title,content be-thikaane-hai-dil-e-gam-ghiin-thikaane-kii-kaho-firaq-gorakhpuri-ghazals," بے ٹھکانے ہے دل غمگیں ٹھکانے کی کہو شام ہجراں دوستو کچھ اس کے آنے کی کہو ہاں نہ پوچھ اک گرفتار قفس کی زندگی ہم صفیران چمن کچھ آشیانے کی کہو اڑ گیا ہے منزل دشوار میں غم کا سمند گیسوئے پر پیچ و خم کے تازیانے کی کہو بات بنتی اور باتوں سے نظر آتی نہیں اس نگاہ ناز کی باتیں بنانے کی کہو داستاں وہ تھی جسے دل بجھتے بجھتے کہہ گیا شمع بزم زندگی کے جھلملانے کی کہو کچھ دل مرحوم کی باتیں کرو اے اہل علم جس سے ویرانے تھے آباد اس دوانے کی کہو داستان زندگی بھی کس قدر دلچسپ ہے جو ازل سے چھڑ گیا ہے اس فسانے کی کہو یہ فسون نیم شب یہ خواب‌‌ ساماں خامشی سامری فن آنکھ کے جادو جگانے کی کہو کوئی کیا کھائے گا یوں سچی قسم جھوٹی قسم اس نگاہ ناز کی سوگندھ کھانے کی کہو شام ہی سے گوش بر آواز ہے بزم سخن کچھ فراقؔ اپنی سناؤ کچھ زمانے کی کہو " bahsen-chhidii-huii-hain-hayaat-o-mamaat-kii-firaq-gorakhpuri-ghazals," بحثیں چھڑی ہوئی ہیں حیات و ممات کی سو بات بن گئی ہے فراقؔ ایک بات کی ساز نوائے درد حجابات دہر میں کتنی دکھی ہوئی ہیں رگیں کائنات کی رکھ لی جنہوں نے کشمکش زندگی کی لاج بے دردیاں نہ پوچھئے ان سے حیات کی یوں فرط بے خودی سے محبت میں جان دے تجھ کو بھی کچھ خبر نہ ہو اس واردات کی ہے عشق اس تبسم جاں بخش کا شہید رنگینیاں لئے ہے جو صبح حیات کی چھیڑا ہے درد عشق نے تار رگ عدم صورت پکڑ چلی ہیں نوائیں حیات کی شام ابد کو جلوۂ صبح بہار دے روداد چھیڑ زندگیٔ بے ثبات کی اس بزم بے خودی میں وجود عدم کہاں چلتی نہیں ہے سانس حیات و ممات کی سو درد اک تبسم پنہاں میں بند ہیں تصویر ہوں فراقؔ نشاط حیات کی " aaj-bhii-qaafila-e-ishq-ravaan-hai-ki-jo-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals," آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا پھر ترا غم وہی رسوائے جہاں ہے کہ جو تھا پھر فسانہ بحدیث دگراں ہے کہ جو تھا منزلیں گرد کے مانند اڑی جاتی ہیں وہی انداز جہان گزراں ہے کہ جو تھا ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو ملا آج تک ایک دھندلکے کا سماں ہے کہ جو تھا یوں تو اس دور میں بے کیف سی ہے بزم حیات ایک ہنگامہ سر رطل گراں ہے کہ جو تھا لاکھ کر جور و ستم لاکھ کر احسان و کرم تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا آج پھر عشق دو عالم سے جدا ہوتا ہے آستینوں میں لیے کون و مکاں ہے کہ جو تھا عشق افسردہ نہیں آج بھی افسردہ بہت وہی کم کم اثر سوز نہاں ہے کہ جو تھا نظر آ جاتے ہیں تم کو تو بہت نازک بال دل مرا کیا وہی اے شیشہ گراں ہے کہ جو تھا جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا آج بھی صید گہ عشق میں حسن سفاک لیے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا پھر تری چشم سخن سنج نے چھیڑی کوئی بات وہی جادو ہے وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا رات بھر حسن پر آئے بھی گئے سو سو رنگ شام سے عشق ابھی تک نگراں ہے کہ جو تھا جو بھی کر جور و ستم جو بھی کر احسان و کرم تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا آنکھ جھپکی کہ ادھر ختم ہوا روز وصال پھر بھی اس دن پہ قیامت کا گماں ہے کہ جو تھا قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا تیرہ بختی نہیں جاتی دل سوزاں کی فراقؔ شمع کے سر پہ وہی آج دھواں ہے کہ جو تھا " tumhen-kyuunkar-bataaen-zindagii-ko-kyaa-samajhte-hain-firaq-gorakhpuri-ghazals," تمہیں کیوں کر بتائیں زندگی کو کیا سمجھتے ہیں سمجھ لو سانس لینا خودکشی کرنا سمجھتے ہیں کسی بدمست کو راز آشنا سب کا سمجھتے ہیں نگاہ یار تجھ کو کیا بتائیں کیا سمجھتے ہیں بس اتنے پر ہمیں سب لوگ دیوانہ سمجھتے ہیں کہ اس دنیا کو ہم اک دوسری دنیا سمجھتے ہیں کہاں کا وصل تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے ترے دم بھر کے مل جانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں امیدوں میں بھی ان کی ایک شان بے نیازی ہے ہر آسانی کو جو دشوار ہو جانا سمجھتے ہیں یہی ضد ہے تو خیر آنکھیں اٹھاتے ہیں ہم اس جانب مگر اے دل ہم اس میں جان کا کھٹکا سمجھتے ہیں کہیں ہوں تیرے دیوانے ٹھہر جائیں تو زنداں ہے جدھر کو منہ اٹھا کر چل پڑے صحرا سمجھتے ہیں جہاں کی فطرت بیگانہ میں جو کیف غم بھر دیں وہی جینا سمجھتے ہیں وہی مرنا سمجھتے ہیں ہمارا ذکر کیا ہم کو تو ہوش آیا محبت میں مگر ہم قیس کا دیوانہ ہو جانا سمجھتے ہیں نہ شوخی شوخ ہے اتنی نہ پرکار اتنی پرکاری نہ جانے لوگ تیری سادگی کو کیا سمجھتے ہیں بھلا دیں ایک مدت کی جفائیں اس نے یہ کہہ کر تجھے اپنا سمجھتے تھے تجھے اپنا سمجھتے ہیں یہ کہہ کر آبلہ پا روندتے جاتے ہیں کانٹوں کو جسے تلووں میں کر لیں جذب اسے صحرا سمجھتے ہیں یہ ہستی نیستی سب موج خیزی ہے محبت کی نہ ہم قطرہ سمجھتے ہیں نہ ہم دریا سمجھتے ہیں فراقؔ اس گردش ایام سے کب کام نکلا ہے سحر ہونے کو بھی ہم رات کٹ جانا سمجھتے ہیں " tez-ehsaas-e-khudii-darkaar-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals," تیز احساس خودی درکار ہے زندگی کو زندگی درکار ہے جو چڑھا جائے خمستان جہاں ہاں وہی لب تشنگی درکار ہے دیوتاؤں کا خدا سے ہوگا کام آدمی کو آدمی درکار ہے سو گلستاں جس اداسی پر نثار مجھ کو وہ افسردگی درکار ہے شاعری ہے سربسر تہذیب‌ قلب اس کو غم شائستگی درکار ہے شعلہ میں لاتا ہے جو سوز و گداز وہ خلوص باطنی درکار ہے خوبیٔ لفظ و بیاں سے کچھ سوا شاعری کو ساحری درکار ہے قادر مطلق کو بھی انسان کی سنتے ہیں بے چارگی درکار ہے اور ہوں گے طالب مدح جہاں مجھ کو بس تیری خوشی درکار ہے عقل میں یوں تو نہیں کوئی کمی اک ذرا دیوانگی درکار ہے ہوش والوں کو بھی میری رائے میں ایک گونہ بے خودی درکار ہے خطرۂ بسیار دانی کی قسم علم میں بھی کچھ کمی درکار ہے دوستو کافی نہیں چشم خرد عشق کو بھی روشنی درکار ہے میری غزلوں میں حقائق ہیں فقط آپ کو تو شاعری درکار ہے تیرے پاس آیا ہوں کہنے ایک بات مجھ کو تیری دوستی درکار ہے میں جفاؤں کا نہ کرتا یوں گلہ آج تیری ناخوشی درکار ہے اس کی زلف آراستہ پیراستہ اک ذرا سی برہمی درکار ہے زندہ دل تھا تازہ دم تھا ہجر میں آج مجھ کو بے دلی درکار ہے حلقہ حلقہ گیسوئے شب رنگ یار مجھ کو تیری ابتری درکار ہے عقل نے کل میرے کانوں میں کہا مجھ کو تیری زندگی درکار ہے تیز رو تہذیب عالم کو فراقؔ اک ذرا آہستگی درکار ہے " tuur-thaa-kaaba-thaa-dil-thaa-jalva-zaar-e-yaar-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals," طور تھا کعبہ تھا دل تھا جلوہ زار یار تھا عشق سب کچھ تھا مگر پھر عالم اسرار تھا نشۂ صد جام کیف انتظار یار تھا ہجر میں ٹھہرا ہوا دل ساغر سرشار تھا الوداع اے بزم انجم ہجر کی شب الفراق تا بہ دور‌ زندگانی انتظار یار تھا ایک ادا سے بے نیاز قرب و دوری کر دیا ماورائے وصل و ہجراں حسن کا اقرار تھا جوہر آئینۂ عالم بنے آنسو مرے یوں تو سچ یہ ہے کہ رونا عشق میں بے کار تھا شوخئ رفتار وجہ ہستئ برباد تھی زندگی کیا تھی غبار رہ گزار یار تھا الفت دیرینہ کا جب ذکر اشاروں میں کیا مسکرا کر مجھ سے پوچھا تم کو کس سے پیار تھا دل دکھے روئے ہیں شاید اس جگہ اے کوئے دوست خاک کا اتنا چمک جانا ذرا دشوار تھا ذرہ ذرہ آئنہ تھا خود نمائی کا فراقؔ سر بسر صحرائے عالم جلوہ زار یار تھا " ik-roz-hue-the-kuchh-ishaaraat-khafii-se-firaq-gorakhpuri-ghazals," اک روز ہوئے تھے کچھ اشارات خفی سے عاشق ہیں ہم اس نرگس رعنا کے جبھی سے کرنے کو ہیں دور آج تو تو یہ روگ ہی جی سے اب رکھیں گے ہم پیار نہ تم سے نہ کسی سے احباب سے رکھتا ہوں کچھ امید شرافت رہتے ہیں خفا مجھ سے بہت لوگ اسی سے کہتا ہوں اسے میں تو خصوصیت پنہاں کچھ تم کو شکایت ہے کسی سے تو مجھی سے اشعار نہیں ہیں یہ مری روح کی ہے پیاس جاری ہوئے سرچشمے مری تشنہ لبی سے آنسو کو مرے کھیل تماشا نہ سمجھنا کٹ جاتا ہے پتھر اسی ہیرے کی کنی سے یاد لب جاناں ہے چراغ دل رنجور روشن ہے یہ گھر آج اسی لعل یمنی سے افلاک کی محراب ہے آئی ہوئی انگڑائی بے کیف کچھ آفاق کی اعضا شکنی سے کچھ زیر لب الفاظ کھنکتے ہیں فضا میں گونجی ہوئی ہے بزم تری کم سخنی سے آج انجمن عشق نہیں انجمن عشق کس درجہ کمی بزم میں ہے تیری کمی سے اس وادئ ویراں میں ہے سر چشمۂ دل بھی ہستی مری سیراب ہے آنکھوں کی نمی سے خود مجھ کو بھی تا دیر خبر ہو نہیں پائی آج آئی تری یاد اس آہستہ روی سے وہ ڈھونڈھنے نکلی ہے تری نکہت گیسو اک روز ملا تھا میں نسیم سحری سے سب کچھ وہ دلا دے مجھے سب کچھ وہ بنا دے اے دوست نہیں دور تری کم نگہی سے میعاد دوام و ابد اک نیند ہے اس کی ہم منتہیٔ جلوۂ جاناں ہیں ابھی سے اک دل کے سوا پاس ہمارے نہیں کچھ بھی جو کام ہو لے لیتے ہیں ہم لوگ اسی سے معلوم ہوا اور ہے اک عالم اسرار آئینۂ ہستی کی پریشاں نظری سے اس سے تو کہیں بیٹھ رہے توڑ کے اب پاؤں مل جائے نجات عشق کو اس در بدری سے رہتا ہوں فراقؔ اس لئے وارفتہ کہ دنیا کچھ ہوش میں آ جائے مری بے خبری سے " zindagii-dard-kii-kahaanii-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals," زندگی درد کی کہانی ہے چشم انجم میں بھی تو پانی ہے بے نیازانہ سن لیا غم دل مہربانی ہے مہربانی ہے وہ بھلا میری بات کیا مانے اس نے اپنی بھی بات مانی ہے شعلۂ دل ہے یہ کہ شعلہ ساز یا ترا شعلۂ جوانی ہے وہ کبھی رنگ وہ کبھی خوشبو گاہ گل گاہ رات رانی ہے بن کے معصوم سب کو تاڑ گئی آنکھ اس کی بڑی سیانی ہے آپ بیتی کہو کہ جگ بیتی ہر کہانی مری کہانی ہے دونوں عالم ہیں جس کے زیر نگیں دل اسی غم کی راجدھانی ہے ہم تو خوش ہیں تری جفا پر بھی بے سبب تیری سرگرانی ہے سر بہ سر یہ فراز‌ مہر و قمر تیری اٹھتی ہوئی جوانی ہے آج بھی سن رہے ہیں قصۂ عشق گو کہانی بہت پرانی ہے ضبط کیجے تو دل ہے انگارا اور اگر روئیے تو پانی ہے ہے ٹھکانا یہ در ہی اس کا بھی دل بھی تیرا ہی آستانی ہے ان سے ایسے میں جو نہ ہو جائے نو جوانی ہے نو جوانی ہے دل مرا اور یہ غم دنیا کیا ترے غم کی پاسبانی ہے گردش چشم ساقیٔ دوراں دور افلاک کی بھی پانی ہے اے لب ناز کیا ہیں وہ اسرار خامشی جن کی ترجمانی ہے مے کدوں کے بھی ہوش اڑنے لگے کیا تری آنکھ کی جوانی ہے خودکشی پر ہے آج آمادہ ارے دنیا بڑی دوانی ہے کوئی اظہار ناخوشی بھی نہیں بد گمانی سی بد گمانی ہے مجھ سے کہتا تھا کل فرشتۂ عشق زندگی ہجر کی کہانی ہے بحر ہستی بھی جس میں کھو جائے بوند میں بھی وہ بیکرانی ہے مل گئے خاک میں ترے عشاق یہ بھی اک امر آسمانی ہے زندگی انتظار ہے تیرا ہم نے اک بات آج جانی ہے کیوں نہ ہو غم سے ہی قماش اس کا حسن تصویر شادمانی ہے سونی دنیا میں اب تو میں ہوں اور ماتم عشق آنجہانی ہے کچھ نہ پوچھو فراقؔ عہد شباب رات ہے نیند ہے کہانی ہے " sitaaron-se-ulajhtaa-jaa-rahaa-huun-firaq-gorakhpuri-ghazals," ستاروں سے الجھتا جا رہا ہوں شب فرقت بہت گھبرا رہا ہوں ترے غم کو بھی کچھ بہلا رہا ہوں جہاں کو بھی سمجھتا جا رہا ہوں یقیں یہ ہے حقیقت کھل رہی ہے گماں یہ ہے کہ دھوکے کھا رہا ہوں اگر ممکن ہو لے لے اپنی آہٹ خبر دو حسن کو میں آ رہا ہوں حدیں حسن و محبت کی ملا کر قیامت پر قیامت ڈھا رہا ہوں خبر ہے تجھ کو اے ضبط محبت ترے ہاتھوں میں لٹتا جا رہا ہوں اثر بھی لے رہا ہوں تیری چپ کا تجھے قائل بھی کرتا جا رہا ہوں بھرم تیرے ستم کا کھل چکا ہے میں تجھ سے آج کیوں شرما رہا ہوں انہیں میں راز ہیں گلباریوں کے میں جو چنگاریاں برسا رہا ہوں جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں ترے پہلو میں کیوں ہوتا ہے محسوس کہ تجھ سے دور ہوتا جا رہا ہوں حد‌‌ جور‌ و کرم سے بڑھ چلا حسن نگاہ یار کو یاد آ رہا ہوں جو الجھی تھی کبھی آدم کے ہاتھوں وہ گتھی آج تک سلجھا رہا ہوں محبت اب محبت ہو چلی ہے تجھے کچھ بھولتا سا جا رہا ہوں اجل بھی جن کو سن کر جھومتی ہے وہ نغمے زندگی کے گا رہا ہوں یہ سناٹا ہے میرے پاؤں کی چاپ فراقؔ اپنی کچھ آہٹ پا رہا ہوں " nigaah-e-naaz-ne-parde-uthaae-hain-kyaa-kyaa-firaq-gorakhpuri-ghazals," نگاہ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا حجاب اہل محبت کو آئے ہیں کیا کیا جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی چراغ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا دو چار برق تجلی سے رہنے والوں نے فریب نرم نگاہی کے کھائے ہیں کیا کیا دلوں پہ کرتے ہوئے آج آتی جاتی چوٹ تری نگاہ نے پہلو بچائے ہیں کیا کیا نثار نرگس مے گوں کہ آج پیمانے لبوں تک آئے ہوئے تھرتھرائے ہیں کیا کیا وہ اک ذرا سی جھلک برق کم نگاہی کی جگر کے زخم نہاں مسکرائے ہیں کیا کیا چراغ طور جلے آئنہ در آئینہ حجاب برق ادا نے اٹھائے ہیں کیا کیا بقدر ذوق نظر دید حسن کیا ہو مگر نگاہ شوق میں جلوے سمائے ہیں کیا کیا کہیں چراغ کہیں گل کہیں دل برباد خرام ناز نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا تغافل اور بڑھا اس غزال رعنا کا فسون غم نے بھی جادو جگائے ہیں کیا کیا ہزار فتنۂ بیدار خواب رنگیں میں چمن میں غنچۂ گل رنگ لائے ہیں کیا کیا ترے خلوص نہاں کا تو آہ کیا کہنا سلوک اچٹے بھی دل میں سمائے ہیں کیا کیا نظر بچا کے ترے عشوہ ہائے پنہاں نے دلوں میں درد محبت اٹھائے ہیں کیا کیا پیام حسن پیام جنوں پیام فنا تری نگہ نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا تمام حسن کے جلوے تمام محرومی بھرم نگاہ نے اپنے گنوائے ہیں کیا کیا فراقؔ راہ وفا میں سبک روی تیری بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا " kisii-kaa-yuun-to-huaa-kaun-umr-bhar-phir-bhii-firaq-gorakhpuri-ghazals," کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہ گزر پھر بھی کہوں یہ کیسے ادھر دیکھ یا نہ دیکھ ادھر کہ درد درد ہے پھر بھی نظر نظر پھر بھی خوشا اشارۂ پیہم زہے سکوت نظر دراز ہو کے فسانہ ہے مختصر پھر بھی جھپک رہی ہیں زمان و مکاں کی بھی آنکھیں مگر ہے قافلہ آمادۂ سفر پھر بھی شب فراق سے آگے ہے آج میری نظر کہ کٹ ہی جائے گی یہ شام بے سحر پھر بھی کہیں یہی تو نہیں کاشف حیات و ممات یہ حسن و عشق بظاہر ہیں بے خبر پھر بھی پلٹ رہے ہیں غریب الوطن پلٹنا تھا وہ کوچہ روکش جنت ہو گھر ہے گھر پھر بھی لٹا ہوا چمن عشق ہے نگاہوں کو دکھا گیا وہی کیا کیا گل و ثمر پھر بھی خراب ہو کے بھی سوچا کیے ترے مہجور یہی کہ تیری نظر ہے تری نظر پھر بھی ہو بے نیاز اثر بھی کبھی تری مٹی وہ کیمیا ہی سہی رہ گئی کسر پھر بھی لپٹ گیا ترا دیوانہ گرچہ منزل سے اڑی اڑی سی ہے یہ خاک رہ گزر پھر بھی تری نگاہ سے بچنے میں عمر گزری ہے اتر گیا رگ جاں میں یہ نیشتر پھر بھی غم فراق کے کشتوں کا حشر کیا ہوگا یہ شام ہجر تو ہو جائے گی سحر پھر بھی فنا بھی ہو کے گراں باریٔ حیات نہ پوچھ اٹھائے اٹھ نہیں سکتا یہ درد سر پھر بھی ستم کے رنگ ہیں ہر التفات پنہاں میں کرم نما ہیں ترے جور سر بسر پھر بھی خطا معاف ترا عفو بھی ہے مثل سزا تری سزا میں ہے اک شان در گزر پھر بھی اگرچہ بے خودیٔ عشق کو زمانہ ہوا فراقؔ کرتی رہی کام وہ نظر پھر بھی " junuun-e-kaargar-hai-aur-main-huun-firaq-gorakhpuri-ghazals," جنون کارگر ہے اور میں ہوں حیات بے خبر ہے اور میں ہوں مٹا کر دل نگاہ اولیں سے تقاضائے دگر ہے اور میں ہوں کہاں میں آ گیا اے زور پرواز وبال بال و پر ہے اور میں ہوں نگاہ اولیں سے ہو کے برباد تقاضائے دگر ہے اور میں ہوں مبارک باد ایام اسیری غم دیوار و در ہے اور میں ہوں تری جمعیتیں ہیں اور تو ہے حیات منتشر ہے اور میں ہوں کوئی ہو سست پیماں بھی تو یوں ہو یہ شام بے سحر ہے اور میں ہوں نگاہ بے محابا تیرے صدقے کئی ٹکڑے جگر ہے اور میں ہوں ٹھکانا ہے کچھ اس عذر ستم کا تری نیچی نظر ہے اور میں ہوں فراقؔ اک ایک حسرت مٹ رہی ہے یہ ماتم رات بھر ہے اور میں ہوں " narm-fazaa-kii-karvaten-dil-ko-dukhaa-ke-rah-gaiin-firaq-gorakhpuri-ghazals," نرم فضا کی کروٹیں دل کو دکھا کے رہ گئیں ٹھنڈی ہوائیں بھی تری یاد دلا کے رہ گئیں شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں مجھ کو خراب کر گئیں نیم نگاہیاں تری مجھ سے حیات و موت بھی آنکھیں چرا کے رہ گئیں حسن نظر فریب میں کس کو کلام تھا مگر تیری ادائیں آج تو دل میں سما کے رہ گئیں تب کہیں کچھ پتہ چلا صدق و خلوص حسن کا جب وہ نگاہیں عشق سے باتیں بنا کے رہ گئیں تیرے خرام ناز سے آج وہاں چمن کھلے فصلیں بہار کی جہاں خاک اڑا کے رہ گئیں پوچھ نہ ان نگاہوں کی طرفہ کرشمہ سازیاں فتنے سلا کے رہ گئیں فتنے جگا کے رہ گئیں تاروں کی آنکھ بھی بھر آئی میری صدائے درد پر ان کی نگاہیں بھی ترا نام بتا کے رہ گئیں اف یہ زمیں کی گردشیں آہ یہ غم کی ٹھوکریں یہ بھی تو بخت خفتہ کے شانے ہلا کے رہ گئیں اور تو اہل درد کون سنبھالتا بھلا ہاں تیری شادمانیاں ان کو رلا کے رہ گئیں یاد کچھ آئیں اس طرح بھولی ہوئی کہانیاں کھوے ہوئے دلوں میں آج درد اٹھا کے رہ گئیں ساز نشاط زندگی آج لرز لرز اٹھا کس کی نگاہیں عشق کا درد سنا کے رہ گئیں تم نہیں آئے اور رات رہ گئی راہ دیکھتی تاروں کی محفلیں بھی آج آنکھیں بچھا کے رہ گئیں جھوم کے پھر چلیں ہوائیں وجد میں آئیں پھر فضائیں پھر تری یاد کی گھٹائیں سینوں پہ چھا کے رہ گئیں قلب و نگاہ کی یہ عید اف یہ مآل قرب و دید چرخ کی گردشیں تجھے مجھ سے چھپا کے رہ گئیں پھر ہیں وہی اداسیاں پھر وہی سونی کائنات اہل طرب کی محفلیں رنگ جما کے رہ گئیں کون سکون دے سکا غم زدگان عشق کو بھیگتی راتیں بھی فراقؔ آگ لگا کے رہ گئیں " mai-kade-men-aaj-ik-duniyaa-ko-izn-e-aam-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals," میکدے میں آج اک دنیا کو اذن عام تھا دور جام بے خودی بیگانۂ ایام تھا روح لرزاں آنکھ محو دید دل ناکام تھا عشق کا آغاز بھی شائستۂ انجام تھا رفتہ رفتہ عشق کو تصویر غم کر ہی دیا حسن بھی کتنا خراب گردش ایام تھا غم کدے میں دہر کے یوں تو اندھیرا تھا مگر عشق کا داغ سیہ بختی چراغ شام تھا تیری دزدیدہ نگاہی یوں تو نا محسوس تھی ہاں مگر دفتر کا دفتر حسن کا پیغام تھا شاق اہل شوق پر تھیں اس کی عصمت داریاں سچ ہے لیکن حسن در پردہ بہت بد نام تھا محو تھے گلزار رنگا رنگ کے نقش و نگار وحشتیں تھی دل کے سناٹے تھے دشت شام تھا بے خطا تھا حسن ہر جور و جفا کے بعد بھی عشق کے سر تا ابد الزام ہی الزام تھا یوں گریباں چاک دنیا میں نہیں ہوتا کوئی ہر کھلا گلشن شہید گردش ایام تھا دیکھ حسن شرمگیں در پردہ کیا لایا ہے رنگ عشق رسوائے جہاں بدنام ہی بدنام تھا رونق بزم جہاں تھا گو دل غمگیں فراقؔ سرد تھا افسردہ تھا محروم تھا ناکام تھا " chhalak-ke-kam-na-ho-aisii-koii-sharaab-nahiin-firaq-gorakhpuri-ghazals," چھلک کے کم نہ ہو ایسی کوئی شراب نہیں نگاہ نرگس رعنا ترا جواب نہیں زمین جاگ رہی ہے کہ انقلاب ہے کل وہ رات ہے کوئی ذرہ بھی محو خواب نہیں حیات درد ہوئی جا رہی ہے کیا ہوگا اب اس نظر کی دعائیں بھی مستجاب نہیں زمین اس کی فلک اس کا کائنات اس کی کچھ ایسا عشق ترا خانماں خراب نہیں ابھی کچھ اور ہو انسان کا لہو پانی ابھی حیات کے چہرے پر آب و تاب نہیں جہاں کے باب میں تر دامنوں کا قول یہ ہے یہ موج مارتا دریا کوئی سراب نہیں دکھا تو دیتی ہے بہتر حیات کے سپنے خراب ہو کے بھی یہ زندگی خراب نہیں " ye-narm-narm-havaa-jhilmilaa-rahe-hain-charaag-firaq-gorakhpuri-ghazals," یہ نرم نرم ہوا جھلملا رہے ہیں چراغ ترے خیال کی خوشبو سے بس رہے ہیں دماغ دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ جھلکتی ہے کھنچی شمشیر میں نئی دنیا حیات و موت کے ملتے نہیں ہیں آج دماغ حریف سینۂ مجروح و آتش غم عشق نہ گل کی چاک گریبانیاں نہ لالے کے داغ وہ جن کے حال میں لو دے اٹھے غم فردا وہی ہیں انجمن زندگی کے چشم و چراغ تمام شعلۂ گل ہے تمام موج بہار کہ تا حد نگہ شوق لہلہاتے ہیں باغ نئی زمین نیا آسماں نئی دنیا سنا تو ہے کہ محبت کو ان دنوں ہے فراغ جو تہمتیں نہ اٹھیں اک جہاں سے ان کے سمیت گناہ گار محبت نکل گئے بے داغ جو چھپ کے تاروں کی آنکھوں سے پاؤں دھرتا ہے اسی کے نقش کف پا سے جل اٹھے ہیں چراغ جہان راز ہوئی جا رہی ہے آنکھ تری کچھ اس طرح وہ دلوں کا لگا رہی ہے سراغ زمانہ کود پڑا آگ میں یہی کہہ کر کہ خون چاٹ کے ہو جائے گی یہ آگ بھی باغ نگاہیں مطلع نو پر ہیں ایک عالم کی کہ مل رہا ہے کسی پھوٹتی کرن کا سراغ دلوں میں داغ محبت کا اب یہ عالم ہے کہ جیسے نیند میں ڈوبے ہوں پچھلی رات چراغ فراقؔ بزم چراغاں ہے محفل رنداں سجے ہیں پگھلی ہوئی آگ سے چھلکتے ایاغ " haath-aae-to-vahii-daaman-e-jaanaan-ho-jaae-firaq-gorakhpuri-ghazals," ہاتھ آئے تو وہی دامن جاناں ہو جائے چھوٹ جائے تو وہی اپنا گریباں ہو جائے عشق اب بھی ہے وہ محرم بیگانہ نما حسن یوں لاکھ چھپے لاکھ نمایاں ہو جائے ہوش و غفلت سے بہت دور ہے کیفیت عشق اس کی ہر بے خبری منزل عرفاں ہو جائے یاد آتی ہے جب اپنی تو تڑپ جاتا ہوں میری ہستی ترا بھولا ہوا پیماں ہو جائے آنکھ وہ ہے جو تری جلوہ گہہ ناز بنے دل وہی ہے جو سراپا ترا ارماں ہو جائے پاک بازان محبت میں جو بے باکی ہے حسن گر اس کو سمجھ لے تو پشیماں ہو جائے سہل ہو کر ہوئی دشوار محبت تیری اسے مشکل جو بنا لیں تو کچھ آساں ہو جائے عشق پھر عشق ہے جس روپ میں جس بھیس میں ہو عشرت وصل بنے یا غم ہجراں ہو جائے کچھ مداوا بھی ہو مجروح دلوں کا اے دوست مرہم زخم ترا جور‌ پشیماں ہو جائے یہ بھی سچ ہے کوئی الفت میں پریشاں کیوں ہو یہ بھی سچ ہے کوئی کیوں کر نہ پریشاں ہو جائے عشق کو عرض تمنا میں بھی لاکھوں پس و پیش حسن کے واسطے انکار بھی آساں ہو جائے جھلملاتی ہے سر بزم جہاں شمع خودی جو یہ بجھ جائے چراغ رہ عرفاں ہو جائے سر شوریدہ دیا دشت و بیاباں بھی دیے یہ مری خوبیٔ قسمت کہ وہ زنداں ہو جائے عقدۂ عشق عجب عقدۂ مہمل ہے فراقؔ کبھی لاحل کبھی مشکل کبھی آساں ہو جائے " ras-men-duubaa-huaa-lahraataa-badan-kyaa-kahnaa-firaq-gorakhpuri-ghazals," رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا کروٹیں لیتی ہوئی صبح چمن کیا کہنا نگہ ناز میں یہ پچھلے پہر رنگ خمار نیند میں ڈوبی ہوئی چندر کرن کیا کہنا باغ جنت پہ گھٹا جیسے برس کے کھل جائے یہ سہانی تری خوشبوئے بدن کیا کہنا ٹھہری ٹھہری سی نگاہوں میں یہ وحشت کی کرن چونکے چونکے سے یہ آہوئے ختن کیا کہنا روپ سنگیت نے دھارا ہے بدن کا یہ رچاؤ تجھ پہ لہلوٹ ہے بے ساختہ پن کیا کہنا جیسے لہرائے کوئی شعلہ کمر کی یہ لچک سر بسر آتش سیال بدن کیا کہنا جس طرح جلوۂ فردوس ہواؤں سے چھنے پیرہن میں ترے رنگینیٔ تن کیا کہنا جلوہ و پردے کا یہ رنگ دم نظارہ جس طرح ادھ کھلے گھونگھٹ میں دلہن کیا کہنا دم تقریر کھل اٹھتے ہیں گلستاں کیا کیا یوں تو اک غنچۂ نورس ہے دہن کیا کہنا دل کے آئینے میں اس طرح اترتی ہے نگاہ جیسے پانی میں لچک جائے کرن کیا کہنا لہلہاتا ہوا یہ قد یہ لہکتا جوبن زلف سو مہکی ہوئی راتوں کا بن کیا کہنا تو محبت کا ستارہ تو جوانی کا سہاگ حسن لو دیتا ہے لعل یمن کیا کہنا تیری آواز سویرا تری باتیں تڑکا آنکھیں کھل جاتی ہیں اعجاز سخن کیا کہنا زلف شب گوں کی چمک پیکر سیمیں کی دمک دیپ مالا ہے سر گنگ و جمن کیا کہنا نیلگوں شبنمی کپڑوں میں بدن کی یہ جوت جیسے چھنتی ہو ستاروں کی کرن کیا کہنا " vaqt-e-guruub-aaj-karaamaat-ho-gaii-firaq-gorakhpuri-ghazals," وقت غروب آج کرامات ہو گئی زلفوں کو اس نے کھول دیا رات ہو گئی کل تک تو اس میں ایسی کرامت نہ تھی کوئی وہ آنکھ آج قبلۂ حاجات ہو گئی اے سوز عشق تو نے مجھے کیا بنا دیا میری ہر ایک سانس مناجات ہو گئی اوچھی نگاہ ڈال کے اک سمت رکھ دیا دل کیا دیا غریب کی سوغات ہو گئی کچھ یاد آ گئی تھی وہ زلف شکن شکن ہستی تمام چشمۂ ظلمات ہو گئی اہل وطن سے دور جدائی میں یار کی صبر آ گیا فراقؔ کرامات ہو گئی " ab-aksar-chup-chup-se-rahen-hain-yuunhii-kabhuu-lab-kholen-hain-firaq-gorakhpuri-ghazals," اب اکثر چپ چپ سے رہیں ہیں یونہی کبھو لب کھولیں ہیں پہلے فراقؔ کو دیکھا ہوتا اب تو بہت کم بولیں ہیں دن میں ہم کو دیکھنے والو اپنے اپنے ہیں اوقات جاؤ نہ تم ان خشک آنکھوں پر ہم راتوں کو رو لیں ہیں فطرت میری عشق و محبت قسمت میری تنہائی کہنے کی نوبت ہی نہ آئی ہم بھی کسو کے ہو لیں ہیں خنک سیہ مہکے ہوئے سائے پھیل جائیں ہیں جل تھل پر کن جتنوں سے میری غزلیں رات کا جوڑا کھولیں ہیں باغ میں وہ خواب آور عالم موج صبا کے اشاروں پر ڈالی ڈالی نورس پتے سہج سہج جب ڈولیں ہیں اف وہ لبوں پر موج تبسم جیسے کروٹیں لیں کوندے ہائے وہ عالم جنبش مژگاں جب فتنے پر تولیں ہیں نقش و نگار غزل میں جو تم یہ شادابی پاؤ ہو ہم اشکوں میں کائنات کے نوک قلم کو ڈبو لیں ہیں ان راتوں کو حریم ناز کا اک عالم ہوئے ہے ندیم خلوت میں وہ نرم انگلیاں بند قبا جب کھولیں ہیں غم کا فسانہ سننے والو آخر شب آرام کرو کل یہ کہانی پھر چھیڑیں گے ہم بھی ذرا اب سو لیں ہیں ہم لوگ اب تو اجنبی سے ہیں کچھ تو بتاؤ حال فراقؔ اب تو تمہیں کو پیار کریں ہیں اب تو تمہیں سے بولیں ہیں " mujh-ko-maaraa-hai-har-ik-dard-o-davaa-se-pahle-firaq-gorakhpuri-ghazals," مجھ کو مارا ہے ہر اک درد و دوا سے پہلے دی سزا عشق نے ہر جرم و خطا سے پہلے آتش عشق بھڑکتی ہے ہوا سے پہلے ہونٹ جلتے ہیں محبت میں دعا سے پہلے فتنے برپا ہوئے ہر غنچۂ سربستہ سے کھل گیا راز چمن چاک قبا سے پہلے چال ہے بادۂ ہستی کا چھلکتا ہوا جام ہم کہاں تھے ترے نقش کف پا سے پہلے اب کمی کیا ہے ترے بے سر و سامانوں کو کچھ نہ تھا تیری قسم ترک وفا سے پہلے عشق بے باک کو دعوے تھے بہت خلوت میں کھو دیا سارا بھرم شرم و حیا سے پہلے خود بخود چاک ہوئے پیرہن لالہ و گل چل گئی کون ہوا باد صبا سے پہلے ہم سفر راہ عدم میں نہ ہو تاروں بھری رات ہم پہنچ جائیں گے اس آبلہ پا سے پہلے پردۂ شرم میں صد برق تبسم کے نثار ہوش جاتے رہے نیرنگ حیا سے پہلے موت کے نام سے ڈرتے تھے ہم اے شوق حیات تو نے تو مار ہی ڈالا تھا قضا سے پہلے بے تکلف بھی ترا حسن خود آرا تھا کبھی اک ادا اور بھی تھی حسن ادا سے پہلے غفلتیں ہستئ فانی کی بتا دیں گی تجھے جو مرا حال تھا احساس فنا سے پہلے ہم انہیں پا کے فراقؔ اور بھی کچھ کھوئے گئے یہ تکلف تو نہ تھے عہد وفا سے پہلے " aankhon-men-jo-baat-ho-gaii-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals," آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے اک شرح حیات ہو گئی ہے جب دل کی وفات ہو گئی ہے ہر چیز کی رات ہو گئی ہے غم سے چھٹ کر یہ غم ہے مجھ کو کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے مدت سے خبر ملی نہ دل کی شاید کوئی بات ہو گئی ہے جس شے پہ نظر پڑی ہے تیری تصویر حیات ہو گئی ہے اب ہو مجھے دیکھیے کہاں صبح ان زلفوں میں رات ہو گئی ہے دل میں تجھ سے تھی جو شکایت اب غم کے نکات ہو گئی ہے اقرار گناہ عشق سن لو مجھ سے اک بات ہو گئی ہے جو چیز بھی مجھ کو ہاتھ آئی تیری سوغات ہو گئی ہے کیا جانیے موت پہلے کیا تھی اب میری حیات ہو گئی ہے گھٹتے گھٹتے تری عنایت میری اوقات ہو گئی ہے اس چشم سیہ کی یاد یکسر شام ظلمات ہو گئی ہے اس دور میں زندگی بشر کی بیمار کی رات ہو گئی ہے جیتی ہوئی بازیٔ محبت کھیلا ہوں تو مات ہو گئی ہے مٹنے لگیں زندگی کی قدریں جب غم سے نجات ہو گئی ہے وہ چاہیں تو وقت بھی بدل جائے جب آئے ہیں رات ہو گئی ہے دنیا ہے کتنی بے ٹھکانہ عاشق کی برات ہو گئی ہے پہلے وہ نگاہ اک کرن تھی اب برق صفات ہو گئی ہے جس چیز کو چھو دیا ہے تو نے اک برگ نبات ہو گئی ہے اکا دکا صدائے زنجیر زنداں میں رات ہو گئی ہے ایک ایک صفت فراقؔ اس کی دیکھا ہے تو ذات ہو گئی ہے " ye-nikhaton-kii-narm-ravii-ye-havaa-ye-raat-firaq-gorakhpuri-ghazals," یہ نکہتوں کی نرم روی یہ ہوا یہ رات یاد آ رہے ہیں عشق کو ٹوٹے تعلقات مایوسیوں کی گود میں دم توڑتا ہے عشق اب بھی کوئی بنا لے تو بگڑی نہیں ہے بات کچھ اور بھی تو ہو ان اشارات کے سوا یہ سب تو اے نگاہ کرم بات بات بات اک عمر کٹ گئی ہے ترے انتظار میں ایسے بھی ہیں کہ کٹ نہ سکی جن سے ایک رات ہم اہل انتظار کے آہٹ پہ کان تھے ٹھنڈی ہوا تھی غم تھا ترا ڈھل چلی تھی رات یوں تو بچی بچی سی اٹھی وہ نگاہ ناز دنیائے دل میں ہو ہی گئی کوئی واردات جن کا سراغ پا نہ سکی غم کی روح بھی ناداں ہوئے ہیں عشق میں ایسے بھی سانحات ہر سعی و ہر عمل میں محبت کا ہاتھ ہے تعمیر زندگی کے سمجھ کچھ محرکات اس جا تری نگاہ مجھے لے گئی جہاں لیتی ہو جیسے سانس یہ بے جان کائنات کیا نیند آئے اس کو جسے جاگنا نہ آئے جو دن کو دن کرے وہ کرے رات کو بھی رات دریا کے مد و جزر بھی پانی کے کھیل ہیں ہستی ہی کے کرشمے ہیں کیا موت کیا حیات اہل رضا میں شان بغاوت بھی ہو ذرا اتنی بھی زندگی نہ ہو پابند رسمیات ہم اہل غم نے رنگ زمانہ بدل دیا کوشش تو کی سبھی نے مگر بن پڑے کی بات پیدا کرے زمین نئی آسماں نیا اتنا تو لے کوئی اثر دور کائنات شاعر ہوں گہری نیند میں ہیں جو حقیقتیں چونکا رہے ہیں ان کو بھی میرے توہمات مجھ کو تو غم نے فرصت غم بھی نہ دی فراقؔ دے فرصت حیات نہ جیسے غم حیات " aaii-hai-kuchh-na-puuchh-qayaamat-kahaan-kahaan-firaq-gorakhpuri-ghazals," آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں اف لے گئی ہے مجھ کو محبت کہاں کہاں بیتابی و سکوں کی ہوئیں منزلیں تمام بہلائیں تجھ سے چھٹ کے طبیعت کہاں کہاں فرقت ہو یا وصال وہی اضطراب ہے تیرا اثر ہے اے غم فرقت کہاں کہاں ہر جنبش نگاہ میں صد کیف بے خودی بھرتی پھرے گی حسن کی نیت کہاں کہاں راہ طلب میں چھوڑ دیا دل کا ساتھ بھی پھرتے لیے ہوئے یہ مصیبت کہاں کہاں دل کے افق تک اب تو ہیں پرچھائیاں تری لے جائے اب تو دیکھ یہ وحشت کہاں کہاں اے نرگس سیاہ بتا دے ترے نثار کس کس کو ہے یہ ہوش یہ غفلت کہاں کہاں نیرنگ عشق کی ہے کوئی انتہا کہ یہ یہ غم کہاں کہاں یہ مسرت کہاں کہاں بیگانگی پر اس کی زمانے سے احتراز در پردہ اس ادا کی شکایت کہاں کہاں فرق آ گیا تھا دور حیات و ممات میں آئی ہے آج یاد وہ صورت کہاں کہاں جیسے فنا بقا میں بھی کوئی کمی سی ہو مجھ کو پڑی ہے تیری ضرورت کہاں کہاں دنیا سے اے دل اتنی طبیعت بھری نہ تھی تیرے لئے اٹھائی ندامت کہاں کہاں اب امتیاز عشق و ہوس بھی نہیں رہا ہوتی ہے تیری چشم عنایت کہاں کہاں ہر گام پر طریق محبت میں موت تھی اس راہ میں کھلے در رحمت کہاں کہاں ہوش و جنوں بھی اب تو بس اک بات ہیں فراقؔ ہوتی ہے اس نظر کی شرارت کہاں کہاں " kuchh-na-kuchh-ishq-kii-taasiir-kaa-iqraar-to-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals," کچھ نہ کچھ عشق کی تاثیر کا اقرار تو ہے اس کا الزام تغافل پہ کچھ انکار تو ہے ہر فریب غم دنیا سے خبردار تو ہے تیرا دیوانہ کسی کام میں ہشیار تو ہے دیکھ لیتے ہیں سبھی کچھ ترے مشتاق جمال خیر دیدار نہ ہو حسرت دیدار تو ہے معرکے سر ہوں اسی برق نظر سے اے حسن یہ چمکتی ہوئی چلتی ہوئی تلوار تو ہے سر پٹکنے کو پٹکتا ہے مگر رک رک کر تیرے وحشی کو خیال در و دیوار تو ہے عشق کا شکوۂ بے جا بھی نہ بے کار گیا نہ سہی جور مگر جور کا اقرار تو ہے تجھ سے ہمت تو پڑی عشق کو کچھ کہنے کی خیر شکوہ نہ سہی شکر کا اظہار تو ہے اس میں بھی رابطۂ خاص کی ملتی ہے جھلک خیر اقرار محبت نہ ہو انکار تو ہے کیوں جھپک جاتی ہے رہ رہ کے تری برق نگاہ یہ جھجک کس لئے اک کشتۂ دیدار تو ہے کئی عنوان ہیں ممنون کرم کرنے کے عشق میں کچھ نہ سہی زندگی بیکار تو ہے سحر و شام سر انجمن ناز نہ ہو جلوۂ حسن تو ہے عشق سیہ کار تو ہے چونک اٹھتے ہیں فراقؔ آتے ہی اس شوخ کا نام کچھ سراسیمگیٔ عشق کا اقرار تو ہے " rukii-rukii-sii-shab-e-marg-khatm-par-aaii-firaq-gorakhpuri-ghazals-1," رکی رکی سی شب مرگ ختم پر آئی وہ پو پھٹی وہ نئی زندگی نظر آئی یہ موڑ وہ ہے کہ پرچھائیاں بھی دیں گی نہ ساتھ مسافروں سے کہو اس کی رہ گزر آئی فضا تبسم صبح بہار تھی لیکن پہنچ کے منزل جاناں پہ آنکھ بھر آئی کہیں زمان و مکاں میں ہے نام کو بھی سکوں مگر یہ بات محبت کی بات پر آئی کسی کی بزم طرب میں حیات بٹتی تھی امید واروں میں کل موت بھی نظر آئی کہاں ہر ایک سے انسانیت کا بار اٹھا کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی دلوں میں آج تری یاد مدتوں کے بعد بہ چہرۂ متبسم بہ چشم تر آئی نیا نہیں ہے مجھے مرگ ناگہاں کا پیام ہزار رنگ سے اپنی مجھے خبر آئی فضا کو جیسے کوئی راگ چیرتا جائے تری نگاہ دلوں میں یوں ہی اتر آئی ذرا وصال کے بعد آئنہ تو دیکھ اے دوست ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی ترا ہی عکس سرشک غم زمانہ میں تھا نگاہ میں تری تصویر سی اتر آئی عجب نہیں کہ چمن در چمن بنے ہر پھول کلی کلی کی صبا جا کے گود بھر آئی شب فراقؔ اٹھے دل میں اور بھی کچھ درد کہوں یہ کیسے تری یاد رات بھر آئی " bahut-pahle-se-un-qadmon-kii-aahat-jaan-lete-hain-firaq-gorakhpuri-ghazals," بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں مری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں جسے کہتی ہے دنیا کامیابی وائے نادانی اسے کن قیمتوں پر کامیاب انسان لیتے ہیں نگاہ بادہ گوں یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں حیات عشق کا اک اک نفس جام شہادت ہے وہ جان ناز برداراں کوئی آسان لیتے ہیں ہم آہنگی میں بھی اک چاشنی ہے اختلافوں کی مری باتیں بعنوان دگر وہ مان لیتے ہیں تری مقبولیت کی وجہ واحد تیری رمزیت کہ اس کو مانتے ہی کب ہیں جس کو جان لیتے ہیں اب اس کو کفر مانیں یا بلندیٔ نظر جانیں خدائے دو جہاں کو دے کے ہم انسان لیتے ہیں جسے صورت بتاتے ہیں پتہ دیتی ہے سیرت کا عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبار الفت میں ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں ہماری ہر نظر تجھ سے نئی سوگندھ کھاتی ہے تو تیری ہر نظر سے ہم نیا پیمان لیتے ہیں رفیق زندگی تھی اب انیس وقت آخر ہے ترا اے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں زمانہ واردات قلب سننے کو ترستا ہے اسی سے تو سر آنکھوں پر مرا دیوان لیتے ہیں فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں " har-naala-tire-dard-se-ab-aur-hii-kuchh-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals," ہر نالہ ترے درد سے اب اور ہی کچھ ہے ہر نغمہ سر بزم طرب اور ہی کچھ ہے ارباب وفا جان بھی دینے کو ہیں تیار ہستی کا مگر حسن طلب اور ہی کچھ ہے یہ کام نہ لے نالہ و فریاد و فغاں سے افلاک الٹ دینے کا ڈھب اور ہی کچھ ہے اک سلسلۂ راز ہے جینا کہ ہو مرنا جب اور ہی کچھ تھا مگر اب اور ہی کچھ ہے کچھ مہر قیامت ہے نہ کچھ نار جہنم ہشیار کہ وہ قہر و غضب اور ہی کچھ ہے مذہب کی خرابی ہے نہ اخلاق کی پستی دنیا کے مصائب کا سبب اور ہی کچھ ہے بیہودہ سری سجدے میں ہے جان کھپانا آئین محبت میں ادب اور ہی کچھ ہے کیا حسن کے انداز تغافل کی شکایت پیمان وفا عشق کا جب اور ہی کچھ ہے دنیا کو جگا دے جو عدم کو بھی سلا دے سنتے ہیں کہ وہ روز وہ شب اور ہی کچھ ہے آنکھوں نے فراقؔ آج نہ پوچھو جو دکھایا جو کچھ نظر آتا ہے وہ سب اور ہی کچھ ہے " chhed-ai-dil-ye-kisii-shokh-ke-rukhsaaron-se-firaq-gorakhpuri-ghazals," چھیڑ اے دل یہ کسی شوخ کے رخساروں سے کھیلنا آہ دہکتے ہوئے انگاروں سے ہم شب ہجر میں جب سوتی ہے ساری دنیا ذکر کرتے ہیں ترا چھٹکے ہوئے تاروں سے اشک بھر لائے کسی نے جو ترا نام لیا اور کیا ہجر میں ہوتا ترے بیماروں سے چھیڑ نغمہ کوئی گو دل کی شکستہ ہیں رگیں ہم نکالیں گے صدا ٹوٹے ہوئے تاروں سے ہم کو تیری ہے ضرورت نہ اسے بھول اے دوست تیرے اقراروں سے مطلب ہے نہ انکاروں سے ہم ہیں وہ بیکس و بے یار کہ بیٹھے بیٹھے اپنا دکھ درد کہا کرتے ہیں دیواروں سے اہل دنیا سے یہ کہتے ہیں مرے نالۂ دل ہم صدا دیں گے غم ہجر کے میناروں سے عشق ہمدردیٔ عالم کا روادار نہیں ہو گئی بھول فراقؔ آپ کے غم خواروں سے " zamiin-badlii-falak-badlaa-mazaaq-e-zindagii-badlaa-firaq-gorakhpuri-ghazals," زمیں بدلی فلک بدلا مذاق زندگی بدلا تمدن کے قدیم اقدار بدلے آدمی بدلا خدا و اہرمن بدلے وہ ایمان دوئی بدلا حدود خیر و شر بدلے مذاق کافری بدلا نئے انسان کا جب دور خود نا آگہی بدلا رموز بے خودی بدلے تقاضائے‌ خودی بدلا بدلتے جا رہے ہیں ہم بھی دنیا کو بدلنے میں نہیں بدلی ابھی دنیا تو دنیا کو ابھی بدلا نئی منزل کے میر کارواں بھی اور ہوتے ہیں پرانے خضر رہ بدلے وہ طرز رہبری بدلا کبھی سوچا بھی ہے اے نظم کہنہ کے خداوندو تمہارا حشر کیا ہوگا جو یہ عالم کبھی بدلا ادھر پچھلے سے اہل‌‌ مال و زر پر رات بھاری ہے ادھر بیداری جمہور کا انداز بھی بدلا زہے سوز‌ غم آدم خوشا ساز دل آدم اسی اک شمع کی لو نے جہان تیرگی بدلا نئے منصور ہیں صدیوں پرانے شیخ و قاضی ہیں نہ فتوے کفر کے بدلے نہ عذر دار ہی بدلا بتائے تو بتائے اس کو تیری شوخئ پنہاں تری چشم توجہ ہے کہ طرز بے رخی بدلا بہ فیض آدم خاکی زمیں سونا اگلتی ہے اسی ذرے نے دور مہر و ماہ و مشتری بدلا ستارے جاگتے ہیں رات لٹ چھٹکائے سوتی ہے دبے پاؤں کسی نے آ کے خواب زندگی بدلا فراقؔ ہمنوائے‌‌ میرؔ و غالبؔ اب نئے نغمے وہ بزم زندگی بدلی وہ رنگ شاعری بدلا " dete-hain-jaam-e-shahaadat-mujhe-maaluum-na-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals," دیتے ہیں جام شہادت مجھے معلوم نہ تھا ہے یہ آئین محبت مجھے معلوم نہ تھا مطلب چشم مروت مجھے معلوم نہ تھا تجھ کو مجھ سے تھی شکایت مجھے معلوم نہ تھا چشم خاموش کی بابت مجھے معلوم نہ تھا یہ بھی ہے حرف و حکایت مجھے معلوم نہ تھا عشق بس میں ہے مشیت کے عقیدہ تھا مرا اس کے بس میں ہے مشیت مجھے معلوم نہ تھا ہفت خواں جس نے کئے طے سر راہ تسلیم ٹوٹ جاتی ہے وہ ہمت مجھے معلوم نہ تھا آج ہر قطرۂ مے بن گیا اک چنگاری تھی یہ ساقی کی شرارت مجھے معلوم نہ تھا نگہ مست نے تلوار اٹھا لی سر بزم یوں بدل جاتی ہے نیت مجھے معلوم نہ تھا غم ہستی سے جو بیزار رہا میں اک عمر تجھ سے بھی تھی اسے نسبت مجھے معلوم نہ تھا عشق بھی اہل طریقت میں ہے ایسا تھا خیال عشق ہے پیر طریقت مجھے معلوم نہ تھا پوچھ مت شرح کرم ہائے عزیزاں ہمدم ان میں اتنی تھی شرافت مجھے معلوم نہ تھا جب سے دیکھا ہے تجھے مجھ سے ہے میری ان بن حسن کا رنگ سیاست مجھے معلوم نہ تھا شکل انسان کی ہو چال بھی انسان کی ہو یوں بھی آتی ہے قیامت مجھے معلوم نہ تھا سر معمورۂ عالم یہ دل خانہ خراب مٹ گیا تیری بدولت مجھے معلوم نہ تھا پردۂ عرض وفا میں بھی رہا ہوں کرتا تجھ سے میں اپنی ہی غیبت مجھے معلوم نہ تھا نقد جاں کیا ہے زمانے میں محبت ہمدم نہیں ملتی کسی قیمت مجھے معلوم نہ تھا ہو گیا آج رفیقوں سے گلے مل کے جدا اپنا خود عشق صداقت مجھے معلوم نہ تھا درد دل کیا ہے کھلا آج ترے لڑنے پر تجھ سے اتنی تھی محبت مجھے معلوم نہ تھا دم نکل جائے مگر دل نہ لگائے کوئی عشق کی یہ تھی وصیت مجھے معلوم نہ تھا حسن والوں کو بہت سہل سمجھ رکھا تھا تجھ پہ آئے گی طبیعت مجھے معلوم نہ تھا کتنی خلاق ہے یہ نیستئ عشق فراقؔ اس سے ہستی ہے عبارت مجھے معلوم نہ تھا " gam-tiraa-jalva-gah-e-kaun-o-makaan-hai-ki-jo-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals," غم ترا جلوہ گہہ کون و مکاں ہے کہ جو تھا یعنی انسان وہی شعلہ بجاں ہے کہ جو تھا پھر وہی رنگ تکلم نگہ ناز میں ہے وہی انداز وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا کب ہے انکار ترے لطف و کرم سے لیکن تو وہی دشمن دل دشمن جاں ہے کہ جو تھا عشق افسردہ نہیں آج بھی افسردہ بہت وہی کم کم اثر سوز نہاں ہے کہ جو تھا قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا نظر آ جاتے ہیں تم کو تو بہت نازک بال دل مرا کیا وہی اے شیشہ گراں ہے کہ جو تھا جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا حسن کو کھینچ تو لیتا ہے ابھی تک لیکن وہ اثر جذب محبت میں کہاں ہے کہ جو تھا آج بھی صید گہ عشق میں حسن سفاک لئے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا پھر تری چشم سخن سنج نے چھیڑی کوئی بات وہی جادو ہے وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا پھر سر‌ میکدۂ عشق ہے اک بارش نور چھلکے جاموں سے چراغاں کا سماں ہے کہ جو تھا پھر وہی خیر نگاہی ہے ترے جلووں سے وہی عالم ترا اے برق دماں ہے کہ جو تھا آج بھی آگ دبی ہے دل انساں میں فراقؔ آج بھی سینوں سے اٹھتا وہ دھواں ہے کہ جو تھا " apne-gam-kaa-mujhe-kahaan-gam-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals," اپنے غم کا مجھے کہاں غم ہے اے کہ تیری خوشی مقدم ہے آگ میں جو پڑا وہ آگ ہوا حسن سوز نہاں مجسم ہے اس کے شیطان کو کہاں توفیق عشق کرنا گناہ آدم ہے دل کے دھڑکوں میں زور ضرب کلیم کس قدر اس حباب میں دم ہے ہے وہی عشق زندہ و جاوید جسے آب حیات بھی سم ہے اس میں ٹھہراؤ یا سکون کہاں زندگی انقلاب پیہم ہے اک تڑپ موج تہ نشیں کی طرح زندگی کی بنائے محکم ہے رہتی دنیا میں عشق کی دنیا نئے عنوان سے منظم ہے اٹھنے والی ہے بزم ماضی کی روشنی کم ہے زندگی کم ہے یہ بھی نظم حیات ہے کوئی زندگی زندگی کا ماتم ہے اک معمہ ہے زندگی اے دوست یہ بھی تیری ادائے‌ مبہم ہے اے محبت تو اک عذاب سہی زندگی بے ترے جہنم ہے اک تلاطم سا رنگ و نکہت کا پیکر ناز میں دما دم ہے پھرنے کو ہے رسیلی نیم نگاہ آہوئے ناز مائل رم ہے روپ کے جوت زیر پیراہن گلستاں پر ردائے شبنم ہے میرے سینے سے لگ کے سو جاؤ پلکیں بھاری ہیں رات بھی کم ہے آہ یہ مہربانیاں تیری شادمانی کی آنکھ پر نم ہے نرم و دوشیزہ کس قدر ہے نگاہ ہر نظر داستان مریم ہے مہر و مہ شعلہ ہائے ساز جمال جس کی جھنکار اتنی مدھم ہے جیسے اچھلے جنوں کی پہلی شام اس ادا سے وہ زلف برہم ہے یوں بھی دل میں نہیں وہ پہلی امنگ اور تیری نگاہ بھی کم ہے اور کیوں چھیڑتی ہے گردش چرخ وہ نظر پھر گئی یہ کیا کم ہے روکش صد حریم دل ہے فضا وہ جہاں ہیں عجیب عالم ہے دئے جاتی ہے لو صدائے فراقؔ ہاں وہی سوز و ساز کم کم ہے " vo-chup-chaap-aansuu-bahaane-kii-raaten-firaq-gorakhpuri-ghazals," وہ چپ چاپ آنسو بہانے کی راتیں وہ اک شخص کے یاد آنے کی راتیں شب مہ کی وہ ٹھنڈی آنچیں وہ شبنم ترے حسن کے رسمسانے کی راتیں جوانی کی دوشیزگی کا تبسم گل زار کے وہ کھلانے کی راتیں پھواریں سی نغموں کی پڑتی ہوں جیسے کچھ اس لب کے سننے سنانے کی راتیں مجھے یاد ہے تیری ہر صبح رخصت مجھے یاد ہیں تیرے آنے کی راتیں پر اسرار سی میری عرض تمنا وہ کچھ زیر لب مسکرانے کی راتیں سر شام سے رتجگا کے وہ ساماں وہ پچھلے پہر نیند آنے کی راتیں سر شام سے تا سحر قرب جاناں نہ جانے وہ تھیں کس زمانے کی راتیں سر میکدہ تشنگی کی وہ قسمیں وہ ساقی سے باتیں بنانے کی راتیں ہم آغوشیاں شاہد مہرباں کی زمانے کے غم بھول جانے کی راتیں فراقؔ اپنی قسمت میں شاید نہیں تھے ٹھکانے کے دن یا ٹھکانے کی راتیں " samajhtaa-huun-ki-tuu-mujh-se-judaa-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals," سمجھتا ہوں کہ تو مجھ سے جدا ہے شب فرقت مجھے کیا ہو گیا ہے ترا غم کیا ہے بس یہ جانتا ہوں کہ میری زندگی مجھ سے خفا ہے کبھی خوش کر گئی مجھ کو تری یاد کبھی آنکھوں میں آنسو آ گیا ہے حجابوں کو سمجھ بیٹھا میں جلوہ نگاہوں کو بڑا دھوکا ہوا ہے بہت دور اب ہے دل سے یاد تیری محبت کا زمانہ آ رہا ہے نہ جی خوش کر سکا تیرا کرم بھی محبت کو بڑا دھوکا رہا ہے کبھی تڑپا گیا ہے دل ترا غم کبھی دل کو سہارا دے گیا ہے شکایت تیری دل سے کرتے کرتے اچانک پیار تجھ پر آ گیا ہے جسے چونکا کے تو نے پھیر لی آنکھ وہ تیرا درد اب تک جاگتا ہے جہاں ہے موجزن رنگینئ حسن وہیں دل کا کنول لہرا رہا ہے گلابی ہوتی جاتی ہیں فضائیں کوئی اس رنگ سے شرما رہا ہے محبت تجھ سے تھی قبل از محبت کچھ ایسا یاد مجھ کو آ رہا ہے جدا آغاز سے انجام سے دور محبت اک مسلسل ماجرا ہے خدا حافظ مگر اب زندگی میں فقط اپنا سہارا رہ گیا ہے محبت میں فراقؔ اتنا نہ غم کر زمانے میں یہی ہوتا رہا ہے " diidaar-men-ik-tarfa-diidaar-nazar-aayaa-firaq-gorakhpuri-ghazals," دیدار میں اک طرفہ دیدار نظر آیا ہر بار چھپا کوئی ہر بار نظر آیا چھالوں کو بیاباں بھی گلزار نظر آیا جب چھیڑ پر آمادہ ہر خار نظر آیا صبح شب ہجراں کی وہ چاک گریبانی اک عالم نیرنگی ہر تار نظر آیا ہو صبر کہ بیتابی امید کہ مایوسی نیرنگ محبت بھی بیکار نظر آیا جب چشم سیہ تیری تھی چھائی ہوئی دل پر اس ملک کا ہر خطہ تاتار نظر آیا تو نے بھی تو دیکھی تھی وہ جاتی ہوئی دنیا کیا آخری لمحوں میں بیمار نظر آیا غش کھا کے گرے موسیٰ اللہ ری مایوسی ہلکا سا وہ پردہ بھی دیوار نظر آیا ذرہ ہو کہ قطرہ ہو خم خانہ ہستی میں مخمور نظر آیا سرشار نظر آیا کیا کچھ نہ ہوا غم سے کیا کچھ نہ کیا غم نے اور یوں تو ہوا جو کچھ بے کار نظر آیا اے عشق قسم تجھ کو معمورۂ عالم کی کوئی غم فرقت میں غم خوار نظر آیا شب کٹ گئی فرقت کی دیکھا نہ فراقؔ آخر طول غم ہجراں بھی بے کار نظر آیا " jahaan-e-guncha-e-dil-kaa-faqat-chataknaa-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals," جہان غنچۂ دل کا فقط چٹکنا تھا اسی کی بوئے پریشاں وجود دنیا تھا یہ کہہ کے کل کوئی بے اختیار روتا تھا وہ اک نگاہ سہی کیوں کسی کو دیکھا تھا طنابیں کوچۂ قاتل کی کھنچتی جاتی تھیں شہید تیغ ادا میں بھی زور کتنا تھا بس اک جھلک نظر آئی اڑے کلیم کے ہوش بس اک نگاہ ہوئی خاک طور سینا تھا ہر اک کے ہاتھ فقط غفلتیں تھیں ہوش نما کہ اپنے آپ سے بیگانہ وار جینا تھا یہی ہوا کہ فریب امید و یاس مٹے وہ پا گئے ترے ہاتھوں ہمیں جو پانا تھا چمن میں غنچۂ گل کھلکھلا کے مرجھائے یہی وہ تھے جنہیں ہنس ہنس کے جان دینا تھا نگاہ مہر میں جس کی ہیں صد پیام فنا اسی کا عالم ایجاد و ناز بے جا تھا جہاں تو جلوہ نما تھا لرزتی تھی دنیا ترے جمال سے کیسا جلال پیدا تھا حیات و مرگ کے کچھ راز کھل گئے ہوں گے فسانۂ شب غم ورنہ دوستو کیا تھا شب عدم کا فسانہ گداز شمع حیات سوائے کیف فنا میرا ماجرا کیا تھا کچھ ایسی بات نہ تھی تیرا دور ہو جانا یہ اور بات کہ رہ رہ کے درد اٹھتا تھا نہ پوچھ سود و زیاں کاروبار الفت کے وگرنہ یوں تو نہ پانا تھا کچھ نہ کھوتا تھا لگاوٹیں وہ ترے حسن بے نیاز کی آہ میں تیری بزم سے جب ناامید اٹھا تھا تجھے ہم اے دل درد آشنا کہاں ڈھونڈیں ہم اپنے ہوش میں کب تھے کوئی جب اٹھا تھا عدم کا راز صدائے شکست ساز حیات حجاب زیست بھی کتنا لطیف پردا تھا یہ اضطراب و سکوں بھی تھی اک فریب حیات کہ اپنے حال سے بیگانہ وار جینا تھا کہاں پہ چوک ہوئی تیرے بے قراروں سے زمانہ دوسری کروٹ بدلنے والا تھا یہ کوئی یاد ہے یہ بھی ہے کوئی محویت ترے خیال میں تجھ کو بھی بھول جانا تھا کہاں کی چوٹ ابھر آئی حسن تاباں میں دم نظارہ وہ رخ درد سا چمکتا تھا نہ پوچھ رمز و کنایات چشم ساقی کے بس ایک حشر خموش انجمن میں برپا تھا چمن چمن تھی گل داغ عشق سے ہستی اسی کی نکہت برباد کا زمانہ تھا وہ تھا مرا دل خوں گشتہ جس کے مٹنے سے بہار باغ جناں تھی وجود دنیا تھا قسم ہے بادہ کشو چشم مست ساقی کی بتاؤ ہاتھ سے کیا جام مے سنبھلتا تھا وصال اس سے میں چاہوں کہاں یہ دل میرا یہ رو رہا ہوں کہ کیوں اس کو میں نے دیکھا تھا امید یاس بنی یاس پھر امید بنی اس اک نظر میں فریب نگاہ کتنا تھا یہ سوز و ساز نہاں تھا وہ سوز و ساز عیاں وصال و ہجر میں بس فرق تھا تو اتنا تھا شکست ساز چمن تھی بہار لالہ و گل خزاں مچلتی تھی غنچہ جہاں چٹکتا تھا ہر ایک سانس ہے تجدید یاد ایامے گزر گیا وہ زمانہ جسے گزرنا تھا نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا کسی کے صبر نے بے صبر دیا سب کو فراقؔ نزع میں کروٹ کوئی بدلتا تھا " daur-e-aagaaz-e-jafaa-dil-kaa-sahaaraa-niklaa-firaq-gorakhpuri-ghazals," دور آغاز جفا دل کا سہارا نکلا حوصلہ کچھ نہ ہمارا نہ تمہارا نکلا تیرا نام آتے ہی سکتے کا تھا عالم مجھ پر جانے کس طرح یہ مذکور دوبارا نکلا ہوش جاتا ہے جگر جاتا ہے دل جاتا ہے پردے ہی پردے میں کیا تیرا اشارا نکلا ہے ترے کشف و کرامات کی دنیا قائل تجھ سے اے دل نہ مگر کام ہمارا نکلا کتنے سفاک سر قتل گہہ عالم تھے لاکھوں میں بس وہی اللہ کا پیارا نکلا عبرت انگیز ہے کیا اس کی جواں مرگی بھی ہائے وہ دل جو ہمارا نہ تمہارا نکلا عشق کی لو سے فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں رشک خورشید قیامت یہ شرارا نکلا سر بہ سر بے سر و ساماں جسے سمجھے تھے وہ دل رشک جمشید و کے و خسرو و دارا نکلا رونے والے ہوئے چپ ہجر کی دنیا بدلی شمع بے نور ہوئی صبح کا تارا نکلا انگلیاں اٹھیں فراقؔ وطن آوارہ پر آج جس سمت سے وہ درد کا مارا نکلا " ab-daur-e-aasmaan-hai-na-daur-e-hayaat-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals," اب دور آسماں ہے نہ دور حیات ہے اے درد ہجر تو ہی بتا کتنی رات ہے ہر کائنات سے یہ الگ کائنات ہے حیرت سرائے عشق میں دن ہے نہ رات ہے جینا جو آ گیا تو اجل بھی حیات ہے اور یوں تو عمر خضر بھی کیا بے ثبات ہے کیوں انتہائے ہوش کو کہتے ہیں بے خودی خورشید ہی کی آخری منزل تو رات ہے ہستی کو جس نے زلزلہ ساماں بنا دیا وہ دل قرار پائے مقدر کی بات ہے یہ موشگافیاں ہیں گراں طبع عشق پر کس کو دماغ کاوش ذات و صفات ہے توڑا ہے لا مکاں کی حدوں کو بھی عشق نے زندان عقل تیری تو کیا کائنات ہے گردوں شرار برق دل بے قرار دیکھ جن سے یہ تیری تاروں بھری رات رات ہے گم ہو کے ہر جگہ ہیں زخود رفتگان عشق ان کی بھی اہل کشف و کرامات ذات ہے ہستی بجز فنائے مسلسل کے کچھ نہیں پھر کس لیے یہ فکر قرار و ثبات ہے اس جان دوستی کا خلوص نہاں نہ پوچھ جس کا ستم بھی غیرت صد التفات ہے یوں تو ہزار درد سے روتے ہیں بد نصیب تم دل دکھاؤ وقت مصیبت تو بات ہے عنوان غفلتوں کے ہیں قربت ہو یا وصال بس فرصت حیات فراقؔ ایک رات ہے " kamii-na-kii-tire-vahshii-ne-khaak-udaane-men-firaq-gorakhpuri-ghazals," کمی نہ کی ترے وحشی نے خاک اڑانے میں جنوں کا نام اچھلتا رہا زمانے میں فراقؔ دوڑ گئی روح سی زمانے میں کہاں کا درد بھرا تھا مرے فسانے میں جنوں سے بھول ہوئی دل پہ چوٹ کھانے میں فراقؔ دیر ابھی تھی بہار آنے میں وہ کوئی رنگ ہے جو اڑ نہ جائے اے گل تر وہ کوئی بو ہے جو رسوا نہ ہو زمانے میں وہ آستیں ہے کوئی جو لہو نہ دے نکلے وہ کوئی حسن ہے جھجکے جو رنگ لانے میں یہ گل کھلے ہیں کہ چوٹیں جگر کی ابھری ہیں نہاں بہار تھی بلبل ترے ترانے میں بیان شمع ہے حاصل یہی ہے جلنے کا فنا کی کیفیتیں دیکھ جھلملانے میں کسی کی حالت دل سن کے اٹھ گئیں آنکھیں کہ جان پڑ گئی حسرت بھرے فسانے میں اسی کی شرح ہے یہ اٹھتے درد کا عالم جو داستاں تھی نہاں تیرے آنکھ اٹھانے میں غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں ہمیں ہیں گل ہمیں بلبل ہمیں ہوائے چمن فراقؔ خواب یہ دیکھا ہے قید خانے میں " raat-bhii-niind-bhii-kahaanii-bhii-firaq-gorakhpuri-ghazals," رات بھی نیند بھی کہانی بھی ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی ایک پیغام زندگانی بھی عاشقی مرگ ناگہانی بھی اس ادا کا تری جواب نہیں مہربانی بھی سرگرانی بھی دل کو اپنے بھی غم تھے دنیا میں کچھ بلائیں تھیں آسمانی بھی منصب دل خوشی لٹانا ہے غم پنہاں کی پاسبانی بھی دل کو شعلوں سے کرتی ہے سیراب زندگی آگ بھی ہے پانی بھی شاد کاموں کو یہ نہیں توفیق دل غمگیں کی شادمانی بھی لاکھ حسن یقیں سے بڑھ کر ہے ان نگاہوں کی بد گمانی بھی تنگنائے دل ملول میں ہے بحر ہستی کی بے کرانی بھی عشق ناکام کی ہے پرچھائیں شادمانی بھی کامرانی بھی دیکھ دل کے نگار خانے میں زخم پنہاں کی ہے نشانی بھی خلق کیا کیا مجھے نہیں کہتی کچھ سنوں میں تری زبانی بھی آئے تاریخ عشق میں سو بار موت کے دور درمیانی بھی اپنی معصومیت کے پردے میں ہو گئی وہ نظر سیانی بھی دن کو سورج مکھی ہے وہ نو گل رات کو ہے وہ رات رانی بھی دل بد نام تیرے بارے میں لوگ کہتے ہیں اک کہانی بھی وضع کرتے کوئی نئی دنیا کہ یہ دنیا ہوئی پرانی بھی دل کو آداب بندگی بھی نہ آئے کر گئے لوگ حکمرانی بھی جور کم کم کا شکریہ بس ہے آپ کی اتنی مہربانی بھی دل میں اک ہوک بھی اٹھی اے دوست یاد آئی تری جوانی بھی سر سے پا تک سپردگی کی ادا ایک انداز ترکمانی بھی پاس رہنا کسی کا رات کی رات میہمانی بھی میزبانی بھی ہو نہ عکس جبین ناز کہ ہے دل میں اک نور کہکشانی بھی زندگی عین دید یار فراقؔ زندگی ہجر کی کہانی بھی " shaam-e-gam-kuchh-us-nigaah-e-naaz-kii-baaten-karo-firaq-gorakhpuri-ghazals," شام غم کچھ اس نگاہ ناز کی باتیں کرو بے خودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو یہ سکوت ناز یہ دل کی رگوں کا ٹوٹنا خامشی میں کچھ شکست ساز کی باتیں کرو نکہت زلف پریشاں داستان شام غم صبح ہونے تک اسی انداز کی باتیں کرو ہر رگ دل وجد میں آتی رہے دکھتی رہے یوں ہی اس کے جا و بے جا ناز کی باتیں کرو جو عدم کی جان ہے جو ہے پیام زندگی اس سکوت راز اس آواز کی باتیں کرو عشق رسوا ہو چلا بے کیف سا بیزار سا آج اس کی نرگس غماز کی باتیں کرو نام بھی لینا ہے جس کا اک جہان رنگ و بو دوستو اس نو بہار ناز کی باتیں کرو کس لیے عذر تغافل کس لیے الزام عشق آج چرخ‌ تفرقہ پرواز کی باتیں کرو کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نور سا کچھ فضا کچھ حسرت پرواز کی باتیں کرو جو حیات جاوداں ہے جو ہے مرگ ناگہاں آج کچھ اس ناز اس انداز کی باتیں کرو عشق بے پروا بھی اب کچھ ناشکیبا ہو چلا شوخئ حسن کرشہ ساز کی باتیں کرو جس کی فرقت نے پلٹ دی عشق کی کایا فراقؔ آج اس عیسیٰ نفس دم ساز کی باتیں کرو " jaur-o-be-mehrii-e-igmaaz-pe-kyaa-rotaa-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals," جور و بے مہری اغماض پہ کیا روتا ہے مہرباں بھی کوئی ہو جائے گا جلدی کیا ہے کھو دیا تم کو تو ہم پوچھتے پھرتے ہیں یہی جس کی تقدیر بگڑ جائے وہ کرتا کیا ہے دل کا اک کام جو ہوتا نہیں اک مدت سے تم ذرا ہاتھ لگا دو تو ہوا رکھا ہے نگۂ شوخ میں اور دل میں ہیں چوٹیں کیا کیا آج تک ہم نہ سمجھ پائے کہ جھگڑا کیا ہے عشق سے توبہ بھی ہے حسن سے شکوے بھی ہزار کہیے تو حضرت دل آپ کا منشا کیا ہے زینت دوش ترا نامۂ اعمال نہ ہو تیری دستار سے واعظ یہ لٹکتا کیا ہے ہاں ابھی وقت کا آئینہ دکھائے کیا کیا دیکھتے جاؤ زمانہ ابھی دیکھا کیا ہے نہ یگانے ہیں نہ بیگانے تری محفل میں نہ کوئی غیر یہاں ہے نہ کوئی اپنا ہے نگہ مست کو جنبش نہ ہوئی گو سر بزم کچھ تو اس جام لبا لب سے ابھی چھلکا ہے رات دن پھرتی ہے پلکوں کے جو سائے سائے دل مرا اس نگۂ ناز کا دیوانا ہے ہم جدائی سے بھی کچھ کام تو لے ہی لیں گے بے نیازانہ تعلق ہی چھٹا اچھا ہے ان سے بڑھ چڑھ کے تو اے دوست ہیں یادیں ان کی ناز و انداز و ادا میں تری رکھا کیا ہے ایسی باتوں سے بدلتی ہے کہیں فطرت حسن جان بھی دے دے اگر کوئی تو کیا ہوتا ہے تری آنکھوں کو بھی انکار تری زلف کو بھی کس نے یہ عشق کو دیوانہ بنا رکھا ہے دل ترا جان تری آہ تری اشک ترے جو ہے اے دوست وہ تیرا ہے ہمارا کیا ہے در دولت پہ دعائیں سی سنی ہیں میں نے دیکھیے آج فقیروں کا کدھر پھیرا ہے تجھ کو ہو جائیں گے شیطان کے درشن واعظ ڈال کر منہ کو گریباں میں کبھی دیکھا ہے ہم کہے دیتے ہیں چالوں میں نہ آؤ ان کی ثروت و جاہ کے عشووں سے بچو دھوکا ہے یہی گر آنکھ میں رہ جائے تو ہے چنگاری قطرۂ اشک جو بہہ جائے تو اک دریا ہے زلف شب گوں کے سوا نرگس جادو کے سوا دل کو کچھ اور بلاؤں نے بھی آ گھیرا ہے لب اعجاز کی سوگند یہ جھنکار تھی کیا تیری خاموشی کے مانند ابھی کچھ ٹوٹا ہے دار پر گاہ نظر گاہ سوئے شہر نگار کچھ سنیں ہم بھی تو اے عشق ارادہ کیا ہے آ کہ غربت کدۂ دہر میں جی بہلائیں اے دل اس جلوہ گہہ ناز میں کیا رکھا ہے زخم ہی زخم ہوں میں صبح کی مانند فراقؔ رات بھر ہجر کی لذت سے مزا لوٹا ہے " bastiyaan-dhuundh-rahii-hain-unhen-viiraanon-men-firaq-gorakhpuri-ghazals," بستیاں ڈھونڈھ رہی ہیں انہیں ویرانوں میں وحشتیں بڑھ گئیں حد سے ترے دیوانوں میں نگۂ ناز نہ دیوانوں نہ فرزانوں میں جان کار ایک وہی ہے مگر انجانوں میں بزم مے بے خود و بے تاب نہ کیوں ہو ساقی موج بادہ ہے کہ درد اٹھتا ہے پیمانوں میں میں تو میں چونک اٹھی ہے یہ فضائے خاموش یہ صدا کب کی سنی آتی ہے پھر کانوں میں سیر کر اجڑے دلوں کی جو طبیعت ہے اداس جی بہل جاتے ہیں اکثر انہیں ویرانوں میں وسعتیں بھی ہیں نہاں تنگئ دل میں غافل جی بہل جاتے ہیں اکثر انہیں میدانوں میں جان ایمان جنوں سلسلہ جنبان جنوں کچھ کشش ہائے نہاں جذب ہیں ویرانوں میں خندۂ صبح ازل تیرگیٔ شام ابد دونوں عالم ہیں چھلکتے ہوئے پیمانوں میں دیکھ جب عالم ہو کو تو نیا عالم ہے بستیاں بھی نظر آنے لگیں ویرانوں میں جس جگہ بیٹھ گئے آگ لگا کر اٹھے گرمیاں ہیں کچھ ابھی سوختہ سامانوں میں وحشتیں بھی نظر آتی ہیں سر پردۂ ناز دامنوں میں ہے یہ عالم نہ گریبانوں میں ایک رنگینیٔ ظاہر ہے گلستاں میں اگر ایک شادابیٔ پنہاں ہے بیابانوں میں جوہر غنچہ و گل میں ہے اک انداز جنوں کچھ بیاباں نظر آئے ہیں گریبانوں میں اب وہ رنگ چمن و خندۂ گل بھی نہ رہے اب وہ آثار جنوں بھی نہیں دیوانوں میں اب وہ ساقی کی بھی آنکھیں نہ رہیں رندوں میں اب وہ ساغر بھی چھلکتے نہیں مے خانوں میں اب وہ اک سوز نہانی بھی دلوں میں نہ رہا اب وہ جلوے بھی نہیں عشق کے کاشانوں میں اب نہ وہ رات جب امیدیں بھی کچھ تھیں تجھ سے اب نہ وہ بات غم ہجر کے افسانوں میں اب ترا کام ہے بس اہل وفا کا پانا اب ترا نام ہے بس عشق کے غم خانوں میں تا بہ کے وعدۂ موہوم کی تفصیل فراقؔ شب فرقت کہیں کٹتی ہے ان افسانوں میں " sar-men-saudaa-bhii-nahiin-dil-men-tamannaa-bhii-nahiin-firaq-gorakhpuri-ghazals," سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں لیکن اس جلوہ گہہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا آج ہی خاطر بیمار شکیبا بھی نہیں بات یہ ہے کہ سکون دل وحشی کا مقام کنج زنداں بھی نہیں وسعت صحرا بھی نہیں ارے صیاد ہمیں گل ہیں ہمیں بلبل ہیں تو نے کچھ آہ سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں آہ یہ مجمع احباب یہ بزم خاموش آج محفل میں فراقؔ سخن آرا بھی نہیں یہ بھی سچ ہے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور یہ بھی سچ ہے کہ ترا حسن کچھ ایسا بھی نہیں یوں تو ہنگامے اٹھاتے نہیں دیوانۂ عشق مگر اے دوست کچھ ایسوں کا ٹھکانا بھی نہیں فطرت حسن تو معلوم ہے تجھ کو ہمدم چارہ ہی کیا ہے بجز صبر سو ہوتا بھی نہیں منہ سے ہم اپنے برا تو نہیں کہتے کہ فراقؔ ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں " firaaq-ik-naii-suurat-nikal-to-saktii-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals," فراقؔ اک نئی صورت نکل تو سکتی ہے بقول اس آنکھ کے دنیا بدل تو سکتی ہے ترے خیال کو کچھ چپ سی لگ گئی ورنہ کہانیوں سے شب غم بہل تو سکتی ہے عروس دہر چلے کھا کے ٹھوکریں لیکن قدم قدم پہ جوانی ابل تو سکتی ہے پلٹ پڑے نہ کہیں اس نگاہ کا جادو کہ ڈوب کر یہ چھری کچھ اچھل تو سکتی ہے بجھے ہوئے نہیں اتنے بجھے ہوئے دل بھی فسردگی میں طبیعت مچل تو سکتی ہے اگر تو چاہے تو غم والے شادماں ہو جائیں نگاہ یار یہ حسرت نکل تو سکتی ہے اب اتنی بند نہیں غم کدوں کی بھی راہیں ہوائے کوچۂ محبوب چل تو سکتی ہے کڑے ہیں کوس بہت منزل محبت کے ملے نہ چھاؤں مگر دھوپ ڈھل تو سکتی ہے حیات لو تہ‌ دامان مرگ دے اٹھی ہوا کی راہ میں یہ شمع جل تو سکتی ہے کچھ اور مصلحت‌ جذب عشق ہے ورنہ کسی سے چھٹ کے طبیعت سنبھل تو سکتی ہے ازل سے سوئی ہے تقدیر‌‌ عشق موت کی نیند اگر جگائیے کروٹ بدل تو سکتی ہے غم زمانہ و سوز نہاں کی آنچ تو دے اگر نہ ٹوٹے یہ زنجیر گل تو سکتی ہے شریک شرم و حیا کچھ ہے بد گمانی‌ٔ حسن نظر اٹھا یہ جھجک سی نکل تو سکتی ہے کبھی وہ مل نہ سکے گی میں یہ نہیں کہتا وہ آنکھ آنکھ میں پڑ کر بدل تو سکتی ہے بدلتا جائے غم روزگار کا مرکز یہ چال گردش ایام چل تو سکتی ہے وہ بے نیاز سہی دل متاع ہیچ سہی مگر کسی کی جوانی مچل تو سکتی ہے تری نگاہ سہارا نہ دے تو بات ہے اور کہ گرتے گرتے بھی دنیا سنبھل تو سکتی ہے یہ زور و شور سلامت تری جوانی بھی بقول عشق کے سانچے میں ڈھل تو سکتی ہے سنا ہے برف کے ٹکڑے ہیں دل حسینوں کے کچھ آنچ پا کے یہ چاندی پگھل تو سکتی ہے ہنسی ہنسی میں لہو تھوکتے ہیں دل والے یہ سر زمین مگر لعل اگل تو سکتی ہے جو تو نے ترک محبت کو اہل دل سے کہا ہزار نرم ہو یہ بات کھل تو سکتی ہے ارے وہ موت ہو یا زندگی محبت پر نہ کچھ سہی کف افسوس مل تو سکتی ہے ہیں جس کے بل پہ کھڑے سرکشوں کو وہ دھرتی اگر کچل نہیں سکتی نگل تو سکتی ہے ہوئی ہے گرم لہو پی کے عشق کی تلوار یوں ہی جلائے جا یہ شاخ پھل تو سکتی ہے گزر رہی ہے دبے پاؤں عشق کی دیوی سبک روی سے جہاں کو مسل تو سکتی ہے حیات سے نگہہ واپسیں ہے کچھ مانوس مرے خیال سے آنکھوں میں