے میری گرفتاری کے آرڈرز 6 سے 13 جولائی کے درمیان دیا تھا۔ ’شیخ رشید نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا کہ شہباز شریف جیل کی ہوا کھائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ضمنی الیکشن کے دوران میری گرفتاری کے مؤخر فیصلے پر عملدر آمد کیا گیا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دو ماہ میں اتنی بڑی تبدیلی آجائے، ’عام الیکشن جعلی تھے یا ضمنی انتخابات کے نتائج جعلی ہیں‘۔ شہباز شریف نے ضمنی الیکشن جیتنے والے نو منتخب ارکان اسمبلی کو مبارکباد دی۔ نو منتخب ممبرز کے حلف اٹھانے کے بعد پارلیمنٹ مزید مضبوط ہوگی۔ انہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ نیب حزب اختلاف کی جماعتوں کو نشانے پر رکھے ہوئے ہے۔ نیب کا صفحہ 170 پکار پکار کر کہتا ہے نواز شریف نے کرپشن نہیں کی، بیٹی کے سامنے باپ اور باپ کے سامنے بیٹی کو گرفتار کیا گیا۔ ’ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا اور مشکل سوالات کا جواب دینا ہوگا‘۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے کیس کے دفاع اور رونے دھونے قومی اسمبلی نہیں آیا، ان راستوں سے پہلے بھی گزر چکے ہیں یہ نئی بات نہیں، میری جھولی میں عوامی خدمت کے سوا کچھ نہیں۔ شہباز شریف نے مزید کہا کہ فیصلہ ایوان نے کرنا ہے وہی جنگل کا قانون ہوگا۔ ہٹلر کا انجام یاد رکھنا چاہیئے، نیب کے عقوبت خانے میں ہوا کا گزر نہیں، سورج نظر نہیں آتا۔ سیاست دان سختیاں برداشت کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ جنہوں نے تعلیم کا معرکہ عبور کیا انہی کو ہتھکڑیاں لگائی گئیں۔ اس سے قبل پولیس اور نیب راولپنڈی کی ٹیمیں شہباز شریف کو ایئرپورٹ سے پارلیمنٹ تک لائیں۔ نیب ٹیم نے شہباز شریف کو قومی اسمبلی کے سارجنٹ آرمز کے حوالے کیا، قومی اسمبلی اجلاس کے بعد سارجنٹ ایٹ آرمز شہباز شریف کو نیب ٹیم کے حوالے کریں گے۔ شہباز شریف نیب حکام کی اجازت کے بغیر کسی سے نہیں مل سکیں گے۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد نیب ٹیم دوبارہ انہیں لاہور نیب آفس لے آئے گی۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز احتساب عدالت نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل کیس میں گرفتار مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں 30 اکتوبر تک توسیع کی تھی۔ اس سے قبل نیب لاہور نے رواں ماہ 5 اکتوبر کو شہبازشریف کو صاف پانی کیس میں طلب کیا تھا تاہم ان کی پیشی پر انہیں آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔
مضمون: اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔
Article: In space and astronautical engineering, stiffness refers to the resistance of a structure to deformation under an applied load. It is a critical parameter in the design of spacecraft and their components, as well as in the analysis of their performance. Stiffness is important because it affects the stability, strength, and durability of a structure. A structure that is too flexible may experience excessive deformation or even failure under load, while a structure that is too stiff may be unnecessarily heavy and difficult to manufacture. Stiffness is typically measured in terms of the structure's deflection under a given load, and is expressed as a ratio of the load to the deflection. Engineers use a variety of techniques to increase stiffness, such as adding reinforcement, changing the material properties, or altering the geometry of the structure. Your Previous Searches - Solar Particle Events: Solar Particle Events (SPEs) are sudden releases of high-energy particles from the Sun that can pose a significant threat to astronauts and spacecraft in space. These events are typically associated with solar flares and coronal mass ejecti ... Read More >> - Load: In space and astronautical engineering, load refers to the amount of weight or force that a structure or component is designed to support or withstand. This can include the weight of the spacecraft itself, as well as any payloads, fuel, or ... Read More >> - Liquid Rocket Engine: A liquid rocket engine is a type of rocket engine that uses liquid propellants. The propellants are stored separately in tanks and are pumped into a combustion chamber where they are mixed and ignited to produce thrust. Liquid rocket engine ... Read More >> The advent calendar phenomenon is growing every year, with so many exciting, fun, beautiful, and delicious options available... News Source: ABC News on 2024-11-04 November brings a skywatching bonanza, with three meteor showers — the Southern Taurids, Northern Taurids and Orionids — offering chances to see shooting stars.... News Source: NBC News on 2024-11-02 The ancient Maya city was named "Valeriana" after a nearby freshwater lagoon and built before 150 AD, researchers said.... News Source: CBS News on 2024-11-01 China is building a facility to measure neutrinos — mysterious subatomic particles. It's the first of three neutrino observatories expected to open worldwide in the next decade.... News Source: NBC News on 2024-10-31
مضمون: گلگت(پ۔ر) موجودہ ملکی سکیورٹی صورتِ حال کے پیشِ نظر پولیس اہلکاران کو پوری زمہ داری کے ساتھ فرائض کی انجام دہی کرنی ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار انسپکٹر جنرل آف پولیس گلگت بلتستان کیپٹن (ریٹائرڈ) ظفر اقبال اعوان نے سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت قائم کنٹرول روم کے دورے کے دوران اہلکاران سے گُفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اُنہوں نے کنٹرول روم میں تعینات اہلکاروں اور آپریٹروں کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کنٹرول روم میں کیمروں کے زریعے مشکوک افراد اور مشکوک گاڑیوں پر کڑی نظر رکھیں اور بروقت متعلقہ تھانوں کو اطلاع دیں تاکہ فوری کاروائی کی جاسکے۔آئی جی گلگت۔ بلتستان نے کہا ہے کہ ملک دشمن عناصر نے پورے ملک میں دہشت گردانہ کاروائیاں شروع کررکھی ہیں۔ گلگت۔ بلتستان پولیس کے آفیسران اور جوان خطے کو کسی بھی طرح کی ممکنہ سازش سے بچانے کے لئے پوری تُندہی اور جانفشانی سے سیکیورٹی خدمات انجام دیں اس سلسلے میں غفلت کی کسی طور گُنجائش نہیں۔انسپکٹر جنرل آف پولیس گلگت بلتستان نے گلگت شہر کی سکیورٹی کا جائزہ لیااور مختلف تھانوں اور چوکیوں پر جوانوں سے ملاقات کی اور سیکیورٹی اقدامات کے حوالے سے ہدایات بھی جاری کر دئے۔ اس موقع پر اُنہوں نے کہا کہ شہر میں مؤ ثر سکیورٹی کے لئے لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے بھی محکمہ برقیات کے تعاون سے اقدامات کئے جائیں گے۔آئی جی گلگت بلتستان نے عوام الناس سے بھی اپیل کیا ہے کہ وہ سکیورٹی اداروں بلخصوص پولیس فورس سے بھر پور تعاون کرتے ہوئے اپنے محلوں بازاروں اور علاقوں پر کڑی نظر رکھیں اورکسی مشکوک شخص یا گاڑی کا پتہ چلے تو فوری طور پولیس کو اطلاع دیں۔
مضمون: اسلام آباد: قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے دوران پولنگ کے عمل پر اعتراض اٹھا دیا گیا۔ سینیٹ انتخابات میں قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے دوران یوسف رضا گیلانی کے پولنگ ایجنٹ عبدالقادر پٹیل اور مسلم لیگ ن کے پولنگ ایجنٹ علی گوہر نے پولنگ کے عمل پر اعتراض اٹھایا۔ عبدالقادر پٹیل نے اعتراض شیخ راشد شفیق کے ووٹ ڈالنے کے موقع پر کیا۔ عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ لائٹ ٹھیک کرنے کے بہانے پولنگ افسر نے ووٹ چیک کیا اس لیے راشد شفیق کا ووٹ کینسل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پولنگ افسر کافی دیر سے ارکان کے ووٹ چیک کر رہے تھے۔ ریٹرننگ افسر ظفر اقبال نے کہا کہ پولنگ افسر صرف لائٹ چیک کرنے گئے تھے۔ ریٹرننگ افسر نے عملے کو ہدایت کی کہ تمام عملہ پولنگ بوتھ سے ہٹ جائے۔ اس موقع پر رکن قومی اسمبلی اور مسلم لیگ ن کے پولنگ ایجنٹ علی گوہر نے بھی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جہاں ووٹ ڈالا جا رہا ہے وہاں عملہ گڑ بڑھ کر رہا ہے اور مہر لگانے کی جگہ پر عملہ کو عین ووٹ پر مہر لگاتے ہوئے بھیجا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لائٹ ٹھیک کرنے کے بہانے ووٹ کو چیک کیا جا رہا ہے اس لیے پولنگ کا عمل ہماری نظر میں مشکوک ہو گیا ہے تاہم ہم نے تنبیہ کر دی ہے کہ الیکشن کمیشن اس عمل کو روکے۔ 0 Reviews
مضمون: گزشتہ صفحات میں جس طرح ہم اس حقیقت سے روشناس ہوئے کہ عالمِ امر سے عالمِ خلق تک اور عالمِ ارواح سے عالمِ حشر تک، انبیاء و رسل ہوں یا عام انسان، ہر کسی کو حسبِ حال ہر اہم مرحلے پر واسطۂ رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اکتسابِ فیض کی ضرورت پڑتی رہی اورپڑتی رہی گی ۔ جس طرح ہر موڑ پر اور ہر قدم پر نظامِ قدرت کے تحت اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبِ محتشم رسولِ معظم نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطۂ جلیلہ باعثِ نجات و برکت بنایا ہے بالکل اسی طرح مسلمان ایمان کے حصول سے لے کر اس کی حفاظت و اِرتقاء اوراعمال و افعال کی قبولیت تک، ہر لمحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسُّط، توسُّل اور تعلقِ محبت کا محتاج ہے۔ذیل میں ہم اس کی مزید تفصیلات زیر بحث لاتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں کفار و مشرکین کے تصورِ توحید اور وجودِ باری تعالیٰ سے متعلق ان کے عقیدے کے بارے میں ارشاد ہوا: وَلَئِنْ سَأَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللهُ ج فَاَنّٰی یُؤفَکُونَo اللهُ یَبْسُطُ الْرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ یَقْدِرُ لَہٗ ط اِنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌo وَلَئِنْ سَأَلْتَهُم مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مآءً فَاَحْیَا بِہِ الاَرْضَ مِنْ م بَعْدِ مَوْتِھَا لَیَقُولُنَّ اللهُ ط قُلِ الْحَمْدُ ِﷲِ ط بَلْ اَکْثَرُھُمْ لاَ یَعْقِلُونَo العنکبوت، 29: 61-63 ’’اور اگر آپ اِن (کفّار) سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور سورج اور چاند کو کس نے تابع فرمان بنا دیا تو وہ ضرور کہہ دیں گے: اللہ نے، پھر وہ کدھر الٹے جا رہے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے، اور جس کے لئے (چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان سے پانی کس نے اُتارا پھر اس سے زمین کو اس کی مُردنی کے بعد حیات (اور تازگی) بخشی تو وہ ضرور کہہ دیں گے اللہ نے، آپ فرما دیں: ساری تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر (لوگ) عقل نہیں رکھتے۔‘‘ اِن آیاتِ مبارکہ سے پتہ چلا کہ کفار کا عقیدئہ توحید چونکہ خودساختہ اور اِقرارِ رسالت سے خالی ہے اس لیے وہ ایمان نہیں بن سکتا کیونکہ توحید بننے کے لئے واسطۂِ رسالت شرط ہے۔ وہ عقیدہ جو واسطۂِ رسالت سے حاصل ہو وہی ایمان بنتا ہے جیسے سورۂ نجم میں فرمایا: وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰیo اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیo النجم، 53: 3۔4 ’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتی ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔‘‘ ان آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کرنے کو کسی بھی ذاتی خواہش سے مبرا قرار دیا اور فرمایا کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زبانِ حق ترجمان سے بیان کرتے ہیں وہ وحی الٰہی ہوتا ہے۔ ان پر جو وحی نازل ہوتی ہے اسے وہ من و عن آگے منتقل (communicate) کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام و پیغام پہنچانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کو واسطہ بنایا۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ ھُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ. محمد، 47: 2 ’’اور (جو لوگ) اس (کتاب) پر ایمان لائے جو محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر نازل کی گئی ہے اور وہی ان کے رب کی جانب سے حق ہے اللہ نے ان کے گناہ ان (کے نامۂِ اعمال) سے مٹا دیئے اور ان کا حال سنوار دیا۔‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے لئے ایک معیارِ اِیمان قائم کر دیا وہ یہ کہ جو کچھ اس نے اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا وہی حق ہے اور جو گفتۂِ حق انہوں نے اپنی زبان سے بیان کر دیا ’’وَھُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ‘‘ (وہی ان کے رب کی جانب سے حق ہے) اور حق بات کے سوا اور کچھ نہیں جس پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے کہ زبانِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوائے وحی الٰہی کے اور کوئی بات صادر نہیں ہوئی۔ جس طرح ہدات پانے کے لئے واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضرورت ہے اسی طرح ہدایت پر قائم رہنے اور استقامت حاصل کرنے کے لئے بھی بارگاہِ اُلوہیت میں صرف ایک واسطہ اور ذریعہ ہے اور وہ ہے واسطۂِ رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ آلِ عمران میں ارشاد فرمایا: وَ کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ وَ أَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ اٰیٰتُ اللهِ وَ فِیْکُمْ رَسُوْلُہٗ ط وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللهِ فَقَدْ ھُدِیَ إِلٰی صِرَاطٍ مُّستَقِیْمٍo آل عمران، 3: 101 ’’اور تم(اب) کس طرح کفر کرو گے حالانکہ تم وہ (خوش نصیب) ہو کہ تم پر اللہ کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں اور تم میں (خود) اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) موجود ہیں، اور جو شخص اللہ (کے دامن) کو مضبوط پکڑلیتا ہے تو اسے ضرور سیدھی راہ کی طرف ہدایت کی جاتی ہے۔‘‘ یہ آیتِ کریمہ بھی توسُّط پر دلالت کرتی ہے۔ وَفِیْکُمْ رَسُوْلُہٗ کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسا واسطہ اور ذریعہ ہیں جس کی وجہ سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ لوگوں کو کفر کی تاریکیوں سے نکال کر راہِ ہدایت کی روشنی عطا فرماتا ہے ۔ جبکہ وَ کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ سے مزید وضاحت ہوتی ہے کہ کفر کی طرف پلٹ کرنہ جانا بھی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ اور واسطہ سے ہے۔ یعنی ہدایت بھی اگر ملتی ہے تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اور اس ہدایت پر استقامت بھی اگر ملتی ہے تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ اور وسیلہ سے۔ اللہ تعالیٰ قادر و قیوم ہے۔ وہ براہِ راست ہدایت دے سکتا ہے مگر جب وہ خود فرماتا ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ اور وسیلہ سے ہمیں ہدایت پر قائم رکھے گا تو اس سے ہمارے لئے یہی ثابت ہوا کہ واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہمارے لئے دین و دنیا میں ڈھال ہے۔ دنیا میں کفر کے ارتکاب سے اور آخرت میں عذابِ جہنم سے۔ سورۂ انفال میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فِیْھِمْ ط وَمَا کاَنَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَo الانفال، 8: 33 ’’اور (در حقیقت بات یہ ہے کہ ) اللہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ان پر عذاب فرمائے در آنحالیکہ (اے حبیبِ مکرم!) آپ بھی ان میں (موجود ) ہوں،اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں۔‘‘ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے امت سے عذاب ٹال دینے کی دو وجوہات بیان فرمائیں: سب سے پہلے امت کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی کو عذاب سے ڈھال قرار دیا۔ اس کے بعد اپنے حضور طلبِ مغفرت کو عذاب ٹلنے کا سبب فرمایا۔ بارگاہِ اُلوہیت میں طلبِ مغفرت سے بھی مقدم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ بیان کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جب تک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں ان کے وسیلہ سے امت پہ عذاب نہیں آسکتا۔ بعض لوگ اس سے ظاہری حیاتِ طیبہ مراد لیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ درست نہیں۔ یہاں بالکل ایسی کوئی بات نہیں کہ ظاہری حیاتِ مبارکہ میں تو توسُّل جائز ہو اور بعد از ممات ناجائز ہو جائے بلکہ یہاں مطلقاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی کا ذکر ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت قیامت تک قائم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ اور وسیلہ بھی حیات ظاہری کی طرح اب بھی جائز ہے۔ تمام عباداتِ الہٰیہ کا مقصد حصولِ تقویٰ ہے، جیسے رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیّت کا مقصد بیان فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: یٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo البقرہ، 2: 183 ’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘ لیکن یہ تقویٰ کیسے حاصل ہو؟ انسان کیسے متقی بن سکتا ہے؟ اگر تقویٰ تمام نیکیوں کی اصل ہے تو اس سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ ذہن سے اٹھنے والے ایسے سوالات کا جواب ہمیں قرآن حکیم کی اس ایک آیت سے مل جاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہِٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo الزمر، 39: 33 ’’اور جو شخص سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ ہی تو متقی ہیں۔‘‘ اس آیتِ کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے اکثر مفسرین نے بالاتفاق اَلَّذِیْ سے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی مراد لی ہے۔ یہاں بطورِ استشہاد چند اقوال پیشِ کیے جاتے ہیں۔ 1۔ علامہ ابن کثیرؒ اپنی تفسیر میں ’’وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہِٓ ‘‘ کے تحت مجاہد، قتادہ، ربیع بن انس اور ابنِ زید سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ هو رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم. ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 4: 54 ’’وہ ذات جو صدق لے کر آئی اس سے مراد حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘ 2۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے بھی اسی طرح توضیح فرمائی ہے۔ {وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ} النبی صلی الله علیه وآله وسلم {وَصَدَّقَ بِہٖ} أبو بکر رضی اللہ عنہ. سیوطی، الدر المنثور، 7: 288 ’’یعنی اَلَّذِیْ سے مراد حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صَدَّقَ بہ سے مراد حضرت ابو بکر صدیق ص ہیں۔‘‘ اہلِ علم جانتے ہیں کہ ’’اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ‘‘ کلمۂ حصر ہے، قرآن حکیم تقویٰ کے مفہوم کو متعین کرنے کے بعد ان کلمات کو بطورِ حصر لا کر میعارِ تقویٰ کو واضح کرتے ہوئے یہاں ایک شرط لگارہا ہے، جس کو پورا کئے بغیر کوئی شخص بھی تقویٰ کا دعویدار نہیں ہوسکتا۔ جو اس شرط کو پورا کرے گا وہی متقی ہو گا اور جو اس معیار پر پورا نہ اترے وہ اگر عبادت و ریاضت کے پہاڑ بھی اپنے کندھوں پر اٹھاتا پھرے، متقی نہیں بن سکتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسی شرط ہے جس پر تقویٰ کا انحصار ہے ارشاد فرمایاگیا: اَلَّذیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہِٓ، وہ ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو سچائی لے کرآئی اور جس نے اس سچائی کی تصدیق کی، اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ، وہی متقی ہیں۔ جیسا کہ اوپر تفصیلاً ذکر ہوچکا کہ اس آیت کے پہلے حصے سے مراد تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ’’اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ‘‘ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شامل ہیں کیونکہ نبی خود بدرجہ اولیٰ اپنی نبوت کی تصدیق کرنے والا ہوتا ہے۔ تفاسیر میں اس آیت کے تحت اس کی بھی وضاحت ملتی ہے مثلاً تفسیر روح البیان میں ہے۔ ودَلت الاٰیۃ علی انّ النبیں یصدق أیضاً بما جاء بہٖ من عند اللہ ویتلقاہ بالقبول کما قال اللہ تعالی: ’’اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ۔ (البقرہ، 2: 285) إسماعیل حقی، تفسیر روح البیان، 8: 108 ’’یہ آیتِ کریمہ اس بات کی شاہد ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس حقیقت کی تصدیق کرنے والوں میں سے ہیں، جو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرحمت فرمائی گئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی (دوسروں کی طرح) اس پرایمان لائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’(وہ) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس پر ایمان لائے (یعنی اس کی تصدیق کی) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا۔‘‘ مگر توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متقی کہنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال کا اظہار ہے؟ آیتِ مبارکہ کا مدعا یہاں ہرگز یہ نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذآتِ بابرکات تو متقی گر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو تقویٰ کی دولت تقسیم فرماتے ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقویٰ کی وہ بنیاد لے کر زینت آراء بزمِ کون و مکاں ہوئے جس سے خود تقویٰ کو وجود ملا۔ لہٰذا یہاں بات اُس شخص کی ہورہی ہے جو اس سچائی کو بہ دل و جان تسلیم کرے گا اور اس کی تصدیق کرے گا۔ اب لفظِ صدق پر غور کرنے سے اس شرط کی نوعیت اور ضرورت مزید واضح ہوجائے گی۔ تصدیق عربی لفظ ’’صَدَقَ‘‘ سے باب تفعیل کے وزن پر ہے۔ اس کے معنٰی ’’دل کی گہرائیوں سے کسی چیز کو تسلیم کرلینے اور مان لینے کے ہیں۔ مفردات میں امام راغب ؒ نے صدق کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے: الصِّدْقُ مُطابقۃُ القَوْل الضمیر والمخبرعنہ معاً. ومتٰی انحرم شرط من ذالک لم یکن صِدْقًا تاماً. راغب الأصفهانی، المفردات فی غریب القرآن: 277 ’’صدق کے معنی ہیں دل و زبان کی ہم آہنگی اور بات کا نفسِ واقع کے مطابق ہونا اور اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا۔‘‘ لہٰذا، اس سچائی کو اس حیثیت سے ماننا ہی حقِ تقویٰ ہے۔ بالکل اسی حقیقت کو قرآن حکیم نے ایک دوسرے مقام پر واضح کیا اور تقویٰ کو تصدیق کرنے والوں کے ساتھ مختص کرتے ہوئے فرمایا: اُولٰـئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَاُولٰـئِکَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَo البقرہ، 2: 177 ’’یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔‘‘ توضیحات بالاسے یہ واضح ہوا کہ آیتِ متذکرہ میں اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ جن افراد نے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی سچائی کی بلا تامل تصدیق کردی وہی صحیح معنوں میں متقی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں بزرگی پائے ہوئے ہیں یہی وہ شرط ہے جو تقویٰ کے لئے ضروری ہے۔ معلوم ہوا حصولِ تقویٰ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق اور ان پر ایمان بنیادی چیز ہے۔ تقویٰ کا ماحصل رضائے الہٰی کا حصول ہے اور یہی انسانی زندگی کا نصب العین ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے محبت کے بغیر انسان کو اس کا قرب و رضا میسر نہیں آسکتا۔ قرآن مومنین کی علامت بیان کرتے ہوئے یہ شہادت فراہم کررہا ہے کہ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ. البقرہ، 2: 165 ’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘ لیکن کیا قرآن اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کا طریقہ یا راستہ بھی بتاتا ہے یعنی کوئی آدمی اگر اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہے تو اس کا طریقہ کارکیا ہونا چاہیے؟ قربان جائیں قرآن کی عظمت پر جو قدم قدم پر انسان کی رہنمائی کرتا ہے، فرمایا: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo آلِ عمران، 3: 31 ’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ اس آیتِ کریمہ سے بے شمار مفاہیم اور حکمتیں مترشح ہیں لیکن یہاں سرِدست یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ عبد دیگر عبدہٗ چیزے دگر ما سراپا انتظار او منتظر کیا یہ سب رفعتیں، عظمتیں اور بندہ نوازیاں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حبی تعلق اور توسط کا ثمر نہیں ہیں؟ یقینا ہیں۔ محبتِ الٰہی بندے سے اطاعتِ الٰہی کا تقاضا کرتی ہے۔ تقویٰ کے عمومی تصور کے مطابق اگر دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہی تقویٰ ہے۔ قرآنِ حکیم نے متعدد مقامات پر اطاعتِ الہٰی کی تلقین فرمائی ہے اور اس کو کامیابی کی شرط قرار دیا ہے۔ 1۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا: وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلِ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللهِ. النساء، 4: 64 ’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘ اس آیتِ کریمہ میں رسولوں کی بعثت کا سبب بیان کیا گیا ہے جو سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ تاکہ اللہ کے حکم سے جو کچھ وہ کہیں اسے مانا جائے اور قبول کیا جائے اور ان کی اطاعت کی جائے۔ اس آیتِ کریمہ میں اس تصور کو ذہن میں راسخ کیا گیا ہے کہ نبی اور رسول علیہم السلام ہی اللہ تعالیٰ کی بات انسانوں تک پہنچانے کیلئے درمیانی واسطہ اور ذریعہ مقرر کئے جاتے ہیں۔ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کا حکم اس کے اذن سے لوگوں تک پہنچائیں اور وہ جو کہیں اس کو سچ مانا جائے اور اس پر عمل کیا جائے کیونکہ وہی حق ہے۔ رسولوں کی جماعت اللہ گ کو جاننے، ماننے اور ایمان لانے کا واحد ذریعہ (Source) ہے، گویا توحید اور ایمان باللہ کا تحقق صرف اور صرف نبوت و رسالت کے واسطے سے ہوتا ہے۔ 2۔ ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی واضح الفاظ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو ہی اپنی اطاعت قرار دیا ہے، ارشاد فرمایا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ. النساء، 4: 80 ’’جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔‘‘ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیے جانے کا مقصد یہ بتایا گیا کہ ان کی اطاعت کی جائے اور ان کی بات کو مانا جائے تبھی ایمان نصیب ہوتا ہے۔ اس کے بعد خصوصی طور پر اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی یا جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرے فَقَدْ اَطَاعَ اللہ اس نے گویا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ اس آیتِ مبارکہ نے ایک بڑی قرآنی حقیقت (Quranic fact) کو یہ کہہ کر متحقق کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا بلاواسطہ ذریعہ سوائے واسطۂِ رسالت کے اور کوئی نہیں ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو تو یہ سمجھ کر کیا کرو کہ ہم صرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت نہیں کرتے ، بلکہ یہی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کاتصور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کے بغیر محض ایک مجرد خیال ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم bstract idea) رہ جاتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ ل پیکرِ محسوس نہیں ہے۔ نہ تو اس کی بات کسی کو سنائی دیتی ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کا فعل کسی کو دکھائی دیتا ہے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے اس حکم (اطاعت) پر عمل اسی طرح ہوسکتا ہے کہ بس اسی طرح آنکھیں بند کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و غلامی کی جائے یہ جانتے ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت عین اطاعتِ الٰہی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغاوت و سرکشی اللہگ سے بغاوت و سرکشی ہے۔ حدیثِ صحیح کے الفاظ اس حقیقت کی مکمل ترجمانی کرتے ہیں، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صلی الله علیه وآله وسلم فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ وَمَنْ عَصٰی مُحَمَّدًا صلی الله علیه وآله وسلم فَقَدْ عَصَی اللهَ وَمُحَمَّدٌ فَرْقٌ بَیْنَ النَّاسِ. بخاری، الصحیح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب اقتداء بسنن رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم ، 6: 2655، رقم: 6852 ’’جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی تو بے شک اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نا فرمانی کی تو بے شک اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی (اچھے اور برے) لوگوں کے درمیان معیارِ امتیاز ہے۔‘‘ حکیم الاُمت علامہ محمد اقبال ؒبڑے اچھوتے اور خاص انداز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و پیروی کو ذاتِ الٰہی تک رسائی کاذریعہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: عاشقی! محکم شو اَز تقیلدِ یار تاکمندِ تو شود یزداں شکار (اے خدا سے عشق و محبت کا دعویٰ کرنے والے! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رابطہ و غلامی اور اطاعت کے رشتے میں پختگی پیدا کر، تاکہ ان کی غلامی کے ذریعے تیری کمندِ عشق بارگاہِ خداوندی تک پہنچ سکے۔) قرآنِ مجید میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے وابستگی پر اَجر و ثواب کا ذکر ہوا ہے جبکہ درِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی جبیں ہائے نیاز نہ جھکانے والوں اور بارگاہِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمداً دوری اختیار کرنے والوں کی مذمت میں ارشاد فرمایا گیا: وَاِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللهُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنَافِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًاo النساء، 4: 61 ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیں۔‘‘ یعنی جب لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی اور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبتِ غلامی استوار کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے تو ان میں منافق لوگ بارگاہِ اُلوہیت میں جانے سے تو انکار نہیں کرتے، وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو حق تسلیم کرتے ہیں لیکن ’’یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا‘‘صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آنے سے اعراض اور پس و پیش کرتے ہیں۔ بس اسی وجہ سے ان کے گلے میں منافقت کاطوق پہنادیا گیاہے۔ اس آیت میں مسلمان اور منافق کی پہچان کاکلیہ اور قاعدہ متعیّن فرما دیا۔ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھاگنے والے اگر بارگاہِ اُلوہیت میں جانا چاہیں تو یہ ناممکن ہے کیونکہ: تیرے در سے جو یار پھرتے ہیں در بدر یونہی خوار پھرتے ہیں! لیکن جو شخص حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آجائے وہ خود بخود اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچ جاتا ہے کیونکہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ تو ہے ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ۔ قبل ازیں یہ ذکر ہوچکاہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوق اور خالق کے درمیان واسطۂ عظمیٰ ہیں۔ اس واسطہ سے انحراف برتتے ہوئے ذاتِ خداوندی تک رسائی ہرگز ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے پھرنے والوں کو اسی لیے تو منافق گردانتا ہے کہ وہ اس ذات کے واسطے کو فراموش کرکے اللہ تعالیٰ سے ڈائریکٹ تعلق بحال کرنا چاہتے ہیں۔ جس نے انہیں اللہ تعالیٰ کی خبر دی اور اس کی واحدانیت اور شانِ خالقیت سے متعارف کرایا اس کے ساتھ تعلق قائم کرنا اگر توحید کے منافی ہے تو پھر ایسے لوگوں کو اپنے ایمان اور اسلام کی فکر کرنی چاہیئے۔ اللہ رب العزت ان کے اس زعمِ باطل کو رد کردیا کہ نہیں محبوب! جو تیری بارگاہ میں جھکنے سے گریزاں ہے وہ میری بارگاہ میں روزانہ سجدے کرتا پھرے، ساری ساری رات عبادت کرتا رہے اور شب و روز ریاضتیں، مجاہدے اور تسبیحات کرتا رہے اور پوری زندگی دین کے نام پر ختم کردے، اس کا وہ دین دین نہیں جس میں تیری نسبت و تعلق اور واسطے کاسبق نہ ہو۔ ان کی عبادتیں عبادت نہیں جو تیری محبت سے خالی ہوں۔ اور اس کی ان شب بیداریوں کا کوئی فائدہ نہیں جو تیری یاد میں آنکھوں کو اشکوں سے باوضو نہ رکھیں۔ یعنی جب تک وہ تیری بارگاہ میں سرِ تسلیم خم نہیں کرتے، ان کا شجرِ ایمان بے ثمر رہے گا۔ ان کی نیکیوں کی قیمت بھی تیری غلامی کی تصدیق سے پڑے گی۔ یہاں تک کہ وہ اگر اپنے گناہوںکی معافی بھی براہِ راست مجھ سے مانگیں گے تو اس وقت تک انہیں نہیں بخشوں گا، جب تک وہ تجھ سے غلامی کا رشتہ استوار نہ کرلیں۔ اس کی گواہی قرآن دے رہا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا: وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْآ اَنْفُسَھُمْ جَآئُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًاo النساء، 4: 64 ’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مومنوں کو ان کے گناہوں اور لغزشوں کی مغفرت کے لئے بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑنے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واسطہ بنانے کا حکم دیا ہے۔ مذکورہ آیتِ کریمہ میں لفظ ’’جَآئُ وْ کَ‘‘ کے ذریعے یہ واضح کردیا گیا کہ بارگاہِ ِرِسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت تک لائقِ تعظیم و تکریم ہے۔ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے خطاکاروں کو آج بھی معافی اسی در سے تعلق اور واسطہ استوار کرنے سے ملتی ہے۔ بشرطیکہ وہ اس کایقین رکھتے ہوں۔ جو بھی دامنِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوگا، خواہ وہ ظاہراً بارگاۂِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاضری میں ہو یا باطناً، محبت و عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ، یااطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے توسلاً اور توجہاً، سب صورتیں ’’جائُ وْ ک‘‘ کے تحت واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعبیریں ہیں کیونکہ یہ گھر یہ دَر ہے اس کا جو گھر در سے پاک ہے مژدہ ہو بے گھرو کہ صلا اچھے گھر کی ہے! مجرم بلائے، آتے ہیں ’’جاَئُوْ کَ‘‘ ہے گواہ پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے یہ آیتِ کریمہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری تک محدود نہیں بلکہ بعد از وصال بھی اس کا حکم اسی طرح باقی ہے جس طرح ظاہری حیاتِ طیبہ میں تھا۔ مفسرینِ کرام اور ائمہ حدیث نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔(اس کی تفصیل ہماری کتاب عقیدۂ توسّل میں ملاحظہ کریں۔) یاد رہے کہ اس آیتِ کریمہ میں ظلم سے مراد گناہ، نافرمانی اور اللہ تعالیٰ سے سرکشی ہے۔ ظاہر ہے یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کاباعث ہیں گویا مرادی معنی یہ ہوا کہ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کو ناراض کردیں تو معافی کے لئے تیرے پاس آئیں۔یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ جس کو ناراض کیاگیا اب راضی کرنے بھی اس کی بارگاہ میں جانا چاہیے مثلاً اگر کوئی زید کو ناراض کردے اور معافی مانگنے کے لئے بکر کے پاس چلا جائے تو کیا زید اس کو معاف کردے گا؟ ہر گز نہیں۔ لیکن اُس دنیائے محبت کے تواصول و قواعدی ہی نرالے ہیں فرمایا: ’’جَائُ وْ کَ ‘‘محبوب !اگر وہ مجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش کے طلب گارہیں تو تیرے پاس آئیں اور پھر فرمایا: فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ جب آجائیں تو پھر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ یہاں کوئی سوچ سکتا تھا کہ باری تعالیٰ اگر معافی ہی لینی تھی تو وہ گھر بھی مانگی جاسکتی تھی۔ وہ کسی مسجد میں بھی تجھ سے طلب کی جاسکتی تھی، بلکہ خانہ کعبہ اور مسجدِ حرام سے بڑھ کر اور کون سا مقام ہوگا۔ لیکن تو نے اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پابندی کیوں لگائی؟ حالانکہ تو تو ہر جگہ اپنے بندوں کی دعا سنتا ہے کیونکہ تو نے خود ہی تو فرمایا ہے: وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَo البقرہ، 2: 186 ’’اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہئے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں تاکہ وہ راہِ (مراد) پاجائیں۔‘‘ پھر تیرا یہ بھی فرمان ہے کہ: وَ نَحْنُ اَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِo ق، 50: 16 ’’ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘ اس کے باوجود معافی کے لئے گناہگاروں کو اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دَر پر کیوں بلاتا ہے؟ تو فرمایا تمہیں یہی سبق سکھانا مطلوب تھا کہ: بخدا خدا کا یہی ہے دَر، نہیں اور کوئی مفر مقر! جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں Book Sponsorship Scheme: the Best Sadaqa-e-Jaria Please pay 50 euro for annual sponsorship of this book. Copyrights © 2022 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved
مضمون: میں نے ایک اسلامی کیسٹ ہاؤس سے کچھ ڈپلی کیٹ (کاپی شدہ) سی ڈی ڈیکس خریدے ، لیکن بخدا درحقیقت ہمیں اس کے اصل کیسٹ ہاؤس کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے، بہرکیف جب میں یہ سی ڈیز گھر لے آیا اور میں نے ان میں سے کسی ایک سی ڈی کو ڈاؤن لوڈ کرنے کا ارادہ کیا جس میں اپ لوڈنگ سے پہلے میں نے یہ مختصر پیغام پایا جس میں یہ کہا جارہا تھا: ’’اللہ کی قسم میں اصل کاپی استعمال کر رہا ہوں اور اللہ تعالیٰ میری اس بات پر گواہ ہے‘‘۔ جب میں نے یہ پیغام سنا تو اس کے بعد میں وہ سافٹ وئیر ڈاؤن لوڈ نہیں کرسکا، لہٰذا اب میں اس سی ڈی ڈیسک کا کیا کروں؟ حكم استخدام أقراص الحاسب المنسوخة
المقال: يعد جيش الإسلام أحد أكبر الفصائل السورية المسلحة المعارضة الهادفة إلى إقامة دولة خلافة إسلامية. تدعم السعودية الجيش عسكريا وسياسيا وتعتبره مع حلفائها أحد التنظيمات المعتدلة. أما روسيا وحلفائها فتنظر إليه كتنظيم إرهابي. تشكل جيش الإسلام من أكثر من 55 فصيلا مسلحا في ريف دمشق الشرقي انطلاقا من مدينة دوما القريبة من العاصمة السورية. وتنتمي غالبية فصائل جيش الإسلام بالأصل إلى الجيش السوري الحر. شارك جيش الإسلام حسب قائده السلفي السابق زهران علوش في معارك كثيرة إلى جانب تنظيمات أخرى مسلحة بينها جبهة النصرة، أحد فروع تنظيم القاعدة الإرهابي. تعد مدينة دوما المعقل الرئيسي للجيش الذي يتواجد أيضا إلى جانب فصائل المعارضة المسلحة الأخرى في مناطق أخرى.
