Poet
stringclasses
30 values
Poem_name
stringlengths
19
107
Poetry
stringlengths
68
2.22k
Jigar Moradabadi
یہ مصرع کاش نقش ہر در و دیوار ہو جائے، جگر مرادآبادی غزلیں
یہ مصرع کاش نقش ہر در و دیوار ہو جائے جسے جینا ہو مرنے کے لیے تیار ہو جائے وہی مے خوار ہے جو اس طرح مے خوار ہو جائے کہ شیشہ توڑ دے اور بے پیے سرشار ہو جائے دل انساں اگر شائستہ اسرار ہو جائے لب خاموش فطرت ہی لب گفتار ہو جائے ہر اک بے کار سی ہستی بروئے کار ہو جائے جنوں کی روح خوابیدہ اگر بیدار ہو جائے سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اسے بے پردہ دیکھے گی مجھے ڈر ہے نہ توہین جمال یار ہو جائے حریم ناز میں اس کی رسائی ہو تو کیوں کر ہو کہ جو آسودہ زیر سایۂ دیوار ہو جائے معاذ اللہ اس کی واردات غم معاذ اللہ چمن جس کا وطن ہو اور چمن بے زار ہو جائے یہی ہے زندگی تو زندگی سے خودکشی اچھی کہ انساں عالم انسانیت پر بار ہو جائے اک ایسی شان پیدا کر کہ باطل تھرتھرا اٹھے نظر تلوار بن جائے نفس جھنکار ہو جائے یہ روز و شب یہ صبح و شام یہ بستی یہ ویرانہ سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہو جائے
Gulzar
روکے روکے سے قدم رک کے بار بار چلے گلزار غزلیں
رکے رکے سے قدم رک کے بار بار چلے قرار دے کے ترے در سے بے قرار چلے اٹھائے پھرتے تھے احسان جسم کا جاں پر چلے جہاں سے تو یہ پیرہن اتار چلے نہ جانے کون سی مٹی وطن کی مٹی تھی نظر میں دھول جگر میں لیے غبار چلے سحر نہ آئی کئی بار نیند سے جاگے تھی رات رات کی یہ زندگی گزار چلے ملی ہے شمع سے یہ رسم عاشقی ہم کو گناہ ہاتھ پہ لے کر گناہ گار چلے
Akbar Allahabadi
طریق عشق میں مجھ کو کوئی کامل نہیں ملتا، اکبر الہ آبادی غزلیں
طریق عشق میں مجھ کو کوئی کامل نہیں ملتا گئے فرہاد و مجنوں اب کسی سے دل نہیں ملتا بھری ہے انجمن لیکن کسی سے دل نہیں ملتا ہمیں میں آ گیا کچھ نقص یا کامل نہیں ملتا پرانی روشنی میں اور نئی میں فرق اتنا ہے اسے کشتی نہیں ملتی اسے ساحل نہیں ملتا پہنچنا داد کو مظلوم کا مشکل ہی ہوتا ہے کبھی قاضی نہیں ملتے کبھی قاتل نہیں ملتا حریفوں پر خزانے ہیں کھلے یاں ہجر گیسو ہے وہاں پہ بل ہے اور یاں سانپ کا بھی بل نہیں ملتا یہ حسن و عشق ہی کا کام ہے شبہ کریں کس پر مزاج ان کا نہیں ملتا ہمارا دل نہیں ملتا چھپا ہے سینہ و رخ دل ستاں ہاتھوں سے کروٹ میں مجھے سوتے میں بھی وہ حسن سے غافل نہیں ملتا حواس و ہوش گم ہیں بحر عرفان الٰہی میں یہی دریا ہے جس میں موج کو ساحل نہیں ملتا کتاب دل مجھے کافی ہے اکبرؔ درس حکمت کو میں اسپنسر سے مستغنی ہوں مجھ سے مل نہیں ملتا
Parveen Shakir
کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہیے پروین شاکر غزلیں
کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہیے پانی کو اب تو سر سے گزر جانا چاہیے نشتر بدست شہر سے چارہ گری کی لو اے زخم بے کسی تجھے بھر جانا چاہیے ہر بار ایڑیوں پہ گرا ہے مرا لہو مقتل میں اب بہ طرز دگر جانا چاہیے کیا چل سکیں گے جن کا فقط مسئلہ یہ ہے جانے سے پہلے رخت سفر جانا چاہیے سارا جوار بھاٹا مرے دل میں ہے مگر الزام یہ بھی چاند کے سر جانا چاہیے جب بھی گئے عذاب در و بام تھا وہی آخر کو کتنی دیر سے گھر جانا چاہیے تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے
Ahmad Faraz
یوں ہی مر مر کے جئیں، وقت گزارے جائیں، احمد فراز کی غزلیں۔
یوں ہی مر مر کے جئیں وقت گزارے جائیں زندگی ہم ترے ہاتھوں سے نہ مارے جائیں اب زمیں پر کوئی گوتم نہ محمد نہ مسیح آسمانوں سے نئے لوگ اتارے جائیں وہ جو موجود نہیں اس کی مدد چاہتے ہیں وہ جو سنتا ہی نہیں اس کو پکارے جائیں باپ لرزاں ہے کہ پہنچی نہیں بارات اب تک اور ہم جولیاں دلہن کو سنوارے جائیں ہم کہ نادان جواری ہیں سبھی جانتے ہیں دل کی بازی ہو تو جی جان سے ہارے جائیں تج دیا تم نے در یار بھی اکتا کے فرازؔ اب کہاں ڈھونڈھنے غم خوار تمہارے جائیں
Mohsin Naqvi
گزلوں کی دھنک اوڑھ میرے شعلہ بدن تو، محسن نقوی غزلیں
غزلوں کی دھنک اوڑھ مرے شعلہ بدن تو ہے میرا سخن تو مرا موضوع سخن تو کلیوں کی طرح پھوٹ سر شاخ تمنا خوشبو کی طرح پھیل چمن تا بہ چمن تو نازل ہو کبھی ذہن پہ آیات کی صورت آیات میں ڈھل جا کبھی جبریل دہن تو اب کیوں نہ سجاؤں میں تجھے دیدہ و دل میں لگتا ہے اندھیرے میں سویرے کی کرن تو پہلے نہ کوئی رمز سخن تھی نہ کنایہ اب نقطۂ تکمیل ہنر محور فن تو یہ کم تو نہیں تو مرا معیار نظر ہے اے دوست مرے واسطے کچھ اور نہ بن تو ممکن ہو تو رہنے دے مجھے ظلمت جاں میں ڈھونڈے گا کہاں چاندنی راتوں کا کفن تو
Akbar Allahabadi
دلِ مایوس میں وہ شورشیں برپا نہیں ہوتیں، اکبر الہ آبادی غزلیں
دل مایوس میں وہ شورشیں برپا نہیں ہوتیں امیدیں اس قدر ٹوٹیں کہ اب پیدا نہیں ہوتیں مری بیتابیاں بھی جزو ہیں اک میری ہستی کی یہ ظاہر ہے کہ موجیں خارج از دریا نہیں ہوتیں وہی پریاں ہیں اب بھی راجا اندر کے اکھاڑے میں مگر شہزادۂ گلفام پر شیدا نہیں ہوتیں یہاں کی عورتوں کو علم کی پروا نہیں بے شک مگر یہ شوہروں سے اپنے بے پروا نہیں ہوتیں تعلق دل کا کیا باقی میں رکھوں بزم دنیا سے وہ دل کش صورتیں اب انجمن آرا نہیں ہوتیں ہوا ہوں اس قدر افسردہ رنگ باغ ہستی سے ہوائیں فصل گل کی بھی نشاط افزا نہیں ہوتیں قضا کے سامنے بے کار ہوتے ہیں حواس اکبرؔ کھلی ہوتی ہیں گو آنکھیں مگر بینا نہیں ہوتیں
Dagh Dehlvi
دل گیا، تم نے لیا، ہم کیا کریں؟ داغ دہلوی غزلیں
دل گیا تم نے لیا ہم کیا کریں جانے والی چیز کا غم کیا کریں ہم نے مر کر ہجر میں پائی شفا ایسے اچھوں کا وہ ماتم کیا کریں اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات اس بنا پر فکر عالم کیا کریں ایک ساغر پر ہے اپنی زندگی رفتہ رفتہ اس سے بھی کم کیا کریں کر چکے سب اپنی اپنی حکمتیں دم نکلتا ہو تو ہمدم کیا کریں دل نے سیکھا شیوۂ بیگانگی ایسے نامحرم کو محرم کیا کریں معرکہ ہے آج حسن و عشق کا دیکھیے وہ کیا کریں ہم کیا کریں آئینہ ہے اور وہ ہیں دیکھیے فیصلہ دونوں یہ باہم کیا کریں آدمی ہونا بہت دشوار ہے پھر فرشتے حرص آدم کیا کریں تند خو ہے کب سنے وہ دل کی بات اور بھی برہم کو برہم کیا کریں حیدرآباد اور لنگر یاد ہے اب کے دلی میں محرم کیا کریں کہتے ہیں اہل سفارش مجھ سے داغؔ تیری قسمت ہے بری ہم کیا کریں
Jigar Moradabadi
یہ ہے مئے کدہ، یہاں رند ہیں، یہاں سب کا ساقی امام ہے، جگر مرادآبادی غزلیں۔