پل تو سکتی ہے نہ بھولنا یہ ہے تاخیر حسن کی تاخیر فراقؔ آئی ہوئی موت ٹل تو سکتی ہے " koii-paigaam-e-mohabbat-lab-e-ejaaz-to-de-firaq-gorakhpuri-ghazals," کوئی پیغام محبت لب اعجاز تو دے موت کی آنکھ بھی کھل جائے گی آواز تو دے مقصد عشق ہم آہنگیٔ جزو و کل ہے درد ہی درد سہی دل بوئے دم ساز تو دے چشم مخمور کے عنوان نظر کچھ تو کھلیں دل رنجور دھڑکنے کا کچھ انداز تو دے اک ذرا ہو نشۂ حسن میں انداز خمار اک جھلک عشق کے انجام کی آغاز تو دے جو چھپائے نہ چھپے اور بتائے نہ بنے دل عاشق کو ان آنکھوں سے کوئی راز تو دے منتظر اتنی کبھی تھی نہ فضائے آفاق چھیڑنے ہی کو ہوں پر درد غزل ساز تو دے ہم اسیران قفس آگ لگا سکتے ہیں فرصت نغمہ کبھی حسرت پرواز تو دے عشق اک بار مشیت کو بدل سکتا ہے عندیہ اپنا مگر کچھ نگہ ناز تو دے قرب و دیدار تو معلوم کسی کا پھر بھی کچھ پتہ سا فلک تفرقہ پرداز تو دے منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی ہیں ابلق دہر کچھ انداز تگ و تاز تو دے کان سے ہم تو فراقؔ آنکھ کا لیتے ہیں کام آج چھپ کر کوئی آواز پر آواز تو دے " hijr-o-visaal-e-yaar-kaa-parda-uthaa-diyaa-firaq-gorakhpuri-ghazals," ہجر و وصال یار کا پردہ اٹھا دیا خود بڑھ کے عشق نے مجھے میرا پتا دیا گرد و غبار ہستئ فانی اڑا دیا اے کیمیائے عشق مجھے کیا بنا دیا وہ سامنے ہے اور نظر سے چھپا دیا اے عشق‌ بے حجاب مجھے کیا دکھا دیا وہ شان خامشی کہ بہاریں ہیں منتظر وہ رنگ گفتگو کہ گلستاں بنا دیا دم لے رہی تھیں حسن کی جب سحر‌ کاریاں ان وقفہ‌ ہائے کفر کو ایماں بنا دیا معلوم کچھ مجھی کو ہیں ان کی روانیاں جن قطرہ ہائے اشک کو دریا بنا دیا اک برق بے قرار تھی تمکین حسن بھی جس وقت عشق کو غم صبر آزما دیا ساقی مجھے بھی یاد ہیں وہ تشنہ کامیاں جن کو حریف ساغر و مینا بنا دیا معلوم ہے حقیقت غم ہائے روزگار دنیا کو تیرے درد نے دنیا بنا دیا اے شوخئ نگاہ کرم مدتوں کے بعد خواب گران غم سے مجھے کیوں جگا دیا کچھ شورشیں تغافل پنہاں میں تھیں جنہیں ہنگامہ زار حشر تمنا بنا دیا بڑھتا ہی جا رہا ہے جمال نظر فریب حسن نظر کو حسن خود آرا بنا دیا پھر دیکھنا نگاہ لڑی کس سے عشق کی گر حسن نے حجاب تغافل اٹھا دیا جب خون ہو چکا دل ہستی‌ٔ اعتبار کچھ درد بچ رہے جنہیں انساں بنا دیا گم کروۂ‌ وفور‌ غم انتظار ہوں تو کیا چھپا کہ مجھ کو مجھی سے چھپا دیا رات اب حریف صبح قیامت ہی کیوں نہ ہو جو کچھ بھی ہو اس آنکھ کو اب تو جگا دیا اب میں ہوں اور لطف و کرم کے تکلفات یہ کیوں حجاب رنجش بے جا بنا دیا تھی یوں تو شام ہجر مگر پچھلی رات کو وہ درد اٹھا فراقؔ کہ میں مسکرا دیا " kuchh-ishaare-the-jinhen-duniyaa-samajh-baithe-the-ham-firaq-gorakhpuri-ghazals," کچھ اشارے تھے جنہیں دنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم اس نگاہ آشنا کو کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم رفتہ رفتہ غیر اپنی ہی نظر میں ہو گئے واہ ری غفلت تجھے اپنا سمجھ بیٹھے تھے ہم ہوش کی توفیق بھی کب اہل دل کو ہو سکی عشق میں اپنے کو دیوانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم پردۂ آزردگی میں تھی وہ جان التفات جس ادا کو رنجش بے جا سمجھ بیٹھے تھے ہم کیا کہیں الفت میں راز بے حسی کیوں کر کھلا ہر نظر کو تیری درد افزا سمجھ بیٹھے تھے ہم بے نیازی کو تری پایا سراسر سوز و درد تجھ کو اک دنیا سے بیگانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم انقلاب پے بہ پے ہر گردش و ہر دور میں اس زمین و آسماں کو کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم بھول بیٹھی وہ نگاہ ناز عہد دوستی اس کو بھی اپنی طبیعت کا سمجھ بیٹھے تھے ہم صاف الگ ہم کو جنون عاشقی نے کر دیا خود کو تیرے درد کا پردا سمجھ بیٹھے تھے ہم کان بجتے ہیں محبت کے سکوت ناز کو داستاں کا ختم ہو جانا سمجھ بیٹھے تھے ہم باتوں باتوں میں پیام مرگ بھی آ ہی گیا ان نگاہوں کو حیات افزا سمجھ بیٹھے تھے ہم اب نہیں تاب سپاس حسن اس دل کو جسے بے قرار شکوۂ بیجا سمجھ بیٹھے تھے ہم ایک دنیا درد کی تصویر نکلی عشق کو کوہکن اور قیس کا قصہ سمجھ بیٹھے تھے ہم رفتہ رفتہ عشق مانوس جہاں ہوتا چلا خود کو تیرے ہجر میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم حسن کو اک حسن ہی سمجھے نہیں اور اے فراقؔ مہرباں نا مہرباں کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم " zer-o-bam-se-saaz-e-khilqat-ke-jahaan-bantaa-gayaa-firaq-gorakhpuri-ghazals," زیر و بم سے ساز خلقت کے جہاں بنتا گیا یہ زمیں بنتی گئی یہ آسماں بنتا گیا داستان جور بے حد خون سے لکھتا رہا قطرہ قطرہ اشک غم کا بے کراں بنتا گیا عشق تنہا سے ہوئیں آباد کتنی منزلیں اک مسافر کارواں در کارواں بنتا گیا میں ترے جس غم کو اپنا جانتا تھا وہ بھی تو زیب عنوان حدیث دیگراں بنتا گیا بات نکلے بات سے جیسے وہ تھا تیرا بیاں نام تیرا داستاں در داستاں بنتا گیا ہم کو ہے معلوم سب روداد علم و فلسفہ ہاں ہر ایمان و یقیں وہم و گماں بنتا گیا میں کتاب دل میں اپنا حال غم لکھتا رہا ہر ورق اک باب تاریخ جہاں بنتا گیا بس اسی کی ترجمانی ہے مرے اشعار میں جو سکوت راز رنگیں داستاں بنتا گیا میں نے سونپا تھا تجھے اک کام ساری عمر میں وہ بگڑتا ہی گیا اے دل کہاں بنتا گیا واردات دل کو دل ہی میں جگہ دیتے رہے ہر حساب غم حساب دوستاں بنتا گیا میری گھٹی میں پڑی تھی ہو کے حل اردو زباں جو بھی میں کہتا گیا حسن بیاں بنتا گیا وقت کے ہاتھوں یہاں کیا کیا خزانے لٹ گئے ایک تیرا غم کہ گنج شائیگاں بنتا گیا سر زمین ہند پر اقوام عالم کے فراقؔ قافلے بستے گئے ہندوستاں بنتا گیا " jaagne-vaalo-taa-ba-sahar-khaamosh-raho-habib-jalib-ghazals," جاگنے والو تا بہ سحر خاموش رہو کل کیا ہوگا کس کو خبر خاموش رہو کس نے سحر کے پاؤں میں زنجیریں ڈالیں ہو جائے گی رات بسر خاموش رہو شاید چپ رہنے میں عزت رہ جائے چپ ہی بھلی اے اہل نظر خاموش رہو قدم قدم پر پہرے ہیں ان راہوں میں دار و رسن کا ہے یہ نگر خاموش رہو یوں بھی کہاں بے تابئ دل کم ہوتی ہے یوں بھی کہاں آرام مگر خاموش رہو شعر کی باتیں ختم ہوئیں اس عالم میں کیسا جوشؔ اور کس کا جگرؔ خاموش رہو " ham-ne-dil-se-tujhe-sadaa-maanaa-habib-jalib-ghazals," ہم نے دل سے تجھے سدا مانا تو بڑا تھا تجھے بڑا مانا میرؔ و غالبؔ کے بعد انیسؔ کے بعد تجھ کو مانا بڑا بجا مانا تو کہ دیوانۂ صداقت تھا تو نے بندے کو کب خدا مانا تجھ کو پروا نہ تھی زمانے کی تو نے دل ہی کا ہر کہا مانا تجھ کو خود پہ تھا اعتماد اتنا خود ہی کو تو نہ رہنما مانا کی نہ شب کی کبھی پذیرائی صبح کو لائق ثنا مانا ہنس دیا سطح ذہن عالم پر جب کسی بات کا برا مانا یوں تو شاعر تھے اور بھی اے جوشؔ ہم نے تجھ سا نہ دوسرا مانا " tum-se-pahle-vo-jo-ik-shakhs-yahaan-takht-nashiin-thaa-habib-jalib-ghazals," تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالبؔ نہیں بھولے تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا " afsos-tumhen-car-ke-shiishe-kaa-huaa-hai-habib-jalib-ghazals," افسوس تمہیں کار کے شیشے کا ہوا ہے پروا نہیں اک ماں کا جو دل ٹوٹ گیا ہے ہوتا ہے اثر تم پہ کہاں نالۂ غم کا برہم جو ہوئی بزم طرب اس کا گلا ہے فرعون بھی نمرود بھی گزرے ہیں جہاں میں رہتا ہے یہاں کون یہاں کون رہا ہے تم ظلم کہاں تک تہ افلاک کرو گے یہ بات نہ بھولو کہ ہمارا بھی خدا ہے آزادئ انساں کے وہیں پھول کھلیں گے جس جا پہ ظہیر آج ترا خون گرا ہے تا چند رہے گی یہ شب غم کی سیاہی رستہ کوئی سورج کا کہیں روک سکا ہے تو آج کا شاعر ہے تو کر میری طرح بات جیسے مرے ہونٹوں پہ مرے دل کی صدا ہے " dushmanon-ne-jo-dushmanii-kii-hai-habib-jalib-ghazals," دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے خامشی پر ہیں لوگ زیر عتاب اور ہم نے تو بات بھی کی ہے مطمئن ہے ضمیر تو اپنا بات ساری ضمیر ہی کی ہے اپنی تو داستاں ہے بس اتنی غم اٹھائے ہیں شاعری کی ہے اب نظر میں نہیں ہے ایک ہی پھول فکر ہم کو کلی کلی کی ہے پا سکیں گے نہ عمر بھر جس کو جستجو آج بھی اسی کی ہے جب مہ و مہر بجھ گئے جالبؔ ہم نے اشکوں سے روشنی کی ہے " sher-hotaa-hai-ab-mahiinon-men-habib-jalib-ghazals," شعر ہوتا ہے اب مہینوں میں زندگی ڈھل گئی مشینوں میں پیار کی روشنی نہیں ملتی ان مکانوں میں ان مکینوں میں دیکھ کر دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ سانپ ہوتے ہیں آستینوں میں قہر کی آنکھ سے نہ دیکھ ان کو دل دھڑکتے ہیں آبگینوں میں آسمانوں کی خیر ہو یا رب اک نیا عزم ہے زمینوں میں وہ محبت نہیں رہی جالبؔ ہم صفیروں میں ہم نشینوں میں " aur-sab-bhuul-gae-harf-e-sadaaqat-likhnaa-habib-jalib-ghazals-1," اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا ہم نے جو بھول کے بھی شہہ کا قصیدہ نہ لکھا شاید آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا اس سے بڑھ کر مری تحسین بھلا کیا ہوگی پڑھ کے نا خوش ہیں مرا صاحب ثروت لکھنا دہر کے غم سے ہوا ربط تو ہم بھول گئے سرو قامت کو جوانی کو قیامت لکھنا کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شہہ کے مصاحب جالبؔ رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا " dil-vaalo-kyuun-dil-sii-daulat-yuun-be-kaar-lutaate-ho-habib-jalib-ghazals," دل والو کیوں دل سی دولت یوں بیکار لٹاتے ہو کیوں اس اندھیاری بستی میں پیار کی جوت جگاتے ہو تم ایسا نادان جہاں میں کوئی نہیں ہے کوئی نہیں پھر ان گلیوں میں جاتے ہو پگ پگ ٹھوکر کھاتے ہو سندر کلیو کومل پھولو یہ تو بتاؤ یہ تو کہو آخر تم میں کیا جادو ہے کیوں من میں بس جاتے ہو یہ موسم رم جھم کا موسم یہ برکھا یہ مست فضا ایسے میں آؤ تو جانیں ایسے میں کب آتے ہو ہم سے روٹھ کے جانے والو اتنا بھید بتا جاؤ کیوں نت راتو کو سپنوں میں آتے ہو من جاتے ہو چاند ستاروں کے جھرمٹ میں پھولوں کی مسکاہٹ میں تم چھپ چھپ کر ہنستے ہو تم روپ کا مان بڑھاتے ہو چلتے پھرتے روشن رستے تاریکی میں ڈوب گئے سو جاؤ اب جالبؔ تم بھی کیوں آنکھیں سلگاتے ہو " ab-terii-zaruurat-bhii-bahut-kam-hai-mirii-jaan-habib-jalib-ghazals," اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے مری جاں اب تذکرۂ خندۂ گل بار ہے جی پر جاں وقف غم گریہ شبنم ہے مری جاں رخ پر ترے بکھری ہوئی یہ زلف سیہ تاب تصویر پریشانئ عالم ہے مری جاں یہ کیا کہ تجھے بھی ہے زمانے سے شکایت یہ کیا کہ تری آنکھ بھی پر نم ہے مری جاں ہم سادہ دلوں پر یہ شب غم کا تسلط مایوس نہ ہو اور کوئی دم ہے مری جاں یہ تیری توجہ کا ہے اعجاز کہ مجھ سے ہر شخص ترے شہر کا برہم ہے مری جاں اے نزہت مہتاب ترا غم ہے مری زیست اے نازش خورشید ترا غم ہے مری جاں " chuur-thaa-zakhmon-se-dil-zakhmii-jigar-bhii-ho-gayaa-habib-jalib-ghazals," چور تھا زخموں سے دل زخمی جگر بھی ہو گیا اس کو روتے تھے کہ سونا یہ نگر بھی ہو گیا لوگ اسی صورت پریشاں ہیں جدھر بھی دیکھیے اور وہ کہتے ہیں کوہ غم تو سر بھی ہو گیا بام و در پر ہے مسلط آج بھی شام الم یوں تو ان گلیوں سے خورشید سحر بھی ہو گیا اس ستم گر کی حقیقت ہم پہ ظاہر ہو گئی ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا " bate-rahoge-to-apnaa-yuunhii-bahegaa-lahuu-habib-jalib-ghazals," بٹے رہو گے تو اپنا یوں ہی بہے گا لہو ہوئے نہ ایک تو منزل نہ بن سکے گا لہو ہو کس گھمنڈ میں اے لخت لخت دیدہ ورو تمہیں بھی قاتل محنت کشاں کہے گا لہو اسی طرح سے اگر تم انا پرست رہے خود اپنا راہنما آپ ہی بنے گا لہو سنو تمہارے گریبان بھی نہیں محفوظ ڈرو تمہارا بھی اک دن حساب لے گا لہو اگر نہ عہد کیا ہم نے ایک ہونے کا غنیم سب کا یوں ہی بیچتا رہے گا لہو کبھی کبھی مرے بچے بھی مجھ سے پوچھتے ہیں کہاں تک اور تو خشک اپنا ہی کرے گا لہو صدا کہا یہی میں نے قریب تر ہے وہ دور کہ جس میں کوئی ہمارا نہ پی سکے گا لہو " vahii-haalaat-hain-faqiiron-ke-habib-jalib-ghazals," وہی حالات ہیں فقیروں کے دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے اپنا حلقہ ہے حلقۂ زنجیر اور حلقے ہیں سب امیروں کے ہر بلاول ہے دیس کا مقروض پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے وہی اہل وفا کی صورت حال وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے سازشیں ہیں وہی خلاف عوام مشورے ہیں وہی مشیروں کے بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی وہی دن رات ہیں اسیروں کے " us-rauunat-se-vo-jiite-hain-ki-marnaa-hii-nahiin-habib-jalib-ghazals," اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں تخت پر بیٹھے ہیں یوں جیسے اترنا ہی نہیں یوں مہ و انجم کی وادی میں اڑے پھرتے ہیں وہ خاک کے ذروں پہ جیسے پاؤں دھرنا ہی نہیں ان کا دعویٰ ہے کہ سورج بھی انہی کا ہے غلام شب جو ہم پر آئی ہے اس کو گزرنا ہی نہیں کیا علاج اس کا اگر ہو مدعا ان کا یہی اہتمام رنگ و بو گلشن میں کرنا ہی نہیں ظلم سے ہیں برسر پیکار آزادی پسند ان پہاڑوں میں جہاں پر کوئی جھرنا ہی نہیں دل بھی ان کے ہیں سیہ خوراک زنداں کی طرح ان سے اپنا غم بیاں اب ہم کو کرنا ہی نہیں انتہا کر لیں ستم کی لوگ ابھی ہیں خواب میں جاگ اٹھے جب لوگ تو ان کو ٹھہرنا ہی نہیں " khuub-aazaadii-e-sahaafat-hai-habib-jalib-ghazals," خوب آزادئ صحافت ہے نظم لکھنے پہ بھی قیامت ہے دعویٰ جمہوریت کا ہے ہر آن یہ حکومت بھی کیا حکومت ہے دھاندلی دھونس کی ہے پیداوار سب کو معلوم یہ حقیقت ہے خوف کے ذہن و دل پہ سائے ہیں کس کی عزت یہاں سلامت ہے کبھی جمہوریت یہاں آئے یہی جالبؔ ہماری حسرت ہے " tire-maathe-pe-jab-tak-bal-rahaa-hai-habib-jalib-ghazals," ترے ماتھے پہ جب تک بل رہا ہے اجالا آنکھ سے اوجھل رہا ہے سماتے کیا نظر میں چاند تارے تصور میں ترا آنچل رہا ہے تری شان تغافل کو خبر کیا کوئی تیرے لیے بے کل رہا ہے شکایت ہے غم دوراں کو مجھ سے کہ دل میں کیوں ترا غم پل رہا ہے تعجب ہے ستم کی آندھیوں میں چراغ دل ابھی تک جل رہا ہے لہو روئیں گی مغرب کی فضائیں بڑی تیزی سے سورج ڈھل رہا ہے زمانہ تھک گیا جالبؔ ہی تنہا وفا کے راستے پر چل رہا ہے " zarre-hii-sahii-koh-se-takraa-to-gae-ham-habib-jalib-ghazals," ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم دل لے کے سر عرصۂ غم آ تو گئے ہم اب نام رہے یا نہ رہے عشق میں اپنا روداد وفا دار پہ دہرا تو گئے ہم کہتے تھے جو اب کوئی نہیں جاں سے گزرتا لو جاں سے گزر کر انہیں جھٹلا تو گئے ہم جاں اپنی گنوا کر کبھی گھر اپنا جلا کر دل ان کا ہر اک طور سے بہلا تو گئے ہم کچھ اور ہی عالم تھا پس چہرۂ یاراں رہتا جو یونہی راز اسے پا تو گئے ہم اب سوچ رہے ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے پھر ان سے نہ ملنے کی قسم کھا تو گئے ہم اٹھیں کہ نہ اٹھیں یہ رضا ان کی ہے جالبؔ لوگوں کو سر دار نظر آ تو گئے ہم " kaun-bataae-kaun-sujhaae-kaun-se-des-sidhaar-gae-habib-jalib-ghazals," کون بتائے کون سجھائے کون سے دیس سدھار گئے ان کا رستہ تکتے تکتے نین ہمارے ہار گئے کانٹوں کے دکھ سہنے میں تسکین بھی تھی آرام بھی تھا ہنسنے والے بھولے بھالے پھول چمن کے مار گئے ایک لگن کی بات ہے جیون ایک لگن ہی جیون ہے پوچھ نہ کیا کھویا کیا پایا کیا جیتے کیا ہار گئے آنے والی برکھا دیکھیں کیا دکھلائے آنکھوں کو یہ برکھا برساتے دن تو بن پریتم بیکار گئے جب بھی لوٹے پیار سے لوٹے پھول نہ پا کر گلشن میں بھونرے امرت رس کی دھن میں پل پل سو سو بار گئے ہم سے پوچھو ساحل والو کیا بیتی دکھیاروں پر کھیون ہارے بیچ بھنور میں چھوڑ کے جب اس پار گئے " hujuum-dekh-ke-rasta-nahiin-badalte-ham-habib-jalib-ghazals," ہجوم دیکھ کے رستہ نہیں بدلتے ہم کسی کے ڈر سے تقاضا نہیں بدلتے ہم ہزار زیر قدم راستہ ہو خاروں کا جو چل پڑیں تو ارادہ نہیں بدلتے ہم اسی لیے تو نہیں معتبر زمانے میں کہ رنگ صورت دنیا نہیں بدلتے ہم ہوا کو دیکھ کے جالبؔ مثال ہم عصراں بجا یہ زعم ہمارا نہیں بدلتے ہم " dil-par-jo-zakhm-hain-vo-dikhaaen-kisii-ko-kyaa-habib-jalib-ghazals," دل پر جو زخم ہیں وہ دکھائیں کسی کو کیا اپنا شریک درد بنائیں کسی کو کیا ہر شخص اپنے اپنے غموں میں ہے مبتلا زنداں میں اپنے ساتھ رلائیں کسی کو کیا بچھڑے ہوئے وہ یار وہ چھوڑے ہوئے دیار رہ رہ کے ہم کو یاد جو آئیں کسی کو کیا رونے کو اپنے حال پہ تنہائی ہے بہت اس انجمن میں خود پہ ہنسائیں کسی کو کیا وہ بات چھیڑ جس میں جھلکتا ہو سب کا غم یادیں کسی کی تجھ کو ستائیں کسی کو کیا سوئے ہوئے ہیں لوگ تو ہوں گے سکون سے ہم جاگنے کا روگ لگائیں کسی کو کیا جالبؔ نہ آئے گا کوئی احوال پوچھنے دیں شہر بے حساں میں صدائیں کسی کو کیا " apnon-ne-vo-ranj-diye-hain-begaane-yaad-aate-hain-habib-jalib-ghazals," اپنوں نے وہ رنج دئے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں دیکھ کے اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں اس نگری میں قدم قدم پہ سر کو جھکانا پڑتا ہے اس نگری میں قدم قدم پر بت خانے یاد آتے ہیں آنکھیں پر نم ہو جاتی ہیں غربت کے صحراؤں میں جب اس رم جھم کی وادی کے افسانے یاد آتے ہیں ایسے ایسے درد ملے ہیں نئے دیاروں میں ہم کو بچھڑے ہوئے کچھ لوگ پرانے یارانے یاد آتے ہیں جن کے کارن آج ہمارے حال پہ دنیا ہستی ہے کتنے ظالم چہرے جانے پہچانے یاد آتے ہیں یوں نہ لٹی تھی گلیوں دولت اپنے اشکوں کی روتے ہیں تو ہم کو اپنے غم خانے یاد آتے ہیں کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالبؔ چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں " faiz-aur-faiz-kaa-gam-bhuulne-vaalaa-hai-kahiin-habib-jalib-ghazals," فیضؔ اور فیضؔ کا غم بھولنے والا ہے کہیں موت یہ تیرا ستم بھولنے والا ہے کہیں ہم سے جس وقت نے وہ شاہ سخن چھین لیا ہم کو وہ وقت الم بھولنے والا ہے کہیں ترے اشک اور بھی چمکائیں گی یادیں اس کی ہم کو وہ دیدۂ نم بھولنے والا ہے کہیں کبھی زنداں میں کبھی دور وطن سے اے دوست جو کیا اس نے رقم بھولنے والا ہے کہیں آخری بار اسے دیکھ نہ پائے جالبؔ یہ مقدر کا ستم بھولنے والا ہے کہیں " jiivan-mujh-se-main-jiivan-se-sharmaataa-huun-habib-jalib-ghazals," جیون مجھ سے میں جیون سے شرماتا ہوں مجھ سے آگے جانے والو میں آتا ہوں جن کی یادوں سے روشن ہیں میری آنکھیں دل کہتا ہے ان کو بھی میں یاد آتا ہوں سر سے سانسوں کا ناتا ہے توڑوں کیسے تم جلتے ہو کیوں جیتا ہوں کیوں گاتا ہوں تم اپنے دامن میں ستارے بیٹھ کر ٹانکو اور میں نئے برن لفظوں کو پہناتا ہوں جن خوابوں کو دیکھ کے میں نے جینا سیکھا ان کے آگے ہر دولت کو ٹھکراتا ہوں زہر اگلتے ہیں جب مل کر دنیا والے میٹھے بولوں کی وادی میں کھو جاتا ہوں جالبؔ میرے شعر سمجھ میں آ جاتے ہیں اسی لیے کم رتبہ شاعر کہلاتا ہوں " aag-hai-phailii-huii-kaalii-ghataaon-kii-jagah-habib-jalib-ghazals," آگ ہے پھیلی ہوئی کالی گھٹاؤں کی جگہ بد دعائیں ہیں لبوں پر اب دعاؤں کی جگہ انتخاب اہل گلشن پر بہت روتا ہے دل دیکھ کر زاغ و زغن کو خوش نواؤں کی جگہ کچھ بھی ہوتا پر نہ ہوتے پارہ پارہ جسم و جاں راہزن ہوتے اگر ان رہنماؤں کی جگہ لٹ گئی اس دور میں اہل قلم کی آبرو بک رہے ہیں اب صحافی بیسواؤں کی جگہ کچھ تو آتا ہم کو بھی جاں سے گزرنے کا مزہ غیر ہوتے کاش جالبؔ آشناؤں کی جگہ " kabhii-to-mehrbaan-ho-kar-bulaa-len-habib-jalib-ghazals," کبھی تو مہرباں ہو کر بلا لیں یہ مہوش ہم فقیروں کی دعا لیں نہ جانے پھر یہ رت آئے نہ آئے جواں پھولوں کی کچھ خوشبو چرا لیں بہت روئے زمانے کے لیے ہم ذرا اپنے لیے آنسو بہا لیں ہم ان کو بھولنے والے نہیں ہیں سمجھتے ہیں غم دوراں کی چالیں ہماری بھی سنبھل جائے گی حالت وہ پہلے اپنی زلفیں تو سنبھالیں نکلنے کو ہے وہ مہتاب گھر سے ستاروں سے کہو نظریں جھکا لیں ہم اپنے راستے پر چل رہے ہیں جناب شیخ اپنا راستہ لیں زمانہ تو یوں ہی روٹھا رہے گا چلو جالبؔ انہیں چل کر منا لیں " is-shahr-e-kharaabii-men-gam-e-ishq-ke-maare-habib-jalib-ghazals," اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے یہ ہنستا ہوا چاند یہ پر نور ستارے تابندہ و پایندہ ہیں ذروں کے سہارے حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے ہر صبح مری صبح پہ روتی رہی شبنم ہر رات مری رات پہ ہنستے رہے تارے کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے " na-dagmagaae-kabhii-ham-vafaa-ke-raste-men-habib-jalib-ghazals," نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں کسے لگائے گلے اور کہاں کہاں ٹھہرے ہزار غنچہ و گل ہیں صبا کے رستے میں خدا کا نام کوئی لے تو چونک اٹھتے ہیں ملے ہیں ہم کو وہ رہبر خدا کے رستے میں کہیں سلاسل تسبیح اور کہیں زنار بچھے ہیں دام بہت مدعا کے رستے میں ابھی وہ منزل فکر و نظر نہیں آئی ہے آدمی ابھی جرم و سزا کے رستے میں ہیں آج بھی وہی دار و رسن وہی زنداں ہر اک نگاہ رموز آشنا کے رستے میں یہ نفرتوں کی فصیلیں جہالتوں کے حصار نہ رہ سکیں گے ہماری صدا کے رستے میں مٹا سکے نہ کوئی سیل انقلاب جنہیں وہ نقش چھوڑے ہیں ہم نے وفا کے رستے میں زمانہ ایک سا جالبؔ سدا نہیں رہتا چلیں گے ہم بھی کبھی سر اٹھا کے رستے میں " vo-dekhne-mujhe-aanaa-to-chaahtaa-hogaa-habib-jalib-ghazals," وہ دیکھنے مجھے آنا تو چاہتا ہوگا مگر زمانے کی باتوں سے ڈر گیا ہوگا اسے تھا شوق بہت مجھ کو اچھا رکھنے کا یہ شوق اوروں کو شاید برا لگا ہوگا کبھی نہ حد ادب سے بڑھے تھے دیدہ و دل وہ مجھ سے کس لیے کسی بات پر خفا ہوگا مجھے گمان ہے یہ بھی یقین کی حد تک کسی سے بھی نہ وہ میری طرح ملا ہوگا کبھی کبھی تو ستاروں کی چھاؤں میں وہ بھی مرے خیال میں کچھ دیر جاگتا ہوگا وہ اس کا سادہ و معصوم والہانہ پن کسی بھی جگ میں کوئی دیوتا بھی کیا ہوگا نہیں وہ آیا تو جالبؔ گلہ نہ کر اس کا نہ جانے کیا اسے درپیش مسئلہ ہوگا " ye-soch-kar-na-maail-e-fariyaad-ham-hue-habib-jalib-ghazals," یہ سوچ کر نہ مائل فریاد ہم ہوئے آباد کب ہوئے تھے کہ برباد ہم ہوئے ہوتا ہے شاد کام یہاں کون با ضمیر ناشاد ہم ہوئے تو بہت شاد ہم ہوئے پرویز کے جلال سے ٹکرائے ہم بھی ہیں یہ اور بات ہے کہ نہ فرہاد ہم ہوئے کچھ ایسے بھا گئے ہمیں دنیا کے درد و غم کوئے بتاں میں بھولی ہوئی یاد ہم ہوئے جالبؔ تمام عمر ہمیں یہ گماں رہا اس زلف کے خیال سے آزاد ہم ہوئے " ye-jo-shab-ke-aivaanon-men-ik-halchal-ik-hashr-bapaa-hai-habib-jalib-ghazals," یہ جو شب کے ایوانوں میں اک ہلچل اک حشر بپا ہے یہ جو اندھیرا سمٹ رہا ہے یہ جو اجالا پھیل رہا ہے یہ جو ہر دکھ سہنے والا دکھ کا مداوا جان گیا ہے مظلوموں مجبوروں کا غم یہ جو مرے شعروں میں ڈھلا ہے یہ جو مہک گلشن گلشن ہے یہ جو چمک عالم عالم ہے مارکسزم ہے مارکسزم ہے مارکسزم ہے مارکسزم ہے " us-ne-jab-hans-ke-namaskaar-kiyaa-habib-jalib-ghazals," اس نے جب ہنس کے نمسکار کیا مجھ کو انسان سے اوتار کیا دشت غربت میں دل ویراں نے یاد جمنا کو کئی بار کیا پیار کی بات نہ پوچھو یارو ہم نے کس کس سے نہیں پیار کیا کتنی خوابیدہ تمناؤں کو اس کی آواز نے بیدار کیا ہم پجاری ہیں بتوں کے جالبؔ ہم نے کعبے میں بھی اقرار کیا " ik-shakhs-baa-zamiir-miraa-yaar-mushafii-habib-jalib-ghazals," اک شخص با ضمیر مرا یار مصحفیؔ میری طرح وفا کا پرستار مصحفیؔ رہتا تھا کج کلاہ امیروں کے درمیاں یکسر لئے ہوئے مرا کردار مصحفیؔ دیتے ہیں داد غیر کو کب اہل لکھنؤ کب داد کا تھا ان سے طلب گار مصحفیؔ نا قدریٔ جہاں سے کئی بار آ کے تنگ اک عمر شعر سے رہا بیزار مصحفیؔ دربار میں تھا بار کہاں اس غریب کو برسوں مثال میرؔ پھرا خوار مصحفیؔ میں نے بھی اس گلی میں گزاری ہے رو کے عمر ملتا ہے اس گلی میں کسے پیار مصحفیؔ " log-giiton-kaa-nagar-yaad-aayaa-habib-jalib-ghazals," لوگ گیتوں کا نگر یاد آیا آج پردیس میں گھر یاد آیا جب چلے آئے چمن زار سے ہم التفات گل تر یاد آیا تیری بیگانہ نگاہی سر شام یہ ستم تا بہ سحر یاد آیا ہم زمانے کا ستم بھول گئے جب ترا لطف نظر یاد آیا تو بھی مسرور تھا اس شب سر بزم اپنے شعروں کا اثر یاد آیا پھر ہوا درد تمنا بیدار پھر دل‌ خاک‌ بسر یاد آیا ہم جسے بھول چکے تھے جالبؔ پھر وہی راہ گزر یاد آیا " baaten-to-kuchh-aisii-hain-ki-khud-se-bhii-na-kii-jaaen-habib-jalib-ghazals," باتیں تو کچھ ایسی ہیں کہ خود سے بھی نہ کی جائیں سوچا ہے خموشی سے ہر اک زہر کو پی جائیں اپنا تو نہیں کوئی وہاں پوچھنے والا اس بزم میں جانا ہے جنہیں اب تو وہی جائیں اب تجھ سے ہمیں کوئی تعلق نہیں رکھنا اچھا ہو کہ دل سے تری یادیں بھی چلی جائیں اک عمر اٹھائے ہیں ستم غیر کے ہم نے اپنوں کی تو اک پل بھی جفائیں نہ سہی جائیں جالبؔ غم دوراں ہو کہ یاد رخ جاناں تنہا مجھے رہنے دیں مرے دل سے سبھی جائیں " dil-e-pur-shauq-ko-pahluu-men-dabaae-rakkhaa-habib-jalib-ghazals," دل پر شوق کو پہلو میں دبائے رکھا تجھ سے بھی ہم نے ترا پیار چھپائے رکھا چھوڑ اس بات کو اے دوست کہ تجھ سے پہلے ہم نے کس کس کو خیالوں میں بسائے رکھا غیر ممکن تھی زمانے کے غموں سے فرصت پھر بھی ہم نے ترا غم دل میں بسائے رکھا پھول کو پھول نہ کہتے سو اسے کیا کہتے کیا ہوا غیر نے کالر پہ سجائے رکھا جانے کس حال میں ہیں کون سے شہروں میں ہیں وہ زندگی اپنی جنہیں ہم نے بنائے رکھا ہائے کیا لوگ تھے وہ لوگ پری چہرہ لوگ ہم نے جن کے لیے دنیا کو بھلائے رکھا اب ملیں بھی تو نہ پہچان سکیں ہم ان کو جن کو اک عمر خیالوں میں بسائے رکھا " kuchh-log-khayaalon-se-chale-jaaen-to-soen-habib-jalib-ghazals," کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں بیتے ہوئے دن رات نہ یاد آئیں تو سوئیں چہرے جو کبھی ہم کو دکھائی نہیں دیں گے آ آ کے تصور میں نہ تڑپائیں تو سوئیں برسات کی رت کے وہ طرب ریز مناظر سینے میں نہ اک آگ سی بھڑکائیں تو سوئیں صبحوں کے مقدر کو جگاتے ہوئے مکھڑے آنچل جو نگاہوں میں نہ لہرائیں تو سوئیں محسوس یہ ہوتا ہے ابھی جاگ رہے ہیں لاہور کے سب یار بھی سو جائیں تو سوئیں " kam-puraanaa-bahut-nayaa-thaa-firaaq-habib-jalib-ghazals," کم پرانا بہت نیا تھا فراق اک عجب رمز آشنا تھا فراق دور وہ کب ہوا نگاہوں سے دھڑکنوں میں بسا ہوا ہے فراق شام غم کے سلگتے صحرا میں اک امنڈتی ہوئی گھٹا تھا فراق امن تھا پیار تھا محبت تھا رنگ تھا نور تھا نوا تھا فراق فاصلے نفرتوں کے مٹ جائیں پیار ہی پیار سوچتا تھا فراق ہم سے رنج و الم کے ماروں کو کس محبت سے دیکھتا تھا فراق عشق انسانیت سے تھا اس کو ہر تعصب سے ماورا تھا فراق " darakht-suukh-gae-ruk-gae-nadii-naale-habib-jalib-ghazals," درخت سوکھ گئے رک گئے ندی نالے یہ کس نگر کو روانہ ہوئے ہیں گھر والے کہانیاں جو سناتے تھے عہد رفتہ کی نشاں وہ گردش ایام نے مٹا ڈالے میں شہر شہر پھرا ہوں اسی تمنا میں کسی کو اپنا کہوں کوئی مجھ کو اپنا لے صدا نہ دے کسی مہتاب کو اندھیروں میں لگا نہ دے یہ زمانہ زبان پر تالے کوئی کرن ہے یہاں تو کوئی کرن ہے وہاں دل و نگاہ نے کس درجہ روگ ہیں پالے ہمیں پہ ان کی نظر ہے ہمیں پہ ان کا کرم یہ اور بات یہاں اور بھی ہیں دل والے کچھ اور تجھ پہ کھلیں گی حقیقتیں جالبؔ جو ہو سکے تو کسی کا فریب بھی کھا لے " bahut-raushan-hai-shaam-e-gam-hamaarii-habib-jalib-ghazals," بہت روشن ہے شام غم ہماری کسی کی یاد ہے ہم دم ہماری غلط ہے لا تعلق ہیں چمن سے تمہارے پھول اور شبنم ہماری یہ پلکوں پر نئے آنسو نہیں ہیں ازل سے آنکھ ہے پر نم ہماری ہر اک لب پر تبسم دیکھنے کی تمنا کب ہوئی ہے کم ہماری کہی ہے ہم نے خود سے بھی بہت کم نہ پوچھو داستان غم ہماری " bhulaa-bhii-de-use-jo-baat-ho-gaii-pyaare-habib-jalib-ghazals," بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے نئے چراغ جلا رات ہو گئی پیارے تری نگاہ پشیماں کو کیسے دیکھوں گا کبھی جو تجھ سے ملاقات ہو گئی پیارے نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال عجیب صورت حالات ہو گئی پیارے اداس اداس ہیں شمعیں بجھے بجھے ساغر یہ کیسی شام خرابات ہو گئی پیارے وفا کا نام نہ لے گا کوئی زمانے میں ہم اہل دل کو اگر مات ہو گئی پیارے تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے " phir-kabhii-laut-kar-na-aaenge-habib-jalib-ghazals," پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے ہم ترا شہر چھوڑ جائیں گے دور افتادہ بستیوں میں کہیں تیری یادوں سے لو لگائیں گے شمع ماہ و نجوم گل کر کے آنسوؤں کے دیئے جلائیں گے آخری بار اک غزل سن لو آخری بار ہم سنائیں گے صورت موجۂ ہوا جالبؔ ساری دنیا کی خاک اڑائیں گے " vatan-ko-kuchh-nahiin-khatra-nizaam-e-zar-hai-khatre-men-habib-jalib-ghazals," وطن کو کچھ نہیں خطرہ نظام زر ہے خطرے میں حقیقت میں جو رہزن ہے وہی رہبر ہے خطرے میں جو بیٹھا ہے صف ماتم بچھائے مرگ ظلمت پر وہ نوحہ گر ہے خطرے میں وہ دانشور ہے خطرے میں اگر تشویش لاحق ہے تو سلطانوں کو لاحق ہے نہ تیرا گھر ہے خطرے میں نہ میرا گھر ہے خطرے میں جہاں اقبالؔ بھی نذر خط تنسیخ ہو جالبؔ وہاں تجھ کو شکایت ہے ترا جوہر ہے خطرے میں " miir-o-gaalib-bane-yagaanaa-bane-habib-jalib-ghazals," میرؔ و غالبؔ بنے یگانہؔ بنے آدمی اے خدا خدا نہ بنے موت کی دسترس میں کب سے ہیں زندگی کا کوئی بہانہ بنے اپنا شاید یہی تھا جرم اے دوست با وفا بن کے بے وفا نہ بنے ہم پہ اک اعتراض یہ بھی ہے بے نوا ہو کے بے نوا نہ بنے یہ بھی اپنا قصور کیا کم ہے کسی قاتل کے ہم نوا نہ بنے کیا گلہ سنگ دل زمانے کا آشنا ہی جب آشنا نہ بنے چھوڑ کر اس گلی کو اے جالبؔ اک حقیقت سے ہم فسانہ بنے " jhuutii-khabren-ghadne-vaale-jhuute-sher-sunaane-vaale-habib-jalib-ghazals," جھوٹی خبریں گھڑنے والے جھوٹے شعر سنانے والے لوگو صبر کہ اپنے کئے کی جلد سزا ہیں پانے والے درد آنکھوں سے بہتا ہے اور چہرہ سب کچھ کہتا ہے یہ مت لکھو وہ مت لکھو آئے بڑے سمجھانے والے خود کاٹیں گے اپنی مشکل خود پائیں گے اپنی منزل راہزنوں سے بھی بد تر ہیں راہنما کہلانے والے ان سے پیار کیا ہے ہم نے ان کی راہ میں ہم بیٹھے ہیں نا ممکن ہے جن کا ملنا اور نہیں جو آنے والے ان پر بھی ہنستی تھی دنیا آوازیں کستی تھی دنیا جالبؔ اپنی ہی صورت تھے عشق میں جاں سے جانے والے " bade-bane-the-jaalib-saahab-pite-sadak-ke-biich-habib-jalib-ghazals," بڑے بنے تھے جالبؔ صاحب پٹے سڑک کے بیچ گولی کھائی لاٹھی کھائی گرے سڑک کے بیچ کبھی گریباں چاک ہوا اور کبھی ہوا دل خون ہمیں تو یوں ہی ملے سخن کے صلے سڑک کے بیچ جسم پہ جو زخموں کے نشاں ہیں اپنے تمغے ہیں ملی ہے ایسی داد وفا کی کسے سڑک کے بیچ " sher-se-shaairii-se-darte-hain-habib-jalib-ghazals," شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں کم نظر روشنی سے ڈرتے ہیں لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں دہر میں آہ بے کساں کے سوا اور ہم کب کسی سے ڈرتے ہیں ہم کو غیروں سے ڈر نہیں لگتا اپنے احباب ہی سے ڈرتے ہیں داور حشر بخش دے شاید ہاں مگر مولوی سے ڈرتے ہیں روٹھتا ہے تو روٹھ جائے جہاں ان کی ہم بے رخی سے ڈرتے ہیں ہر قدم پر ہے محتسب جالبؔ اب تو ہم چاندنی سے ڈرتے ہیں " kahiin-aah-ban-ke-lab-par-tiraa-naam-aa-na-jaae-habib-jalib-ghazals," کہیں آہ بن کے لب پر ترا نام آ نہ جائے تجھے بے وفا کہوں میں وہ مقام آ نہ جائے ذرا زلف کو سنبھالو مرا دل دھڑک رہا ہے کوئی اور طائر دل تہہ دام آ نہ جائے جسے سن کے ٹوٹ جائے مرا آرزو بھرا دل تری انجمن سے مجھ کو وہ پیام آ نہ جائے وہ جو منزلوں پہ لا کر کسی ہم سفر کو لوٹیں انہیں رہزنوں میں تیرا کہیں نام آ نہ جائے اسی فکر میں ہیں غلطاں یہ نظام زر کے بندے جو تمام زندگی ہے وہ نظام آ نہ جائے یہ مہ و نجوم ہنس لیں مرے آنسوؤں پہ جالبؔ مرا ماہتاب جب تک لب بام آ نہ جائے " phir-dil-se-aa-rahii-hai-sadaa-us-galii-men-chal-habib-jalib-ghazals," پھر دل سے آ رہی ہے صدا اس گلی میں چل شاید ملے غزل کا پتا اس گلی میں چل کب سے نہیں ہوا ہے کوئی شعر کام کا یہ شعر کی نہیں ہے فضا اس گلی میں چل وہ بام و در وہ لوگ وہ رسوائیوں کے زخم ہیں سب کے سب عزیز جدا اس گلی میں چل اس پھول کے بغیر بہت جی اداس ہے مجھ کو بھی ساتھ لے کے صبا اس گلی میں چل دنیا تو چاہتی ہے یوں ہی فاصلے رہیں دنیا کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل بے نور و بے اثر ہے یہاں کی صدائے ساز تھا اس سکوت میں بھی مزا اس گلی میں چل جالبؔ پکارتی ہیں وہ شعلہ نوائیاں یہ سرد رت یہ سرد ہوا اس گلی میں چل " ye-aur-baat-terii-galii-men-na-aaen-ham-habib-jalib-ghazals-3," یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑ جائیں ہم مدت ہوئی ہے کوئے بتاں کی طرف گئے آوارگی سے دل کو کہاں تک بچائیں ہم شاید بہ قید زیست یہ ساعت نہ آ سکے تم داستان شوق سنو اور سنائیں ہم بے نور ہو چکی ہے بہت شہر کی فضا تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے جالبؔ چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم " yuun-vo-zulmat-se-rahaa-dast-o-garebaan-yaaro-habib-jalib-ghazals," یوں وہ ظلمت سے رہا دست و گریباں یارو اس سے لرزاں تھے بہت شب کے نگہباں یارو اس نے ہر گام دیا حوصلۂ تازہ ہمیں وہ نہ اک پل بھی رہا ہم سے گریزاں یارو اس نے مانی نہ کبھی تیرگیٔ شب سے شکست دل اندھیروں میں رہا اس کا فروزاں یارو اس کو ہر حال میں جینے کی ادا آتی تھی وہ نہ حالات سے ہوتا تھا پریشاں یارو اس نے باطل سے نہ تا زیست کیا سمجھوتہ دہر میں اس سا کہاں صاحب ایماں یارو اس کو تھی کشمکش دیر و حرم سے نفرت اس سا ہندو نہ کوئی اس سا مسلماں یارو اس نے سلطانیٔ جمہور کے نغمے لکھے روح شاہوں کی رہی اس سے پریشاں یارو اپنے اشعار کی شمعوں سے اجالا کر کے کر گیا شب کا سفر کتنا وہ آساں یارو اس کے گیتوں سے زمانے کو سنواریں یارو روح ساحرؔ کو اگر کرنا ہے شاداں یارو " dil-kii-baat-labon-par-laa-kar-ab-tak-ham-dukh-sahte-hain-habib-jalib-ghazals," دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں بیت گیا ساون کا مہینہ موسم نے نظریں بدلیں لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا اس آوارہ دیوانے کو جالبؔ جالبؔ کہتے ہیں " main-dhuundtaa-huun-jise-vo-jahaan-nahiin-miltaa-kaifi-azmi-ghazals," میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا نئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا نئی زمین نیا آسماں بھی مل جائے نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مرا کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولھے کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوں یہاں تو کوئی مرا ہم زباں نہیں ملتا کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا " haath-aa-kar-lagaa-gayaa-koii-kaifi-azmi-ghazals," ہاتھ آ کر لگا گیا کوئی میرا چھپر اٹھا گیا کوئی لگ گیا اک مشین میں میں بھی شہر میں لے کے آ گیا کوئی میں کھڑا تھا کہ پیٹھ پر میری اشتہار اک لگا گیا کوئی یہ صدی دھوپ کو ترستی ہے جیسے سورج کو کھا گیا کوئی ایسی مہنگائی ہے کہ چہرہ بھی بیچ کے اپنا کھا گیا کوئی اب وہ ارمان ہیں نہ وہ سپنے سب کبوتر اڑا گیا کوئی وہ گئے جب سے ایسا لگتا ہے چھوٹا موٹا خدا گیا کوئی میرا بچپن بھی ساتھ لے آیا گاؤں سے جب بھی آ گیا کوئی " kyaa-jaane-kis-kii-pyaas-bujhaane-kidhar-gaiin-kaifi-azmi-ghazals," کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں اس سر پہ جھوم کے جو گھٹائیں گزر گئیں دیوانہ پوچھتا ہے یہ لہروں سے بار بار کچھ بستیاں یہاں تھیں بتاؤ کدھر گئیں اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں پیمانہ ٹوٹنے کا کوئی غم نہیں مجھے غم ہے تو یہ کہ چاندنی راتیں بکھر گئیں پایا بھی ان کو کھو بھی دیا چپ بھی ہو رہے اک مختصر سی رات میں صدیاں گزر گئیں " shor-yuunhii-na-parindon-ne-machaayaa-hogaa-kaifi-azmi-ghazals," شور یوں ہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہوگا پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہوگا بانیٔ جشن بہاراں نے یہ سوچا بھی نہیں کس نے کانٹوں کو لہو اپنا پلایا ہوگا بجلی کے تار پہ بیٹھا ہوا ہنستا پنچھی سوچتا ہے کہ وہ جنگل تو پرایا ہوگا اپنے جنگل سے جو گھبرا کے اڑے تھے پیاسے ہر سراب ان کو سمندر نظر آیا ہوگا " khaar-o-khas-to-uthen-raasta-to-chale-kaifi-azmi-ghazals," خار و خس تو اٹھیں راستہ تو چلے میں اگر تھک گیا قافلہ تو چلے چاند سورج بزرگوں کے نقش قدم خیر بجھنے دو ان کو ہوا تو چلے حاکم شہر یہ بھی کوئی شہر ہے مسجدیں بند ہیں مے کدہ تو چلے اس کو مذہب کہو یا سیاست کہو خودکشی کا ہنر تم سکھا تو چلے اتنی لاشیں میں کیسے اٹھا پاؤں گا آپ اینٹوں کی حرمت بچا تو چلے بیلچے لاؤ کھولو زمیں کی تہیں میں کہاں دفن ہوں کچھ پتا تو چلے " itnaa-to-zindagii-men-kisii-ke-khalal-pade-kaifi-azmi-ghazals," اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی کے گرم اشک یوں دوسرا ہنسے تو کلیجہ نکل پڑے اک تم کہ تم کو فکر نشیب و فراز ہے اک ہم کہ چل پڑے تو بہرحال چل پڑے ساقی سبھی کو ہے غم تشنہ لبی مگر مے ہے اسی کی نام پہ جس کے ابل پڑے مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے " tum-itnaa-jo-muskuraa-rahe-ho-kaifi-azmi-ghazals," تم اتنا جو مسکرا رہے ہو کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر کیا حال ہے کیا دکھا رہے ہو بن جائیں گے زہر پیتے پیتے یہ اشک جو پیتے جا رہے ہو جن زخموں کو وقت بھر چلا ہے تم کیوں انہیں چھیڑے جا رہے ہو ریکھاؤں کا کھیل ہے مقدر ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو " laaii-phir-ek-lagzish-e-mastaana-tere-shahr-men-kaifi-azmi-ghazals," لائی پھر اک لغزش مستانہ تیرے شہر میں پھر بنیں گی مسجدیں مے خانہ تیرے شہر میں آج پھر ٹوٹیں گی تیرے گھر کی نازک کھڑکیاں آج پھر دیکھا گیا دیوانہ تیرے شہر میں جرم ہے تیری گلی سے سر جھکا کر لوٹنا کفر ہے پتھراؤ سے گھبرانا تیرے شہر میں شاہ نامے لکھے ہیں کھنڈرات کی ہر اینٹ پر ہر جگہ ہے دفن اک افسانہ تیرے شہر میں کچھ کنیزیں جو حریم ناز میں ہیں باریاب مانگتی ہیں جان و دل نذرانہ تیرے شہر میں ننگی سڑکوں پر بھٹک کر دیکھ جب مرتی ہے رات رینگتا ہے ہر طرف ویرانہ تیرے شہر میں " vo-bhii-saraahne-lage-arbaab-e-fan-ke-baad-kaifi-azmi-ghazals," وہ بھی سراہنے لگے ارباب فن کے بعد داد سخن ملی مجھے ترک سخن کے بعد دیوانہ وار چاند سے آگے نکل گئے ٹھہرا نہ دل کہیں بھی تری انجمن کے بعد ہونٹوں کو سی کے دیکھیے پچھتائیے گا آپ ہنگامے جاگ اٹھتے ہیں اکثر گھٹن کے بعد غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اس کی دھوپ قدر وطن ہوئی ہمیں ترک وطن کے بعد اعلان حق میں خطرۂ دار و رسن تو ہے لیکن سوال یہ ہے کہ دار و رسن کے بعد انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں دو گز زمیں بھی چاہئے دو گز کفن کے بعد " jhukii-jhukii-sii-nazar-be-qaraar-hai-ki-nahiin-kaifi-azmi-ghazals," جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا مری طرح ترا دل بے قرار ہے کہ نہیں وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے اس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں تری امید پہ ٹھکرا رہا ہوں دنیا کو تجھے بھی اپنے پہ یہ اعتبار ہے کہ نہیں " sunaa-karo-mirii-jaan-in-se-un-se-afsaane-kaifi-azmi-ghazals," سنا کرو مری جاں ان سے ان سے افسانے سب اجنبی ہیں یہاں کون کس کو پہچانے یہاں سے جلد گزر جاؤ قافلے والو ہیں میری پیاس کے پھونکے ہوئے یہ ویرانے مرے جنون پرستش سے تنگ آ گئے لوگ سنا ہے بند کیے جا رہے ہیں بت خانے جہاں سے پچھلے پہر کوئی تشنہ کام اٹھا وہیں پہ توڑے ہیں یاروں نے آج پیمانے بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا مجھے تو آج طلب کر لیا ہے صحرا نے ہوا ہے حکم کہ کیفیؔ کو سنگسار کرو مسیح بیٹھے ہیں چھپ کے کہاں خدا جانے " kii-hai-koii-hasiin-khataa-har-khataa-ke-saath-kaifi-azmi-ghazals," کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ تھوڑا سا پیار بھی مجھے دے دو سزا کے ساتھ گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو ڈوبیں گے ہم ضرور مگر ناخدا کے ساتھ منزل سے وہ بھی دور تھا اور ہم بھی دور تھے ہم نے بھی دھول اڑائی بہت رہ نما کے ساتھ رقص صبا کے جشن میں ہم تم بھی ناچتے اے کاش تم بھی آ گئے ہوتے صبا کے ساتھ اکیسویں صدی کی طرف ہم چلے تو ہیں فتنے بھی جاگ اٹھے ہیں آواز پا کے ساتھ ایسا لگا غریبی کی ریکھا سے ہوں بلند پوچھا کسی نے حال کچھ ایسی ادا کے ساتھ " kahiin-se-laut-ke-ham-ladkhadaae-hain-kyaa-kyaa-kaifi-azmi-ghazals," کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا ستارے زیر قدم رات آئے ہیں کیا کیا نشیب ہستی سے افسوس ہم ابھر نہ سکے فراز دار سے پیغام آئے ہیں کیا کیا جب اس نے ہار کے خنجر زمیں پہ پھینک دیا تمام زخم جگر مسکرائے ہیں کیا کیا چھٹا جہاں سے اس آواز کا گھنا بادل وہیں سے دھوپ نے تلوے جلائے ہیں کیا کیا اٹھا کے سر مجھے اتنا تو دیکھ لینے دے کہ قتل گاہ میں دیوانے آئے ہیں کیا کیا کہیں اندھیرے سے مانوس ہو نہ جائے ادب چراغ تیز ہوا نے بجھائے ہیں کیا کیا " patthar-ke-khudaa-vahaan-bhii-paae-kaifi-azmi-ghazals," پتھر کے خدا وہاں بھی پائے ہم چاند سے آج لوٹ آئے دیواریں تو ہر طرف کھڑی ہیں کیا ہو گئے مہربان سائے جنگل کی ہوائیں آ رہی ہیں کاغذ کا یہ شہر اڑ نہ جائے لیلیٰ نے نیا جنم لیا ہے ہے قیس کوئی جو دل لگائے ہے آج زمیں کا غسل صحت جس دل میں ہو جتنا خون لائے صحرا صحرا لہو کے خیمے پھر پیاسے لب فرات آئے " jo-vo-mire-na-rahe-main-bhii-kab-kisii-kaa-rahaa-kaifi-azmi-ghazals-1," جو وہ مرے نہ رہے میں بھی کب کسی کا رہا بچھڑ کے ان سے سلیقہ نہ زندگی کا رہا لبوں سے اڑ گیا جگنو کی طرح نام اس کا سہارا اب مرے گھر میں نہ روشنی کا رہا گزرنے کو تو ہزاروں ہی قافلے گزرے زمیں پہ نقش قدم بس کسی کسی کا رہا " aaj-sochaa-to-aansuu-bhar-aae-kaifi-azmi-ghazals-1," آج سوچا تو آنسو بھر آئے مدتیں ہو گئیں مسکرائے ہر قدم پر ادھر مڑ کے دیکھا ان کی محفل سے ہم اٹھ تو آئے رہ گئی زندگی درد بن کے درد دل میں چھپائے چھپائے دل کی نازک رگیں ٹوٹتی ہیں یاد اتنا بھی کوئی نہ آئے " milne-kii-tarah-mujh-se-vo-pal-bhar-nahiin-miltaa-naseer-turabi-ghazals," ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا یہ راہ تمنا ہے یہاں دیکھ کے چلنا اس راہ میں سر ملتے ہیں پتھر نہیں ملتا ہم رنگیٔ موسم کے طلب گار نہ ہوتے سایہ بھی تو قامت کے برابر نہیں ملتا کہنے کو غم ہجر بڑا دشمن جاں ہے پر دوست بھی اس دوست سے بہتر نہیں ملتا کچھ روز نصیرؔ آؤ چلو گھر میں رہا جائے لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ گھر پر نہیں ملتا " vo-ham-safar-thaa-magar-us-se-ham-navaaii-na-thii-naseer-turabi-ghazals," وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیرؔ وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی " is-kadii-dhuup-men-saaya-kar-ke-naseer-turabi-ghazals," اس کڑی دھوپ میں سایہ کر کے تو کہاں ہے مجھے تنہا کر کے میں تو ارزاں تھا خدا کی مانند کون گزرا مرا سودا کر کے تیرگی ٹوٹ پڑی ہے مجھ پر میں پشیماں ہوں اجالا کر کے لے گیا چھین کے آنکھیں میری مجھ سے کیوں وعدۂ فردا کر کے لو ارادوں کی بڑھا دی شب نے دن گیا جب مجھے پسپا کر کے کاش یہ آئینۂ ہجر و وصال ٹوٹ جائے مجھے اندھا کر کے ہر طرف سچ کی دہائی ہے نصیرؔ شعر لکھتے رہو سچا کر کے " tujhe-kyaa-khabar-mire-be-khabar-miraa-silsila-koii-aur-hai-naseer-turabi-ghazals-3," تجھے کیا خبر مرے بے خبر مرا سلسلہ کوئی اور ہے جو مجھی کو مجھ سے بہم کرے وہ گریز پا کوئی اور ہے مرے موسموں کے بھی طور تھے مرے برگ و بار ہی اور تھے مگر اب روش ہے الگ کوئی مگر اب ہوا کوئی اور ہے یہی شہر شہر قرار ہے تو دل شکستہ کی خیر ہو مری آس ہے کسی اور سے مجھے پوچھتا کوئی اور ہے یہ وہ ماجرائے فراق ہے جو محبتوں سے نہ کھل سکا کہ محبتوں ہی کے درمیاں سبب جفا کوئی اور ہے ہیں محبتوں کی امانتیں یہی ہجرتیں یہی قربتیں دیے بام و در کسی اور نے تو رہا بسا کوئی اور ہے یہ فضا کے رنگ کھلے کھلے اسی پیش و پس کے ہیں سلسلے ابھی خوش نوا کوئی اور تھا ابھی پر کشا کوئی اور ہے دل زود رنج نہ کر گلہ کسی گرم و سرد رقیب کا رخ ناسزا تو ہے روبرو پس ناسزا کوئی اور ہے بہت آئے ہمدم و چارہ گر جو نمود و نام کے ہو گئے جو زوال غم کا بھی غم کرے وہ خوش آشنا کوئی اور ہے یہ نصیرؔ شام سپردگی کی اداس اداس سی روشنی بہ کنار گل ذرا دیکھنا یہ تمہی ہو یا کوئی اور ہے " marham-e-vaqt-na-ejaaz-e-masiihaaii-hai-naseer-turabi-ghazals," مرہم وقت نہ اعجاز مسیحائی ہے زندگی روز نئے زخم کی گہرائی ہے پھر مرے گھر کی فضاؤں میں ہوا سناٹا پھر در و بام سے اندیشۂ گویائی ہے تجھ سے بچھڑوں تو کوئی پھول نہ مہکے مجھ میں دیکھ کیا کرب ہے کیا ذات کی سچائی ہے تیرا منشا ترے لہجے کی دھنک میں دیکھا تری آواز بھی شاید تری انگڑائی ہے کچھ عجب گردش پرکار سفر رکھتا ہوں دو قدم مجھ سے بھی آگے مری رسوائی ہے کچھ تو یہ ہے کہ مری راہ جدا ہے تجھ سے اور کچھ قرض بھی مجھ پر تری تنہائی ہے کس لیے مجھ سے گریزاں ہے مرے سامنے تو کیا تری راہ میں حائل مری بینائی ہے وہ ستارے جو چمکتے ہیں ترے آنگن میں ان ستاروں سے تو اپنی بھی شناسائی ہے جس کو اک عمر غزل سے کیا منسوب نصیرؔ اس کو پرکھا تو کھلا قافیہ پیمائی ہے " diyaa-saa-dil-ke-kharaabe-men-jal-rahaa-hai-miyaan-naseer-turabi-ghazals," دیا سا دل کے خرابے میں جل رہا ہے میاں دیے کے گرد کوئی عکس چل رہا ہے میاں یہ روح رقص چراغاں ہے اپنے حلقے میں یہ جسم سایہ ہے اور سایہ ڈھل رہا میاں یہ آنکھ پردہ ہے اک گردش تحیر کا یہ دل نہیں ہے بگولہ اچھل رہا ہے میاں کبھی کسی کا گزرنا کبھی ٹھہر جانا مرے سکوت میں کیا کیا خلل رہا ہے میاں کسی کی راہ میں افلاک زیر پا ہوتے یہاں تو پاؤں سے صحرا نکل رہا ہے میاں ہجوم شوخ میں یہ دل ہی بے غرض نکلا چلو کوئی تو حریفانہ چل رہا ہے میاں تجھے ابھی سے پڑی ہے کہ فیصلہ ہو جائے نہ جانے کب سے یہاں وقت ٹل رہا ہے میاں طبیعتوں ہی کے ملنے سے تھا مزہ باقی سو وہ مزہ بھی کہاں آج کل رہا ہے میاں غموں کی فصل میں جس غم کو رائیگاں سمجھیں خوشی تو یہ ہے کہ وہ غم بھی پھل رہا ہے میاں لکھا نصیرؔ نے ہر رنگ میں سفید و سیاہ مگر جو حرف لہو میں مچل رہا ہے میاں " sukuut-e-shaam-se-ghabraa-na-jaae-aakhir-tuu-naseer-turabi-ghazals," سکوت شام سے گھبرا نہ جائے آخر تو مرے دیار سے گزری جو اے کرن پھر تو لباس جاں میں نہیں شعلگی کا رنگ مگر جھلس رہا ہے مرے ساتھ کیوں بظاہر تو وفائے وعدہ و پیماں کا اعتبار بھی کیا کہ میں تو صاحب ایماں ہوں اور منکر تو مرے وجود میں اک بے زباں سمندر ہے اتر کے دیکھ سفینے سے میری خاطر تو میں شاخ سبز نہیں محرم صبا بھی نہیں مرے فریب میں کیوں آ گیا ہے طائر تو اسی امید پہ جلتے ہیں راستوں میں چراغ کبھی تو لوٹ کے آئے گا اے مسافر تو " main-bhii-ai-kaash-kabhii-mauj-e-sabaa-ho-jaauun-naseer-turabi-ghazals," میں بھی اے کاش کبھی موج صبا ہو جاؤں اس توقع پہ کہ خود سے بھی جدا ہو جاؤں ابر اٹھے تو سمٹ جاؤں تری آنکھوں میں دھوپ نکلے تو ترے سر کی ردا ہو جاؤں آج کی رات اجالے مرے ہمسایہ ہیں آج کی رات جو سو لوں تو نیا ہو جاؤں اب یہی سوچ لیا دل میں کہ منزل کے بغیر گھر پلٹ آؤں تو میں آبلہ پا ہو جاؤں پھول کی طرح مہکتا ہوں تری یاد کے ساتھ یہ الگ بات کہ میں تجھ سے خفا ہو جاؤں جس کے کوچے میں برستے رہے پتھر مجھ پر اس کے ہاتھوں کے لیے رنگ حنا ہو جاؤں آرزو یہ ہے کہ تقدیس ہنر کی خاطر تیرے ہونٹوں پہ رہوں حمد و ثنا ہو جاؤں مرحلہ اپنی پرستش کا ہو درپیش تو میں اپنے ہی سامنے مائل بہ دعا ہو جاؤں تیشۂ وقت بتائے کہ تعارف کے لیے کن پہاڑوں کی بلندی پہ کھڑا ہو جاؤں ہائے وہ لوگ کہ میں جن کا پجاری ہوں نصیرؔ ہائے وہ لوگ کہ میں جن کا خدا ہو جاؤں " rache-base-hue-lamhon-se-jab-hisaab-huaa-naseer-turabi-ghazals," رچے بسے ہوئے لمحوں سے جب حساب ہوا گئے دنوں کی رتوں کا زیاں ثواب ہوا گزر گیا تو پس موج بے کناری تھی ٹھہر گیا تو وہ دریا مجھے سراب ہوا سپردگی کے تقاضے کہاں کہاں سے پڑھوں ہنر کے باب میں پیکر ترا کتاب ہوا ہر آرزو مری آنکھوں کی روشنی ٹھہری چراغ سوچ میں گم ہیں یہ کیا عذاب ہوا کچھ اجنبی سے لگے آشنا دریچے بھی کرن کرن جو اجالوں کا احتساب ہوا وہ یخ مزاج رہا فاصلوں کے رشتوں سے مگر گلے سے لگایا تو آب آب ہوا وہ پیڑ جس کے تلے روح گنگناتی تھی اسی کی چھاؤں سے اب مجھ کو اجتناب ہوا ان آندھیوں میں کسے مہلت قیام یہاں کہ ایک خیمۂ جاں تھا سو بے طناب ہوا صلیب سنگ ہو یا پیرہن کے رنگ نصیرؔ ہمارے نام سے کیا کیا نہ انتساب ہوا " dard-kii-dhuup-se-chehre-ko-nikhar-jaanaa-thaa-naseer-turabi-ghazals," درد کی دھوپ سے چہرے کو نکھر جانا تھا آئنہ دیکھنے والے تجھے مر جانا تھا راہ میں ایسے نقوش کف پا بھی آئے میں نے دانستہ جنہیں گرد سفر جانا تھا وہم‌ و ادراک کے ہر موڑ پہ سوچا میں نے تو کہاں ہے مرے ہم راہ اگر جانا تھا آگہی زخم نظارہ نہ بنی تھی جب تک میں نے ہر شخص کو محبوب نظر جانا تھا قربتیں ریت کی دیوار ہیں گر سکتی ہیں مجھ کو خود اپنے ہی سائے میں ٹھہر جانا تھا تو کہ وہ تیز ہوا جس کی تمنا بے سود میں کہ وہ خاک جسے خود ہی بکھر جانا تھا آنکھ ویران سہی پھر بھی اندھیروں کو نصیرؔ روشنی بن کے مرے دل میں اتر جانا تھا " ham-rahii-kii-baat-mat-kar-imtihaan-ho-jaaegaa-naseer-turabi-ghazals," ہمرہی کی بات مت کر امتحاں ہو جائے گا ہم سبک ہو جائیں گے تجھ کو گراں ہو جائے گا جب بہار آ کر گزر جائے گی اے سرو بہار ایک رنگ اپنا بھی پیوند خزاں ہو جائے گا ساعت ترک تعلق بھی قریب آ ہی گئی کیا یہ اپنا سب تعلق رائیگاں ہو جائے گا یہ ہوا سارے چراغوں کو اڑا لے جائے گی رات ڈھلنے تک یہاں سب کچھ دھواں ہو جائے گا شاخ دل پھر سے ہری ہونے لگی دیکھو نصیرؔ ایسا لگتا ہے کسی کا آشیاں ہو جائے گا " misl-e-sahraa-hai-rifaaqat-kaa-chaman-bhii-ab-ke-naseer-turabi-ghazals," مثل صحرا ہے رفاقت کا چمن بھی اب کے جل بجھا اپنے ہی شعلوں میں بدن بھی اب کے خار و خس ہوں تو شرر خیزیاں دیکھوں پھر سے آنکھ لے آئی ہے اک ایسی کرن بھی اب کے ہم تو وہ پھول جو شاخوں پہ یہ سوچیں پہروں کیوں صبا بھول گئی اپنا چلن بھی اب کے منزلوں تک نظر آتا ہے شکستوں کا غبار ساتھ دیتی نہیں ایسے میں تھکن بھی اب کے منسلک ایک ہی رشتے میں نہ ہو جائے کہیں ترے ماتھے ترے بستر کی شکن بھی اب کے بے گناہی کے لبادے کو اتارو بھی نصیرؔ راس آ جائے اگر جرم سخن بھی اب کے " sabaa-kaa-narm-saa-jhonkaa-bhii-taaziyaana-huaa-naseer-turabi-ghazals-1," صبا کا نرم سا جھونکا بھی تازیانہ ہوا یہ وار مجھ پہ ہوا بھی تو غائبانہ ہوا اسی نے مجھ پہ اٹھائے ہیں سنگ جس کے لیے میں پاش پاش ہوا گھر نگار خانہ ہوا جھلس رہا تھا بدن گرمئ نفس سے مگر ترے خیال کا خورشید شامیانہ ہوا خود اپنے ہجر کی خواہش مجھے عزیز رہی یہ تیرے وصل کا قصہ تو اک بہانہ ہوا خدا کی سرد مزاجی سما گئی مجھ میں مری تلاش کا سودا پیمبرانہ ہوا میں اک شجر کی طرح رہگزر میں ٹھہرا ہوں تھکن اتار کے تو کس طرف روانہ ہوا وہ شخص جس کے لیے شعر کہہ رہا ہوں نصیرؔ غزل سنائے ہوئے اس کو اک زمانہ ہوا " koii-aavaaz-na-aahat-na-khayaal-aise-men-naseer-turabi-ghazals," کوئی آواز نہ آہٹ نہ خیال ایسے میں رات مہکی ہے مگر جی ہے نڈھال ایسے میں میرے اطراف تو گرتی ہوئی دیواریں ہیں سایۂ عمر رواں مجھ کو سنبھال ایسے میں جب بھی چڑھتے ہوئے دریا میں سفینہ اترا یاد آیا ترے لہجے کا کمال ایسے میں آنکھ کھلتی ہے تو سب خواب بکھر جاتے ہیں سوچتا ہوں کہ بچھا دوں کوئی جال ایسے میں مدتوں بعد اگر سامنے آئے ہم تم دھندلے دھندلے سے ملیں گے خد و خال ایسے میں ہجر کے پھول میں ہے درد کی باسی خوشبو موسم وصل کوئی تازہ ملال ایسے میں " dekh-lete-hain-ab-us-baam-ko-aate-jaate-naseer-turabi-ghazals," دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے یہ بھی آزار چلا جائے گا جاتے جاتے دل کے سب نقش تھے ہاتھوں کی لکیروں جیسے نقش پا ہوتے تو ممکن تھا مٹاتے جاتے تھی کبھی راہ جو ہمراہ گزرنے والی اب حذر ہوتا ہے اس راہ سے آتے جاتے شہر بے مہر! کبھی ہم کو بھی مہلت دیتا اک دیا ہم بھی کسی رخ سے جلاتے جاتے پارۂ ابر گریزاں تھے کہ موسم اپنے دور بھی رہتے مگر پاس بھی آتے جاتے ہر گھڑی ایک جدا غم ہے جدائی اس کی غم کی میعاد بھی وہ لے گیا جاتے جاتے اس کے کوچے میں بھی ہو، راہ سے بے راہ نصیرؔ اتنے آئے تھے تو آواز لگاتے جاتے " injiil-e-raftagaan-kii-hadiison-ke-saath-huun-naseer-turabi-ghazals," انجیل رفتگاں کی حدیثوں کے ساتھ ہوں عیسیٰ نفس ہوں اور صلیبوں کے ساتھ ہوں پابند رنگ و نقش ہوں تصویر کی طرح میں بے حجاب اپنے حجابوں کے ساتھ ہوں اوراق آرزو پہ بہ عنوان جاں کنی میں بے نشاں سی چند لکیروں کے ساتھ ہوں شاید یہ انتظار کی لو فیصلہ کرے میں اپنے ساتھ ہوں کہ دریچوں کے ساتھ ہوں تو فتح مند میرا تراشا ہوا صنم میں بت تراش اپنی شکستوں کے ساتھ ہوں موج صبا کی زد پہ سر‌ رہ گزار شوق میں بھی نصیرؔ گھر کے چراغوں کے ساتھ ہوں " ishq-e-laa-mahduud-jab-tak-rahnumaa-hotaa-nahiin-jigar-moradabadi-ghazals," عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں بے کراں ہوتا نہیں بے انتہا ہوتا نہیں قطرہ جب تک بڑھ کے قلزم آشنا ہوتا نہیں اس سے بڑھ کر دوست کوئی دوسرا ہوتا نہیں سب جدا ہو جائیں لیکن غم جدا ہوتا نہیں زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں کون یہ ناصح کو سمجھائے بہ طرز دل نشیں عشق صادق ہو تو غم بھی بے مزا ہوتا نہیں درد سے معمور ہوتی جا رہی ہے کائنات اک دل انساں مگر درد آشنا ہوتا نہیں میرے عرض غم پہ وہ کہنا کسی کا ہائے ہائے شکوۂ غم شیوۂ اہل وفا ہوتا نہیں اس مقام قرب تک اب عشق پہنچا ہی جہاں دیدہ و دل کا بھی اکثر واسطا ہوتا نہیں ہر قدم کے ساتھ منزل لیکن اس کا کیا علاج عشق ہی کم بخت منزل آشنا ہوتا نہیں اللہ اللہ یہ کمال اور ارتباط حسن و عشق فاصلے ہوں لاکھ دل سے دل جدا ہوتا نہیں کیا قیامت ہے کہ اس دور ترقی میں جگرؔ آدمی سے آدمی کا حق ادا ہوتا نہیں " ab-to-ye-bhii-nahiin-rahaa-ehsaas-jigar-moradabadi-ghazals," اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس درد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا عشق جب تک نہ کر چکے رسوا آدمی کام کا نہیں ہوتا ٹوٹ پڑتا ہے دفعتاً جو عشق بیشتر دیر پا نہیں ہوتا وہ بھی ہوتا ہے ایک وقت کہ جب ماسوا ماسوا نہیں ہوتا ہائے کیا ہو گیا طبیعت کو غم بھی راحت فزا نہیں ہوتا دل ہمارا ہے یا تمہارا ہے ہم سے یہ فیصلہ نہیں ہوتا جس پہ تیری نظر نہیں ہوتی اس کی جانب خدا نہیں ہوتا میں کہ بے زار عمر بھر کے لیے دل کہ دم بھر جدا نہیں ہوتا وہ ہمارے قریب ہوتے ہیں جب ہمارا پتا نہیں ہوتا دل کو کیا کیا سکون ہوتا ہے جب کوئی آسرا نہیں ہوتا ہو کے اک بار سامنا ان سے پھر کبھی سامنا نہیں ہوتا " jo-ab-bhii-na-takliif-farmaaiyegaa-jigar-moradabadi-ghazals," جو اب بھی نہ تکلیف فرمائیے گا تو بس ہاتھ ملتے ہی رہ جائیے گا نگاہوں سے چھپ کر کہاں جائیے گا جہاں جائیے گا ہمیں پائیے گا مرا جب برا حال سن پائیے گا خراماں خراماں چلے آئیے گا مٹا کر ہمیں آپ پچھتائیے گا کمی کوئی محسوس فرمائیے گا نہیں کھیل ناصح جنوں کی حقیقت سمجھ لیجئے گا تو سمجھائیے گا ہمیں بھی یہ اب دیکھنا ہے کہ ہم پر کہاں تک توجہ نہ فرمائیے گا ستم عشق میں آپ آساں نہ سمجھیں تڑپ جائیے گا جو تڑپائیے گا یہ دل ہے اسے دل ہی بس رہنے دیجے کرم کیجئے گا تو پچھتائیے گا کہیں چپ رہی ہے زبان محبت نہ فرمائیے گا تو فرمائیے گا بھلانا ہمارا مبارک مبارک مگر شرط یہ ہے نہ یاد آئیے گا ہمیں بھی نہ اب چین آئے گا جب تک ان آنکھوں میں آنسو نہ بھر لائیے گا ترا جذبۂ شوق ہے بے حقیقت ذرا پھر تو ارشاد فرمائیے گا ہمیں جب نہ ہوں گے تو کیا رنگ محفل کسے دیکھ کر آپ شرمایئے گا یہ مانا کہ دے کر ہمیں رنج فرقت مداوائے فرقت نہ فرمائیے گا محبت محبت ہی رہتی ہے لیکن کہاں تک طبیعت کو بہلایئے گا نہ ہوگا ہمارا ہی آغوش خالی کچھ اپنا بھی پہلو تہی پائیے گا جنوں کی جگرؔ کوئی حد بھی ہے آخر کہاں تک کسی پر ستم ڈھایئے گا " kiyaa-taajjub-ki-mirii-ruuh-e-ravaan-tak-pahunche-jigar-moradabadi-ghazals," کیا تعجب کہ مری روح رواں تک پہنچے پہلے کوئی مرے نغموں کی زباں تک پہنچے جب ہر اک شورش غم ضبط فغاں تک پہنچے پھر خدا جانے یہ ہنگامہ کہاں تک پہنچے آنکھ تک دل سے نہ آئے نہ زباں تک پہنچے بات جس کی ہے اسی آفت جاں تک پہنچے تو جہاں پر تھا بہت پہلے وہیں آج بھی ہے دیکھ رندان خوش انفاس کہاں تک پہنچے جو زمانے کو برا کہتے ہیں خود ہیں وہ برے کاش یہ بات ترے گوش گراں تک پہنچے بڑھ کے رندوں نے قدم حضرت واعظ کے لیے گرتے پڑتے جو در پیر مغاں تک پہنچے تو مرے حال پریشاں پہ بہت طنز نہ کر اپنے گیسو بھی ذرا دیکھ کہاں تک پہنچے ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے عشق کی چوٹ دکھانے میں کہیں آتی ہے کچھ اشارے تھے کہ جو لفظ و بیاں تک پہنچے جلوے بیتاب تھے جو پردۂ فطرت میں جگرؔ خود تڑپ کر مری چشم نگراں تک پہنچے " vo-jo-ruuthen-yuun-manaanaa-chaahiye-jigar-moradabadi-ghazals," وہ جو روٹھیں یوں منانا چاہیئے زندگی سے روٹھ جانا چاہیئے ہمت قاتل بڑھانا چاہیئے زیر خنجر مسکرانا چاہیئے زندگی ہے نام جہد و جنگ کا موت کیا ہے بھول جانا چاہیئے ہے انہیں دھوکوں سے دل کی زندگی جو حسیں دھوکا ہو کھانا چاہیئے لذتیں ہیں دشمن اوج کمال کلفتوں سے جی لگانا چاہیئے ان سے ملنے کو تو کیا کہئے جگرؔ خود سے ملنے کو زمانا چاہیئے " allaah-agar-taufiiq-na-de-insaan-ke-bas-kaa-kaam-nahiin-jigar-moradabadi-ghazals," اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں یہ تو نے کہا کیا اے ناداں فیاضی قدرت عام نہیں تو فکر و نظر تو پیدا کر کیا چیز ہے جو انعام نہیں یارب یہ مقام عشق ہے کیا گو دیدہ و دل ناکام نہیں تسکین ہے اور تسکین نہیں آرام ہے اور آرام نہیں کیوں مست شراب عیش و طرب تکلیف توجہ فرمائیں آواز شکست دل ہی تو ہے آواز شکست جام نہیں آنا ہے جو بزم جاناں میں پندار خودی کو توڑ کے آ اے ہوش و خرد کے دیوانے یاں ہوش و خرد کا کام نہیں زاہد نے کچھ اس انداز سے پی ساقی کی نگاہیں پڑنے لگیں مے کش یہی اب تک سمجھے تھے شائستہ دور جام نہیں عشق اور گوارا خود کر لے بے شرط شکست فاش اپنی دل کی بھی کچھ ان کے سازش ہے تنہا یہ نظر کا کام نہیں سب جس کو اسیری کہتے ہیں وہ تو ہے امیری ہی لیکن وہ کون سی آزادی ہے یہاں جو آپ خود اپنا دام نہیں " dil-ko-sukuun-ruuh-ko-aaraam-aa-gayaa-jigar-moradabadi-ghazals," دل کو سکون روح کو آرام آ گیا موت آ گئی کہ دوست کا پیغام آ گیا جب کوئی ذکر گردش آیام آ گیا بے اختیار لب پہ ترا نام آ گیا غم میں بھی ہے سرور وہ ہنگام آ گیا شاید کہ دور بادۂ گلفام آ گیا دیوانگی ہو عقل ہو امید ہو کہ یاس اپنا وہی ہے وقت پہ جو کام آ گیا دل کے معاملات میں ناصح شکست کیا سو بار حسن پر بھی یہ الزام آ گیا صیاد شادماں ہے مگر یہ تو سوچ لے میں آ گیا کہ سایہ تہ دام آ گیا دل کو نہ پوچھ معرکۂ حسن و عشق میں کیا جانیے غریب کہاں کام آ گیا یہ کیا مقام عشق ہے ظالم کہ ان دنوں اکثر ترے بغیر بھی آرام آ گیا احباب مجھ سے قطع تعلق کریں جگرؔ اب آفتاب زیست لب بام آ گیا " sharmaa-gae-lajaa-gae-daaman-chhudaa-gae-jigar-moradabadi-ghazals," شرما گئے لجا گئے دامن چھڑا گئے اے عشق مرحبا وہ یہاں تک تو آ گئے دل پر ہزار طرح کے اوہام چھا گئے یہ تم نے کیا کیا مری دنیا میں آ گئے سب کچھ لٹا کے راہ محبت میں اہل دل خوش ہیں کہ جیسے دولت کونین پا گئے صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا وہ آ گئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے عقل و جنوں میں سب کی تھیں راہیں جدا جدا ہر پھر کے لیکن ایک ہی منزل پہ آ گئے اب کیا کروں میں فطرت ناکام عشق کو جتنے تھے حادثات مجھے راس آ گئے " ham-ko-mitaa-sake-ye-zamaane-men-dam-nahiin-jigar-moradabadi-ghazals," ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں بے فائدہ الم نہیں بے کار غم نہیں توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں میری زباں پہ شکوۂ اہل ستم نہیں مجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں یا رب ہجوم درد کو دے اور وسعتیں دامن تو کیا ابھی مری آنکھیں بھی نم نہیں شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتاً تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد سایہ نہیں جہاں کوئی نقش قدم نہیں ملتا ہے کیوں مزہ ستم روزگار میں تیرا کرم بھی خود جو شریک ستم نہیں مرگ جگرؔ پہ کیوں تری آنکھیں ہیں اشک ریز اک سانحہ سہی مگر اتنا اہم نہیں " aadmii-aadmii-se-miltaa-hai-jigar-moradabadi-ghazals," آدمی آدمی سے ملتا ہے دل مگر کم کسی سے ملتا ہے بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے سلسلہ فتنۂ قیامت کا تیری خوش قامتی سے ملتا ہے مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے کاروبار جہاں سنورتے ہیں ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے روح کو بھی مزا محبت کا دل کی ہم سائیگی سے ملتا ہے " mohabbat-men-ye-kyaa-maqaam-aa-rahe-hain-jigar-moradabadi-ghazals," محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں کہ منزل پہ ہیں اور چلے جا رہے ہیں یہ کہہ کہہ کے ہم دل کو بہلا رہے ہیں وہ اب چل چکے ہیں وہ اب آ رہے ہیں وہ از خود ہی نادم ہوئے جا رہے ہیں خدا جانے کیا کیا خیال آ رہے ہیں ہمارے ہی دل سے مزے ان کے پوچھو وہ دھوکے جو دانستہ ہم کھا رہے ہیں جفا کرنے والوں کو کیا ہو گیا ہے وفا کر کے بھی ہم تو شرما رہے ہیں وہ عالم ہے اب یارو اغیار کیسے ہمیں اپنے دشمن ہوئے جا رہے ہیں مزاج گرامی کی ہو خیر یارب کئی دن سے اکثر وہ یاد آ رہے ہیں " us-kii-nazron-men-intikhaab-huaa-jigar-moradabadi-ghazals," اس کی نظروں میں انتخاب ہوا دل عجب حسن سے خراب ہوا عشق کا سحر کامیاب ہوا میں ترا تو مرا جواب ہوا ہر نفس موج اضطراب ہوا زندگی کیا ہوئی عذاب ہوا جذبۂ شوق کامیاب ہوا آج مجھ سے انہیں حجاب ہوا میں بنوں کس لیے نہ مست شراب کیوں مجسم کوئی شباب ہوا نگۂ ناز لے خبر ورنہ درد محبوب اضطراب ہوا میری بربادیاں درست مگر تو بتا کیا تجھے ثواب ہوا عین قربت بھی عین فرقت بھی ہائے وہ قطرہ جو حباب ہوا مستیاں ہر طرف ہیں آوارہ کون غارت گر شراب ہوا دل کو چھونا نہ اے نسیم کرم اب یہ دل روکش حباب ہوا عشق بے امتیاز کے ہاتھوں حسن خود بھی شکست یاب ہوا جب وہ آئے تو پیشتر سب سے میری آنکھوں کو اذن خواب ہوا دل کی ہر چیز جگمگا اٹھی آج شاید وہ بے نقاب ہوا دور ہنگامۂ نشاط نہ پوچھ اب وہ سب کچھ خیال و خواب ہوا تو نے جس اشک پر نظر ڈالی جوش کھا کر وہی شراب ہوا ستم خاص یار کی ہے قسم کرم یار بے حساب ہوا " laakhon-men-intikhaab-ke-qaabil-banaa-diyaa-jigar-moradabadi-ghazals," لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنا دیا جس دل کو تم نے دیکھ لیا دل بنا دیا ہر چند کر دیا مجھے برباد عشق نے لیکن انہیں تو شیفتۂ دل بنا دیا پہلے کہاں یہ ناز تھے یہ عشوہ و ادا دل کو دعائیں دو تمہیں قاتل بنا دیا " ai-husn-e-yaar-sharm-ye-kyaa-inqalaab-hai-jigar-moradabadi-ghazals," اے حسن یار شرم یہ کیا انقلاب ہے تجھ سے زیادہ درد ترا کامیاب ہے عاشق کی بے دلی کا تغافل نہیں جواب اس کا بس ایک جوش محبت جواب ہے تیری عنایتیں کہ نہیں نذر جاں قبول تیری نوازشیں کہ زمانہ خراب ہے اے حسن اپنی حوصلہ افزائیاں تو دیکھ مانا کہ چشم شوق بہت بے حجاب ہے میں عشق بے نیاز ہوں تم حسن بے پناہ میرا جواب ہے نہ تمہارا جواب ہے مے خانہ ہے اسی کا یہ دنیا اسی کی ہے جس تشنہ لب کے ہاتھ میں جام شراب ہے اس سے دل تباہ کی روداد کیا کہوں جو یہ نہ سن سکے کہ زمانہ خراب ہے اے محتسب نہ پھینک مرے محتسب نہ پھینک ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے اپنے حدود سے نہ بڑھے کوئی عشق میں جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے وہ لاکھ سامنے ہوں مگر اس کا کیا علاج دل مانتا نہیں کہ نظر کامیاب ہے میری نگاہ شوق بھی کچھ کم نہیں مگر پھر بھی ترا شباب ترا ہی شباب ہے مانوس اعتبار کرم کیوں کیا مجھے اب ہر خطائے شوق اسی کا جواب ہے میں اس کا آئینہ ہوں وہ ہے میرا آئینہ میری نظر سے اس کی نظر کامیاب ہے تنہائی فراق کے قربان جائیے میں ہوں خیال یار ہے چشم پر آب ہے سرمایۂ فراق جگرؔ آہ کچھ نہ پوچھ اب جان ہے سو اپنے لیے خود عذاب ہے " sabhii-andaaz-e-husn-pyaare-hain-jigar-moradabadi-ghazals," سبھی انداز حسن پیارے ہیں ہم مگر سادگی کے مارے ہیں اس کی راتوں کا انتقام نہ پوچھ جس نے ہنس ہنس کے دن گزارے ہیں اے سہاروں کی زندگی والو کتنے انسان بے سہارے ہیں لالہ و گل سے تجھ کو کیا نسبت نا مکمل سے استعارے ہیں ہم تو اب ڈوب کر ہی ابھریں گے وہ رہیں شاد جو کنارے ہیں شب فرقت بھی جگمگا اٹھی اشک غم ہیں کہ ماہ پارے ہیں آتش عشق وہ جہنم ہے جس میں فردوس کے نظارے ہیں وہ ہمیں ہیں کہ جن کے ہاتھوں نے گیسوئے زندگی سنوارے ہیں حسن کی بے نیازیوں پہ نہ جا بے اشارے بھی کچھ اشارے ہیں " dil-gayaa-raunaq-e-hayaat-gaii-jigar-moradabadi-ghazals," دل گیا رونق حیات گئی غم گیا ساری کائنات گئی دل دھڑکتے ہی پھر گئی وہ نظر لب تک آئی نہ تھی کہ بات گئی دن کا کیا ذکر تیرہ بختوں میں ایک رات آئی ایک رات گئی تیری باتوں سے آج تو واعظ وہ جو تھی خواہش نجات گئی ان کے بہلائے بھی نہ بہلا دل رائیگاں سعئ التفات گئی مرگ عاشق تو کچھ نہیں لیکن اک مسیحا نفس کی بات گئی اب جنوں آپ ہے گریباں گیر اب وہ رسم تکلفات گئی ہم نے بھی وضع غم بدل ڈالی جب سے وہ طرز التفات گئی ترک الفت بہت بجا ناصح لیکن اس تک اگر یہ بات گئی ہاں مزے لوٹ لے جوانی کے پھر نہ آئے گی یہ جو رات گئی ہاں یہ سرشاریاں جوانی کی آنکھ جھپکی ہی تھی کہ رات گئی جلوۂ ذات اے معاذ اللہ تاب آئینۂ صفات گئی نہیں ملتا مزاج دل ہم سے غالباً دور تک یہ بات گئی قید ہستی سے کب نجات جگرؔ موت آئی اگر حیات گئی " tabiiat-in-dinon-begaana-e-gam-hotii-jaatii-hai-jigar-moradabadi-ghazals," طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے مرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے سحر ہونے کو ہے بیدار شبنم ہوتی جاتی ہے خوشی منجملہ و اسباب ماتم ہوتی جاتی ہے قیامت کیا یہ اے حسن دو عالم ہوتی جاتی ہے کہ محفل تو وہی ہے دل کشی کم ہوتی جاتی ہے وہی مے خانہ و صہبا وہی ساغر وہی شیشہ مگر آواز نوشا نوش مدھم ہوتی جاتی ہے وہی ہیں شاہد و ساقی مگر دل بجھتا جاتا ہے وہی ہے شمع لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے وہی شورش ہے لیکن جیسے موج تہ نشیں کوئی وہی دل ہے مگر آواز مدھم ہوتی جاتی ہے وہی ہے زندگی لیکن جگرؔ یہ حال ہے اپنا کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے " fikr-e-manzil-hai-na-hosh-e-jaada-e-manzil-mujhe-jigar-moradabadi-ghazals," فکر منزل ہے نہ ہوش جادۂ منزل مجھے جا رہا ہوں جس طرف لے جا رہا ہے دل مجھے اب زباں بھی دے ادائے شکر کے قابل مجھے درد بخشا ہے اگر تو نے بجائے دل مجھے یوں تڑپ کر دل نے تڑپایا سر محفل مجھے اس کو قاتل کہنے والے کہہ اٹھے قاتل مجھے اب کدھر جاؤں بتا اے جذبۂ کامل مجھے ہر طرف سے آج آتی ہے صدائے دل مجھے روک سکتی ہو تو بڑھ کر روک لے منزل مجھے ہر طرف سے آج آتی ہے صدائے دل مجھے جان دی کہ حشر تک میں ہوں مری تنہائیاں ہاں مبارک فرصت نظارۂ قاتل مجھے ہر اشارے پر ہے پھر بھی گردن تسلیم خم جانتا ہوں صاف دھوکے دے رہا ہے دل مجھے جا بھی اے ناصح کہاں کا سود اور کیسا زیاں عشق نے سمجھا دیا ہے عشق کا حاصل مجھے میں ازل سے صبح محشر تک فروزاں ہی رہا حسن سمجھا تھا چراغ کشتۂ محفل مجھے خون دل رگ رگ میں جم کر رہ گیا اس وہم سے بڑھ کے سینے سے نہ لپٹا لے مرا قاتل مجھے کیسا قطرہ کیسا دریا کس کا طوفاں کس کی موج تو جو چاہے تو ڈبو دے خشکئ ساحل مجھے پھونک دے اے غیرت سوز محبت پھونک دے اب سمجھتی ہیں وہ نظریں رحم کے قابل مجھے توڑ کر بیٹھا ہوں راہ شوق میں پائے طلب دیکھنا ہے جذبۂ بے تابئ منزل مجھے اے ہجوم ناامیدی شاد باش و زندہ باش تو نے سب سے کر دیا بیگانہ و غافل مجھے درد محرومی سہی احساس ناکامی سہی اس نے سمجھا تو بہر صورت کسی قابل مجھے یہ بھی کیا منظر ہے بڑھتے ہیں نہ رکتے ہیں قدم تک رہا ہوں دور سے منزل کو میں منزل مجھے " tujhii-se-ibtidaa-hai-tuu-hii-ik-din-intihaa-hogaa-jigar-moradabadi-ghazals," تجھی سے ابتدا ہے تو ہی اک دن انتہا ہوگا صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا ہمیں معلوم ہے ہم سے سنو محشر میں کیا ہوگا سب اس کو دیکھتے ہوں گے وہ ہم کو دیکھتا ہوگا سر محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہوگا در جنت نہ وا ہوگا در رحمت تو وا ہوگا جہنم ہو کہ جنت جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا یہ کیا کم ہے ہمارا اور ان کا سامنا ہوگا ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت ہیں جدھر نظریں اٹھاؤ گے یہی اک سلسلا ہوگا یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں سکتی جو محبوب خدا کا ہے وہ محبوب خدا ہوگا اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں خوشا درد دے کہ تیرا اور درد لا دوا ہوگا نگاہ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے نگاہ مہر عاشق پر اگر ہوگی تو کیا ہوگا سیانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں مگر جو دل پہ گزرے گی وہ دل ہی جانتا ہوگا سمجھتا کیا ہے تو دیوانگان عشق کو زاہد یہ ہو جائیں گے جس جانب اسی جانب خدا ہوگا جگرؔ کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامن حضرت شکایت ہو کہ شکوہ جو بھی ہوگا برملا ہوگا " yaadash-ba-khair-jab-vo-tasavvur-men-aa-gayaa-jigar-moradabadi-ghazals," یادش بخیر جب وہ تصور میں آ گیا شعر و شباب و حسن کا دریا بہا گیا جب عشق اپنے مرکز اصلی پہ آ گیا خود بن گیا حسین دو عالم پہ چھا گیا جو دل کا راز تھا اسے کچھ دل ہی پا گیا وہ کر سکے بیاں نہ ہمیں سے کہا گیا ناصح فسانہ اپنا ہنسی میں اڑا گیا خوش فکر تھا کہ صاف یہ پہلو بچا گیا اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا دل بن گیا نگاہ نگہ بن گئی زباں آج اک سکوت شوق قیامت ہی ڈھا گیا میرا کمال شعر بس اتنا ہے اے جگرؔ وہ مجھ پہ چھا گئے میں زمانے پہ چھا گیا " ye-hai-mai-kada-yahaan-rind-hain-yahaan-sab-kaa-saaqii-imaam-hai-jigar-moradabadi-ghazals," یہ ہے مے کدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے میکدے سے نکال دو یہاں تنگ نظر کا گزر نہیں یہاں اہل ظرف کا کام ہے کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے مگر اس پہ کوئی کرے بھی کیا یہ تو میکدے کا نظام ہے یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہان سے جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے اسی کائنات میں اے جگرؔ کوئی انقلاب اٹھے گا پھر کہ بلند ہو کے بھی آدمی ابھی خواہشوں کا غلام ہے " aayaa-na-raas-naala-e-dil-kaa-asar-mujhe-jigar-moradabadi-ghazals," آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے دل لے کے مجھ سے دیتے ہو داغ جگر مجھے یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے ہر سو دکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے ملتی نہیں ہے لذت درد جگر مجھے بھولی ہوئی نہ ہو نگہ فتنہ گر مجھے ڈالا ہے بے خودی نے عجب راہ پر مجھے آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے کرنا ہے آج حضرت ناصح سے سامنا مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے مستانہ کر رہا ہوں رہ عاشقی کو طے لے جائے جذب شوق مرا اب جدھر مجھے ڈرتا ہوں جلوۂ رخ جاناں کو دیکھ کر اپنا بنا نہ لے کہیں میری نظر مجھے یکساں ہے حسن و عشق کی سر مستیوں کا رنگ ان کی خبر انہیں ہے نہ میری خبر مجھے مرنا ہے ان کے پاؤں پہ رکھ کر سر نیاز کرنا ہے آج قصۂ غم مختصر مجھے سینے سے دل عزیز ہے دل سے ہو تم عزیز سب سے مگر عزیز ہے تیری نظر مجھے میں دور ہوں تو روئے سخن مجھ سے کس لیے تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتے نظر مجھے کیا جانئے قفس میں رہے کیا معاملہ اب تک تو ہیں عزیز مرے بال و پر مجھے " dil-men-kisii-ke-raah-kiye-jaa-rahaa-huun-main-jigar-moradabadi-ghazals," دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں دنیائے دل تباہ کئے جا رہا ہوں میں صرف نگاہ و آہ کئے جا رہا ہوں میں فرد عمل سیاہ کئے جا رہا ہوں میں رحمت کو بے پناہ کئے جا رہا ہوں میں ایسی بھی اک نگاہ کئے جا رہا ہوں میں ذروں کو مہر و ماہ کئے جا رہا ہوں میں مجھ سے لگے ہیں عشق کی عظمت کو چار چاند خود حسن کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں دفتر ہے ایک معنئ بے لفظ و صوت کا سادہ سی جو نگاہ کئے جا رہا ہوں میں آگے قدم بڑھائیں جنہیں سوجھتا نہیں روشن چراغ راہ کئے جا رہا ہوں میں معصومئ جمال کو بھی جن پہ رشک ہے ایسے بھی کچھ گناہ کئے جا رہا ہوں میں تنقید حسن مصلحت خاص عشق ہے یہ جرم گاہ گاہ کئے جا رہا ہوں میں اٹھتی نہیں ہے آنکھ مگر اس کے روبرو نادیدہ اک نگاہ کئے جا رہا ہوں میں گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز کانٹوں سے بھی نباہ کئے جا رہا ہوں میں یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں مجھ سے ادا ہوا ہے جگرؔ جستجو کا حق ہر ذرے کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں " aankhon-kaa-thaa-qusuur-na-dil-kaa-qusuur-thaa-jigar-moradabadi-ghazals," آنکھوں کا تھا قصور نہ دل کا قصور تھا آیا جو میرے سامنے میرا غرور تھا تاریک مثل آہ جو آنکھوں کا نور تھا کیا صبح ہی سے شام بلا کا ظہور تھا وہ تھے نہ مجھ سے دور نہ میں ان سے دور تھا آتا نہ تھا نظر تو نظر کا قصور تھا ہر وقت اک خمار تھا ہر دم سرور تھا بوتل بغل میں تھی کہ دل ناصبور تھا کوئی تو دردمند دل ناصبور تھا مانا کہ تم نہ تھے کوئی تم سا ضرور تھا لگتے ہی ٹھیس ٹوٹ گیا ساز آرزو ملتے ہی آنکھ شیشۂ دل چور چور تھا ایسا کہاں بہار میں رنگینیوں کا جوش شامل کسی کا خون تمنا ضرور تھا ساقی کی چشم مست کا کیا کیجیے بیان اتنا سرور تھا کہ مجھے بھی سرور تھا پلٹی جو راستے ہی سے اے آہ نامراد یہ تو بتا کہ باب اثر کتنی دور تھا جس دل کو تم نے لطف سے اپنا بنا لیا اس دل میں اک چھپا ہوا نشتر ضرور تھا اس چشم مے فروش سے کوئی نہ بچ سکا سب کو بقدر حوصلۂ دل سرور تھا دیکھا تھا کل جگرؔ کو سر راہ مے کدہ اس درجہ پی گیا تھا کہ نشے میں چور تھا " shab-e-firaaq-hai-aur-niind-aaii-jaatii-hai-jigar-moradabadi-ghazals," شب فراق ہے اور نیند آئی جاتی ہے کچھ اس میں ان کی توجہ بھی پائی جاتی ہے یہ عمر عشق یوں ہی کیا گنوائی جاتی ہے حیات زندہ حقیقت بنائی جاتی ہے بنا بنا کے جو دنیا مٹائی جاتی ہے ضرور کوئی کمی ہے کہ پائی جاتی ہے ہمیں پہ عشق کی تہمت لگائی جاتی ہے مگر یہ شرم جو چہرے پہ چھائی جاتی ہے خدا کرے کہ حقیقت میں زندگی بن جائے وہ زندگی جو زباں تک ہی پائی جاتی ہے گناہ گار کے دل سے نہ بچ کے چل زاہد یہیں کہیں تری جنت بھی پائی جاتی ہے نہ سوز عشق نہ برق جمال پر الزام دلوں میں آگ خوشی سے لگائی جاتی ہے کچھ ایسے بھی تو ہیں رندان پاک باز جگرؔ کہ جن کو بے مئے و ساغر پلائی جاتی ہے " nazar-milaa-ke-mire-paas-aa-ke-luut-liyaa-jigar-moradabadi-ghazals," نظر ملا کے مرے پاس آ کے لوٹ لیا نظر ہٹی تھی کہ پھر مسکرا کے لوٹ لیا شکست حسن کا جلوہ دکھا کے لوٹ لیا نگاہ نیچی کئے سر جھکا کے لوٹ لیا دہائی ہے مرے اللہ کی دہائی ہے کسی نے مجھ سے بھی مجھ کو چھپا کے لوٹ لیا سلام اس پہ کہ جس نے اٹھا کے پردۂ دل مجھی میں رہ کے مجھی میں سما کے لوٹ لیا انہیں کے دل سے کوئی اس کی عظمتیں پوچھے وہ ایک دل جسے سب کچھ لٹا کے لوٹ لیا یہاں تو خود تری ہستی ہے عشق کو درکار وہ اور ہوں گے جنہیں مسکرا کے لوٹ لیا خوشا وہ جان جسے دی گئی امانت عشق رہے وہ دل جسے اپنا بنا کے لوٹ لیا نگاہ ڈال دی جس پر حسین آنکھوں نے اسے بھی حسن مجسم بنا کے لوٹ لیا بڑے وہ آئے دل و جاں کے لوٹنے والے نظر سے چھیڑ دیا گدگدا کے لوٹ لیا رہا خراب محبت ہی وہ جسے تو نے خود اپنا درد محبت دکھا کے لوٹ لیا کوئی یہ لوٹ تو دیکھے کہ اس نے جب چاہا تمام ہستئ دل کو جگا کے لوٹ لیا کرشما سازی حسن ازل ارے توبہ مرا ہی آئینہ مجھ کو دکھا کے لوٹ لیا نہ لٹتے ہم مگر ان مست انکھڑیوں نے جگرؔ نظر بچاتے ہوئے ڈبڈبا کے لوٹ لیا " kaam-aakhir-jazba-e-be-ikhtiyaar-aa-hii-gayaa-jigar-moradabadi-ghazals," کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آ ہی گیا جب نگاہیں اٹھ گئیں اللہ ری معراج شوق دیکھتا کیا ہوں وہ جان انتظار آ ہی گیا ہائے یہ حسن تصور کا فریب رنگ و بو میں یہ سمجھا جیسے وہ جان بہار آ ہی گیا ہاں سزا دے اے خدائے عشق اے توفیق غم پھر زبان بے ادب پر ذکر یار آ ہی گیا اس طرح خوش ہوں کسی کے وعدۂ فردا پہ میں در حقیقت جیسے مجھ کو اعتبار آ ہی گیا ہائے کافر دل کی یہ کافر جنوں انگیزیاں تم کو پیار آئے نہ آئے مجھ کو پیار آ ہی گیا درد نے کروٹ ہی بدلی تھی کہ دل کی آڑ سے دفعتاً پردہ اٹھا اور پردہ دار آ ہی گیا دل نے اک نالہ کیا آج اس طرح دیوانہ وار بال بکھرائے کوئی مستانہ وار آ ہی گیا جان ہی دے دی جگرؔ نے آج پائے یار پر عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا " ishq-ko-be-naqaab-honaa-thaa-jigar-moradabadi-ghazals," عشق کو بے نقاب ہونا تھا آپ اپنا جواب ہونا تھا مست جام شراب ہونا تھا بے خود اضطراب ہونا تھا تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا آؤ مل جاؤ مسکرا کے گلے ہو چکا جو عتاب ہونا تھا کوچۂ عشق میں نکل آیا جس کو خانہ خراب ہونا تھا مست جام شراب خاک ہوتے غرق جام شراب ہونا تھا دل کہ جس پر ہیں نقش رنگارنگ اس کو سادہ کتاب ہونا تھا ہم نے ناکامیوں کو ڈھونڈ لیا آخرش کامیاب ہونا تھا ہائے وہ لمحۂ سکوں کہ جسے محشر اضطراب ہونا تھا نگۂ یار خود تڑپ اٹھتی شرط اول خراب ہونا تھا کیوں نہ ہوتا ستم بھی بے پایاں کرم بے حساب ہونا تھا کیوں نظر حیرتوں میں ڈوب گئی موج صد اضطراب ہونا تھا ہو چکا روز اولیں ہی جگرؔ جس کو جتنا خراب ہونا تھا " kasrat-men-bhii-vahdat-kaa-tamaashaa-nazar-aayaa-jigar-moradabadi-ghazals," کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا جس رنگ میں دیکھا تجھے یکتا نظر آیا جب اس رخ پر نور کا جلوہ نظر آیا کعبہ نظر آیا نہ کلیسا نظر آیا یہ حسن یہ شوخی یہ کرشمہ یہ ادائیں دنیا نظر آئی مجھے تو کیا نظر آیا اک سرخوشی عشق ہے اک بے خودیٔ شوق آنکھوں کو خدا جانے مری کیا نظر آیا جب دیکھ نہ سکتے تھے تو دریا بھی تھا قطرہ جب آنکھ کھلی قطرہ بھی دریا نظر آیا قربان تری شان عنایت کے دل و جاں اس کم نگہی پر مجھے کیا کیا نظر آیا ہر رنگ ترے رنگ میں ڈوبا ہوا نکلا ہر نقش ترا نقش کف پا نظر آیا آنکھوں نے دکھا دی جو ترے غم کی حقیقت عالم مجھے سارا تہ و بالا نظر آیا ہر جلوے کو دیکھا ترے جلووں سے منور ہر بزم میں تو انجمن آرا نظر آیا " ye-misraa-kaash-naqsh-e-har-dar-o-diivaar-ho-jaae-jigar-moradabadi-ghazals," یہ مصرع کاش نقش ہر در و دیوار ہو جائے جسے جینا ہو مرنے کے لیے تیار ہو جائے وہی مے خوار ہے جو اس طرح مے خوار ہو جائے کہ شیشہ توڑ دے اور بے پیے سرشار ہو جائے دل انساں اگر شائستہ اسرار ہو جائے لب خاموش فطرت ہی لب گفتار ہو جائے ہر اک بے کار سی ہستی بروئے کار ہو جائے جنوں کی روح خوابیدہ اگر بیدار ہو جائے سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اسے بے پردہ دیکھے گی مجھے ڈر ہے نہ توہین جمال یار ہو جائے حریم ناز میں اس کی رسائی ہو تو کیوں کر ہو کہ جو آسودہ زیر سایۂ دیوار ہو جائے معاذ اللہ اس کی واردات غم معاذ اللہ چمن جس کا وطن ہو اور چمن بے زار ہو جائے یہی ہے زندگی تو زندگی سے خودکشی اچھی کہ انساں عالم انسانیت پر بار ہو جائے اک ایسی شان پیدا کر کہ باطل تھرتھرا اٹھے نظر تلوار بن جائے نفس جھنکار ہو جائے یہ روز و شب یہ صبح و شام یہ بستی یہ ویرانہ سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہو جائے " duniyaa-ke-sitam-yaad-na-apnii-hii-vafaa-yaad-jigar-moradabadi-ghazals," دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے اب تک ہے وہ اک نغمۂ بے ساز و صدا یاد جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرم نوازش اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد کیا جانئے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد ہاں ہاں تجھے کیا کام مری شدت غم سے ہاں ہاں نہیں مجھ کو ترے دامن کی ہوا یاد میں ترک رہ و رسم جنوں کر ہی چکا تھا کیوں آ گئی ایسے میں تری لغزش پا یاد کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں کیجے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد " kuchh-is-adaa-se-aaj-vo-pahluu-nashiin-rahe-jigar-moradabadi-ghazals," کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے ایمان و کفر اور نہ دنیا و دیں رہے اے عشق شاد باش کہ تنہا ہمیں رہے عالم جب ایک حال پہ قائم نہیں رہے کیا خاک اعتبار نگاہ یقیں رہے میری زباں پہ شکوہ درد آفریں رہے شاید مرے حواس ٹھکانے نہیں رہے جب تک الٰہی جسم میں جان حزیں رہے نظریں مری جوان رہیں دل حسیں رہے یارب کسی کے راز محبت کی خیر ہو دست جنوں رہے نہ رہے آستیں رہے تا چند جوش عشق میں دل کی حفاظتیں میری بلا سے اب وہ جنونی کہیں رہے جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر اے عشق ہم تو اب ترے قابل نہیں رہے مجھ کو نہیں قبول دو عالم کی وسعتیں قسمت میں کوئے یار کی دو گز زمیں رہے اے عشق نالہ کش تری غیرت کو کیا ہوا ہے ہے عرق عرق وہ تن نازنیں رہے درد و غم فراق کے یہ سخت مرحلے حیراں ہوں میں کہ پھر بھی تم اتنے حسیں رہے اللہ رے چشم یار کی معجز بیانیاں ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے ظالم اٹھا تو پردۂ وہم و گمان و فکر کیا سامنے وہ مرحلہ ہائے یقیں رہے ذات و صفات حسن کا عالم نظر میں ہے محدود سجدہ کیا مرا ذوق جبیں رہے کس درد سے کسی نے کہا آج بزم میں اچھا یہ ہے وہ ننگ محبت یہیں رہے سر دادگان عشق و محبت کی کیا کمی قاتل کی تیغ تیز خدا کی زمیں رہے اس عشق کی تلافئ مافات دیکھنا رونے کی حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے " ik-lafz-e-mohabbat-kaa-adnaa-ye-fasaanaa-hai-jigar-moradabadi-ghazals," اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانا ہے یہ کس کا تصور ہے یہ کس کا فسانا ہے جو اشک ہے آنکھوں میں تسبیح کا دانا ہے دل سنگ ملامت کا ہر چند نشانا ہے دل پھر بھی مرا دل ہے دل ہی تو زمانا ہے ہم عشق کے ماروں کا اتنا ہی فسانا ہے رونے کو نہیں کوئی ہنسنے کو زمانا ہے وہ اور وفا دشمن مانیں گے نہ مانا ہے سب دل کی شرارت ہے آنکھوں کا بہانا ہے شاعر ہوں میں شاعر ہوں میرا ہی زمانا ہے فطرت مرا آئینا قدرت مرا شانا ہے جو ان پہ گزرتی ہے کس نے اسے جانا ہے اپنی ہی مصیبت ہے اپنا ہی فسانا ہے کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے آغاز محبت ہے آنا ہے نہ جانا ہے اشکوں کی حکومت ہے آہوں کا زمانا ہے آنکھوں میں نمی سی ہے چپ چپ سے وہ بیٹھے ہیں نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانا ہے ہم درد بہ دل نالاں وہ دست بہ دل حیراں اے عشق تو کیا ظالم تیرا ہی زمانا ہے یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے اے عشق جنوں پیشہ ہاں عشق جنوں پیشہ آج ایک ستم گر کو ہنس ہنس کے رلانا ہے تھوڑی سی اجازت بھی اے بزم گہ ہستی آ نکلے ہیں دم بھر کو رونا ہے رلانا ہے یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے خود حسن و شباب ان کا کیا کم ہے رقیب اپنا جب دیکھیے اب وہ ہیں آئینہ ہے شانا ہے تصویر کے دو رخ ہیں جاں اور غم جاناں اک نقش چھپانا ہے اک نقش دکھانا ہے یہ حسن و جمال ان کا یہ عشق و شباب اپنا جینے کی تمنا ہے مرنے کا زمانا ہے مجھ کو اسی دھن میں ہے ہر لحظہ بسر کرنا اب آئے وہ اب آئے لازم انہیں آنا ہے خودداری و محرومی محرومی و خودداری اب دل کو خدا رکھے اب دل کا زمانا ہے اشکوں کے تبسم میں آہوں کے ترنم میں معصوم محبت کا معصوم فسانا ہے آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگرؔ لیکن بندھ جائے سو موتی ہے رہ جائے سو دانا ہے " baraabar-se-bach-kar-guzar-jaane-vaale-jigar-moradabadi-ghazals," برابر سے بچ کر گزر جانے والے یہ نالے نہیں بے اثر جانے والے نہیں جانتے کچھ کہ جانا کہاں ہے چلے جا رہے ہیں مگر جانے والے مرے دل کی بیتابیاں بھی لیے جا دبے پاؤں منہ پھیر کر جانے والے ترے اک اشارے پہ ساکت کھڑے ہیں نہیں کہہ کے سب سے گزر جانے والے محبت میں ہم تو جیے ہیں جئیں گے وہ ہوں گے کوئی اور مر جانے والے " be-kaif-dil-hai-aur-jiye-jaa-rahaa-huun-main-jigar-moradabadi-ghazals," بے کیف دل ہے اور جیے جا رہا ہوں میں خالی ہے شیشہ اور پیے جا رہا ہوں میں پیہم جو آہ آہ کیے جا رہا ہوں میں دولت ہے غم زکوٰۃ دئیے جا رہا ہوں میں مجبوری کمال محبت تو دیکھنا جینا نہیں قبول جیے جا رہا ہوں میں وہ دل کہاں ہے اب کہ جسے پیار کیجیے مجبوریاں ہیں ساتھ دئیے جا رہا ہوں میں رخصت ہوئی شباب کے ہم راہ زندگی کہنے کی بات ہے کہ جیے جا رہا ہوں میں پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب کوئی پلا رہا ہے پیے جا رہا ہوں میں " ishq-men-laa-javaab-hain-ham-log-jigar-moradabadi-ghazals," عشق میں لا جواب ہیں ہم لوگ ماہتاب آفتاب ہیں ہم لوگ گرچہ اہل شراب ہیں ہم لوگ یہ نہ سمجھو خراب ہیں ہم لوگ شام سے آ گئے جو پینے پر صبح تک آفتاب ہیں ہم لوگ ہم کو دعوائے عشق بازی ہے مستحق عذاب ہیں ہم لوگ ناز کرتی ہے خانہ ویرانی ایسے خانہ خراب ہیں ہم لوگ ہم نہیں جانتے خزاں کیا ہے کشتگان شباب ہیں ہم لوگ تو ہمارا جواب ہے تنہا اور تیرا جواب ہیں ہم لوگ تو ہے دریائے حسن و محبوبی شکل موج و حباب ہیں ہم لوگ گو سراپا حجاب ہیں پھر بھی تیرے رخ کی نقاب ہیں ہم لوگ خوب ہم جانتے ہیں اپنی قدر تیرے نا کامیاب ہیں ہم لوگ ہم سے غفلت نہ ہو تو پھر کیا ہو رہرو ملک خواب ہیں ہم لوگ جانتا بھی ہے اس کو تو واعظ جس کے مست و خراب ہیں ہم لوگ ہم پہ نازل ہوا صحیفۂ عشق صاحبان کتاب ہیں ہم لوگ ہر حقیقت سے جو گزر جائیں وہ صداقت مآب ہیں ہم لوگ جب ملی آنکھ ہوش کھو بیٹھے کتنے حاضر جواب ہیں ہم لوگ ہم سے پوچھو جگرؔ کی سر مستی محرم آں جناب ہیں ہم لوگ " shaaer-e-fitrat-huun-jab-bhii-fikr-farmaataa-huun-main-jigar-moradabadi-ghazals," شاعر فطرت ہوں جب بھی فکر فرماتا ہوں میں روح بن کر ذرے ذرے میں سما جاتا ہوں میں آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں جس قدر افسانۂ ہستی کو دہراتا ہوں میں اور بھی بیگانۂ ہستی ہوا جاتا ہوں میں جب مکان و لا مکاں سب سے گزر جاتا ہوں میں اللہ اللہ تجھ کو خود اپنی جگہ پاتا ہوں میں تیری صورت کا جو آئینہ اسے پاتا ہوں میں اپنے دل پر آپ کیا کیا ناز فرماتا ہوں میں یک بہ یک گھبرا کے جتنی دور ہٹ آتا ہوں میں اور بھی اس شوخ کو نزدیک تر پاتا ہوں میں میری ہستی شوق پیہم میری فطرت اضطراب کوئی منزل ہو مگر گزرا چلا جاتا ہوں میں ہائے ری مجبوریاں ترک محبت کے لیے مجھ کو سمجھاتے ہیں وہ اور ان کو سمجھاتا ہوں میں میری ہمت دیکھنا میری طبیعت دیکھنا جو سلجھ جاتی ہے گتھی پھر سے الجھاتا ہوں میں حسن کو کیا دشمنی ہے عشق کو کیا بیر ہے اپنے ہی قدموں کی خود ہی ٹھوکریں کھاتا ہوں میں تیری محفل تیرے جلوے پھر تقاضا کیا ضرور لے اٹھا جاتا ہوں ظالم لے چلا جاتا ہوں میں تا کجا یہ پردہ داری ہائے عشق و لاف حسن ہاں سنبھل جائیں دو عالم ہوش میں آتا ہوں میں میری خاطر اب وہ تکلیف تجلی کیوں کریں اپنی گرد شوق میں خود ہی چھپا جاتا ہوں میں دل مجسم شعر و نغمہ وہ سراپا رنگ و بو کیا فضائیں ہیں کہ جن میں حل ہوا جاتا ہوں میں تا کجا ضبط محبت تا کجا درد فراق رحم کر مجھ پر کہ تیرا راز کہلاتا ہوں میں واہ رے شوق شہادت کوئے قاتل کی طرف گنگناتا رقص کرتا جھومتا جاتا ہوں میں یا وہ صورت خود جہان رنگ و بو محکوم تھا یا یہ عالم اپنے سائے سے دبا جاتا ہوں میں دیکھنا اس عشق کی یہ طرفہ کاری دیکھنا وہ جفا کرتے ہیں مجھ پر اور شرماتا ہوں میں ایک دل ہے اور طوفان حوادث اے جگرؔ ایک شیشہ ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں میں " aankhon-men-bas-ke-dil-men-samaa-kar-chale-gae-jigar-moradabadi-ghazals," آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے خوابیدہ زندگی تھی جگا کر چلے گئے حسن ازل کی شان دکھا کر چلے گئے اک واقعہ سا یاد دلا کر چلے گئے چہرے تک آستین وہ لا کر چلے گئے کیا راز تھا کہ جس کو چھپا کر چلے گئے رگ رگ میں اس طرح وہ سما کر چلے گئے جیسے مجھی کو مجھ سے چرا کر چلے گئے میری حیات عشق کو دے کر جنون شوق مجھ کو تمام ہوش بنا کر چلے گئے سمجھا کے پستیاں مرے اوج کمال کی اپنی بلندیاں وہ دکھا کر چلے گئے اپنے فروغ حسن کی دکھلا کے وسعتیں میرے حدود شوق بڑھا کر چلے گئے ہر شے کو میری خاطر ناشاد کے لیے آئینۂ جمال بنا کر چلے گئے آئے تھے دل کی پیاس بجھانے کے واسطے اک آگ سی وہ اور لگا کر چلے گئے آئے تھے چشم شوق کی حسرت نکالنے سر تا قدم نگاہ بنا کر چلے گئے اب کاروبار عشق سے فرصت مجھے کہاں کونین کا وہ درد بڑھا کر چلے گئے شکر کرم کے ساتھ یہ شکوہ بھی ہو قبول اپنا سا کیوں نہ مجھ کو بنا کر چلے گئے لب تھرتھرا کے رہ گئے لیکن وہ اے جگرؔ جاتے ہوئے نگاہ ملا کر چلے گئے " kabhii-shaakh-o-sabza-o-barg-par-kabhii-guncha-o-gul-o-khaar-par-jigar-moradabadi-ghazals," کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر میں چمن میں چاہے جہاں رہوں مرا حق ہے فصل بہار پر مجھے دیں نہ غیظ میں دھمکیاں گریں لاکھ بار یہ بجلیاں مری سلطنت یہ ہی آشیاں مری ملکیت یہ ہی چار پر جنہیں کہئے عشق کی وسعتیں جو ہیں خاص حسن کی عظمتیں یہ اسی کے قلب سے پوچھئے جسے فخر ہو غم یار پر مرے اشک خوں کی بہار ہے کہ مرقع غم یار ہے مری شاعری بھی نثار ہے مری چشم سحر نگار پر عجب انقلاب زمانہ ہے مرا مختصر سا فسانہ ہے یہی اب جو بار ہے دوش پر یہی سر تھا زانوئے یار پر یہ کمال عشق کی سازشیں یہ جمال حسن کی نازشیں یہ عنایتیں یہ نوازشیں مری ایک مشت غبار پر مری سمت سے اسے اے صبا یہ پیام آخر غم سنا ابھی دیکھنا ہو تو دیکھ جا کہ خزاں ہے اپنی بہار پر یہ فریب جلوہ ہے سر بسر مجھے ڈر یہ ہے دل بے خبر کہیں جم نہ جائے تری نظر انہیں چند نقش و نگار پر میں رہین درد سہی مگر مجھے اور چاہئے کیا جگرؔ غم یار ہے مرا شیفتہ میں فریفتہ غم یار پر " koii-ye-kah-de-gulshan-gulshan-jigar-moradabadi-ghazals," کوئی یہ کہہ دے گلشن گلشن لاکھ بلائیں ایک نشیمن قاتل رہبر قاتل رہزن دل سا دوست نہ دل سا دشمن پھول کھلے ہیں گلشن گلشن لیکن اپنا اپنا دامن عشق ہے پیارے کھیل نہیں ہے عشق ہے کار شیشہ و آہن خیر مزاج حسن کی یارب تیز بہت ہے دل کی دھڑکن آ کہ نہ جانے تجھ بن کب سے روح ہے لاشہ جسم ہے مدفن آج نہ جانے راز یہ کیا ہے ہجر کی رات اور اتنی روشن عمریں بیتیں صدیاں گزریں ہے وہی اب تک عشق کا بچپن تجھ سا حسیں اور خون محبت وہم ہے شاید سرخی دامن برق حوادث اللہ اللہ جھوم رہی ہے شاخ نشیمن تو نے سلجھ کر گیسوئے جاناں اور بڑھا دی شوق کی الجھن رحمت ہوگی طالب عصیاں رشک کرے گی پاکئ دامن دل کہ مجسم آئینہ ساماں اور وہ ظالم آئینہ دشمن بیٹھے ہم ہر بزم میں لیکن جھاڑ کے اٹھے اپنا دامن ہستئ شاعر اللہ اللہ حسن کی منزل عشق کا مسکن رنگیں فطرت سادہ طبیعت فرش نشیں اور عرش نشیمن کام ادھورا اور آزادی نام بڑے اور تھوڑے درشن شمع ہے لیکن دھندھلی دھندھلی سایا ہے لیکن روشن روشن کانٹوں کا بھی حق ہے کچھ آخر کون چھڑائے اپنا دامن چلتی پھرتی چھاؤں ہے پیارے کس کا صحرا کیسا گلشن " jo-tuufaanon-men-palte-jaa-rahe-hain-jigar-moradabadi-ghazals," جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں نکھرتا آ رہا ہے رنگ گلشن خس و خاشاک جلتے جا رہے ہیں وہیں میں خاک اڑتی دیکھتا ہوں جہاں چشمے ابلتے جا رہے ہیں چراغ دیر و کعبہ اللہ اللہ ہوا کی ضد پہ جلتے جا رہے ہیں شباب و حسن میں بحث آ پڑی ہے نئے پہلو نکلتے جا رہے ہیں " aaj-kyaa-haal-hai-yaarab-sar-e-mahfil-meraa-jigar-moradabadi-ghazals," آج کیا حال ہے یا رب سر محفل میرا کہ نکالے لیے جاتا ہے کوئی دل میرا سوز غم دیکھ نہ برباد ہو حاصل میرا دل کی تصویر ہے ہر آئینۂ دل میرا صبح تک ہجر میں کیا جانیے کیا ہوتا ہے شام ہی سے مرے قابو میں نہیں دل میرا مل گئی عشق میں ایذا طلبی سے راحت غم ہے اب جان مری درد ہے اب دل میرا پایا جاتا ہے تری شوخیٔ رفتار کا رنگ کاش پہلو میں دھڑکتا ہی رہے دل میرا ہائے اس مرد کی قسمت جو ہوا دل کا شریک ہائے اس دل کا مقدر جو بنا دل میرا کچھ کھٹکتا تو ہے پہلو میں مرے رہ رہ کر اب خدا جانے تری یاد ہے یا دل میرا " sab-pe-tuu-mehrbaan-hai-pyaare-jigar-moradabadi-ghazals," سب پہ تو مہربان ہے پیارے کچھ ہمارا بھی دھیان ہے پیارے آ کہ تجھ بن بہت دنوں سے یہ دل ایک سونا مکان ہے پیارے تو جہاں ناز سے قدم رکھ دے وہ زمین آسمان ہے پیارے مختصر ہے یہ شوق کی روداد ہر نفس داستان ہے پیارے اپنے جی میں ذرا تو کر انصاف کب سے نامہربان ہے پیارے صبر ٹوٹے ہوئے دلوں کا نہ لے تو یوں ہی دھان پان ہے پیارے ہم سے جو ہو سکا سو کر گزرے اب ترا امتحان ہے پیارے مجھ میں تجھ میں تو کوئی فرق نہیں عشق کیوں درمیان ہے پیارے کیا کہے حال دل غریب جگرؔ ٹوٹی پھوٹی زبان ہے پیارے " vo-adaa-e-dilbarii-ho-ki-navaa-e-aashiqaana-jigar-moradabadi-ghazals," وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ یہ ترا جمال کامل یہ شباب کا زمانہ دل دشمناں سلامت دل دوستاں نشانہ کبھی حسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ وہی ناز بے نیازی وہی شان خسروانہ میں ہوں اس مقام پر اب کہ فراق و وصل کیسے مرا عشق بھی کہانی ترا حسن بھی فسانہ مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ ترے عشق کی کرامت یہ اگر نہیں تو کیا ہے کبھی بے ادب نہ گزرا مرے پاس سے زمانہ تری دوری و حضوری کا یہ ہے عجیب عالم ابھی زندگی حقیقت ابھی زندگی فسانہ مرے ہم صفیر بلبل مرا تیرا ساتھ ہی کیا میں ضمیر دشت و دریا تو اسیر آشیانہ میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں جو ہے فرق مجھ میں تجھ میں ترا درد درد تنہا مرا غم غم زمانہ ترے دل کے ٹوٹنے پر ہے کسی کو ناز کیا کیا تجھے اے جگرؔ مبارک یہ شکست فاتحانہ " use-haal-o-qaal-se-vaasta-na-garaz-maqaam-o-qayaam-se-jigar-moradabadi-ghazals," اسے حال و قال سے واسطہ نہ غرض مقام و قیام سے جسے کوئی نسبت خاص ہو ترے حسن برق خرام سے مجھے دے رہے ہیں تسلیاں وہ ہر ایک تازہ پیام سے کبھی آ کے منظر عام پر کبھی ہٹ کے منظر عام سے کیوں کیا رہا جو مقابلہ خطرات گام بہ گام سے سر بام عشق تمام تک رہ شوق نیم تمام سے نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجھے کام اپنے ہی کام سے ترے ذکر سے تری فکر سے تری یاد سے ترے نام سے مرے ساقیا مرے ساقیا تجھے مرحبا تجھے مرحبا تو پلائے جا تو پلائے جا اسی چشم جام بہ جام سے تری صبح عیش ہے کیا بلا تجھے اے فلک جو ہو حوصلہ کبھی کر لے آ کے مقابلہ غم ہجر یار کی شام سے مجھے یوں نہ خاک میں تو ملا میں اگرچہ ہوں ترا نقش پا ترے جلوے کی ہے بقا مرے شوق نام بہ نام سے تری چشم مست کو کیا کہوں کہ نظر نظر ہے فسوں فسوں یہ تمام ہوش یہ سب جنوں اسی ایک گردش جام سے یہ کتاب دل کی ہیں آیتیں میں بتاؤں کیا جو ہیں نسبتیں مرے سجدہ ہائے دوام کو ترے نقش ہائے خرام سے مجھے چاہیئے وہی ساقیا جو برس چلے جو چھلک چلے ترے حسن شیشہ بدست سے تری چشم بادہ بہ جام سے جو اٹھا ہے درد اٹھا کرے کوئی خاک اس سے گلا کرے جسے ضد ہو حسن کے ذکر سے جسے چڑھ ہو عشق کے نام سے وہیں چشم حور پھڑک گئی ابھی پی نہ تھی کہ بہک گئی کبھی یک بیک جو چھلک گئی کسی رند مست کے جام سے تو ہزار عذر کرے مگر ہمیں رشک ہے اور ہی کچھ جگرؔ تری اضطراب نگاہ سے ترے احتیاط کلام سے " daastaan-e-gam-e-dil-un-ko-sunaaii-na-gaii-jigar-moradabadi-ghazals," داستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی بات بگڑی تھی کچھ ایسی کہ بنائی نہ گئی سب کو ہم بھول گئے جوش جنوں میں لیکن اک تری یاد تھی ایسی جو بھلائی نہ گئی عشق پر کچھ نہ چلا دیدۂ تر کا قابو اس نے جو آگ لگا دی وہ بجھائی نہ گئی پڑ گیا حسن رخ یار کا پرتو جس پر خاک میں مل کے بھی اس دل کی صفائی نہ گئی کیا اٹھائے گی صبا خاک مری اس در سے یہ قیامت تو خود ان سے بھی اٹھائی نہ گئی " jehl-e-khirad-ne-din-ye-dikhaae-jigar-moradabadi-ghazals," جہل خرد نے دن یہ دکھائے گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے ہائے وہ کیونکر دل بہلائے غم بھی جس کو راس نہ آئے ضد پر عشق اگر آ جائے پانی چھڑکے آگ لگائے دل پہ کچھ ایسا وقت پڑا ہے بھاگے لیکن راہ نہ پائے کیسا مجاز اور کیسی حقیقت اپنے ہی جلوے اپنے ہی سائے جھوٹی ہے ہر ایک مسرت روح اگر تسکین نہ پائے کار زمانہ جتنا جتنا بنتا جائے بگڑتا جائے ضبط محبت شرط محبت جی ہے کہ ظالم امڈا آئے حسن وہی ہے حسن جو ظالم ہاتھ لگائے ہاتھ نہ آئے نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو روح سنے اور روح سنائے راہ جنوں آسان ہوئی ہے زلف و مژہ کے سائے سائے " kyaa-baraabar-kaa-mohabbat-men-asar-hotaa-hai-jigar-moradabadi-ghazals," کیا برابر کا محبت میں اثر ہوتا ہے دل ادھر ہوتا ہے ظالم نہ ادھر ہوتا ہے ہم نے کیا کچھ نہ کیا دیدۂ دل کی خاطر لوگ کہتے ہیں دعاؤں میں اثر ہوتا ہے دل تو یوں دل سے ملایا کہ نہ رکھا میرا اب نظر کے لیے کیا حکم نظر ہوتا ہے میں گنہ گار جنوں میں نے یہ مانا لیکن کچھ ادھر سے بھی تقاضائے نظر ہوتا ہے کون دیکھے اسے بیتاب محبت اے دل تو وہ نالے ہی نہ کر جن میں اثر ہوتا ہے " tire-jamaal-e-haqiiqat-kii-taab-hii-na-huii-jigar-moradabadi-ghazals," ترے جمال حقیقت کی تاب ہی نہ ہوئی ہزار بار نگہ کی مگر کبھی نہ ہوئی تری خوشی سے اگر غم میں بھی خوشی نہ ہوئی وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی کہاں وہ شوخ ملاقات خود سے بھی نہ ہوئی بس ایک بار ہوئی اور پھر کبھی نہ ہوئی وہ ہم ہیں اہل محبت کہ جان سے دل سے بہت بخار اٹھے آنکھ شبنمی نہ ہوئی ٹھہر ٹھہر دل بے تاب پیار تو کر لوں اب اس کے بعد ملاقات پھر ہوئی نہ ہوئی مرے خیال سے بھی آہ مجھ کو بعد رہا ہزار طرح سے چاہا برابری نہ ہوئی ہم اپنی رندی و طاعت پہ خاک ناز کریں قبول حضرت سلطاں ہوئی ہوئی نہ ہوئی کوئی بڑھے نہ بڑھے ہم تو جان دیتے ہیں پھر ایسی چشم توجہ ہوئی ہوئی نہ ہوئی تمام حرف و حکایت تمام دیدہ و دل اس اہتمام پہ بھی شرح عاشقی نہ ہوئی فسردہ خاطرئ عشق اے معاذ اللہ خیال یار سے بھی کچھ شگفتگی نہ ہوئی تری نگاہ کرم کو بھی آزما دیکھا اذیتوں میں نہ ہونی تھی کچھ کمی نہ ہوئی کسی کی مست نگاہی نے ہاتھ تھام لیا شریک حال جہاں میری بے خودی نہ ہوئی صبا یہ ان سے ہمارا پیام کہہ دینا گئے ہو جب سے یہاں صبح و شام ہی نہ ہوئی وہ کچھ سہی نہ سہی پھر بھی زاہد ناداں بڑے بڑوں سے محبت میں کافری نہ ہوئی ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی خیال یار سلامت تجھے خدا رکھے ترے بغیر کبھی گھر میں روشنی نہ ہوئی گئے تھے ہم بھی جگرؔ جلوہ گاہ جاناں میں وہ پوچھتے ہی رہے ہم سے بات بھی نہ ہوئی " agar-na-zohra-jabiinon-ke-darmiyaan-guzre-jigar-moradabadi-ghazals," اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے تو پھر یہ کیسے کٹے زندگی کہاں گزرے جو تیرے عارض و گیسو کے درمیاں گزرے کبھی کبھی وہی لمحے بلائے جاں گزرے مجھے یہ وہم رہا مدتوں کہ جرأت شوق کہیں نہ خاطر معصوم پر گراں گزرے ہر اک مقام محبت بہت ہی دل کش تھا مگر ہم اہل محبت کشاں کشاں گزرے جنوں کے سخت مراحل بھی تیری یاد کے ساتھ حسیں حسیں نظر آئے جواں جواں گزرے مری نظر سے تری جستجو کے صدقے میں یہ اک جہاں ہی نہیں سینکڑوں جہاں گزرے ہجوم جلوہ میں پرواز شوق کیا کہنا کہ جیسے روح ستاروں کے درمیاں گزرے خطا معاف زمانے سے بد گماں ہو کر تری وفا پہ بھی کیا کیا ہمیں گماں گزرے مجھے تھا شکوۂ ہجراں کہ یہ ہوا محسوس مرے قریب سے ہو کر وہ نا گہاں گزرے رہ وفا میں اک ایسا مقام بھی آیا کہ ہم خود اپنی طرف سے بھی بد گماں گزرے خلوص جس میں ہو شامل وہ دور عشق و ہوس نہ رائیگاں کبھی گزرا نہ رائیگاں گزرے اسی کو کہتے ہیں جنت اسی کو دوزخ بھی وہ زندگی جو حسینوں کے درمیاں گزرے بہت حسین مناظر بھی حسن فطرت کے نہ جانے آج طبیعت پہ کیوں گراں گزرے وہ جن کے سائے سے بھی بجلیاں لرزتی تھیں مری نظر سے کچھ ایسے بھی آشیاں گزرے مرا تو فرض چمن بندی جہاں ہے فقط مری بلا سے بہار آئے یا خزاں گزرے کہاں کا حسن کہ خود عشق کو خبر نہ ہوئی رہ طلب میں کچھ ایسے بھی امتحاں گزرے بھری بہار میں تاراجی چمن مت پوچھ خدا کرے نہ پھر آنکھوں سے وہ سماں گزرے کوئی نہ دیکھ سکا جن کو وہ دلوں کے سوا معاملات کچھ ایسے بھی درمیاں گزرے کبھی کبھی تو اسی ایک مشت خاک کے گرد طواف کرتے ہوئے ہفت آسماں گزرے بہت حسین سہی صحبتیں گلوں کی مگر وہ زندگی ہے جو کانٹوں کے درمیاں گزرے ابھی سے تجھ کو بہت ناگوار ہیں ہمدم وہ حادثات جو اب تک رواں دواں گزرے جنہیں کہ دیدۂ شاعر ہی دیکھ سکتا ہے وہ انقلاب ترے سامنے کہاں گزرے بہت عزیز ہے مجھ کو انہیں کیا یاد جگرؔ وہ حادثات محبت جو نا گہاں گزرے " do-chaar-gaam-raah-ko-hamvaar-dekhnaa-nida-fazli-ghazals," دو چار گام راہ کو ہموار دیکھنا پھر ہر قدم پہ اک نئی دیوار دیکھنا آنکھوں کی روشنی سے ہے ہر سنگ آئینہ ہر آئنہ میں خود کو گنہ گار دیکھنا ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا میداں کی ہار جیت تو قسمت کی بات ہے ٹوٹی ہے کس کے ہاتھ میں تلوار دیکھنا دریا کے اس کنارے ستارے بھی پھول بھی دریا چڑھا ہوا ہو تو اس پار دیکھنا اچھی نہیں ہے شہر کے رستوں سے دوستی آنگن میں پھیل جائے نہ بازار دیکھنا " be-naam-saa-ye-dard-thahar-kyuun-nahiin-jaataa-nida-fazli-ghazals," بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈھتی رہتی ہیں نگاہیں کیا بات ہے میں وقت پے گھر کیوں نہیں جاتا وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں جو دور ہے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا میں اپنی ہی الجھی ہوئی راہوں کا تماشہ جاتے ہیں جدھر سب میں ادھر کیوں نہیں جاتا وہ خواب جو برسوں سے نہ چہرہ نہ بدن ہے وہ خواب ہواؤں میں بکھر کیوں نہیں جاتا " garaj-baras-pyaasii-dhartii-phir-paanii-de-maulaa-nida-fazli-ghazals," گرج برس پیاسی دھرتی پر پھر پانی دے مولا چڑیوں کو دانے بچوں کو گڑ دھانی دے مولا دو اور دو کا جوڑ ہمیشہ چار کہاں ہوتا ہے سوچ سمجھ والوں کو تھوڑی نادانی دے مولا پھر روشن کر زہر کا پیالہ چمکا نئی صلیبیں جھوٹوں کی دنیا میں سچ کو تابانی دے مولا پھر مورت سے باہر آ کر چاروں اور بکھر جا پھر مندر کو کوئی میراؔ دیوانی دے مولا تیرے ہوتے کوئی کس کی جان کا دشمن کیوں ہو جینے والوں کو مرنے کی آسانی دے مولا " mutthii-bhar-logon-ke-haathon-men-laakhon-kii-taqdiiren-hain-nida-fazli-ghazals," مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں میں لاکھوں کی تقدیریں ہیں جدا جدا ہیں دھرم علاقے ایک سی لیکن زنجیریں ہیں آج اور کل کی بات نہیں ہے صدیوں کی تاریخ یہی ہے ہر آنگن میں خواب ہیں لیکن چند گھروں میں تعبیریں ہیں جب بھی کوئی تخت سجا ہے میرا تیرا خون بہا ہے درباروں کی شان و شوکت میدانوں کی شمشیریں ہیں ہر جنگل کی ایک کہانی وہ ہی بھینٹ وہی قربانی گونگی بہری ساری بھیڑیں چرواہوں کی جاگیریں ہیں " kabhii-kabhii-yuun-bhii-ham-ne-apne-jii-ko-bahlaayaa-hai-nida-fazli-ghazals," کبھی کبھی یوں بھی ہم نے اپنے جی کو بہلایا ہے جن باتوں کو خود نہیں سمجھے اوروں کو سمجھایا ہے ہم سے پوچھو عزت والوں کی عزت کا حال کبھی ہم نے بھی اک شہر میں رہ کر تھوڑا نام کمایا ہے اس کو بھولے برسوں گزرے لیکن آج نہ جانے کیوں آنگن میں ہنستے بچوں کو بے کارن دھمکایا ہے اس بستی سے چھٹ کر یوں تو ہر چہرہ کو یاد کیا جس سے تھوڑی سی ان بن تھی وہ اکثر یاد آیا ہے کوئی ملا تو ہاتھ ملایا کہیں گئے تو باتیں کیں گھر سے باہر جب بھی نکلے دن بھر بوجھ اٹھایا ہے " achchhii-nahiin-ye-khaamushii-shikva-karo-gila-karo-nida-fazli-ghazals," اچھی نہیں یہ خامشی شکوہ کرو گلہ کرو یوں بھی نہ کر سکو تو پھر گھر میں خدا خدا کرو شہرت بھی اس کے ساتھ ہے دولت بھی اس کے ہاتھ ہے خود سے بھی وہ ملے کبھی اس کے لیے دعا کرو دیکھو یہ شہر ہے عجب دل بھی نہیں ہے کم غضب شام کو گھر جو آؤں میں تھوڑا سا سج لیا کرو دل میں جسے بساؤ تم چاند اسے بناؤ تم وہ جو کہے پڑھا کرو جو نہ کہے سنا کرو میری نشست پہ بھی کل آئے گا کوئی دوسرا تم بھی بنا کے راستہ میرے لیے جگہ کرو " yaqiin-chaand-pe-suuraj-men-e-tibaar-bhii-rakh-nida-fazli-ghazals," یقین چاند پہ سورج میں اعتبار بھی رکھ مگر نگاہ میں تھوڑا سا انتظار بھی رکھ خدا کے ہاتھ میں مت سونپ سارے کاموں کو بدلتے وقت پہ کچھ اپنا اختیار بھی رکھ یہ ہی لہو ہے شہادت یہ ہی لہو پانی خزاں نصیب سہی ذہن میں بہار بھی رکھ گھروں کے طاقوں میں گلدستے یوں نہیں سجتے جہاں ہیں پھول وہیں آس پاس خار بھی رکھ پہاڑ گونجیں ندی گائے یہ ضروری ہے سفر کہیں کا ہو دل میں کسی کا پیار بھی رکھ " jise-dekhte-hii-khumaarii-lage-nida-fazli-ghazals," جسے دیکھتے ہی خماری لگے اسے عمر ساری ہماری لگے اجالا سا ہے اس کے چاروں طرف وہ نازک بدن پاؤں بھاری لگے وہ سسرال سے آئی ہے مائکے اسے جتنا دیکھو وہ پیاری لگے حسین صورتیں اور بھی ہیں مگر وہ سب سیکڑوں میں ہزاری لگے چلو اس طرح سے سجائیں اسے یہ دنیا ہماری تمہاری لگے اسے دیکھنا شعر گوئی کا فن اسے سوچنا دین داری لگے " dekhaa-huaa-saa-kuchh-hai-to-sochaa-huaa-saa-kuchh-nida-fazli-ghazals," دیکھا ہوا سا کچھ ہے تو سوچا ہوا سا کچھ ہر وقت میرے ساتھ ہے الجھا ہوا سا کچھ ہوتا ہے یوں بھی راستہ کھلتا نہیں کہیں جنگل سا پھیل جاتا ہے کھویا ہوا سا کچھ ساحل کی گیلی ریت پر بچوں کے کھیل سا ہر لمحہ مجھ میں بنتا بکھرتا ہوا سا کچھ فرصت نے آج گھر کو سجایا کچھ اس طرح ہر شے سے مسکراتا ہے روتا ہوا سا کچھ دھندلی سی ایک یاد کسی قبر کا دیا اور میرے آس پاس چمکتا ہوا سا کچھ " nazdiikiyon-men-duur-kaa-manzar-talaash-kar-nida-fazli-ghazals," نزدیکیوں میں دور کا منظر تلاش کر جو ہاتھ میں نہیں ہے وہ پتھر تلاش کر سورج کے ارد گرد بھٹکنے سے فائدہ دریا ہوا ہے گم تو سمندر تلاش کر تاریخ میں محل بھی ہے حاکم بھی تخت بھی گمنام جو ہوئے ہیں وہ لشکر تلاش کر رہتا نہیں ہے کچھ بھی یہاں ایک سا سدا دروازہ گھر کا کھول کے پھر گھر تلاش کر کوشش بھی کر امید بھی رکھ راستہ بھی چن پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر " koshish-ke-baavajuud-ye-ilzaam-rah-gayaa-nida-fazli-ghazals," کوشش کے باوجود یہ الزام رہ گیا ہر کام میں ہمیشہ کوئی کام رہ گیا چھوٹی تھی عمر اور فسانہ طویل تھا آغاز ہی لکھا گیا انجام رہ گیا اٹھ اٹھ کے مسجدوں سے نمازی چلے گئے دہشت گروں کے ہاتھ میں اسلام رہ گیا اس کا قصور یہ تھا بہت سوچتا تھا وہ وہ کامیاب ہو کے بھی ناکام رہ گیا اب کیا بتائیں کون تھا کیا تھا وہ ایک شخص گنتی کے چار حرفوں کا جو نام رہ گیا " jo-ho-ik-baar-vo-har-baar-ho-aisaa-nahiin-hotaa-nida-fazli-ghazals," جو ہو اک بار وہ ہر بار ہو ایسا نہیں ہوتا ہمیشہ ایک ہی سے پیار ہو ایسا نہیں ہوتا ہر اک کشتی کا اپنا تجربہ ہوتا ہے دریا میں سفر میں روز ہی منجدھار ہو ایسا نہیں ہوتا کہانی میں تو کرداروں کو جو چاہے بنا دیجے حقیقت بھی کہانی کار ہو ایسا نہیں ہوتا کہیں تو کوئی ہوگا جس کو اپنی بھی ضرورت ہو ہر اک بازی میں دل کی ہار ہو ایسا نہیں ہوتا سکھا دیتی ہیں چلنا ٹھوکریں بھی راہگیروں کو کوئی رستہ سدا دشوار ہو ایسا نہیں ہوتا " kuchh-bhii-bachaa-na-kahne-ko-har-baat-ho-gaii-nida-fazli-ghazals," کچھ بھی بچا نہ کہنے کو ہر بات ہو گئی آؤ کہیں شراب پئیں رات ہو گئی پھر یوں ہوا کہ وقت کا پانسہ پلٹ گیا امید جیت کی تھی مگر مات ہو گئی سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی وہ آدمی تھا کتنا بھلا کتنا پرخلوص اس سے بھی آج لیجے ملاقات ہو گئی رستے میں وہ ملا تھا میں بچ کر گزر گیا اس کی پھٹی قمیص مرے ساتھ ہو گئی نقشہ اٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈیئے اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہو گئی " apnii-marzii-se-kahaan-apne-safar-ke-ham-hain-nida-fazli-ghazals," اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے کس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مسافر کا نصیب سوچتے رہتے ہیں کس راہ گزر کے ہم ہیں ہم وہاں ہیں جہاں کچھ بھی نہیں رستہ نہ دیار اپنے ہی کھوئے ہوئے شام و سحر کے ہم ہیں گنتیوں میں ہی گنے جاتے ہیں ہر دور میں ہم ہر قلم کار کی بے نام خبر کے ہم ہیں " hosh-vaalon-ko-khabar-kyaa-be-khudii-kyaa-chiiz-hai-nida-fazli-ghazals," ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے ان سے نظریں کیا ملیں روشن فضائیں ہو گئیں آج جانا پیار کی جادوگری کیا چیز ہے بکھری زلفوں نے سکھائی موسموں کو شاعری جھکتی آنکھوں نے بتایا مے کشی کیا چیز ہے ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی اور وہ سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے " aaj-zaraa-fursat-paaii-thii-aaj-use-phir-yaad-kiyaa-nida-fazli-ghazals-3," آج ذرا فرصت پائی تھی آج اسے پھر یاد کیا بند گلی کے آخری گھر کو کھول کے پھر آباد کیا کھول کے کھڑکی چاند ہنسا پھر چاند نے دونوں ہاتھوں سے رنگ اڑائے پھول کھلائے چڑیوں کو آزاد کیا بڑے بڑے غم کھڑے ہوئے تھے رستہ روکے راہوں میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ہی ہم نے دل کو شاد کیا بات بہت معمولی سی تھی الجھ گئی تکراروں میں ایک ذرا سی ضد نے آخر دونوں کو برباد کیا داناؤں کی بات نہ مانی کام آئی نادانی ہی سنا ہوا کو پڑھا ندی کو موسم کو استاد کیا " raat-ke-baad-nae-din-kii-sahar-aaegii-nida-fazli-ghazals," رات کے بعد نئے دن کی سحر آئے گی دن نہیں بدلے گا تاریخ بدل جائے گی ہنستے ہنستے کبھی تھک جاؤ تو چھپ کے رو لو یہ ہنسی بھیگ کے کچھ اور چمک جائے گی جگمگاتی ہوئی سڑکوں پہ اکیلے نہ پھرو شام آئے گی کسی موڑ پہ ڈس جائے گی اور کچھ دیر یوں ہی جنگ سیاست مذہب اور تھک جاؤ ابھی نیند کہاں آئے گی میری غربت کو شرافت کا ابھی نام نہ دے وقت بدلا تو تری رائے بدل جائے گی وقت ندیوں کو اچھالے کہ اڑائے پربت عمر کا کام گزرنا ہے گزر جائے گی " main-apne-ikhtiyaar-men-huun-bhii-nahiin-bhii-huun-nida-fazli-ghazals," میں اپنے اختیار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں دنیا کے کاروبار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں تیری ہی جستجو میں لگا ہے کبھی کبھی میں تیرے انتظار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں فہرست مرنے والوں کی قاتل کے پاس ہے میں اپنے ہی مزار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں اوروں کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں اک میں ہی اس دیار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں مجھ سے ہی ہے ہر ایک سیاست کا اعتبار پھر بھی کسی شمار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں " ab-khushii-hai-na-koii-dard-rulaane-vaalaa-nida-fazli-ghazals," اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا ہم نے اپنا لیا ہر رنگ زمانے والا ایک بے چہرہ سی امید ہے چہرہ چہرہ جس طرف دیکھیے آنے کو ہے آنے والا اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا دور کے چاند کو ڈھونڈو نہ کسی آنچل میں یہ اجالا نہیں آنگن میں سمانے والا اک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیا کوئی جلدی میں کوئی دیر سے جانے والا " insaan-hain-haivaan-yahaan-bhii-hai-vahaan-bhii-nida-fazli-ghazals," انسان میں حیوان یہاں بھی ہے وہاں بھی اللہ نگہبان یہاں بھی ہے وہاں بھی خوں خوار درندوں کے فقط نام الگ ہیں ہر شہر بیابان یہاں بھی ہے وہاں بھی ہندو بھی سکوں سے ہے مسلماں بھی سکوں سے انسان پریشان یہاں بھی ہے وہاں بھی رحمان کی رحمت ہو کہ بھگوان کی مورت ہر کھیل کا میدان یہاں بھی ہے وہاں بھی اٹھتا ہے دل و جاں سے دھواں دونوں طرف ہی یہ میرؔ کا دیوان یہاں بھی ہے وہاں بھی " us-ke-dushman-hain-bahut-aadmii-achchhaa-hogaa-nida-fazli-ghazals," اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا اتنا سچ بول کہ ہونٹوں کا تبسم نہ بجھے روشنی ختم نہ کر آگے اندھیرا ہوگا پیاس جس نہر سے ٹکرائی وہ بنجر نکلی جس کو پیچھے کہیں چھوڑ آئے وہ دریا ہوگا مرے بارے میں کوئی رائے تو ہوگی اس کی اس نے مجھ کو بھی کبھی توڑ کے دیکھا ہوگا ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریک جس کو بھی پاس سے دیکھو گے اکیلا ہوگا " har-ek-baat-ko-chup-chaap-kyuun-sunaa-jaae-nida-fazli-ghazals," ہر ایک بات کو چپ چاپ کیوں سنا جائے کبھی تو حوصلہ کر کے نہیں کہا جائے تمہارا گھر بھی اسی شہر کے حصار میں ہے لگی ہے آگ کہاں کیوں پتہ کیا جائے جدا ہے ہیر سے رانجھا کئی زمانوں سے نئے سرے سے کہانی کو پھر لکھا جائے کہا گیا ہے ستاروں کو چھونا مشکل ہے یہ کتنا سچ ہے کبھی تجربہ کیا جائے کتابیں یوں تو بہت سی ہیں میرے بارے میں کبھی اکیلے میں خود کو بھی پڑھ لیا جائے " tanhaa-tanhaa-dukh-jhelenge-mahfil-mahfil-gaaenge-nida-fazli-ghazals," تنہا تنہا دکھ جھیلیں گے محفل محفل گائیں گے جب تک آنسو پاس رہیں گے تب تک گیت سنائیں گے تم جو سوچو وہ تم جانو ہم تو اپنی کہتے ہیں دیر نہ کرنا گھر آنے میں ورنہ گھر کھو جائیں گے بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے اچھی صورت والے سارے پتھر دل ہوں ممکن ہے ہم تو اس دن رائے دیں گے جس دن دھوکا کھائیں گے کن راہوں سے سفر ہے آساں کون سا رستہ مشکل ہے ہم بھی جب تھک کر بیٹھیں گے اوروں کو سمجھائیں گے " mohabbat-men-vafaadaarii-se-bachiye-nida-fazli-ghazals," محبت میں وفاداری سے بچئے جہاں تک ہو اداکاری سے بچئے ہر اک صورت بھلی لگتی ہے کچھ دن لہو کی شعبدہ کاری سے بچئے شرافت آدمیت درد مندی بڑے شہروں میں بیماری سے بچئے ضروری کیا ہر اک محفل میں بیٹھیں تکلف کی روا داری سے بچئے بنا پیروں کے سر چلتے نہیں ہیں بزرگوں کی سمجھ داری سے بچئے " har-ek-ghar-men-diyaa-bhii-jale-anaaj-bhii-ho-nida-fazli-ghazals," ہر ایک گھر میں دیا بھی جلے اناج بھی ہو اگر نہ ہو کہیں ایسا تو احتجاج بھی ہو رہے گی وعدوں میں کب تک اسیر خوشحالی ہر ایک بار ہی کل کیوں کبھی تو آج بھی ہو نہ کرتے شور شرابہ تو اور کیا کرتے تمہارے شہر میں کچھ اور کام کاج بھی ہو حکومتوں کو بدلنا تو کچھ محال نہیں حکومتیں جو بدلتا ہے وہ سماج بھی ہو بدل رہے ہیں کئی آدمی درندوں میں مرض پرانا ہے اس کا نیا علاج بھی ہو اکیلے غم سے نئی شاعری نہیں ہوتی زبان میرؔ میں غالبؔ کا امتزاج بھی ہو " man-bai-raagii-tan-anuuraagii-qadam-qadam-dushvaarii-hai-nida-fazli-ghazals," من بیراگی تن انوراگی قدم قدم دشواری ہے جیون جینا سہل نہ جانو بہت بڑی فن کاری ہے اوروں جیسے ہو کر بھی ہم با عزت ہیں بستی میں کچھ لوگوں کا سیدھا پن ہے کچھ اپنی عیاری ہے جب جب موسم جھوما ہم نے کپڑے پھاڑے شور کیا ہر موسم شائستہ رہنا کوری دنیا داری ہے عیب نہیں ہے اس میں کوئی لال پری نہ پھول کلی یہ مت پوچھو وہ اچھا ہے یا اچھی ناداری ہے جو چہرہ دیکھا وہ توڑا نگر نگر ویران کیے پہلے اوروں سے نا خوش تھے اب خود سے بے زاری ہے " har-taraf-har-jagah-be-shumaar-aadmii-nida-fazli-ghazals," ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا اپنی ہی لاش کا خود مزار آدمی ہر طرف بھاگتے دوڑتے راستے ہر طرف آدمی کا شکار آدمی روز جیتا ہوا روز مرتا ہوا ہر نئے دن نیا انتظار آدمی گھر کی دہلیز سے گیہوں کے کھیت تک چلتا پھرتا کوئی کاروبار آدمی زندگی کا مقدر سفر در سفر آخری سانس تک بے قرار آدمی " munh-kii-baat-sune-har-koii-dil-ke-dard-ko-jaane-kaun-nida-fazli-ghazals," منہ کی بات سنے ہر کوئی دل کے درد کو جانے کون آوازوں کے بازاروں میں خاموشی پہچانے کون صدیوں صدیوں وہی تماشہ رستہ رستہ لمبی کھوج لیکن جب ہم مل جاتے ہیں کھو جاتا ہے جانے کون وہ میری پرچھائیں ہے یا میں اس کا آئینہ ہوں میرے ہی گھر میں رہتا ہے مجھ جیسا ہی جانے کون جانے کیا کیا بول رہا تھا سرحد پیار کتابیں خون کل میری نیندوں میں چھپ کر جاگ رہا تھا جانے کون کرن کرن الساتا سورج پلک پلک کھلتی نیندیں دھیمے دھیمے بکھر رہا ہے ذرہ ذرہ جانے کون " har-ghadii-khud-se-ulajhnaa-hai-muqaddar-meraa-nida-fazli-ghazals," ہر گھڑی خود سے الجھنا ہے مقدر میرا میں ہی کشتی ہوں مجھی میں ہے سمندر میرا کس سے پوچھوں کہ کہاں گم ہوں کئی برسوں سے ہر جگہ ڈھونڈھتا پھرتا ہے مجھے گھر میرا ایک سے ہو گئے موسموں کے چہرے سارے میری آنکھوں سے کہیں کھو گیا منظر میرا مدتیں بیت گئیں خواب سہانا دیکھے جاگتا رہتا ہے ہر نیند میں بستر میرا آئنہ دیکھ کے نکلا تھا میں گھر سے باہر آج تک ہاتھ میں محفوظ ہے پتھر میرا " dhuup-men-niklo-ghataaon-men-nahaa-kar-dekho-nida-fazli-ghazals," دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو صرف آنکھوں سے ہی دنیا نہیں دیکھی جاتی دل کی دھڑکن کو بھی بینائی بنا کر دیکھو پتھروں میں بھی زباں ہوتی ہے دل ہوتے ہیں اپنے گھر کے در و دیوار سجا کر دیکھو وہ ستارہ ہے چمکنے دو یوں ہی آنکھوں میں کیا ضروری ہے اسے جسم بنا کر دیکھو فاصلہ نظروں کا دھوکہ بھی تو ہو سکتا ہے وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو " besan-kii-saundhii-rotii-par-khattii-chatnii-jaisii-maan-nida-fazli-ghazals," بیسن کی سوندھی روٹی پر کھٹی چٹنی جیسی ماں یاد آتی ہے! چوکا باسن چمٹا پھکنی جیسی ماں بانس کی کھری کھاٹ کے اوپر ہر آہٹ پر کان دھرے آدھی سوئی آدھی جاگی تھکی دوپہری جیسی ماں چڑیوں کی چہکار میں گونجے رادھا موہن علی علی مرغے کی آواز سے بجتی گھر کی کنڈی جیسی ماں بیوی بیٹی بہن پڑوسن تھوڑی تھوڑی سی سب میں دن بھر اک رسی کے اوپر چلتی نٹنی جیسی ماں بانٹ کے اپنا چہرہ ماتھا آنکھیں جانے کہاں گئی پھٹے پرانے اک البم میں چنچل لڑکی جیسی ماں " duniyaa-jise-kahte-hain-jaaduu-kaa-khilaunaa-hai-nida-fazli-ghazals," دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے اچھا سا کوئی موسم تنہا سا کوئی عالم ہر وقت کا رونا تو بے کار کا رونا ہے برسات کا بادل تو دیوانہ ہے کیا جانے کس راہ سے بچنا ہے کس چھت کو بھگونا ہے یہ وقت جو تیرا ہے یہ وقت جو میرا ہے ہر گام پہ پہرا ہے پھر بھی اسے کھونا ہے غم ہو کہ خوشی دونوں کچھ دور کے ساتھی ہیں پھر رستہ ہی رستہ ہے ہنسنا ہے نہ رونا ہے آوارہ مزاجی نے پھیلا دیا آنگن کو آکاش کی چادر ہے دھرتی کا بچھونا ہے " us-ko-kho-dene-kaa-ehsaas-to-kam-baaqii-hai-nida-fazli-ghazals," اس کو کھو دینے کا احساس تو کم باقی ہے جو ہوا وہ نہ ہوا ہوتا یہ غم باقی ہے اب نہ وہ چھت ہے نہ وہ زینہ نہ انگور کی بیل صرف اک اس کو بھلانے کی قسم باقی ہے میں نے پوچھا تھا سبب پیڑ کے گر جانے کا اٹھ کے مالی نے کہا اس کی قلم باقی ہے جنگ کے فیصلے میداں میں کہاں ہوتے ہیں جب تلک حافظے باقی ہیں علم باقی ہے تھک کے گرتا ہے ہرن صرف شکاری کے لیے جسم گھائل ہے مگر آنکھوں میں رم باقی ہے " jab-se-qariib-ho-ke-chale-zindagii-se-ham-nida-fazli-ghazals," جب سے قریب ہو کے چلے زندگی سے ہم خود اپنے آئنے کو لگے اجنبی سے ہم کچھ دور چل کے راستے سب ایک سے لگے ملنے گئے کسی سے مل آئے کسی سے ہم اچھے برے کے فرق نے بستی اجاڑ دی مجبور ہو کے ملنے لگے ہر کسی سے ہم شائستہ محفلوں کی فضاؤں میں زہر تھا زندہ بچے ہیں ذہن کی آوارگی سے ہم اچھی بھلی تھی دنیا گزارے کے واسطے الجھے ہوئے ہیں اپنی ہی خود آگہی سے ہم جنگل میں دور تک کوئی دشمن نہ کوئی دوست مانوس ہو چلے ہیں مگر بمبئی سے ہم " kabhii-kisii-ko-mukammal-jahaan-nahiin-miltaa-nida-fazli-ghazals," کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا چراغ جلتے ہی بینائی بجھنے لگتی ہے خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا " ghar-se-nikle-to-ho-sochaa-bhii-kidhar-jaaoge-nida-fazli-ghazals," گھر سے نکلے تو ہو سوچا بھی کدھر جاؤ گے ہر طرف تیز ہوائیں ہیں بکھر جاؤ گے اتنا آساں نہیں لفظوں