مضمون: دو امریکی طیاروں میں بم کی اطلاع غلط ثابت ہوئی امریکی پولیس نے ان دو طیاروں کو تلاشی کے بعد محفوظ قرار دیا ہے جنھیں بم کی موجودگی کی اطلاعات پر امریکی ریاست جورجیا میں اٹلانٹا کے ہوائی اڈے پر اتارا گیا تھا۔ ہوائی اڈے کے ترجمان ریس میکرین کا کہنا ہے سنیچر کو پورٹ لینڈ اور ملواکی سے آنے والی امریکی فضائی کمپنیوں ڈیلٹا اور ساؤتھ ویسٹ کی دو پروازوں کے بارے میں دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ دونوں طیاروں نے محفوظ طریقے سے لینڈنگ کی اور مسافروں کو بحفاظت طیاروں سے نکال لیا گیا ہے۔ بم کی اطلاعات ملنے کے بعد ان مسافر طیاروں کو امریکی فضائیہ کے دو جنگی طیاروں کی زیرِ نگرانی اٹلانٹا کے ہارٹسفیلڈ - جیکسن ہوائی اڈے تک لایا گیا۔ حکام کے مطابق ان طیاروں کی تلاشی کے عمل میں پولیس کو بم ڈسپوزل سکواڈ اور دھماکہ خیز مواد سونگھنے کی صلاحیت رکھنے والے کتوں کی مدد حاصل رہی۔ طیاروں میں بم کی دھمکی انٹرنیٹ پر دی گئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق دھمکی دینے والے نے اس کے لی مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر کو استعمال کیا۔ یہ اس ہفتے میں امریکہ میں طیاروں میں بم کی دھمکی کا پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل پیر کو نیویارک کے جان ایف کینیڈی ہوائی اڈے پر بھی ایک طیارے میں بم کی موجودگی کی اطلاع سامنے آئی تھی جو غلط ثابت ہوئی تھی۔
مضمون: "دن بھر کرونا پازیٹیوں مریضوں کو اسپتال شفٹ کرتا رہتا۔ رات کو گھر جاتا تو والدین کو کہتا کہ میری ڈیوٹی نہیں تھی آج باقی دوست ڈیوٹی پر تھے، بچوں سے بھی ڈر ڈر کر ملتا تھا لیکن وباء کے دوران تب چھٹی کی جب خود کرونا سے متاثر ہوا”۔ جتنے لوگ کرونا سے ڈرتے تھے اتنے ہم سے بھی ڈرتے تھے کیونکہ ہم ہی وہ لوگ تھے جنکے ذمہ دور دراز علاقوں سے لوگوں کو اسپتال شفٹ کرنا اور وائرس سے انتقال کرنے والوں کی لاشیں آبائی علاقوں میں پہنچانا تھا۔ یہ کہانی ریسکیو 1122 میں ایمرجنسی میڈیکل ٹیکنیشن کی زمہ داریاں نبھانے والے ظاہر شاہ کی ہے۔ ظاہر شاہ ریسکیو 1122کے ان بانی اہلکاروں میں سے ایک ہے جنہوں نے 2010 سے پشاور کے ہر چھوٹے بڑے واقعے کو قریب سے دیکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ دس سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ ہماری گاڑیاں دیکھ کر ہم سے دور بھاگنے لگتے تھے۔ وباء کے ابتدائی ایام میں سب ایک دوسرے سے ڈر رہے تھے لوگ کرونا کے مریضوں اور اس وائرس سے مرنے والوں کے لاشوں کے قریب بھی جانا نہیں چاہتے تھے۔ اپنے اوپر گزرنے والے حالات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ "ایک دفعہ اطلاع ملی کہ افغان کالونی میں کرونا پازیٹیو مریض ہے۔ موقع پر پہنچے تو جتنے بھی لوگ اس گھر کے آس پاس جمع ہوگئے تھے سب ادھر ادھر بھاگ گئے۔ خوف اتنا تھا کہ لوگ سمجھتے تھے یہ لوگ ہر وقت ان مریضوں کے ساتھ رہتے ہیں کہی ان سے ہمیں کرونا نہ لگیں”۔ باہر کے لوگ تو دور کی بات اپنے بھی ہاتھ ملانے کو تیار نہیں تھے۔ سترہ مارچ سے چھ دسمبر تک ریسکیو 1122 کے اہلکاروں نے خیبر پختوںخوا کے بائیس اضلاع میں دو ہزار 400 سے زائد مریضوں کو مختلف اسپتالوں یا کورنٹائن سنٹروں کو منتقل کئے ہیں۔ ان میں کرونا پازیٹیو اور مشکوک مریض شامل تھے جبکہ بعض مریضوں کو دیگر صوبوں کو بھی منتقل کئے ہیں۔ وباء کے پہلے چار ماہ میں اسپتالوں میں کرونا وائرس سے انتقال کرنے والوں کی لاشیں منتقل کرنے کی زمہ داری بھی ریسکیو کی تھی اور زیادہ تر لاشیں تمام تر ایس او پیز کے تحت منتقل کئے گئے۔ بعد میں جب خوف کم ہونے لگا تو ایدھی اور دوسرے ایمبولینسز نے بھی مریضوں کو منتقل کرنا شروع کیا۔ ریسکیو 1122 کا قیام 2010 میں ہوا تھا۔ تب سے پشاور سمیت دیگر شہروں میں ہر قسم کی ایمرجنسی میں ریسکیو کے اہلکار پیش ہیں۔ وباء کے دوران نو ماہ میں ریسکیو اہلکاروں 703 مریضوں کو پولیس سروسز اسپتال پشاور پہنچائے۔ یہ صوبے کا پہلا اسپتال تھا جو کرونا کیلئے مختص کیا گیا تھا۔ چترال میں 333، خیبر میں 195، نوشہرہ میں 165 مشکوک اور کنفرم کرونا مریضوں کو ریسکیو اہکاروں نے اسپتال منتقل کیا۔ صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی ریسکیو اہکاروں نے سینکڑوں کرونا متاثرین کو کورنٹائن سنٹرز یا اسپتال پہنچانے میں مدد کی۔ ریسکیو 1122 اس وقت خیبر پختوںخوا کے 22 اضلاع میں کام کررہی ہے۔ ظاہر شاہ کہتے ہیں کہ انہوں نے پشاور میں بڑے بڑے سانحوں کے دوران ڈیوٹی سرانجام دی ہے شائد یہی وجہ تھی کہ کرونا وبا کے دوران پر عزم رہا اور کسی قسم کے خوف کا شکار نہیں ہوئے۔ ہمیں اکثر کالیں آتی ہیں کہ اگ لگی، گھر کی چھت گرگئی ہے یا ایکسیڈنٹ ہوا ہے لیکن وبا کے دوران اس قسم کے کالز بھی سننے کو ملے، پڑوس میں ایک شخص باہر سے ایا ہے پہنچ جاو۔ پہلے جب باہر سے کوئی بندہ ملک کو واپس آتا تو دوست اور رشتہ دار ملنے جاتے تھے لیکن کرونا وباء کے ابتدائی دنوں میں لوگ ہمیں کال کرتے کہ اس کے پڑوس میں بندہ باہر سے آیا ہے آکر چیک کرلیں۔ اگر چہ یہ کام ضلعی انتظامیہ کا تھا۔ ریسکیو 1122 میں بطور ایمبولینس ڈرائیور کام کرنے والے ریاض خان کہتے ہیں کہ انہوں ایک ایک ایمبولینس میں پانچ پانچ لاشیں اسپتال منتقل کئے تھے لیکن اتنا خوف نہیں تھا جو کرونا میں دیکھا ہے۔ ڈیوٹی سے واپس گھر جاتے تو ڈرتے تھے کہ کہی وائرس گھر والوں کو منتقل نہ ہوجائے۔ بعض علاقوں میں لوگ ریسکیو اپریشن سے اتنے ڈر جاتے کہ لاشیں ہمیں خود دفنانا پڑتا۔ فقیر اباد کے رہائشی اسد علی شاہ کہتے ہیں کہ اپریل میں جہاں پورے شہر میں لاک ڈاون نافظ تھا ہر طرف خاموشی تھی اسپتال ویران پڑے تھے۔ اسی دوران انکی طبیعت خراب ہوگئی۔ کرونا ٹیسٹ کیلئے سواب دیکر واپس گھر میں خود کو قرنطینہ کیا۔ لیکن جب تیسرے دن رزلٹ آیا تو گھر میں کہرام مچ گیا۔ کیونکہ سب کو پتہ چلا کہ وہ کرونا پازیٹیو تھا قریبی عزیز بھی دور ہونے لگے اور مجھے ایسا لگا کہ اب اس وائرس سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں۔ شام تک سانس لینے کا مسلئہ شروع ہو تو ریسکیو کو کال کرکے بلایا۔ دس منٹ بعد 1122 کی گاڑی گھر کےسامنے کھڑی تھی۔ اہلکاروں نے مجھے تسلی دی۔ ہاتھوں میں اٹھا کر ایمبولینس میں لیٹا دیا اور اکسیجن ماسک لگا کراسپتال منتقل کیاگیا۔ اسد کہتے ہیں ریسکیو اہلکار نہ ہوتے تو اب زندہ نہیں رہتے کیونکہ اس وقت گھر میں جو ماحول پیدا ہوگئی تھی اس سے اگر سانس کا مسلئہ نہ ہوتا تو ہارٹ اٹیک ضرور ہوتا۔ ریسکیو مڈیکل ٹیکنشن ظاہر شاہ کی خدمات صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت نے بھی سراہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے انہیں اسلام اباد بلا کر انہیں کرونا بیسٹ پرفارمر ایوارڈ سے نوازاہ۔ کرونا وبا کے دوران خیبر پختونخوا میں ریسکیو 1122 کے پچاس سے زائد افراد وائرس کے شکار ہوگئے۔ جو کے اب صحت یاب ہوچکے ہیں۔ ان متاثرہ افراد میں ڈرائورز، میڈیکل ٹیکنیشنز سمیت دیگر ملازمین شامل تھے۔
المقال: نشرت عضو مجلس نوّاب الشّعب عن حركة نداء تونس ابتسام الجبابلي تدوينة على صفحتها بالفايسبوك دعت فيها إلى مراجعة السياسة الجزائية خاصة في ما يتعلّق بالعقوبات السّالبة للحريّة. وفي ما يلي نصّ التّدوينة: "السجين يكلف الدولة 32 دينار يوميا بعض الجرائم يمكن ان تطبق عليها العقوبات البديلة الشباب يمثلون اكبر نسبة من المودعين في السجون الى متى ... السياسة الجزائية لا بد من مراجعتها خصوصا فيما يتعلق بالعقوبات السالبة للحرية.