یہ ہے مے کدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے میکدے سے نکال دو یہاں تنگ نظر کا گزر نہیں یہاں اہل ظرف کا کام ہے کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے مگر اس پہ کوئی کرے بھی کیا یہ تو میکدے کا نظام ہے یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہان سے جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے اسی کائنات میں اے جگرؔ کوئی انقلاب اٹھے گا پھر کہ بلند ہو کے بھی آدمی ابھی خواہشوں کا غلام ہے
Parveen Shakir
بچھڑا ہے جو ایک بار تو ملتے نہیں دیکھا پروین شاکر غزلیں
بچھڑا ہے جو اک بار تو ملتے نہیں دیکھا اس زخم کو ہم نے کبھی سلتے نہیں دیکھا اک بار جسے چاٹ گئی دھوپ کی خواہش پھر شاخ پہ اس پھول کو کھلتے نہیں دیکھا یک لخت گرا ہے تو جڑیں تک نکل آئیں جس پیڑ کو آندھی میں بھی ہلتے نہیں دیکھا کانٹوں میں گھرے پھول کو چوم آئے گی لیکن تتلی کے پروں کو کبھی چھلتے نہیں دیکھا کس طرح مری روح ہری کر گیا آخر وہ زہر جسے جسم میں کھلتے نہیں دیکھا
Bahadur Shah Zafar
لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں، بہادر شاہ ظفر غزلیں
لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں کانٹوں کو مت نکال چمن سے او باغباں یہ بھی گلوں کے ساتھ پلے ہیں بہار میں بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
Ahmad Faraz
جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو احمد فراز غزلیں
جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو اے جان جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو یہ خواب ہے خوشبو ہے کہ جھونکا ہے کہ پل ہے یہ دھند ہے بادل ہے کہ سایا ہے کہ تم ہو اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں میں ہوں کہ کوئی اور ہے دنیا ہے کہ تم ہو دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو یہ عمر گریزاں کہیں ٹھہرے تو یہ جانوں ہر سانس میں مجھ کو یہی لگتا ہے کہ تم ہو ہر بزم میں موضوع سخن دل زدگاں کا اب کون ہے شیریں ہے کہ لیلیٰ ہے کہ تم ہو اک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں اک موج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تم ہو وہ وقت نہ آئے کہ دل زار بھی سوچے اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو آباد ہم آشفتہ سروں سے نہیں مقتل یہ رسم ابھی شہر میں زندہ ہے کہ تم ہو اے جان فرازؔ اتنی بھی توفیق کسے تھی ہم کو غم ہستی بھی گوارا ہے کہ تم ہو
Sahir Ludhianvi
تم اپنا رنج و غم، اپنی پریشانی مجھے دے دو، ساحر لدھیانوی غزلیں
تم اپنا رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو تمہیں غم کی قسم اس دل کی ویرانی مجھے دے دو یہ مانا میں کسی قابل نہیں ہوں ان نگاہوں میں برا کیا ہے اگر یہ دکھ یہ حیرانی مجھے دے دو میں دیکھوں تو سہی دنیا تمہیں کیسے ستاتی ہے کوئی دن کے لئے اپنی نگہبانی مجھے دے دو وہ دل جو میں نے مانگا تھا مگر غیروں نے پایا ہے بڑی شے ہے اگر اس کی پشیمانی مجھے دے دو
Meer Taqi Meer
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو میر تقی میر غزلیں
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو عشق پیچے کی طرح حسن گرفتاری ہے لطف کیا سرو کی مانند گر آزاد رہو ہم کو دیوانگی شہروں ہی میں خوش آتی ہے دشت میں قیس رہو کوہ میں فرہاد رہو وہ گراں خواب جو ہے ناز کا اپنے سو ہے داد بیداد رہو شب کو کہ فریاد رہو میرؔ ہم مل کے بہت خوش ہوئے تم سے پیارے اس خرابے میں مری جان تم آباد رہو