پہ بھروسا کرنا گھر کی دہلیز پکارے گی جدھر جاؤ گے شام ہوتے ہی سمٹ جائیں گے سارے رستے بہتے دریا سے جہاں ہو گے ٹھہر جاؤ گے ہر نئے شہر میں کچھ راتیں کڑی ہوتی ہیں چھت سے دیواریں جدا ہوں گی تو ڈر جاؤ گے پہلے ہر چیز نظر آئے گی بے معنی سی اور پھر اپنی ہی نظروں سے اتر جاؤ گے " kath-putlii-hai-yaa-jiivan-hai-jiite-jaao-socho-mat-nida-fazli-ghazals," کٹھ پتلی ہے یا جیون ہے جیتے جاؤ سوچو مت سوچ سے ہی ساری الجھن ہے جیتے جاؤ سوچو مت لکھا ہوا کردار کہانی میں ہی چلتا پھرتا ہے کبھی ہے دوری کبھی ملن ہے جیتے جاؤ سوچو مت ناچ سکو تو ناچو جب تھک جاؤ تو آرام کرو ٹیڑھا کیوں گھر کا آنگن ہے جیتے جاؤ سوچو مت ہر مذہب کا ایک ہی کہنا جیسا مالک رکھے رہنا جب تک سانسوں کا بندھن ہے جیتے جاؤ سوچو مت گھوم رہے ہیں بازاروں میں سرمایوں کے آتش دان کس بھٹی میں کون ایندھن ہے جیتے جاؤ سوچو مت " safar-men-dhuup-to-hogii-jo-chal-sako-to-chalo-nida-fazli-ghazals," سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو کہیں نہیں کوئی سورج دھواں دھواں ہے فضا خود اپنے آپ سے باہر نکل سکو تو چلو یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو " kuchh-tabiiat-hii-milii-thii-aisii-chain-se-jiine-kii-suurat-na-huii-nida-fazli-ghazals," کچھ طبیعت ہی ملی تھی ایسی چین سے جینے کی صورت نہ ہوئی جس کو چاہا اسے اپنا نہ سکے جو ملا اس سے محبت نہ ہوئی جس سے جب تک ملے دل ہی سے ملے دل جو بدلا تو فسانہ بدلا رسم دنیا کو نبھانے کے لیے ہم سے رشتوں کی تجارت نہ ہوئی دور سے تھا وہ کئی چہروں میں پاس سے کوئی بھی ویسا نہ لگا بے وفائی بھی اسی کا تھا چلن پھر کسی سے یہ شکایت نہ ہوئی چھوڑ کر گھر کو کہیں جانے سے گھر میں رہنے کی عبادت تھی بڑی جھوٹ مشہور ہوا راجا کا سچ کی سنسار میں شہرت نہ ہوئی وقت روٹھا رہا بچے کی طرح راہ میں کوئی کھلونا نہ ملا دوستی کی تو نبھائی نہ گئی دشمنی میں بھی عداوت نہ ہوئی " girjaa-men-mandiron-men-azaanon-men-bat-gayaa-nida-fazli-ghazals," گرجا میں مندروں میں اذانوں میں بٹ گیا ہوتے ہی صبح آدمی خانوں میں بٹ گیا اک عشق نام کا جو پرندہ خلا میں تھا اترا جو شہر میں تو دکانوں میں بٹ گیا پہلے تلاشا کھیت پھر دریا کی کھوج کی باقی کا وقت گیہوں کے دانوں میں بٹ گیا جب تک تھا آسمان میں سورج سبھی کا تھا پھر یوں ہوا وہ چند مکانوں میں بٹ گیا ہیں تاک میں شکاری نشانہ ہیں بستیاں عالم تمام چند مچانوں میں بٹ گیا خبروں نے کی مصوری خبریں غزل بنیں زندہ لہو تو تیر کمانوں میں بٹ گیا " dil-men-na-ho-jurat-to-mohabbat-nahiin-miltii-nida-fazli-ghazals," دل میں نہ ہو جرأت تو محبت نہیں ملتی خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی کچھ لوگ یوں ہی شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی دیکھا ہے جسے میں نے کوئی اور تھا شاید وہ کون تھا جس سے تری صورت نہیں ملتی ہنستے ہوئے چہروں سے ہے بازار کی زینت رونے کی یہاں ویسے بھی فرصت نہیں ملتی نکلا کرو یہ شمع لیے گھر سے بھی باہر کمرے میں سجانے کو مصیبت نہیں ملتی " aanii-jaanii-har-mohabbat-hai-chalo-yuun-hii-sahii-nida-fazli-ghazals," آنی جانی ہر محبت ہے چلو یوں ہی سہی جب تلک ہے خوبصورت ہے چلو یوں ہی سہی ہم کہاں کے دیوتا ہیں بے وفا وہ ہیں تو کیا گھر میں کوئی گھر کی زینت ہے چلو یوں ہی سہی وہ نہیں تو کوئی تو ہوگا کہیں اس کی طرح جسم میں جب تک حرارت ہے چلو یوں ہی سہی میلے ہو جاتے ہیں رشتے بھی لباسوں کی طرح دوستی ہر دن کی محنت ہے چلو یوں ہی سہی بھول تھی اپنی فرشتہ آدمی میں ڈھونڈنا آدمی میں آدمیت ہے چلو یوں ہی سہی جیسی ہونی چاہئے تھی ویسی تو دنیا نہیں دنیا داری بھی ضرورت ہے چلو یوں ہی سہی " na-jaane-kaun-saa-manzar-nazar-men-rahtaa-hai-nida-fazli-ghazals," نہ جانے کون سا منظر نظر میں رہتا ہے تمام عمر مسافر سفر میں رہتا ہے لڑائی دیکھے ہوئے دشمنوں سے ممکن ہے مگر وہ خوف جو دیوار و در میں رہتا ہے خدا تو مالک و مختار ہے کہیں بھی رہے کبھی بشر میں کبھی جانور میں رہتا ہے عجیب دور ہے یہ طے شدہ نہیں کچھ بھی نہ چاند شب میں نہ سورج سحر میں رہتا ہے جو ملنا چاہو تو مجھ سے ملو کہیں باہر وہ کوئی اور ہے جو میرے گھر میں رہتا ہے بدلنا چاہو تو دنیا بدل بھی سکتی ہے عجب فتور سا ہر وقت سر میں رہتا ہے " koii-hinduu-koii-muslim-koii-iisaaii-hai-nida-fazli-ghazals," کوئی ہندو کوئی مسلم کوئی عیسائی ہے سب نے انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے اتنی خوں خار نہ تھیں پہلے عبادت گاہیں یہ عقیدے ہیں کہ انسان کی تنہائی ہے تین چوتھائی سے زائد ہیں جو آبادی میں ان کے ہی واسطے ہر بھوک ہے مہنگائی ہے دیکھے کب تلک باقی رہے سج دھج اس کی آج جس چہرہ سے تصویر اتروائی ہے اب نظر آتا نہیں کچھ بھی دکانوں کے سوا اب نہ بادل ہیں نہ چڑیاں ہیں نہ پروائی ہے " apnaa-gam-le-ke-kahiin-aur-na-jaayaa-jaae-nida-fazli-ghazals," اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے جن چراغوں کو ہواؤں کا کوئی خوف نہیں ان چراغوں کو ہواؤں سے بچایا جائے خود کشی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی سب میں اور کچھ دن ابھی اوروں کو ستایا جائے باغ میں جانے کے آداب ہوا کرتے ہیں کسی تتلی کو نہ پھولوں سے اڑایا جائے کیا ہوا شہر کو کچھ بھی تو دکھائی دے کہیں یوں کیا جائے کبھی خود کو رلایا جائے گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے " aaegaa-koii-chal-ke-khizaan-se-bahaar-men-nida-fazli-ghazals," آئے گا کوئی چل کے خزاں سے بہار میں صدیاں گزر گئی ہیں اسی انتظار میں چھڑتے ہی ساز بزم میں کوئی نہ تھا کہیں وہ کون تھا جو بول رہا تھا ستار میں یہ اور بات ہے کوئی مہکے کوئی چبھے گلشن تو جتنا گل میں ہے اتنا ہے خار میں اپنی طرح سے دنیا بدلنے کے واسطے میرا ہی ایک گھر ہے مرے اختیار میں تشنہ لبی نے ریت کو دریا بنا دیا پانی کہاں تھا ورنہ کسی ریگ زار میں مصروف گورکن کو بھی شاید پتہ نہیں وہ خود کھڑا ہوا ہے قضا کی قطار میں " ye-kaisii-kashmakash-hai-zindagii-men-nida-fazli-ghazals," یہ کیسی کشمکش ہے زندگی میں کسی کو ڈھونڈتے ہیں ہم کسی میں جو کھو جاتا ہے مل کر زندگی میں غزل ہے نام اس کا شاعری میں نکل آتے ہیں آنسو ہنستے ہنستے یہ کس غم کی کسک ہے ہر خوشی میں کہیں چہرہ کہیں آنکھیں کہیں لب ہمیشہ ایک ملتا ہے کئی میں چمکتی ہے اندھیروں میں خموشی ستارے ٹوٹتے ہیں رات ہی میں سلگتی ریت میں پانی کہاں تھا کوئی بادل چھپا تھا تشنگی میں بہت مشکل ہے بنجارہ مجازی سلیقہ چاہیے آوارگی میں " ek-hii-dhartii-ham-sab-kaa-ghar-jitnaa-teraa-utnaa-meraa-nida-fazli-ghazals," ایک ہی دھرتی ہم سب کا گھر جتنا تیرا اتنا میرا دکھ سکھ کا یہ جنتر منتر جتنا تیرا اتنا میرا گیہوں چاول بانٹنے والے جھوٹا تولیں تو کیا بولیں یوں تو سب کچھ اندر باہر جتنا تیرا اتنا میرا ہر جیون کی وہی وراثت آنسو سپنا چاہت محنت سانسوں کا ہر بوجھ برابر جتنا تیرا اتنا میرا سانسیں جتنی موجیں اتنی سب کی اپنی اپنی گنتی صدیوں کا اتہاس سمندر جتنا تیرا اتنا میرا خوشیوں کے بٹوارے تک ہی اونچے نیچے آگے پیچھے دنیا کے مٹ جانے کا ڈر جتنا تیرا اتنا میرا " din-saliiqe-se-ugaa-raat-thikaane-se-rahii-nida-fazli-ghazals," دن سلیقے سے اگا رات ٹھکانے سے رہی دوستی اپنی بھی کچھ روز زمانے سے رہی چند لمحوں کو ہی بنتی ہیں مصور آنکھیں زندگی روز تو تصویر بنانے سے رہی اس اندھیرے میں تو ٹھوکر ہی اجالا دے گی رات جنگل میں کوئی شمع جلانے سے رہی فاصلہ چاند بنا دیتا ہے ہر پتھر کو دور کی روشنی نزدیک تو آنے سے رہی شہر میں سب کو کہاں ملتی ہے رونے کی جگہ اپنی عزت بھی یہاں ہنسنے ہنسانے سے رہی " dariyaa-ho-yaa-pahaad-ho-takraanaa-chaahiye-nida-fazli-ghazals," دریا ہو یا پہاڑ ہو ٹکرانا چاہئے جب تک نہ سانس ٹوٹے جیے جانا چاہئے یوں تو قدم قدم پہ ہے دیوار سامنے کوئی نہ ہو تو خود سے الجھ جانا چاہئے جھکتی ہوئی نظر ہو کہ سمٹا ہوا بدن ہر رس بھری گھٹا کو برس جانا چاہئے چوراہے باغ بلڈنگیں سب شہر تو نہیں کچھ ایسے ویسے لوگوں سے یارانا چاہئے اپنی تلاش اپنی نظر اپنا تجربہ رستہ ہو چاہے صاف بھٹک جانا چاہئے چپ چپ مکان راستے گم سم نڈھال وقت اس شہر کے لیے کوئی دیوانا چاہئے بجلی کا قمقمہ نہ ہو کالا دھواں تو ہو یہ بھی اگر نہیں ہو تو بجھ جانا چاہئے " gar-khaamushii-se-faaeda-ikhfaa-e-haal-hai-mirza-ghalib-ghazals," گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے کس کو سناؤں حسرت اظہار کا گلہ دل فرد جمع و خرچ زباں ہائے لال ہے کس پردہ میں ہے آئنہ پرداز اے خدا رحمت کہ عذر خواہ لب بے سوال ہے ہے ہے خدا نخواستہ وہ اور دشمنی اے شوق منفعل یہ تجھے کیا خیال ہے مشکیں لباس کعبہ علی کے قدم سے جان ناف زمین ہے نہ کہ ناف غزال ہے وحشت پہ میری عرصۂ آفاق تنگ تھا دریا زمین کو عرق انفعال ہے ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے پہلو تہی نہ کر غم و اندوہ سے اسدؔ دل وقف درد کر کہ فقیروں کا مال ہے " shabnam-ba-gul-e-laala-na-khaalii-z-adaa-hai-mirza-ghalib-ghazals," شبنم بہ گل لالہ نہ خالی ز ادا ہے داغ دل بے درد نظر گاہ حیا ہے دل خوں شدۂ کشمکش حسرت دیدار آئینہ بہ دست بت بد مست حنا ہے شعلے سے نہ ہوتی ہوس شعلہ نے جو کی جی کس قدر افسردگی دل پہ جلا ہے تمثال میں تیری ہے وہ شوخی کہ بہ صد ذوق آئینہ بہ انداز گل آغوش کشا ہے قمری کف خاکستر و بلبل قفس رنگ اے نالہ نشان جگر سوختہ کیا ہے خو نے تری افسردہ کیا وحشت دل کو معشوقی و بے حوصلگی طرفہ بلا ہے مجبوری و دعواۓ گرفتاری الفت دست تۂ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے معلوم ہوا حال شہیدان گزشتہ تیغ ستم آئینۂ تصویر نما ہے اے پرتو خورشید جہاں تاب ادھر بھی سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے بیگانگی خلق سے بیدل نہ ہو غالبؔ کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے " jis-bazm-men-tuu-naaz-se-guftaar-men-aave-mirza-ghalib-ghazals," جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے جاں کالبد صورت دیوار میں آوے سایہ کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر تو اس قد دل کش سے جو گلزار میں آوے تب ناز گراں مایگی اشک بجا ہے جب لخت جگر دیدۂ خوں بار میں آوے دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستم گر کچھ تجھ کو مزا بھی مرے آزار میں آوے اس چشم فسوں گر کا اگر پائے اشارہ طوطی کی طرح آئینہ گفتار میں آوے کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب اک آبلہ پا وادی پر خار میں آوے مر جاؤں نہ کیوں رشک سے جب وہ تن نازک آغوش خم حلقۂ زنار میں آوے غارت گر ناموس نہ ہو گر ہوس زر کیوں شاہد گل باغ سے بازار میں آوے تب چاک گریباں کا مزا ہے دل نالاں جب اک نفس الجھا ہوا ہر تار میں آوے آتشکدہ ہے سینہ مرا راز نہاں سے اے واے اگر معرض اظہار میں آوے گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے " kal-ke-liye-kar-aaj-na-khissat-sharaab-men-mirza-ghalib-ghazals," کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں یہ سوء ظن ہے ساقی کوثر کے باب میں ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دم سماع گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بعد ہے جتنا کہ وہم غیر سے ہوں پیچ و تاب میں اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں ہے مشتمل نمود صور پر وجود بحر یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یوں حجاب میں آرایش جمال سے فارغ نہیں ہنوز پیش نظر ہے آئنہ دایم نقاب میں ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں غالبؔ ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست مشغول حق ہوں بندگی بو تراب میں " hairaan-huun-dil-ko-rouun-ki-piituun-jigar-ko-main-mirza-ghalib-ghazals," حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار اے کاش جانتا نہ ترے رہگزر کو میں ہے کیا جو کس کے باندھئے میری بلا ڈرے کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں پھر بے خودی میں بھول گیا راہ کوئے یار جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو میں اپنے پہ کر رہا ہوں قیاس اہل دہر کا سمجھا ہوں دل پذیر متاع ہنر کو میں غالبؔ خدا کرے کہ سوار سمند ناز دیکھوں علی بہادر عالی گہر کو میں " masjid-ke-zer-e-saaya-kharaabaat-chaahiye-mirza-ghalib-ghazals," مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے بھوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے عاشق ہوئے ہیں آپ بھی ایک اور شخص پر آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے دے داد اے فلک دل حسرت پرست کی ہاں کچھ نہ کچھ تلافئ مافات چاہیے سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے نشوونما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے ہے رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے سر پائے خم پہ چاہیے ہنگام بے خودی رو سوئے قبلہ وقت مناجات چاہیے یعنی بہ حسب گردش پیمانۂ صفات عارف ہمیشہ مست مے ذات چاہیے " jahaan-teraa-naqsh-e-qadam-dekhte-hain-mirza-ghalib-ghazals," جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں دل آشفتگاں خال کنج دہن کے سویدا میں سیر عدم دیکھتے ہیں ترے سرو قامت سے اک قد آدم قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں تماشا کہ اے محو آئینہ داری تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں سراغ تف نالہ لے داغ دل سے کہ شب رو کا نقش قدم دیکھتے ہیں بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں کسو کو زخود رستہ کم دیکھتے ہیں کہ آہو کو پابند رم دیکھتے ہیں خط لخت دل یک قلم دیکھتے ہیں مژہ کو جواہر رقم دیکھتے ہیں " donon-jahaan-de-ke-vo-samjhe-ye-khush-rahaa-mirza-ghalib-ghazals," دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ بزم میں ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں " dar-khur-e-qahr-o-gazab-jab-koii-ham-saa-na-huaa-mirza-ghalib-ghazals," در خور قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں کہ ہم الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا روبرو کوئی بت آئنہ سیما نہ ہوا کم نہیں نازش ہم نامی چشم خوباں تیرا بیمار برا کیا ہے گر اچھا نہ ہوا سینہ کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا ہر بن مو سے دم ذکر نہ ٹپکے خوں ناب حمزہ کا قصہ ہوا عشق کا چرچا نہ ہوا قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا " phir-is-andaaz-se-bahaar-aaii-mirza-ghalib-ghazals," پھر اس انداز سے بہار آئی کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی دیکھو اے ساکنان خطۂ خاک اس کو کہتے ہیں عالم آرائی کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر روکش سطح چرخ مینائی سبزہ کو جب کہیں جگہ نہ ملی بن گیا روئے آب پر کائی سبزہ و گل کے دیکھنے کے لیے چشم نرگس کو دی ہے بینائی ہے ہوا میں شراب کی تاثیر بادہ نوشی ہے بادہ پیمائی کیوں نہ دنیا کو ہو خوشی غالبؔ شاہ دیں دار نے شفا پائی " vaan-pahunch-kar-jo-gash-aataa-pae-ham-hai-ham-ko-mirza-ghalib-ghazals," واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو صد رہ آہنگ زمیں بوس قدم ہے ہم کو دل کو میں اور مجھے دل محو وفا رکھتا ہے کس قدر ذوق گرفتاری ہم ہے ہم کو ضعف سے نقش پئے مور ہے طوق گردن ترے کوچے سے کہاں طاقت رم ہے ہم کو جان کر کیجے تغافل کہ کچھ امید بھی ہو یہ نگاہ غلط انداز تو سم ہے ہم کو رشک ہم طرحی و درد اثر بانگ حزیں نالۂ مرغ سحر تیغ دو دم ہے ہم کو سر اڑانے کے جو وعدے کو مکرر چاہا ہنس کے بولے کہ ترے سر کی قسم ہے ہم کو دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ ولیکن ناچار پاس بے رونقی دیدہ اہم ہے ہم کو تم وہ نازک کہ خموشی کو فغاں کہتے ہو ہم وہ عاجز کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی ہوس سیر و تماشا سو وہ کم ہے ہم کو مقطع سلسلۂ شوق نہیں ہے یہ شہر عزم سیر نجف و طوف حرم ہے ہم کو لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالبؔ جادۂ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو ابر روتا ہے کہ بزم طرب آمادہ کرو برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم ہے ہم کو طاقت رنج سفر بھی نہیں پاتے اتنی ہجر یاراں وطن کا بھی الم ہے ہم کو لائی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید جادۂ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو " rahm-kar-zaalim-ki-kyaa-buud-e-charaag-e-kushta-hai-mirza-ghalib-ghazals," رحم کر ظالم کہ کیا بود چراغ کشتہ ہے نبض بیمار وفا دود چراغ کشتہ ہے دل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے ہمیں ورنہ یاں بے رونقی سود چراغ کشتہ ہے نشۂ مے بے چمن دود چراغ کشتہ ہے جام داغ شعلہ اندود چراغ کشتہ ہے داغ ربط ہم ہیں اہل باغ گر گل ہو شہید لالہ چشم حسرت آلود چراغ کشتہ ہے شور ہے کس بزم کی عرض جراحت خانہ کا صبح یک بزم نمک سود چراغ کشتہ ہے " gaii-vo-baat-ki-ho-guftuguu-to-kyuunkar-ho-mirza-ghalib-ghazals," گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو کہے سے کچھ نہ ہوا پھر کہو تو کیونکر ہو ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں ہو تو کیونکر ہو ادب ہے اور یہی کشمکش تو کیا کیجے حیا ہے اور یہی گو مگو تو کیونکر ہو تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیونکر ہو الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیونکر ہو جسے نصیب ہو روز سیاہ میرا سا وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیونکر ہو ہمیں پھر ان سے امید اور انہیں ہماری قدر ہماری بات ہی پوچھیں نہ وہ تو کیونکر ہو غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلی کا نہ مانے دیدۂ دیدار جو تو کیونکر ہو بتاؤ اس مژہ کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار وہ نیش ہو رگ جاں میں فرو تو کیونکر ہو مجھے جنوں نہیں غالبؔ ولے بقول حضور فراق یار میں تسکین ہو تو کیونکر ہو " har-qadam-duurii-e-manzil-hai-numaayaan-mujh-se-mirza-ghalib-ghazals," ہر قدم دورئ منزل ہے نمایاں مجھ سے میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے درس عنوان تماشا بہ تغافل خوشتر ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے وحشت آتش دل سے شب تنہائی میں صورت دود رہا سایہ گریزاں مجھ سے غم عشاق نہ ہو سادگی آموز بتاں کس قدر خانۂ آئینہ ہے ویراں مجھ سے اثر آبلہ سے جادۂ صحرائے جنوں صورت رشتۂ گوہر ہے چراغاں مجھ سے بے خودی بستر تمہید فراغت ہو جو پر ہے سائے کی طرح میرا شبستاں مجھ سے شوق دیدار میں گر تو مجھے گردن مارے ہو نگہ مثل گل شمع پریشاں مجھ سے بیکسی ہائے شب ہجر کی وحشت ہے ہے سایہ خورشید قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے گردش ساغر صد جلوۂ رنگیں تجھ سے آئنہ داریٔ یک دیدۂ حیراں مجھ سے نگہ گرم سے ایک آگ ٹپکتی ہے اسدؔ ہے چراغاں خس و خاشاک گلستاں مجھ سے بستن عہد محبت ہمہ نادانی تھا چشم نکشودہ رہا عقدۂ پیماں مجھ سے آتش افروزی یک شعلۂ ایما تجھ سے چشمک آرائی صد شہر چراغاں مجھ سے " dil-e-naadaan-tujhe-huaa-kyaa-hai-mirza-ghalib-ghazals," دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے شکن زلف عنبریں کیوں ہے نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے ہم کو ان سے وفا کی ہے امید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا اور درویش کی صدا کیا ہے جان تم پر نثار کرتا ہوں میں نہیں جانتا دعا کیا ہے میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے " raundii-huii-hai-kaukaba-e-shahryaar-kii-mirza-ghalib-ghazals," روندی ہوئی ہے کوکبۂ شہریار کی اترائے کیوں نہ خاک سر رہ گزار کی جب اس کے دیکھنے کے لیے آئیں بادشاہ لوگوں میں کیوں نمود نہ ہو لالہ زار کی بھوکے نہیں ہیں سیر گلستاں کے ہم ولے کیونکر نہ کھائیے کہ ہوا ہے بہار کی " hariif-e-matlab-e-mushkil-nahiin-fusuun-e-niyaaz-mirza-ghalib-ghazals," حریف مطلب مشکل نہیں فسون نیاز دعا قبول ہو یا رب کہ عمر خضر دراز نہ ہو بہ ہرزہ بیاباں نورد وہم وجود ہنوز تیرے تصور میں ہے نشیب و فراز وصال جلوہ تماشا ہے پر دماغ کہاں کہ دیجے آئنۂ انتظار کو پرداز ہر ایک ذرۂ عاشق ہے آفتاب پرست گئی نہ خاک ہوئے پر ہواۓ جلوۂ ناز نہ پوچھ وسعت مے خانۂ جنوں غالبؔ جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاک انداز فریب صنعت ایجاد کا تماشا دیکھ نگاہ عکس فروش و خیال آئنہ ساز ز بسکہ جلوۂ صییاد حیرت آرا ہے اڑی ہے صفحۂ خاطر سے صورت پرواز ہجوم فکر سے دل مثل موج لرزے ہے کہ شیشہ نازک و صہبائے آبگینہ گداز اسدؔ سے ترک وفا کا گماں وہ معنی ہے کہ کھینچیے پر طائر سے صورت پرواز ہنوز اے اثر دید ننگ رسوائی نگاہ فتنہ خرام و در دو عالم باز " ghar-hamaaraa-jo-na-rote-bhii-to-viiraan-hotaa-mirza-ghalib-ghazals," گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا تنگئ دل کا گلہ کیا یہ وہ کافر دل ہے کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا باد یک عمر ورع بار تو دیتا بارے کاش رضواں ہی در یار کا درباں ہوتا " zamaana-sakht-kam-aazaar-hai-ba-jaan-e-asad-mirza-ghalib-ghazals," زمانہ سخت کم آزار ہے بہ جان اسدؔ وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں تن بہ بند ہوس در ندادہ رکھتے ہیں دل ز کار جہاں اوفتادہ رکھتے ہیں تمیز زشتی و نیکی میں لاکھ باتیں ہیں بہ عکس آئنہ یک فرد سادہ رکھتے ہیں بہ رنگ سایہ ہمیں بندگی میں ہے تسلیم کہ داغ دل بہ جبین کشادہ رکھتے ہیں بہ زاہداں رگ گردن ہے رشتۂ زنار سر بہ پاۓ بت نا نہادہ رکھتے ہیں معاف بے ہودہ گوئی ہیں ناصحان عزیز دل بہ دست نگارے ندادہ رکھتے ہیں بہ رنگ سبزہ عزیزان بد زباں یک دست ہزار تیغ بہ زہر آب دادہ رکھتے ہیں ادب نے سونپی ہمیں سرمہ سائی حیرت ز بن بستہ و چشم کشادہ رکھتے ہیں " hai-vasl-hijr-aalam-e-tamkiin-o-zabt-men-mirza-ghalib-ghazals," ہے وصل ہجر عالم تمکین و ضبط میں معشوق شوخ و عاشق دیوانہ چاہیے اس لب سے مل ہی جائے گا بوسہ کبھی تو ہاں شوق فضول و جرأت رندانہ چاہیے عاشق نقاب جلوۂ جانانہ چاہیے فانوس شمع کو پر پروانہ چاہیے " us-bazm-men-mujhe-nahiin-bantii-hayaa-kiye-mirza-ghalib-ghazals," اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے دل ہی تو ہے سیاست درباں سے ڈر گیا میں اور جاؤں در سے ترے بن صدا کیے رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجادہ رہن مے مدت ہوئی ہے دعوت آب و ہوا کیے بے صرفہ ہی گزرتی ہے ہو گرچہ عمر خضر حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیا کیے مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو کہیں یہ خو دینے لگا ہے بوسہ بغیر التجا کیے ضد کی ہے اور بات مگر خو بری نہیں بھولے سے اس نے سیکڑوں وعدے وفا کیے غالبؔ تمہیں کہو کہ ملے گا جواب کیا مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے " chaahiye-achchhon-ko-jitnaa-chaahiye-mirza-ghalib-ghazals," چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے صحبت رنداں سے واجب ہے حذر جائے مے اپنے کو کھینچا چاہیے چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل بارے اب اس سے بھی سمجھا چاہیے چاک مت کر جیب بے ایام گل کچھ ادھر کا بھی اشارا چاہیے دوستی کا پردہ ہے بیگانگی منہ چھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے دشمنی نے میری کھویا غیر کو کس قدر دشمن ہے دیکھا چاہیے اپنی رسوائی میں کیا چلتی ہے سعی یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے غافل ان مہ طلعتوں کے واسطے چاہنے والا بھی اچھا چاہیے چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسدؔ آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے " hai-bazm-e-butaan-men-sukhan-aazurda-labon-se-mirza-ghalib-ghazals," ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے ہے دور قدح وجہ پریشانی صہبا یک بار لگا دو خم مے میرے لبوں سے رندان در مے کدہ گستاخ ہیں زاہد زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے بیداد وفا دیکھ کہ جاتی رہی آخر ہر چند مری جان کو تھا ربط لبوں سے کیا پوچھے ہے بر خود غلطیہائے عزیزاں خواری کو بھی اک عار ہے عالی نسبوں سے گو تم کو رضا جوئی اغیار ہے لیکن جاتی ہے ملاقات کب ایسے سببوں سے مت پوچھ اسدؔ وعدۂ کم فرصتیٔ زیست دو دن بھی جو کاٹے تو قیامت تعبوں سے " na-gul-e-nagma-huun-na-parda-e-saaz-mirza-ghalib-ghazals," نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز میں ہوں اپنی شکست کی آواز تو اور آرائش خم کاکل میں اور اندیشہ ہائے دور دراز لاف تمکیں فریب سادہ دلی ہم ہیں اور راز ہائے سینہ گداز ہوں گرفتار الفت صیاد ورنہ باقی ہے طاقت پرواز وہ بھی دن ہو کہ اس ستم گر سے ناز کھینچوں بجائے حسرت ناز نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گلباز اے ترا غمزہ یک قلم انگیز اے ترا ظلم سر بہ سر انداز تو ہوا جلوہ گر مبارک ہو ریزش سجدۂ جبین نیاز مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا میں غریب اور تو غریب نواز اسدؔ اللہ خاں تمام ہوا اے دریغا وہ رند شاہد باز " saraapaa-rehn-e-ishq-o-naa-guziir-e-ulfat-e-hastii-mirza-ghalib-ghazals," سراپا رہن عشق و نا گزیر الفت ہستی عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا بقدر ظرف ہے ساقی خمار تشنہ کامی بھی جو تو دریاۓ مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا ز بس خوں گشتۂ رشک وفا تھا وہم بسمل کا چرایا زخم ہائے دل نے پانی تیغ قاتل کا نگاۂ چشم حاسد وام لے اے ذوق خود بینی تماشائی ہوں وحدت خانۂ آئینۂ دل کا شرر فرصت نگہ سامان یک عالم چراغاں ہے بہ قدر رنگ یاں گردش میں ہے پیمانہ محفل کا سراسر تاختن کو شش جہت یک عرصہ جولاں تھا ہوا واماندگی سے رہ رواں کی فرق منزل کا مجھے راہ سخن میں خوف گم راہی نہیں غالب عصاۓ خضر صحراۓ سخن ہے خامہ بے دل کا " koii-din-gar-zindagaanii-aur-hai-mirza-ghalib-ghazals," کوئی دن گر زندگانی اور ہے اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں سوز غم ہائے نہانی اور ہے بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر کچھ تو پیغام زبانی اور ہے قاطع اعمار ہے اکثر نجوم وہ بلائے آسمانی اور ہے ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام ایک مرگ ناگہانی اور ہے " sataaish-gar-hai-zaahid-is-qadar-jis-baag-e-rizvaan-kaa-mirza-ghalib-ghazals," ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا بیاں کیا کیجیے بیداد کاوش ہائے مژگاں کا کہ ہر یک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیح مرجاں کا نہ آئی سطوت قاتل بھی مانع میرے نالوں کو لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا دکھاؤں گا تماشا دی اگر فرصت زمانے نے مرا ہر داغ دل اک تخم ہے سرو چراغاں کا کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے کرے جو پرتو خورشید عالم شبنمستاں کا مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا اگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ ویرانی تماشا کر مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں چراغ مردہ ہوں میں بے زباں گور غریباں کا ہنوز اک پرتو نقش خیال یار باقی ہے دل افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا بغل میں غیر کی آج آپ سوتے ہیں کہیں ورنہ سبب کیا خواب میں آ کر تبسم ہائے پنہاں کا نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا نظر میں ہے ہماری جادۂ راہ فنا غالبؔ کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا " rashk-kahtaa-hai-ki-us-kaa-gair-se-ikhlaas-haif-mirza-ghalib-ghazals," رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا ذرہ ذرہ ساغر مے خانۂ نیرنگ ہے گردش مجنوں بہ چشمک‌ ہائے لیلیٰ آشنا شوق ہے ساماں طراز نازش ارباب عجز ذرہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دل وحشی کہ ہے عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا شکوہ سنج رشک ہم دیگر نہ رہنا چاہیے میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا کوہ کن نقاش یک تمثال شیریں تھا اسدؔ سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا خود پرستی سے رہے باہم دگر نا آشنا بیکسی میری شریک آئینہ تیرا آشنا آتش موئے دماغ شوق ہے تیرا تپاک ورنہ ہم کس کے ہیں اے داغ تمنا آشنا جوہر آئینہ جز رمز سر مژگاں نہیں آشنا کی ہم دگر سمجھے ہے ایما آشنا ربط یک شیرازۂ وحشت ہیں اجزائے بہار سبزہ بیگانہ صبا آوارہ گل نا آشنا بے دماغی شکوہ سنج رشک ہم دیگر نہیں یار تیرا جام مے خمیازہ میرا آشنا " rone-se-aur-ishq-men-bebaak-ho-gae-mirza-ghalib-ghazals," رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے صرف بہائے مے ہوئے آلات مے کشی تھے یہ ہی دو حساب سو یوں پاک ہو گئے رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے کہتا ہے کون نالۂ بلبل کو بے اثر پردے میں گل کے لاکھ جگر چاک ہو گئے پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہل شوق کا آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہم گلہ کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش دشمن بھی جس کو دیکھ کے غم ناک ہو گئے " saadgii-par-us-kii-mar-jaane-kii-hasrat-dil-men-hai-mirza-ghalib-ghazals," سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کف قاتل میں ہے دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے باایں ہمہ ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے بس ہجوم ناامیدی خاک میں مل جائے گی یہ جو اک لذت ہماری سعیٔ بے حاصل میں ہے رنج رہ کیوں کھینچیے واماندگی کو عشق ہے اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے جلوہ زار آتش دوزخ ہمارا دل سہی فتنۂ شور قیامت کس کے آب و گل میں ہے ہے دل شوریدۂ غالبؔ طلسم پیچ و تاب رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے " dhamkii-men-mar-gayaa-jo-na-baab-e-nabard-thaa-mirza-ghalib-ghazals," دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا دل تا جگر کہ ساحل دریائے خوں ہے اب اس رہ گزر میں جلوۂ گل آگے گرد تھا جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہ عشق کی دل بھی اگر گیا تو وہی دل کا درد تھا احباب چارہ سازی وحشت نہ کر سکے زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا یہ لاش بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا " gam-khaane-men-buudaa-dil-e-naakaam-bahut-hai-mirza-ghalib-ghazals," غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام بہت ہے کہتے ہوئے ساقی سے حیا آتی ہے ورنہ ہے یوں کہ مجھے درد تہ جام بہت ہے نے تیر کماں میں ہے نہ صیاد کمیں میں گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ ریائی پاداش عمل کی طمع خام بہت ہے ہیں اہل خرد کس روش خاص پہ نازاں پابستگی رسم و رہ عام بہت ہے زمزم ہی پہ چھوڑو مجھے کیا طوف حرم سے آلودہ بہ مے جامۂ احرام بہت ہے ہے قہر گر اب بھی نہ بنے بات کہ ان کو انکار نہیں اور مجھے ابرام بہت ہے خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ رہنے دے مجھے یاں کہ ابھی کام بہت ہے ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالبؔ کو نہ جانے شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے " haasil-se-haath-dho-baith-ai-aarzuu-khiraamii-mirza-ghalib-ghazals," حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی دل جوش گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھا دے میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغ نا تمامی کرتے ہو شکوہ کس کا تم اور بے وفائی سر پیٹتے ہیں اپنا ہم اور نیک نامی صد رنگ گل کترنا در پردہ قتل کرنا تیغ ادا نہیں ہے پابند بے نیامی طرف سخن نہیں ہے مجھ سے خدا نہ کردہ ہے نامہ بر کو اس سے دعوائے ہم کلامی طاقت فسانۂ باد اندیشہ شعلہ ایجاد اے غم ہنوز آتش اے دل ہنوز خامی ہر چند عمر گزری آزردگی میں لیکن ہے شرح شوق کو بھی جوں شکوہ ناتمامی ہے یاس میں اسدؔ کو ساقی سے بھی فراغت دریا سے خشک گزرے مستوں کی تشنہ کامی " maze-jahaan-ke-apnii-nazar-men-khaak-nahiin-mirza-ghalib-ghazals," مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں سواے خون جگر سو جگر میں خاک نہیں مگر غبار ہوے پر ہوا اڑا لے جاے وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے کہ غیر جلوۂ گل رہ گزر میں خاک نہیں بھلا اسے نہ سہی کچھ مجھی کو رحم آتا اثر مرے نفس بے اثر میں خاک نہیں خیال جلوۂ گل سے خراب ہیں میکش شراب خانہ کے دیوار و در میں خاک نہیں ہوا ہوں عشق کی غارتگری سے شرمندہ سواے حسرت تعمیر گھر میں خاک نہیں ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ کھلا کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں " miltii-hai-khuu-e-yaar-se-naar-iltihaab-men-mirza-ghalib-ghazals," ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں کب سے ہوں کیا بتاؤں جہان خراب میں شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں جو منکر وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے کیوں بد گماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں میں مضطرب ہوں وصل میں خوف رقیب سے ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں میں اور حظ وصل خدا ساز بات ہے جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے ہے اک شکن پڑی ہوئی طرف نقاب میں لاکھوں لگاؤ ایک چرانا نگاہ کا لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے جس نالہ سے شگاف پڑے آفتاب میں وہ سحر مدعا طلبی میں نہ کام آئے جس سحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں غالبؔ چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی پیتا ہوں روز ابر و شب ماہتاب میں " ishq-taasiir-se-naumiid-nahiin-mirza-ghalib-ghazals," عشق تاثیر سے نومید نہیں جاں سپاری شجر بید نہیں سلطنت دست بدست آئی ہے جام مے خاتم جمشید نہیں ہے تجلی تری سامان وجود ذرہ بے پرتو خورشید نہیں راز معشوق نہ رسوا ہو جائے ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں گردش رنگ طرب سے ڈر ہے غم محرومئ جاوید نہیں کہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ لوگ ہم کو جینے کی بھی امید نہیں " manzuur-thii-ye-shakl-tajallii-ko-nuur-kii-mirza-ghalib-ghazals," منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی اک خونچکاں کفن میں کروڑوں بناؤ ہیں پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی لڑتا ہے مجھ سے حشر میں قاتل کہ کیوں اٹھا گویا ابھی سنی نہیں آواز صور کی آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی غالبؔ گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی " qatra-e-mai-bas-ki-hairat-se-nafas-parvar-huaa-mirza-ghalib-ghazals," قطرۂ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا خط جام مے سراسر رشتۂ گوہر ہوا اعتبار عشق کی خانہ خرابی دیکھنا غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا گرمیٔ دولت ہوئی آتش زن نام نکو خانۂ خاتم میں یاقوت نگیں اختر ہوا نشہ میں گم کردہ راہ آیا وہ مست فتنہ خو آج رنگ رفتہ دور گردش ساغر ہوا درد سے در پردہ دی مژگاں سیاہاں نے شکست ریزہ ریزہ استخواں کا پوست میں نشتر ہوا زہد گردیدن ہے گرد خانہ ہائے منعماں دانۂ تسبیح سے میں مہرہ در ششدر ہوا اے بہ ضبط حال نا افسردگاں جوش جنوں نشۂ مے ہے اگر یک پردہ نازک تر ہوا اس چمن میں ریشہ داری جس نے سر کھینچا اسدؔ تر زبان لفظ عام ساقیٔ کوثر ہوا " faarig-mujhe-na-jaan-ki-maanind-e-subh-o-mehr-mirza-ghalib-ghazals," فارغ مجھے نہ جان کہ مانند صبح و مہر ہے داغ عشق زینت جیب کفن ہنوز ہے ناز مفلساں زر از دست رفتہ پر ہوں گل فروش شوخی داغ کہن ہنوز مے خانۂ جگر میں یہاں خاک بھی نہیں خمیازہ کھینچے ہے بت بے داد فن ہنوز جوں جادہ سر بہ کوئے تمناۓ بے دلی زنجیر پا ہے رشتۂ حب الوطن ہنوز " gulshan-men-bandobast-ba-rang-e-digar-hai-aaj-mirza-ghalib-ghazals," گلشن میں بندوبست بہ رنگ دگر ہے آج قمری کا طوق حلقۂ بیرون در ہے آج آتا ہے ایک پارۂ دل ہر فغاں کے ساتھ تار نفس کمند شکار اثر ہے آج اے عافیت کنارہ کر اے انتظام چل سیلاب گریہ درپئے دیوار و در ہے آج معزولیٔ تپش ہوئی افراط انتظار چشم کشادہ حلقۂ بیرون در ہے آج حیرت فروش صد نگرانی ہے اضطرار سر رشتہ چاک جیب کا تار نظر ہے آج ہوں داغ نیم رنگیٔ شام وصال یار نور چراغ بزم سے جوش سحر ہے آج کرتی ہے عاجزیٔ سفر سوختن تمام پیراہن خسک میں غبار شرر ہے آج تا صبح ہے بہ منزل مقصد رسیدنی دود چراغ خانہ غبار سفر ہے آج دور اوفتادۂ چمن فکر ہے اسدؔ مرغ خیال بلبل بے بال و پر ہے آج " juz-qais-aur-koii-na-aayaa-ba-ruu-e-kaar-mirza-ghalib-ghazals," جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا آشفتگی نے نقش سویدا کیا درست ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا لیتا ہوں مکتب غم دل میں سبق ہنوز لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسدؔ سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا عالم جہاں بہ عرض بساط وجود تھا جوں صبح چاک جیب مجھے تار و پود تھا بازی خور فریب ہے اہل نظر کا ذوق ہنگامہ گرم حیرت بود و نبود تھا عالم طلسم شہر خموشی ہے سربسر یا میں غریب کشور گفت و شنود تھا تنگی رفیق رہ تھی عدم یا وجود تھا میرا سفر بہ طالع چشم حسود تھا تو یک جہاں قماش ہوس جمع کر کہ میں حیرت متاع عالم نقصان و سود تھا گردش محیط ظلم رہا جس قدر فلک میں پائمال غمزۂ چشم کبود تھا پوچھا تھا گرچہ یار نے احوال دل مگر کس کو دماغ منت گفت و شنود تھا خور شبنم آشنا نہ ہوا ورنہ میں اسدؔ سر تا قدم گزارش ذوق سجود تھا " lab-e-khushk-dar-tishnagii-murdagaan-kaa-mirza-ghalib-ghazals," لب خشک در تشنگی مردگاں کا زیارت کدہ ہوں دل آزردگاں کا ہمہ ناامیدی ہمہ بد گمانی میں دل ہوں فریب وفا خوردگاں کا شگفتن کمیں گاۂ تقریب جوئی تصور ہوں بے موجب آزردگاں کا غریب ستم دیدۂ باز گشتن سخن ہوں سخن بر لب آوردگاں کا سراپا یک آئینہ دار شکستن ارادہ ہوں یک عالم افسردگاں کا بہ صورت تکلف بہ معنی تأسف اسدؔ میں تبسم ہوں پژمردگاں کا " laraztaa-hai-miraa-dil-zahmat-e-mehr-e-darakhshaan-par-mirza-ghalib-ghazals," لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خار بیاباں پر نہ چھوڑی حضرت یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر فنا تعلیم درس بے خودی ہوں اس زمانے سے کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوار دبستاں پر فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویش مرہم سے بہم گر صلح کرتے پارہ ہائے دل نمکداں پر نہیں اقلیم الفت میں کوئی طورمار ناز ایسا کہ پشت چشم سے جس کی نہ ہووے مہر عنواں پر مجھے اب دیکھ کر ابر شفق آلودہ یاد آیا کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلستاں پر بجز پرواز شوق ناز کیا باقی رہا ہوگا قیامت اک ہوائے تند ہے خاک شہیداں پر نہ لڑ ناصح سے غالبؔ کیا ہوا گر اس نے شدت کی ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر دل خونیں جگر بے صبر و فیض عشق مستغنی الٰہی یک قیامت خاور آ ٹوٹے بدخشاں پر اسدؔ اے بے تحمل عربدہ بیجا ہے ناصح سے کہ آخر بے کسوں کا زور چلتا ہے گریباں پر " aa-ki-mirii-jaan-ko-qaraar-nahiin-hai-mirza-ghalib-ghazals," آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے طاقت بیداد انتظار نہیں ہے دیتے ہیں جنت حیات دہر کے بدلے نشہ بہ اندازۂ خمار نہیں ہے گریہ نکالے ہے تیری بزم سے مجھ کو ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے ہم سے عبث ہے گمان رنجش خاطر خاک میں عشاق کی غبار نہیں ہے دل سے اٹھا لطف جلوہ ہائے معانی غیر گل آئینۂ بہار نہیں ہے قتل کا میرے کیا ہے عہد تو بارے وائے اگر عہد استوار نہیں ہے تو نے قسم مے کشی کی کھائی ہے غالبؔ تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے " naqsh-fariyaadii-hai-kis-kii-shokhi-e-tahriir-kaa-mirza-ghalib-ghazals," نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا جذبۂ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیر پا موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا آتشیں پا ہوں گداز وحشت زنداں نہ پوچھ موئے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یاں زنجیر کا شوخیٔ نیرنگ صید وحشت طاؤس ہے دام سبزہ میں ہے پرواز چمن تسخیر کا لذت ایجاد ناز افسون عرض ذوق قتل نعل آتش میں ہے تیغ یار سے نخچیر کا خشت پشت دست عجز و قالب آغوش وداع پر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا وحشت خواب عدم شور تماشا ہے اسدؔ جو مزہ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا " mund-gaiin-kholte-hii-kholte-aankhen-gaalib-mirza-ghalib-ghazals," مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ یار لائے مری بالیں پہ اسے پر کس وقت " muzhda-ai-zauq-e-asiirii-ki-nazar-aataa-hai-mirza-ghalib-ghazals," مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے دام خالی قفس مرغ گرفتار کے پاس جگر تشنۂ آزار تسلی نہ ہوا جوئے خوں ہم نے بہائی بن ہر خار کے پاس مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے ہے خوب وقت آئے تم اس عاشق بیمار کے پاس میں بھی رک رک کے نہ مرتا جو زباں کے بدلے دشنہ اک تیز سا ہوتا مرے غم خوار کے پاس دہن شیر میں جا بیٹھے لیکن اے دل نہ کھڑے ہو جیے خوبان دل آزار کے پاس دیکھ کر تجھ کو چمن بسکہ نمو کرتا ہے خود بہ خود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس مر گیا پھوڑ کے سر غالبؔ وحشی ہے ہے بیٹھنا اس کا وہ آ کر تری دیوار کے پاس " na-hogaa-yak-bayaabaan-maandgii-se-zauq-kam-meraa-mirza-ghalib-ghazals," نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا حباب موجۂ رفتار ہے نقش قدم میرا محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے کہ موج بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا رہ خوابیدہ تھی گردن کش یک درس آگاہی زمیں کو سیلئ استاد ہے نقش قدم میرا سراغ آوارۂ عرض دو عالم شور محشر ہوں پرافشاں ہے غبار آں سوئے صحرائے عدم میرا ہوائے صبح یک عالم گریباں چاکی گل ہے دہان زخم پیدا کر اگر کھاتا ہے غم میرا نہ ہو وحشت کش درس سراب سطر آگاہی میں گرد راہ ہوں بے مدعا ہے پیچ و خم میرا اسدؔ وحشت پرست گوشۂ تنہائی دل ہے برنگ موج مے خمیازۂ ساغر ہے رم میرا " daaim-padaa-huaa-tire-dar-par-nahiin-huun-main-mirza-ghalib-ghazals," دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جاے دل انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے لعل و زمرد و زر و گوہر نہیں ہوں میں رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ رتبے میں مہر و ماہ سے کم تر نہیں ہوں میں کرتے ہو مجھ کو منع قدم بوس کس لیے کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں غالبؔ وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں " jaada-e-rah-khur-ko-vaqt-e-shaam-hai-taar-e-shuaaa-mirza-ghalib-ghazals," جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع چرخ وا کرتا ہے ماہ نو سے آغوش وداع شمع سے ہے بزم انگشت تحیر در دہن شعلۂ آواز خوباں پر بہ ہنگام سماع جوں پر طاؤس جوہر تختہ مشق رنگ ہے بسکہ ہے وہ قبلۂ آئینہ محو اختراع رنجش حیرت سرشتاں سینہ صافی پیشکش جوہر آئینہ ہے یاں گرد میدان نزاع چار سوئے دہر میں بازار غفلت گرم ہے عقل کے نقصاں سے اٹھتا ہے خیال انتفاع آشنا غالبؔ نہیں ہیں درد دل کے آشنا ورنہ کس کو میرے افسانے کی تاب استماع " shauq-har-rang-raqiib-e-sar-o-saamaan-niklaa-mirza-ghalib-ghazals," شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا زخم نے داد نہ دی تنگئ دل کی یا رب تیر بھی سینۂ بسمل سے پرافشاں نکلا بوئے گل نالۂ دل دود چراغ محفل جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا دل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذت درد کام یاروں کا بہ قدر لب و دنداں نکلا تھی نوآموز فنا ہمت دشوار پسند سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا دل میں پھر گریہ نے اک شور اٹھایا غالبؔ آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا کارخانے سے جنوں کے بھی میں عریاں نکلا میری قسمت کا نہ ایک آدھ گریباں نکلا ساغر جلوۂ سرشار ہے ہر ذرۂ خاک شوق دیدار بلا آئنہ ساماں نکلا کچھ کھٹکتا تھا مرے سینے میں لیکن آخر جس کو دل کہتے تھے سو تیر کا پیکاں نکلا کس قدر خاک ہوا ہے دل مجنوں یا رب نقش ہر ذرہ سویداۓ بیاباں نکلا شور رسوائی دل دیکھ کہ یک نالۂ شوق لاکھ پردے میں چھپا پر وہی عریاں نکلا شوخیٔ رنگ حنا خون وفا سے کب تک آخر اے عہد شکن تو بھی پشیماں نکلا جوہر ایجاد خط سبز ہے خود بینیٔ حسن جو نہ دیکھا تھا سو آئینے میں پنہاں نکلا میں بھی معذور جنوں ہوں اسدؔ اے خانہ خراب پیشوا لینے مجھے گھر سے بیاباں نکلا " koii-ummiid-bar-nahiin-aatii-mirza-ghalib-ghazals," کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں ورنہ کیا بات کر نہیں آتی کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں میری آواز گر نہیں آتی داغ دل گر نظر نہیں آتا بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی موت آتی ہے پر نہیں آتی کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ شرم تم کو مگر نہیں آتی " aamad-e-khat-se-huaa-hai-sard-jo-baazaar-e-dost-mirza-ghalib-ghazals," آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازار دوست دود شمع کشتہ تھا شاید خط رخسار دوست اے دل ناعاقبت اندیش ضبط شوق کر کون لا سکتا ہے تاب جلوۂ دیدار دوست خانہ ویراں سازی حیرت تماشا کیجیے صورت نقش قدم ہوں رفتۂ رفتار دوست عشق میں بیداد رشک غیر نے مارا مجھے کشتۂ دشمن ہوں آخر گرچہ تھا بیمار دوست چشم ما روشن کہ اس بے درد کا دل شاد ہے دیدۂ پر خوں ہمارا ساغر سرشار دوست غیر یوں کرتا ہے میری پرسش اس کے ہجر میں بے تکلف دوست ہو جیسے کوئی غم خوار دوست تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک مجھ کو دیتا ہے پیام وعدۂ دیدار دوست جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۂ ضعف دماغ سر کرے ہے وہ حدیث زلف عنبر بار دوست چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر ہنس کے کرتا ہے بیان شوخی گفتار دوست مہربانی ہائے دشمن کی شکایت کیجیے تا بیاں کیجے سپاس لذت آزار دوست یہ غزل اپنی مجھے جی سے پسند آتی ہے آپ ہے ردیف شعر میں غالبؔ ز بس تکرار دوست چشم بند خلق جز تمثال خود بینی نہیں آئنہ ہے قالب خشت در و دیوار دوست برق خرمن زار گوہر ہے نگاہ تیز یاں اشک ہو جاتے ہیں خشک از گرمیٔ رفتار دوست ہے سوا نیزے پہ اس کے قامت نوخیز سے آفتاب صبح محشر ہے گل دستار دوست اے عدوئے مصلحت چند بہ ضبط افسردہ رہ کردنی ہے جمع تاب شوق دیدار دوست لغزشت مستانہ و جوش تماشا ہے اسدؔ آتش مے سے بہار گرمیٔ بازار دوست " khatar-hai-rishta-e-ulfat-rag-e-gardan-na-ho-jaave-mirza-ghalib-ghazals," خطر ہے رشتۂ الفت رگ گردن نہ ہو جاوے غرور دوستی آفت ہے تو دشمن نہ ہو جاوے سمجھ اس فصل میں کوتاہی نشو و نما غالبؔ اگر گل سرو کے قامت پہ پیراہن نہ ہو جاوے " vo-mirii-chiin-e-jabiin-se-gam-e-pinhaan-samjhaa-mirza-ghalib-ghazals," وہ مری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا راز مکتوب بہ بے ربطی عنواں سمجھا یک الف بیش نہیں صیقل آئینہ ہنوز چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا شرح اسباب گرفتاری خاطر مت پوچھ اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا بد گمانی نے نہ چاہا اسے سرگرم خرام رخ پہ ہر قطرہ عرق دیدۂ حیراں سمجھا عجز سے اپنے یہ جانا کہ وہ بد خو ہوگا نبض خس سے تپش شعلۂ سوزاں سمجھا سفر عشق میں کی ضعف نے راحت طلبی ہر قدم سائے کو میں اپنے شبستاں سمجھا تھا گریزاں مژۂ یار سے دل تا دم مرگ دفع پیکان قضا اس قدر آساں سمجھا دل دیا جان کے کیوں اس کو وفادار اسدؔ غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا ہم نے وحشت کدۂ بزم جہاں میں جوں شمع شعلۂ عشق کو اپنا سر و ساماں سمجھا " kii-vafaa-ham-se-to-gair-is-ko-jafaa-kahte-hain-mirza-ghalib-ghazals," کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں آج ہم اپنی پریشانی خاطر ان سے کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں دل میں آ جاے ہے ہوتی ہے جو فرصت غش سے اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے خار رہ کو ترے ہم مہر گیا کہتے ہیں اک شرر دل میں ہے اس سے کوئی گھبرائے گا کیا آگ مطلوب ہے ہم کو جو ہوا کہتے ہیں دیکھیے لاتی ہے اس شوخ کی نخوت کیا رنگ اس کی ہر بات پہ ہم نام خدا کہتے ہیں وحشتؔ و شیفتہؔ اب مرثیہ کہویں شاید مر گیا غالبؔ آشفتہ نوا کہتے ہیں " siimaab-pusht-garmi-e-aaiina-de-hai-ham-mirza-ghalib-ghazals," سیماب پشت گرمی آئینہ دے ہے ہم حیراں کیے ہوئے ہیں دل بے قرار کے آغوش گل کشودہ براۓ وداع ہے اے عندلیب چل کہ چلے دن بہار کے یوں بعد ضبط اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے بعد از وداع یار بہ خوں در تپیدہ ہیں نقش قدم ہیں ہم کف پاۓ نگار کے ہم مشق فکر وصل و غم ہجر سے اسدؔ لائق نہیں رہے ہیں غم روزگار کے " sad-jalva-ruu-ba-ruu-hai-jo-mizhgaan-uthaaiye-mirza-ghalib-ghazals," صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے ہے سنگ پر برات معاش جنون عشق یعنی ہنوز منت طفلاں اٹھائیے دیوار بار منت مزدر سے ہے خم اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے یا میرے زخم رشک کو رسوا نہ کیجیے یا پردۂ تبسم پنہاں اٹھائیے ہستی فریب نامۂ موج سراب ہے یک عمر ناز شوخی عنواں اٹھائیے " dost-gam-khvaarii-men-merii-saii-farmaavenge-kyaa-mirza-ghalib-ghazals," دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا زخم کے بھرتے تلک ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرماویں گے کیا حضرت ناصح گر آویں دیدہ و دل فرش راہ کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھاویں گے کیا آج واں تیغ و کفن باندھے ہوے جاتا ہوں میں عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لاویں گے کیا گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا خانہ زاد زلف ہیں زنجیر سے بھاگیں گے کیوں ہیں گرفتار وفا زنداں سے گھبراویں گے کیا ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسدؔ ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں کھاویں گے کیا " arz-e-niyaaz-e-ishq-ke-qaabil-nahiin-rahaa-mirza-ghalib-ghazals," عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا جاتا ہوں داغ حسرت ہستی لیے ہوئے ہوں شمع کشتہ در خور محفل نہیں رہا مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں شایان دست و بازوئے قاتل نہیں رہا برروئے شش جہت در آئینہ باز ہے یاں امتیاز ناقص و کامل نہیں رہا وا کر دیے ہیں شوق نے بند نقاب حسن غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا دل سے ہوائے کشت وفا مٹ گئی کہ واں حاصل سوائے حسرت حاصل نہیں رہا بیداد عشق سے نہیں ڈرتا مگر اسدؔ جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا ہر چند میں ہوں طوطی شیریں سخن ولے آئینہ آہ میرے مقابل نہیں رہا جاں داد گاں کا حوصلہ فرصت گداز ہے یاں عرصۂ طپیدن بسمل نہیں رہا ہوں قطرہ زن بہ وادیٔ حسرت شبانہ روز جز تار اشک جادۂ منزل نہیں رہا اے آہ میری خاطر وابستہ کے سوا دنیا میں کوئی عقدۂ مشکل نہیں رہا انداز نالہ یاد ہیں سب مجھ کو پر اسدؔ جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا " bazm-e-shaahanshaah-men-ashaar-kaa-daftar-khulaa-mirza-ghalib-ghazals," بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا رکھیو یا رب یہ در گنجینۂ گوہر کھلا شب ہوئی پھر انجم رخشندہ کا منظر کھلا اس تکلف سے کہ گویا بت کدے کا در کھلا گرچہ ہوں دیوانہ پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب آستیں میں دشنہ پنہاں ہاتھ میں نشتر کھلا گو نہ سمجھوں اس کی باتیں گو نہ پاؤں اس کا بھید پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا ہے خیال حسن میں حسن عمل کا سا خیال خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھلا در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا کیوں اندھیری ہے شب غم ہے بلاؤں کا نزول آج ادھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا کیا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث کا یہ حال نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا اس کی امت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند واسطے جس شہہ کے غالبؔ گنبد بے در کھلا " kyuun-na-ho-chashm-e-butaan-mahv-e-tagaaful-kyuun-na-ho-mirza-ghalib-ghazals," کیوں نہ ہو چشم بتاں محو تغافل کیوں نہ ہو یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے مرتے مرتے دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی وائے ناکامی کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے عارض گل دیکھ روئے یار یاد آیا اسدؔ جوشش فصل بہاری اشتیاق انگیز ہے " jis-zakhm-kii-ho-saktii-ho-tadbiir-rafuu-kii-mirza-ghalib-ghazals," جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی اچھا ہے سر انگشت حنائی کا تصور دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی کیوں ڈرتے ہو عشاق کی بے حوصلگی سے یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی دشنے نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی صد حیف وہ ناکام کہ اک عمر سے غالبؔ حسرت میں رہے ایک بت عربدہ جو کی گو زندگی زاہد بے چارہ عبث ہے اتنا ہے کہ رہتی تو ہے تدبیر وضو کی اب بے خبراں میرے لب زخم جگر پر بخیہ جسے کہتے ہو شکایت ہے رفو کی " vaarasta-us-se-hain-ki-mohabbat-hii-kyuun-na-ho-mirza-ghalib-ghazals," وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو کیجے ہمارے ساتھ عداوت ہی کیوں نہ ہو چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا ہے دل پہ بار نقش محبت ہی کیوں نہ ہو ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ ہر چند بر سبیل شکایت ہی کیوں نہ ہو پیدا ہوئی ہے کہتے ہیں ہر درد کی دوا یوں ہو تو چارۂ غم الفت ہی کیوں نہ ہو ڈالا نہ بے کسی نے کسی سے معاملہ اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی کیوں نہ ہو ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو ہنگامۂ زبونی ہمت ہے انفعال حاصل نہ کیجے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو وارستگی بہانۂ بیگانگی نہیں اپنے سے کر نہ غیر سے وحشت ہی کیوں نہ ہو مٹتا ہے فوت فرصت ہستی کا غم کوئی عمر عزیز صرف عبادت ہی کیوں نہ ہو اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسدؔ اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو " mahram-nahiin-hai-tuu-hii-navaa-haa-e-raaz-kaa-mirza-ghalib-ghazals," محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہے یہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز میں اور دکھ تری مژہ ہائے دراز کا صرفہ ہے ضبط آہ میں میرا وگرنہ میں طعمہ ہوں ایک ہی نفس جاں گداز کا ہیں بسکہ جوش بادہ سے شیشے اچھل رہے ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز ناخن پہ قرض اس گرہ نیم باز کا تاراج کاوش غم ہجراں ہوا اسدؔ سینہ کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا " aah-ko-chaahiye-ik-umr-asar-hote-tak-mirza-ghalib-ghazals," آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک تا قیامت شب فرقت میں گزر جائے گی عمر سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہوتے تک ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل گرمیٔ بزم ہے اک رقص شرر ہوتے تک غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک " bisaat-e-ijz-men-thaa-ek-dil-yak-qatra-khuun-vo-bhii-mirza-ghalib-ghazals," بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی سو رہتا ہے بہ انداز چکیدن سرنگوں وہ بھی رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلف سے تکلف بر طرف تھا ایک انداز جنوں وہ بھی خیال مرگ کب تسکیں دل آزردہ کو بخشے مرے دام تمنا میں ہے اک صید زبوں وہ بھی نہ کرتا کاش نالہ مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم کہ ہوگا باعث افزائش درد دروں وہ بھی نہ اتنا برش تیغ جفا پر ناز فرماؤ مرے دریائے بے تابی میں ہے اک موج خوں وہ بھی مئے عشرت کی خواہش ساقی گردوں سے کیا کیجے لیے بیٹھا ہے اک دو چار جام واژ گوں وہ بھی مرے دل میں ہے غالبؔ شوق وصل و شکوۂ ہجراں خدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں وہ بھی مجھے معلوم ہے جو تو نے میرے حق میں سوچا ہے کہیں ہو جائے جلد اے گردش گردون دوں وہ بھی نظر راحت پہ میری کر نہ وعدہ شب کے آنے کا کہ میری خواب بندی کے لیے ہوگا فسوں وہ بھی " az-mehr-taa-ba-zarra-dil-o-dil-hai-aaina-mirza-ghalib-ghazals," از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئنہ طوطی کو شش جہت سے مقابل ہے آئنہ حیرت ہجوم لذت غلطانیٔ تپش سیماب بالش و کمر دل ہے آئنہ غفلت بہ بال جوہر شمشیر پرفشاں یاں پشت چشم شوخیٔ قاتل ہے آئنہ حیرت نگاہ برق تماشا بہار شوخ در پردۂ ہوا پر بسمل ہے آئنہ یاں رہ گئے ہیں ناخن تدبیر ٹوٹ کر جوہر طلسم عقدۂ مشکل ہے آئنہ ہم زانوئے تأمل و ہم جلوہ گاہ گل آئینہ بند خلوت و محفل ہے آئنہ دل کار گاہ فکر و اسدؔ بے نوائے دل یاں سنگ آستانۂ بیدلؔ ہے آئنہ " tere-tausan-ko-sabaa-baandhte-hain-mirza-ghalib-ghazals," تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں ہم بھی مضموں کی ہوا باندھتے ہیں آہ کا کس نے اثر دیکھا ہے ہم بھی ایک اپنی ہوا باندھتے ہیں تیری فرصت کے مقابل اے عمر برق کو پابہ حنا باندھتے ہیں قید ہستی سے رہائی معلوم اشک کو بے سر و پا باندھتے ہیں نشۂ رنگ سے ہے واشد گل مست کب بند قبا باندھتے ہیں غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں اہل تدبیر کی واماندگیاں آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں سادہ پرکار ہیں خوباں غالبؔ ہم سے پیمان وفا باندھتے ہیں پاؤں میں جب وہ حنا باندھتے ہیں میرے ہاتھوں کو جدا باندھتے ہیں حسن افسردہ دل ہا رنگیں شوق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں قید میں بھی ہے اسیری آزاد چشم زنجیر کو وا باندھتے ہیں شیخ جی کعبے کا جانا معلوم آپ مسجد میں گدھا باندھتے ہیں کس کا دل زلف سے بھاگا کہ اسدؔ دست شانہ بہ قضا باندھتے ہیں تیرے بیمار پہ ہیں فریادی وہ جو کاغذ میں دوا باندھتے ہیں " hai-sabza-zaar-har-dar-o-diivaar-e-gam-kada-mirza-ghalib-ghazals," ہے سبزہ زار ہر در و دیوار غم کدہ جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ ناچار بیکسی کی بھی حسرت اٹھائیے دشواریٔ رہ و ستم ہم رہاں نہ پوچھ جز دل سراغ درد بہ دل خفتگاں نہ پوچھ آئینہ عرض کر خط و خال بیاں نہ پوچھ ہندوستان سایۂ گل پاۓ تخت تھا جاہ و جلال عہد وصال بتاں نہ پوچھ غفلت متاع کفۂ میزان عدل ہوں یا رب حساب سختیٔ خواب گراں نہ پوچھ ہر داغ تازہ یک دل داغ انتظار ہے عرض فضاۓ سینۂ درد امتحاں نہ پوچھ کہتا تھا کل وہ محرم راز اپنے سے کہ آہ درد جدائی اسدؔ اللہ خاں نہ پوچھ پرواز یک تپ غم تسخیر نالہ ہے گرمیٔ نبض خار و خس آشیاں نہ پوچھ تو مشق باز کر دل پروانہ ہے بہار بیتابیٔ تجلیٔ آتش بجاں نہ پوچھ " nahiin-ki-mujh-ko-qayaamat-kaa-e-tiqaad-nahiin-mirza-ghalib-ghazals," نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں شب فراق سے روز جزا زیاد نہیں کوئی کہے کہ شب مہ میں کیا برائی ہے بلا سے آج اگر دن کو ابر و باد نہیں جو آؤں سامنے ان کے تو مرحبا نہ کہیں جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیرباد نہیں کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں تو کہتے ہیں کہ آج بزم میں کچھ فتنہ و فساد نہیں علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب گدائے کوچۂ مے خانہ نا مراد نہیں جہاں میں ہو غم شادی بہم ہمیں کیا کام دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کی شاد نہیں تم ان کے وعدہ کا ذکر ان سے کیوں کرو غالبؔ یہ کیا کہ تم کہو اور وہ کہیں کہ یاد نہیں " safaa-e-hairat-e-aaiina-hai-saamaan-e-zang-aakhir-mirza-ghalib-ghazals," صفاۓ حیرت آئینہ ہے سامان زنگ آخر تغیر آب بر جا ماندہ کا پاتا ہے رنگ آخر نہ کی سامان عیش و جاہ نے تدبیر وحشت کی ہوا جام زمرد بھی مجھے داغ پلنگ آخر خط نوخیز نیل چشم زخم صافیٔ عارض لیا آئینہ نے حرز پر طوطی بچنگ آخر ہلال آسا تہی رہ گر کشادن ہائے دل چاہے ہوا مہ کثرت سرمایہ اندوزی سے تنگ آخر تڑپ کر مر گیا وہ صید بال افشاں کہ مضطر تھا ہوا ناسور چشم تعزیت چشم خدنگ آخر لکھی یاروں کی بد مستی نے میخانے کی پامالی ہوئی قطرہ فشانی ہائے مے باران سنگ آخر اسدؔ پردے میں بھی آہنگ شوق یار قائم ہے نہیں ہے نغمے سے خالی خمیدن ہائے چنگ آخر " naved-e-amn-hai-bedaad-e-dost-jaan-ke-liye-mirza-ghalib-ghazals," نوید امن ہے بیداد دوست جاں کے لیے رہی نہ طرز ستم کوئی آسماں کے لیے بلا سے گر مژۂ یار تشنۂ خوں ہے رکھوں کچھ اپنی بھی مژگان خوں فشاں کے لیے وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لیے رہا بلا میں بھی میں مبتلائے آفت رشک بلائے جاں ہے ادا تیری اک جہاں کے لیے فلک نہ دور رکھ اس سے مجھے کہ میں ہی نہیں دراز دستی قاتل کے امتحاں کے لیے مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئی اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے بہ قدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے نصیر دولت و دیں اور معین ملت و ملک بنا ہے چرخ بریں جس کے آستاں کے لیے زمانہ عہد میں اس کے ہے محو آرایش بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے " barshikaal-e-girya-e-aashiq-hai-dekhaa-chaahiye-mirza-ghalib-ghazals," برشکال گریۂ عاشق ہے دیکھا چاہیے کھل گئی مانند گل سو جا سے دیوار چمن الفت گل سے غلط ہے دعوی وارستگی سرو ہے با وصف آزادی گرفتار چمن صاف ہے از بسکہ عکس گل سے گلزار چمن جانشین جوہر آئینہ ہے خار چمن ہے نزاکت بس کہ فصل گل میں معمار چمن قالب گل میں ڈھلی ہے خشت دیوار چمن تیری آرائش کا استقبال کرتی ہے بہار جوہر آئینہ ہے یاں نقش احضار چمن بس کہ پائی یار کی رنگیں ادائی سے شکست ہے کلاہ ناز گل بر طاق دیوار چمن وقت ہے گر بلبل مسکیں زلیخائی کرے یوسف گل جلوہ فرما ہے بہ بازار چمن وحشت افزا گریہ ہا موقوف فصل گل اسدؔ چشم دریا ریز ہے میزاب سرکار چمن " zulmat-kade-men-mere-shab-e-gam-kaa-josh-hai-mirza-ghalib-ghazals," ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے اک شمع ہے دلیل سحر سو خموش ہے نے مژدۂ وصال نہ نظارہ جمال مدت ہوئی کہ آشتی چشم و گوش ہے مے نے کیا ہے حسن خود آرا کو بے حجاب اے شوق! ہاں اجازت تسلیم ہوش ہے گوہر کو عقد گردن خوباں میں دیکھنا کیا اوج پر ستارۂ گوہر فروش ہے دیدار بادہ حوصلہ ساقی نگاہ مست بزم خیال مے کدۂ بے خروش ہے اے تازہ واردان بساط ہوائے دل زنہار اگر تمہیں ہوس نائے و نوش ہے دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے ساقی بہ جلوہ دشمن ایمان و آگہی مطرب بہ نغمہ رہزن تمکین و ہوش ہے یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط دامان باغبان و کف گل فروش ہے لطف خرام ساقی و ذوق صدائے چنگ یہ جنت نگاہ وہ فردوس گوش ہے یا صبح دم جو دیکھیے آ کر تو بزم میں نے وہ سرور و سوز نہ جوش و خروش ہے داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے " husn-e-be-parvaa-khariidaar-e-mataa-e-jalva-hai-mirza-ghalib-ghazals," حسن بے پروا خریدار متاع جلوہ ہے آئنہ زانوئے فکر اختراع جلوہ ہے تا کجا اے آگہی رنگ تماشا باختن چشم وا گردیدہ آغوش وداع جلوہ ہے " kab-vo-suntaa-hai-kahaanii-merii-mirza-ghalib-ghazals," کب وہ سنتا ہے کہانی میری اور پھر وہ بھی زبانی میری خلش غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ دیکھ خونابہ فشانی میری کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار مگر آشفتہ بیانی میری ہوں زخود رفتۂ بیدائے خیال بھول جانا ہے نشانی میری متقابل ہے مقابل میرا رک گیا دیکھ روانی میری قدر سنگ سر رہ رکھتا ہوں سخت ارزاں ہے گرانی میری گرد باد رہ بیتابی ہوں صرصر شوق ہے بانی میری دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا کھل گئی ہیچ مدانی میری کر دیا ضعف نے عاجز غالبؔ ننگ پیری ہے جوانی میری " na-huii-gar-mire-marne-se-tasallii-na-sahii-mirza-ghalib-ghazals," نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی خار خار الم حسرت دیدار تو ہے شوق گلچین گلستان تسلی نہ سہی مے پرستاں خم مے منہ سے لگائے ہی بنے ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی نہ سہی نفس قیس کہ ہے چشم و چراغ صحرا گر نہیں شمع سیہ خانۂ لیلی نہ سہی ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی عشرت صحبت خوباں ہی غنیمت سمجھو نہ ہوئی غالبؔ اگر عمر طبیعی نہ سہی " yak-zarra-e-zamiin-nahiin-be-kaar-baag-kaa-mirza-ghalib-ghazals," یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا بے مے کسے ہے طاقت آشوب آگہی کھینچا ہے عجز حوصلہ نے خط ایاغ کا بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا تازہ نہیں ہے نشۂ فکر سخن مجھے تریاکی قدیم ہوں دود چراغ کا سو بار بند عشق سے آزاد ہم ہوئے پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا بے خون دل ہے چشم میں موج نگہ غبار یہ مے کدہ خراب ہے مے کے سراغ کا باغ شگفتہ تیرا بساط نشاط دل ابر بہار خم کدہ کس کے دماغ کا؟ جوش بہار کلفت نظارہ ہے اسدؔ ہے ابر پنبہ روزن دیوار باغ کا " mujh-ko-dayaar-e-gair-men-maaraa-vatan-se-duur-mirza-ghalib-ghazals," مجھ کو دیار غیر میں مارا وطن سے دور رکھ لی مرے خدا نے مری بیکسی کی شرم وہ حلقہ ‌ہاۓ زلف کمیں میں ہیں یا خدا رکھ لیجو میرے دعوی وارستگی کی شرم " dil-se-tirii-nigaah-jigar-tak-utar-gaii-mirza-ghalib-ghazals," دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذت فراغ تکلیف پردہ داری زخم جگر گئی وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں اٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں بارے اب اے ہوا ہوس بال و پر گئی دیکھو تو دل فریبی انداز نقش پا موج خرام یار بھی کیا گل کتر گئی ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی نظارہ نے بھی کام کیا واں نقاب کا مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی فردا و دی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی مارا زمانہ نے اسداللہ خاں تمہیں وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی " huii-taakhiir-to-kuchh-baais-e-taakhiir-bhii-thaa-mirza-ghalib-ghazals," ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ اس میں کچھ شائبۂ خوبی تقدیر بھی تھا تو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتلا دوں کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا قید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد ہاں کچھ اک رنج گراں باری زنجیر بھی تھا بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا بات کرتے کہ میں لب تشنۂ تقریر بھی تھا یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی گر بگڑ بیٹھے تو میں لائق تعزیر بھی تھا دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلیجا ٹھنڈا نالہ کرتا تھا ولے طالب تاثیر بھی تھا پیشہ میں عیب نہیں رکھیے نہ فرہاد کو نام ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا ہم تھے مرنے کو کھڑے پاس نہ آیا نہ سہی آخر اس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا " bahut-sahii-gam-e-giitii-sharaab-kam-kyaa-hai-mirza-ghalib-ghazals," بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے غلام ساقیٔ کوثر ہوں مجھ کو غم کیا ہے تمہاری طرز و روش جانتے ہیں ہم کیا ہے رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے سخن میں خامۂ غالبؔ کی آتش افشانی یقیں ہے ہم کو بھی لیکن اب اس میں دم کیا ہے کٹے تو شب کہیں کاٹے تو سانپ کہلاوے کوئی بتاؤ کہ وہ زلف خم بہ خم کیا ہے لکھا کرے کوئی احکام طالع مولود کسے خبر ہے کہ واں جنبش قلم کیا ہے نہ حشر و نشر کا قائل نہ کیش و ملت کا خدا کے واسطے ایسے کی پھر قسم کیا ہے وہ داد و دید گراں مایہ شرط ہے ہم دم وگرنہ مہر سلیمان و جام جم کیا ہے " hai-kis-qadar-halaak-e-fareb-e-vafaa-e-gul-mirza-ghalib-ghazals," ہے کس قدر ہلاک فریب وفائے گل بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل آزادی نسیم مبارک کہ ہر طرف ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دام ہوائے گل جو تھا سو موج رنگ کے دھوکے میں مر گیا اے واے نالۂ لب خونیں نوائے گل خوش حال اس حریف سیہ مست کا کہ جو رکھتا ہو مثل سایۂ گل سر بہ پائے گل ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار میرا رقیب ہے نفس عطر سائے گل شرمندہ رکھتے ہیں مجھے باد بہار سے مینائے بے شراب و دل بے ہوائے گل سطوت سے تیرے جلوۂ حسن غیور کی خوں ہے مری نگاہ میں رنگ ادائے گل تیرے ہی جلوہ کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک بے اختیار دوڑے ہے گل در قفائے گل غالبؔ مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو جس کا خیال ہے گل جیب قبائے گل دیوانگاں کا چارہ فروغ بہار ہے ہے شاخ گل میں پنجۂ خوباں بجائے گل مژگاں تلک رسائی لخت جگر کہاں اے وائے گر نگاہ نہ ہو آشنائے گل " ishrat-e-qatra-hai-dariyaa-men-fanaa-ho-jaanaa-mirza-ghalib-ghazals," عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا دل ہوا کشمکش چارۂ زحمت میں تمام مٹ گیا گھسنے میں اس عقدے کا وا ہو جانا اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ اس قدر دشمن ارباب وفا ہو جانا ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا دل سے مٹنا تری انگشت حنائی کا خیال ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا ہے مجھے ابر بہاری کا برس کر کھلنا روتے روتے غم فرقت میں فنا ہو جانا گر نہیں نکہت گل کو ترے کوچے کی ہوس کیوں ہے گرد رہ جولان صبا ہو جانا بخشے ہے جلوۂ گل ذوق تماشا غالبؔ چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا تا کہ تجھ پر کھلے اعجاز ہوائے صیقل دیکھ برسات میں سبز آئنے کا ہو جانا " tapish-se-merii-vaqf-e-kashmakash-har-taar-e-bistar-hai-mirza-ghalib-ghazals," تپش سے میری وقف کشمکش ہر تار بستر ہے مرا سر رنج بالیں ہے مرا تن بار بستر ہے سرشک سر بہ صحرا دادہ نور العین دامن ہے دل بے دست و پا افتادہ بر خوردار بستر ہے خوشا اقبال رنجوری عیادت کو تم آئے ہو فروغ شمع بالیں طالع بیدار بستر ہے بہ طوفاں گاہ جوش اضطراب شام تنہائی شعاع آفتاب صبح محشر تار بستر ہے ابھی آتی ہے بو بالش سے اس کی زلف مشکیں کی ہماری دید کو خواب زلیخا عار بستر ہے کہوں کیا دل کی کیا حالت ہے ہجر یار میں غالب کہ بیتابی سے ہر یک تار بستر خار بستر ہے " gam-e-duniyaa-se-gar-paaii-bhii-fursat-sar-uthaane-kii-mirza-ghalib-ghazals," غم دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی کھلے گا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یارب قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغذ کے جلانے کی لپٹنا پرنیاں میں شعلۂ آتش کا پنہاں ہے ولے مشکل ہے حکمت دل میں سوز غم چھپانے کی انہیں منظور اپنے زخمیوں کا دیکھ آنا تھا اٹھے تھے سیر گل کو دیکھنا شوخی بہانے کی ہماری سادگی تھی التفات ناز پر مرنا ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی لکد کوب حوادث کا تحمل کر نہیں سکتی مری طاقت کہ ضامن تھی بتوں کی ناز اٹھانے کی کہوں کیا خوبی اوضاع ابنائے زماں غالبؔ بدی کی اس نے جس سے ہم نے کی تھی بارہا نیکی " diyaa-hai-dil-agar-us-ko-bashar-hai-kyaa-kahiye-mirza-ghalib-ghazals," دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہئے ہوا رقیب تو ہو نامہ بر ہے کیا کہئے یہ ضد کہ آج نہ آوے اور آئے بن نہ رہے قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے کیا کہئے رہے ہے یوں گہہ و بے گہہ کہ کوئے دوست کو اب اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے کیا کہئے زہے کرشمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو فریب کہ بن کہے ہی انہیں سب خبر ہے کیا کہئے سمجھ کے کرتے ہیں بازار میں وہ پرسش حال کہ یہ کہے کہ سر رہ گزر ہے کیا کہئے تمہیں نہیں ہے سر رشتۂ وفا کا خیال ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے مگر ہے کیا کہئے انہیں سوال پہ زعم جنوں ہے کیوں لڑیے ہمیں جواب سے قطع نظر ہے کیا کہئے حسد سزائے کمال سخن ہے کیا کیجیے ستم بہائے متاع ہنر ہے کیا کہئے کہا ہے کس نے کہ غالبؔ برا نہیں لیکن سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے کیا کہئے " aamad-e-sailaab-e-tuufaan-e-sadaa-e-aab-hai-mirza-ghalib-ghazals," آمد سیلاب طوفان صداۓ آب ہے نقش پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے بزم مے وحشت کدہ ہے کس کی چشم مست کا شیشے میں نبض پری پنہاں ہے موج بادہ سے دیکھتا ہوں وحشت شوق خروش آمادہ سے فال رسوائی سرشک سر بہ صحرا دادہ سے دام گر سبزے میں پنہاں کیجیے طاؤس ہو جوش نیرنگ بہار عرض صحرا دادہ سے خیمۂ لیلےٰ سیاہ و خانۂ مجنوں خراب جوش ویرانی ہے عشق داغ بیروں دادہ سے بزم ہستی وہ تماشا ہے کہ جس کو ہم اسدؔ دیکھتے ہیں چشم از خواب عدم نکشادہ سے " kahte-to-ho-tum-sab-ki-but-e-gaaliyaa-muu-aae-mirza-ghalib-ghazals," کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ مو آئے یک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی کہ وہ آئے ہوں کشمکش نزع میں ہاں جذب محبت کچھ کہہ نہ سکوں پر وہ مرے پوچھنے کو آئے ہے صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم آنا ہی سمجھ میں مری آتا نہیں گو آئے ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے نکیرین ہاں منہ سے مگر بادۂ دوشینہ کی بو آئے جلاد سے ڈرتے ہیں نہ واعظ سے جھگڑتے ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے جس بھیس میں جو آئے ہاں اہل طلب کون سنے طعنۂ نایافت دیکھا کہ وہ ملتا نہیں اپنے ہی کو کھو آئے اپنا نہیں یہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں اس در پہ نہیں بار تو کعبہ ہی کو ہو آئے کی ہم نفسوں نے اثر گریہ میں تقریر اچھے رہے آپ اس سے مگر مجھ کو ڈبو آئے اس انجمن ناز کی کیا بات ہے غالبؔ ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے " vo-firaaq-aur-vo-visaal-kahaan-mirza-ghalib-ghazals," وہ فراق اور وہ وصال کہاں وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں فرصت کاروبار شوق کسے ذوق نظارۂ جمال کہاں دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا شور سودائے خط و خال کہاں تھی وہ اک شخص کے تصور سے اب وہ رعنائی خیال کہاں ایسا آساں نہیں لہو رونا دل میں طاقت جگر میں حال کہاں ہم سے چھوٹا قمار خانۂ عشق واں جو جاویں گرہ میں مال کہاں فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں میں کہاں اور یہ وبال کہاں مضمحل ہو گئے قویٰ غالب وہ عناصر میں اعتدال کہاں بوسہ میں وہ مضائقہ نہ کرے پر مجھے طاقت سوال کہاں فلک سفلہ بے محابا ہے اس ستمگر کو انفعال کہاں " rukh-e-nigaar-se-hai-soz-e-jaavidaani-e-shama-mirza-ghalib-ghazals," رخ نگار سے ہے سوز جاودانی شمع ہوئی ہے آتش گل آب زندگانی شمع زبان اہل زباں میں ہے مرگ خاموشی یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانی شمع کرے ہے صرف بہ ایماۓ شعلہ قصہ تمام بہ طرز اہل فنا ہے فسانہ خوانی شمع غم اس کو حسرت پروانہ کا ہے اے شعلے ترے لرزنے سے ظاہر ہے نا توانی شمع ترے خیال سے روح اہتزاز کرتی ہے بہ جلوہ ریزی باد و بہ پر فشانی شمع نشاط داغ غم عشق کی بہار نہ پوچھ شگفتگی ہے شہید گل خزانی شمع جلے ہے دیکھ کے بالین یار پر مجھ کو نہ کیوں ہو دل پہ مرے داغ بد گمانی شمع " balaa-se-hain-jo-ye-pesh-e-nazar-dar-o-diivaar-mirza-ghalib-ghazals," بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر در و دیوار نگاہ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار وفور اشک نے کاشانے کا کیا یہ رنگ کہ ہو گئے مرے دیوار و در در و دیوار نہیں ہے سایہ کہ سن کر نوید مقدم یار گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار ہوئی ہے کس قدر ارزانی مۓ جلوہ کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر در و دیوار جو ہے تجھے سر سوداۓ انتظار تو آ کہ ہیں دکان متاع نظر در و دیوار ہجوم گریہ کا سامان کب کیا میں نے کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار وہ آ رہا مرے ہم سایے میں تو سائے سے ہوئے فدا در و دیوار پر در و دیوار نظر میں کھٹکے ہے بن تیرے گھر کی آبادی ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار نہ پوچھ بے خودی عیش مقدم سیلاب کہ ناچتے ہیں پڑے سر بہ سر در و دیوار نہ کہہ کسی سے کہ غالبؔ نہیں زمانے میں حریف راز محبت مگر در و دیوار " hai-aarmiidagii-men-nikohish-bajaa-mujhe-mirza-ghalib-ghazals," ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے صبح وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے ڈھونڈے ہے اس مغنی آتش نفس کو جی جس کی صدا ہو جلوۂ برق فنا مجھے مستانہ طے کروں ہوں رہ وادی خیال تا باز گشت سے نہ رہے مدعا مجھے کرتا ہے بسکہ باغ میں تو بے حجابیاں آنے لگی ہے نکہت گل سے حیا مجھے کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے واں رنگ ‌ہا بہ پردۂ تدبیر ہیں ہنوز یاں شعلۂ چراغ ہے برگ حنا مجھے پرواز‌ ہا نیاز تماشائے حسن دوست بال کشادہ ہے نگۂ آشنا مجھے از خود گزشتگی میں خموشی پہ حرف ہے موج غبار سرمہ ہوئی ہے صدا مجھے تا چند پست فطرتیٔ طبع آرزو یا رب ملے بلندیٔ دست دعا مجھے میں نے جنوں سے کی جو اسدؔ التماس رنگ خون جگر میں ایک ہی غوطہ دیا مجھے ہے پیچ تاب رشتۂ شمع سحر گہی خجلت گدازیٔ نفس نارسا مجھے یاں آب و دانہ موسم گل میں حرام ہے زنار واگسستہ ہے موج صبا مجھے یکبار امتحان ہوس بھی ضرور ہے اے جوش عشق بادۂ مرد آزما مجھے " husn-gamze-kii-kashaakash-se-chhutaa-mere-baad-mirza-ghalib-ghazals," حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد بارے آرام سے ہیں اہل جفا میرے بعد منصب شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا ہوئی معزولی انداز و ادا میرے بعد شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد خوں ہے دل خاک میں احوال بتاں پر یعنی ان کے ناخن ہوئے محتاج حنا میرے بعد در خور عرض نہیں جوہر بیداد کو جا نگہ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد ہے جنوں اہل جنوں کے لیے آغوش وداع چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی کہ کرے تعزیت مہر و وفا میرے بعد آئے ہے بیکسی عشق پہ رونا غالبؔ کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد تھی نگہ میری نہاں خانۂ دل کی نقاب بے خطر جیتے ہیں ارباب ریا میرے بعد تھا میں گلدستۂ احباب کی بندش کی گیاہ متفرق ہوئے میرے رفقا میرے بعد " dekhnaa-qismat-ki-aap-apne-pe-rashk-aa-jaae-hai-mirza-ghalib-ghazals," دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے میں اسے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشے میں ہے آبگینہ تندی صہبا سے پگھلا جائے ہے غیر کو یا رب وہ کیونکر منع گستاخی کرے گر حیا بھی اس کو آتی ہے تو شرما جائے ہے شوق کو یہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائیے دل کی وہ حالت کہ دم لینے سے گھبرا جائے ہے دور چشم بد تری بزم طرب سے واہ واہ نغمہ ہو جاتا ہے واں گر نالہ میرا جائے ہے گرچہ ہے طرز تغافل پردہ دار راز عشق پر ہم ایسے کھوے جاتے ہیں کہ وہ پا جائے ہے اس کی بزم آرائیاں سن کر دل رنجور یاں مثل نقش مدعائے غیر بیٹھا جائے ہے ہو کے عاشق وہ پری رخ اور نازک بن گیا رنگ کھلتا جاے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہے نقش کو اس کے مصور پر بھی کیا کیا ناز ہیں کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے سایہ میرا مجھ سے مثل دود بھاگے ہے اسدؔ پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے " guncha-e-naa-shagufta-ko-duur-se-mat-dikhaa-ki-yuun-mirza-ghalib-ghazals," غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں بوسہ کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا کہ یوں پرسش طرز دلبری کیجیے کیا کہ بن کہے اس کے ہر ایک اشارہ سے نکلے ہے یہ ادا کہ یوں رات کے وقت مے پیے ساتھ رقیب کو لیے آئے وہ یاں خدا کرے پر نہ کرے خدا کہ یوں غیر سے رات کیا بنی یہ جو کہا تو دیکھیے سامنے آن بیٹھنا اور یہ دیکھنا کہ یوں بزم میں اس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے اس کی تو خامشی میں بھی ہے یہی مدعا کہ یوں میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں مجھ سے کہا جو یار نے جاتے ہیں ہوش کس طرح دیکھ کے میری بے خودی چلنے لگی ہوا کہ یوں کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی آئنہ دار بن گئی حیرت نقش پا کہ یوں گر ترے دل میں ہو خیال وصل میں شوق کا زوال موج محیط آب میں مارے ہے دست و پا کہ یوں جو یہ کہے کہ ریختہ کیونکے ہو رشک فارسی گفتۂ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں " z-bas-ki-mashq-e-tamaashaa-junuun-alaamat-hai-mirza-ghalib-ghazals," ز بسکہ مشق تماشا جنوں علامت ہے کشاد و بست مژہ سیلی ندامت ہے نہ جانوں کیونکہ مٹے طعن بد عہدی تجھے کہ آئنہ بھی ورطۂ ملامت ہے بہ پیچ و تاب ہوس سلک عافیت مت توڑ نگاہ عجز سر رشتۂ سلامت ہے وفا مقابل و دعواۓ عشق بے بنیاد جنون ساختہ و فصل گل قیامت ہے " ajab-nashaat-se-jallaad-ke-chale-hain-ham-aage-mirza-ghalib-ghazals," عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے کہ اپنے سائے سے سر پانو سے ہے دو قدم آگے قضا نے تھا مجھے چاہا خراب بادۂ الفت فقط خراب لکھا بس نہ چل سکا قلم آگے غم زمانہ نے جھاڑی نشاط عشق کی مستی وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذت الم آگے خدا کے واسطے داد اس جنون شوق کی دینا کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے یہ عمر بھر جو پریشانیاں اٹھائی ہیں ہم نے تمہارے آئیو اے طرہ ہاۓ خم بہ خم آگے دل و جگر میں پرافشاں جو ایک موجۂ خوں ہے ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالبؔ ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے " mat-mardumak-e-diida-men-samjho-ye-nigaahen-mirza-ghalib-ghazals," مت مردمک دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں ہیں جمع سویداۓ دل چشم میں آہیں کس دل پہ ہے عزم صف مژگان خود آرا آئینے کے پایاب سے اتری ہیں سپاہیں دیر و حرم آئینۂ تکرار تمنا واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں جوں مردمک چشم سے ہوں جمع نگاہیں خوابیدہ بہ حیرت کدۂ داغ ہیں آہیں پھر حلقۂ کاکل میں پڑیں دید کی راہیں جوں دود فراہم ہوئیں روزن میں نگاہیں پایا سر ہر ذرہ جگر گوشۂ وحشت ہیں داغ سے معمور شقائق کی کلاہیں یہ مطلع اسدؔ جوہر افسون سخن ہو گر عرض تپاک جگر سوختہ چاہیں حیرت کش یک جلوۂ معنی ہیں نگاہیں کھینچوں ہوں سویداۓ دل چشم سے آہیں " hasad-se-dil-agar-afsurda-hai-garm-e-tamaashaa-ho-mirza-ghalib-ghazals," حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو کہ چشم تنگ شاید کثرت نظارہ سے وا ہو بہ قدر حسرت دل چاہیے ذوق معاصی بھی بھروں یک گوشۂ دامن گر آب ہفت دریا ہو اگر وہ سرو قد گرم خرام ناز آ جاوے کف ہر خاک گلشن شکل قمری نالہ فرسا ہو بہم بالیدن سنگ و گل صحرا یہ چاہے ہے کہ تار جادہ بھی کہسار کو زنار مینا ہو حریف وحشت ناز نسیم عشق جب آؤں کہ مثل غنچہ ساز یک گلستاں دل مہیا ہو بجائے دانہ خرمن یک بیاباں بیضۂ قمری مرا حاصل وہ نسخہ ہے کہ جس سے خاک پیدا ہو کرے کیا ساز بینش وہ شہید درد آگاہی جسے موئے دماغ بے خودی خواب زلیخا ہو دل جوں شمع بہر دعوت نظارہ لایعنی نگہ لبریز اشک و سینہ معمور تمنا ہو نہ دیکھیں روئے یک دل سرد غیر از شمع کافوری خدایا اس قدر بزم اسدؔ گرم تماشا ہو " nukta-chiin-hai-gam-e-dil-us-ko-sunaae-na-bane-mirza-ghalib-ghazals," نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے کھیل سمجھا ہے کہیں چھوڑ نہ دے بھول نہ جائے کاش یوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے اس نزاکت کا برا ہو وہ بھلے ہیں تو کیا ہاتھ آویں تو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے موت کی راہ نہ دیکھوں کہ بن آئے نہ رہے تم کو چاہوں کہ نہ آؤ تو بلائے نہ بنے بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے " ho-gaii-hai-gair-kii-shiiriin-bayaanii-kaargar-mirza-ghalib-ghazals," ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر عشق کا اس کو گماں ہم بے زبانوں پر نہیں ضبط سے مطلب بجز وارستگی دیگر نہیں دامن تمثال آب آئنہ سے تر نہیں باعث ایذا ہے برہم خوردن بزم سرور لخت لخت شیشۂ بشکستہ جز نشتر نہیں دل کو اظہار سخن انداز فتح الباب ہے یاں صریر خامہ غیر از اصطکاک در نہیں " gila-hai-shauq-ko-dil-men-bhii-tangi-e-jaa-kaa-mirza-ghalib-ghazals," گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخ مکتوب مگر ستم زدہ ہوں ذوق خامہ فرسا کا حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی دوام کلفت خاطر ہے عیش دنیا کا غم فراق میں تکلیف سیر باغ نہ دو مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا ہنوز محرمی حسن کو ترستا ہوں کرے ہے ہر بن مو کام چشم بینا کا دل اس کو پہلے ہی ناز و ادا سے دے بیٹھے ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدار حسرت دل ہے مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اس کو یاد اسدؔ جفا میں اس کی ہے انداز کار فرما کا مرا شمول ہر اک دل کے پیچ و تاب میں ہے میں مدعا ہوں تپش نامۂ تمنا کا ملی نہ وسعت جولان یک جنوں ہم کو عدم کو لے گئے دل میں غبار صحرا کا " ghar-jab-banaa-liyaa-tire-dar-par-kahe-bagair-mirza-ghalib-ghazals," گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقت سخن جانوں کسی کے دل کی میں کیونکر کہے بغیر کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم سر جائے یا رہے نہ رہیں پر کہے بغیر چھوڑوں گا میں نہ اس بت کافر کا پوجنا چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر بہرا ہوں میں تو چاہیئے دونا ہو التفات سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر غالبؔ نہ کر حضور میں تو بار بار عرض ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر " kabhii-nekii-bhii-us-ke-jii-men-gar-aa-jaae-hai-mujh-se-mirza-ghalib-ghazals," کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آ جائے ہے مجھ سے جفائیں کر کے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے خدایا جذبۂ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے وہ بد خو اور میری داستان عشق طولانی عبارت مختصر قاصد بھی گھبرا جائے ہے مجھ سے ادھر وہ بد گمانی ہے ادھر یہ ناتوانی ہے نہ پوچھا جائے ہے اس سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے تکلف بر طرف نظارگی میں بھی سہی لیکن وہ دیکھا جائے کب یہ ظلم دیکھا جائے ہے مجھ سے ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے نبرد عشق میں زخمی نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالبؔ وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے " sitam-kash-maslahat-se-huun-ki-khuubaan-tujh-pe-aashiq-hain-mirza-ghalib-ghazals," ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں تکلف بر طرف مل جائے گا تجھ سا رقیب آخر " nashsha-haa-shaadaab-e-rang-o-saaz-haa-mast-e-tarab-mirza-ghalib-ghazals," نشہ ‌ہا شاداب رنگ و ساز ‌ہا مست طرب شیشۂ مے سرو سبز جوئبار نغمہ ہے ہم نشیں مت کہہ کہ برہم کر نہ بزم عیش دوست واں تو میرے نالے کو بھی اعتبار نغمہ ہے " kahuun-jo-haal-to-kahte-ho-muddaaa-kahiye-mirza-ghalib-ghazals," کہوں جو حال تو کہتے ہو مدعا کہیے تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہیے نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ ہم ستم گر ہیں مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو بجا کہیے وہ نیشتر سہی پر دل میں جب اتر جاوے نگاہ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیے نہیں ذریعۂ راحت جراحت پیکاں وہ زخم تیغ ہے جس کو کہ دل کشا کہیے جو مدعی بنے اس کے نہ مدعی بنیے جو ناسزا کہے اس کو نہ ناسزا کہیے کہیں حقیقت جاں کاہیٔ مرض لکھیے کہیں مصیبت ناسازیٔ دوا کہیے کبھی شکایت رنج گراں نشیں کیجے کبھی حکایت صبر گریز پا کہیے رہے نہ جان تو قاتل کو خوں بہا دیجے کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیے نہیں نگار کو الفت نہ ہو نگار تو ہے روانیٔ روش و مستیٔ ادا کہیے نہیں بہار کو فرصت نہ ہو بہار تو ہے طراوت چمن و خوبیٔ ہوا کہیے سفینہ جب کہ کنارے پہ آ لگا غالبؔ خدا سے کیا ستم و جور ناخدا کہیے " hazaaron-khvaahishen-aisii-ki-har-khvaahish-pe-dam-nikle-mirza-ghalib-ghazals," ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے " lab-e-iisaa-kii-jumbish-kartii-hai-gahvaara-jambaanii-mirza-ghalib-ghazals," لب عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی قیامت کشتۂ لعل بتاں کا خواب سنگیں ہے بیابان فنا ہے بعد صحراۓ طلب غالبؔ پسینہ توسن ہمت تو سیل خانۂ زیں ہے " koh-ke-hon-baar-e-khaatir-gar-sadaa-ho-jaaiye-mirza-ghalib-ghazals," کوہ کے ہوں بار خاطر گر صدا ہو جائیے بے تکلف اے شرار جستہ کیا ہو جائیے بیضہ آسا ننگ بال و پر ہے یہ کنج قفس از سر نو زندگی ہو گر رہا ہو جائیے وسعت مشرب نیاز کلفت وحشت اسدؔ یک بیاباں سایۂ بال ہما ہو جائیے یاد رکھیے ناز ہائے التفات اولیں آشیان طائر رنگ حنا ہوجائیے لطف عشق ہریک انداز دگر دکھلائیے گا بے تکلف یک نگاہ آشنا ہوجائیے داداز دست جفائے صدمہ ضرب المثل گر ہمہ افتادگی جوں نقش پا ہوجائیے " dhotaa-huun-jab-main-piine-ko-us-siim-tan-ke-paanv-mirza-ghalib-ghazals," دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پاؤں دی سادگی سے جان پڑوں کوہ کن کے پاؤں ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گئے پیرزن کے پاؤں بھاگے تھے ہم بہت سو اسی کی سزا ہے یہ ہو کر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پاؤں مرہم کی جستجو میں پھرا ہوں جو دور دور تن سے سوا فگار ہیں اس خستہ تن کے پاؤں اللہ رے ذوق دشت نوردی کہ بعد مرگ ہلتے ہیں خود بہ خود مرے اندر کفن کے پاؤں ہے جوش گل بہار میں یاں تک کہ ہر طرف اڑتے ہوئے الجھتے ہیں مرغ چمن کے پاؤں شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں دکھتے ہیں آج اس بت نازک بدن کے پاؤں غالبؔ مرے کلام میں کیوں کر مزا نہ ہو پیتا ہوں دھوکے خسرو شیریں سخن کے پاؤں " chashm-e-khuubaan-khaamushii-men-bhii-navaa-pardaaz-hai-mirza-ghalib-ghazals," چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے سرمہ تو کہوے کہ دود شعلۂ آواز ہے پیکر عشاق ساز طالع نا ساز ہے نالہ گویا گردش سیارہ کی آواز ہے دست گاہ دیدۂ خوں بار مجنوں دیکھنا یک بیاباں جلوۂ گل فرش پا انداز ہے چشم خوباں مے فروش نشہ زار ناز ہے سرمہ گویا موج دود شعلۂ آواز ہے ہے صریر خامہ ریزش‌ ہاۓ استقبال ناز نامہ خود پیغام کو بال و پر پرواز ہے سرنوشت اضطراب انجامی الفت نہ پوچھ نال خامہ خار خار خاطر آغاز ہے شوخی اظہار غیر از وحشت مجنوں نہیں لیلیٰ معنی اسدؔ محمل نشین راز ہے نغمہ ہے کانوں میں اس کے نالۂ مرغ اسیر رشتۂ پا یاں نوا سامان بند ساز ہے شرم ہے طرز تلاش انتخاب یک نگاہ اضطراب چشم برپا دوختہ غماز ہے " qafas-men-huun-gar-achchhaa-bhii-na-jaanen-mere-shevan-ko-mirza-ghalib-ghazals," قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو مرا ہونا برا کیا ہے نوا سنجان گلشن کو نہیں گر ہمدمی آساں نہ ہو یہ رشک کیا کم ہے نہ دی ہوتی خدایا آرزوئے دوست دشمن کو نہ نکلا آنکھ سے تیری اک آنسو اس جراحت پر کیا سینے میں جس نے خوں چکاں مژگان سوزن کو خدا شرمائے ہاتھوں کو کہ رکھتے ہیں کشاکش میں کبھی میرے گریباں کو کبھی جاناں کے دامن کو ابھی ہم قتل گہہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں نہیں دیکھا شناور جوئے خوں میں تیرے توسن کو ہوا چرچا جو میرے پاؤں کی زنجیر بننے کا کیا بیتاب کاں میں جنبش جوہر نے آہن کو خوشی کیا کھیت پر میرے اگر سو بار ابر آوے سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈے ہے ابھی سے برق خرمن کو وفا داری بشرط استواری اصل ایماں ہے مرے بت خانے میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو شہادت تھی مری قسمت میں جو دی تھی یہ خو مجھ کو جہاں تلوار کو دیکھا جھکا دیتا تھا گردن کو نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو سخن کیا کہہ نہیں سکتے کہ جویا ہوں جواہر کے جگر کیا ہم نہیں رکھتے کہ کھودیں جا کے معدن کو مرے شاہ سلیماں جاہ سے نسبت نہیں غالبؔ فریدون و جم و کے خسرو و داراب و بہمن کو " huun-main-bhii-tamaashaai-e-nairang-e-tamannaa-mirza-ghalib-ghazals," ہوں میں بھی تماشائی نیرنگ تمنا مطلب نہیں کچھ اس سے کہ مطلب ہی بر آوے " qayaamat-hai-ki-sun-lailaa-kaa-dasht-e-qais-men-aanaa-mirza-ghalib-ghazals," قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشت قیس میں آنا تعجب سے وہ بولا یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں دل نازک پہ اس کے رحم آتا ہے مجھے غالبؔ نہ کر سرگرم اس کافر کو الفت آزمانے میں " mehrbaan-ho-ke-bulaa-lo-mujhe-chaaho-jis-vaqt-mirza-ghalib-ghazals," مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں ضعف میں طعنہ اغیار کا شکوہ کیا ہے بات کچھ سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستم گر ورنہ کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں اس قدر ضبط کہاں ہے کبھی آ بھی نہ سکوں ستم اتنا تو نہ کیجے کہ اٹھا بھی نہ سکوں لگ گئی آگ اگر گھر کو تو اندیشہ کیا شعلۂ دل تو نہیں ہے کہ بجھا بھی نہ سکوں تم نہ آؤ گے تو مرنے کی ہیں سو تدبیریں موت کچھ تم تو نہیں ہو کہ بلا بھی نہ سکوں ہنس کے بلوائیے مٹ جائے گا سب دل کا گلہ کیا تصور ہے تمہارا کہ مٹا بھی نہ سکوں " zindagii-apnii-jab-is-shakl-se-guzrii-gaalib-mirza-ghalib-ghazals," زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے " phir-kuchh-ik-dil-ko-be-qaraarii-hai-mirza-ghalib-ghazals," پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے سینہ جویائے زخم کاری ہے پھر جگر کھودنے لگا ناخن آمد فصل لالہ کاری ہے قبلۂ مقصد نگاہ نیاز پھر وہی پردۂ عماری ہے چشم دلال جنس رسوائی دل خریدار ذوق خواری ہے وہی صد رنگ نالہ فرسائی وہی صد گونہ اشک باری ہے دل ہوائے خرام ناز سے پھر محشرستان بیقراری ہے جلوہ پھر عرض ناز کرتا ہے روز بازار جاں سپاری ہے پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں پھر وہی زندگی ہماری ہے پھر کھلا ہے در عدالت ناز گرم بازار فوجداری ہے ہو رہا ہے جہان میں اندھیر زلف کی پھر سرشتہ داری ہے پھر دیا پارۂ جگر نے سوال ایک فریاد و آہ و زاری ہے پھر ہوئے ہیں گواہ عشق طلب اشک باری کا حکم جاری ہے دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا آج پھر اس کی روبکاری ہے بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے " mastii-ba-zauq-e-gaflat-e-saaqii-halaak-hai-mirza-ghalib-ghazals," مستی بہ ذوق غفلت ساقی ہلاک ہے موج شراب یک مژۂ خواب ناک ہے جز زخم تیغ ناز نہیں دل میں آرزو جیب خیال بھی ترے ہاتھوں سے چاک ہے جوش جنوں سے کچھ نظر آتا نہیں اسدؔ صحرا ہماری آنکھ میں یک مشت خاک ہے " na-thaa-kuchh-to-khudaa-thaa-kuchh-na-hotaa-to-khudaa-hotaa-mirza-ghalib-ghazals," نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا پر یاد آتا ہے وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا " dil-hii-to-hai-na-sang-o-khisht-dard-se-bhar-na-aae-kyuun-mirza-ghalib-ghazals," دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں جب وہ جمال دلفروز صورت مہر نیمروز آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں دشنۂ غمزہ جاں ستاں ناوک ناز بے پناہ تیرا ہی عکس رخ سہی سامنے تیرے آئے کیوں قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں حسن اور اس پہ حسن ظن رہ گئی بوالہوس کی شرم اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں واں وہ غرور عز و ناز یاں یہ حجاب پاس وضع راہ میں ہم ملیں کہاں بزم میں وہ بلائے کیوں ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں روئیے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں " mirii-hastii-fazaa-e-hairat-aabaad-e-tamannaa-hai-mirza-ghalib-ghazals," مری ہستی فضاۓ حیرت آباد تمنا ہے جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے خزاں کیا فصل گل کہتے ہیں کس کو کوئی موسم ہو وہی ہم ہیں قفس ہے اور ماتم بال و پر کا ہے وفائے دلبراں ہے اتفاقی ورنہ اے ہمدم اثر فریاد دل ‌ہاۓ حزیں کا کس نے دیکھا ہے نہ لائی شوخی اندیشہ تاب رنج نومیدی کف افسوس ملنا عہد تجدید تمنا ہے نہ سووے آبلوں میں گر سرشک دیدۂ نم سے بہ جولاں گاۂ نومیدی نگاۂ عاجزاں پا ہے بہ سختی ہاۓ قید زندگی معلوم آزادی شرر بھی صید دام رشتۂ رگ‌ ہاۓ خارا ہے تغافل مشربی سے ناتمامی بسکہ پیدا ہے نگاہ ناز چشم یار میں زنار مینا ہے تصرف وحشیوں میں ہے تصور ہاۓ مجنوں کا سواد چشم آہو عکس خال روئے لیلا ہے محبت طرز پیوند نہال دوستی جانے دویدن ریشہ ساں مفت رگ خواب زلیخا ہے کیا یک سر گداز دل نیاز جوشش حسرت سویدا نسخۂ تہ بندی داغ تمنا ہے ہجوم ریزش خوں کے سبب رنگ اڑ نہیں سکتا حناۓ پنجۂ صیاد مرغ رشتہ بر پا ہے اثر سوز محبت کا قیامت بے محابا ہے کہ رگ سے سنگ میں تخم شرر کا ریشہ پیدا ہے نہاں ہے گوہر مقصود جیب خود شناسی میں کہ یاں غواص ہے تمثال اور آئینہ دریا ہے عزیزو ذکر وصل غیر سے مجھ کو نہ بہلاؤ کہ یاں افسون خواب افسانۂ خواب زلیخا ہے تصور بہر تسکین تپیدن ہاۓ طفل دل بہ باغ رنگ ‌ہاۓ رفتہ گل چین تماشا ہے بہ سعی غیر ہے قطع لباس خانہ ویرانی کہ ناز جادۂ رہ رشتۂ دامان صحرا ہے " lo-ham-mariiz-e-ishq-ke-biimaar-daar-hain-mirza-ghalib-ghazals," لو ہم مریض عشق کے بیمار دار ہیں اچھا اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا علاج " ishq-mujh-ko-nahiin-vahshat-hii-sahii-mirza-ghalib-ghazals," عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی میری وحشت تری شہرت ہی سہی قطع کیجے نہ تعلق ہم سے کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی عمر ہرچند کہ ہے برق خرام دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی ہم کوئی ترک وفا کرتے ہیں نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی کچھ تو دے اے فلک ناانصاف آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے بے نیازی تری عادت ہی سہی یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی " dekh-kar-dar-parda-garm-e-daaman-afshaanii-mujhe-mirza-ghalib-ghazals," دیکھ کر در پردہ گرم دامن افشانی مجھے کر گئی وابستۂ تن میری عریانی مجھے بن گیا ہیں تیغ نگاہ یار کا سنگ فساں مرحبا میں کیا مبارک ہے گراں جانی مجھے کیوں نہ ہو بے التفاتی اس کی خاطر جمع ہے جانتا ہے محو پرسش ‌ہاۓ پنہانی مجھے میرے غم خانے کی قسمت جب رقم ہونے لگی لکھ دیا منجملۂ اسباب ویرانی مجھے بد گماں ہوتا ہے وہ کافر نہ ہوتا کاش کے اس قدر ذوق نوائے مرغ بستانی مجھے وائے واں بھی شور محشر نے نہ دم لینے دیا لے گیا تھا گور میں ذوق تن آسانی مجھے وعدہ آنے کا وفا کیجے یہ کیا انداز ہے تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے ہاں نشاط آمد فصل بہاری واہ واہ پھر ہوا ہے تازہ سودائے غزل خوانی مجھے دی مرے بھائی کو حق نے از سر نو زندگی میرزا یوسف ہے غالبؔ یوسف ثانی مجھے " raftaar-e-umr-qat-e-rah-e-iztiraab-hai-mirza-ghalib-ghazals," رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے مینائے مے ہے سرو نشاط بہار سے بال تدرو جلوۂ موج شراب ہے زخمی ہوا ہے پاشنہ پاۓ ثبات کا نے بھاگنے کی گوں نہ اقامت کی تاب ہے جاداد بادہ نوشی رنداں ہے شش جہت غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے نظارہ کیا حریف ہو اس برق حسن کا جوش بہار جلوے کو جس کے نقاب ہے میں نا مراد دل کی تسلی کو کیا کروں مانا کہ تیرے رخ سے نگہ کامیاب ہے گزرا اسدؔ مسرت پیغام یار سے قاصد پہ مجھ کو رشک سوال و جواب ہے ظاہر ہے طرز قید سے صیاد کی غرض جو دانہ دام میں ہے سو اشک کباب ہے بے چشم دل نہ کر ہوس سیر لالہ زار یعنی یہ ہر ورق ورق انتخاب ہے " muddat-huii-hai-yaar-ko-mehmaan-kiye-hue-mirza-ghalib-ghazals," مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو عرصہ ہوا ہے دعوت مژگاں کیے ہوئے پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے پھر گرم نالہ ہائے شرربار ہے نفس مدت ہوئی ہے سیر چراغاں کیے ہوئے پھر پرسش جراحت دل کو چلا ہے عشق سامان صدہزار نمکداں کیے ہوئے پھر بھر رہا ہوں خامۂ مژگاں بہ خون دل ساز چمن طرازی داماں کیے ہوئے باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب نظارہ و خیال کا ساماں کیے ہوئے دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب عرض متاع عقل و دل و جاں کیے ہوئے دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے پھر چاہتا ہوں نامۂ دل دار کھولنا جاں نذر دل فریبی عنواں کیے ہوئے مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس زلف سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کیے ہوئے اک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں سر زیر بار منت درباں کیے ہوئے جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے " gar-tujh-ko-hai-yaqiin-e-ijaabat-duaa-na-maang-mirza-ghalib-ghazals," گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ اے آرزو شہید وفا خوں بہا نہ مانگ جز بہر دست و بازوئے قاتل دعا نہ مانگ برہم ہے بزم غنچہ بہ یک جنبش نشاط کاشانہ بسکہ تنگ ہے غافل ہوا نہ مانگ میں دور گرد عرض رسوم نیاز ہوں دشمن سمجھ ولے نگۂ آشنا نہ مانگ یک بخت اوج نذر سبک باری اسدؔ سر پر وبال سایۂ بال ہما نہ مانگ گستاخیٔ وصال ہے مشاطۂ نیاز یعنی دعا بجز خم زلف دوتا نہ مانگ عیسیٰ طلسم حسن تغافل ہے زینہار جز پشت چشم نسخہ عرض دوا نہ مانگ نظارۂ دیگر و دل خونیں نفس دگر آئینہ دیکھ جوہر برگ دعا نمانگ " kisii-ko-de-ke-dil-koii-navaa-sanj-e-fugaan-kyuun-ho-mirza-ghalib-ghazals," کسی کو دے کے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو کیا غم خوار نے رسوا لگے آگ اس محبت کو نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو یہ کہہ سکتے ہو ہم دل میں نہیں ہیں پر یہ بتلاؤ کہ جب دل میں تمہیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو غلط ہے جذب دل کا شکوہ دیکھو جرم کس کا ہے نہ کھینچو گر تم اپنے کو کشاکش درمیاں کیوں ہو یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالبؔ ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو " husn-e-mah-garche-ba-hangaam-e-kamaal-achchhaa-hai-mirza-ghalib-ghazals," حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے اس سے میرا مہہ خورشید جمال اچھا ہے بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے ہم سخن تیشہ نے فرہاد کو شیریں سے کیا جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے قطرہ دریا میں جو مل جاے تو دریا ہو جائے کام اچھا ہے وہ جس کا کہ مآل اچھا ہے خضر سلطاں کو رکھے خالق اکبر سرسبز شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچھا ہے ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے " tuu-dost-kisuu-kaa-bhii-sitamgar-na-huaa-thaa-mirza-ghalib-ghazals," تو دوست کسو کا بھی ستم گر نہ ہوا تھا اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا چھوڑا مہ نخشب کی طرح دست قضا نے خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا توفیق باندازۂ ہمت ہے ازل سے آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا جب تک کہ نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم میں معتقد فتنۂ محشر نہ ہوا تھا میں سادہ دل آرزدگئ یار سے خوش ہوں یعنی سبق شوق مکرر نہ ہوا تھا دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا جاری تھی اسدؔ داغ جگر سے مری تحصیل آتش کدہ جاگیر سمندر نہ ہوا تھا " hai-bas-ki-har-ik-un-ke-ishaare-men-nishaan-aur-mirza-ghalib-ghazals," ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور ابرو سے ہے کیا اس نگہ ناز کو پیوند ہے تیر مقرر مگر اس کی ہے کماں اور تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اٹھیں گے لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور ہے خون جگر جوش میں دل کھول کے روتا ہوتے جو کئی دیدۂ خوں نابہ فشاں اور مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جائے جلاد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ہاں اور لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغ نہاں اور لیتا نہ اگر دل تمہیں دیتا کوئی دم چین کرتا جو نہ مرتا کوئی دن آہ و فغاں اور پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور " shab-khumaar-e-shauq-e-saaqii-rustakhez-andaaza-thaa-mirza-ghalib-ghazals," شب خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا تامحیط بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا یک قدم وحشت سے درس دفتر امکاں کھلا جادہ اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا مانع وحشت خرامی ہائے لیلیٰ کون ہے خانۂ مجنون صحراگرد بے دروازہ تھا پوچھ مت رسوائی انداز استغنائے حسن دست مرہون حنا رخسار رہن غازہ تھا نالۂ دل نے دیے اوراق لخت دل بہ باد یادگار نالہ اک دیوان بے شیرازہ تھا ہوں چراغان ہوس جوں کاغذ آتش زدہ داغ گرم کوشش ایجاد داغ تازہ تھا بے نوائی تر صداۓ نغمۂ شہرت اسدؔ بوریا یک نیستاں عالم بلند آوازہ تھا " zakhm-par-chhidken-kahaan-tiflaan-e-be-parvaa-namak-mirza-ghalib-ghazals," زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمک کیا مزہ ہوتا اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک گرد راہ یار ہے سامان ناز زخم دل ورنہ ہوتا ہے جہاں میں کس قدر پیدا نمک مجھ کو ارزانی رہے تجھ کو مبارک ہوجیو نالۂ بلبل کا درد اور خندۂ گل کا نمک شور جولاں تھا کنار بحر پر کس کا کہ آج گرد ساحل ہے بہ زخم موجۂ دریا نمک داد دیتا ہے مرے زخم جگر کی واہ واہ یاد کرتا ہے مجھے دیکھے ہے وہ جس جا نمک چھوڑ کر جانا تن مجروح عاشق حیف ہے دل طلب کرتا ہے زخم اور مانگے ہیں اعضا نمک غیر کی منت نہ کھینچوں گا پے توفیر درد زخم مثل خندۂ قاتل ہے سر تا پا نمک یاد ہیں غالبؔ تجھے وہ دن کہ وجد ذوق میں زخم سے گرتا تو میں پلکوں سے چنتا تھا نمک اس عمل میں عیش کی لذت نہیں ملتی اسدؔ زور نسبت مے سے رکھتا ہے اضارا کا نمک " shab-ki-barq-e-soz-e-dil-se-zahra-e-abr-aab-thaa-mirza-ghalib-ghazals," شب کہ برق سوز دل سے زہرۂ ابر آب تھا شعلۂ جوالہ ہر یک حلقۂ گرداب تھا واں کرم کو عذر بارش تھا عناں گیر خرام گریہ سے یاں پنبۂ بالش کف سیلاب تھا واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال یاں ہجوم اشک میں تار نگہ نایاب تھا جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو یاں رواں مژگان چشم تر سے خون ناب تھا یاں سر پر شور بے خوابی سے تھا دیوار جو واں وہ فرق ناز محو بالش کمخواب تھا یاں نفس کرتا تھا روشن شمع بزم بے خودی جلوۂ گل واں بساط صحبت احباب تھا فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موج رنگ کا یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا ناگہاں اس رنگ سے خوں نابہ ٹپکانے لگا دل کہ ذوق کاوش ناخن سے لذت یاب تھا " diivaangii-se-dosh-pe-zunnaar-bhii-nahiin-mirza-ghalib-ghazals," دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں یعنی ہمارے جیب میں اک تار بھی نہیں دل کو نیاز حسرت دیدار کر چکے دیکھا تو ہم میں طاقت دیدار بھی نہیں ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں طاقت بقدر لذت آزار بھی نہیں شوریدگی کے ہاتھ سے ہے سر وبال دوش صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں گنجایش عداوت اغیار یک طرف یاں دل میں ضعف سے ہوس یار بھی نہیں ڈر نالہ ہائے زار سے میرے خدا کو مان آخر نوائے مرغ گرفتار بھی نہیں دل میں ہے یار کی صف مژگاں سے روکشی حالانکہ طاقت خلش خار بھی نہیں اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں دیکھا اسدؔ کو خلوت و جلوت میں بارہا دیوانہ گر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں " jaur-se-baaz-aae-par-baaz-aaen-kyaa-mirza-ghalib-ghazals," جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاو جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ یا رب اپنے خط کو ہم پہنچایں کیا موج خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے آستان یار سے اٹھ جائیں کیا عمر بھر دیکھا کیا مرنے کی راہ مر گئے پر دیکھیے دکھلائیں کیا پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا " na-puuchh-nuskha-e-marham-jaraahat-e-dil-kaa-mirza-ghalib-ghazals," نہ پوچھ نسخۂ مرہم جراحت دل کا کہ اس میں ریزۂ الماس جزو اعظم ہے بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی وہ اک نگہ کہ بہ ظاہر نگاہ سے کم ہے " siyaahii-jaise-gir-jaae-dam-e-tahriir-kaagaz-par-mirza-ghalib-ghazals," سیاہی جیسے گر جائے دم تحریر کاغذ پر مری قسمت میں یوں تصویر ہے شب ہاۓ ہجراں کی کہوں کیا گرم جوشی مے کشی میں شعلہ رویاں کی کہ شمع خانۂ دل آتش مے سے فروزاں کی ہمیشہ مجھ کو طفلی میں بھی مشق تیرہ روزی تھی سیاہی ہے مرے ایام میں لوح دبستاں کی دریغ آہ سحر گہ کار باد صبح کرتی ہے کہ ہوتی ہے زیادہ سرد مہری شمع رویاں کی مجھے اپنے جنوں کی بے تکلف پردہ داری تھی ولیکن کیا کروں آوے جو رسوائی گریباں کی ہنر پیدا کیا ہے میں نے حیرت آزمائی میں کہ جوہر آئنے کا ہر پلک ہے چشم حیراں کی خدایا کس قدر اہل نظر نے خاک چھانی ہے کہ ہیں صد رخنہ جوں غربال دیواریں گلستاں کی ہوا شرم تہی دستی سے سے وہ بھی سرنگوں آخر بس اے زخم جگر اب دیکھ لے شورش نمکداں کی بیاد گرمیٔ صحبت بہ رنگ شعلہ دہکے ہے چھپاؤں کیونکہ غالبؔ سوزشیں داغ نمایاں کی جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی نمک پاش خراش دل ہے لذت زندگانی کی کشاکش‌ ہاۓ ہستی سے کرے کیا سعی آزادی ہوئی زنجیر موج آب کو فرصت روانی کی نہ کھینچ اے سعیٔ دست نارسا زلف تمنا کو پریشاں تر ہے موئے خامہ سے تدبیر مانی کی کہاں ہم بھی رگ و پے رکھتے ہیں انصاف بہتر ہے نہ کھینچے طاقت خمیازہ تہمت ناتوانی کی تکلف برطرف فرہاد اور اتنی سبکدستی خیال آساں تھا لیکن خواب خسرو نے گرانی کی پس از مردن بھی دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے شرار سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی اسدؔ کو بوریے میں دھر کے پھونکا موج ہستی نے فقیری میں بھی باقی ہے شرارت نوجوانی کی " jab-tak-dahaan-e-zakhm-na-paidaa-kare-koii-mirza-ghalib-ghazals," جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی مشکل کہ تجھ سے راہ سخن وا کرے کوئی عالم غبار وحشت مجنوں ہے سر بہ سر کب تک خیال طرۂ لیلا کرے کوئی افسردگی نہیں طرب انشائے التفات ہاں درد بن کے دل میں مگر جا کرے کوئی رونے سے اے ندیم ملامت نہ کر مجھے آخر کبھی تو عقدۂ دل وا کرے کوئی چاک جگر سے جب رہ پرسش نہ وا ہوئی کیا فائدہ کہ جیب کو رسوا کرے کوئی لخت جگر سے ہے رگ ہر خار شاخ گل تا چند باغبانی صحرا کرے کوئی ناکامی نگاہ ہے برق نظارہ سوز تو وہ نہیں کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی ہر سنگ و خشت ہے صدف گوہر شکست نقصاں نہیں جنوں سے جو سودا کرے کوئی سر بر ہوئی نہ وعدۂ صبر آزما سے عمر فرصت کہاں کہ تیری تمنا کرے کوئی ہے وحشت طبیعت ایجاد یاس خیز یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی بیکاری جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسدؔ پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی وحشت کہاں کہ بے خودی انشا کرے کوئی ہستی کو لفظ معنی عنقا کرے کوئی جو کچھ ہے محو شوخی ابروئے یار ہے آنکھوں کو رکھ کے طاق پہ دیکھا کرے کوئی عرض سرشک پر ہے فضاۓ زمانہ تنگ صحرا کہاں کہ دعوت دریا کرے کوئی وہ شوخ اپنے حسن پہ مغرور ہے اسدؔ دکھلا کے اس کو آئنہ توڑا کرے کوئی " fariyaad-kii-koii-lai-nahiin-hai-mirza-ghalib-ghazals," فریاد کی کوئی لے نہیں ہے نالہ پابند نے نہیں ہے کیوں بوتے ہیں باغباں تونبے گر باغ گدائے مے نہیں ہے ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے پر تجھ سی کوئی شے نہیں ہے ہاں کھائیو مت فریب ہستی ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے شادی سے گزر کہ غم نہ ہووے اردی جو نہ ہو تو دے نہیں ہے کیوں رد قدح کرے ہے زاہد مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غالبؔ آخر تو کیا ہے اے نہیں ہے " taa-ham-ko-shikaayat-kii-bhii-baaqii-na-rahe-jaa-mirza-ghalib-ghazals," تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا سن لیتے ہیں گو ذکر ہمارا نہیں کرتے غالبؔ ترا احوال سنا دیں گے ہم ان کو وہ سن کے بلا لیں یہ اجارا نہیں کرتے " hujuum-e-naala-hairat-aajiz-e-arz-e-yak-afgaan-hai-mirza-ghalib-ghazals," ہجوم نالہ حیرت عاجز عرض یک افغاں ہے خموشی ریشۂ صد نیستاں سے خس بہ دنداں ہے تکلف بر طرف ہے جاں ستاں تر لطف بد خویاں نگاہ بے حجاب ناز تیغ تیز عریاں ہے ہوئی یہ کثرت غم سے تلف کیفیت شادی کہ صبح عید مجھ کو بد تر از چاک گریباں ہے دل و دیں نقد لا ساقی سے گر سودا کیا چاہے کہ اس بازار میں ساغر متاع دست گرداں ہے غم آغوش بلا میں پرورش دیتا ہے عاشق کو چراغ روشن اپنا قلزم صرصر کا مرجاں ہے تکلف ساز رسوائی ہے غافل شرم رعنائی دل خوں گشتہ در دست حنا آلودہ عریاں ہے اسدؔ جمعیت دل در کنار بے خودی خوش تر دو عالم آگہی سامان یک خواب پریشاں ہے کہ جامے کو عرق سعی عروج نشہ رنگیں تر خط رخسار ساقی تا خط ساغر چراغاں ہے رہا بے قدر دل در پردۂ جوش ظہور آخر گل و نرگس بہم آئینہ و اقلیم کوراں ہے تماشا سرخوش غفلت ہے با وصف حضور دل ہنوز آئینہ خلوت گاہ ناز ربط مژگاں ہے تکلف بر طرف ذوق زلیخا جمع کر ورنہ پریشاں خواب آغوش وداع یوسف ستاں ہے " taskiin-ko-ham-na-roen-jo-zauq-e-nazar-mile-mirza-ghalib-ghazals," تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے حوران خلد میں تری صورت مگر ملے اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے ساقی گری کی شرم کرو آج ورنہ ہم ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے تم کو بھی ہم دکھائیں کہ مجنوں نے کیا کیا فرصت کشاکش غم پنہاں سے گر ملے لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں جانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے اے ساکنان کوچۂ دل دار دیکھنا تم کو کہیں جو غالبؔ آشفتہ سر ملے " zikr-us-parii-vash-kaa-aur-phir-bayaan-apnaa-mirza-ghalib-ghazals," ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا مے وہ کیوں بہت پیتے بزم غیر میں یا رب آج ہی ہوا منظور ان کو امتحاں اپنا منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے بارے آشنا نکلا ان کا پاسباں اپنا درد دل لکھوں کب تک جاؤں ان کو دکھلا دوں انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا گھستے گھستے مٹ جاتا آپ نے عبث بدلا ننگ سجدہ سے میرے سنگ آستاں اپنا تا کرے نہ غمازی کر لیا ہے دشمن کو دوست کی شکایت میں ہم نے ہم زباں اپنا ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا " vo-aa-ke-khvaab-men-taskiin-e-iztiraab-to-de-mirza-ghalib-ghazals," وہ آ کے خواب میں تسکین اضطراب تو دے ولے مجھے تپش دل مجال خواب تو دے کرے ہے قتل لگاوٹ میں تیرا رو دینا تری طرح کوئی تیغ نگہ کو آب تو دے دکھا کے جنبش لب ہی تمام کر ہم کو نہ دے جو بوسہ تو منہ سے کہیں جواب تو دے پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے اسدؔ خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہا جو اس نے ذرا میرے پاؤں داب تو دے یہ کون کہوے ہے آباد کر ہمیں لیکن کبھی زمانہ مراد دل خراب تو دے " ba-naala-haasil-e-dil-bastagii-faraaham-kar-mirza-ghalib-ghazals," بہ نالہ حاصل دل بستگی فراہم کر متاع خانۂ زنجیر جز صدا معلوم بہ قدر حوصلۂ عشق جلوہ ریزی ہے وگرنہ خانۂ آئینہ کی فضا معلوم اسدؔ فریفتۂ انتخاب طرز جفا وگرنہ دلبری وعدۂ وفا معلوم " dard-minnat-kash-e-davaa-na-huaa-mirza-ghalib-ghazals," درد منت کش دوا نہ ہوا میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا ہے خبر گرم ان کے آنے کی آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا کیا وہ نمرود کی خدائی تھی بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا زخم گر دب گیا لہو نہ تھما کام گر رک گیا روا نہ ہوا رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے لے کے دل دل ستاں روانہ ہوا کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا " kyuunkar-us-but-se-rakhuun-jaan-aziiz-mirza-ghalib-ghazals," کیونکر اس بت سے رکھوں جان عزیز کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز دل سے نکلا پہ نہ نکلا دل سے ہے ترے تیر کا پیکان عزیز تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ واقعہ سخت ہے اور جان عزیز " ye-na-thii-hamaarii-qismat-ki-visaal-e-yaar-hotaa-mirza-ghalib-ghazals," یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا " afsos-ki-dandaan-kaa-kiyaa-rizq-falak-ne-mirza-ghalib-ghazals," افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے جن لوگوں کی تھی در خور عقد گہر انگشت کافی ہے نشانی ترا چھلے کا نہ دینا خالی مجھے دکھلا کے بہ وقت سفر انگشت لکھتا ہوں اسدؔ سوزش دل سے سخن گرم تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت " ye-ham-jo-hijr-men-diivaar-o-dar-ko-dekhte-hain-mirza-ghalib-ghazals," یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو یہ لوگ کیوں مرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں ترے جواہر طرف کلہ کو کیا دیکھیں ہم اوج طالع لعل و گہر کو دیکھتے ہیں " ohde-se-madh-e-naaz-ke-baahar-na-aa-sakaa-mirza-ghalib-ghazals," عہدے سے مدح ناز کے باہر نہ آ سکا گر اک ادا ہو تو اسے اپنی قضا کہوں حلقے ہیں چشم ہاۓ کشادہ بہ سوئے دل ہر تار زلف کو نگۂ سرمہ سا کہوں میں اور صد ہزار نواۓ جگر خراش تو اور ایک وہ نا شنیدن کہ کیا کہوں ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ ہے ہے خدا نہ کردہ تجھے بے وفا کہوں " aabruu-kyaa-khaak-us-gul-kii-ki-gulshan-men-nahiin-mirza-ghalib-ghazals," آبرو کیا خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں ہے گریباں ننگ پیراہن