مضمون: ایجنڈہ “اکھنڈ بھارت”، پاک فوج کو آپ کی مدد چاہیے انڈیا نے نئی دھکی دی ہے کہ 2025 تک پاکستان کو بھارت کا حصہ بنادیا جائے گا. مودی کی حامی ہندو دہشتگرد تنظیم RSS کے سینیئر رہنماء “اندریش کمار” نے بھونکتے ہوئے کہا ہے کہ سنہ 2025 کے بعد پاکستان بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ پلان سمجھاتے ہوئے ہندؤں کو اس نے کہا؛ “آپ لکھ لیجیے کہ آپ پانچ سات سال بعد کراچی، لاہور، راولپنڈی اور سیالکوٹ میں کہیں بھی مکان خریدیں گے اور آپ کو تجارت کا موقع حاصل ہوگا۔” مزید بھونکتے ہوئے کہا؛ مودی نے پہلی بار کشمیر پر سخت موقف اپنایا ہے۔ کیونکہ فوج پولٹیكل ول پاور (سیاسی عزم) پر عمل کرتی ہے لہذا ہم یہ خواب لیکر بیٹھے ہیں کہ لاہور جا کر بیٹھیں گے اور کیلاش مان سروور جانے کے لیے چین سے اجازت نہیں لینی پڑے گی۔ ڈھاکہ میں ہم نے اپنے ہاتھ کی حکومت بنا چکے ہیں ۔ اب امید ہے ‘اکھنڈ بھارت’ کا خواب 2025 تک پورا ہوجائےگا. قارئین کیا آپ جانتے ہیں “اکھنڈ بھارت” کا مطلب کیا ہے؟ اکھنڈ بھارت کا مطلب ہے کہ “ہندوتوا پروجیکٹ” کے تحت نہ صرف پاکستان کو بلکہ نیپال کو بھارت کا حصہ بنایا جائےگا. پیارے پاکستانیوں ! اب بات مکمل واضع ہوچکی ہے کہ بھارت آنے والے وقت میں کیا کرنے والا ہے. ایک طرف 2025 تک پاکستان کو بھارت کا حصہ بنانے کے اعلان کیے جارہے ہیں تو دوسری طرف مودی اور اجیت ڈوول نے اس پر عملی کام بھیشروع کردیا ہے. اس مقصد کیلیے سوشل میڈیا اور گراونڈ لیول پر بھارت تیزی سے کام کرتا نظر آرہا ہے. بھارتی اور اسرائیلی سوشل میڈیا مسلسل “ڈس انفارمیشن وار” میں ناکامی کے بعد یہی کہتا نظر آرہا ہے کہ اب سندھی، بلوچوں اور پشتونوں کو فنڈنگ کرکے انہیں پاکستان کے خلاف بغاوت پر اکسانے کا کام تیز کیا جائے…. اب بلکل ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے. مودی کے اس ایجنڈے کے بعد PTM کا “محسن داوڑ” لنڈن میں بھارتی ہندؤں اور RAW ایجنٹوں کے ساتھ فنڈ ریزنگ اور خفیہ میٹنگز کرتا نظر آرہا ہے جبکہ “علی وزیر” افغان خفیہ ایجنسی NDS سے مشاورت کرنے افغانستان یاترا کرچکا ہے. بلوچوں کو دوبارہ مسلح بغاوت پر اکسانے کیلیے را کے خفیہ ایجنٹ دوبارہ سرگرم ہوچکے ہیں جن پر ہماری ایجنسی کی گہری نظر ہے یہ سب جلد ہی کلبھوشن کی طرح پکڑے جائین گے . بلوچستان کی عوام اور سردار اب ہندوستانی RAW کے جال میں کبھی نہیں پھنسیں گے کیونکہ اب پورا بلوچستان پاکستان سے شدید محبت کرتا ہے. باقی رہا سندھو دیش تو اس ایجنڈے پر گامزن تحریکوں کو میں خود دیکھ لوں گا. آپ کس طرح مدد کرسکتے ہیں؟ آپ سوشل میڈیا پر افواج مخالف یا ISI مخالفت میں کی گئی کسی بھی پوسٹ کو شیئر مت کریں کیونکہ دشمن اب گھناؤنا پروپیگنڈہ کرنے والا ہے، بلوچوں، سندھیوں اور پشتونوں کے ساتھ زیادتی کا واویلا جعلی تصاویر سے ہندو بنیا پہلے بھی کرچکا ہے جس میں انسے منہ کی کھانی پڑی تھی. حال ہی میں بھارتی میجر پونیا بلوچوں کے نام پر پروپیگنڈہ کرتے ہوئے اتنا اندھا ہوگیا کہ غلطی سے ہمارے SSG کمانڈوز کی ٹرینگ وڈیو یہ کہہ کر شیئر کردی کہ دیکھو پاک فوج بلوچوں پر ظلم کر رہی ہے. اس بارے چند دن پہلے میں نے پوسٹ بھی لگائی تھی جسکے بعد اس میجر پر پوری دنیا ہنسنے لگی ہے. پیارے پاکستانیوں! ایسے کئی جعلی وڈیوز اور تصاویر منظور پشتین بھی اپنی تحریک کے آغاز مین خوب شیئر کرچکا اور کروا چکا تھا. جس میں پاکستانیوں نے اسے بھی ہر جگہ ننگا کرسیا. اب آپ نے کرنا یہ ہے کہ ایسی کسی بھی تصویر یا وڈیو کو شیئر نہیں کرنا ہے بلکہ جہاں بھی افواج مخالف یا ریاست مخالف کوئی پوسٹ نظر آئی تو آپ نے بطور سوشل میڈیا سپاہی بن کر اپنی دھرتی کا قرض چکانا ہے اور اس پوسٹ پر جاکر جوابی حملے کرکے دشمنوں کی کتے والی کرنی ہے. یاد رکھیں یہ “ففتھ جنریشن وار” ہے. یہ جنگ بارڈر کے بجائے فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب پر لڑی جاتی ہے. ہمیں دشمن کے ایسے ہر پروپیگنڈہ کا منہ توڑ جواب دینے کیلیے خود کو ہر وقت تیار رکھنا ہوگا. بھارتی بنیا اپنی زمینی فوج، ایئرفورس اور نیوی کے زریعے حملے کی کوششوں میں پہلے ہی ناکام ہوچکا ہے اسلیے اب اسکے پاس صرف بغاوت کروانے کا ہی آپشن بچا ہے. اب ہندو بنیا PTM، BLA اور سندھو دیش وغیرہ جیسی دہشتگرد و پراکسی تنظیموں کے زریعے پاکستان میں اندرونی بغاوتیں شروع کرنے پر تیزی سے کام کرتا نظر آرہا ہے. اس مقصد کے لیے بنیا سوشل میڈیا پر “پروپیگنڈہ وار” شروع کرچکا ہے جسے ہم “ففتھ جنریشن وار” یا ” ڈس انفارمیشن وار” بھی کہتے ہیں. یہ جنگ بارڈر پر بندوقوں کے بجائے سوشل میڈیا پر موبائل اور لیپ ٹاپ کے زریعے لڑی جاتی ہے. اس قسم کی جنگ کا مقابلا پاک فوج اکیلے نہیں کرسکتی. اس کام میں افواج کو آپکی مدد چاہیے تاکہ ڈس انفارمیشن میں بھی ہندو بنیے کو ناکوں چنے چبوائے جاسکیں. تحریر : یاسررسول نوٹ : اپنے اکاونٹ کو اپنا جنگی مورچہ بنالیجیے. آپ کی تحاریر دشمن پر میزائل گرانے سے کم نہیں. اپنی وال ہر زیادہ سے زیادہ لکھیے اور جہاں دشمن پروہیگنڈہ کرکے وہاں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر جوابی حملہ شروع کردیں. کیا آپ تیار ہیں ؟
مضمون: امریکہ کے فورڈ فاؤنڈیشن اور اینڈریو ڈبلیو میلن فاؤنڈیشن کی جانب سے دی جانے والی مالی امداد سے لاطینی امریکہ کے خاندانی پسہائے منظر کے حامل 15 امریکی فنکار اپنے فن کو فروغ دے سکیں گے۔ اٹھارہ انیس برس کے ٹکنالوجی کے شوقین اس طالبعلم کے بارے میں جانیے جو"دنیا کے سلاد کے پیالہ" کہلانے والے علاقے کے کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے بچوں کو کمپیوٹر ٹکنالوجی بالخصوص کوڈنگ سے متعارف کرا رہا ہے۔ ویسٹ پوائنٹ فوجی اکیڈمی بفلو سولجرز رجمنٹ کے اُن فوجیوں کو خراج تحسین پیش کر رہی ہے جنہوں نے اکیڈمی کے کیڈٹوں کو گھڑسواری سکھائی۔ ایک نئی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں منتخب ہونے والے ایل جی بی ٹی کیو آئی+ عہدیداروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اُن کے قومی، ریاستی اور مقامی حکومتوں میں کردار بھی بڑھ رہے ہیں۔ نیویارک کے علاقے میں جگہوں کے نام آبائی امریکی ناموں اور تارکین وطن کی زبانوں سے متاثر ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ مزید جاننے کے لیے یہ مضمون پڑھیے۔ 4 ستمبر 1907 ریاست واشنگٹن کے شہر بیلنگہیم میں نسلی عدم برداشت کے حوالے سے ایک سیاہ دن تھا۔ اب یہ شہر اپنے ماضی سے نمٹ رہا ہے۔ امریکی فٹبال کے این ایف ایل ٹورنامنٹ کے سال 2021 کے سیزن میں خواتین کوچز سب سے زیادہ تعداد میں شامل ہوں گیں۔ جانیے کہ این ایف ایل عورتوں کے کرداروں میں کیسے اضافہ کر رہی ہے۔ امریکہ اور کینیڈا کی مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن، طلبا اور طالبات کو امریکی اور کینیڈین یونیورسٹیوں کے کیمپس میں اکٹھا کرنے میں مدد کرتی ہے۔ مزید تفصیلات اس مضمون سے جانیے۔ افریقی النسل لوگوں کے اقوام متحدہ کے پہلے عالمی دن کے موقع پر اُن چھ افراد کے بارے میں جانیے جن کے آبا و اجداد کا تعلق افریقہ سے تھا۔
مضمون: ماہ مبارک رمضان میں خودسازی کی طرف توجہ - تاریخ 20 August 2017 - ٹائم 01:07 - پرنٹ خبر کا خلاصہ :ماہ مبارک رمضان کی فرصت سے خوب استفادہ کرنے اور اس ماہ میں تزکیہ و تہذیب نفس کی طرف توجہ دینے کے بارے میں حضرت آيت الله فاضل لنکراني(دامت برکاته)کے بیانات بسم الله الرّحمن الرّحيم ماہ مبارک رمضان شروع ہو رہا ہے اس بارے میں میں اپنے آپ سےاور آپ تمام سے جس مطلب کی یاد دہانی کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ اس سوچناچاہئے کہ شاید یہ ماہ رمضان میری عمر کی آخری ماہ رمضان ہو ، اگر انسان یہ نہ سوچےتو وہ تزکیہ کے مراحل کو طے نہیں کرسکتا ،ہماری ہمیشہ کی دعا یہی ہونی چاہئے کہ اسماہ مبارک رمضان کو ہماری عمر کے آخری ماہ رمضان قرار نہ دیں ۔ اگر ہم یہی سوچیں کہ یہ میری عمر کی آخری بار ہے جس میں خدا نےمجھے اپنی مہمانی میں دعوت دی ہے ، اور اس کے بعد نفسانی رذايل اور اجتماعی اورمالی مشکلات سے نجات کا کوئی اور راستہ نہیں ہے اب سب راستے بند ہو چکے ہیں ، نجاتکا واحد راستہ ماہ رمضان اور شب قدر ہے ، اگر ہم اس پر یقین کر ليں تو ایک خاص لذتکے ساتھ خدا کے دسترخوان پر بیٹھیں گے اور ایک خاص لذت کے ساتھ روزہ رکھیں گے ۔ اگر کوئی ماہ مبارک رمضان کے آنے پر سستیکا احساس کرے ، تو اسے جان لینا چاہئے کہ اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی مشکل ہے ، جس کےلئے کوئی مشکل نہیں وہ تو ماہ رمضان کے استقبال کے لئے جاتا ہے اور رمضان کے آنےسے خوشحال ہوتا ہے ، اگر ہم اپنے اندرایسی خوشی کا احساس نہیں کرتے ہیں تو اسے ایجاد کرنی چاہئے ، ہم سب کو متوجہ ہوناچاہئے کہ خداوند متعالی ہمیشہ اپنے بندوں پر لطف کرتا ہے لیکن ماہ رمضان میں کچھخاص قسم کے الطاف ہیں ، اگرچہ خود میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ خدا ہمیشہ اپنے بندوں پرخاص لطف اور عنایت کرتا ہے ، اگرچہ انسان ان گناہوں ، غفلت اور بے حسی کی وجہ سے اس خصوصیعنایت کا قابل نہیں ہے ماہ رمضان میں خداوند متعالی فرماتا ہے میں رحمت کے تمامدروازوں کو کھول لیتا ہوں۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ماہ رمضان میں جہنمکے تمام دروازے بند کر دیتے ہیں اور بہشت کے تمام دروازے کھول دیتا ہے ، اس کامطلبیہ ہے کہ خداوند ان تمام عنایتوں جن کا انسان تصور کرتا ہے اسے انسان کے لئے عنایتکرتا ہے لیکن ہم سب اس سے بے خبر ہیں ، خدا سے تقرب پیدا کرنے کا دوازہ ہمیشہ کےلئے کھلا ہے اور ایک بے نہایت دروازہ ہے ، ہمیں توجہ کرنا چاہئے اور ہمیشہ غور وفکر کرنا چاہئے ، اپنے آپ پر خاموشی کی حالت پیدا کرے کہ یہ خاموشی حقایق نظر آنےکا راستہ ہے ۔ جو شخص دنیوی کاموں کے بارے میں ایکگھنٹہ بات کرتا ہے اس میں یہ قابلیت نہیں ہے کہ وہ حقایق کو دیکھ سکیں ، آئیں ہماپنے نفس کو ریاضت کا عادی بنائيں !انبیہودہ باتوں کو نہ بولا کریں ، مثلا فلان شخص کل کہاں تھا اور آج کہاں ہے اور اسیطرح کی دوسری چيزیں ؟!ہم اپنے ذہن اور نفس کو کرامت انسانی کا محل قرار دیں ، اچھےاخلاق دنیا اور آخرت میں نجات کا سبب ہوتا ہے لہذا ہمیں ہمیشہ خدا سے مدد طلب کرنی چاہئے ۔ تا کہ ہم اس ماہ مبارک میں زیادہ سےزیادہ قرآن کریم سے آشنا ہو جائے ، ماہ رمضان کی حقیقت ، حقیقت قرآن ہے ، ایساہونا چاہئے کہ ماہ مبارک رمضان کے بعد انسان اپنے اندر پاکی اور طہارت کا احساس کرے، مثلا ماہ رمضان سے پہلے دوسروں کی غیبت اور مذاق اڑانے کا عادی تھا اور یہ چیزیں اسے پسند تھا لیکن اسماہ کے بعد اب یہ چیزیں اسے ناپسند ہونا چاہئے ، ماہ رمضان کے بعد انسان اپنی کمزوری کو جانلیں اور اس کا یقین پہلے سے زیادہ ہو جائے ، یقین کرے کہ خداوند متعالی قادر مطلقہے ، ساری چیزیں اسی کے ہاتھ میں ہے وہ قادر مطلق ہے اور میں سراسر محتاجمند ہوں ،ان چيزوں کے بارے میں انسان یقین پیدا کرے ان شاء اللہ ۱۴۰ قارئين کی تعداد:هم رسانی
مضمون: میّت کی جنازہ نماز اور تدفین میں تاخیر سوال:- اگر کسی غیر ملکی شخص کا انتقال ہو جاوے اور اس کے اہل خانہ (جو اس کے ملک میں مقیم ہیں) اس کی لاش کا مطالبہ کریں، تو کیا ہمارے لئے اس کی لاش کو ان کی طرف بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟ دوسری بات یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہمارے ملک کا قانون یہ ہے کہ اگر ہم کسی کی لاش کو دوسرے ملک بھیجنا چاہیں، تو بھیجنے سے پہلے ضروری ہے کہ میّت کی رگوں میں کیمیکل داخل کیا جائے؛ تاکہ لاش بگڑ جانے اور سڑ جانے سے محفوظ رہے، تو کیا شریعت کی رو سے اس ملکی قانون پر عمل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جواب:- شریعت کا حکم یہ ہے کہ جب کسی شخص کا انتقال ہو جائے، تو جتنی جلدی ہو سکے اس کی تجہیز وتکفین کی جائے اور اس میں تاخیر نہ کی جائے۔ میّت کی تجہیز وتکفین میں تاخیر کرنا خلاف سنّت ہے اور ناجائز ہے۔ فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ افضل یہ ہے کہ میّت کو اسی جگہ دفن کیا جائے جہاں اس کا انتقال ہوا ہے۔ اگر لاش کو کسی جگہ پر منتقل کرنا ہو، تو دیکھا جائے کہ لاش منتقل کرنے میں لاش کے بگڑ جانے اور سڑ جانے کا اندیشہ ہے یا نہیں۔ اگر کسی دور جگہ کی طرف لاش کو منتقل کیا جائے اور اس میں لاش کے بگڑ جانے اور سڑ جانے کا اندیشہ ہے، تو اس جگہ کی طرف منتقل کرنا جائز نہیں ہو گا اور اگر وہ جگہ زیادہ دور نہ ہو اور لاش کے بگڑ جانے اور سڑ جانے کا اندیشہ نہ ہو، تو لاش کو منتقل کرنا جائز ہوگا۔ البتہ میّت کی رگوں میں کیمیکل داخل کرنے کے بارے میں، تو شریعت کے رو سے یہ عمل خلاف سنّت ہے اور جائز نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس صورت میں میّت کو اسی جگہ (اسی ملک) میں دفن کیا جائے جہاں اس کا انتقال ہوا ہو۔ سوال:- اگر کسی غیر ملکی شخص کا انتقال ہو جائے اور اس کے اہل خانہ (جو اس کے وطن میں مقیم ہیں) مطالبہ کریں کہ اس کی لاش اس کے ملک بھیجی جائے، تو کیا ایسی صورت میں لاش کو بیرون ملک بھیجنے سے پہلے ضروری ہے کہ میّت کو غسل دیا جائے، کفن پہنایا جائے اور اس کی جنازہ نماز پڑھی جائے؟ دوسری بات یہ ہے کہ جب میّت کی لاش اس کے گھر والوں تک پہونچ جائے، تو کیا ان پر غسل اور جنازہ نماز کا اعادہ لازم ہے؟ جواب:- ہاں، میّت کو ضرور غسل دیا جائے اور اس کی جنازہ نماز پڑھی جائے۔ جب ایک بار غسل دے دیا جائے اور جنازہ نماز پڑھ لی جائے، تو اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ Source: [۱]
مضمون: سی این سی ہلکا بینڈر مشین کم ناکامی کی شرح، تیز رفتار، کم توانائی کی کھپت، کم شور اور ہلکی کمپن ہے؛ سی این سی رگڑ بینڈر مشین میں اعلی کارکردگی، قابل اعتماد آپریشن اور اسی طرح کی خصوصیات ہے. آپریشن روشنی اور لچکدار ہے، اور تحریک آسان ہے. سی این سی ہلکا بینڈر مشین بڑے تعمیراتی پیداوار کے یونٹ اور ریبر پراسیسنگ فیکٹریوں کے لئے موزوں ہے. سی این سی ہلکا بینڈر مشین اعلی کارکردگی ہے اور فی دن 4-6 ٹن پیدا کرسکتے ہیں. فکسڈ لمبائی بڑے بیچوں اور فیکٹری آپریشنوں کے لئے مناسب ہے، اور زاویہ ایڈجسٹمنٹ کی حد وسیع ہے. سی این سی ریڑھ بینڈر مشین 0-180 ڈگری سے ایڈجسٹ کر سکتے ہیں، سی این سی رگڑ بینڈر مشین مربع، trapezoidal رکاوٹوں اور یو کے سائز کا ہکس بینڈ کر سکتے ہیں، CNC رگڑ bender مشین عمارات، پلوں، سرنگوں، تیار مصنوعی اجزاء، وغیرہ کی پروسیپ کے لئے مناسب ہے. The سی این سی ہلکا بینڈر مشین 4 ~ 12mm سٹیل بار اور 5 ~ 10 ملی میٹر کی ڈبل لائن قطر کی واحد لائن قطر پروسیسنگ کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں. اس کے علاوہ، سی این سی ہلکا بینڈر مشین پیداوار کے کئی بار کے بعد بہتر ہوا ہے، اور سی این سی ہلکی بینڈر مشین اصل سٹیل پروسیسنگ اور پیداوار کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے. تفصیلات تلاش کرنے اور عملی مسائل کو حل کرنے کا مظاہرہ کرتے ہیں. کے فوائد سی این سی ہلکا بینڈر مشین 1. اس میں سیدھی پہیوں کے دو سیٹ ہوتے ہیں جو عمودی طور پر اور عمودی طور پر ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے. 4 کرشن پہیوں کے ساتھ مشترکہ سی این سی ریڑھ کڑا بینڈر مشین اور یہ درآمد شدہ سومو موٹر کی طرف سے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تاکہ اس کو یقینی بنایا جائے کہ سٹیل کی بار کو بہتر صحت سے متعلق حاصل ہو. 2. موڑنے اور قابو پانے کے طریقہ کار: سی این سی ہلکا بینڈر مشین درآمد کارو موٹر کی طرف سے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، موڑنے والے بازو کو تیز رفتار اور ٹیلسکوپ تیز رفتار سے روک سکتا ہے، اور سٹیل کی بار کے موڑنے والی صحت سے متعلق کو یقینی بنانے کے لئے تیز رفتار پر کڑھائی کا عمل مکمل کر سکتا ہے. 3. کنٹرول سسٹم: سی این سی ہلکا بینڈر مشین اعلی وشوسنییتا کے ساتھ غیر ملکی بالغ کنٹرول سسٹم کو اپنایا. کنٹرول سسٹم میں غلطی کی شناخت اور الارم کے افعال ہیں.
المقال: سيطر الجيش العراقي بالكامل على كل حقول النفط في كركوك، بحسب بيان صادر عن وزير النفط العراقي جابر اللعيبي. وقال اللعيبي إن العراق يعتزم التعاقد مع شركة نفط أجنبية لمضاعفة قدرة حقول نفط شمال كركوك الإنتاجية لتصل لأكثر من مليون برميل يوميا. وحذر وزير النفط العراقي السلطات الكردية من إغلاق خط أنابيب تصدير نفط كركوك، مشيرا إلى أنها ستواجه في هذه الحالة إجراء قانونيا. وكانت تقارير أشارت في وقت سابق إلى أن القوات العراقية سيطرت على حقلي باي حسن وآفانا في شمال غربي كركوك الثلاثاء بعد السيطرة على حقول بابا غرغر وغامبور وخاباز الاثنين. وقال مسؤولون في قطاع النفط في بغداد إن كل الحقول تعمل بشكل طبيعي. ونسبت وكالة رويترز للأنباء لمصادر أمنية عراقية القول إن القوات العراقية تستعد للسيطرة على منطقة خانقين التي يوجد بها حقل نفطي صغير. وفي غضون ذلك، اتهم متحدث باسم قوات البيشمركة القوات العراقية بارتكاب “فظائع” في كركوك، مشيرا إلى أن قواته “تعرضت للخيانة”. ويأتي ذلك بعد ثلاثة أسابيع من إجراء استفتاء بشأن انفصال كردستان العراق. وذكر تليفزيون راداو، الذي يتخذ من أربيل مقرا له، أن رئيس إقليم كردستان العراق مسعود برزاني يعتزم إلقاء بيان في وقت لاحق يحث فيه الفصائل الكردية على تجنب “الحرب الأهلية”. بي بي سي
Article: On Thursday night, the northern lights filled the skies with vivid pink hues. Photographs of the stunning natural phenomenon, commonly referred to as the aurora borealis, were taken all around England. The lights could be seen as far south as London, Kent and East Anglia. Prof. Jim Wild, 49, of Lancaster, observed the northern lights from his backyard. The professor at Lancaster University, who studies auroras and space weather, stated: "My research focuses on the physics of the connections between the sun and the Earth." “Over the years I’ve been to the Arctic Circle several times to make measurements of the aurora, but it’s really special to see the northern lights from your back garden with your whole family.” The Met Office said relatively clear skies were forecast for much of the UK, creating a “decent chance of visibility”. A spokesperson for the forecaster said there had been “more space weather events in recent months”, including the northern lights, because the sun was nearing the peak of its solar cycle. The auroras, which are most commonly seen over high polar latitudes but can spread south, are chiefly influenced by geomagnetic storms that originate from activity on the sun. The sun has a cycle of about 11 years. Peak sunspot activity on the surface of the sun is referred to as solar maximum. Sunspots give the potential for Earth-directed releases of large bursts of energy called coronal mass ejections, which can lead to aurora visibility. Aurora displays occur when charged particles collide with gases in the Earth’s atmosphere around the magnetic poles. As they collide, light is emitted at various wavelengths, creating colourful displays in the sky.
المقال: جوبيه: أيام النظام السوري معدودة قال وزير الخارجية الفرنسي آلان جوبيه إن أيام النظام السوري باتت معدودة، وذلك عقب فرض جامعة الدول العربية عقوبات اقتصادية على سوريا، اعتبرتها بريطانيا "خطوة لإنهاء صمت الأمم المتحدة"، وتعهدت تركيا بالالتزام بها، بينما نددت بها دمشق ووصفتها بالأمر المؤسف. وقال جوبيه في تصريحات إذاعية له اليوم "إن أيام النظام باتت معدودة فهو في عزلة تامة اليوم". وأضاف أن الأمور تتقدم ببطء، لكن هناك تقدما منذ اتخاذ الجامعة العربية -التي تتمتع بدور ملموس- قرارا بفرض مجموعة من العقوبات ستزيد من عزلة النظام السوري. وعبر جوبيه عن أمله ألا يتم استبعاد فكرة إقامة ممرات إنسانية آمنة لأنها ضرورية، مشيرا إلى أنه سبق وأقيمت مثل هذه الممرات في أماكن أخرى وهي السبيل الوحيد للتخفيف على المدى القصير من معاناة المدنيين السوريين. وأشار إلى أنه لا علم لديه برفض الأمم المتحدة للاقتراح، قائلا "إنه طلب قدمه المجلس الوطني السوري وليس فكرة تقدمت أنا بها"، مذكرا بأنه طلب من المنظمة الدولية والجامعة العربية درس الاقتراح. وكانت مسؤولة العمليات الإنسانية في الأمم المتحدة فاليري آموس أعلنت في بيان أن 1.5 مليون سوري بحاجة إلى مساعدات غذائية، لكنها رفضت إقامة ممرات إنسانية. (الفرنسية-أرشيف) من جهته قال وزير الخارجية البريطاني وليام هيغ تعليقا على قرار الجامعة "إن هذا القرار غير المسبوق بفرض عقوبات يظهر أنه لن يتم تجاهل إخفاق النظام المتكرر بتنفيذ وعوده، وإن هؤلاء الذين يرتكبون تلك الانتهاكات المروعة سوف يحاسبون". وأضاف الوزير البريطاني أن بلاده تأمل أن تساعد هذه الخطوة على إنهاء ما وصفه بـ"صمت الأمم المتحدة على الأعمال الوحشية المستمرة التي تحدث في سوريا" بعد أن أحبطت روسيا والصين جهودا غربية لإجازة قرار في مجلس الأمن الدولي بشأن سوريا. وقال هيغ إن بلاده ترحب بالتزام الجامعة العربية بالتواصل مع الأمين العام للأمم المتحدة في أقرب فرصة لكسب تأييد الأمم المتحدة لمعالجة الوضع في سوريا. روسيا والصين يذكر أن بريطانيا استبعدت مرارا شن هجوم عسكري على سوريا، وقال دبلوماسي غربي إن بإمكان الرئيس السوري بشار الأسد الآن الاعتماد على دعم الصين وروسيا في الأمم المتحدة، ولكن الدولتين قد تغيران مواقفهما إذا زاد الأسد من القمع وإذا شنت الجامعة العربية حملة للتدخل الدولي. وتحظى الصين وروسيا بامتيازات تنقيب عن النفط في سوريا، وتملك موسكو أيضا قاعدة بحرية غير مستخدمة في الأغلب في سوريا، كما أن لها مستشارين عسكريين في الجيش السوري. ورجح الدبلوماسي أن تفقد العقوبات الأسد الدعم بين من ينتظرون في سوريا كي يروا ما إن كان بإمكانه تغيير دفة الأمور مثل التجار الذين قد يرون الآن نشاطهم يتلقى مزيدا من الضربات. أما وزير الخارجية التركي أحمد داود أوغلو فصرح أمس -على هامش اجتماع القاهرة الذي دعيت إليه بلاده- بأن تركيا تدعم القرارات والإجراءات التي اتخذتها الجامعة العربية ضد سوريا. وأضاف "لا أحد يمكن أن يتوقع أن تبقى تركيا والجامعة العربية صامتتين على قتل المدنيين وعلى قمع النظام السوري المتزايد للأبرياء". قرار مؤسف وفي أول تعليق رسمي سوري على العقوبات غير المسبوقة التي فرضتها الجامعة قال وزير الاقتصاد السوري محمد نضال الشعار إن قرار الجامعة مؤسف. وأضاف الوزير السوري -في تصريحات نقلتها عنه جريدة "السفير" اللبنانية اليوم- أن هذه العقوبات ستؤذي كل مواطن عربي يتعامل مع سوريا، إضافة إلى المواطن السوري. وذكر أن قطع العلاقات مع المصرف المركزي سيضر بالمواطن، "لأن المصارف المركزية في كل العالم هي وكلاء للمواطنين وليس للأنظمة، وهذا هو الحال في سوريا". ووصف القرار العربي بأنه سياسي، وسابقة خطيرة ستلقي بتبعاتها على المواطن في النهاية. وقال الشعار "إن السلبيات ستكون متبادلة مع الدول العربية التي لديها نمط متشابه من الاستهلاك، سيتفكك بسبب القرار المذكور. ولا بديل لسوريا سوى تقوية الداخل، خصوصا أن لدى سوريا اكتفاءً ذاتياً غير موجود في أي بلد عربي".
مضمون: ضلع مردان سے پولیو کا خاتمہ اولین ترجیح ،یہ صحت کا معاملہ ہے سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ،ڈپٹی کمشنر مردان محمد عثمان محسو جمعرات مئی 21:04 پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 03 مئی2018ء) ڈپٹی کمشنر مردان محمد عثمان محسود نے کہا ہے کہ ضلع مردان سے پولیو کا خاتمہ اولین ترجیح ہے کیونکہ یہ صحت کا معاملہ ہے اور انسانی صحت پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ اپنے دفتر میں DPECمیٹنگ کی صدارت کررہے تھے ۔ اجلاس میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مردان، اسسٹنٹ کمشنر ز مردان و تخت بھائی، ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹر مردان، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر مردان، اور DPCRسٹاف نے شرکت کی ۔ (جاری ہے) ڈپٹی کمشنر مردان نے تمام متعلقہ افسران کو ہدایت کی کہ اس مہم کے دوران کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائیگی۔ تاکہ کوئی بھی بچہ پولیو کے قطرے پلانے سے نہ رہ جائے۔ دریں اثناء ڈپٹی کمشنر مردان محمد عثمان محسود نے منیجر سروس ڈیلیوری سنٹر مردان شفیق خان کے ہمراہ ضلع مردان کے جنرل ریکارڈ روم کا دورہ کیا اور وہاں پر جاری ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کا جائزہ لیا۔ منیجر سروس ڈیلیوری سنٹر مردان شفیق خان نے ڈپٹی کمشنر کو جاری عمل کے بارے میں بریفنگ دی جس پر ڈپٹی کمشنر نے تمام عمل پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تمام سٹاف کے محنت و کوششوں کو سراہا۔ UrduPoint Network is the largest independent online media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
مضمون: یوم دفاع ہمارے ملی اتحاد و یک جہتی کا بہترین عکاس ہے، وزیراعظم عمران خان کا پیغام اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ یوم دفاع ہمارے ملی اتحاد و یکجہتی کا بہترین عکاس ہے، شہداء اور غازیوں کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے یوم دفاع پاکستان کے موقع پر اپنے پیغام میں کہی، وزیر اعظم نے کہا کہ افواجِ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ افواج پاکستان کی قربانیوں سےمادر وطن کے استحکام کو مزید دوام ملا”ہمیں پیار ہے پاکستان سے” کا عنوان قوم کی امنگوں کا ترجمان ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف بچوں، جوانوں،بوڑھوں اور خواتین نے قربانیاں دیں، شہداء اور غازیوں کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں، شہداء اور غازیوں نے مادروطن کے دفاع کا فریضہ بخوبی انجام دیا۔ دہشت گردی کے خاتمےمیں افواج پاکستان کی جرأت کو سراہتا ہوں، پاک فوج کی ملک میں جمہوریت اور عالمی امن کیلئے کوششیں لائق تحسین ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمسایوں سمیت پوری دنیا کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں، دنیا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کی روک تھام کیلئے کردار ادا کرے، مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل امن کیلئے ناگزیر ہے۔ عمران خان نے مزید کہا کہ پاکستانی قوم اپنی افواج سے مل کر وطن کی حفاظت کیلئے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے، قومی مسائل کامقابلہ ایمان، اتحاد اور تنظیم پر کار بند رہ کر کریں گے، آیئے مل کر محنت اور لگن سے ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں، دہشت گردی کیخلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئےجدوجہد جاری رہے گی، انہوں نے کہا کہ میں ایک بار پھر شہداء غازیوں اور ان کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کو سلام عقیدت پیش کرتا ہوں اور قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم ان کی فلاح و بہبود میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے، دہشت گردی کے منطقی انجام تک بھر پور جدوجہد جاری رکھیں گے۔
المقال: ضمن دورها الرائد في تفعيل المسؤولية المجتمعية والذي يلتقي مع رؤية الجمعية في بناء شراكات مجتمعية فاعلة، قدمت شركة “أرامكو السعودية” تبرعاً مالياً لجمعية البر الخيرية بمحافظة خليص بقيمة 200 ألف ريال ، وذلك لدعم مشروع الأجهزة الكهربائية بالجمعية . وقد تقدمت “بر خليص” بجزيل الشكر والثناء لـ “أرامكو السعودية” على تبرعها السخي ، سائلين الله أن يجزيهم خير الجزاء وأن يجعل ما يقدمون في ميزان حسناتهم.