جو دامن میں نہیں ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں رنگ ہو کر اڑ گیا جو خوں کہ دامن میں نہیں ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہ آفتاب ذرے اس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں کیا کہوں تاریکی زندان غم اندھیر ہے پنبہ نور صبح سے کم جس کے روزن میں نہیں رونق ہستی ہے عشق خانہ ویراں ساز سے انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں زخم سلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن غیر سمجھا ہے کہ لذت زخم سوزن میں نہیں بسکہ ہیں ہم اک بہار ناز کے مارے ہوئے جلوۂ گل کے سوا گرد اپنے مدفن میں نہیں قطرہ قطرہ اک ہیولیٰ ہے نئے ناسور کا خوں بھی ذوق درد سے فارغ مرے تن میں نہیں لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری موج مے کی آج رگ مینا کی گردن میں نہیں ہو فشار ضعف میں کیا ناتوانی کی نمود قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں تھی وطن میں شان کیا غالبؔ کہ ہو غربت میں قدر بے تکلف ہوں وہ مشت خس کہ گلخن میں نہیں " shikve-ke-naam-se-be-mehr-khafaa-hotaa-hai-mirza-ghalib-ghazals," شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے یہ بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گلہ ہوتا ہے پر ہوں میں شکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا اک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے گو سمجھتا نہیں پر حسن تلافی دیکھو شکوۂ جور سے سرگرم جفا ہوتا ہے عشق کی راہ میں ہے چرخ مکوکب کی وہ چال سست رو جیسے کوئی آبلہ پا ہوتا ہے کیوں نہ ٹھہریں ہدف ناوک بیداد کہ ہم آپ اٹھا لاتے ہیں گر تیر خطا ہوتا ہے خوب تھا پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بد خواہ کہ بھلا چاہتے ہیں اور برا ہوتا ہے نالہ جاتا تھا پرے عرش سے میرا اور اب لب تک آتا ہے جو ایسا ہی رسا ہوتا ہے خامہ میرا کہ وہ ہے باربد بزم سخن شاہ کی مدح میں یوں نغمہ سرا ہوتا ہے اے شہنشاہ کواکب سپہ و مہر علم تیرے اکرام کا حق کس سے ادا ہوتا ہے سات اقلیم کا حاصل جو فراہم کیجے تو وہ لشکر کا ترے نعل بہا ہوتا ہے ہر مہینے میں جو یہ بدر سے ہوتا ہے ہلال آستاں پر ترے مہ ناصیہ سا ہوتا ہے میں جو گستاخ ہوں آئین غزل خوانی میں یہ بھی تیرا ہی کرم ذوق فزا ہوتا ہے رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے " phir-mujhe-diida-e-tar-yaad-aayaa-mirza-ghalib-ghazals," پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا دل جگر تشنۂ فریاد آیا دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز پھر ترا وقت سفر یاد آیا سادگی ہائے تمنا یعنی پھر وہ نیرنگ نظر یاد آیا عذر واماندگی اے حسرت دل نالہ کرتا تھا جگر یاد آیا زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی کیوں ترا راہ گزر یاد آیا کیا ہی رضواں سے لڑائی ہوگی گھر ترا خلد میں گر یاد آیا آہ وہ جرأت فریاد کہاں دل سے تنگ آ کے جگر یاد آیا پھر ترے کوچہ کو جاتا ہے خیال دل گم گشتہ مگر یاد آیا کوئی ویرانی سی ویرانی ہے دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا وصل میں ہجر کا ڈر یاد آیا عین جنت میں سقر یاد آیا " chaak-kii-khvaahish-agar-vahshat-ba-uryaanii-kare-mirza-ghalib-ghazals," چاک کی خواہش اگر وحشت بہ عریانی کرے صبح کے مانند زخم دل گریبانی کرے جلوے کا تیرے وہ عالم ہے کہ گر کیجے خیال دیدۂ دل کو زیارت گاہ حیرانی کرے ہے شکستن سے بھی دل نومید یا رب کب تلک آبگینہ کوہ پر عرض گراں جانی کرے مے کدہ گر چشم مست ناز سے پاوے شکست موئے شیشہ دیدۂ ساغر کی مژگانی کرے خط عارض سے لکھا ہے زلف کو الفت نے عہد یک قلم منظور ہے جو کچھ پریشانی کرے " baaziicha-e-atfaal-hai-duniyaa-mire-aage-mirza-ghalib-ghazals," بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے جز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور جز وہم نہیں ہستیٔ اشیا مرے آگے ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے سچ کہتے ہو خودبین و خود آرا ہوں نہ کیوں ہوں بیٹھا ہے بت آئنہ سیما مرے آگے پھر دیکھیے انداز گل افشانیٔ گفتار رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے نفرت کا گماں گزرے ہے میں رشک سے گزرا کیوں کر کہوں لو نام نہ ان کا مرے آگے ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہو آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا غالبؔ کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے " surma-e-muft-e-nazar-huun-mirii-qiimat-ye-hai-mirza-ghalib-ghazals," سرمۂ مفت نظر ہوں مری قیمت یہ ہے کہ رہے چشم خریدار پہ احساں میرا رخصت نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالم تیرے چہرے سے ہو ظاہر غم پنہاں میرا خلوت آبلۂ پا میں ہے جولاں میرا خوں ہے دل تنگیٔ وحشت سے بیاباں میرا حسرت نشۂ وحشت نہ بہ سعیٔ دل ہے عرض خمیازۂ مجنوں ہے گریباں میرا فہم زنجیری بے ربطی دل ہے یارب کس زباں میں ہے لقب خواب پریشاں میرا " dil-lagaa-kar-lag-gayaa-un-ko-bhii-tanhaa-baithnaa-mirza-ghalib-ghazals," دل لگا کر لگ گیا ان کو بھی تنہا بیٹھنا بارے اپنی بیکسی کی ہم نے پائی داد یاں ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام مہر گردوں ہے چراغ رہ گزار باد یاں ہے ترحم آفریں آرائش بیداد یاں اشک چشم دام ہے ہر دانۂ صیاد یاں ہے گداز موم انداز چکیدن ہائے خوں نیش زنبور اصل ہے نشتر فصاد یاں نا گوارا ہے ہمیں احسان صاحب دولتاں ہے زر گل بھی نظر میں جوہر فولاد یاں جنبش دل سے ہوئے ہیں عقدہ ہائے کار وا کمتریں مزدور سنگیں دست ہے فرہاد یاں قطرہ ہائے خون بسمل زیب داماں ہیں اسدؔ ہے تماشہ کردنی گل چینیٔ جلاد یاں " luun-vaam-bakht-e-khufta-se-yak-khvaab-e-khush-vale-mirza-ghalib-ghazals," لوں وام بخت خفتہ سے یک خواب خوش ولے غالبؔ یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروں خوش وحشتے کہ عرض جنون فنا کروں جوں گرد راہ جامۂ ہستی قبا کروں آ اے بہار ناز کہ تیرے خرام سے دستار گرد شاخ گل نقش پا کروں خوش افتادگی کہ بہ صحراۓ انتظار جوں جادہ گرد رہ سے نگہ سرمہ سا کروں صبر اور یہ ادا کہ دل آوے اسیر چاک درد اور یہ کمیں کہ رہ نالہ وا کروں وہ بے دماغ منت اقبال ہوں کہ میں وحشت بہ داغ سایۂ بال ہما کروں وہ التماس لذت بے داد ہوں کہ میں تیغ ستم کو پشت خم التجا کروں وہ راز نالہ ہوں کہ بہ شرح نگاۂ عجز افشاں غبار سرمہ سے فرد صدا کروں " shumaar-e-subha-marguub-e-but-e-mushkil-pasand-aayaa-mirza-ghalib-ghazals-1," شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا تماشاۓ بہ یک کف بردن صد دل پسند آیا بہ فیض بے دلی نومیدی جاوید آساں ہے کشایش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا ہوائے سیر گل آئینۂ بے مہری قاتل کہ انداز بہ خوں غلتیدن بسمل پسند آیا روانی ہاۓ موج خون بسمل سے ٹپکتا ہے کہ لطف بے تحاشا رفتن قاتل پسند آیا اسدؔ ہر جا سخن نے طرح باغ تازہ ڈالی ہے مجھے رنگ بہار ایجادی بیدل پسند آیا سواد چشم بسمل انتخاب نقطہ آرائی خرام ناز بے پروائی قاتل پسند آیا ہوئی جس کو بہار فرصت ہستی سے آگاہی برنگ لالہ جام بادہ پر محمل پسند آیا " naqsh-e-naaz-e-but-e-tannaaz-ba-aagosh-e-raqiib-mirza-ghalib-ghazals," نقش ناز بت طناز بہ آغوش رقیب پاۓ طاؤس پئے خامۂ مانی مانگے تو وہ بد خو کہ تحیر کو تماشا جانے غم وہ افسانہ کہ آشفتہ بیانی مانگے وہ تپ عشق تمنا ہے کہ پھر صورت شمع شعلہ تا نبض جگر ریشہ داوانی مانگے تشنۂ خون تماشا جو وہ پانی مانگے آئنہ رخصت انداز روانی مانگے رنگ نے گل سے دم عرض پریشانیٔ بزم برگ گل ریزۂ مینا کی نشانی مانگے زلف تحریر پریشان تقاضا ہے مگر شانہ ساں مو بہ زباں خامۂ مانی مانگے آمد خط سے نہ کر خندۂ شیریں کہ مباد چشم مور آئینۂ دل نگرانی مانگے ہوں گرفتار کمیں گاہ تغافل کہ جہاں خواب صیاد سے پرواز گرانی مانگے چشم پرواز و نفس خفتہ مگر ضعف امید شہپر کاہ پئے مژدہ رسانی مانگے وحشت شور تماشا ہے کہ جوں نکہت گل نمک زخم جگر بال فشانی مانگے گر ملے ؔحضرت بیدل کا خط لوح مزار اسدؔ آئینۂ پرواز معانی مانگے رنگ نے گل سے دم عرض پریشانیٔ بزم برگ گل ریزۂ مینا کی نشانی مانگے " baag-paa-kar-khafaqaanii-ye-daraataa-hai-mujhe-mirza-ghalib-ghazals," باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے سایۂ شاخ گل افعی نظر آتا ہے مجھے جوہر تیغ بہ سر چشمۂ دیگر معلوم ہوں میں وہ سبزہ کہ زہراب اگاتا ہے مجھے مدعا محو تماشائے شکست دل ہے آئنہ خانہ میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے نالہ سرمایۂ یک عالم و عالم کف خاک آسماں بیضۂ قمری نظر آتا ہے مجھے زندگی میں تو وہ محفل سے اٹھا دیتے تھے دیکھوں اب مر گئے پر کون اٹھاتا ہے مجھے باغ تجھ بن گل نرگس سے ڈراتا ہے مجھے چاہوں گر سیر چمن آنکھ دکھاتا ہے مجھے شور تمثال ہے کس رشک چمن کا یا رب آئنہ بیضۂ بلبل نظر آتا ہے مجھے حیرت آئنہ انجام جنوں ہوں جیوں شمع کس قدر داغ جگر شعلہ اٹھاتا ہے مجھے میں ہوں اور حیرت جاوید مگر ذوق خیال بہ فسون نگۂ ناز ستاتا ہے مجھے حیرت فکر سخن ساز سلامت ہے اسدؔ دل پس زانوئے آئینہ بٹھاتا ہے مجھے " maana-e-dasht-navardii-koii-tadbiir-nahiin-mirza-ghalib-ghazals," مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں ایک چکر ہے مرے پانو میں زنجیر نہیں شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاں جادہ غیر از نگہ دیدۂ تصویر نہیں حسرت لذت آزار رہی جاتی ہے جادۂ راہ وفا جز دم شمشیر نہیں رنج نومیدی جاوید گوارا رہیو خوش ہوں گر نالہ زبونی کش تاثیر نہیں سر کھجاتا ہے جہاں زخم سر اچھا ہو جائے لذت سنگ بہ اندازۂ تقریر نہیں جب کرم رخصت بیباکی و گستاخی دے کوئی تقصیر بجز خجلت تقصیر نہیں غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخؔ آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں میرؔ کے شعر کا احوال کہوں کیا غالبؔ جس کا دیوان کم از گلشن کشمیر نہیں آئینہ دام کو پردے میں چھپاتا ہے عبث کہ پری زاد نظر قابل تسخیر نہیں مثل گل زخم ہے میرا بھی سناں سے توام تیرا ترکش ہی کچھ آبستنیٔ تیر نہیں " junuun-kii-dast-giirii-kis-se-ho-gar-ho-na-uryaanii-mirza-ghalib-ghazals," جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی گریباں چاک کا حق ہو گیا ہے میری گردن پر بہ رنگ کاغذ آتش زدہ نیرنگ بیتابی ہزار آئینہ دل باندھے ہے بال یک تپیدن پر فلک سے ہم کو عیش رفتہ کا کیا کیا تقاضا ہے متاع بردہ کو سمجھے ہوئے ہیں قرض رہزن پر ہم اور وہ بے سبب رنج آشنا دشمن کہ رکھتا ہے شعاع مہر سے تہمت نگہ کی چشم روزن پر فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا فروغ طالع خاشاک ہے موقوف گلخن پر اسدؔ بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے کہ مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن پر فسون یک دلی ہے لذت بیداد دشمن پر کہ وجد برق جوں پروانہ بال افشاں ہے خرمن پر تکلف خار خار التماس بے قراری ہے کہ رشتہ باندھتا ہے پیرہن انگشت سوزن پر یہ کیا وحشت ہے اے دیوانہ پیش از مرگ واویلا رکھی بیجا بنائے خانۂ زنجیر شیون پر " ghar-men-thaa-kyaa-ki-tiraa-gam-use-gaarat-kartaa-mirza-ghalib-ghazals," گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرت تعمیر سو ہے " yaad-hai-shaadii-men-bhii-hangaama-e-yaa-rab-mujhe-mirza-ghalib-ghazals," یاد ہے شادی میں بھی ہنگامۂ یا رب مجھے سبحۂ زاہد ہوا ہے خندہ زیر لب مجھے ہے کشاد خاطر وابستہ در رہن سخن تھا طلسم قفل ابجد خانۂ مکتب مجھے یا رب اس آشفتگی کی داد کس سے چاہیے رشک آسائش پہ ہے زندانیوں کی اب مجھے طبع ہے مشتاق لذت ‌ہاۓ حسرت کیا کروں آرزو سے ہے شکست آرزو مطلب مجھے دل لگا کر آپ بھی غالبؔ مجھی سے ہو گئے عشق سے آتے تھے مانع میرزا صاحب مجھے " main-unhen-chheduun-aur-kuchh-na-kahen-mirza-ghalib-ghazals," میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں چل نکلتے جو مے پیے ہوتے قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو کاش کے تم مرے لیے ہوتے میری قسمت میں غم گر اتنا تھا دل بھی یارب کئی دیے ہوتے آ ہی جاتا وہ راہ پر غالبؔ کوئی دن اور بھی جیے ہوتے " khamoshiyon-men-tamaashaa-adaa-nikaltii-hai-mirza-ghalib-ghazals," خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے نگاہ دل سے ترے سرمہ سا نکلتی ہے فشار تنگی خلوت سے بنتی ہے شبنم صبا جو غنچے کے پردے میں جا نکلتی ہے نہ پوچھ سینۂ عاشق سے آب تیغ نگاہ کہ زخم روزن در سے ہوا نکلتی ہے بہ رنگ شیشہ ہوں یک گوشۂ دل خالی کبھی پری مری خلوت میں آ نکلتی ہے بحلقۂ خم گیسو ہے راستی آموز دہان مار سے گویا صبا نکلتی ہے اسد کو حسرت عرض نیاز تھی دم قتل ہنوز یک سخن بے صدا نکلتی ہے " dahr-men-naqsh-e-vafaa-vajh-e-tasallii-na-huaa-mirza-ghalib-ghazals," دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا سبزۂ خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا یہ زمرد بھی حریف دم افعی نہ ہوا میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا دل گزر گاہ خیال مے و ساغر ہی سہی گر نفس جادۂ سر منزل تقوی نہ ہوا ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی گوش منت کش گلبانگ تسلی نہ ہوا کس سے محرومیٔ قسمت کی شکایت کیجے ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں سو وہ بھی نہ ہوا مر گیا صدمۂ یک جنبش لب سے غالبؔ ناتوانی سے حریف دم عیسی نہ ہوا نہ ہوئی ہم سے رقم حیرت خط رخ یار صفحۂ آئنہ جولاں گہ طوطی نہ ہوا وسعت رحمت حق دیکھ کہ بخشا جاوے مجھ سا کافر کہ جو ممنون معاصی نہ ہوا " main-aur-bazm-e-mai-se-yuun-tishna-kaam-aauun-mirza-ghalib-ghazals," میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں گر میں نے کی تھی توبہ ساقی کو کیا ہوا تھا ہے ایک تیر جس میں دونوں چھدے پڑے ہیں وہ دن گئے کہ اپنا دل سے جگر جدا تھا درماندگی میں غالبؔ کچھ بن پڑے تو جانوں جب رشتہ بے گرہ تھا ناخن گرہ کشا تھا " rahiye-ab-aisii-jagah-chal-kar-jahaan-koii-na-ho-mirza-ghalib-ghazals," رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہمزباں کوئی نہ ہو بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو " ug-rahaa-hai-dar-o-diivaar-pe-sabza-gaalib-mirza-ghalib-ghazals," اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے " piinas-men-guzarte-hain-jo-kuuche-se-vo-mere-mirza-ghalib-ghazals," پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے " gair-len-mahfil-men-bose-jaam-ke-mirza-ghalib-ghazals," غیر لیں محفل میں بوسے جام کے ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے خستگی کا تم سے کیا شکوہ کہ یہ ہتکھنڈے ہیں چرخ نیلی فام کے خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم دھوئے دھبے جامۂ احرام کے دل کو آنکھوں نے پھنسایا کیا مگر یہ بھی حلقے ہیں تمہارے دام کے شاہ کے ہے غسل صحت کی خبر دیکھیے کب دن پھریں حمام کے عشق نے غالبؔ نکما کر دیا ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے " hujuum-e-gam-se-yaan-tak-sar-niguunii-mujh-ko-haasil-hai-mirza-ghalib-ghazals," ہجوم غم سے یاں تک سرنگونی مجھ کو حاصل ہے کہ تار دامن و تار نظر میں فرق مشکل ہے رفوئے زخم سے مطلب ہے لذت زخم سوزن کی سمجھیو مت کہ پاس درد سے دیوانہ غافل ہے وہ گل جس گلستاں میں جلوہ فرمائی کرے غالبؔ چٹکنا غنچۂ گل کا صداۓ خندۂ دل ہے ہوا ہے مانع عاشق نوازی ناز خود بینی تکلف بر طرف آئینۂ تمئیز حائل ہے بہ سیل اشک لخت دل ہے دامن گیر مژگاں کا غریق بحر جویائے خس و خاشاک ساحل ہے بہا ہے یاں تک اشکوں میں غبار کلفت خاطر کہ چشم تر میں ہر اک پارۂ دل پائے در گل ہے نکلتی ہے تپش میں بسملوں کی برق کی شوخی غرض اب تک خیال گرمیٔ رفتار قاتل ہے " ham-se-khul-jaao-ba-vaqt-e-mai-parastii-ek-din-mirza-ghalib-ghazals," ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذر مستی ایک دن غرۂ اوج بنائے عالم امکاں نہ ہو اس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے بے صدا ہو جائے گا یہ ساز ہستی ایک دن دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دن " jis-jaa-nasiim-shaanaa-kash-e-zulf-e-yaar-hai-mirza-ghalib-ghazals," جس جا نسیم شانہ کش زلف یار ہے نافہ دماغ آہوئے دشت تتار ہے کس کا سراغ جلوہ ہے حیرت کو اے خدا آئینہ فرش شش جہت انتظار ہے ہے ذرہ ذرہ تنگئ جا سے غبار شوق گر دام یہ ہے وسعت صحرا شکار ہے دل مدعی و دیدہ بنا مدعا علیہ نظارہ کا مقدمہ پھر رو بکار ہے چھڑکے ہے شبنم آئینۂ برگ گل پر آب اے عندلیب وقت وداع بہار ہے پچ آ پڑی ہے وعدۂ دلدار کی مجھے وہ آئے یا نہ آئے پہ یاں انتظار ہے بے پردہ سوئے وادی مجنوں گزر نہ کر ہر ذرہ کے نقاب میں دل بیقرار ہے اے عندلیب یک کف خس بہر آشیاں طوفان آمد آمد فصل بہار ہے دل مت گنوا خبر نہ سہی سیر ہی سہی اے بے دماغ آئینہ تمثال دار ہے غفلت کفیل عمر و اسدؔ ضامن نشاط اے مرگ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے " junuun-tohmat-kash-e-taskiin-na-ho-gar-shaadmaanii-kii-mirza-ghalib-ghazals," جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی نمک پاش خراش دل ہے لذت زندگانی کی کشاکش‌ ہاۓ ہستی سے کرے کیا سعی آزادی ہوئی زنجیر موج آب کو فرصت روانی کی پس از مردن بھی دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے شرار سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی " nafas-na-anjuman-e-aarzuu-se-baahar-khiinch-mirza-ghalib-ghazals," نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ اگر شراب نہیں انتظار ساغر کھینچ کمال گرمی سعیٔ تلاش دید نہ پوچھ برنگ خار مرے آئنہ سے جوہر کھینچ تجھے بہانۂ راحت ہے انتظار اے دل کیا ہے کس نے اشارا کہ ناز بستر کھینچ تری طرف ہے بہ حسرت نظارۂ نرگس بہ کوری دل و چشم رقیب ساغر کھینچ بہ نیم غمزہ ادا کر حق ودیعت ناز نیام پردۂ زخم جگر سے خنجر کھینچ مرے قدح میں ہے صہبائے آتش پنہاں بروئے سفرہ کباب دل سمندر کھینچ نہ کہہ کہ طاقت رسوائی وصال نہیں اگر یہی عرق فتنہ ہے مکرر کھینچ جنون آئنہ مشتاق یک تماشا ہے ہمارے صفحے پہ بال پری سے مسطر کھینچ خمار منت ساقی اگر یہی ہے اسدؔ دل گداختہ کے میکدے میں ساغر کھینچ " kyaa-tang-ham-sitam-zadagaan-kaa-jahaan-hai-mirza-ghalib-ghazals," کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے جس میں کہ ایک بیضۂ مور آسمان ہے ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے پرتو سے آفتاب کے ذرے میں جان ہے حالانکہ ہے یہ سیلی خارا سے لالہ رنگ غافل کو میرے شیشے پہ مے کا گمان ہے کی اس نے گرم سینۂ اہل ہوس میں جا آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے کیا خوب تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے بیٹھا ہے جو کہ سایۂ دیوار یار میں فرماں رواۓ کشور ہندوستان ہے ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹا دیا کس سے کہوں کہ داغ جگر کا نشان ہے ہے بارے اعتماد وفا داری اس قدر غالبؔ ہم اس میں خوش ہیں کہ نامہربان ہے دہلی کے رہنے والو اسدؔ کو ستاؤ مت بے چارہ چند روز کا یاں میہمان ہے " gulshan-ko-tirii-sohbat-az-bas-ki-khush-aaii-hai-mirza-ghalib-ghazals," گلشن کو تری صحبت از بس کہ خوش آئی ہے ہر غنچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے واں کنگر استغنا ہر دم ہے بلندی پر یاں نالے کو اور الٹا دعواۓ رسائی ہے از بس کہ سکھاتا ہے غم ضبط کے اندازے جو داغ نظر آیا اک چشم نمائی ہے " zikr-meraa-ba-badii-bhii-use-manzuur-nahiin-mirza-ghalib-ghazals," ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دور نہیں وعدۂ سیر گلستاں ہے خوشا طالع شوق مژدۂ قتل مقدر ہے جو مذکور نہیں شاہد ہستی مطلق کی کمر ہے عالم لوگ کہتے ہیں کہ ہے پر ہمیں منظور نہیں قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن ہم کو تقلید تنک ظرفی منصور نہیں حسرت اے ذوق خرابی کہ وہ طاقت نہ رہی عشق پر عربدہ کی گوں تن رنجور نہیں میں جو کہتا ہوں کہ ہم لیں گے قیامت میں تمہیں کس رعونت سے وہ کہتے ہیں کہ ہم حور نہیں ظلم کر ظلم اگر لطف دریغ آتا ہو تو تغافل میں کسی رنگ سے معذور نہیں صاف دردی کش پیمانۂ جم ہیں ہم لوگ وائے وہ بادہ کہ افشردۂ انگور نہیں ہوں ظہوری کے مقابل میں خفائی غالبؔ میرے دعوے پہ یہ حجت ہے کہ مشہور نہیں " havas-ko-hai-nashaat-e-kaar-kyaa-kyaa-mirza-ghalib-ghazals," ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا تجاہل پیشگی سے مدعا کیا کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں شکایت ہائے رنگیں کا گلہ کیا نگاہ بے محابا چاہتا ہوں تغافل ہائے تمکیں آزما کیا فروغ شعلۂ خس یک نفس ہے ہوس کو پاس ناموس وفا کیا نفس موج محیط بے خودی ہے تغافل ہائے ساقی کا گلہ کیا دماغ عطر پیراہن نہیں ہے غم آوارگی ہائے صبا کیا دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا محابا کیا ہے میں ضامن ادھر دیکھ شہیدان نگہ کا خوں بہا کیا سن اے غارت گر جنس وفا سن شکست شیشۂ دل کی صدا کیا کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ شکیب خاطر عاشق بھلا کیا یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا بلائے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات عبارت کیا اشارت کیا ادا کیا " kare-hai-baada-tire-lab-se-kasb-e-rang-e-farog-mirza-ghalib-ghazals," کرے ہے بادہ ترے لب سے کسب رنگ فروغ خط پیالہ سراسر نگاہ گل چیں ہے کبھی تو اس دل شوریدہ کی بھی داد ملے کہ ایک عمر سے حسرت پرست بالیں ہے بجا ہے گر نہ سنے نالہ ‌ہائے بلبل زار کہ گوش گل نم شبنم سے پنبہ آگیں ہے اسدؔ ہے نزع میں چل بے وفا برائے خدا مقام ترک حجاب و وداع تمکیں ہے " na-leve-gar-khas-e-jauhar-taraavat-sabza-e-khat-se-mirza-ghalib-ghazals," نہ لیوے گر خس جوہر طراوت سبزۂ خط سے لگائے خانۂ آئینہ میں روئے نگار آتش فروغ حسن سے ہوتی ہے حل مشکل عاشق نہ نکلے شمع کے پا سے نکالے گر نہ خار آتش شرر ہے رنگ بعد اظہار تاب جلوۂ تمکیں کرے ہے سنگ پر خورشید آب روئے کار آتش پناوے بے گداز موم ربط پیکر آرائی نکالے کیا نہال شمع بے تخم شرار آتش خیال دود تھا سر جوش سودائے غلط فہمی اگر رکھتی نہ خاکستر نشینی کا غبار آتش ہوائے پر فشانی برق خرمن ہائے خاطر ہے ببال شعلۂ بیتاب ہے پروانہ زار آتش نہیں برق و شرر جز وحشت ضبط تپیدن ہا بلا گردان بے پروا خرامی ہائے یار آتش دھوئیں سے آگ کے اک ابر دریا بار ہو پیدا اسدؔ حیدر پرستوں سے اگر ہووے دو چار آتش " huzuur-e-shaah-men-ahl-e-sukhan-kii-aazmaaish-hai-mirza-ghalib-ghazals," حضور شاہ میں اہل سخن کی آزمائش ہے چمن میں خوش نوایان چمن کی آزمائش ہے قد و گیسو میں قیس و کوہ کن کی آزمائش ہے جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے کریں گے کوہ کن کے حوصلے کا امتحان آخر ابھی اس خستہ کے نیروے تن کی آزمائش ہے نسیم مصر کو کیا پیر کنعاں کی ہوا خواہی اسے یوسف کی بوئے پیرہن کی آزمائش ہے وہ آیا بزم میں دیکھو نہ کہیو پھر کہ غافل تھے شکیب و صبر اہل انجمن کی آزمائش ہے رہے دل ہی میں تیر اچھا جگر کے پار ہو بہتر غرض شست بت ناوک فگن کی آزمائش ہے نہیں کچھ سبحہ و زنار کے پھندے میں گیرائی وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے پڑا رہ اے دل وابستہ بیتابی سے کیا حاصل مگر پھر تاب زلف پرشکن کی آزمائش ہے رگ و پے میں جب اترے زہر غم تب دیکھیے کیا ہو ابھی تو تلخیٔ کام و دہن کی آزمائش ہے وہ آویں گے مرے گھر وعدہ کیسا دیکھنا غالبؔ نئے فتنوں میں اب چرخ کہن کی آزمائش ہے " ham-par-jafaa-se-tark-e-vafaa-kaa-gumaan-nahiin-mirza-ghalib-ghazals," ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں اک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں کس منہ سے شکر کیجئے اس لطف خاص کا پرسش ہے اور پاے سخن درمیاں نہیں ہم کو ستم عزیز ستم گر کو ہم عزیز نا مہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں بوسہ نہیں نہ دیجیے دشنام ہی سہی آخر زباں تو رکھتے ہو تم گر دہاں نہیں ہر چند جاں گدازی قہر و عتاب ہے ہر چند پشت گرمی تاب و تواں نہیں جاں مطرب ترانۂ ہل من مزید ہے لب پردہ سنج زمزمۂ الاماں نہیں خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دو نیم دل میں چھری چبھو مژہ گر خونچکاں نہیں ہے ننگ سینہ دل اگر آتش کدہ نہ ہو ہے عار دل نفس اگر آذر فشاں نہیں نقصاں نہیں جنوں میں بلا سے ہو گھر خراب سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں کہتے ہو کیا لکھا ہے تری سر نوشت میں گویا جبیں پہ سجدۂ بت کا نشاں نہیں پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے کلام کی روح القدس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں جاں ہے بہائے بوسہ ولے کیوں کہے ابھی غالبؔ کو جانتا ہے کہ وہ نیم جاں نہیں جس جا کہ پائے سیل بلا درمیاں نہیں دیوانگاں کو واں ہوس خانماں نہیں گل غنچگی میں غرقۂ دریائے رنگ ہے اے آگہی فریب تماشا کہاں نہیں کس جرم سے ہے چشم تجھے حسرت قبول برگ حنا مگر مژۂ خوں فشاں نہیں ہر رنگ گردش آئنہ ایجاد درد ہے اشک سحاب جز بہ وداع خزاں نہیں جز عجز کیا کروں بہ تمنائے بے خودی طاقت حریف سختیٔ خواب گراں نہیں عبرت سے پوچھ درد پریشانیٔ نگاہ یہ گرد وہم جز بسر امتحاں نہیں برق بجان حوصلہ آتش فگن اسدؔ اے دل فسردہ طاقت ضبط فغاں نہیں " pae-nazr-e-karam-tohfa-hai-sharm-e-naa-rasaaii-kaa-mirza-ghalib-ghazals," پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نا رسائی کا بہ خوں غلتیدۂ صد رنگ دعویٰ پارسائی کا نہ ہو حسن تماشا دوست رسوا بے وفائی کا بہ مہر صد نظر ثابت ہے دعویٰ پارسائی کا زکات حسن دے اے جلوۂ بینش کہ مہر آسا چراغ خانۂ درویش ہو کاسہ گدائی کا نہ مارا جان کر بے جرم غافل تیری گردن پر رہا مانند خون بے گنہ حق آشنائی کا تمناۓ زباں محو سپاس بے زبانی ہے مٹا جس سے تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا وہی اک بات ہے جو یاں نفس واں نکہت گل ہے چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا دہان ہر بت پیغارہ جو زنجیر رسوائی عدم تک بے وفا چرچا ہے تیری بے وفائی کا نہ دے نالے کو اتنا طول غالبؔ مختصر لکھ دے کہ حسرت سنج ہوں عرض ستم ہائے جدائی کا جہاں مٹ جائے سعیٔ دید خضر آباد آسائش بہ جیب ہر نگہ پنہاں ہے حاصل رہنمائی کا بہ عجز آباد وہم مدعا تسلیم شوخی ہے تغافل کو نہ کر مصروف تمکیں آزمائی کا اسدؔ کا قصہ طولانی ہے لیکن مختصر یہ ہے کہ حسرت کش رہا عرض ستم ہائے جدائی کا ہوس گستاخیٔ آئینہ تکلیف نظر بازی بہ جیب آرزو پنہاں ہے حاصل دل ربائی کا نظر بازی طلسم وحشت آباد پرستاں ہے رہا بیگانۂ تاثیر افسوں آشنائی کا نہ پایا دردمند دوریٔ یاران یک دل نے سواد خط پیشانی سے نسخہ مومیائی کا اسدؔ یہ عجز و بے سامانیٔ فرعون توام ہے جسے تو بندگی کہتا ہے دعویٰ ہے خدائی کا " gar-na-andoh-e-shab-e-furqat-bayaan-ho-jaaegaa-mirza-ghalib-ghazals," گر نہ اندوہ شب فرقت بیاں ہو جائے گا بے تکلف داغ مہ مہر دہاں ہو جائے گا زہرہ گر ایسا ہی شام ہجر میں ہوتا ہے آب پرتو مہتاب سیل خانماں ہو جائے گا لے تو لوں سوتے میں اس کے پانو کا بوسہ مگر ایسی باتوں سے وہ کافر بد گماں ہو جائے گا دل کو ہم صرف وفا سمجھے تھے کیا معلوم تھا یعنی یہ پہلے ہی نذر امتحاں ہو جائے گا سب کے دل میں ہے جگہ تیری جو تو راضی ہوا مجھ پہ گویا اک زمانہ مہرباں ہو جائے گا گر نگاہ گرم فرماتی رہی تعلیم ضبط شعلہ خس میں جیسے خوں رگ میں نہاں ہو جائے گا باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر ہر گل تر ایک چشم خوں فشاں ہو جائے گا واے گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہو جائے گا فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا گر وہ مست ناز دیوے گا صلائے عرض حال خار گل بہر دہان گل زباں ہوجائے گا گر شہادت آرزو ہے نشے میں گستاخ ہو بال شیشے کا رگ سنگ فساں ہوجائے گا " lataafat-be-kasaafat-jalva-paidaa-kar-nahiin-saktii-mirza-ghalib-ghazals," لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی چمن زنگار ہے آئینۂ باد بہاری کا حریف جوشش دریا نہیں خودداری ساحل جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ ہوشیاری کا بہار رنگ خون گل ہے ساماں اشک باری کا جنون برق نشتر ہے رگ ابر بہاری کا برائے حل مشکل ہوں ز پا افتادۂ حسرت بندھا ہے عقدۂ خاطر سے پیماں خاکساری کا بہ وقت سرنگونی ہے تصور انتظارستاں نگہ کو آبلوں سے شغل ہے اختر شماری کا اسدؔ ساغر کش تسلیم ہو گردش سے گردوں کی کہ ننگ فہم مستاں ہے گلہ بد روزگاری کا " biim-e-raqiib-se-nahiin-karte-vida-e-hosh-mirza-ghalib-ghazals," بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش مجبور یاں تلک ہوئے اے اختیار حیف جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اک بار جل گئے اے نا تمامی نفس شعلہ بار حیف " vusat-e-sai-e-karam-dekh-ki-sar-taa-sar-e-khaak-mirza-ghalib-ghazals," وسعت سعی کرم دیکھ کہ سر تا سر خاک گزرے ہے آبلہ پا ابر گہربار ہنوز یک قلم کاغذ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت نقش پا میں ہے تب گرمی رفتار ہنوز داغ اطفال ہے دیوانہ بہ کہسار ہنوز خلوت سنگ میں ہے نالہ طلبگار ہنوز خانہ ہے سیل سے خو کردۂ دیدار ہنوز دوربیں در زدہ ہے رخنۂ دیوار ہنوز آئی یک عمر سے معذور تماشہ نرگس چشم شبنم میں نہ ٹوٹا مژۂ خار ہنوز کیوں ہوا تھا طرف آبلۂ پا یارب جادہ ہے وا شدن پیچش طومار ہنوز ہوں خموشیٔ چمن حسرت دیدار اسدؔ مژہ ہے شانہ کش طرۂ گفتار ہنوز " kyuun-jal-gayaa-na-taab-e-rukh-e-yaar-dekh-kar-mirza-ghalib-ghazals," کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر آتش پرست کہتے ہیں اہل جہاں مجھے سرگرم نالہ ہائے شرربار دیکھ کر کیا آبروئے عشق جہاں عام ہو جفا رکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر آتا ہے میرے قتل کو پر جوش رشک سے مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر ثابت ہوا ہے گردن مینا پہ خون خلق لرزے ہے موج مے تری رفتار دیکھ کر واحسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ ہم کو حریص لذت آزار دیکھ کر بک جاتے ہیں ہم آپ متاع سخن کے ساتھ لیکن عیار طبع خریدار دیکھ کر زنار باندھ سبحۂ صد دانہ توڑ ڈال رہ رو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر کیا بد گماں ہے مجھ سے کہ آئینے میں مرے طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر گرنی تھی ہم پہ برق تجلی نہ طور پر دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر سر پھوڑنا وہ غالبؔ شوریدہ حال کا یاد آ گیا مجھے تری دیوار دیکھ کر " tum-jaano-tum-ko-gair-se-jo-rasm-o-raah-ho-mirza-ghalib-ghazals," تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو بچتے نہیں مواخذۂ روز حشر سے قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواہ ہو کیا وہ بھی بے گنہ کش و حق ناشناس ہیں مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ہو ابھرا ہوا نقاب میں ہے ان کے ایک تار مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو جب مے کدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید مسجد ہو مدرسہ ہو کوئی خانقاہ ہو سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست لیکن خدا کرے وہ ترا جلوہ گاہ ہو غالبؔ بھی گر نہ ہو تو کچھ ایسا ضرر نہیں دنیا ہو یا رب اور مرا بادشاہ ہو " ibn-e-maryam-huaa-kare-koii-mirza-ghalib-ghazals," ابن مریم ہوا کرے کوئی میرے دکھ کی دوا کرے کوئی شرع و آئین پر مدار سہی ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی چال جیسے کڑی کمان کا تیر دل میں ایسے کے جا کرے کوئی بات پر واں زبان کٹتی ہے وہ کہیں اور سنا کرے کوئی بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی نہ سنو گر برا کہے کوئی نہ کہو گر برا کرے کوئی روک لو گر غلط چلے کوئی بخش دو گر خطا کرے کوئی کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند کس کی حاجت روا کرے کوئی کیا کیا خضر نے سکندر سے اب کسے رہنما کرے کوئی جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی " kahte-ho-na-denge-ham-dil-agar-padaa-paayaa-mirza-ghalib-ghazals," کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا دل کہاں کہ گم کیجے ہم نے مدعا پایا عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا دوست دار دشمن ہے اعتماد دل معلوم آہ بے اثر دیکھی نالہ نارسا پایا سادگی و پرکاری بے خودی و ہشیاری حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل خوں کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا حال دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی ہم نے بارہا ڈھونڈا تم نے بارہا پایا شور پند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا بے دماغ خجلت ہوں رشک امتحاں تا کے ایک بیکسی تجھ کو عالم آشنا پایا خاک بازی امید کارخانۂ طفلی یاس کو دو عالم سے لب بہ خندہ وا پایا کیوں نہ وحشت غالب باج خواہ تسکیں ہو کشتۂ تغافل کو خصم خوں بہا پایا فکر نالہ میں گویا حلقہ ہوں ز سر تا پا عضو عضو جوں زنجیر یک دل صدا پایا شب نظارہ پرور تھا خواب میں خیال اس کا صبح موجۂ گل کو نقش بوریا پایا جس قدر جگر خوں ہو کوچہ دادن گل ہے زخم تیغ قاتل کو طرفہ دل کشا پایا ہے مکیں کی پا داری نام صاحب خانہ ہم سے تیرے کوچے نے نقش مدعا پایا نے اسدؔ جفا سائل نے ستم جنوں مائل تجھ کو جس قدر ڈھونڈا الفت آزما پایا " shab-ki-vo-majlis-faroz-e-khalvat-e-naamuus-thaa-mirza-ghalib-ghazals," شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا رشتۂ ہر شمع خار کسوت فانوس تھا مشہد عاشق سے کوسوں تک جو اگتی ہے حنا کس قدر یارب ہلاک حسرت پا بوس تھا حاصل الفت نہ دیکھا جز شکست آرزو دل بہ دل پیوستہ گویا یک لب افسوس تھا کیا کہوں بیماریٔ غم کی فراغت کا بیاں جو کہ کھایا خون دل بے منت کیموس تھا بت پرستی ہے بہار نقش بند یہائے دہر ہر صریر خامہ میں یک نالۂ ناقوس تھا طبع کی واشد نے رنگ یک گلستاں گل کیا یہ دل وابستہ گویا بیضۂ طاؤس تھا کل اسدؔ کو ہم نے دیکھا گوشۂ غم خانہ میں دست برسر سر بزانوئے دل مایوس تھا " dard-se-mere-hai-tujh-ko-be-qaraarii-haae-haae-mirza-ghalib-ghazals," درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے تیرے دل میں گر نہ تھا آشوب غم کا حوصلہ تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے کیوں مری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال دشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائے عمر بھر کا تو نے پیمان وفا باندھا تو کیا عمر کو بھی تو نہیں ہے پائیداری ہائے ہائے زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے گل فشانی ہائے ناز جلوہ کو کیا ہو گیا خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائے شرم رسوائی سے جا چھپنا نقاب خاک میں ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے خاک میں ناموس پیمان محبت مل گئی اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسم یاری ہائے ہائے ہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہا دل پہ اک لگنے نہ پایا زخم کاری ہائے ہائے کس طرح کاٹے کوئی شب ہائے تار برشگال ہے نظر خو کردۂ اختر شماری ہائے ہائے گوش مہجور پیام و چشم محروم جمال ایک دل تس پر یہ نا امید واری ہائے ہائے عشق نے پکڑا نہ تھا غالبؔ ابھی وحشت کا رنگ رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوق خواری ہائے ہائے " tagaaful-dost-huun-meraa-dimaag-e-ajz-aalii-hai-mirza-ghalib-ghazals," تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے رہا آباد عالم اہل ہمت کے نہ ہونے سے بھرے ہیں جس قدر جام و سبو مے خانہ خالی ہے " be-e-tidaaliyon-se-subuk-sab-men-ham-hue-mirza-ghalib-ghazals," بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے ہستی ہماری اپنی فنا پر دلیل ہے یاں تک مٹے کہ آپ ہم اپنی قسم ہوئے سختی کشان عشق کی پوچھے ہے کیا خبر وہ لوگ رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے لکھتے رہے جنوں کی حکایات خوں چکاں ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے اللہ رے تیری تندی خو جس کے بیم سے اجزائے نالہ دل میں مرے رزق ہم ہوئے اہل ہوس کی فتح ہے ترک نبرد عشق جو پانو اٹھ گئے وہی ان کے علم ہوئے نالے عدم میں چند ہمارے سپرد تھے جو واں نہ کھنچ سکے سو وہ یاں آ کے دم ہوئے چھوڑی اسدؔ نہ ہم نے گدائی میں دل لگی سائل ہوئے تو عاشق اہل کرم ہوئے " gam-nahiin-hotaa-hai-aazaadon-ko-besh-az-yak-nafas-mirza-ghalib-ghazals," غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ باز خیال ہیں ورق گردانیٔ نیرنگ یک بت خانہ ہم باوجود یک جہاں ہنگامہ پیدائی نہیں ہیں چراغان شبستان دل پروانہ ہم ضعف سے ہے نے قناعت سے یہ ترک جستجو ہیں وبال تکیہ گاۂ ہمت مردانہ ہم دائم الحبس اس میں ہیں لاکھوں تمنائیں اسدؔ جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم بسکہ ہیں بد مست بشکن بشکن مے خانہ ہم موئے شیشہ کو سمجھتے ہیں خط پیمانہ ہم بسکہ ہر یک موئے زلف افشاں سے ہے تار شعاع پنجۂ خورشید کو سمجھے ہیں دست شانہ ہم مشق از خود رفتگی سے ہیں بہ گلزار خیال آشنا تعبیر خواب سبزۂ بیگانہ ہم فرط بے خوابی سے ہیں شب ہاۓ ہجر یار میں جوں زبان شمع داغ گرمی افسانہ ہم شام غم میں سوز عشق آتش رخسار سے پر فشان سوختن ہیں صورت پروانہ ہم حسرت عرض تمنا یاں سے سمجھا چاہیے دو جہاں حشر زبان خشک ہیں جوں شانہ ہم کشتی عالم بہ طوفان تغافل دے کہ ہیں عالم آب گداز جوہر افسانہ ہم وحشت بے ربطی پیچ و خم ہستی نہ پوچھ ننگ بالیدن ہیں جوں موئے سر دیوانہ ہم " tum-apne-shikve-kii-baaten-na-khod-khod-ke-puuchho-mirza-ghalib-ghazals," تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو حذر کرو مرے دل سے کہ اس میں آگ دبی ہے دلا یہ درد و الم بھی تو مغتنم ہے کہ آخر نہ گریۂ سحری ہے نہ آہ نیم شبی ہے نظر بہ نقص گدایاں کمال بے ادبی ہے کہ خار خشک کو بھی دعواۓ چمن نسبی ہے ہوا وصال سے شوق دل حریص زیادہ لب قدح پہ کف بادہ جوش تشنہ لبی ہے خوشا وہ دل کہ سراپا طلسم بے خبری ہو جنون و یاس و الم رزق مدعا طلبی ہے چمن میں کس کے یہ برہم ہوئی ہے بزم تماشا کہ برگ برگ سمن شیشہ ریزۂ حلبی ہے امام ظاہر و باطن امیر صورت و معنی علیؔ ولی اسداللہ جانشین نبی ہے " garm-e-fariyaad-rakhaa-shakl-e-nihaalii-ne-mujhe-mirza-ghalib-ghazals," گرم فریاد رکھا شکل نہالی نے مجھے تب اماں ہجر میں دی برد لیالی نے مجھے نسیہ و نقد دو عالم کی حقیقت معلوم لے لیا مجھ سے مری ہمت عالی نے مجھے کثرت آرائی وحدت ہے پرستاری وہم کر دیا کافر ان اصنام خیالی نے مجھے ہوس گل کے تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا عجب آرام دیا بے پر و بالی نے مجھے زندگی میں بھی رہا ذوق فنا کا مارا نشہ بخشا غضب اس ساغر خالی نے مجھے بسکہ تھی فصل خزان چمنستان سخن رنگ شہرت نہ دیا تازہ خیالی نے مجھے جلوۂ خور سے فنا ہوتی ہے شبنم غالبؔ کھو دیا سطوت اسماۓ جلالی نے مجھے " phir-huaa-vaqt-ki-ho-baal-kushaa-mauj-e-sharaab-mirza-ghalib-ghazals," پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب دے بط مے کو دل و دست شنا موج شراب پوچھ مت وجہ سیہ مستیٔ ارباب چمن سایۂ تاک میں ہوتی ہے ہوا موج شراب جو ہوا غرقۂ مے بخت رسا رکھتا ہے سر سے گزرے پہ بھی ہے بال ہما موج شراب ہے یہ برسات وہ موسم کہ عجب کیا ہے اگر موج ہستی کو کرے فیض ہوا موج شراب چار موج اٹھتی ہے طوفان طرب سے ہر سو موج گل موج شفق موج صبا موج شراب جس قدر روح نباتی ہے جگر تشنۂ ناز دے ہے تسکیں بہ دم آب بقا موج شراب بسکہ دوڑے ہے رگ تاک میں خوں ہو ہو کر شہپر رنگ سے ہے بال کشا موج شراب موجۂ گل سے چراغاں ہے گزر گاہ خیال ہے تصور میں ز بس جلوہ نما موج شراب نشہ کے پردے میں ہے محو تماشائے دماغ بسکہ رکھتی ہے سر نشو و نما موج شراب ایک عالم پہ ہیں طوفانی کیفیت فصل موجۂ سبزۂ نو خیز سے تا موج شراب شرح ہنگامۂ ہستی ہے زہے موسم گل رہبر قطرہ بہ دریا ہے خوشا موج شراب ہوش اڑتے ہیں مرے جلوۂ گل دیکھ اسدؔ پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب " kaabe-men-jaa-rahaa-to-na-do-taana-kyaa-kahen-mirza-ghalib-ghazals," کعبہ میں جا رہا تو نہ دو طعنہ کیا کہیں بھولا ہوں حق صحبت اہل کنشت کو طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو ہوں منحرف نہ کیوں رہ و رسم ثواب سے ٹیڑھا لگا ہے قط قلم سرنوشت کو غالبؔ کچھ اپنی سعی سے لہنا نہیں مجھے خرمن جلے اگر نہ ملخ کھائے کشت کو " bas-ki-dushvaar-hai-har-kaam-kaa-aasaan-honaa-mirza-ghalib-ghazals," بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا وائے دیوانگی شوق کہ ہر دم مجھ کو آپ جانا ادھر اور آپ ہی حیراں ہونا جلوہ از بس کہ تقاضائے نگہ کرتا ہے جوہر آئنہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا عشرت قتل گہہ اہل تمنا مت پوچھ عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا لے گئے خاک میں ہم داغ تمنائے نشاط تو ہو اور آپ بہ صد رنگ گلستاں ہونا عشرت پارۂ دل زخم تمنا کھانا لذت ریش جگر غرق نمکداں ہونا کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا حیف اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالبؔ جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا " vaan-us-ko-haul-e-dil-hai-to-yaan-main-huun-sharm-saar-mirza-ghalib-ghazals," واں اس کو ہول دل ہے تو یاں میں ہوں شرم سار یعنی یہ میری آہ کی تاثیر سے نہ ہو اپنے کو دیکھتا نہیں ذوق ستم کو دیکھ آئینہ تاکہ دیدۂ نخچیر سے نہ ہو " aaiina-dekh-apnaa-saa-munh-le-ke-rah-gae-mirza-ghalib-ghazals," آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا ضعف جنوں کو وقت تپش در بھی دور تھا اک گھر میں مختصر بیاباں ضرور تھا اے وائے غفلت نگۂ شوق ورنہ یاں ہر پارہ سنگ لخت دل کوہ طور تھا درس تپش ہے برق کو اب جس کے نام سے وہ دل ہے یہ کہ جس کا تخلص صبور تھا ہر رنگ میں جلا اسدؔ فتنہ انتظار پروانۂ تجلی شمع ظہور تھا شاید کہ مر گیا ترے رخسار دیکھ کر پیمانہ رات ماہ کا لبریز نور تھا جنت ہے تیری تیغ کے کشتوں کی منتظر جوہر سواد جلوۂ مژگان حور تھا " nikohish-hai-sazaa-fariyaadi-e-be-daad-e-dilbar-kii-mirza-ghalib-ghazals," نکوہش ہے سزا فریادی بے داد دلبر کی مبادا خندۂ دنداں نما ہو صبح محشر کی رگ لیلیٰ کو خاک دشت مجنوں ریشگی بخشے اگر بووے بجاۓ دانہ دہقاں نوک نشتر کی پر پروانہ شاید بادبان کشتی مے تھا ہوئی مجلس کی گرمی سے روانی دور ساغر کی کروں بے داد ذوق پر فشانی عرض کیا قدرت کہ طاقت اڑ گئی اڑنے سے پہلے میرے شہ پر کی کہاں تک روؤں اس کے خیمے کے پیچھے قیامت ہے مری قسمت میں یارب کیا نہ تھی دیوار پتھر کی بجز دیوانگی ہوتا نہ انجام خود آرائی اگر پیدا نہ کرتا آئنہ زنجیر جوہر کی غرور لطف ساقی نشۂ بیباکی مستاں نم دامان عصیاں ہے طراوت موج کوثر کی مرا دل مانگتے ہیں عاریت اہل ہوس شاید یہ جانا چاہتے ہیں آج دعوت میں سمندر کی اسدؔ جز آب بخشیدن ز دریا خضر کو کیا تھا ڈبوتا چشمۂ حیواں میں گر کشتی سکندر کی " ek-jaa-harf-e-vafaa-likhaa-thaa-so-bhii-mit-gayaa-mirza-ghalib-ghazals," ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا ظاہراً کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے جی جلے ذوق فنا کی ناتمامی پر نہ کیوں ہم نہیں جلتے نفس ہر چند آتش بار ہے آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا ہر کوئی درماندگی میں نالہ سے ناچار ہے ہے وہی بد مستی ہر ذرہ کا خود عذر خواہ جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بیزار ہے آنکھ کی تصویر سر نامے پہ کھینچی ہے کہ تا تجھ پہ کھل جاوے کہ اس کو حسرت دیدار ہے " dil-miraa-soz-e-nihaan-se-be-muhaabaa-jal-gayaa-mirza-ghalib-ghazals," دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا آتش خاموش کی مانند گویا جل گیا دل میں ذوق وصل و یاد یار تک باقی نہیں آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا میری آہ آتشیں سے بال عنقا جل گیا عرض کیجے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا دل نہیں تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار اس چراغاں کا کروں کیا کار فرما جل گیا میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالبؔ کہ دل دیکھ کر طرز تپاک اہل دنیا جل گیا خانمان عاشقاں دکان آتش باز ہے شعلہ رو جب ہو گئے گرم تماشا جل گیا تا کجا افسوس گرمی ہاۓ صحبت اے خیال دل بہ سوز آتش داغ تمنا جل گیا ہے اسدؔ بیگانۂ افسردگی اے بیکسی دل ز انداز تپاک اہل دنیا جل گیا دود میرا سنبلستاں سے کرے ہے ہم سری بسکہ شوق آتش گل سے سراپا جل گیا شمع رویاں کی سر انگشت حنائی دیکھ کر غنچۂ گل پرفشاں پروانہ آسا جل گیا " naala-juz-husn-e-talab-ai-sitam-iijaad-nahiin-mirza-ghalib-ghazals," نالہ جز حسن طلب اے ستم ایجاد نہیں ہے تقاضائے جفا شکوۂ بیداد نہیں عشق و مزدوری عشرت گہ خسرو کیا خوب ہم کو تسلیم نکو نامی فرہاد نہیں کم نہیں وہ بھی خرابی میں پہ وسعت معلوم دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں اہل بینش کو ہے طوفان حوادث مکتب لطمۂ موج کم از سیلئ استاد نہیں وائے محرومی تسلیم و بدا حال وفا جانتا ہے کہ ہمیں طاقت فریاد نہیں رنگ تمکین گل و لالہ پریشاں کیوں ہے گر چراغان سر رہ گزر باد نہیں سبد گل کے تلے بند کرے ہے گلچیں مژدہ اے مرغ کہ گلزار میں صیاد نہیں نفی سے کرتی ہے اثبات تراوش گویا دی ہے جائے دہن اس کو دم ایجاد نہیں کم نہیں جلوہ گری میں ترے کوچے سے بہشت یہی نقشہ ہے ولے اس قدر آباد نہیں کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالبؔ تم کو بے مہری یاران وطن یاد نہیں " jab-ba-taqriib-e-safar-yaar-ne-mahmil-baandhaa-mirza-ghalib-ghazals," جب بہ تقریب سفر یار نے محمل باندھا تپش شوق نے ہر ذرہ پہ اک دل باندھا اہل بینش نے بہ حیرت کدۂ شوخی ناز جوہر آئنہ کو طوطی بسمل باندھا یاس و امید نے یک عربدہ میداں مانگا عجز ہمت نے طلسم دل سائل باندھا نہ بندھے تشنگی ذوق کے مضموں غالبؔ گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا اصطلاحات اسیران تغافل مت پوچھ جو گرہ آپ نہ کھولی اسے مشکل باندھا یار نے تشنگیٔ شوق کے مضموں چاہے ہم نے دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا تپش آئینہ پرواز تمنا لائی نامۂ شوق بہ حال دل بسمل باندھا دیدہ تا دل ہے یک آئینہ چراغاں کس نے خلوت ناز پہ پیرایۂ محفل باندھا ناامیدی نے بہ تقریب مضامین خمار کوچۂ موج کو خمیازۂ ساحل باندھا مطرب دل نے مرے تار نفس سے غالبؔ ساز پر رشتہ پئے نغمۂ بیدلؔ باندھا ناتوانی ہے تماشائی عمر رفتہ رنگ نے آئینہ آنکھوں کے مقابل باندھا نوک ہر خار سے تھا بسکہ سر دزدی زخم چوں نمد ہم نے کف پا پہ اسد دل باندھا " rahaa-gar-koii-taa-qayaamat-salaamat-mirza-ghalib-ghazals," رہا گر کوئی تا قیامت سلامت پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت جگر کو مرے عشق خوں نابہ مشرب لکھے ہے خداوند نعمت سلامت علی الرغم دشمن شہید وفا ہوں مبارک مبارک سلامت سلامت نہیں گر سر و برگ ادراک معنی تماشاۓ نیرنگ صورت سلامت دو عالم کی ہستی پہ خط فنا کھینچ دل و دست ارباب ہمت سلامت نہیں گر بہ کام دل خستہ گردوں جگر خائی جوش حسرت سلامت نہ اوروں کی سنتا نہ کہتا ہوں اپنی سر خستہ دشوار وحشت سلامت وفور بلا ہے ہجوم وفا ہے سلامت ملامت ملامت سلامت نہ فکر سلامت نہ بیم ملامت ز خود رفتگی‌ ہائے حیرت سلامت رہے غالبؔ خستہ مغلوب گردوں یہ کیا بے نیازی ہے حضرت سلامت " laagar-itnaa-huun-ki-gar-tuu-bazm-men-jaa-de-mujhe-mirza-ghalib-ghazals," لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے میرا ذمہ دیکھ کر گر کوئی بتلا دے مجھے کیا تعجب ہے جو اس کو دیکھ کر آ جائے رحم واں تلک کوئی کسی حیلے سے پہنچا دے مجھے منہ نہ دکھلاوے نہ دکھلا پر بہ انداز عتاب کھول کر پردہ ذرا آنکھیں ہی دکھلا دے مجھے یاں تلک میری گرفتاری سے وہ خوش ہے کہ میں زلف گر بن جاؤں تو شانے میں الجھا دے مجھے " paa-ba-daaman-ho-rahaa-huun-bas-ki-main-sahraa-navard-mirza-ghalib-ghazals," پا بہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد خار پا ہیں جوہر آئینۂ زانو مجھے دیکھنا حالت مرے دل کی ہم آغوشی کے وقت ہے نگاہ آشنا تیرا سر ہر مو مجھے ہوں سراپا ساز آہنگ شکایت کچھ نہ پوچھ ہے یہی بہتر کہ لوگوں میں نہ چھیڑے تو مجھے باعث واماندگی ہے عمر فرصت جو مجھے کر دیا ہے پا بہ زنجیر رم آہو مجھے خاک فرصت برسر ذوق فنا اے انتظار ہے غبار شیشۂ ساعت رم آہو مجھے ہم زباں آیا نظر فکر سخن میں تو مجھے مردمک ہے طوطیٔ آئینۂ زانو مجھے یاد مژگاں میں بہ نشتر زار سودائے خیال چاہیے وقت تپش یک دست صد پہلو مجھے اضطراب عمر بے مطلب نہیں آخر کہ ہے جستجوئے فرصت ربط سر زانو مجھے چاہیے درمان ریش دل بھی تیغ یار سے مرم زنگار ہے وہ وسمۂ ابرو مجھے کثرت جور و ستم سے ہو گیا ہوں بے دماغ خوب رویوں نے بنایا غالبؔ بد خو مجھے فرصت آرام غش ہستی ہے بحران عدم ہے شکست رنگ امکاں گردش پہلو مجھے ساز ایمائے فنا ہے عالم پیری اسدؔ قامت خم سے ہے حاصل شوخیٔ ابرو مجھے " nahiin-hai-zakhm-koii-bakhiye-ke-dar-khur-mire-tan-men-mirza-ghalib-ghazals," نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے در خور مرے تن میں ہوا ہے تار اشک یاس رشتہ چشم سوزن میں ہوئی ہے مانع ذوق تماشا خانہ ویرانی کف سیلاب باقی ہے بہ رنگ پنبہ روزن میں ودیعت خانۂ بیداد کاوش‌ ہاۓ مژگاں ہوں نگین نام شاہد ہے مرے ہر قطرۂ خوں تن میں بیاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی شب مہ ہو جو رکھ دوں پنبہ دیواروں کے روزن میں نکوہش مانع بے ربطی شور جنوں آئی ہوا ہے خندۂ احباب بخیہ جیب و دامن میں ہوئے اس مہروش کے جلوۂ تمثال کے آگے پرافشاں جوہر آئینے میں مثل ذرہ روزن میں نہ جانوں نیک ہوں یا بد ہوں پر صحبت مخالف ہے جو گل ہوں تو ہوں گلخن میں جو خس ہوں تو ہوں گلشن میں ہزاروں دل دیے جوش جنون عشق نے مجھ کو سیہ ہو کر سویدا ہو گیا ہر قطرۂ خوں تن میں اسدؔ زندانی تاثیر الفت ‌ہاۓ خوباں ہوں خم دست نوازش ہو گیا ہے طوق گردن میں فزوں کی دوستوں نے حرص قاتل ذوق کشتن میں ہوئے ہیں بخیہ ہائے زخم جوہر تیغ دشمن میں تماشا کردنی ہے لطف زخم انتظار اے دل سویدا داغ مرہم مردمک ہے چشم سوزن میں دل و دین و خرد تاراج ناز جلوہ پیرائی ہوا ہے جوہر آئینہ خیل مور خرمن میں نکوہش مانع دیوانگی ہائے جنوں آئی لگایا خندۂ ناصح نے بخیہ جیب و دامن میں " sab-kahaan-kuchh-laala-o-gul-men-numaayaan-ho-gaiin-mirza-ghalib-ghazals," سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں تھیں بنات النعش گردوں دن کو پردے میں نہاں شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر لیکن آنکھیں روزن دیوار زنداں ہو گئیں سب رقیبوں سے ہوں نا خوش پر زنان مصر سے ہے زلیخا خوش کہ محو ماہ کنعاں ہو گئیں جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام قدرت حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گئیں نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں وہ نگاہیں کیوں ہوئی جاتی ہیں یارب دل کے پار جو مری کوتاہیٔ قسمت سے مژگاں ہو گئیں بسکہ روکا میں نے اور سینے میں ابھریں پے بہ پے میری آہیں بخیۂ چاک گریباں ہو گئیں واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب یاد تھیں جتنی دعائیں صرف درباں ہو گئیں جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جاں ہو گئیں ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں " kaar-gaah-e-hastii-men-laala-daag-saamaan-hai-mirza-ghalib-ghazals," کارگاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے برق خرمن راحت خون گرم دہقاں ہے غنچہ تا شگفتن ہا برگ عافیت معلوم باوجود دل جمعی خواب گل پریشاں ہے ہم سے رنج بیتابی کس طرح اٹھایا جائے داغ پشت دست عجز شعلہ خس بہ دنداں ہے عشق کے تغافل سے ہرزہ گرد ہے عالم روئے شش جہت آفاق پشت چشم زنداں ہے حیرت تپیدن ہا خوں بہائے دیدن ہا رنگ گل کے پردے میں آئینہ پر افشاں ہے وحشت انجمن ہے گل دیکھ لالے کا عالم مثل دود مجمر کے داغ بال افشاں ہے اے کرم نہ ہو غافل ورنہ ہے اسد بیدل بے گھر صدف گویا پشت چشم نیساں ہے " gaafil-ba-vahm-e-naaz-khud-aaraa-hai-varna-yaan-mirza-ghalib-ghazals," غافل بہ وہم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں بے شانۂ صبا نہیں طرہ گیاہ کا بزم قدح سے عیش تمنا نہ رکھ کہ رنگ صید ز دام جستہ ہے اس دام گاہ کا رحمت اگر قبول کرے کیا بعید ہے شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں کہ ہے پر گل خیال زخم سے دامن نگاہ کا جاں در ہواۓ یک نگۂ گرم ہے اسدؔ پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ کا عزلت گزین بزم ہیں واماندگان دید مینائے مے ہے آبلہ پائے نگاہ کا ہر گام آبلے سے ہے دل در تہ قدم کیا بیم اہل درد کو سختیٔ راہ کا طاؤس در رکاب ہے ہر ذرہ آہ کا یارب نفس غبار ہے کس جلوہ گاہ کا جیب نیاز عشق نشاں دار ناز ہے آئینہ ہوں شکستن طرف کلاہ کا " laazim-thaa-ki-dekho-miraa-rastaa-koii-din-aur-mirza-ghalib-ghazals," لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور مٹ جائے گا سر گر ترا پتھر نہ گھسے گا ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ جاؤں مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور تم ماہ شب چار دہم تھے مرے گھر کے پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور تم کون سے تھے ایسے کھرے داد و ستد کے کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور مجھ سے تمہیں نفرت سہی نیر سے لڑائی بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور گزری نہ بہ ہر حال یہ مدت خوش و نا خوش کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہیں غالبؔ قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور " asad-ham-vo-junuun-jaulaan-gadaa-e-be-sar-o-paa-hain-mirza-ghalib-ghazals," اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گداۓ بے سر و پا ہیں کہ ہے سر پنجۂ مژگان آہو پشت خار اپنا " jaraahat-tohfa-almaas-armugaan-daag-e-jigar-hadiya-mirza-ghalib-ghazals," جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغ جگر ہدیہ مبارک باد اسدؔ غم خوار جان دردمند آیا جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا سویدا تا بلب زنجیری دود سپند آیا مہ اختر فشاں کی بہر استقبال آنکھوں سے تماشا کشور آئینہ میں آئینہ بند آیا تغافل بد گمانی بلکہ میری سخت جانی سے نگاہ بے حجاب ناز کو بیم گزند آیا فضا خندہ گل تنگ و ذوق عیش بے پردا فراغت گاہ آغوش وداع دل پسند آیا عدم ہے خیر خواہ جلوہ کو زندان بیتابی خرام ناز برق خرمن سعی سپند آیا " jo-na-naqd-e-daag-e-dil-kii-kare-shola-paasbaanii-mirza-ghalib-ghazals," جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی تو فسردگی نہاں ہے بہ کمین بے زبانی مجھے اس سے کیا توقع بہ زمانۂ جوانی کبھی کودکی میں جس نے نہ سنی مری کہانی یوں ہی دکھ کسی کو دینا نہیں خوب ورنہ کہتا کہ مرے عدو کو یا رب ملے میری زندگانی " aaiina-kyuun-na-duun-ki-tamaashaa-kahen-jise-mirza-ghalib-ghazals," آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے حسرت نے لا رکھا تری بزم خیال میں گلدستۂ نگاہ سویدا کہیں جسے پھونکا ہے کس نے گوش محبت میں اے خدا افسون انتظار تمنا کہیں جسے سر پر ہجوم درد غریبی سے ڈالیے وہ ایک مشت خاک کہ صحرا کہیں جسے ہے چشم تر میں حسرت دیدار سے نہاں شوق عناں گسیختہ دریا کہیں جسے درکار ہے شگفتن گل ہائے عیش کو صبح بہار پنبۂ مینا کہیں جسے غالبؔ برا نہ مان جو واعظ برا کہے ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے یا رب ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو یہ محشر خیال کہ دنیا کہیں جسے ہے انتظار سے شرر آباد رستخیز مژگان کوہکن رگ خارا کہیں جسے کس فرصت وصال پہ ہے گل کو عندلیب زخم فراق خندۂ بیجا کہیں جسے " har-ek-baat-pe-kahte-ho-tum-ki-tuu-kyaa-hai-mirza-ghalib-ghazals," ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے نہ شعلہ میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے وگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہے چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز سوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہے پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے " arz-e-naaz-e-shokhi-e-dandaan-baraae-khanda-hai-mirza-ghalib-ghazals," عرض ناز شوخیٔ دنداں برائے خندہ ہے دعواۓ جمعیت احباب جاۓ خندہ ہے ہے عدم میں غنچہ محو عبرت انجام گل یک جہاں زانو تأمل در قفاۓ خندہ ہے کلفت افسردگی کو عیش بیتابی حرام ورنہ دنداں در دل افشردن بناۓ خندہ ہے شورش باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں دل محیط گریہ و لب آشناۓ خندہ ہے خود فروشی ہاۓ ہستی بسکہ جاۓ خندہ ہے ہر شکست قیمت دل میں صداۓ خندہ ہے نقش عبرت در نظر یا نقد عشرت در بساط دو جہاں وسعت بہ قدر یک فضاۓ خندہ ہے جاۓ استہزا ہے عشرت کوشی ہستی اسدؔ صبح و شبنم فرصت نشو و نماۓ خندہ ہے " ek-ek-qatre-kaa-mujhe-denaa-padaa-hisaab-mirza-ghalib-ghazals," ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب خون جگر ودیعت مژگان یار تھا اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو توڑا جو تو نے آئنہ تمثال دار تھا گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں جاں دادۂ ہوائے سر رہ گزار تھا موج سراب دشت وفا کا نہ پوچھ حال ہر ذرہ مثل جوہر تیغ آب دار تھا کم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو پر اب دیکھا تو کم ہوئے پہ غم روزگار تھا کس کا جنون دید تمنا شکار تھا آئینہ خانہ وادیٔ جوہر غبار تھا کس کا خیال آئنۂ انتظار تھا ہر برگ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا جوں غنچہ و گل آفت فال نظر نہ پوچھ پیکاں سے تیرے جلوۂ زخم آشکار تھا دیکھی وفائے فرصت رنج و نشاط دہر خمیازہ یک درازی عمر خمار تھا صبح قیامت ایک دم گرگ تھی اسدؔ جس دشت میں وہ شوخ دو عالم شکار تھا " ham-rashk-ko-apne-bhii-gavaaraa-nahiin-karte-mirza-ghalib-ghazals," ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے مرتے ہیں ولے ان کی تمنا نہیں کرتے در پردہ انہیں غیر سے ہے ربط نہانی ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردا نہیں کرتے یہ باعث نومیدی ارباب ہوس ہے غالبؔ کو برا کہتے ہیں اچھا نہیں کرتے " sar-gashtagii-men-aalam-e-hastii-se-yaas-hai-mirza-ghalib-ghazals," سرگشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے تسکیں کو دے نوید کہ مرنے کی آس ہے لیتا نہیں مرے دل آوارہ کی خبر اب تک وہ جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے کیجیے بیاں سرور تپ غم کہاں تلک ہر مو مرے بدن پہ زبان سپاس ہے ہے وہ غرور حسن سے بیگانۂ وفا ہرچند اس کے پاس دل حق شناس ہے پی جس قدر ملے شب مہتاب میں شراب اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے کیا غم ہے اس کو جس کا علیؔ سا امام ہو اتنا بھی اے فلک زدہ کیوں بد حواس ہے " himmat-e-iltijaa-nahiin-baaqii-faiz-ahmad-faiz-ghazals," ہمت التجا نہیں باقی ضبط کا حوصلہ نہیں باقی اک تری دید چھن گئی مجھ سے ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی اپنی مشق ستم سے ہاتھ نہ کھینچ میں نہیں یا وفا نہیں باقی تیری چشم الم نواز کی خیر دل میں کوئی گلا نہیں باقی ہو چکا ختم عہد ہجر و وصال زندگی میں مزا نہیں باقی " chaand-nikle-kisii-jaanib-tirii-zebaaii-kaa-faiz-ahmad-faiz-ghazals," چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا رنگ بدلے کسی صورت شب تنہائی کا دولت لب سے پھر اے خسرو شیریں دہناں آج ارزاں ہو کوئی