مضمون: بھارتی حکام نے آگرہ میں واقع مشہور تاریخی عمارت تاج محل میں نصب ایک تاریخی فانوس کے ٹوٹنے کے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ 60 کلوگرام وزنی فانوس تاج محل کی داخلی دروازے ’شاہی گیٹ‘ پر نصب تھا جو اس ہفتے کے آغاز میں گر کر ٹوٹ گیا تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ایک ملازم دو میٹر بلند فانوس کی صفائی کر رہا تھا جس وقت وہ نیچے گرا۔ فانوس گرنے سے وہاں موجود سیاحوں میں افراتفری پھیل گئی لیکن اس واقعے میں کوئی شخص زخمی نہیں ہوا۔ تاج محل میں کام کرنے والے ٹور گائیڈز نے حکام پر غفلت کا الزام لگایا ہے، لیکن واقعے کی تحقیقات کرنے والے ماہر آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ فانوس بوسیدہ ہونے کے باعث گرا ہے ۔ فانوس سابق برطانوی وائسرائے لارڈ کرزن نے 1905ء میں تاج محل میں نصب کرنے کے لیے تحفے میں دیا تھا۔ بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) نے معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ آرکیالوجی سروے آف انڈیا یعنی اے ایس آئی کے سینیئر اہلکار ڈاکٹر بھون وکرم سنگھ کا کہنا ہے کہ فانوس کو زنجیروں کی مدد لٹکایا گیا تھا اور اس واقعے کی وہ ذاتی طور پر تحقیقات کر رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ فانوس کی حالت کا جائزہ لینے کے بعد ہی اسے دوبارہ نصب کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ * Sign me up for the newsletter! میری ویب سائٹ کیسی ہے؟ نتائج دیکھیں تمام درج مواد روزنامہ اردو کی املاک ہے اور اجازت کے بغیر نقل پبلیشر کی کاپی رائٹ کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا
المقال: الثقافة في جذروها اللغوية مرتبطة بالدين، ففي اللغة الفرنسية مثلا تأتي كلمة culture “ثقافة” مشتقة من كلمة culte “عبادة”، ذلك أن الثقافة بتعريفها تركز على الجوانب الغير مادية في حياة الانسان ، كمفاهيم التضحية و الصدق و الاعمال التي يتجرد فيها الانسان من مصلحته الشخصية ، و لهذا كان للشعراء و الادباء و الفنانين و المتخصصين في العلوم الدينية مواقف متشابهة من قضايا الانسان و المجتمع، فهم دائما ينتصرون للقيم و يدعون إلى السمو ، في حين ينزع علماء الاجتماع و النفس و العلوم التجريبية إلى تحقيق المصلحة و الاعتماد على الحقائق البيولوجية في الانسان، و على القوانين الرياضية و الفيزيائية. علوم الارض و المادة تركز على الوسائل لتحقيق المصلحة ، و على تدريب الانسان ليكون كفئا في الوصول إليها بغض النظر عن الهدف، في حين تعطي علوم الدين للإنسان الاهداف و الغايات و القيم ،أي أنها تعطي معنى لسعيه في الحياة. و يشكل هذان الجانبان ثنائية الانسان ، فهو من ناحية له أشواق روحية و تطلعات سامية ، تعبر عن نفسها في الحياة من خلال التضحية و حسن الخلق و أنواع العبادات ، في حين له احتياجات بيولوجية و مادية لا ينبغي إغفالها . هذه الثنائية تطبع حياة الانسان دائما ، فهو له نزعة فردية و له نزعة جماعية ، نزعة للتفرد و نزعة للإندماج، نزعة للتفكير في المصلحة القريبة ، و أخرى للتفكير في المصير و الاسئلة الكبرى، و في ثقافتنا الاسلامية يعبر عن هذا التوازن في الدعوة للتوازن بين الدنيا و الاخرة الذي ينبغي أن يطبع حياة المسلم . ” إعمل لدنياك كأنك تعيش أبدا و اعمل لأخرتك كأنك تموت غدا “ ” أنتم أعلم بأمور دنياكم ” تضع قاعدة للاستفادة من كل المنتج البشري في المجال المادي و الدنيوي، في حين يقوم الركن الثاني للشخصية المسلمة على الاتصال بعلوم الاخلاق و الشرع الذي يعطي معنى و حياة لهذا الاستفادة و يدفعها إلى أن تكون عنصر خير و صلاح في المجتمع. إن تكوين الإنسان العامل في المجال التطوعي شأن شأن التكوين عموما في هذا العصر لابد أن يقوم على هذين الركنين و ان يطبعه هذا التوازن : الركن المادي : أي علوم الادارة و التسيير و تقنيات العمل الجمعوي و ما يتصل بها مهارات. و هي مسائل عامة مشتركة بين البشر. الركن الثقافي : أي القيم و الاخلاق و ما يتصل من علوم الشريعة و القانون. و هي مسائل تتجلى فيها الخصوصية. هذه الرؤية هي التي تحكم فلسفة التكوين في الجمعية ، و من الطبيعي أن تختلف وسائل كل ركن ، ففي حين يقوم التكوين في الركن الاول على الدورات التدريبية المركزة و على الممارسة الميدانية في الانشطة الاجتماعية و الصحية . فلا غنى عن الممارسة و التدريب لاكتساب المهارات. في حين يقوم التكوين في الركن الثاني على وسائل متنوعة منها : القدوة الاخلاقية ،و لقاء الشخصيات الملهمة ، من العلماء أو المثقفين أو العاملين في فضاء العمل العام في المغرب عموما. كما يقوم أيضا على تنمية حس المطالعة و البرامج الثقافية الفضفاضة النابعة من الثوابت و الخصوصيات ، و على تنظيم الرحلات الثقافية للمدن المغربية القديمة التي تجمع بين الفائدة و المتعة ، و تسمح بالاتصال بعمقنا التاريخي و توسيع الافاق الوجدانية و الفكرية لأعضاء الجمعية . مسؤول اللجنة الثقافية د. ياسين أفقير
مضمون: اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعہ کو وزیر اعظم کے معاونین خصوصی (ایس اے پی ایم ایس) کو وزرائے مملکت کا درجہ دے دیا۔ جن ایس اے پی ایمز کو وزیر مملکت کا درجہ دیا گیا ہے ان میں پی ایم ایل این کے افتخار احمد، مہر ارشاد احمد خان، پی پی پی کے رضا ربانی کھر، مہیش کمار، فیصل کریم کنڈی اور سردار سلیم حیدر شامل ہیں۔ وزیراعظم نے تسنیم احمد قریشی، سردار شاہ جہاں، محمد علی شاہ اور ملک نعمان لغاری کو بھی وزیر مملکت کا درجہ دیا۔ کابینہ ڈویژن نے اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔
مضمون: رویش کمار آج کل آپ آفس آف پرافٹ کا تنازع خوب سنتے ہوں گے. خبر ہے کہ الیکشن کمیشن نے عام آدمی پارٹی کے 21 اراکین اسمبلی کو 14 جولائی کو اپنا موقف رکھنے کے لئے بلایا ہے. اگر الیکشن کمیشن نے انہیں مجرم پایا تو ان کی رکنیت منسوخ ہو سکتی ہے. یہ معاملہ دہلی میں عام آدمی پارٹی بمقابلہ بھارتیہ جنتا پارٹی بمقابلہ کانگریس پارٹی بنا ہوا ہے. الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے بعد اس پر ہندوستان کے صدر فیصلہ لیں گے. صدر اس معاملے میں مرکزی کابینہ سے رائے نہیں لیتے ہیں. اس معاملے میں الیکشن کمیشن ہی اپنی رپورٹ بھیج سکتا ہے. آئین کی تمام تشریحات کے مطابق آفس آف پرافٹ کے معاملے میں قانونی طور پر مرکزی حکومت یا کابینہ کا کوئی رول نہیں ہے. عام آدمی پارٹی نے ایک قانون بنا کر صدر کو بھیجا تھا لیکن صدر نے منظوری نہیں دی. اب یہ معاملہ دہلی حکومت کے اوپر تلوار کی طرح لٹک رہا ہے. اس تنازع کے ذریعہ ہمارے آپ کے لئے پھر سے سمجھنے کا موقع ہے کہ آئین میں منتخب نمائندے کا کس طرح سے تصور کیا گیا ہے تاکہ وہ حکومت سے آزاد رہے اور اپنے علاقے کے عوام کے تئیں ذمہ دار رہے. ہم اور آپ جب بھی کسی رکن پارلیمنٹ یا رکن اسمبلی کو دیکھتے ہیں تو ہمیشہ اسے حکمراں نواز یا اپوزیشن کے نمائندے کے طور پر دیکھتے ہیں. لیکن لوک سبھا یا ودھان سبھا اپنے اراکین کو حکومت کے نمائندے کے طور پر نہیں دیکھتی ہے. ایوان کا تصور اس پر مبنی ہے کہ رکن اسمبلی یا پارلیمنٹ اس کے اندر عوام کی آواز ہیں. ایوان میں جو رکن وزیر ہیں صرف انھیں ہی حکومت کی آواز یا نمائندہ سمجھا جاتا ہے. آئین نے ایسا مانا ہے کہ رکن اسمبلی یا پارلیمنٹ حکومت کے کسی بھی قسم کے زیراثر نہ آئے. اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسا عہدہ قبول نہ کرے جہاں سے اسے تنخواہ وغیرہ کی سہولت ملے، جس سے اس کے اقتدار میں حصہ دار ہونے کا موقع ملے اور جو حکومت کے براہ راست تحفظ میں آ جائے جس پر حکومت کا بس چلے. ایسا اس لئے کیا گیا ہے کہ ایوان میں رکن اسمبلی یا پارلیمنٹ صرف عوام کی نمائندگی کریں. حکومت کے پاس کئی طرح کے عہدے ہوتے ہیں. وہ ہر عہدے پر اپنے اراکین پارلیمنٹ کو بٹھا سکتی ہے، اراکین اسمبلی کو دے سکتی ہے. اگر ایسا ہوا تو ایوان میں حکومت کی نمائندگی بڑھ جائے گی اور ایوان میں عوام کی نمائندگی گھٹ جائے گی. توجہ ركھيےگا کہ ایوان کے ہی رکن وزیر ہوتے ہیں جن کی کچھ مخصوص تعداد ہوتی ہے. مگر سارے رکن، وزیر یا چیئرمین نہ ہو جائیں اس کے لئے ہی آفس آف پرافٹ کا تصور کیا گیا ہے تاکہ ان کی رکنیت منسوخ کی جا سکے. آئین ساز سمجھتے تھے کہ اگر رکن اسمبلی یا پارلیمنٹ حکومت کے زیراثر یا زیر تحفظ آ گئے تو وہ آزاد نہیں رہ پائیں گے. ایوان کے اندر رکن کو بغیر کسی کے دباو کے آنا چاہئے. یہ مثالی نظام ہے. عملی نظام کچھ اور ہے. پیسے لے کر سوال پوچھنے کے الزام میں ہمارے منتخب نمائندوں نے رکنیت گنوانے کی تاریخ بنائی ہے. پارٹی کا نام لینے سے کوئی فائدہ نہیں. آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ راجیہ سبھا کے انتخابات میں رکن اسمبلی کس طرح دولت کے زیراثر اپنا ووٹ ادھر سے ادھر کر رہے ہیں. کچھ لوگ انتخابات میں پارٹی کی خدمت کر دیتے ہیں پھر وہ راجیہ سبھا سے لے کر ودھان پریشد میں آ جاتے ہیں. پہلے پارٹی کو اپنے پرافٹ میں سے کچھ دیتے ہیں پھر اس پارٹی کی حکومت سے آفس لے لیتے ہیں. ایسے رکن کو آپ عہدہ دیں یا نہ دیں، کیا کسی بھی طرح سے آپ آفس آف پرافٹ کی اخلاقیات سے آزاد رکھ سکتے ہیں. کئی جماعتوں نے ایسے اراکین کو ایوان میں بھیجا ہے جو بغیر آفس آف پرافٹ لئے حکومت کو بھی متاثر کر رہے ہیں اور ایوان کے اندر پالیسی سازی پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں. 21 اگست، 1954 کو لوک سبھا کے پہلے اسپیکر جی وی ماولنكر صاحب نے راجیہ سبھا کے چیئرمین سے مشورہ کرکے آفس آف پرافٹ کے لئے ایک کمیٹی بنائی. اس کمیٹی کے صدر تھے پنڈت ٹھاکر داس بھارگو جن کی وجہ سے اسے بھارگو کمیٹی کے نام سے جانا جاتا ہے. بھارگو صاحب ہسار کے رکن پارلیمنٹ تھے. کمیٹی نے تجویز دی کہ ایک تفصیلی بل لا کر صاف کیا جائے کہ کون سا عہدہ فائدہ کا عہدہ ہے اور کون سا فائدہ کا عہدہ نہیں ہے. دھیان رہے یہ کام حکومت نہیں کرتی ہے بلکہ پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کرتی ہے. تب سے لے کر ہر لوک سبھا کے دوران مشترکہ کمیٹی بنتی ہے اور فائدے کے عہدے کی وضاحت کی جاتی ہے. جو رکن فائدہ کا عہدہ قبول کرتے ہیں ان کی رکنیت چلی جاتی ہے. حکومت عوامی اداروں کو حکم بھی دیتی ہے کہ اگر کوئی رکن پارلیمنٹ ان کی کمیٹی کا رکن ہے تو اسے کسی بھی قسم کی تنخواہ نہ دی جائے. پارلیمنٹ یا اسمبلی کے اراکین کی آزادی کا کتنا خوب صورت تصور کیا گیا ہے. جان بوجھ کر تصور کہا کیونکہ جو کہا گیا ہے کیا وہ ہو بہو: احساس ہوا ہے یا ہو رہا ہے؟ جیسے کسی بل پر ووٹنگ سے پہلے ایوان احاطے میں ہی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں اجتماعی فیصلہ لے لیا جاتا ہے. رکن پارلیمنٹ یا رکن اسمبلی پارٹی لائن سے مختلف نہیں بولتے. رکن اجتماعی فیصلے کے ساتھ جائیں اس لئے وہیپ لگا دیا جاتا ہے. اس لیے آفس آف پرافٹ کی اصل روح کہاں تک لاگو ہے اسے آپ سمجھ بھی لیں گے تو کچھ نہیں کر پائیں گے. سیاسی نظام آپ کے سمجھ جانے سے نہیں بدلتا ہے. سیاست آپ کو ہی بدل دیتی ہے. ضروری ہے کہ ہم آفس اور پرافٹ کی تعریف کو سمجھیں. آفس وہ سرکاری محکمہ ہے جس کے ذریعہ آپ معاشرے کے لئے کام کرتے ہیں. اس کے بدلے تنخواہ اور دیگر الاؤنس ملتے ہیں. سفر الاؤنس یا کچھ خرچ اس میں شامل نہیں ہیں. پیسے کا لین دین ہونا اس کے مرکز میں ہے. ہر عہدہ آفس آف پرافٹ کے دائرے میں نہیں آتا ہے. ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کوئی حکومت اپنے اراکین اسمبلی یا اراکین پارلیمنٹ کو عہدے دے کر اس پر کس حد تک اپنا اثر قائم کرتی ہے. پی ڈی ٹی آچاریہ کی ایڈیٹیڈ کتاب کے مطابق سپریم کورٹ نے آفس آف پرافٹ کا تعین کرنے کے لئے کچھ ٹیسٹ مقرر کئے ہیں. پہلے ٹیسٹ ہوتا ہے کہ آفس ہے یا نہیں. پھر ٹیسٹ ہوتا ہے کہ پرافٹ ہوا یا نہیں. سب سے بڑا ٹیسٹ اس بات کو لے کر ہوتا ہے کہ کیا حکومت تقرری کرتی ہے. یہ دیکھا جائے گا کہ حکومت رکن اسمبلی کے باس کی طرح کام تو نہیں کرتی یعنی اسے اس کے عہدے سے برخاست کر سکتی ہے، ہٹا سکتی ہے اور کام پر کنٹرول رکھ سکتی ہے. کیا حکومت اسے تنخواہ وغیرہ مالی ادائیگی کرتی ہے. اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سرکاری آفس ہوتا ہے یا نہیں. اس کے بعد پرافٹ کا ٹیسٹ ہوتا ہے. پانڈچیري کے میئر کے عہدے پر رکن اسمبلی کی تقرری ہوئی. الیکشن کمیشن نے آفس آف پرافٹ مانا کیونکہ کئی طرح کے الاؤنس ملتے تھے. مگر اسے نہیں مانا گیا کیونکہ میئر کا عہدہ حکومت کے کنٹرول میں نہیں آتا ہے. اس لئے اس کی کوئی ایک تشریح نہیں نظر آتی ہے. اب آتے ہیں عام آدمی پارٹی کے 21 اراکین اسمبلی کو پارلیمانی سیکرٹری بنانے کے معاملے پر. بعد میں دہلی اسمبلی نے ایک بل بھی پاس کرکے قانون دیا کہ وزیر اعلی اور وزراء کے پارلیمانی سیکرٹری کا عہدہ قبول کرنے پر ان کی رکنیت نہیں جائے گی، کیونکہ یہ فائدے کے عہدے نہیں ہیں. اسمبلی نے اسے پاس کر دیا مگر صدر نے منظوری نہیں دی. یہ بھی ایک مسئلہ ہے. کیا صدر نے قطعی طور سے لوٹا دیا یا اب بھی ان خدشات کو دور کرکے نائب گورنر دوبارہ بھیج سکتے ہیں. 2006 میں بھی ایسا معاملہ ہوا تھا. تب دہلی میں شیلا دکشت نے کانگریس کے 19 اراکین اسمبلی کو کئی طرح کے عہدے دیے تھے. پارلیمانی سیکرٹری سے لے کر Trans-Yamuna Area Development Board کے چیئرمین، وائس چیئرمین، دیہی ترقی بورڈ وغیرہ. تقرری کے بعد الیکشن کمیشن نے ان 19 اراکین اسمبلی کو آفس آف پرافٹ کا نوٹس بھیج دیا. شیلا دکشت اپنی حکومت بچانے کے لئے ایک بل لے آئیں اور 14 دفاتر کو آفس آف پرافٹ کی فہرست سے باہر کر دیا. شیلا دکشت نے کہا تھا کہ میری حکومت بچانا میرا حق ہے، ہم آئینی طور پر ایسا کر رہے ہیں. ایسے ہی بل چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ میں پاس کئے گئے ہیں. صدر کلام نے 31 مئی 2006 کو شیلا کا یہ بل واپس کر دیا تھا. شیلا دکشت نے دوبارہ بھیجا اور صدر نے منظوری دے دی. تب مرکز اور دہلی میں ایک ہی پارٹی کی حکومت تھی. اب صورت حال مختلف ہے. عام آدمی پارٹی تو کانگریس کلچر کے خلاف نئی سیاست کرنے آئی تھی. اتنے اراکین اسمبلی کو پارلیمانی سیکرٹری بنانے کی کیا ضرورت تھی یا وہ کام کیوں کیا جو شیلا دکشت کر چکی تھیں. بی جے پی نے اس وقت بھی مخالفت کی تھی اب بھی مخالفت کر رہی ہے. رکن اسمبلی میناکشی لیکھی نے پریس کانفرنس کرکے کہا تھا کہ دہلی کا خصوصی آئینی نظام ہے. یہ ریاست نہیں، ایک شہر ہے. اس شہر میں صرف 7 وزیر ہو سکتے ہیں اور 7 کے اوپر 21 سیکرٹری لگائے جاتے ہیں. 21 ایم ایل اے کی جو تقرری ہوئی ہے، وہ غیر قانونی ہے. قانون میں اس کا کوئی نظام ہی نہیں ہے. پارلیمانی سیکرٹری عاملہ کا حصہ ہے. آپ اس ڈھانچے کو کنٹرول کر سکتے ہیں. اس لئے یہ فائدہ کا عہدہ ہوتا ہے. بھلے آپ کوئی تنخواہ نہ لے رہے ہوں. پارلیمانی سیکرٹری کیوں بنائے جاتے ہیں، کیوں کہ قانون وزراء کی تعداد اسمبلی کے اراکین کی تعداد کا 15 فیصد ہی ہو سکتا ہے. دہلی میں یہ 10 فیصد ہے. یہ اس لئے کیا گیا ہے کہ وزراء کی تعداد زیادہ نہ ہو جائے اور حکومت پر بوجھ نہ پڑے. لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ تمام ریاستوں میں ریاستی وزیر کا درجہ بانٹ دیا جاتا ہے. گاڑی، گارڈز لے کر ودھایک جی علاقے میں فلیش کرتے رہتے ہیں. بہت سے لوگوں کو سیکرٹری وغیرہ بنا دیا جاتا ہے. ہریانہ میں 13 وزراء ہیں مگر وہاں 4 اہم پارلیمانی سیکرٹری ہیں. راجستھان میں بھی 5 اراکین اسمبلی کو پارلیمانی سیکرٹری بنایا گیا ہے. گجرات میں بھی 5 پارلیمانی سیکرٹری ہیں. پچھلی حکومت میں ممتا بنرجی نے 24 اراکین اسمبلی کو پارلیمانی سیکرٹری بنا دیا تھا. وہ اس کے لئے قانون بھی لے کر آئیں، لیکن 2013 میں ایک مفاد عامہ کی عرضی دائر ہوئی. کلکتہ ہائی کورٹ نے ممتا بنرجی کے اس قانون کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر دیا اور 24 اراکین اسمبلی کی تقرری منسوخ کر دی. لیکن ان کی رکنیت نہیں گئی. جب کہ یہ رکن اسمبلی پارلیمانی سیکرٹری رہ چکی تھیں. 2006 میں چھتیس گڑھ حکومت نے پروینشن آف ڈسكوالفیكیشن امینڈمنٹ بل لا کر 90 عہدوں کو آفس آف پرافٹ سے خارج کر دیا. اب دہلی میں ہنگامہ ہوا تو چھتیس گڑھ میں اجیت جوگی نے مطالبہ شروع کر دیا ہے کہ ان 11 پارلیمانی سیکرٹریوں کو ہٹایا جائے جسے بی جے پی حکومت نے مقرر کئے ہیں. کانگریس اسے لے کر بی جے پی پر دوہرے معیار کا الزام لگا رہی ہے جب کہ 2006 میں دہلی میں ہی اس کی حکومت ایسا کر چکی ہے. (اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