حرف شناسائی کا گرمئی رشک سے ہر انجمن گل بدناں تذکرہ چھیڑے تری پیرہن آرائی کا صحن گلشن میں کبھی اے شہ شمشاد قداں پھر نظر آئے سلیقہ تری رعنائی کا ایک بار اور مسیحائے دل دل زدگاں کوئی وعدہ کوئی اقرار مسیحائی کا دیدہ و دل کو سنبھالو کہ سر شام فراق ساز و سامان بہم پہنچا ہے رسوائی کا " kuchh-pahle-in-aankhon-aage-kyaa-kyaa-na-nazaaraa-guzre-thaa-faiz-ahmad-faiz-ghazals," کچھ پہلے ان آنکھوں آگے کیا کیا نہ نظارا گزرے تھا کیا روشن ہو جاتی تھی گلی جب یار ہمارا گزرے تھا تھے کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے غم سے فرصت تھی سب پوچھیں تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا اب کے خزاں ایسی ٹھہری وہ سارے زمانے بھول گئے جب موسم گل ہر پھیرے میں آ آ کے دوبارا گزرے تھا تھی یاروں کی بہتات تو ہم اغیار سے بھی بیزار نہ تھے جب مل بیٹھے تو دشمن کا بھی ساتھ گوارا گزرے تھا اب تو ہاتھ سجھائی نہ دیوے لیکن اب سے پہلے تو آنکھ اٹھتے ہی ایک نظر میں عالم سارا گزرے تھا " ab-jo-koii-puuchhe-bhii-to-us-se-kyaa-sharh-e-haalaat-karen-faiz-ahmad-faiz-ghazals," اب جو کوئی پوچھے بھی تو اس سے کیا شرح حالات کریں دل ٹھہرے تو درد سنائیں درد تھمے تو بات کریں شام ہوئی پھر جوش قدح نے بزم حریفاں روشن کی گھر کو آگ لگائیں ہم بھی روشن اپنی رات کریں قتل دل و جاں اپنے سر ہے اپنا لہو اپنی گردن پہ مہر بہ لب بیٹھے ہیں کس کا شکوہ کس کے ساتھ کریں ہجر میں شب بھر درد و طلب کے چاند ستارے ساتھ رہے صبح کی ویرانی میں یارو کیسے بسر اوقات کریں " yuun-sajaa-chaand-ki-jhalkaa-tire-andaaz-kaa-rang-faiz-ahmad-faiz-ghazals," یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہم راز کا رنگ سایۂ چشم میں حیراں رخ روشن کا جمال سرخیٔ لب میں پریشاں تری آواز کا رنگ بے پیے ہوں کہ اگر لطف کرو آخر شب شیشۂ مے میں ڈھلے صبح کے آغاز کا رنگ چنگ و نے رنگ پہ تھے اپنے لہو کے دم سے دل نے لے بدلی تو مدھم ہوا ہر ساز کا رنگ اک سخن اور کہ پھر رنگ تکلم تیرا حرف سادہ کو عنایت کرے اعجاز کا رنگ " sabhii-kuchh-hai-teraa-diyaa-huaa-sabhii-raahaten-sabhii-kulfaten-faiz-ahmad-faiz-ghazals," سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں کبھی صحبتیں کبھی فرقتیں کبھی دوریاں کبھی قربتیں یہ سخن جو ہم نے رقم کیے یہ ہیں سب ورق تری یاد کے کوئی لمحہ صبح وصال کا کوئی شام ہجر کی مدتیں جو تمہاری مان لیں ناصحا تو رہے گا دامن دل میں کیا نہ کسی عدو کی عداوتیں نہ کسی صنم کی مروتیں چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم جو بچا ہے مقتل شہر میں یہ مزار اہل صفا کے ہیں یہ ہیں اہل صدق کی تربتیں مری جان آج کا غم نہ کر کہ نہ جانے کاتب وقت نے کسی اپنے کل میں بھی بھول کر کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں " ham-par-tumhaarii-chaah-kaa-ilzaam-hii-to-hai-faiz-ahmad-faiz-ghazals," ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے دشنام تو نہیں ہے یہ اکرام ہی تو ہے کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں شوق فضول و الفت ناکام ہی تو ہے دل مدعی کے حرف ملامت سے شاد ہے اے جان جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے دست فلک میں گردش تقدیر تو نہیں دست فلک میں گردش ایام ہی تو ہے آخر تو ایک روز کرے گی نظر وفا وہ یار خوش خصال سر بام ہی تو ہے بھیگی ہے رات فیضؔ غزل ابتدا کرو وقت سرود درد کا ہنگام ہی تو ہے " nasiib-aazmaane-ke-din-aa-rahe-hain-faiz-ahmad-faiz-ghazals," نصیب آزمانے کے دن آ رہے ہیں قریب ان کے آنے کے دن آ رہے ہیں جو دل سے کہا ہے جو دل سے سنا ہے سب ان کو سنانے کے دن آ رہے ہیں ابھی سے دل و جاں سر راہ رکھ دو کہ لٹنے لٹانے کے دن آ رہے ہیں ٹپکنے لگی ان نگاہوں سے مستی نگاہیں چرانے کے دن آ رہے ہیں صبا پھر ہمیں پوچھتی پھر رہی ہے چمن کو سجانے کے دن آ رہے ہیں چلو فیضؔ پھر سے کہیں دل لگائیں سنا ہے ٹھکانے کے دن آ رہے ہیں " na-ganvaao-naavak-e-niim-kash-dil-e-reza-reza-ganvaa-diyaa-faiz-ahmad-faiz-ghazals," نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا مرے چارہ گر کو نوید ہو صف دشمناں کو خبر کرو جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا ادھر ایک حرف کہ کشتنی یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی جو کہا تو سن کے اڑا دیا جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا " kabhii-kabhii-yaad-men-ubharte-hain-naqsh-e-maazii-mite-mite-se-faiz-ahmad-faiz-ghazals," کبھی کبھی یاد میں ابھرتے ہیں نقش ماضی مٹے مٹے سے وہ آزمائش دل و نظر کی وہ قربتیں سی وہ فاصلے سے کبھی کبھی آرزو کے صحرا میں آ کے رکتے ہیں قافلے سے وہ ساری باتیں لگاؤ کی سی وہ سارے عنواں وصال کے سے نگاہ و دل کو قرار کیسا نشاط و غم میں کمی کہاں کی وہ جب ملے ہیں تو ان سے ہر بار کی ہے الفت نئے سرے سے بہت گراں ہے یہ عیش تنہا کہیں سبک تر کہیں گوارا وہ درد پنہاں کہ ساری دنیا رفیق تھی جس کے واسطے سے تمہیں کہو رند و محتسب میں ہے آج شب کون فرق ایسا یہ آ کے بیٹھے ہیں میکدے میں وہ اٹھ کے آئے ہیں میکدے سے " sab-qatl-ho-ke-tere-muqaabil-se-aae-hain-faiz-ahmad-faiz-ghazals," سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں ہم لوگ سرخ رو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں شمع نظر خیال کے انجم جگر کے داغ جتنے چراغ ہیں تری محفل سے آئے ہیں اٹھ کر تو آ گئے ہیں تری بزم سے مگر کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں ہر اک قدم اجل تھا ہر اک گام زندگی ہم گھوم پھر کے کوچۂ قاتل سے آئے ہیں باد خزاں کا شکر کرو فیضؔ جس کے ہاتھ نامے کسی بہار شمائل سے آئے ہیں " dil-men-ab-yuun-tire-bhuule-hue-gam-aate-hain-faiz-ahmad-faiz-ghazals," دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں جیسے بچھڑے ہوئے کعبہ میں صنم آتے ہیں ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں رقص مے تیز کرو ساز کی لے تیز کرو سوئے مے خانہ سفیران حرم آتے ہیں کچھ ہمیں کو نہیں احسان اٹھانے کا دماغ وہ تو جب آتے ہیں مائل بہ کرم آتے ہیں اور کچھ دیر نہ گزرے شب فرقت سے کہو دل بھی کم دکھتا ہے وہ یاد بھی کم آتے ہیں " aae-kuchh-abr-kuchh-sharaab-aae-faiz-ahmad-faiz-ghazals," آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے اس کے بعد آئے جو عذاب آئے بام مینا سے ماہتاب اترے دست ساقی میں آفتاب آئے ہر رگ خوں میں پھر چراغاں ہو سامنے پھر وہ بے نقاب آئے عمر کے ہر ورق پہ دل کی نظر تیری مہر و وفا کے باب آئے کر رہا تھا غم جہاں کا حساب آج تم یاد بے حساب آئے نہ گئی تیرے غم کی سرداری دل میں یوں روز انقلاب آئے جل اٹھے بزم غیر کے در و بام جب بھی ہم خانماں خراب آئے اس طرح اپنی خامشی گونجی گویا ہر سمت سے جواب آئے فیضؔ تھی راہ سر بسر منزل ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے " ishq-minnat-e-kash-e-qaraar-nahiin-faiz-ahmad-faiz-ghazals," عشق منت کش قرار نہیں حسن مجبور انتظار نہیں تیری رنجش کی انتہا معلوم حسرتوں کا مری شمار نہیں اپنی نظریں بکھیر دے ساقی مے بہ اندازۂ خمار نہیں زیر لب ہے ابھی تبسم دوست منتشر جلوۂ بہار نہیں اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں چارۂ انتظار کون کرے تیری نفرت بھی استوار نہیں فیضؔ زندہ رہیں وہ ہیں تو سہی کیا ہوا گر وفا شعار نہیں " aaj-yuun-mauj-dar-mauj-gam-tham-gayaa-is-tarah-gam-zadon-ko-qaraar-aa-gayaa-faiz-ahmad-faiz-ghazals-1," آج یوں موج در موج غم تھم گیا اس طرح غم زدوں کو قرار آ گیا جیسے خوشبوئے زلف بہار آ گئی جیسے پیغام دیدار یار آ گیا جس کی دید و طلب وہم سمجھے تھے ہم رو بہ رو پھر سر رہ گزار آ گیا صبح فردا کو پھر دل ترسنے لگا عمر رفتہ ترا اعتبار آ گیا رت بدلنے لگی رنگ دل دیکھنا رنگ گلشن سے اب حال کھلتا نہیں زخم چھلکا کوئی یا کوئی گل کھلا اشک امڈے کہ ابر بہار آ گیا خون عشاق سے جام بھرنے لگے دل سلگنے لگے داغ جلنے لگے محفل درد پھر رنگ پر آ گئی پھر شب آرزو پر نکھار آ گیا سرفروشی کے انداز بدلے گئے دعوت قتل پر مقتل شہر میں ڈال کر کوئی گردن میں طوق آ گیا لاد کر کوئی کاندھے پہ دار آ گیا فیضؔ کیا جانیے یار کس آس پر منتظر ہیں کہ لائے گا کوئی خبر مے کشوں پر ہوا محتسب مہرباں دل فگاروں پہ قاتل کو پیار آ گیا " ye-jafaa-e-gam-kaa-chaara-vo-najaat-e-dil-kaa-aalam-faiz-ahmad-faiz-ghazals," یہ جفائے غم کا چارہ وہ نجات دل کا عالم ترا حسن دست عیسیٰ تری یاد روئے مریم دل و جاں فدائے راہے کبھی آ کے دیکھ ہمدم سر کوئے دل فگاراں شب آرزو کا عالم تری دید سے سوا ہے ترے شوق میں بہاراں وہ چمن جہاں گری ہے ترے گیسوؤں کی شبنم یہ عجب قیامتیں ہیں ترے رہ گزر میں گزراں نہ ہوا کہ مر مٹیں ہم نہ ہوا کہ جی اٹھیں ہم لو سنی گئی ہماری یوں پھرے ہیں دن کہ پھر سے وہی گوشۂ قفس ہے وہی فصل گل کا ماتم " go-sab-ko-baham-saagar-o-baada-to-nahiin-thaa-faiz-ahmad-faiz-ghazals," گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا منزل کو نہ پہچانے رہ عشق کا راہی ناداں ہی سہی ایسا بھی سادہ تو نہیں تھا تھک کر یوں ہی پل بھر کے لیے آنکھ لگی تھی سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو نہیں تھا واعظ سے رہ و رسم رہی رند سے صحبت فرق ان میں کوئی اتنا زیادہ تو نہیں تھا " hamiin-se-apnii-navaa-ham-kalaam-hotii-rahii-faiz-ahmad-faiz-ghazals," ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی مقابل صف اعدا جسے کیا آغاز وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی کوئی مسیحا نہ ایفائے عہد کو پہنچا بہت تلاش پس قتل عام ہوتی رہی یہ برہمن کا کرم وہ عطائے شیخ حرم کبھی حیات کبھی مے حرام ہوتی رہی جو کچھ بھی بن نہ پڑا فیضؔ لٹ کے یاروں سے تو رہزنوں سے دعا و سلام ہوتی رہی " gulon-men-rang-bhare-baad-e-nau-bahaar-chale-faiz-ahmad-faiz-ghazals," گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے کبھی تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز کبھی تو شب سر کاکل سے مشکبار چلے بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے " hairaan-hai-jabiin-aaj-kidhar-sajda-ravaa-hai-faiz-ahmad-faiz-ghazals," حیراں ہے جبیں آج کدھر سجدہ روا ہے سر پر ہیں خداوند سر عرش خدا ہے کب تک اسے سینچو گے تمنائے ثمر میں یہ صبر کا پودا تو نہ پھولا نہ پھلا ہے ملتا ہے خراج اس کو تری نان جویں سے ہر بادشہ وقت ترے در کا گدا ہے ہر ایک عقوبت سے ہے تلخی میں سوا تر وہ رنگ جو ناکردہ گناہوں کی سزا ہے احسان لیے کتنے مسیحا نفسوں کے کیا کیجیے دل کا نہ جلا ہے نہ بجھا ہے " ham-ne-sab-sher-men-sanvaare-the-faiz-ahmad-faiz-ghazals," ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے رنگ و خوشبو کے حسن و خوبی کے تم سے تھے جتنے استعارے تھے تیرے قول و قرار سے پہلے اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے جب وہ لعل و گہر حساب کیے جو ترے غم نے دل پہ وارے تھے میرے دامن میں آ گرے سارے جتنے طشت فلک میں تارے تھے عمر جاوید کی دعا کرتے فیضؔ اتنے وہ کب ہمارے تھے " vo-buton-ne-daale-hain-vasvase-ki-dilon-se-khauf-e-khudaa-gayaa-faiz-ahmad-faiz-ghazals," وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا جو نفس تھا خار گلو بنا جو اٹھے تھے ہاتھ لہو ہوئے وہ نشاط آہ سحر گئی وہ وقار دست دعا گیا نہ وہ رنگ فصل بہار کا نہ روش وہ ابر بہار کی جس ادا سے یار تھے آشنا وہ مزاج باد صبا گیا جو طلب پہ عہد وفا کیا تو وہ آبروئے وفا گئی سر عام جب ہوئے مدعی تو ثواب صدق و صفا گیا ابھی بادبان کو تہ رکھو ابھی مضطرب ہے رخ ہوا کسی راستے میں ہے منتظر وہ سکوں جو آ کے چلا گیا " shaam-e-firaaq-ab-na-puuchh-aaii-aur-aa-ke-tal-gaii-faiz-ahmad-faiz-ghazals," شام فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی دل تھا کہ پھر بہل گیا جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی بزم خیال میں ترے حسن کی شمع جل گئی درد کا چاند بجھ گیا ہجر کی رات ڈھل گئی جب تجھے یاد کر لیا صبح مہک مہک اٹھی جب ترا غم جگا لیا رات مچل مچل گئی دل سے تو ہر معاملہ کر کے چلے تھے صاف ہم کہنے میں ان کے سامنے بات بدل بدل گئی آخر شب کے ہم سفر فیضؔ نہ جانے کیا ہوئے رہ گئی کس جگہ صبا صبح کدھر نکل گئی " baat-bas-se-nikal-chalii-hai-faiz-ahmad-faiz-ghazals," بات بس سے نکل چلی ہے دل کی حالت سنبھل چلی ہے اب جنوں حد سے بڑھ چلا ہے اب طبیعت بہل چلی ہے اشک خوناب ہو چلے ہیں غم کی رنگت بدل چلی ہے یا یوں ہی بجھ رہی ہیں شمعیں یا شب ہجر ٹل چلی ہے لاکھ پیغام ہو گئے ہیں جب صبا ایک پل چلی ہے جاؤ اب سو رہو ستارو درد کی رات ڈھل چلی ہے " nahiin-nigaah-men-manzil-to-justujuu-hii-sahii-faiz-ahmad-faiz-ghazals," نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں نماز شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی کسی طرح تو جمے بزم مے کدے والو نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل کسی کے وعدۂ فردا کی گفتگو ہی سہی دیار غیر میں محرم اگر نہیں کوئی تو فیضؔ ذکر وطن اپنے روبرو ہی سہی " rang-pairaahan-kaa-khushbuu-zulf-lahraane-kaa-naam-faiz-ahmad-faiz-ghazals," رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام دوستو اس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر گلستاں کی بات رنگیں ہے نہ مے خانے کا نام پھر نظر میں پھول مہکے دل میں پھر شمعیں جلیں پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام دلبری ٹھہرا زبان خلق کھلوانے کا نام اب نہیں لیتے پری رو زلف بکھرانے کا نام اب کسی لیلیٰ کو بھی اقرار محبوبی نہیں ان دنوں بدنام ہے ہر ایک دیوانے کا نام محتسب کی خیر اونچا ہے اسی کے فیض سے رند کا ساقی کا مے کا خم کا پیمانے کا نام ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبان چمن تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام فیضؔ ان کو ہے تقاضائے وفا ہم سے جنہیں آشنا کے نام سے پیارا ہے بیگانے کا نام " kab-thahregaa-dard-ai-dil-kab-raat-basar-hogii-faiz-ahmad-faiz-ghazals," کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی کب جان لہو ہوگی کب اشک گہر ہوگا کس دن تری شنوائی اے دیدۂ تر ہوگی کب مہکے گی فصل گل کب بہکے گا مے خانہ کب صبح سخن ہوگی کب شام نظر ہوگی واعظ ہے نہ زاہد ہے ناصح ہے نہ قاتل ہے اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہوگی کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامت جانانہ کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہوگی " darbaar-men-ab-satvat-e-shaahii-kii-alaamat-faiz-ahmad-faiz-ghazals," دربار میں اب سطوت شاہی کی علامت درباں کا عصا ہے کہ مصنف کا قلم ہے آوارہ ہے پھر کوہ ندا پر جو بشارت تمہید مسرت ہے کہ طول شب غم ہے جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے جس نور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں یہ خون شہیداں ہے کہ زر خانۂ جم ہے حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے " vafaa-e-vaada-nahiin-vaada-e-digar-bhii-nahiin-faiz-ahmad-faiz-ghazals," وفائے وعدہ نہیں وعدۂ دگر بھی نہیں وہ مجھ سے روٹھے تو تھے لیکن اس قدر بھی نہیں برس رہی ہے حریم ہوس میں دولت حسن گدائے عشق کے کاسے میں اک نظر بھی نہیں نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں نگاہ شوق سر بزم بے حجاب نہ ہو وہ بے خبر ہی سہی اتنے بے خبر بھی نہیں یہ عہد ترک محبت ہے کس لیے آخر سکون قلب ادھر بھی نہیں ادھر بھی نہیں " na-ab-raqiib-na-naaseh-na-gam-gusaar-koii-faiz-ahmad-faiz-ghazals," نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھہرے اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا ستم پہ خوش کبھی لطف و کرم سے رنجیدہ سکھائیں تم نے ہمیں کج ادائیاں کیا کیا " har-haqiiqat-majaaz-ho-jaae-faiz-ahmad-faiz-ghazals," ہر حقیقت مجاز ہو جائے کافروں کی نماز ہو جائے دل رہین نیاز ہو جائے بیکسی کارساز ہو جائے منت چارہ ساز کون کرے درد جب جاں نواز ہو جائے عشق دل میں رہے تو رسوا ہو لب پہ آئے تو راز ہو جائے لطف کا انتظار کرتا ہوں جور تا حد ناز ہو جائے عمر بے سود کٹ رہی ہے فیضؔ کاش افشائے راز ہو جائے " phir-hariif-e-bahaar-ho-baithe-faiz-ahmad-faiz-ghazals," پھر حریف بہار ہو بیٹھے جانے کس کس کو آج رو بیٹھے تھی مگر اتنی رائیگاں بھی نہ تھی آج کچھ زندگی سے کھو بیٹھے تیرے در تک پہنچ کے لوٹ آئے عشق کی آبرو ڈبو بیٹھے ساری دنیا سے دور ہو جائے جو ذرا تیرے پاس ہو بیٹھے نہ گئی تیری بے رخی نہ گئی ہم تری آرزو بھی کھو بیٹھے فیضؔ ہوتا رہے جو ہونا ہے شعر لکھتے رہا کرو بیٹھے " garmi-e-shauq-e-nazaaraa-kaa-asar-to-dekho-faiz-ahmad-faiz-ghazals," گرمئ شوق نظارہ کا اثر تو دیکھو گل کھلے جاتے ہیں وہ سایۂ تر تو دیکھو ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے ناصحو پند گرو راہ گزر تو دیکھو وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی الفت مجھ سے اک نظر تم مرے محبوب نظر تو دیکھو وہ جو اب چاک گریباں بھی نہیں کرتے ہیں دیکھنے والو کبھی ان کا جگر تو دیکھو دامن درد کو گلزار بنا رکھا ہے آؤ اک دن دل پرخوں کا ہنر تو دیکھو صبح کی طرح جھمکتا ہے شب غم کا افق فیضؔ تابندگئ دیدۂ تر تو دیکھو " tirii-umiid-tiraa-intizaar-jab-se-hai-faiz-ahmad-faiz-ghazals," تری امید ترا انتظار جب سے ہے نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم گلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے ہوا ہے جب سے دل ناصبور بے قابو کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے اگر شرر ہے تو بھڑکے جو پھول ہے تو کھلے طرح طرح کی طلب تیرے رنگ لب سے ہے کہاں گئے شب فرقت کے جاگنے والے ستارۂ سحری ہم کلام کب سے ہے " qarz-e-nigaah-e-yaar-adaa-kar-chuke-hain-ham-faiz-ahmad-faiz-ghazals," قرض نگاہ یار ادا کر چکے ہیں ہم سب کچھ نثار راہ وفا کر چکے ہیں ہم کچھ امتحان دست جفا کر چکے ہیں ہم کچھ ان کی دسترس کا پتا کر چکے ہیں ہم اب احتیاط کی کوئی صورت نہیں رہی قاتل سے رسم و راہ سوا کر چکے ہیں ہم دیکھیں ہے کون کون ضرورت نہیں رہی کوئے ستم میں سب کو خفا کر چکے ہیں ہم اب اپنا اختیار ہے چاہے جہاں چلیں رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم ان کی نظر میں کیا کریں پھیکا ہے اب بھی رنگ جتنا لہو تھا صرف قبا کر چکے ہیں ہم کچھ اپنے دل کی خو کا بھی شکرانہ چاہیے سو بار ان کی خو کا گلا کر چکے ہیں ہم " ab-ke-baras-dastuur-e-sitam-men-kyaa-kyaa-baab-iizaad-hue-faiz-ahmad-faiz-ghazals," اب کے برس دستور ستم میں کیا کیا باب ایزاد ہوئے جو قاتل تھے مقتول ہوئے جو صید تھے اب صیاد ہوئے پہلے بھی خزاں میں باغ اجڑے پر یوں نہیں جیسے اب کے برس سارے بوٹے پتہ پتہ روش روش برباد ہوئے پہلے بھی طواف شمع وفا تھی رسم محبت والوں کی ہم تم سے پہلے بھی یہاں منصورؔ ہوئے فرہادؔ ہوئے اک گل کے مرجھانے پر کیا گلشن میں کہرام مچا اک چہرہ کمھلا جانے سے کتنے دل ناشاد ہوئے فیضؔ نہ ہم یوسفؔ نہ کوئی یعقوبؔ جو ہم کو یاد کرے اپنی کیا کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے " tum-aae-ho-na-shab-e-intizaar-guzrii-hai-faiz-ahmad-faiz-ghazals," تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے ہوئی ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب وہ شب ضرور سر کوئے یار گزری ہے وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے چمن پہ غارت گلچیں سے جانے کیا گزری قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے " kab-yaad-men-teraa-saath-nahiin-kab-haat-men-teraa-haat-nahiin-faiz-ahmad-faiz-ghazals," کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہات میں تیرا ہات نہیں صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں دل والو کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں میدان وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں عاشق تو کسی کا نام نہیں کچھ عشق کسی کی ذات نہیں گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں " kab-tak-dil-kii-khair-manaaen-kab-tak-rah-dikhlaaoge-faiz-ahmad-faiz-ghazals," کب تک دل کی خیر منائیں کب تک رہ دکھلاؤ گے کب تک چین کی مہلت دو گے کب تک یاد نہ آؤ گے بیتا دید امید کا موسم خاک اڑتی ہے آنکھوں میں کب بھیجو گے درد کا بادل کب برکھا برساؤ گے عہد وفا یا ترک محبت جو چاہو سو آپ کرو اپنے بس کی بات ہی کیا ہے ہم سے کیا منواؤ گے کس نے وصل کا سورج دیکھا کس پر ہجر کی رات ڈھلی گیسوؤں والے کون تھے کیا تھے ان کو کیا جتلاؤ گے فیضؔ دلوں کے بھاگ میں ہے گھر بھرنا بھی لٹ جانا تھی تم اس حسن کے لطف و کرم پر کتنے دن اتراؤ گے " tire-gam-ko-jaan-kii-talaash-thii-tire-jaan-nisaar-chale-gae-faiz-ahmad-faiz-ghazals," ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے تری رہ میں کرتے تھے سر طلب سر رہ گزار چلے گئے تری کج ادائی سے ہار کے شب انتظار چلی گئی مرے ضبط حال سے روٹھ کر مرے غم گسار چلے گئے نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حکایتیں نہ شکایتیں ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سر رہ سیاہی لکھی گئی یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر بزم یار چلے گئے نہ رہا جنون رخ وفا یہ رسن یہ دار کرو گے کیا جنہیں جرم عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے " chashm-e-maiguun-zaraa-idhar-kar-de-faiz-ahmad-faiz-ghazals," چشم میگوں ذرا ادھر کر دے دست قدرت کو بے اثر کر دے تیز ہے آج درد دل ساقی تلخی مے کو تیز تر کر دے جوش وحشت ہے تشنہ کام ابھی چاک دامن کو تا جگر کر دے میری قسمت سے کھیلنے والے مجھ کو قسمت سے بے خبر کر دے لٹ رہی ہے مری متاع نیاز کاش وہ اس طرف نظر کر دے فیضؔ تکمیل آرزو معلوم ہو سکے تو یوں ہی بسر کر دے " tumhaarii-yaad-ke-jab-zakhm-bharne-lagte-hain-faiz-ahmad-faiz-ghazals," تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں حدیث یار کے عنواں نکھرنے لگتے ہیں تو ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے جو اب بھی تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکر وطن تو چشم صبح میں آنسو ابھرنے لگتے ہیں وہ جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گری فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے تو فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں " kuchh-mohtasibon-kii-khalvat-men-kuchh-vaaiz-ke-ghar-jaatii-hai-faiz-ahmad-faiz-ghazals," کچھ محتسبوں کی خلوت میں کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے ہم بادہ کشوں کے حصے کی اب جام میں کم تر جاتی ہے یوں عرض و طلب سے کم اے دل پتھر دل پانی ہوتے ہیں تم لاکھ رضا کی خو ڈالو کب خوئے ستم گر جاتی ہے بیداد گروں کی بستی ہے یاں داد کہاں خیرات کہاں سر پھوڑتی پھرتی ہے ناداں فریاد جو در در جاتی ہے ہاں جاں کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجے ہر رہ جو ادھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے اب کوچۂ دلبر کا رہ رو رہزن بھی بنے تو بات بنے پہرے سے عدو ٹلتے ہی نہیں اور رات برابر جاتی ہے ہم اہل قفس تنہا بھی نہیں ہر روز نسیم صبح وطن یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے " shaikh-saahab-se-rasm-o-raah-na-kii-faiz-ahmad-faiz-ghazals," شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی شکر ہے زندگی تباہ نہ کی تجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہوئے تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی تیرے دست ستم کا عجز نہیں دل ہی کافر تھا جس نے آہ نہ کی تھے شب ہجر کام اور بہت ہم نے فکر دل تباہ نہ کی کون قاتل بچا ہے شہر میں فیضؔ جس سے یاروں نے رسم و راہ نہ کی " ye-kis-khalish-ne-phir-is-dil-men-aashiyaana-kiyaa-faiz-ahmad-faiz-ghazals," یہ کس خلش نے پھر اس دل میں آشیانہ کیا پھر آج کس نے سخن ہم سے غائبانہ کیا غم جہاں ہو رخ یار ہو کہ دست عدو سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا تھے خاک راہ بھی ہم لوگ قہر طوفاں بھی سہا تو کیا نہ سہا اور کیا تو کیا نہ کیا خوشا کہ آج ہر اک مدعی کے لب پر ہے وہ راز جس نے ہمیں راندۂ زمانہ کیا وہ حیلہ گر جو وفا جو بھی ہے جفاخو بھی کیا بھی فیضؔ تو کس بت سے دوستانہ کیا " ham-musaafir-yuunhii-masruuf-e-safar-jaaenge-faiz-ahmad-faiz-ghazals," ہم مسافر یوں ہی مصروف سفر جائیں گے بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے کس قدر ہوگا یہاں مہر و وفا کا ماتم ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے جوہری بند کئے جاتے ہیں بازار سخن ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے نعمت زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں مر جائیں گے شاید اپنا بھی کوئی بیت حدی خواں بن کر ساتھ جائے گا مرے یار جدھر جائیں گے فیضؔ آتے ہیں رہ عشق میں جو سخت مقام آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے " raaz-e-ulfat-chhupaa-ke-dekh-liyaa-faiz-ahmad-faiz-ghazals," راز الفت چھپا کے دیکھ لیا دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا اور کیا دیکھنے کو باقی ہے آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا وہ مرے ہو کے بھی مرے نہ ہوئے ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا آج ان کی نظر میں کچھ ہم نے سب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا فیضؔ تکمیل غم بھی ہو نہ سکی عشق کو آزما کے دیکھ لیا " ab-vahii-harf-e-junuun-sab-kii-zabaan-thahrii-hai-faiz-ahmad-faiz-ghazals," اب وہی حرف جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے آج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حرام اب وہی دشمن دیں راحت جاں ٹھہری ہے ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں ناصح گفتگو آج سر کوئے بتاں ٹھہری ہے ہے وہی عارض لیلیٰ وہی شیریں کا دہن نگہ شوق گھڑی بھر کو جہاں ٹھہری ہے وصل کی شب تھی تو کس درجہ سبک گزری تھی ہجر کی شب ہے تو کیا سخت گراں ٹھہری ہے بکھری اک بار تو ہاتھ آئی ہے کب موج شمیم دل سے نکلی ہے تو کب لب پہ فغاں ٹھہری ہے دست صیاد بھی عاجز ہے کف گلچیں بھی بوئے گل ٹھہری نہ بلبل کی زباں ٹھہری ہے آتے آتے یوں ہی دم بھر کو رکی ہوگی بہار جاتے جاتے یوں ہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے ہم نے جو طرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد فیضؔ گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے " aap-kii-yaad-aatii-rahii-raat-bhar-faiz-ahmad-faiz-ghazals," ''آپ کی یاد آتی رہی رات بھر'' چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر گاہ جلتی ہوئی گاہ بجھتی ہوئی شمع غم جھلملاتی رہی رات بھر کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر پھر صبا سایۂ شاخ گل کے تلے کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر جو نہ آیا اسے کوئی زنجیر در ہر صدا پر بلاتی رہی رات بھر ایک امید سے دل بہلتا رہا اک تمنا ستاتی رہی رات بھر " donon-jahaan-terii-mohabbat-men-haar-ke-faiz-ahmad-faiz-ghazals," دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیضؔ مت پوچھ ولولے دل ناکردہ کار کے " ab-vo-ye-kah-rahe-hain-mirii-maan-jaaiye-dagh-dehlvi-ghazals," اب وہ یہ کہہ رہے ہیں مری مان جائیے اللہ تیری شان کے قربان جائیے بگڑے ہوئے مزاج کو پہچان جائیے سیدھی طرح نہ مانئے گا مان جائیے کس کا ہے خوف روکنے والا ہی کون ہے ہر روز کیوں نہ جائیے مہمان جائیے محفل میں کس نے آپ کو دل میں چھپا لیا اتنوں میں کون چور ہے پہچان جائیے ہیں تیوری میں بل تو نگاہیں پھری ہوئی جاتے ہیں ایسے آنے سے اوسان جائیے دو مشکلیں ہیں ایک جتانے میں شوق کے پہلے تو جان جائیے پھر مان جائیے انسان کو ہے خانۂ ہستی میں لطف کیا مہمان آئیے تو پشیمان جائیے گو وعدۂ وصال ہو جھوٹا مزہ تو ہے کیوں کر نہ ایسے جھوٹ کے قربان جائیے رہ جائے بعد وصل بھی چیٹک لگی ہوئی کچھ رکھئے کچھ نکال کے ارمان جائیے اچھی کہی کہ غیر کے گھر تک ذرا چلو میں آپ کا نہیں ہوں نگہبان جائیے آئے ہیں آپ غیر کے گھر سے کھڑے کھڑے یہ اور کو جتایئے احسان، جائیے دونوں سے امتحان وفا پر یہ کہہ دیا منوائیے رقیب کو یا مان جائیے کیا بدگمانیاں ہیں انہیں مجھ کو حکم ہے گھر میں خدا کے بھی تو نہ مہمان جائیے کیا فرض ہے کہ سب مری باتیں قبول ہیں سن سن کے کچھ نہ مانئے کچھ مان جائیے سودائیان زلف میں کچھ تو لٹک بھی ہو جنت میں جائیے تو پریشان جائیے دل کو جو دیکھ لو تو یہی پیار سے کہو قربان جائیے ترے قربان جائیے دل کو جو دیکھ لو تو یہی پیار سے کہو قربان جائیے ترے قربان جائیے جانے نہ دوں گا آپ کو بے فیصلہ ہوئے دل کے مقدمے کو ابھی چھان جائیے یہ تو بجا کہ آپ کو دنیا سے کیا غرض جاتی ہے جس کی جان اسے جان جائیے غصے میں ہاتھ سے یہ نشانی نہ گر پڑے دامن میں لے کے میرا گریبان جائیے یہ مختصر جواب ملا عرض وصل پر دل مانتا نہیں کہ تری مان جائیے وہ آزمودہ کار تو ہے گر ولی نہیں جو کچھ بتائے داغؔ اسے مان جائیے " milaate-ho-usii-ko-khaak-men-jo-dil-se-miltaa-hai-dagh-dehlvi-ghazals," ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے کہیں ہے عید کی شادی کہیں ماتم ہے مقتل میں کوئی قاتل سے ملتا ہے کوئی بسمل سے ملتا ہے پس پردہ بھی لیلیٰ ہاتھ رکھ لیتی ہے آنکھوں پر غبار ناتوان قیس جب محمل سے ملتا ہے بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی ملاقاتی ترا گویا بھری محفل سے ملتا ہے مجھے آتا ہے کیا کیا رشک وقت ذبح اس سے بھی گلا جس دم لپٹ کر خنجر قاتل سے ملتا ہے بظاہر با ادب یوں حضرت ناصح سے ملتا ہوں مرید خاص جیسے مرشد کامل سے ملتا ہے مثال گنج قاروں اہل حاجت سے نہیں چھپتا جو ہوتا ہے سخی خود ڈھونڈ کر سائل سے ملتا ہے جواب اس بات کا اس شوخ کو کیا دے سکے کوئی جو دل لے کر کہے کم بخت تو کس دل سے ملتا ہے چھپائے سے کوئی چھپتی ہے اپنے دل کی بیتابی کہ ہر تار نفس اپنا رگ بسمل سے ملتا ہے عدم کی جو حقیقت ہے وہ پوچھو اہل ہستی سے مسافر کو تو منزل کا پتا منزل سے ملتا ہے غضب ہے داغؔ کے دل سے تمہارا دل نہیں ملتا تمہارا چاند سا چہرہ مہ کامل سے ملتا ہے " saaf-kab-imtihaan-lete-hain-dagh-dehlvi-ghazals," صاف کب امتحان لیتے ہیں وہ تو دم دے کے جان لیتے ہیں یوں ہے منظور خانہ ویرانی مول میرا مکان لیتے ہیں تم تغافل کرو رقیبوں سے جاننے والے جان لیتے ہیں پھر نہ آنا اگر کوئی بھیجے نامہ بر سے زبان لیتے ہیں اب بھی گر پڑ کے ضعف سے نالے ساتواں آسمان لیتے ہیں تیرے خنجر سے بھی تو اے قاتل نوک کی نوجوان لیتے ہیں اپنے بسمل کا سر ہے زانو پر کس محبت سے جان لیتے ہیں یہ سنا ہے مرے لیے تلوار اک مرے مہربان لیتے ہیں یہ نہ کہہ ہم سے تیرے منہ میں خاک اس میں تیری زبان لیتے ہیں کون جاتا ہے اس گلی میں جسے دور سے پاسبان لیتے ہیں منزل شوق طے نہیں ہوتی ٹھیکیاں ناتوان لیتے ہیں کر گزرتے ہیں ہو بری کہ بھلی دل میں جو کچھ وہ ٹھان لیتے ہیں وہ جھگڑتے ہیں جب رقیبوں سے بیچ میں مجھ کو سان لیتے ہیں ضد ہر اک بات پر نہیں اچھی دوست کی دوست مان لیتے ہیں مستعد ہو کے یہ کہو تو سہی آئیے امتحان لیتے ہیں داغؔ بھی ہے عجیب سحر بیاں بات جس کی وہ مان لیتے ہیں " aarzuu-hai-vafaa-kare-koii-dagh-dehlvi-ghazals," آرزو ہے وفا کرے کوئی جی نہ چاہے تو کیا کرے کوئی گر مرض ہو دوا کرے کوئی مرنے والے کا کیا کرے کوئی کوستے ہیں جلے ہوئے کیا کیا اپنے حق میں دعا کرے کوئی ان سے سب اپنی اپنی کہتے ہیں میرا مطلب ادا کرے کوئی چاہ سے آپ کو تو نفرت ہے مجھ کو چاہے خدا کرے کوئی اس گلے کو گلہ نہیں کہتے گر مزے کا گلا کرے کوئی یہ ملی داد رنج فرقت کی اور دل کا کہا کرے کوئی تم سراپا ہو صورت تصویر تم سے پھر بات کیا کرے کوئی کہتے ہیں ہم نہیں خدائے کریم کیوں ہماری خطا کرے کوئی جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں ایسی جنت کو کیا کرے کوئی اس جفا پر تمہیں تمنا ہے کہ مری التجا کرے کوئی منہ لگاتے ہی داغؔ اترایا لطف ہے پھر جفا کرے کوئی " tamaashaa-e-dair-o-haram-dekhte-hain-dagh-dehlvi-ghazals," تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں تجھے ہر بہانے سے ہم دیکھتے ہیں ہماری طرف اب وہ کم دیکھتے ہیں وہ نظریں نہیں جن کو ہم دیکھتے ہیں زمانے کے کیا کیا ستم دیکھتے ہیں ہمیں جانتے ہیں جو ہم دیکھتے ہیں پھرے بت کدے سے تو اے اہل کعبہ پھر آ کر تمہارے قدم دیکھتے ہیں ہمیں چشم بینا دکھاتی ہے سب کچھ وہ اندھے ہیں جو جام جم دیکھتے ہیں نہ ایمائے خواہش نہ اظہار مطلب مرے منہ کو اہل کرم دیکھتے ہیں کبھی توڑتے ہیں وہ خنجر کو اپنے کبھی نبض بسمل میں دم دیکھتے ہیں غنیمت ہے چشم تغافل بھی ان کی بہت دیکھتے ہیں جو کم دیکھتے ہیں غرض کیا کہ سمجھیں مرے خط کا مضموں وہ عنوان و طرز رقم دیکھتے ہیں سلامت رہے دل برا ہے کہ اچھا ہزاروں میں یہ ایک دم دیکھتے ہیں رہا کون محفل میں اب آنے والا وہ چاروں طرف دم بدم دیکھتے ہیں ادھر شرم حائل ادھر خوف مانع نہ وہ دیکھتے ہیں نہ ہم دیکھتے ہیں انہیں کیوں نہ ہو دل ربائی سے نفرت کہ ہر دل میں وہ غم الم دیکھتے ہیں نگہباں سے بھی کیا ہوئی بد گمانی اب اس کو ترے ساتھ کم دیکھتے ہیں ہمیں داغؔ کیا کم ہے یہ سرفرازی کہ شاہ دکن کے قدم دیکھتے ہیں " khaatir-se-yaa-lihaaz-se-main-maan-to-gayaa-dagh-dehlvi-ghazals," خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا ڈرتا ہوں دیکھ کر دل بے آرزو کو میں سنسان گھر یہ کیوں نہ ہو مہمان تو گیا کیا آئے راحت آئی جو کنج مزار میں وہ ولولہ وہ شوق وہ ارمان تو گیا دیکھا ہے بت کدے میں جو اے شیخ کچھ نہ پوچھ ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا افشائے راز عشق میں گو ذلتیں ہوئیں لیکن اسے جتا تو دیا جان تو گیا گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا پر ہزار شکر مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا بزم عدو میں صورت پروانہ دل مرا گو رشک سے جلا ترے قربان تو گیا ہوش و حواس و تاب و تواں داغؔ جا چکے اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا " abhii-hamaarii-mohabbat-kisii-ko-kyaa-maaluum-dagh-dehlvi-ghazals," ابھی ہماری محبت کسی کو کیا معلوم کسی کے دل کی حقیقت کسی کو کیا معلوم یقیں تو یہ ہے وہ خط کا جواب لکھیں گے مگر نوشتۂ قسمت کسی کو کیا معلوم بظاہر ان کو حیا دار لوگ سمجھے ہیں حیا میں جو ہے شرارت کسی کو کیا معلوم قدم قدم پہ تمہارے ہمارے دل کی طرح بسی ہوئی ہے قیامت کسی کو کیا معلوم یہ رنج و عیش ہوئے ہجر و وصل میں ہم کو کہاں ہے دوزخ و جنت کسی کو کیا معلوم جو سخت بات سنے دل تو ٹوٹ جاتا ہے اس آئینے کی نزاکت کسی کو کیا معلوم کیا کریں وہ سنانے کو پیار کی باتیں انہیں ہے مجھ سے عداوت کسی کو کیا معلوم خدا کرے نہ پھنسے دام عشق میں کوئی اٹھائی ہے جو مصیبت کسی کو کیا معلوم ابھی تو فتنے ہی برپا کئے ہیں عالم میں اٹھائیں گے وہ قیامت کسی کو کیا معلوم جناب داغؔ کے مشرب کو ہم سے تو پوچھو چھپے ہوئے ہیں یہ حضرت کسی کو کیا معلوم " uzr-aane-men-bhii-hai-aur-bulaate-bhii-nahiin-dagh-dehlvi-ghazals-3," عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں منتظر ہیں دم رخصت کہ یہ مر جائے تو جائیں پھر یہ احسان کہ ہم چھوڑ کے جاتے بھی نہیں سر اٹھاؤ تو سہی آنکھ ملاؤ تو سہی نشۂ مے بھی نہیں نیند کے ماتے بھی نہیں کیا کہا پھر تو کہو ہم نہیں سنتے تیری نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں مجھ سے لاغر تری آنکھوں میں کھٹکتے تو رہے تجھ سے نازک مری نظروں میں سماتے بھی نہیں دیکھتے ہی مجھے محفل میں یہ ارشاد ہوا کون بیٹھا ہے اسے لوگ اٹھاتے بھی نہیں ہو چکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں زیست سے تنگ ہو اے داغؔ تو جیتے کیوں ہو جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں " gam-se-kahiin-najaat-mile-chain-paaen-ham-dagh-dehlvi-ghazals," غم سے کہیں نجات ملے چین پائیں ہم دل خون میں نہائے تو گنگا نہائیں ہم جنت میں جائیں ہم کہ جہنم میں جائیں ہم مل جائے تو کہیں نہ کہیں تجھ کو پائیں ہم جوف فلک میں خاک بھی لذت نہیں رہی جی چاہتا ہے تیری جفائیں اٹھائیں ہم ڈر ہے نہ بھول جائے وہ سفاک روز حشر دنیا میں لکھتے جاتے ہیں اپنی خطائیں ہم ممکن ہے یہ کہ وعدے پر اپنے وہ آ بھی جائے مشکل یہ ہے کہ آپ میں اس وقت آئیں ہم ناراض ہو خدا تو کریں بندگی سے خوش معشوق روٹھ جائے تو کیونکر منائیں ہم سر دوستوں کا کاٹ کے رکھتے ہیں سامنے غیروں سے پوچھتے ہیں قسم کس کی کھائیں ہم کتنا ترا مزاج خوشامد پسند ہے کب تک کریں خدا کے لیے التجائیں ہم لالچ عبث ہے دل کا تمہیں وقت واپسیں یہ مال وہ نہیں کہ جسے چھوڑ جائیں ہم سونپا تمہیں خدا کو چلے ہم تو نا مراد کچھ پڑھ کے بخشنا جو کبھی یاد آئیں ہم سوز دروں سے اپنے شرر بن گئے ہیں اشک کیوں آہ سرد کو نہ پتنگے لگائیں ہم یہ جان تم نہ لو گے اگر آپ جائے گی اس بے وفا کی خیر کہاں تک منائیں ہم ہم سایے جاگتے رہے نالوں سے رات بھر سوئے ہوئے نصیب کو کیونکر جگائیں ہم جلوہ دکھا رہا ہے وہ آئینۂ جمال آتی ہے ہم کو شرم کہ کیا منہ دکھائیں ہم مانو کہا جفا نہ کرو تم وفا کے بعد ایسا نہ ہو کہ پھیر لیں الٹی دعائیں ہم دشمن سے ملتے جلتے ہیں خاطر سے دوستی کیا فائدہ جو دوست کو دشمن بنائیں ہم تو بھولنے کی چیز نہیں خوب یاد رکھ اے داغؔ کس طرح تجھے دل سے بھلائیں ہم " jalve-mirii-nigaah-men-kaun-o-makaan-ke-hain-dagh-dehlvi-ghazals," جلوے مری نگاہ میں کون و مکاں کے ہیں مجھ سے کہاں چھپیں گے وہ ایسے کہاں کے ہیں کھلتے نہیں ہیں راز جو سوز نہاں کے ہیں کیا پھوٹنے کے واسطے چھالے زباں کے ہیں کرتے ہیں قتل وہ طلب مغفرت کے بعد جو تھے دعا کے ہاتھ وہی امتحاں کے ہیں جس روز کچھ شریک ہوئی میری مشت خاک اس روز سے زمیں پہ ستم آسماں کے ہیں بازو دکھائے تم نے لگا کر ہزار ہاتھ پورے پڑے تو وہ بھی بہت امتحاں کے ہیں ناصح کے سامنے کبھی سچ بولتا نہیں میری زباں میں رنگ تمہاری زباں کے ہیں کیسا جواب حضرت دل دیکھیے ذرا پیغام بر کے ہاتھ میں ٹکڑے زباں کے ہیں کیا اضطراب شوق نے مجھ کو خجل کیا وہ پوچھتے ہیں کہئے ارادے کہاں کے ہیں عاشق ترے عدم کو گئے کس قدر تباہ پوچھا ہر ایک نے یہ مسافر کہاں کے ہیں ہر چند داغؔ ایک ہی عیار ہے مگر دشمن بھی تو چھٹے ہوئے سارے جہاں کے ہیں " dil-e-naakaam-ke-hain-kaam-kharaab-dagh-dehlvi-ghazals," دل ناکام کے ہیں کام خراب کر لیا عاشقی میں نام خراب اس خرابات کا یہی ہے مزہ کہ رہے آدمی مدام خراب دیکھ کر جنس دل وہ کہتے ہیں کیوں کرے کوئی اپنے دام خراب ابر تر سے صبا ہی اچھی تھی میری مٹی ہوئی تمام خراب وہ بھی ساقی مجھے نہیں دیتا وہ جو ٹوٹا پڑا ہے جام خراب کیا ملا ہم کو زندگی کے سوا وہ بھی دشوار ناتمام خراب واہ کیا منہ سے پھول جھڑتے ہیں خوب رو ہو کے یہ کلام خراب چال کی رہنمائے عشق نے بھی وہ دکھایا جو تھا مقام خراب داغؔ ہے بد چلن تو ہونے دو سو میں ہوتا ہے اک غلام خراب " terii-suurat-ko-dekhtaa-huun-main-dagh-dehlvi-ghazals," تیری صورت کو دیکھتا ہوں میں اس کی قدرت کو دیکھتا ہوں میں جب ہوئی صبح آ گئے ناصح انہیں حضرت کو دیکھتا ہوں میں وہ مصیبت سنی نہیں جاتی جس مصیبت کو دیکھتا ہوں میں دیکھنے آئے ہیں جو میری نبض ان کی صورت کو دیکھتا ہوں میں موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے جب طبیعت کو دیکھتا ہوں میں شب فرقت اٹھا اٹھا کر سر صبح عشرت کو دیکھتا ہوں میں دور بیٹھا ہوا سر محفل رنگ صحبت کو دیکھتا ہوں میں ہر مصیبت ہے بے مزا شب غم آفت آفت کو دیکھتا ہوں میں نہ محبت کو جانتے ہو تم نہ مروت کو دیکھتا ہوں میں کوئی دشمن کو یوں نہ دیکھے گا جیسے قسمت کو دیکھتا ہوں میں حشر میں داغؔ کوئی دوست نہیں ساری خلقت کو دیکھتا ہوں میں " idhar-dekh-lenaa-udhar-dekh-lenaa-dagh-dehlvi-ghazals-2," ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا کن انکھیوں سے اس کو مگر دیکھ لینا فقط نبض سے حال ظاہر نہ ہوگا مرا دل بھی اے چارہ گر دیکھ لینا کبھی ذکر دیدار آیا تو بولے قیامت سے بھی پیشتر دیکھ لینا نہ دینا خط شوق گھبرا کے پہلے محل موقع اے نامہ بر دیکھ لینا کہیں ایسے بگڑے سنورتے بھی دیکھے نہ آئیں گے وہ راہ پر دیکھ لینا تغافل میں شوخی نرالی ادا تھی غضب تھا وہ منہ پھیر کر دیکھ لینا شب وعدہ اپنا یہی مشغلہ تھا اٹھا کر نظر سوئے در دیکھ لینا بلایا جو غیروں کو دعوت میں تم نے مجھے پیشتر اپنے گھر دیکھ لینا محبت کے بازار میں اور کیا ہے کوئی دل دکھائے اگر دیکھ لینا مرے سامنے غیر سے بھی اشارے ادھر بھی ادھر دیکھ کر دیکھ لینا نہ ہو نازک اتنا بھی مشاطہ کوئی دہن دیکھ لینا کمر دیکھ لینا نہیں رکھنے دیتے جہاں پاؤں ہم کو اسی آستانے پہ سر دیکھ لینا تماشائے عالم کی فرصت ہے کس کو غنیمت ہے بس اک نظر دیکھ لینا دیے جاتے ہیں آج کچھ لکھ کے تم کو اسے وقت فرصت مگر دیکھ لینا ہمیں جان دیں گے ہمیں مر مٹیں گے ہمیں تم کسی وقت پر دیکھ لینا جلایا تو ہے داغؔ کے دل کو تم نے مگر اس کا ہوگا اثر دیکھ لینا " maze-ishq-ke-kuchh-vahii-jaante-hain-dagh-dehlvi-ghazals," مزے عشق کے کچھ وہی جانتے ہیں کہ جو موت کو زندگی جانتے ہیں شب وصل لیں ان کی اتنی بلائیں کہ ہمدم مرے ہاتھ ہی جانتے ہیں نہ ہو دل تو کیا لطف آزار و راحت برابر خوشی ناخوشی جانتے ہیں جو ہے میرے دل میں انہیں کو خبر ہے جو میں جانتا ہوں وہی جانتے ہیں پڑا ہوں سر بزم میں دم چرائے مگر وہ اسے بے خودی جانتے ہیں کہاں قدر ہم جنس ہم جنس کو ہے فرشتوں کو بھی آدمی جانتے ہیں کہوں حال دل تو کہیں اس سے حاصل سبھی کو خبر ہے سبھی جانتے ہیں وہ نادان انجان بھولے ہیں ایسے کہ سب شیوۂ دشمنی جانتے ہیں نہیں جانتے اس کا انجام کیا ہے وہ مرنا میرا دل لگی جانتے ہیں سمجھتا ہے تو داغؔ کو رند زاہد مگر رند اس کو ولی جانتے ہیں " aap-kaa-e-tibaar-kaun-kare-dagh-dehlvi-ghazals," آپ کا اعتبار کون کرے روز کا انتظار کون کرے ذکر مہر و وفا تو ہم کرتے پر تمہیں شرمسار کون کرے ہو جو اس چشم مست سے بے خود پھر اسے ہوشیار کون کرے تم تو ہو جان اک زمانے کی جان تم پر نثار کون کرے آفت روزگار جب تم ہو شکوۂ روزگار کون کرے اپنی تسبیح رہنے دے زاہد دانہ دانہ شمار کون کرے ہجر میں زہر کھا کے مر جاؤں موت کا انتظار کون کرے آنکھ ہے ترک زلف ہے صیاد دیکھیں دل کا شکار کون کرے وعدہ کرتے نہیں یہ کہتے ہیں تجھ کو امیدوار کون کرے داغؔ کی شکل دیکھ کر بولے ایسی صورت کو پیار کون کرے " tum-aaiina-hii-na-har-baar-dekhte-jaao-dagh-dehlvi-ghazals," تم آئینہ ہی نہ ہر بار دیکھتے جاؤ مری طرف بھی تو سرکار دیکھتے جاؤ نہ جاؤ حال دل زار دیکھتے جاؤ کہ جی نہ چاہے تو ناچار دیکھتے جاؤ بہار عمر میں باغ جہاں کی سیر کرو کھلا ہوا ہے یہ گلزار دیکھتے جاؤ یہی تو چشم حقیقت نگر کا سرمہ ہے نزاع کافر و دیں دار دیکھتے جاؤ اٹھاؤ آنکھ نہ شرماؤ یہ تو محفل ہے غضب سے جانب اغیار دیکھتے جاؤ نہیں ہے جنس وفا کی تمہیں جو قدر نہ ہو بنیں گے کتنے خریدار دیکھتے جاؤ تمہیں غرض جو کرو رحم پائمالوں پر تم اپنی شوخیٔ رفتار دیکھتے جاؤ قسم بھی کھائی تھی قرآن بھی اٹھایا تھا پھر آج ہے وہی انکار دیکھتے جاؤ یہ شامت آئی کہ اس کی گلی میں دل نے کہا کھلا ہے روزن دیوار دیکھتے جاؤ ہوا ہے کیا ابھی ہنگامہ اور کچھ ہوگا فغاں میں حشر کے آثار دیکھتے جاؤ شب وصال عدو کی یہی نشانی ہے نشان بوسۂ رخسار دیکھتے جاؤ تمہاری آنکھ مرے دل سے لے سبب بے وجہ ہوئی ہے لڑنے کو تیار دیکھتے جاؤ ادھر کو آ ہی گئے اب تو حضرت زاہد یہیں ہے خانۂ خمار دیکھتے جاؤ رقیب برسر پرخاش ہم سے ہوتا ہے بڑھے گی مفت میں تکرار دیکھتے جاؤ نہیں ہیں جرم محبت میں سب کے سب ملزم خطا معاف خطاوار دیکھتے جاؤ دکھا رہی ہے تماشا فلک کی نیرنگی نیا ہے شعبدہ ہر بار دیکھتے جاؤ بنا دیا مری چاہت نے غیرت یوسف تم اپنی گرمئ بازار دیکھتے جاؤ نہ جاؤ بند کئے آنکھ رہروان عدم ادھر ادھر بھی خبردار دیکھتے جاؤ سنی سنائی پہ ہرگز کبھی عمل نہ کرو ہمارے حال کے اخبار دیکھتے جاؤ کوئی نہ کوئی ہر اک شیر میں ہے بات ضرور جناب داغؔ کے اشعار دیکھتے جاؤ " phire-raah-se-vo-yahaan-aate-aate-dagh-dehlvi-ghazals," پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے اجل مر رہی تو کہاں آتے آتے نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی بہت دیر کی مہرباں آتے آتے سنا ہے کہ آتا ہے سر نامہ بر کا کہاں رہ گیا ارمغاں آتے آتے یقیں ہے کہ ہو جائے آخر کو سچی مرے منہ میں تیری زباں آتے آتے سنانے کے قابل جو تھی بات ان کو وہی رہ گئی درمیاں آتے آتے مجھے یاد کرنے سے یہ مدعا تھا نکل جائے دم ہچکیاں آتے آتے ابھی سن ہی کیا ہے جو بیباکیاں ہوں انہیں آئیں گی شوخیاں آتے آتے کلیجا مرے منہ کو آئے گا اک دن یوں ہی لب پر آہ و فغاں آتے آتے چلے آتے ہیں دل میں ارمان لاکھوں مکاں بھر گیا میہماں آتے آتے نتیجہ نہ نکلا تھکے سب پیامی وہاں جاتے جاتے یہاں آتے آتے تمہارا ہی مشتاق دیدار ہوگا گیا جان سے اک جواں آتے آتے تری آنکھ پھرتے ہی کیسا پھرا ہے مری راہ پر آسماں آتے آتے پڑا ہے بڑا پیچ پھر دل لگی میں طبیعت رکی ہے جہاں آتے آتے مرے آشیاں کے تو تھے چار تنکے چمن اڑ گیا آندھیاں آتے آتے کسی نے کچھ ان کو ابھارا تو ہوتا نہ آتے نہ آتے یہاں آتے آتے قیامت بھی آتی تھی ہم راہ اس کے مگر رہ گئی ہم عناں آتے آتے بنا ہے ہمیشہ یہ دل باغ و صحرا بہار آتے آتے خزاں آتے آتے نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے " baaqii-jahaan-men-qais-na-farhaad-rah-gayaa-dagh-dehlvi-ghazals," باقی جہاں میں قیس نہ فرہاد رہ گیا افسانہ عاشقوں کا فقط یاد رہ گیا یہ سخت جاں تو قتل سے ناشاد رہ گیا خنجر چلا تو بازوئے جلاد رہ گیا پابندیوں نے عشق کی بیکس رکھا مجھے میں سو اسیریوں میں بھی آزاد رہ گیا چشم صنم نے یوں تو بگاڑے ہزار گھر اک کعبہ چند روز کو آباد رہ گیا محشر میں جائے شکوہ کیا شکر یار کا جو بھولنا تھا مجھ کو وہی یاد رہ گیا ان کی تو بن پڑی کہ لگی جان مفت ہاتھ تیری گرہ میں کیا دل ناشاد رہ گیا پر نور ہو رہے گا یہ ظلمت کدہ اگر دل میں بتوں کا شوق خداداد رہ گیا یوں آنکھ ان کی کر کے اشارہ پلٹ گئی گویا کہ لب سے ہو کے کچھ ارشاد رہ گیا ناصح کا جی چلا تھا ہماری طرح مگر الفت کی دیکھ دیکھ کے افتاد رہ گیا ہیں تیرے دل میں سب کے ٹھکانے برے بھلے میں خانماں خراب ہی برباد رہ گیا وہ دن گئے کہ تھی مرے سینے میں کچھ خراش اب دل کہاں ہے دل کا نشاں یاد رہ گیا صورت کو تیری دیکھ کے کھنچتی ہے جان خلق دل اپنا تھام تھام کے بہزاد رہ گیا اے داغؔ دل ہی دل میں گھلے ضبط عشق سے افسوس شوق نالہ و فریاد رہ گیا " baat-merii-kabhii-sunii-hii-nahiin-dagh-dehlvi-ghazals," بات میری کبھی سنی ہی نہیں جانتے وہ بری بھلی ہی نہیں دل لگی ان کی دل لگی ہی نہیں رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں اڑ گئی یوں وفا زمانے سے کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں جان کیا دوں کہ جانتا ہوں میں تم نے یہ چیز لے کے دی ہی نہیں ہم تو دشمن کو دوست کر لیتے پر کریں کیا تری خوشی ہی نہیں ہم تری آرزو پہ جیتے ہیں یہ نہیں ہے تو زندگی ہی نہیں دل لگی دل لگی نہیں ناصح تیرے دل کو ابھی لگی ہی نہیں داغؔ کیوں تم کو بے وفا کہتا وہ شکایت کا آدمی ہی نہیں " kaabe-kii-hai-havas-kabhii-kuu-e-butaan-kii-hai-dagh-dehlvi-ghazals," کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے سن کے مرا فسانہ انہیں لطف آ گیا سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے پیغام بر کی بات پر آپس میں رنج کیا میری زبان کی ہے نہ تمہاری زباں کی ہے کچھ تازگی ہو لذت آزار کے لیے ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے جاں بر بھی ہو گئے ہیں بہت مجھ سے نیم جاں کیا غم ہے اے طبیب جو پوری وہاں کی ہے حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے وقت خرام ناز دکھا دو جدا جدا یہ چال حشر کی یہ روش آسماں کی ہے فرصت کہاں کہ ہم سے کسی وقت تو ملے دن غیر کا ہے رات ترے پاسباں کی ہے قاصد کی گفتگو سے تسلی ہو کس طرح چھپتی نہیں وہ بات جو تیری زباں کی ہے جور رقیب و ظلم فلک کا نہیں خیال تشویش ایک خاطر نامہرباں کی ہے سن کر مرا فسانۂ غم اس نے یہ کہا ہو جائے جھوٹ سچ یہی خوبی بیاں کی ہے دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے ہر ہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار کیا جانے گرد راہ یہ کس کارواں کی ہے کیونکہ نہ آتے خلد سے آدم زمین پر موزوں وہیں وہ خوب ہے جو سنتے جہاں کی ہے تقدیر سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ عشق میں تدبیر کوئی بھی ستم ناگہاں کی ہے اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے " dekh-kar-jauban-tiraa-kis-kis-ko-hairaanii-huii-dagh-dehlvi-ghazals," دیکھ کر جوبن ترا کس کس کو حیرانی ہوئی اس جوانی پر جوانی آپ دیوانی ہوئی پردے پردے میں محبت دشمن جانی ہوئی یہ خدا کی مار کیا اے شوق پنہانی ہوئی دل کا سودا کر کے ان سے کیا پشیمانی ہوئی قدر اس کی پھر کہاں جس شے کی ارزانی ہوئی میرے گھر اس شوخ کی دو دن سے مہمانی ہوئی بیکسی کی آج کل کیا خانہ ویرانی ہوئی ترک رسم و راہ پر افسوس ہے دونوں طرف ہم سے نادانی ہوئی یا تم سے نادانی ہوئی ابتدا سے انتہا تک حال ان سے کہہ تو دوں فکر یہ ہے اور جو کہہ کر پشیمانی ہوئی غم قیامت کا نہیں واعظ مجھے یہ فکر ہے دین کب باقی رہا دنیا اگر فانی ہوئی تم نہ شب کو آؤ گے یہ ہے یقیں آیا ہوا تم نہ مانو گے مری یہ بات ہے مانی ہوئی مجھ میں دم جب تک رہا مشکل میں تھے تیماردار میری آسانی سے سب یاروں کی آسانی ہوئی اس کو کیا کہتے ہیں اتنا ہی بڑھا شوق وصال جس قدر مشہور ان کی پاک دامانی ہوئی بزم سے اٹھنے کی غیرت بیٹھنے سے دل کو رشک دیکھ کر غیروں کا مجمع کیا پریشانی ہوئی دعویٰ تسخیر پر یہ اس پری وش نے کہا آپ کا دل کیا ہوا مہر سلیمانی ہوئی کھل گئیں زلفیں مگر اس شوخ مست ناز کی جھومتی باد صبا پھرتی ہے مستانی ہوئی میں سراپا سجدے کرتا اس کے در پر شوق سے سر سے پا تک کیوں نہ پیشانی ہی پیشانی ہوئی دل کی قلب ماہیت کا ہو اسے کیونکر یقیں کب ہوا مٹی ہوئی ہے آگ کب پانی ہوئی آتے ہی کہتے ہو اب گھر جائیں گے اچھی کہی یہ مثل پوری یہاں من مانی گھر جانی ہوئی عرصۂ محشر میں تجھ کو ڈھونڈ لاؤں تو سہی کوئی چھپ سکتی ہے جو صورت ہو پہچانی ہوئی دیکھ کر قاتل کا خالی ہاتھ بھی جی ڈر گیا اس کی چین آستیں بھی چین پیشانی ہوئی کھا کے دھوکا اس بت کمسن نے دامن میں لیے اشک افشانی بھی میری گوہر افشانی ہوئی بیکسی پر میری اپنی تیغ کی حسرت تو دیکھ چشم جوہر بھی بشکل چشم حیرانی ہوئی بیکسی پر داغؔ کی افسوس آتا ہے ہمیں کس جگہ کس وقت اس کی خانہ ویرانی ہوئی " le-chalaa-jaan-mirii-ruuth-ke-jaanaa-teraa-dagh-dehlvi-ghazals," لے چلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا اپنے دل کو بھی بتاؤں نہ ٹھکانا تیرا سب نے جانا جو پتا ایک نے جانا تیرا تو جو اے زلف پریشان رہا کرتی ہے کس کے اجڑے ہوئے دل میں ہے ٹھکانا تیرا آرزو ہی نہ رہی صبح وطن کی مجھ کو شام غربت ہے عجب وقت سہانا تیرا یہ سمجھ کر تجھے اے موت لگا رکھا ہے کام آتا ہے برے وقت میں آنا تیرا اے دل شیفتہ میں آگ لگانے والے رنگ لایا ہے یہ لاکھے کا جمانا تیرا تو خدا تو نہیں اے ناصح ناداں میرا کیا خطا کی جو کہا میں نے نہ مانا تیرا رنج کیا وصل عدو کا جو تعلق ہی نہیں مجھ کو واللہ ہنساتا ہے رلانا تیرا کعبہ و دیر میں یا چشم و دل عاشق میں انہیں دو چار گھروں میں ہے ٹھکانا تیرا ترک عادت سے مجھے نیند نہیں آنے کی کہیں نیچا نہ ہو اے گور سرہانا تیرا میں جو کہتا ہوں اٹھائے ہیں بہت رنج فراق وہ یہ کہتے ہیں بڑا دل ہے توانا تیرا بزم دشمن سے تجھے کون اٹھا سکتا ہے اک قیامت کا اٹھانا ہے اٹھانا تیرا اپنی آنکھوں میں ابھی کوند گئی بجلی سی ہم نہ سمجھے کہ یہ آنا ہے کہ جانا تیرا یوں تو کیا آئے گا تو فرط نزاکت سے یہاں سخت دشوار ہے دھوکے میں بھی آنا تیرا داغؔ کو یوں وہ مٹاتے ہیں یہ فرماتے ہیں تو بدل ڈال ہوا نام پرانا تیرا " tumhaare-khat-men-nayaa-ik-salaam-kis-kaa-thaa-dagh-dehlvi-ghazals," تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا رہا نہ دل میں وہ بے درد اور درد رہا مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت تمہاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق کہو وہ تذکرۂ ناتمام کس کا تھا ہمارے خط کے تو پرزے کئے پڑھا بھی نہیں سنا جو تو نے بہ دل وہ پیام کس کا تھا اٹھائی کیوں نہ قیامت عدو کے کوچے میں لحاظ آپ کو وقت خرام کس کا تھا گزر گیا وہ زمانہ کہوں تو کس سے کہوں خیال دل کو مرے صبح و شام کس کا تھا ہمیں تو حضرت واعظ کی ضد نے پلوائی یہاں ارادۂ شرب مدام کس کا تھا اگرچہ دیکھنے والے ترے ہزاروں تھے تباہ حال بہت زیر بام کس کا تھا وہ کون تھا کہ تمہیں جس نے بے وفا جانا خیال خام یہ سودائے خام کس کا تھا انہیں صفات سے ہوتا ہے آدمی مشہور جو لطف عام وہ کرتے یہ نام کس کا تھا ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغؔ بے وفا نکلا یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا " achchhii-suurat-pe-gazab-tuut-ke-aanaa-dil-kaa-dagh-dehlvi-ghazals," اچھی صورت پہ غضب ٹوٹ کے آنا دل کا یاد آتا ہے ہمیں ہائے زمانا دل کا تم بھی منہ چوم لو بے ساختہ پیار آ جائے میں سناؤں جو کبھی دل سے فسانا دل کا نگۂ یار نے کی خانہ خرابی ایسی نہ ٹھکانا ہے جگر کا نہ ٹھکانا دل کا پوری مہندی بھی لگانی نہیں آتی اب تک کیوں کر آیا تجھے غیروں سے لگانا دل کا غنچۂ گل کو وہ مٹھی میں لیے آتے تھے میں نے پوچھا تو کیا مجھ سے بہانا دل کا ان حسینوں کا لڑکپن ہی رہے یا اللہ ہوش آتا ہے تو آتا ہے ستانا دل کا دے خدا اور جگہ سینہ و پہلو کے سوا کہ برے وقت میں ہو جائے ٹھکانا دل کا میری آغوش سے کیا ہی وہ تڑپ کر نکلے ان کا جانا تھا الٰہی کہ یہ جانا دل کا نگہ شرم کو بے تاب کیا کام کیا رنگ لایا تری آنکھوں میں سمانا دل کا انگلیاں تار گریباں میں الجھ جاتی ہیں سخت دشوار ہے ہاتھوں سے دبانا دل کا حور کی شکل ہو تم نور کے پتلے ہو تم اور اس پر تمہیں آتا ہے جلانا دل کا چھوڑ کر اس کو تری بزم سے کیوں کر جاؤں اک جنازے کا اٹھانا ہے اٹھانا دل کا بے دلی کا جو کہا حال تو فرماتے ہیں کر لیا تو نے کہیں اور ٹھکانا دل کا بعد مدت کے یہ اے داغؔ سمجھ میں آیا وہی دانا ہے کہا جس نے نہ مانا دل کا " is-nahiin-kaa-koii-ilaaj-nahiin-dagh-dehlvi-ghazals," اس نہیں کا کوئی علاج نہیں روز کہتے ہیں آپ آج نہیں کل جو تھا آج وہ مزاج نہیں اس تلون کا کچھ علاج نہیں آئنہ دیکھتے ہی اترائے پھر یہ کیا ہے اگر مزاج نہیں لے کے دل رکھ لو کام آئے گا گو ابھی تم کو احتیاج نہیں ہو سکیں ہم مزاج داں کیونکر ہم کو ملتا ترا مزاج نہیں چپ لگی لعل جاں فزا کو ترے اس مسیحا کا کچھ علاج نہیں دل بے مدعا خدا نے دیا اب کسی شے کی احتیاج نہیں کھوٹے داموں میں یہ بھی کیا ٹھہرا درہم داغ کا رواج نہیں بے نیازی کی شان کہتی ہے بندگی کی کچھ احتیاج نہیں دل لگی کیجئے رقیبوں سے اس طرح کا مرا مزاج نہیں عشق ہے پادشاہ عالم گیر گرچہ ظاہر میں تخت و تاج نہیں درد فرقت کی گو دوا ہے وصال اس کے قابل بھی ہر مزاج نہیں یاس نے کیا بجھا دیا دل کو کہ تڑپ کیسی اختلاج نہیں ہم تو سیرت پسند عاشق ہیں خوب رو کیا جو خوش مزاج نہیں حور سے پوچھتا ہوں جنت میں اس جگہ کیا بتوں کا راج نہیں صبر بھی دل کو داغؔ دے لیں گے ابھی کچھ اس کی احتیاج نہیں " ranj-kii-jab-guftuguu-hone-lagii-dagh-dehlvi-ghazals," رنج کی جب گفتگو ہونے لگی آپ سے تم تم سے تو ہونے لگی چاہیئے پیغام بر دونوں طرف لطف کیا جب دو بہ دو ہونے لگی میری رسوائی کی نوبت آ گئی ان کی شہرت کو بہ کو ہونے لگی ہے تری تصویر کتنی بے حجاب ہر کسی کے رو بہ رو ہونے لگی غیر کے ہوتے بھلا اے شام وصل کیوں ہمارے رو بہ رو ہونے لگی نا امیدی بڑھ گئی ہے اس قدر آرزو کی آرزو ہونے لگی اب کے مل کر دیکھیے کیا رنگ ہو پھر ہماری جستجو ہونے لگی داغؔ اترائے ہوئے پھرتے ہیں آج شاید ان کی آبرو ہونے لگی " dil-pareshaan-huaa-jaataa-hai-dagh-dehlvi-ghazals," دل پریشان ہوا جاتا ہے اور سامان ہوا جاتا ہے خدمت پیر مغاں کر زاہد تو اب انسان ہوا جاتا ہے موت سے پہلے مجھے قتل کرو اس کا احسان ہوا جاتا ہے لذت عشق الٰہی مٹ جائے درد ارمان ہوا جاتا ہے دم ذرا لو کہ مرا دم تم پر ابھی قربان ہوا جاتا ہے گریہ کیا ضبط کروں اے ناصح اشک پیمان ہوا جاتا ہے بے وفائی سے بھی رفتہ رفتہ وہ مری جان ہوا جاتا ہے عرصۂ حشر میں وہ آ پہنچے صاف میدان ہوا جاتا ہے مدد اے ہمت دشوارپسند کام آسان ہوا جاتا ہے چھائی جاتی ہے یہ وحشت کیسی گھر بیابان ہوا جاتا ہے شکوہ سن آنکھ ملا کر ظالم کیوں پشیمان ہوا جاتا ہے آتش شوق بجھی جاتی ہے خاک ارمان ہوا جاتا ہے عذر جانے میں نہ کر اے قاصد تو بھی نادان ہوا جاتا ہے مضطرب کیوں نہ ہوں ارماں دل میں قید مہمان ہوا جاتا ہے داغؔ خاموش نہ لگ جائے نظر شعر دیوان ہوا جاتا ہے " kaun-saa-taair-e-gum-gashta-use-yaad-aayaa-dagh-dehlvi-ghazals," کون سا طائر گم گشتہ اسے یاد آیا دیکھتا بھالتا ہر شاخ کو صیاد آیا میرے قابو میں نہ پہروں دل ناشاد آیا وہ مرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا کوئی بھولا ہوا انداز ستم یاد آیا کہ تبسم تجھے ظالم دم بیداد آیا لائے ہیں لوگ جنازے کی طرح محشر میں کس مصیبت سے ترا کشتۂ بیداد آیا جذب وحشت ترے قربان ترا کیا کہنا کھنچ کے رگ رگ میں مرے نشتر فصاد آیا اس کے جلوے کو غرض کون و مکاں سے کیا تھا داد لینے کے لیے حسن خداداد آیا بستیوں سے یہی آواز چلی آتی ہے جو کیا تو نے وہ آگے ترے فرہاد آیا دل ویراں سے رقیبوں نے مرادیں پائیں کام کس کس کے مرا خرمن برباد آیا عشق کے آتے ہی منہ پر مرے پھولی ہے بسنت ہو گیا زرد یہ شاگرد جب استاد آیا ہو گیا فرض مجھے شوق کا دفتر لکھنا جب مرے ہاتھ کوئی خامۂ فولاد آیا عید ہے قتل مرا اہل تماشا کے لیے سب گلے ملنے لگے جب کہ وہ جلاد آیا چین کرتے ہیں وہاں رنج اٹھانے والے کام عقبیٰ میں ہمارا دل ناشاد آیا دی شب وصل موذن نے اذاں پچھلی رات ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا میرے نالے نے سنائی ہے کھری کس کس کو منہ فرشتوں پہ یہ گستاخ یہ آزاد آیا غم جاوید نے دی مجھ کو مبارک بادی جب سنا یہ کہ انہیں شیوۂ بیداد آیا میں تمنائے شہادت کا مزا بھول گیا آج اس شوق سے ارمان سے جلاد آیا شادیانہ جو دیا نالہ و شیون نے دیا جب ملاقات کو ناشاد کی ناشاد آیا لیجئے سنئے اب افسانۂ فرقت مجھ سے آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داغؔ نہیں ہم کو وہ خانہ خراب آج بہت یاد آیا " dil-gayaa-tum-ne-liyaa-ham-kyaa-karen-dagh-dehlvi-ghazals," دل گیا تم نے لیا ہم کیا کریں جانے والی چیز کا غم کیا کریں ہم نے مر کر ہجر میں پائی شفا ایسے اچھوں کا وہ ماتم کیا کریں اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات اس بنا پر فکر عالم کیا کریں ایک ساغر پر ہے اپنی زندگی رفتہ رفتہ اس سے بھی کم کیا کریں کر چکے سب اپنی اپنی حکمتیں دم نکلتا ہو تو ہمدم کیا کریں دل نے سیکھا شیوۂ بیگانگی ایسے نامحرم کو محرم کیا کریں معرکہ ہے آج حسن و عشق کا دیکھیے وہ کیا کریں ہم کیا کریں آئینہ ہے اور وہ ہیں دیکھیے فیصلہ دونوں یہ باہم کیا کریں آدمی ہونا بہت دشوار ہے پھر فرشتے حرص آدم کیا کریں تند خو ہے کب سنے وہ دل کی بات اور بھی برہم کو برہم کیا کریں حیدرآباد اور لنگر یاد ہے اب کے دلی میں محرم کیا کریں کہتے ہیں اہل سفارش مجھ سے داغؔ تیری قسمت ہے بری ہم کیا کریں " in-aankhon-ne-kyaa-kyaa-tamaashaa-na-dekhaa-dagh-dehlvi-ghazals," ان آنکھوں نے کیا کیا تماشا نہ دیکھا حقیقت میں جو دیکھنا تھا نہ دیکھا تجھے دیکھ کر وہ دوئی اٹھ گئی ہے کہ اپنا بھی ثانی نہ دیکھا نہ دیکھا ان آنکھوں کے قربان جاؤں جنہوں نے ہزاروں حجابوں میں پروانہ دیکھا نہ ہمت نہ قسمت نہ دل ہے نہ آنکھیں نہ ڈھونڈا نہ پایا نہ سمجھا نہ دیکھا