مضمون: اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سینیٹر مشاہداللہ خان کا کہنا ہے کہ پوری قوم جانتی ہے کہ وزیراعظم اور شریف خاندان کے ہاتھ صاف ہیں جب کہ جے آئی ٹی کے معاملے پر حکومت برداشت کا اعلیٰ مظاہرہ کر رہی ہے۔ اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے مشاہداللہ خان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان نے خود کو احتساب کے لئے پیش کیا ہے اور وزیراعظم نواز شریف نے پہلے ہی روز کہہ دیا تھا کہ تمام ادارے جے آئی ٹی سے تعاون کریں، حکومت کو سپریم کورٹ پر مکمل اعتماد ہے اور پاناما کی جے آئی ٹی سے بڑی امیدیں ہیں، تحریری طور پر جے آئی ٹی پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا لیکن انصاف ایسا ہو جو سب کو نظر آئے، ایک جے آئی ٹی کا رکن سیاسی رہنما کا رشتہ دار ہے، انتقام کو ذہن سے نکالنے سے ہی ملک ترقی کرے گا، اگر کسی کے ذہن میں انتقام ہے تو اس کو نکال لے۔ ان کا کہنا تھا کہ سر سے پاؤں تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے لوگوں کا بھی احتساب ہونا چاہیئے، عمران خان کی بھی آف شور کمپنیاں ہیں، ان کا اور تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کا بھی احتساب ہونا چاہیئے۔ مشاہد اللہ خان نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف اور شریف خاندان کے ہاتھ صاف ہیں، مشرف دور میں بھی شریف خاندان کے احتساب کی کوشش کی گئی، حسین اور حسن نواز 3 ماہ تک سول لائنز جیل میں بند رہے اور ان کا کھانا پینا بھی بند کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود انتقامی سیاست نہیں کی گئی جب کہ عمران خان سے صرف 6 روز تک بنی گالہ چھینا گیا تو ان کی عقل ٹھکانے آ گئی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف پاکستان کی ترقی کی علامت ہیں اور بین الاقوامی ادارے پاکستان کی ترقی کا اعتراف بھی کر رہے ہیں، وزراعظم نواز شریف نے ملک اور اداروں کی خاطر تکالیف برداشت کیں جب کہ عمران خان نے اس ملک میں جمہوریت کی قبر بنائی ہے، انہیں صرف اداروں کو گالیاں اور دھمکیاں دینا آتا ہے، کوئی ان کو سمجھانے والا نہیں کہ کپتان صاحب یہ کرکٹ نہیں ہے۔
مضمون: رواں ماہ گنا بیلنے کا سیزن شروع ہونے اور چینی کی نئی بمپر پیداوار کے باعث ہفتے کو چینی کی ایکس مل قیمت 4 روپے گھٹ کر 100 روپے کی سطح پر آگئی۔چینی کی قیمتوں میں استحکام کے لئے کئے جانے والے حکومتی اقدامات کے نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں۔ رواں ماہ شوگر ملز کی جانب سے گنے کی کرشنگ شروع کئے جانے اور چینی کی نئی بمپر پیداوار کے باعث چینی کی ایکس مل قیمت 4 روپے گھٹ کر 100 روپے کی سطح پر آگئی ہے۔ کراچی کی ہول سیل مارکیٹ میں چینی کی تھوک قیمت 4 روپے گھٹ کر 102 روپے ہوگئی ہے تاہم خوردہ مارکیٹوں میں فی کلوگرام چینی 110 سے 115روپے میں فروخت کی جارہی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ ملک میں چینی کی سالانہ پیداوار کا حجم 69لاکھ ٹن ہے جبکہ کھپت کا حجم 59 لاکھ ٹن ہے لیکن رواں سال تقریبا 10لاکھ ٹن کے اضافے کے ساتھ ملک میں 79لاکھ ٹن کی پیداوار متوقع ہے۔واضح رہے کہ ملک میں پیدا ہونے چینی گھریلو صارفین کے مقابلے میں ایک بڑی مقدار کنفیکشنری انڈسٹری میں استعمال ہوتی ہے۔
مضمون: لاہور: پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی ترین نے پاکستان سپر لیگ کی چھٹی ٹیم خرید لی۔ پاکستان سپرلیگ کے لیے چھٹی ٹیم کی اونر شپ فروخت ہوگئی، علی ترین اگلے 7 سال کے لیے مالک بن گئے، ان کے مدمقابل جنوبی افریقہ کی کمپنی کے نمائندے احمد چنائی نے انکشاف کیا کہ علی ترین نے 88 کروڑ 90 لاکھ کی قیمت لگا کر یہ بڈ اپنے نام کی ہے جب کہ ہم نے اس کی صرف 35 کروڑ سالانہ بولی دی تھی تاہم پی سی بی کی جانب سے علی ترین کی جانب سے دی گئی قیمت کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا، پی سی بی کی جانب سے چھٹی ٹیم کے لیے بڈ 52 کروڑ سے زیادہ رکھی تھی۔ ملتان سلطانز کے مالکان کے ساتھ معاہدہ ختم ہونے کے بعد پی سی بی نئے ٹینڈر جاری کیے، جس کے تحت بڈز نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں کھولی گئی اور تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی ترین نے سب سے زیادہ قیمت لگاکر اس کے مالکانہ حقوق حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ — PakistanSuperLeague (@thePSLt20) December 20, 2018 علی ترین نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ خواہش ہے کہ پی ایس ایل جونئیر بھی کروائے جائے جو پاکستان میں ہو، جس میں سپلیمنٹری کھلاڑی کھیلیں، یہ بزنس ڈیل نہیں بلکہ کرکٹ سے محبت ہے، مجھے کسی نام پر اعتراض نہیں، مگر اس پر قانونی معاملات دیکھنے ہوں گے، ہمارے تمام بزنس پاکستان میں ہیں، چاہتا ہوں کہ پی ایس ایل کے سارے میچز پاکستان میں ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں علی ترین کا کہنا تھا کہ ہم ملتان سلطانز کے نام کو جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں لیکن اس کے قانونی پہلووں کا جائزہ لینا ہوگا۔ اگر اس کی اجازت نہ ملی تو پھر ٹیم کا پہلا نام ملتان ہی ہوگا تاہم دوسرا نام بھی سوچ کر تبدیل کریں گے۔
مضمون: قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابراعظم نے انگلینڈ کے خلاف شاندار سنچری اسکور کر کے بھارت کے سابق کپتان ویرات کوہلی کا ایک اور ریکارڈ توڑ ڈالا۔ کرک انفو کی رپورٹ کے مطابق بابراعظم ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں 8 ہزار رنز بنانے والے دوسرے تیز ترین کرکٹر بن گئے ہیں۔ انہوں نے یہ کارنامہ 218 اننگز میں حاصل کیا جب کہ ویرات کوہلی نے 243 اننگز میں آٹھ ہزار رنز بنائے تھے۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں تیز ترین آٹھ ہزار رنز بنانے کا ریکارڈ سابق ویسٹ انڈین بیٹر کرس گیل کے پاس ہے جنہوں نے محض 213 اننگز میں یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا۔
مضمون: سائنسدانوں نے ایسا سفید ترین پینٹ تیار کیا ہے جو ان کے خیال میں ایئر کنڈیشننگ کی ضرورت کو کم یا ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سارا معاملہ احسان اللہ احسان کے جعلی نام سے تشکیل دیے گئے فیس بک اکاؤنٹ سے شروع ہوا، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اس ہفتے پاکستان کا دورہ کر کے ون ڈے سیریز کے لیے دورہ افغانستان کی دعوت دوں گا، چیئرمین عزیزاللہ فضلی
مضمون: قبضے کی صورت میں انبار صوبے کے شہری علاقوں میں حکومتی کنٹرول تقریباً پوری طرح ختم ہوجائے گا امریکی صدر نے نواز شریف کو ’پاکستان میں صورت حال معمول‘ پر آنے کے بعد دورے کی یقین دہانی کروائی۔ رمیز نے مارلن سیموئلر کے معاملےپر نرمی کا مظاہرہ کیا لیکن پاکستانی کھلاڑیوں کیلئے ان کے جذبات مختلف کیوں ہیں، فاسٹ باؤلر سندھ کے ضلع ٹنڈو محمد خان میں نامعلوم افراد نے ایک مندر نذر آتش کر دیا۔ مقامی افراد کے مطابق گرنے سے پہلے مبینہ طور پر طیارے میں آگ لگ گئی تھی، پولیس۔ کراچی میں پاک فضائیہ کا میراج طیارہ تربیتی پرواز کے دوران گر کر تباہ ہوا جس میں سوار 2 پائلٹ زخمی بھی ہوئے۔ عاصم باجوہ کے مطابق آرمی چیف نے امریکی قیادت سےملاقات میں ہندوستان کی سرحدی خلاف ورزی کامعاملہ بھی اٹھایا ہے۔ سراج الحق کہتے ہیں کہ پاکستان کے مسائل کا حل فقط اسلامی نظام میں ہےخود کواحتساب کیلیے پیش کرتاہوں۔ اورنگی ٹاون میں رکنیت سازی کےحوالے سے لگائے جانےوالے کیمپ پرحملہ کیا گیا،حملے کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کر لی ۔ ان مچھیروں کو بحیرہ عرب میں سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ آئی ایس پی ار کے مطابق عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ آپریشن کامیابی سے جاری ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر زاہد حامد پرویزمشرف کے دور میں وفاقی وزیر قانون تھے۔ بھوک اوربیماری سے صحرائے تھر میں باون روز میں ہلاکتوں کی تعداد ایک سو چھ ہوگئی ہے۔ اسلام آباد میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب میں سیاسی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے باعث پورا خطہ متاثرہو رہا ہے۔ ٹاپ آرڈر کی غیر متوقع ناکامی کے بعد پاکستان نیوزی لینڈ کے خلا ف دبئی ٹیسٹ ڈرا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ لاڑکانہ میں جلسے سےخطاب میں چیئرمین تحریک انصاف نے کہاکہ ایک ہی گیند پرنوازشریف اورآصف زرداری کی وکٹیں گریں گی۔ پاکستان نے ایل او سی پر بلا اشتعال فائرنگ کے نتیجے میں ایک فوجی کی ہلاکت پر انڈیا سے شدید احتجاج کیا ہے۔ عمران خان کا کہنا ہےکہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں 6 برس حکومت کرکے بھی کچھ نہیں کیا ہم بلدیاتی نظام لا کر مسائل حل کریں گے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ دونوں ایک ہی نظام کےپجاری ہیں ایک گیند پردونوں کی وکٹیں اڑائیں گے۔ لاہور میں جماعت اسلامی کے اجتماع عام سے خطاب میں سراج الحق نے کہا کہ سب کااحتساب ہونا چاہیے وزیراعظم بھی خود کو پیش کریں شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ایسا منصوبہ جس کو سندھ کے عوام نامنظور کریں اسے بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ حملہ آوروں نے سریاب روڈ پر ایک سائیکل میں نصب بم کے ذریعے سیکورٹی فورسز کی گاڑی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ وزیراعظم نے دباؤمیں اضافے کے بعدفیصلہ کیا،اسمبلی کو آدھی مدت سے بھی قبل تحلیل کیا گیا ہے، آئندہ ماہ نئے الیکشن ہوں گے اس مقابلے میں منتخب ہونے کے لیے تین عمومی شرائط ہوتی ہیں، خاتون نیک اور سمارٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اسٹائلش بھی ہو۔ پرویز مشرف غداری کیس میں نامزد ہونے کے بعد وفاقی وزیر زاہد حامد نے رضاکارانہ طورپر استعفیٰ دیا۔ سلمان خان نے ارپیتا کی شادی کو یادگار بنانے کیلئے 16 کروڑ روپے کا فلیٹ اور چار کروڑ روپے کی کار کا تحفہ دیا ہے۔ این اے122میں دھاندلی کی تحقیقات کرنےوالے الیکشن ٹریبیونل نے ایازصادق پرجواب میں تاخیر پر 5ہزار روپے جرمانہ عائد کیا تھا روس ٹیلر کی شاندار سنچری کی بدولت نیوزی لینڈ نے دبئی ٹیسٹ کے آخری دن پاکستان کو جیت کے لیے 261 رنز کا ہدف دیا ہے۔ خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف پر چلنے والے غداری کیس میں ان کے ساتھیوں پر بھی مقدمہ چلانے کی درخواست منظور کرلی۔ سلمان خان، ایشوریہ اور شاہ رخ خان سمیت دیگر اداکاروں کے نام سے منسوب چیزوں کے بارے میں جاننا واقعی دلچسپ ثابت ہوگا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، شدت 5.2 تھی۔ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں ہلاکت کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ امریکا دہشت گردی کیخلاف جنگ ایک غلط ملک میں لڑ رہا ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ شرپسندوں، بربریت پسندوں نے ہمارے فوجیوں کے سر سے فٹبال کھیلی، یہ منظر دماغ سے کبھی نہیں مٹ سکتا۔ صحت اور ذائقے میں کوئی پیک شدہ کھانا ہمارے روایتی کھانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ دبئی اور خلیجی ممالک میں گھریلو ملازموں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جاتا ہے، جو ہم ان سے اپنے ملک میں کرتے ہیں۔ وہ معاشرے جہاں سائنس کلچر پایا جاتا ہے، وہاں عقلی بنیادوں پر سوچنے کی قابلیت بڑھتی ہے، جو کہ تمام سائنس کی بنیاد ہے۔ اگر ہندوستان مریخ پر پہنچ سکتا ہے، تو پاکستان بھی پہنچ سکتا ہے، لیکن اس کے لیے پاکستان کو کئی مشکل کام کرنے ہوں گے۔ بالوں سے محروم ہونا سچ مچ دل کو توڑ دیتا ہے اور خود کو گنجا ہوتے دیکھنا کسی بھیانک خواب سے کم نہیں ہوتا۔ امیرانہ طرز زندگی کا خواب حیرت انگیز امر نہیں تاہم کچھ لڑکیاں اس خواب کی تعبیر کے لیے کچھ بھی کر گزرتی ہیں۔ کالعدم جماعت الدعوۃ کی تنظیم فلاح انسانیت کافی عرصے سے تھر میں نہ صرف سماجی، فلاحی اور ریلیف کے کاموں میں مصروف ہے۔ ذرائع کے مطابق جلسے میں شرکا کے لیے تقریباً 50 ہزار کرسیاں لگائی گئیں ہیں۔ بم ریلوے ٹریک پر نصب کیا گیا تھا اور جس وقت وہاں سے ٹرین گزری اس میں دھماکہ ہو گیا جس سے بوگیاں پٹری سے اتریں پشاور کے نواح میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کےقریب دھماکے میں دو اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اوگرا گائیڈ لائنز منظور کی ہیں جن کے تحت صارفین سے 69 ارب روپے کی وصولی کی جائے گی۔ باربی ڈول کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ آئندہ سال رنبیر کپور سے شادی کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ یہ حملہ نو نومبر کو کیا گیا جس میں دو اہم کمانڈرز سمیت چار افراد ہلاک ہوئے، ترجمان القاعدہ برصغیر۔ حکومت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی وجہ سے چیف کمشنر کے عہدے کے ممکنہ امیدوار کا نام صیغہ راز میں رکھ رہی ہے۔ چمن میں موسم سرما کے دوران کتوں کا مقابلہ ہوتا ہے جس کو دیکھنے کے لیے لوگ دور دراز سے یہاں پہنچتے ہیں۔ پشاور کے نواح میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کےقریب دھماکے میں دو اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔
مضمون: پروفیسر احتشام حسین کا شمار اردو کے نام ور نقادوں میں ہوتا ہے، خاص طور پر ترقی پسند تنقید کا ذکر ان کے نام کے بغیر نامکمل ہے۔ لیکن وہ صرف نقاد ہی نہیں تھے، بلکہ استاد، افسانہ نگار، سفر نامہ نگار، ڈرامہ نگار اور شاعر بھی تھے۔ آج اردو تنقید کا ایک اہم رجحان سائینٹفک تنقید ہے،احتشام حسین نے مارکسی تنقید کی بنیاد پر سائینٹفک تنقید کا نظریہ پیش کیا، یہ پہلے نقاد ہیں جنہوں نے مارکسی نظریات پر سائینٹفک تنقید کی بنیاد استوار کی۔ وہ ادب کو مقصد کا آلہ سمجھتے ہیں، وہ ادب کو فنی معیار پر ہی پرکھنا کافی نہیں سمجھتے بلکہ وہ اسے سماجی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے نزدیک معیاری ادب وہ ہے جو سماجی نقطۂ نظر سے مفید اور عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرنے والا اور ان کی زندگی خوشگوار بنانے والا ہو۔ ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں "اردو لسانیات کا خاکہ ، تنقیدی جائزے اور ادب اور سماج " کے علاوہ دیگر کتابیں بہت مشہور ہوئی ہیں ۔ ان کی زیر نظر اس کتاب میں شامل بیشتر مضامین مختلف رسائل میں شائع ہو چکے ہیں یا ادبی جلسوں میں پڑھے گئے ہیں۔ اس میں گیارہ عنوانات کے تحت اردو کے ہمہ جہت پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان میں ادبی تنقید کے مسائل، اقبال بہ حیثیت شاعر اور فلسفی ، جدید اردو شاعری اور سماجی کشمکش ، اردو ادب دوسری جنگ عظیم کے بعد، اترپردیش میں اردو نثر جیسے اہم موضوعات کے علاوہ " نیا ادب اور ترقی پسند ادب" پر ایک شاندار مباحثہ پیش کیا گیا ہے۔
مضمون: کیا انسان کے بالوں کی خرید وفروخت جائز ہے؟ اسی طرح اس سے بنے ہوئے بال استعمال کرسکتے ہیں؟ الجواب بعون الملك الوهاب زندہ یا مردہ انسان کے بالوں کی خرید وفروخت احترام انسانیت کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے۔ اور ان سے کسی قسم کا نفع اٹھانا بھی ناجائز ہے۔ ہاں عورت جانوروں کے بال اپنے بالوں کو بڑھانے کیلئے استعمال کرسکتی ہے اور مرد کو ایسا کرنے یا وِگ لگانے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں: وَشَعْرِ الْإِنْسَانِ وَالِانْتِفَاعِ بِهِ لَمْ يَجُزْ بَيْعُهُ وَالِانْتِفَاعُ بِهِ لِأَنَّ الْآدَمِيَّ مُكَرَّمٌ غَيْرُ مُبْتَذَلٍ فَلَا يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ شَيْءٌ مِنْ أَجْزَائِهِ مُهَانًا مُبْتَذَلًا، وَقَدْ قَالَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:« لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ» وَإِنَّمَا يُرَخَّصُ فِيمَا يُتَّخَذُ مِنْ الْوَبَرِ فَيَزِيدُ فِي قُرُونِ النِّسَاءِ وَذَوَائِبِهِنَّ. ترجمہ: انسان کے بالوں کی خرید وفروخت اور اس سے کسی قسم کا نفع اٹھانا ناجائز ہے کیونکہ آدمی محترم ہے اسکے کسی جزء کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالی ایسی عورت پر لعنت بھیجتا ہے جو اپنے بالوں میں انسانوں کے بال ملاتی ہے"۔ ہاں عورت کا اپنے مینڈھیوں میں جانوروں کے بالوں کو استعمال کرنے میں اجازت ہے۔ [ البحر الرائق، كتاب البيوع, باب بیع الفاسد، جلد:6 صفحہ:88، مطبوعہ دار الكتاب الاسلامی بیروت]۔
مضمون: عید کی خوشیاں ،عید کے رنگ عید ایک چھوٹا ساتین حرفی لفظ ہے جو عربی لفظ عود سے نکلا ہے، اس کے معنی لوٹ آنے اور بار بار آنے کے ہیں۔ عید کیونکہ ہر سال لوٹ آتی ہے اس لئے اس کا نام عید پڑگیا عید کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ ۔تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں جو عید کے تصور سے آشنا نہ ہو،قدیم تاریخی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمدن دنیا کے آغاز کے ساتھ ہی عید کا بھی آغاز ہو گیا تھا۔ چنانچہ ایک روایت ہے کہ جس روز حضرت آدم ؑ کی توبہ قبول ہوئی، اس روز دنیا میں پہلی بار عید منائی گئی تھی۔ دوسری بار عید اس وقت منائی گئی تھی جس روز ہابیل اور قابیل کی جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی قوم نے اس روز عید منائی تھی، جس روز آپ یعنی حضرت ابراہیم ؑ پر نمرود کی آگ گلزار ہوئی تھی۔ حضرت یونس ؑ کی امت اس روز عید مناتی ہے، جس روز حضرت یونسؑ کو مچھلی کی قید سے رہائی ملی تھی۔ حضرت موسیٰؑ کی قوم اس روز عید مناتی ہے، جس روز حضرت موسیٰؑ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔ حضرت عیسیٰ ؑ کی امت آج تک اس یوم سعیدکوعید مناتی ہے۔ جس روز حضرت عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی۔ دنیا کی تقریباً سبھی قوموں میں تہوار منانے کا رواج ہے اور مذہب کے لوگ اپنی روایت کے مطابق تہوار مناتے ہیں، اسلامی تہوار دوسرے مذہب کے لوگوں کے تہواروں سے بالکل مختلف اور جداگانہ نوعیت کے ہیں،اور ہمارے نبی کریمﷺ جب مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے تو وہاں کے لوگ چھوٹے چھوٹے تہواروں کے علاوہ نو روز کا جشن اور کچھ بڑے بڑے بتوں کی پوجا کا تہوار بھی مناتے تھے حضور ﷺ نے ان باتوں کو سخت نا پسند فرمایا اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے اپنی امت کے لئے دعا فرمائی اور دوعیدیں مسلمانوں کے لیے مقرر کر وا لیں، جب پہلی بار مسلمانوں پر روزے فرض ہوئے تو تاریخ اسلام کے اس پہلے رمضان المبارک میں حضور ﷺ نے مدینہ کے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہر قوم کے لئے عید ہوتی ہے تم بھی عیدیں مناتے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری عیدوں کو ان دو عیدوں سے بدل دیا ہے۔ اب تم ہر سال شان سے عیدالفطر اور عیدالا لضحیٰ منایا کرو۔ چنانچہ مسلمانوں نے اپنے پیارے رسول ﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں یکم شوال دو ہجری کو پہلی بار عید منائی، عید الفطر حقیقت میں مسلمانوں کی خوشی اور مسرت کا وہ محبوب دن ہے، جو سال بھر میں صرف ایک مرتبہ انہیں نصیب ہوتا ہے۔ایک ماہ مسلسل اللہ کی عبادت کا فریضہ ادا کر کے مسلمان اپنے دل میں مسرت اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کے قلب میں ایمان کی روشنی پیدا ہوتی ہے۔ اور ان کے دل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ روزے رکھ کر انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر لی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ ہر سال مسلمان چھوٹا بڑا امیر غریب مرد عورت غرض ہر شخص رمضان المبارک کے اختتام پر بڑے تزک واحتشام سے عید الفطر مناتے ہیں،جب رمضان کا با برکت مہینہ ختم ہوتا ہے اور چاند کی 29شام ہوتی ہے تو غروب آفتاب کا وقت قابل دید ہوتا ہے۔مکان کی چھتوں پر بچے اور بڑے بھی چڑھ جاتے ہیں مغرب کی طرف نظر جمائے دیکھتے ہیں کہ ہلال عید نظر آجائے۔ اس روز ہلال اس قدر باریک ہوتا ہے کہ اس کا نظر آنا آسمان صاف ہونے پر ہوتا ہے۔ اور کسی کی نگاہ ہلال کی چمک سے منور ہو جائے تو کیا کہتے ایک گونج پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ رہا چاند،درخت کی چھوٹی ٹہنی کے ساتھ پتوں کی اوٹ میں ادھر چاند ہوا۔ادھر نوبت نقارے بجنے لگے۔ ڈھول پٹنے لگے۔اس قدر چہل پہل اور گہما گہمی ہوئی۔ جیسے شام کی خاموشی جاگ اٹھی ہو بچوں کے لیے اجلے اور خوبصورت کپڑے دیکھے گئے لڑکیوں اور عورتوں نے مہندی لگائی رات اسی ذوق و شوق میں گزر گئی۔ صبح ہوئی تو گھروں میں سویاں پک گئیں اور نماز کے لیے عید گاہ پہنچے۔ مقررہ وقت پر نماز کی ادائیگی ہوئی۔ لوگ آپس میں بغل گیر ہونے لگے۔ گھر پہنچے بچے عیدی کا تقاضا کرنے لگے اس طرح یہ سلسلہ سارا دن جاری وساری رہتا ہے۔ آؤمل کر مانگیں دعائیں ہم عید کے دن باقی نہ رہے کوئی بھی غم عید کے دن ہر آنگن میں خوشیوں بھرا سورج اترے اور چمکتارہے ہر آنگن عید کے دن عیدالفطر کے پر مسرت موقع پر جو آپس میں کسی وجہ سے ناراض ہیں ان کو ایک دوسرے سے صلح کر لینی چاہیے اور بروز عید ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا چاہیے۔ خوشیاں لائی اس عید کے دن دل میں کوئی رنجش نہ رکھیں کیونکہ عید آتی ہے اور خوشیاں دے کر چلی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اور جب انسان اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے سرفراز ہو تو اسے چاہیے کہ وہ خوب خوشیاں منائے عید کے دن مسلمانوں کی مسر ت اور خوشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خدا کے احکامات کی ایک ماہ تک سختی سے تعمیل کی اور اس تعمیل کے بعد خوش و مسرور رہتے ہیں، حضرت ابوہریرہؓ ایک مشہور صحابی تھے آپ سے روایت کرتے ہیں، کہ عیدالفطر کے دن حضور میدان میں نماز ادا فرماتے نماز کی ادائیگی کے بعد لوگوں سے ملاقات کرتے گلے ملتے پھر واپس گھر آجاتے۔ آپ بھی خوب خوشیاں منائیں نئے کپڑے نئے جوتے خریدیں اور بڑوں سے عیدی بھی لیں اور چھوٹوں کو عیدی بھی دیں لیکن،لیکن اس کے ساتھ ہی ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اس خوشی کے موقع پر اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو بھی نہ بھولیں، حسب توفیق انہیں بھی اپنی عید کی خوشیوں میں ضرور شریک کریں۔عید اصل میں ہے ہی دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا نام ہے یا دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا نام ہے۔ یہ عید تیرے واسطے خوشیوں کا نگر ہو کیا خوب ہو ہر روز تیری عید اگر ہو اسلام کا کوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں اور پھر اسی مبارک مہینے میں زکٰو ۃ نکالی جاتی ہے یعنی امیر لوگ غریبوں کو دینے کے لئے ضرورت مندوں کی مددکرنے کے لیے اپنی جمع پونجی (آمدنی)میں سے اسلامی قوانین کے مطابق کچھ رقم نکالتے ہیں اور غریبوں میں اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ بہت سے غریب گھرانوں اور حاجت مندوں میں کھانے پینے کی چیزیں اور پہننے کے لئے کپڑے خرید لئے جاتے ہیں اور یوں سب عید کی خوشیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی ماہ صدقہ فطر دیا جاتا ہے جو ہر امیر،غریب،غلام پر واجب ہے ۔ اگر ہمارے پڑوس میں خاندان میں کوئی عید کی خوشیاں میں شامل نہیں ہو سکتا غربت کی وجہ سے تو اس کی مدد کرنے سے ہی عید کی دلی خوشیاں ملیں گئیں ، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی نے عوام میں سے اکثریت کی زندگی مشکل کر دی ہے ہم کو چاہیے خاص طور پر ان مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی تا کہ وہ غریب مسلمان بھی مسرتوں اور خوشیوں کا تھوڑا سا حصہ حاصل کر سکیں اور ویسے بھی ایک غریب مسلمان کی خوشی کے موقع پر بے لوث مدد اور خدمت کرنے سے جو روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے۔ اور ایسی مدد کرنے پر خدا اور رسول ﷺ بھی خوش ہوتے ہیں اور اگر ہو سکے تو ابھی سے ان کی مدد کر دیں تاکہ وہ اپنے بچوں کے لیے کپڑے خرید سکے ،یہ ہمارا ان پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف سے ہم پر فرض ہے ۔ اللہ نے ہم کو دیا ہے تو ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہے۔
المقال: عشرات الضحايا في غارات جديدة للتحالف على دير الزور والحسكة سقط عشرات القتلى والجرحى في صفوف المدنيين جراء غارات شنها طيران التحالف الدولي, ضد تنظيم "الدولة الاسلامية (داعش) في مناطق بريف دير الزور والحسكة. وذكرت مصادر مؤيدة, بحسب صفحاتها على مواقع التواصل الاجتماعي, ان طيران التحالف استهدف مشفى الطب النسائي ومحيط مركز إنعاش الريف وشارع البلعوم في مدينة الميادين بريف دير الزور الشرقي, وعلى منطقة التوسيعة وسط المدينة, ما اسفر عن سقوط عشرات القتلى والجرحى. كما شن طيران التحالف غارات بحق أهالي مدينة تدمر المُهجرين إلى مدينة الرقة , موقعا عدد من القتلى, بحسب المصادر. وكانت غارات لطيران التحالف الأمريكي استهدفت امس الثلاثاء قريتي ابوحمام والكشكية وبادية مدينة الميادين والريف الشرقي من مدينة دير الزور, ما ادى الى سقوط قتلى وجرحى.. كما شن طيران التحالف الاثنين الماضي غارات جوية في مدينة الميادين بريف دير الزور الجنوبي الشرقي ، ما أدى الى سقوط ضحايا بينهم اطفال. من جهة اخرى, اشارت المصادر الى ان التحالف شن غارة على قرية الدشيشة بريف الحسكة الجنوبي, ما اسفر عن قتيلين. ويشن طيران التحالف الدولي الذي تقوده الولايات المتحدة منذ عام 2014، ضد تنظيم "داعش"، غارات بشكل شبه يومي على مواقع التنظيم في المناطق الخاضعة تحت سيطرته لاسيما الرقة ودير الزور, ما يؤدى الى سقوط قتلى بين المدنيين جراء تلك الغارات. يشار الى ان التحالف الدولي اعترف, الشهر الجاري, بقتله 624 مدنياَ في سوريا والعراق, منذ بداية عملياته منذ عام 2014. وترفض الحكومة السورية عمليات التحالف ضد "داعش" بسوريا, وتصف تدخله بأنه "غير شرعي", كما توجه اتهامات متكررة له بارتكابه مجازر بحق المدنيين خلال عملياته ومحاربة من يكافح الارهاب وتدمير البنى التحتية . سيريانيوز
مضمون: سرینگر//پندرہ روز قبل اقدام خود کشی کرنے والا ایک سی آر پی ایف اہلکار صدر اسپتال سرینگر میں گذشتہ شب زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ بیٹھا۔ نیوز ایجنسی کے این او کے مطابق مذکورہ سی آر پی ایف اہلکار نے12اکتوبر کے روز اپنی سروس رائفل سے خود پر گولی چلائی تھی جس سے وہ شدید زخمی ہوا تھا۔اُس کی حالت گذشتہ شب مزید ابترہوئی جس کے بعد اُس نے آخری سانس لی۔ مذکورہ اہلکار کا تعلق سرینگر شیر گڑھی میں تعینات ڈی کمپنی کی141وین بٹالین سے تھا۔
README.md exists but content is empty.
Downloads last month
34