مریضان الفت کی کیا بے کسی ہے مسیحا کو بھی چارہ فرما نہ دیکھا بہت درد مندوں کو دیکھا ہے تو نے یہ سینہ یہ دل یہ کلیجا نہ دیکھا وہ کب دیکھ سکتا ہے اس کی تجلی جس انسان نے اپنا ہی جلوا نہ دیکھا بہت شور سنتے تھے اس انجمن کا یہاں آ کے جو کچھ سنا تھا نہ دیکھا صفائی ہے باغ محبت میں ایسی کہ باد صبا نے بھی تنکا نہ دیکھا اسے دیکھ کر اور کو پھر جو دیکھے کوئی دیکھنے والا ایسا نہ دیکھا وہ تھا جلوہ آرا مگر تو نے موسیٰ نہ دیکھا نہ دیکھا نہ دیکھا نہ دیکھا گیا کارواں چھوڑ کر مجھ کو تنہا ذرا میرے آنے کا رستا نہ دیکھا کہاں نقش اول کہاں نقش ثانی خدا کی خدائی میں تجھ سا نہ دیکھا تری یاد ہے یا ہے تیرا تصور کبھی داغؔ کو ہم نے تنہا نہ دیکھا " dil-ko-kyaa-ho-gayaa-khudaa-jaane-dagh-dehlvi-ghazals," دل کو کیا ہو گیا خدا جانے کیوں ہے ایسا اداس کیا جانے اپنے غم میں بھی اس کو صرفہ ہے نہ کھلا جانے وہ نہ کھا جانے اس تجاہل کا کیا ٹھکانا ہے جان کر جو نہ مدعا جانے کہہ دیا میں نے راز دل اپنا اس کو تم جانو یا خدا جانے کیا غرض کیوں ادھر توجہ ہو حال دل آپ کی بلا جانے جانتے جانتے ہی جانے گا مجھ میں کیا ہے ابھی وہ کیا جانے کیا ہم اس بد گماں سے بات کریں جو ستائش کو بھی گلہ جانے تم نہ پاؤ گے سادہ دل مجھ سا جو تغافل کو بھی حیا جانے ہے عبث جرم عشق پر الزام جب خطاوار بھی خطا جانے نہیں کوتاہ دامن امید آگے اب دست نارسا جانے جو ہو اچھا ہزار اچھوں کا واعظ اس بت کو تو برا جانے کی مری قدر مثل شاہ دکن کسی نواب نے نہ راجا نے اس سے اٹھے گی کیا مصیبت عشق ابتدا کو جو انتہا جانے داغؔ سے کہہ دو اب نہ گھبراؤ کام اپنا بتا ہوا جانے " gair-ko-munh-lagaa-ke-dekh-liyaa-dagh-dehlvi-ghazals," غیر کو منہ لگا کے دیکھ لیا جھوٹ سچ آزما کے دیکھ لیا ان کے گھر داغؔ جا کے دیکھ لیا دل کے کہنے میں آ کے دیکھ لیا کتنی فرحت فزا تھی بوئے وفا اس نے دل کو جلا کے دیکھ لیا کبھی غش میں رہا شب وعدہ کبھی گردن اٹھا کے دیکھ لیا جنس دل ہے یہ وہ نہیں سودا ہر جگہ سے منگا کے دیکھ لیا لوگ کہتے ہیں چپ لگی ہے تجھے حال دل بھی سنا کے دیکھ لیا جاؤ بھی کیا کرو گے مہر و وفا بارہا آزما کے دیکھ لیا زخم دل میں نہیں ہے قطرۂ خوں خوب ہم نے دکھا کے دیکھ لیا ادھر آئینہ ہے ادھر دل ہے جس کو چاہا اٹھا کے دیکھ لیا ان کو خلوت سرا میں بے پردہ صاف میدان پا کے دیکھ لیا اس نے صبح شب وصال مجھے جاتے جاتے بھی آ کے دیکھ لیا تم کو ہے وصل غیر سے انکار اور جو ہم نے آ کے دیکھ لیا داغؔ نے خوب عاشقی کا مزا جل کے دیکھا جلا کے دیکھ لیا " dil-churaa-kar-nazar-churaaii-hai-dagh-dehlvi-ghazals," دل چرا کر نظر چرائی ہے لٹ گئے لٹ گئے دہائی ہے ایک دن مل کے پھر نہیں ملتے کس قیامت کی یہ جدائی ہے اے اثر کر نہ انتظار دعا مانگنا سخت بے حیائی ہے میں یہاں ہوں وہاں ہے دل میرا نارسائی عجب رسائی ہے اس طرح اہل ناز ناز کریں بندگی ہے کہ یہ خدائی ہے پانی پی پی کے توبہ کرتا ہوں پارسائی سی پارسائی ہے وعدہ کرنے کا اختیار رہا بات کرنے میں کیا برائی ہے کب نکلتا ہے اب جگر سے تیر یہ بھی کیا تیری آشنائی ہے داغؔ ان سے دماغ کرتے ہیں نہیں معلوم کیا سمائی ہے " ajab-apnaa-haal-hotaa-jo-visaal-e-yaar-hotaa-dagh-dehlvi-ghazals," عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دل نثار ہوتا کوئی فتنہ تا قیامت نہ پھر آشکار ہوتا ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا تمہیں منصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا غم عشق میں مزا تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے یہ وہ زہر ہے کہ آخر مے خوش گوار ہوتا یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا نہ مزا ہے دشمنی میں نہ ہے لطف دوستی میں کوئی غیر غیر ہوتا کوئی یار یار ہوتا ترے وعدے پر ستم گر ابھی اور صبر کرتے اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا یہ وہ درد دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی اگر ایک بار مٹتا تو ہزار بار ہوتا گئے ہوش تیرے زاہد جو وہ چشم مست دیکھی مجھے کیا الٹ نہ دیتے جو نہ بادہ خوار ہوتا مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے در یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا تمہیں ناز ہو نہ کیونکر کہ لیا ہے داغؔ کا دل یہ رقم نہ ہاتھ لگتی نہ یہ افتخار ہوتا " is-adaa-se-vo-jafaa-karte-hain-dagh-dehlvi-ghazals," اس ادا سے وہ جفا کرتے ہیں کوئی جانے کہ وفا کرتے ہیں یوں وفا عہد وفا کرتے ہیں آپ کیا کہتے ہیں کیا کرتے ہیں ہم کو چھیڑوگے تو پچھتاؤگے ہنسنے والوں سے ہنسا کرتے ہیں نامہ بر تجھ کو سلیقہ ہی نہیں کام باتوں میں بنا کرتے ہیں چلئے عاشق کا جنازہ اٹھا آپ بیٹھے ہوئے کیا کرتے ہیں یہ بتاتا نہیں کوئی مجھ کو دل جو آتا ہے تو کیا کرتے ہیں حسن کا حق نہیں رہتا باقی ہر ادا میں وہ ادا کرتے ہیں تیر آخر بدل کافر ہے ہم اخیر آج دعا کرتے ہیں روتے ہیں غیر کا رونا پہروں یہ ہنسی مجھ سے ہنسا کرتے ہیں اس لیے دل کو لگا رکھا ہے اس میں محبوب رہا کرتے ہیں تم ملوگے نہ وہاں بھی ہم سے حشر سے پہلے گلہ کرتے ہیں جھانک کر روزن در سے مجھ کو کیا وہ شوخی سے حیا کرتے ہیں اس نے احسان جتا کر یہ کہا ''آپ کس منہ سے گلہ کرتے ہیں روز لیتے ہیں نیا دل دلبر نہیں معلوم یہ کیا کرتے ہیں داغؔ تو دیکھ تو کیا ہوتا ہے جبر پر صبر کیا کرتے ہیں " lutf-vo-ishq-men-paae-hain-ki-jii-jaantaa-hai-dagh-dehlvi-ghazals," لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے جو زمانے کے ستم ہیں وہ زمانہ جانے تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز وہ مرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے انہیں قدموں نے تمہارے انہیں قدموں کی قسم خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے دوستی میں تری در پردہ ہمارے دشمن اس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے " uzr-un-kii-zabaan-se-niklaa-dagh-dehlvi-ghazals," عذر ان کی زبان سے نکلا تیر گویا کمان سے نکلا وہ چھلاوا اس آن سے نکلا الاماں ہر زبان سے نکلا خار حسرت بیان سے نکلا دل کا کانٹا زبان سے نکلا فتنہ گر کیا مکان سے نکلا آسماں آسمان سے نکلا آ گیا غش نگاہ دیکھتے ہی مدعا کب زبان سے نکلا کھا گئے تھے وفا کا دھوکا ہم جھوٹ سچ امتحان سے نکلا دل میں رہنے نہ دوں ترا شکوہ دل میں آیا زبان سے نکلا وہم آتے ہیں دیکھیے کیا ہو وہ اکیلا مکان سے نکلا تم برستے رہے سر محفل کچھ بھی میری زبان سے نکلا سچ تو یہ ہے معاملہ دل کا باہر اپنے گمان سے نکلا اس کو آیت حدیث کیا سمجھیں جو تمہاری زبان سے نکلا پڑ گیا جو زباں سے تیری حرف پھر نہ اپنے مکان سے نکلا دیکھ کر روئے یار صل علیٰ بے تحاشا زبان سے نکلا لو قیامت اب آئی وہ کافر بن بنا کر مکان سے نکلا مر گئے ہم مگر ترا ارمان دل سے نکلا نہ جان سے نکلا رہرو راہ عشق تھے لاکھوں آگے میں کاروان سے نکلا سمجھو پتھر کی تم لکیر اسے جو ہماری زبان سے نکلا بزم سے تم کو لے کے جائیں گے کام کب پھول پان سے نکلا کیا مروت ہے ناوک دل دوز پہلے ہرگز نہ جان سے نکلا تیرے دیوانوں کا بھی لشکر آج کس تجمل سے شان سے نکلا مڑ کے دیکھا تو میں نے کب دیکھا دور جب پاسبان سے نکلا وہ ہلے لب تمہارے وعدے پر وہ تمہاری زبان سے نکلا اس کی بانکی ادا نے جب مارا دم مرا آن تان سے نکلا میرے آنسو کی اس نے کی تعریف خوب موتی یہ کان سے نکلا ہم کھڑے تم سے باتیں کرتے تھے غیر کیوں درمیان سے نکلا ذکر اہل وفا کا جب آیا داغؔ ان کی زبان سے نکلا " sabaq-aisaa-padhaa-diyaa-tuu-ne-dagh-dehlvi-ghazals," سبق ایسا پڑھا دیا تو نے دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے ہم نکمے ہوئے زمانے کے کام ایسا سکھا دیا تو نے کچھ تعلق رہا نہ دنیا سے شغل ایسا بتا دیا تو نے کس خوشی کی خبر سنا کے مجھے غم کا پتلا بنا دیا تو نے کیا بتاؤں کہ کیا لیا میں نے کیا کہوں میں کی کیا دیا تو نے بے طلب جو ملا ملا مجھ کو بے غرض جو دیا دیا تو نے عمر جاوید خضر کو بخشی آب حیواں پلا دیا تو نے نار نمرود کو کیا گلزار دوست کو یوں بچا دیا تو نے دست موسیٰ میں فیض بخشش ہے نور و لوح و عصا دیا تو نے صبح موج نسیم گلشن کو نفس جاں فزا دیا تو نے شب تیرہ میں شمع روشن کو نور خورشید کا دیا تو نے نغمہ بلبل کو رنگ و بو گل کو دلکش و خوش نما دیا تو نے کہیں مشتاق سے حجاب ہوا کہیں پردہ اٹھا دیا تو نے تھا مرا منہ نہ قابل لبیک کعبہ مجھ کو دکھا دیا تو نے جس قدر میں نے تجھ سے خواہش کی اس سے مجھ کو سوا دیا تو نے رہبر خضر و ہادی الیاس مجھ کو وہ رہنما دیا تو نے مٹ گئے دل سے نقش باطل سب نقشہ اپنا جما دیا تو نے ہے یہی راہ منزل مقصود خوب رستے لگا دیا تو نے مجھ گنہ گار کو جو بخش دیا تو جہنم کو کیا دیا تو نے داغؔ کو کون دینے والا تھا جو دیا اے خدا دیا تو نے " naa-ravaa-kahiye-naa-sazaa-kahiye-dagh-dehlvi-ghazals," ناروا کہئے ناسزا کہئے کہئے کہئے مجھے برا کہئے تجھ کو بد عہد و بے وفا کہئے ایسے جھوٹے کو اور کیا کہئے درد دل کا نہ کہئے یا کہئے جب وہ پوچھے مزاج کیا کہئے پھر نہ رکئے جو مدعا کہئے ایک کے بعد دوسرا کہئے آپ اب میرا منہ نہ کھلوائیں یہ نہ کہئے کہ مدعا کہئے وہ مجھے قتل کر کے کہتے ہیں مانتا ہی نہ تھا یہ کیا کہئے دل میں رکھنے کی بات ہے غم عشق اس کو ہرگز نہ برملا کہئے تجھ کو اچھا کہا ہے کس کس نے کہنے والوں کو اور کیا کہئے وہ بھی سن لیں گے یہ کبھی نہ کبھی حال دل سب سے جا بجا کہئے مجھ کو کہئے برا نہ غیر کے ساتھ جو ہو کہنا جدا جدا کہئے انتہا عشق کی خدا جانے دم آخر کو ابتدا کہئے میرے مطلب سے کیا غرض مطلب آپ اپنا تو مدعا کہئے ایسی کشتی کا ڈوبنا اچھا کہ جو دشمن کو ناخدا کہئے صبر فرقت میں آ ہی جاتا ہے پر اسے دیر آشنا کہئے آ گئی آپ کو مسیحائی مرنے والوں کو مرحبا کہئے آپ کا خیر خواہ میرے سوا ہے کوئی اور دوسرا کہئے ہاتھ رکھ کر وہ اپنے کانوں پر مجھ سے کہتے ہیں ماجرا کہئے ہوش جاتے رہے رقیبوں کے داغؔ کو اور با وفا کہئے " sab-log-jidhar-vo-hain-udhar-dekh-rahe-hain-dagh-dehlvi-ghazals," سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں تیور ترے اے رشک قمر دیکھ رہے ہیں ہم شام سے آثار سحر دیکھ رہے ہیں میرا دل گم گشتہ جو ڈھونڈا نہیں ملتا وہ اپنا دہن اپنی کمر دیکھ رہے ہیں کوئی تو نکل آئے گا سر باز محبت دل دیکھ رہے ہیں وہ جگر دیکھ رہے ہیں ہے مجمع اغیار کہ ہنگامۂ محشر کیا سیر مرے دیدۂ تر دیکھ رہے ہیں اب اے نگہ شوق نہ رہ جائے تمنا اس وقت ادھر سے وہ ادھر دیکھ رہے ہیں ہر چند کہ ہر روز کی رنجش ہے قیامت ہم کوئی دن اس کو بھی مگر دیکھ رہے ہیں آمد ہے کسی کی کہ گیا کوئی ادھر سے کیوں سب طرف راہ گزر دیکھ رہے ہیں تکرار تجلی نے ترے جلوے میں کیوں کی حیرت زدہ سب اہل نظر دیکھ رہے ہیں نیرنگ ہے ایک ایک ترا دید کے قابل ہم اے فلک شعبدہ گر دیکھ رہے ہیں کب تک ہے تمہارا سخن تلخ گوارا اس زہر میں کتنا ہے اثر دیکھ رہے ہیں کچھ دیکھ رہے ہیں دل بسمل کا تڑپنا کچھ غور سے قاتل کا ہنر دیکھ رہے ہیں اب تک تو جو قسمت نے دکھایا وہی دیکھا آئندہ ہو کیا نفع و ضرر دیکھ رہے ہیں پہلے تو سنا کرتے تھے عاشق کی مصیبت اب آنکھ سے وہ آٹھ پہر دیکھ رہے ہیں کیوں کفر ہے دیدار صنم حضرت واعظ اللہ دکھاتا ہے بشر دیکھ رہے ہیں خط غیر کا پڑھتے تھے جو ٹوکا تو وہ بولے اخبار کا پرچہ ہے خبر دیکھ رہے ہیں پڑھ پڑھ کے وہ دم کرتے ہیں کچھ ہاتھ پر اپنے ہنس ہنس کے مرے زخم جگر دیکھ رہے ہیں میں داغؔ ہوں مرتا ہوں ادھر دیکھیے مجھ کو منہ پھیر کے یہ آپ کدھر دیکھ رہے ہیں " ye-baat-baat-men-kyaa-naazukii-nikaltii-hai-dagh-dehlvi-ghazals," یہ بات بات میں کیا نازکی نکلتی ہے دبی دبی ترے لب سے ہنسی نکلتی ہے ٹھہر ٹھہر کے جلا دل کو ایک بار نہ پھونک کہ اس میں بوئے محبت ابھی نکلتی ہے بجائے شکوہ بھی دیتا ہوں میں دعا اس کو مری زباں سے کروں کیا یہی نکلتی ہے خوشی میں ہم نے یہ شوخی کبھی نہیں دیکھی دم عتاب جو رنگت تری نکلتی ہے ہزار بار جو مانگا کرو تو کیا حاصل دعا وہی ہے جو دل سے کبھی نکلتی ہے ادا سے تیری مگر کھنچ رہیں ہیں تلواریں نگہ نگہ سے چھری پر چھری نکلتی ہے محیط عشق میں ہے کیا امید و بیم مجھے کہ ڈوب ڈوب کے کشتی مری نکلتی ہے جھلک رہی ہے سر شاخ مژہ خون کی بوند شجر میں پہلے ثمر سے کلی نکلتی ہے شب فراق جو کھولے ہیں ہم نے زخم جگر یہ انتظار ہے کب چاندنی نکلتی ہے سمجھ تو لیجئے کہنے تو دیجئے مطلب بیاں سے پہلے ہی مجھ پر چھری نکلتی ہے یہ دل کی آگ ہے یا دل کے نور کا ہے ظہور نفس نفس میں مرے روشنی نکلتی ہے کہا جو میں نے کہ مر جاؤں گا تو کہتے ہیں ہمارے زائچے میں زندگی نکلتی ہے سمجھنے والے سمجھتے ہیں پیچ کی تقریر کہ کچھ نہ کچھ تری باتوں میں فی نکلتی ہے دم اخیر تصور ہے کس پری وش کا کہ میری روح بھی بن کر پری نکلتی ہے صنم کدے میں بھی ہے حسن اک خدائی کا کہ جو نکلتی ہے صورت پری نکلتی ہے مرے نکالے نہ نکلے گی آرزو میری جو تم نکالنا چاہو ابھی نکلتی ہے غم فراق میں ہو داغؔ اس قدر بیتاب ذرا سے رنج میں جاں آپ کی نکلتی ہے " kahte-hain-jis-ko-huur-vo-insaan-tumhiin-to-ho-dagh-dehlvi-ghazals," کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو جاتی ہے جس پہ جان مری جاں تمہیں تو ہو مطلب کی کہہ رہے ہیں وہ دانا ہمیں تو ہیں مطلب کی پوچھتے ہو وہ ناداں تمہیں تو ہو آتا ہے بعد ظلم تمہیں کو تو رحم بھی اپنے کیے سے دل میں پشیماں تمہیں تو ہو پچھتاؤ گے بہت مرے دل کو اجاڑ کر اس گھر میں اور کون ہے مہماں تمہیں تو ہو اک روز رنگ لائیں گی یہ مہربانیاں ہم جانتے تھے جان کے خواہاں تمہیں تو ہو دل دار و دل فریب دل آزار و دل ستاں لاکھوں میں ہم کہیں گے کہ ہاں ہاں تمہیں تو ہو کرتے ہو داغؔ دور سے بت خانے کو سلام اپنی طرح کے ایک مسلماں تمہیں تو ہو " un-ke-ik-jaan-nisaar-ham-bhii-hain-dagh-dehlvi-ghazals," ان کے اک جاں نثار ہم بھی ہیں ہیں جہاں سو ہزار ہم بھی ہیں تم بھی بے چین ہم بھی ہیں بے چین تم بھی ہو بے قرار ہم بھی ہیں اے فلک کہہ تو کیا ارادہ ہے عیش کے خواست گار ہم بھی ہیں کھینچ لائے گا جذب دل ان کو ہمہ تن انتظار ہم بھی ہیں بزم دشمن میں لے چلا ہے دل کیسے بے اختیار ہم بھی ہیں شہر خالی کئے دکاں کیسی ایک ہی بادہ خوار ہم بھی ہیں شرم سمجھے ترے تغافل کو واہ کیا ہوشیار ہم بھی ہیں ہاتھ ہم سے ملاؤ اے موسیٰ عاشق روئے یار ہم بھی ہیں خواہش بادۂ طہور نہیں کیسے پرہیزگار ہم بھی ہیں تم اگر اپنی گوں کے ہو معشوق اپنے مطلب کے یار ہم بھی ہیں جس نے چاہا پھنسا لیا ہم کو دلبروں کے شکار ہم بھی ہیں آئی مے خانے سے یہ کس کی صدا لاؤ یاروں کے یار ہم بھی ہیں لے ہی تو لے گی دل نگاہ تری ہر طرح ہوشیار ہم بھی ہیں ادھر آ کر بھی فاتحہ پڑھ لو آج زیر مزار ہم بھی ہیں غیر کا حال پوچھئے ہم سے اس کے جلسے کے یار ہم بھی ہیں کون سا دل ہے جس میں داغؔ نہیں عشق میں یادگار ہم بھی ہیں " falak-detaa-hai-jin-ko-aish-un-ko-gam-bhii-hote-hain-dagh-dehlvi-ghazals," فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں جہاں بجتے ہیں نقارے وہیں ماتم بھی ہوتے ہیں گلے شکوے کہاں تک ہوں گے آدھی رات تو گزری پریشاں تم بھی ہوتے ہو پریشاں ہم بھی ہوتے ہیں جو رکھے چارہ گر کافور دونی آگ لگ جائے کہیں یہ زخم دل شرمندہ مرہم بھی ہوتے ہیں وہ آنکھیں سامری فن ہیں وہ لب عیسیٰ نفس دیکھو مجھی پر سحر ہوتے ہیں مجھی پر دم بھی ہوتے ہیں زمانہ دوستی پر ان حسینوں کی نہ اترائے یہ عالم دوست اکثر دشمن عالم بھی ہوتے ہیں بظاہر رہنما ہیں اور دل میں بدگمانی ہے ترے کوچے میں جو جاتا ہے آگے ہم بھی ہوتے ہیں ہمارے آنسوؤں کی آبداری اور ہی کچھ ہے کہ یوں ہونے کو روشن گوہر شبنم بھی ہوتے ہیں خدا کے گھر میں کیا ہے کام زاہد بادہ خواروں کا جنہیں ملتی نہیں وہ تشنۂ زمزم بھی ہوتے ہیں ہمارے ساتھ ہی پیدا ہوا ہے عشق اے ناصح جدائی کس طرح سے ہو جدا توام بھی ہوتے ہیں نہیں گھٹتی شب فرقت بھی اکثر ہم نے دیکھا ہے جو بڑھ جاتے ہیں حد سے وہ ہی گھٹ کر کم بھی ہوتے ہیں بچاؤں پیرہن کیا چارہ گر میں دست وحشت سے کہیں ایسے گریباں دامن مریم بھی ہوتے ہیں طبیعت کی کجی ہرگز مٹائے سے نہیں مٹتی کبھی سیدھے تمہارے گیسوئے پر خم بھی ہوتے ہیں جو کہتا ہوں کہ مرتا ہوں تو فرماتے ہیں مر جاؤ جو غش آتا ہے تو مجھ پر ہزاروں دم بھی ہوتے ہیں کسی کا وعدۂ دیدار تو اے داغؔ برحق ہے مگر یہ دیکھیے دل شاد اس دن ہم بھی ہوتے ہیں " saaz-ye-kiina-saaz-kyaa-jaanen-dagh-dehlvi-ghazals," ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں ناز والے نیاز کیا جانیں شمع رو آپ گو ہوئے لیکن لطف سوز و گداز کیا جانیں کب کسی در کی جبہہ سائی کی شیخ صاحب نماز کیا جانیں جو رہ عشق میں قدم رکھیں وہ نشیب و فراز کیا جانیں پوچھئے مے کشوں سے لطف شراب یہ مزا پاکباز کیا جانیں بلے چتون تری غضب ری نگاہ کیا کریں گے یہ ناز کیا جانیں جن کو اپنی خبر نہیں اب تک وہ مرے دل کا راز کیا جانیں حضرت خضر جب شہید نہ ہوں لطف عمر دراز کیا جانیں جو گزرتے ہیں داغؔ پر صدمے آپ بندہ نواز کیا جانیں " zaahid-na-kah-burii-ki-ye-mastaane-aadmii-hain-dagh-dehlvi-ghazals," زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں تجھ کو لپٹ پڑیں گے دیوانے آدمی ہیں غیروں کی دوستی پر کیوں اعتبار کیجے یہ دشمنی کریں گے بیگانے آدمی ہیں جو آدمی پہ گزری وہ اک سوا تمہارے کیا جی لگا کے سنتے افسانے آدمی ہیں کیا جرأتیں جو ہم کو درباں تمہارا ٹوکے کہہ دو کہ یہ تو جانے پہچانے آدمی ہیں مے بوند بھر پلا کر کیا ہنس رہا ہے ساقی بھر بھر کے پیتے آخر پیمانے آدمی ہیں تم نے ہمارے دل میں گھر کر لیا تو کیا ہے آباد کرتے آخر ویرانے آدمی ہیں ناصح سے کوئی کہہ دے کیجے کلام ایسا حضرت کو تا کہ کوئی یہ جانے آدمی ہیں جب داور قیامت پوچھے گا تم پہ رکھ کر کہہ دیں گے صاف ہم تو بیگانے آدمی ہیں میں وہ بشر کہ مجھ سے ہر آدمی کو نفرت تم شمع وہ کہ تم پر پروانے آدمی ہیں محفل بھری ہوئی ہے سودائیوں سے اس کی اس غیرت پری پر دیوانے آدمی ہیں شاباش داغؔ تجھ کو کیا تیغ عشق کھائی جی کرتے ہیں وہی جو مردانے آدمی ہیں " jo-ho-saktaa-hai-us-se-vo-kisii-se-ho-nahiin-saktaa-dagh-dehlvi-ghazals," جو ہو سکتا ہے اس سے وہ کسی سے ہو نہیں سکتا مگر دیکھو تو پھر کچھ آدمی سے ہو نہیں سکتا محبت میں کرے کیا کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا مرا مرنا بھی تو میری خوشی سے ہو نہیں سکتا الگ کرنا رقیبوں کا الٰہی تجھ کو آساں ہے مجھے مشکل کہ میری بیکسی سے ہو نہیں سکتا کیا ہے وعدۂ فردا انہوں نے دیکھیے کیا ہو یہاں صبر و تحمل آج ہی سے ہو نہیں سکتا یہ مشتاق شہادت کس جگہ جائیں کسے ڈھونڈیں کہ تیرا کام قاتل جب تجھی سے ہو نہیں سکتا لگا کر تیغ قصہ پاک کیجئے دادخواہوں کا کسی کا فیصلہ کر منصفی سے ہو نہیں سکتا مرا دشمن بظاہر چار دن کو دوست ہے تیرا کسی کا ہو رہے یہ ہر کسی سے ہو نہیں سکتا پرسش کہو گے کیا وہاں جب یاں یہ صورت ہے ادا اک حرف وعدہ نازکی سے ہو نہیں سکتا نہ کہئے گو کہ حال دل مگر رنگ آشنا ہیں ہم یہ ظاہر آپ کی کیا خامشی سے ہو نہیں سکتا کیا جو ہم نے ظالم کیا کرے گا غیر منہ کیا ہے کرے تو صبر ایسا آدمی سے ہو نہیں سکتا چمن میں ناز بلبل نے کیا جو اپنی نالے پر چٹک کر غنچہ بولا کیا کسی سے ہو نہیں سکتا نہیں گر تجھ پہ قابو دل ہے پر کچھ زور ہو اپنا کروں کیا یہ بھی تو نا طاقتی سے ہو نہیں سکتا نہ رونا ہے طریقے کا نہ ہنسنا ہے سلیقے کا پریشانی میں کوئی کام جی سے ہو نہیں سکتا ہوا ہوں اس قدر محجوب عرض مدعا کر کے کہ اب تو عذر بھی شرمندگی سے ہو نہیں سکتا غضب میں جان ہے کیا کیجے بدلہ رنج فرقت کا بدی سے کر نہیں سکتے خوشی سے ہو نہیں سکتا مزا جو اضطراب شوق سے عاشق کو ہے حاصل وہ تسلیم و رضا و بندگی سے ہو نہیں سکتا خدا جب دوست ہے اے داغؔ کیا دشمن سے اندیشہ ہمارا کچھ کسی کی دشمنی سے ہو نہیں سکتا " vo-zamaana-nazar-nahiin-aataa-dagh-dehlvi-ghazals," وہ زمانہ نظر نہیں آتا کچھ ٹھکانا نظر نہیں آتا جان جاتی دکھائی دیتی ہے ان کا آنا نظر نہیں آتا عشق در پردہ پھونکتا ہے آگ یہ جلانا نظر نہیں آتا اک زمانہ مری نظر میں رہا اک زمانہ نظر نہیں آتا دل نے اس بزم میں بٹھا تو دیا اٹھ کے جانا نظر نہیں آتا رہیے مشتاق جلوۂ دیدار ہم نے مانا نظر نہیں آتا لے چلو مجھ کو راہروان عدم یاں ٹھکانا نظر نہیں آتا دل پہ بیٹھا کہاں سے تیر نگاہ یہ نشانہ نظر نہیں آتا تم ملاؤ گے خاک میں ہم کو دل ملانا نظر نہیں آتا آپ ہی دیکھتے ہیں ہم کو تو دل کا آنا نظر نہیں آتا دل پر آرزو لٹا اے داغؔ وہ خزانہ نظر نہیں آتا " bhaven-tantii-hain-khanjar-haath-men-hai-tan-ke-baithe-hain-dagh-dehlvi-ghazals," بھویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوں بن کے بیٹھے ہیں دلوں پر سیکڑوں سکے ترے جوبن کے بیٹھے ہیں کلیجوں پر ہزاروں تیر اس چتون کے بیٹھے ہیں الٰہی کیوں نہیں اٹھتی قیامت ماجرا کیا ہے ہمارے سامنے پہلو میں وہ دشمن کے بیٹھے ہیں یہ گستاخی یہ چھیڑ اچھی نہیں ہے اے دل ناداں ابھی پھر روٹھ جائیں گے ابھی تو من کے بیٹھے ہیں اثر ہے جذب الفت میں تو کھنچ کر آ ہی جائیں گے ہمیں پروا نہیں ہم سے اگر وہ تن کے بیٹھے ہیں سبک ہو جائیں گے گر جائیں گے وہ بزم دشمن میں کہ جب تک گھر میں بیٹھے ہیں وہ لاکھوں من کے بیٹھے ہیں فسوں ہے یا دعا ہے یا معمہ کھل نہیں سکتا وہ کچھ پڑھتے ہوئے آگے مرے مدفن کے بیٹھے ہیں بہت رویا ہوں میں جب سے یہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ آپ آنسو بہاتے سامنے دشمن کے بیٹھے ہیں کھڑے ہوں زیر طوبیٰ وہ نہ دم لینے کو دم بھر بھی جو حسرت مند تیرے سایۂ دامن کے بیٹھے ہیں تلاش منزل مقصد کی گردش اٹھ نہیں سکتی کمر کھولے ہوئے رستے میں ہم رہزن کے بیٹھے ہیں یہ جوش گریہ تو دیکھو کہ جب فرقت میں رویا ہوں در و دیوار اک پل میں مرے مدفن کے بیٹھے ہیں نگاہ شوخ و چشم شوق میں در پردہ چھنتی ہے کہ وہ چلمن میں ہیں نزدیک ہم چلمن کے بیٹھے ہیں یہ اٹھنا بیٹھنا محفل میں ان کا رنگ لائے گا قیامت بن کے اٹھیں گے بھبوکا بن کے بیٹھے ہیں کسی کی شامت آئے گی کسی کی جان جائے گی کسی کی تاک میں وہ بام پر بن ٹھن کے بیٹھے ہیں قسم دے کر انہیں یہ پوچھ لو تم رنگ ڈھنگ اس کے تمہاری بزم میں کچھ دوست بھی دشمن کے بیٹھے ہیں کوئی چھینٹا پڑے تو داغؔ کلکتے چلے جائیں عظیم آباد میں ہم منتظر ساون کے بیٹھے ہیں " gazab-kiyaa-tire-vaade-pe-e-tibaar-kiyaa-dagh-dehlvi-ghazals," غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا تمام رات قیامت کا انتظار کیا کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کیا مری وفا نے مجھے خوب شرمسار کیا ہنسا ہنسا کے شب وصل اشک بار کیا تسلیاں مجھے دے دے کے بے قرار کیا یہ کس نے جلوہ ہمارے سر مزار کیا کہ دل سے شور اٹھا ہائے بے قرار کیا سنا ہے تیغ کو قاتل نے آب دار کیا اگر یہ سچ ہے تو بے شبہ ہم پہ وار کیا نہ آئے راہ پہ وہ عجز بے شمار کیا شب وصال بھی میں نے تو انتظار کیا تجھے تو وعدۂ دیدار ہم سے کرنا تھا یہ کیا کیا کہ جہاں کو امیدوار کیا یہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو مآل اندیش انہوں نے وعدہ کیا اس نے اعتبار کیا کہاں کا صبر کہ دم پر ہے بن گئی ظالم بہ تنگ آئے تو حال دل آشکار کیا تڑپ پھر اے دل ناداں کہ غیر کہتے ہیں اخیر کچھ نہ بنی صبر اختیار کیا ملے جو یار کی شوخی سے اس کی بے چینی تمام رات دل مضطرب کو پیار کیا بھلا بھلا کے جتایا ہے ان کو راز نہاں چھپا چھپا کے محبت کو آشکار کیا نہ اس کے دل سے مٹایا کہ صاف ہو جاتا صبا نے خاک پریشاں مرا غبار کیا ہم ایسے محو نظارہ نہ تھے جو ہوش آتا مگر تمہارے تغافل نے ہوشیار کیا ہمارے سینے میں جو رہ گئی تھی آتش ہجر شب وصال بھی اس کو نہ ہمکنار کیا رقیب و شیوۂ الفت خدا کی قدرت ہے وہ اور عشق بھلا تم نے اعتبار کیا زبان خار سے نکلی صدائے بسم اللہ جنوں کو جب سر شوریدہ پر سوار کیا تری نگہ کے تصور میں ہم نے اے قاتل لگا لگا کے گلے سے چھری کو پیار کیا غضب تھی کثرت محفل کہ میں نے دھوکہ میں ہزار بار رقیبوں کو ہمکنار کیا ہوا ہے کوئی مگر اس کا چاہنے والا کہ آسماں نے ترا شیوہ اختیار کیا نہ پوچھ دل کی حقیقت مگر یہ کہتے ہیں وہ بے قرار رہے جس نے بے قرار کیا جب ان کو طرز ستم آ گئے تو ہوش آیا برا ہو دل کا برے وقت ہشیار کیا فسانۂ شب غم ان کو اک کہانی تھی کچھ اعتبار کیا کچھ نہ اعتبار کیا اسیری دل آشفتہ رنگ لا کے رہی تمام طرۂ طرار تار تار کیا کچھ آ گئی داور محشر سے ہے امید مجھے کچھ آپ نے مرے کہنے کا اعتبار کیا کسی کے عشق نہاں میں یہ بد گمانی تھی کہ ڈرتے ڈرتے خدا پر بھی آشکار کیا فلک سے طور قیامت کے بن نہ پڑتے تھے اخیر اب تجھے آشوب روزگار کیا وہ بات کر جو کبھی آسماں سے ہو نہ سکے ستم کیا تو بڑا تو نے افتخار کیا بنے گا مہر قیامت بھی ایک خال سیاہ جو چہرہ داغؔ سیہ رو نے آشکار کیا " majnuun-ne-shahr-chhodaa-to-sahraa-bhii-chhod-de-allama-iqbal-ghazals," مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے نظارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے واعظ کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرف غیر بیگانہ شے پہ نازش بے جا بھی چھوڑ دے لطف کلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے شبنم کی طرح پھولوں پہ رو اور چمن سے چل اس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا بت خانہ بھی حرم بھی کلیسا بھی چھوڑ دے سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے جینا وہ کیا جو ہو نفس غیر پر مدار شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے شوخی سی ہے سوال مکرر میں اے کلیم شرط رضا یہ ہے کہ تقاضا بھی چھوڑ دے واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے " hazaar-khauf-ho-lekin-zabaan-ho-dil-kii-rafiiq-allama-iqbal-ghazals," ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا غریب اگرچہ ہیں رازیؔ کے نکتہ ہاے دقیق مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق اسی طلسم کہن میں اسیر ہے آدم بغل میں اس کی ہیں اب تک بتان عہد عتیق مرے لیے تو ہے اقرار بااللساں بھی بہت ہزار شکر کہ ملا ہیں صاحب تصدیق اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق " har-shai-musaafir-har-chiiz-raahii-allama-iqbal-ghazals," ہر شے مسافر ہر چیز راہی کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی تو مرد میداں تو میر لشکر نوری حضوری تیرے سپاہی کچھ قدر اپنی تو نے نہ جانی یہ بے سوادی یہ کم نگاہی دنیائے دوں کی کب تک غلامی یا راہبی کر یا پادشاہی پیر حرم کو دیکھا ہے میں نے کردار بے سوز گفتار واہی " ejaaz-hai-kisii-kaa-yaa-gardish-e-zamaana-allama-iqbal-ghazals," اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ تعمیر آشیاں سے میں نے یہ راز پایا اہل نوا کے حق میں بجلی ہے آشیانہ یہ بندگی خدائی وہ بندگی گدائی یا بندۂ خدا بن یا بندۂ زمانہ غافل نہ ہو خودی سے کر اپنی پاسبانی شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ اے لا الٰہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں گفتار دلبرانہ کردار قاہرانہ تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ راز حرم سے شاید اقبالؔ باخبر ہے ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ " khird-mandon-se-kyaa-puuchhuun-ki-merii-ibtidaa-kyaa-hai-allama-iqbal-ghazals," خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں یہی سوز نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کیا ہے اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں تو اقبالؔ اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے نوائے صبح گاہی نے جگر خوں کر دیا میرا خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے وہ خطا کیا ہے " digar-guun-hai-jahaan-taaron-kii-gardish-tez-hai-saaqii-allama-iqbal-ghazals," دگر گوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی دل ہر ذرہ میں غوغائے رستاخیز ہے ساقی متاع دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی وہی دیرینہ بیماری وہی نامحکمی دل کی علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی حرم کے دل میں سوز آرزو پیدا نہیں ہوتا کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی نہ اٹھا پھر کوئی رومیؔ عجم کے لالہ زاروں سے وہی آب و گل ایراں وہی تبریز ہے ساقی نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی فقیر راہ کو بخشے گئے اسرار سلطانی بہا میری نوا کی دولت پرویز ہے ساقی " jab-ishq-sikhaataa-hai-aadaab-e-khud-aagaahii-allama-iqbal-ghazals," جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی عطارؔ ہو رومیؔ ہو رازیؔ ہو غزالیؔ ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہٰی آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی " merii-navaa-e-shauq-se-shor-hariim-e-zaat-men-allama-iqbal-ghazals-3," میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقشہ بند میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں " vahii-merii-kam-nasiibii-vahii-terii-be-niyaazii-allama-iqbal-ghazals," وہی میری کم نصیبی وہی تیری بے نیازی مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی میں کہاں ہوں تو کہاں ہے یہ مکاں کہ لا مکاں ہے یہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تری کرشمہ سازی اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و ساز رومیؔ کبھی پیچ و تاب رازیؔ وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی نہ زباں کوئی غزل کی نہ زباں سے باخبر میں کوئی دل کشا صدا ہو عجمی ہو یا کہ تازی نہیں فقر و سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا یہ سپہ کی تیغ بازی وہ نگہ کی تیغ بازی کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بد گماں حرم سے کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی " na-tuu-zamiin-ke-liye-hai-na-aasmaan-ke-liye-allama-iqbal-ghazals," نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے یہ عقل و دل ہیں شرر شعلۂ محبت کے وہ خار و خس کے لیے ہے یہ نیستاں کے لیے مقام پرورش آہ و نالہ ہے یہ چمن نہ سیر گل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک ترا سفینہ کہ ہے بحر بیکراں کے لیے نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے ذرا سی بات تھی اندیشۂ عجم نے اسے بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لیے مرے گلو میں ہے اک نغمہ جبرائیل آشوب سنبھال کر جسے رکھا ہے لا مکاں کے لیے " dhuund-rahaa-hai-farang-aish-e-jahaan-kaa-davaam-allama-iqbal-ghazals," ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام وائے تمنائے خام وائے تمنائے خام پیر حرم نے کہا سن کے میری رویداد پختہ ہے تیری فغاں اب نہ اسے دل میں تھام تھا ارنی گو کلیم میں ارنی گو نہیں اس کو تقاضا روا مجھ پہ تقاضا حرام گرچہ ہے افشائے راز اہل نظر کی فغاں ہو نہیں سکتا کبھی شیوۂ رندانہ عام حلقۂ صوفی میں ذکر بے نم و بے سوز و ساز میں بھی رہا تشنہ کام تو بھی رہا تشنہ کام عشق تری انتہا عشق مری انتہا تو بھی ابھی نا تمام میں بھی ابھی نا تمام آہ کہ کھویا گیا تجھ سے فقیری کا راز ورنہ ہے مال فقری سلطنت روم و شام " agar-kaj-rau-hain-anjum-aasmaan-teraa-hai-yaa-meraa-allama-iqbal-ghazals," اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی خطا کس کی ہے یا رب لا مکاں تیرا ہے یا میرا اسے صبح ازل انکار کی جرأت ہوئی کیوں کر مجھے معلوم کیا وہ رازداں تیرا ہے یا میرا محمد بھی ترا جبریل بھی قرآن بھی تیرا مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا " zamaana-aayaa-hai-be-hijaabii-kaa-aam-diidaar-e-yaar-hogaa-allama-iqbal-ghazals," زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں آ بسیں گے برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پر استوار ہوگا نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں تو پیر مے خانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خار ہوگا دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا ہے جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا کہا جو قمری سے میں نے اک دن یہاں کے آزاد پاگل ہیں تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہوگا خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا یہ رسم برہم فنا ہے اے دل گناہ ہے جنبش نظر بھی رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہوگا میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شہہ نشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہوگا نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہوگا نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانہ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی کہیں سر راہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہوگا " ye-payaam-de-gaii-hai-mujhe-baad-e-subh-gaahii-allama-iqbal-ghazals," یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی تری زندگی اسی سے تری آبرو اسی سے جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو رو سیاہی نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے تو نہ رہ نشیں نہ راہی مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کج کلاہی یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی تو ہما کا ہے شکاری ابھی ابتدا ہے تیری نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لا الٰہ الا لغت غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی " kushaada-dast-e-karam-jab-vo-be-niyaaz-kare-allama-iqbal-ghazals," کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے اے واعظ خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے مری نگاہ میں وہ رند ہی نہیں ساقی جو ہوشیاری و مستی میں امتیاز کرے مدام گوش بہ دل رہ یہ ساز ہے ایسا جو ہو شکستہ تو پیدا نوائے راز کرے کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے سخن میں سوز الٰہی کہاں سے آتا ہے یہ چیز وہ ہے کہ پتھر کو بھی گداز کرے تمیز لالہ و گل سے ہے نالۂ بلبل جہاں میں وا نہ کوئی چشم امتیاز کرے غرور زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو کہ بندگان خدا پر زباں دراز کرے ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبالؔ اڑا کے مجھ کو غبار رہ حجاز کرے " vo-harf-e-raaz-ki-mujh-ko-sikhaa-gayaa-hai-junuun-allama-iqbal-ghazals," وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں حیات کیا ہے خیال و نظر کی مجذوبی خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناں گوں عجب مزہ ہے مجھے لذت خودی دے کر وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں نہ رہوں ضمیر پاک و نگاہ بلند و مستئ شوق نہ مال و دولت قاروں نہ فکر افلاطوں سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں علاج آتش رومیؔ کے سوز میں ہے ترا تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں اسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن اسی کے فیض سے میرے سبو میں ہے جیحوں " samaa-saktaa-nahiin-pahnaa-e-fitrat-men-miraa-saudaa-allama-iqbal-ghazals," سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازۂ صحرا خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی کہ وہ حلاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولیٰ بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے مے خانے یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صہبا نہ ایراں میں رہے باقی نہ توراں میں رہے باقی وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاک قیصر و کسریٰ یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے گلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہرا حضور حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم ہے ' گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا لبالب شیشۂ تہذیب حاضر ہے مے لا سے مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانۂ الا دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا غلامی کیا ہے ذوق حسن و زیبائی سے محرومی جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر کہ دنیا میں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بینا وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے پانی مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختیٔ خارا رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے ید بیضا وہ چنگاری خس و خاشاک سے کس طرح دب جائے جسے حق نے کیا ہو نیستاں کے واسطے پیدا محبت خویشتن بینی محبت خویشتن داری محبت آستان قیصر و کسریٰ سے بے پروا عجب کیا گر مہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں کہ بر فتراک صاحب دولتے بستم سر خود را وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے غبار راہ کو بخشا فروغ وادیٔ سینا نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ سنائیؔ کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالا " dil-soz-se-khaalii-hai-nigah-paak-nahiin-hai-allama-iqbal-ghazals," دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں ہے ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے وہ آنکھ کہ ہے سرمۂ افرنگ سے روشن پرکار و سخن ساز ہے نمناک نہیں ہے کیا صوفی و ملا کو خبر میرے جنوں کی ان کا سر دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے کب تک رہے محکومئ انجم میں مری خاک یا میں نہیں یا گردش افلاک نہیں ہے بجلی ہوں نظر کوہ و بیاباں پہ ہے میری میرے لیے شایاں خس و خاشاک نہیں ہے عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے " gulzaar-e-hast-e-buud-na-begaana-vaar-dekh-allama-iqbal-ghazals," گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ آیا ہے تو جہاں میں مثال شرار دیکھ دم دے نہ جائے ہستیٔ نا پائیدار دیکھ مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ کھولی ہیں ذوق دید نے آنکھیں تری اگر ہر رہ گزر میں نقش کف پائے یار دیکھ " khudii-ho-ilm-se-mohkam-to-gairat-e-jibriil-allama-iqbal-ghazals," خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل عذاب دانش حاضر سے با خبر ہوں میں کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل فریب خوردۂ منزل ہے کارواں ورنہ زیادہ راحت منزل سے ہے نشاط رحیل نظر نہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثال تیغ اصیل مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں کہاں حضور کی لذت کہاں حجاب دلیل اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو ترے لیے ہے مرا شعلۂ نوا قندیل غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل " aalam-e-aab-o-khaak-o-baad-sirr-e-ayaan-hai-tuu-ki-main-allama-iqbal-ghazals," عالم آب و خاک و باد سر عیاں ہے تو کہ میں وہ جو نظر سے ہے نہاں اس کا جہاں ہے تو کہ میں وہ شب درد و سوز و غم کہتے ہیں زندگی جسے اس کی سحر ہے تو کہ میں اس کی اذاں ہے تو کہ میں کس کی نمود کے لیے شام و سحر ہیں گرم سیر شانۂ روزگار پر نار گراں ہے تو کہ میں تو کف خاک و بے بصر میں کف خاک و خود نگر کشت وجود کے لیے آب رواں ہے تو کہ میں " apnii-jaulaan-gaah-zer-e-aasmaan-samjhaa-thaa-main-allama-iqbal-ghazals," اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں کہہ گئیں راز محبت پردہ داری ہائے شوق تھی فغاں وہ بھی جسے ضبط فغاں سمجھا تھا میں تھی کسی درماندہ رہ رو کی صدائے دردناک جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں " asar-kare-na-kare-sun-to-le-mirii-fariyaad-allama-iqbal-ghazals," اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد یہ مشت خاک یہ صرصر یہ وسعت افلاک کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجاد ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل یہی ہے فصل بہاری یہی ہے باد مراد قصوروار غریب الدیار ہوں لیکن ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے وہ دشت سادہ وہ تیرا جہان بے بنیاد خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد " fitrat-ko-khirad-ke-ruu-ba-ruu-kar-allama-iqbal-ghazals," فطرت کو خرد کے روبرو کر تسخیر مقام رنگ و بو کر تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر تاروں کی فضا ہے بیکرانہ تو بھی یہ مقام آرزو کر عریاں ہیں ترے چمن کی حوریں چاک گل و لالہ کو رفو کر بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر " aql-go-aastaan-se-duur-nahiin-allama-iqbal-ghazals," عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں دل بینا بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں علم میں بھی سرور ہے لیکن یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں ایک بھی صاحب سرور نہیں اک جنوں ہے کہ با شعور بھی ہے اک جنوں ہے کہ با شعور نہیں ناصبوری ہے زندگی دل کی آہ وہ دل کہ ناصبور نہیں بے حضوری ہے تیری موت کا راز زندہ ہو تو تو بے حضور نہیں ہر گہر نے صدف کو توڑ دیا تو ہی آمادۂ ظہور نہیں ارنی میں بھی کہہ رہا ہوں مگر یہ حدیث کلیم و طور نہیں " ik-daanish-e-nuuraanii-ik-daanish-e-burhaanii-allama-iqbal-ghazals," اک دانش نورانی اک دانش برہانی ہے دانش برہانی حیرت کی فراوانی اس پیکر خاکی میں اک شے ہے سو وہ تیری میرے لیے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی اب کیا جو فغاں میری پہنچی ہے ستاروں تک تو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی ہو نقش اگر باطل تکرار سے کیا حاصل کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگ مسلمانی تقدیر شکن قوت باقی ہے ابھی اس میں ناداں جسے کہتے ہیں تقدیر کا زندانی تیرے بھی صنم خانے میرے بھی صنم خانے دونوں کے صنم خاکی دونوں کے صنم فانی " kabhii-ai-haqiiqat-e-muntazar-nazar-aa-libaas-e-majaaz-men-allama-iqbal-ghazals," کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں طرب آشنائے خروش ہو تو نوا ہے محرم گوش ہو وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن نہ تری حکایت سوز میں نہ مری حدیث گداز میں نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں میں جو سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں " tuu-abhii-rahguzar-men-hai-qaid-e-maqaam-se-guzar-allama-iqbal-ghazals," تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر گرچہ ہے دل کشا بہت حسن فرنگ کی بہار طائرک بلند بام دانہ و دام سے گزر کوہ شگاف تیری ضرب تجھ سے کشاد شرق و غرب تیغ ہلال کی طرح عیش نیام سے گزر تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر " laa-phir-ik-baar-vahii-baada-o-jaam-ai-saaqii-allama-iqbal-ghazals," لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی تین سو سال سے ہیں ہند کے مے خانے بند اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی میری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی عشق کی تیغ جگردار اڑا لی کس نے علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات ہو نہ روشن تو سخن مرگ دوام اے ساقی تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ ترے پیمانے میں ہے ماہ تمام اے ساقی " mataa-e-be-bahaa-hai-dard-o-soz-e-aarzuumandii-allama-iqbal-ghazals," متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی حجاب اکسیر ہے آوارۂ کوئے محبت کو مری آتش کو بھڑکاتی ہے تیری دیر پیوندی گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری کہ خاک راہ کو میں نے بتایا راز الوندی مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو کہ فطرت خود بہ خود کرتی ہے لالے کی حنا بندی " anokhii-vaza-hai-saare-zamaane-se-niraale-hain-allama-iqbal-ghazals," انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں علاج درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتا ہوں جو تھے چھالوں میں کانٹے نوک سوزن سے نکالے ہیں پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی نرالا عشق ہے میرا نرالے میرے نالے ہیں نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں نہیں بیگانگی اچھی رفیق راہ منزل سے ٹھہر جا اے شرر ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادھے بھولے بھالے ہیں مرے اشعار اے اقبالؔ کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ دردانگیز نالے ہیں " ishq-se-paidaa-navaa-e-zindagii-men-zer-o-bam-allama-iqbal-ghazals," عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دمبدم آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق شاخ گل میں جس طرح باد سحرگاہی کا نم اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاج ملوک اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامان موت فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم اے مسلماں اپنے دل سے پوچھ ملا سے نہ پوچھ ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم " aflaak-se-aataa-hai-naalon-kaa-javaab-aakhir-allama-iqbal-ghazals," افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا سوز و تب و تاب اول سوز و تب و تاب آخر میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر مے خانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر کیا دبدبۂ نادر کیا شوکت تیموری ہو جاتے ہیں سب دفتر غرق مے ناب آخر خلوت کی گھڑی گزری جلوت کی گھڑی آئی چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر " pareshaan-ho-ke-merii-khaak-aakhir-dil-na-ban-jaae-allama-iqbal-ghazals," پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے نہ کر دیں مجھ کو مجبور نوا فردوس میں حوریں مرا سوز دروں پھر گرمی محفل نہ بن جائے کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو کھٹک سی ہے جو سینے میں غم منزل نہ بن جائے بنایا عشق نے دریائے ناپیدا کراں مجھ کو یہ میری خود نگہداری مرا ساحل نہ بن جائے کہیں اس عالم بے رنگ و بو میں بھی طلب میری وہی افسانۂ دنبالۂ محمل نہ بن جائے عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے " musalmaan-ke-lahuu-men-hai-saliiqa-dil-navaazii-kaa-allama-iqbal-ghazals," مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا مروت حسن عالم گیر ہے مردان غازی کا شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا بہت مدت کے نخچیروں کا انداز نگہ بدلا کہ میں نے فاش کر ڈالا طریقہ شاہبازی کا قلندر جز دو حرف لا الٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا حدیث بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو نہ کر خاراشگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا کہاں سے تو نے اے اقبالؔ سیکھی ہے یہ درویشی کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا " khirad-ke-paas-khabar-ke-sivaa-kuchh-aur-nahiin-allama-iqbal-ghazals," خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا حیات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں گراں بہا ہے تو حفظ خودی سے ہے ورنہ گہر میں آب گہر کے سوا کچھ اور نہیں رگوں میں گردش خوں ہے اگر تو کیا حاصل حیات سوز جگر کے سوا کچھ اور نہیں عروس لالہ مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب کہ میں نسیم سحر کے سوا کچھ اور نہیں جسے کساد سمجھتے ہیں تاجران فرنگ وہ شے متاع ہنر کے سوا کچھ اور نہیں بڑا کریم ہے اقبال بے نوا لیکن عطائے شعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں " zaahir-ki-aankh-se-na-tamaashaa-kare-koii-allama-iqbal-ghazals-29," ظاہر کي آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئي ہو ديکھنا تو ديدہء دل وا کرے کوئي منصور کو ہوا لب گويا پيام موت اب کيا کسي کے عشق کا دعوي کرے کوئي ہو ديد کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر ہے ديکھنا يہي کہ نہ ديکھا کرے کوئي ميں انتہائے عشق ہوں ، تو انتہائے حسن ديکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئي عذر آفرين جرم محبت ہے حسن دوست محشر ميں عذر تازہ نہ پيدا کرے کوئي چھپتي نہيں ہے يہ نگہ شوق ہم نشيں! پھر اور کس طرح انھيں ديکھا کر ے کوئي اڑ بيٹھے کيا سمجھ کے بھلا طور پر کليم طاقت ہو ديد کي تو تقاضا کرے کوئي نظارے کو يہ جنبش مژگاں بھي بار ہے نرگس کي آنکھ سے تجھے ديکھا کرے کوئي کھل جائيں ، کيا مزے ہيں تمنائے شوق ميں دو چار دن جو ميري تمنا کرے کوئي " na-takht-o-taaj-men-ne-lashkar-o-sipaah-men-hai-allama-iqbal-ghazals," نہ تخت و تاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے صنم کدہ ہے جہاں اور مرد حق ہے خلیل یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لا الہ میں ہے وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا یہ سنگ و خشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا وہ مشت خاک ابھی آوارگان راہ میں ہے خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے فرنگ رہ گزر سیل بے پناہ میں ہے تلاش اس کی فضاؤں میں کر نصیب اپنا جہان تازہ مری آہ صبح گاہ میں ہے مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادۂ ناب نہ مدرسے میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے " sakhtiyaan-kartaa-huun-dil-par-gair-se-gaafil-huun-main-allama-iqbal-ghazals," سختیاں کرتا ہوں دل پر غیر سے غافل ہوں میں ہائے کیا اچھی کہی ظالم ہوں میں جاہل ہوں میں میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی جو نمود حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں علم کے دریا سے نکلے غوطہ زن گوہر بدست وائے محرومی خذف چین لب ساحل ہوں میں ہے مری ذلت ہی کچھ میری شرافت کی دلیل جس کی غفلت کو ملک روتے ہیں وہ غافل ہوں میں بزم ہستی اپنی آرائش پہ تو نازاں نہ ہو تو تو اک تصویر ہے محفل کی اور محفل ہوں میں ڈھونڈھتا پھرتا ہوں میں اقبالؔ اپنے آپ کو آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں " na-aate-hamen-is-men-takraar-kyaa-thii-allama-iqbal-ghazals," نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی تمہارے پیامی نے سب راز کھولا خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی تأمل تو تھا ان کو آنے میں قاصد مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی کھنچے خود بخود جانب طور موسیٰ کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی کہیں ذکر رہتا ہے اقبالؔ تیرا فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی " yaa-rab-ye-jahaan-e-guzraan-khuub-hai-lekin-allama-iqbal-ghazals," یا رب یہ جہان گزراں خوب ہے لیکن کیوں خوار ہیں مردان صفا کیش و ہنر مند گو اس کی خدائی میں مہاجن کا بھی ہے ہاتھ دنیا تو سمجھتی ہے فرنگی کو خداوند تو برگ گیا ہے نہ وہی اہل خرد را او کشت گل و لالہ بہ بخشد بہ خرے چند حاضر ہیں کلیسا میں کباب و مئے گلگوں مسجد میں دھرا کیا ہے بجز موعظہ و پند احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پازند فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند مدت سے ہے آوارۂ افلاک مرا فکر کر دے اسے اب چاند کے غاروں میں نظر بند فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند درویش خدا مست نہ شرقی ہے، نہ غربی گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے آبلۂ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند مشکل ہے اک بندۂ حق بین و حق اندیش خاشاک کے تودے کو کہے کوہ دماوند ہوں آتش نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش میں بندۂ مومن ہوں نہیں دانۂ اسپند پر سوز نظر باز و نکوبین و کم آرزو آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرم کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوق شکرخند چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبالؔ کرتا کوئی اس بندۂ گستاخ کا منہ بند " sitaaron-se-aage-jahaan-aur-bhii-hain-allama-iqbal-ghazals-1," ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں " tujhe-yaad-kyaa-nahiin-hai-mire-dil-kaa-vo-zamaana-allama-iqbal-ghazals," تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ وہ ادب گہ محبت وہ نگہ کا تازیانہ یہ بتان عصر حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں نہ ادائے کافرانہ نہ تراش آزرانہ نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ رگ تاک منتظر ہے تری بارش کرم کی کہ عجم کے مے کدوں میں نہ رہی مے مغانہ مرے ہم صفیر اسے بھی اثر بہار سمجھے انہیں کیا خبر کہ کیا ہے یہ نوائے عاشقانہ مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا صلۂ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایت زمانہ " tire-ishq-kii-intihaa-chaahtaa-huun-allama-iqbal-ghazals," ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں " naala-hai-bulbul-e-shoriida-tiraa-khaam-abhii-allama-iqbal-ghazals," نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی اپنے سینہ میں اسے اور ذرا تھام ابھی پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گام عمل عقل سمجھی ہی نہیں معنئ پیغام ابھی شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی تو ہے زناریٔ بت خانۂ ایام ابھی عذر پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی ہے ترے دل میں وہی کاوش انجام ابھی سعئ پیہم ہے ترازوئے کم و کیف حیات تیری میزاں ہے شمار سحر و شام ابھی ابر نیساں یہ تنک بخشیٔ شبنم کب تک میرے کہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی بادہ گردان عجم وہ عربی میری شراب مرے ساغر سے جھجکتے ہیں مے آشام ابھی خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیم نو گرفتار پھڑکتا ہے تہ دام ابھی " phir-charaag-e-laala-se-raushan-hue-koh-o-daman-allama-iqbal-ghazals-3," پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن برگ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبح اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن من کی دنیا من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق تن کی دنیا تن کی دنیا سود و سودا مکر و فن من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن پانی پانی کر گئی مجکو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن " gesuu-e-taabdaar-ko-aur-bhii-taabdaar-kar-allama-iqbal-ghazals," گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذرا سی آب جو یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو میں ہوں خذف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر نغمۂ نوبہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر " khudii-vo-bahr-hai-jis-kaa-koii-kinaara-nahiin-allama-iqbal-ghazals," خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں طلسم گنبد گردوں کو توڑ سکتے ہیں زجاج کی یہ عمارت ہے سنگ خارہ نہیں خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں مگر یہ حوصلۂ مرد ہیچ کارہ نہیں ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے کہ خاک زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں یہیں بہشت بھی ہے، حور و جبرئیل بھی ہے تری نگہ میں ابھی شوخی نظارہ نہیں مرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا وہ پیرہن مجھے بخشا کہ پارہ پارہ نہیں غضب ہے عین کرم میں بخیل ہے فطرت کہ لعل ناب میں آتش تو ہے شرارہ نہیں " kii-haq-se-farishton-ne-iqbaal-kii-gammaazii-allama-iqbal-ghazals," کی حق سے فرشتوں نے اقبالؔ کی غمازی گستاخ ہے کرتا ہے فطرت کی حنا بندی خاکی ہے مگر اس کے انداز ہیں افلاکی رومی ہے نہ شامی ہے کاشی نہ سمرقندی سکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اس نے آدم کو سکھاتا ہے آداب خداوندی " nigaah-e-faqr-men-shaan-e-sikandarii-kyaa-hai-allama-iqbal-ghazals," نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے اسی خطا سے عتاب ملوک ہے مجھ پر کہ جانتا ہوں مآل سکندری کیا ہے کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری وگرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے " be-takalluf-bosa-e-zulf-e-chaliipaa-liijiye-akbar-allahabadi-ghazals," بے تکلف بوسۂ زلف چلےپا لیجئے نقد دل موجود ہے پھر کیوں نہ سودا لیجئے دل تو پہلے لے چکے اب جان کے خواہاں ہیں آپ اس میں بھی مجھ کو نہیں انکار اچھا لیجئے پاؤں پکڑ کر کہتی ہے زنجیر زنداں میں رہو وحشت دل کا ہے ایما راہ صحرا لیجئے غیر کو تو کر کے ضد کرتے ہیں کھانے میں شریک مجھ سے کہتے ہیں اگر کچھ بھوک ہو کھا لیجئے خوش نما چیزیں ہیں بازار جہاں میں بے شمار ایک نقد دل سے یارب مول کیا کیا لیجئے کشتہ آخر آتش فرقت سے ہونا ہے مجھے اور چندے صورت سیماب تڑپا لیجئے فصل گل کے آتے ہی اکبرؔ ہوئے بے ہوش آپ کھولیے آنکھوں کو صاحب جام صہبا لیجئے " dil-ho-kharaab-diin-pe-jo-kuchh-asar-pade-akbar-allahabadi-ghazals," دل ہو خراب دین پہ جو کچھ اثر پڑے اب کار عاشقی تو بہر کیف کر پڑے عشق بتاں کا دین پہ جو کچھ اثر پڑے اب تو نباہنا ہے جب اک کام کر پڑے مذہب چھڑایا عشوۂ دنیا نے شیخ سے دیکھی جو ریل اونٹ سے آخر اتر پڑے بیتابیاں نصیب نہ تھیں ورنہ ہم نشیں یہ کیا ضرور تھا کہ انہیں پر نظر پڑے بہتر یہی ہے قصد ادھر کا کریں نہ وہ ایسا نہ ہو کہ راہ میں دشمن کا گھر پڑے ہم چاہتے ہیں میل وجود و عدم میں ہو ممکن تو ہے جو بیچ میں ان کی کمر پڑے دانا وہی ہے دل جو کرے آپ کا خیال بینا وہی نظر ہے کہ جو آپ پر پڑے ہونی نہ چاہئے تھی محبت مگر ہوئی پڑنا نہ چاہئے تھا غضب میں مگر پڑے شیطان کی نہ مان جو راحت نصیب ہو اللہ کو پکار مصیبت اگر پڑے اے شیخ ان بتوں کی یہ چالاکیاں تو دیکھ نکلے اگر حرم سے تو اکبرؔ کے گھر پڑے " gamza-nahiin-hotaa-ki-ishaaraa-nahiin-hotaa-akbar-allahabadi-ghazals," غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا بلبل گل تصویر کا شیدا نہیں ہوتا اللہ بچائے مرض عشق سے دل کو سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گل تر سے ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا میں نزع میں ہوں آئیں تو احسان ہے ان کا لیکن یہ سمجھ لیں کہ تماشا نہیں ہوتا ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا " shekh-ne-naaquus-ke-sur-men-jo-khud-hii-taan-lii-akbar-allahabadi-ghazals," شیخ نے ناقوس کے سر میں جو خود ہی تان لی پھر تو یاروں نے بھجن گانے کی کھل کر ٹھان لی مدتوں قائم رہیں گی اب دلوں میں گرمیاں میں نے فوٹو لے لیا اس نے نظر پہچان لی رو رہے ہیں دوست میری لاش پر بے اختیار یہ نہیں دریافت کرتے کس نے اس کی جان لی میں تو انجن کی گلے بازی کا قائل ہو گیا رہ گئے نغمے حدی خوانوں کے ایسی تان لی حضرت اکبرؔ کے استقلال کا ہوں معترف تابہ مرگ اس پر رہے قائم جو دل میں ٹھان لی " na-haasil-huaa-sabr-o-aaraam-dil-kaa-akbar-allahabadi-ghazals," نہ حاصل ہوا صبر و آرام دل کا نہ نکلا کبھی تم سے کچھ کام دل کا محبت کا نشہ رہے کیوں نہ ہر دم بھرا ہے مئے عشق سے جام دل کا پھنسایا تو آنکھوں نے دام بلا میں مگر عشق میں ہو گیا نام دل کا ہوا خواب رسوا یہ عشق بتاں میں خدا ہی ہے اب میرے بدنام دل کا یہ بانکی ادائیں یہ ترچھی نگاہیں یہی لے گئیں صبر و آرام دل کا دھواں پہلے اٹھتا تھا آغاز تھا وہ ہوا خاک اب یہ ہے انجام دل کا جب آغاز الفت ہی میں جل رہا ہے تو کیا خاک بتلاؤں انجام دل کا خدا کے لئے پھیر دو مجھ کو صاحب جو سرکار میں کچھ نہ ہو کام دل کا پس مرگ ان پر کھلا حال الفت گئی لے کے روح اپنی پیغام دل کا تڑپتا ہوا یوں نہ پایا ہمیشہ کہوں کیا میں آغاز و انجام دل کا دل اس بے وفا کو جو دیتے ہو اکبرؔ تو کچھ سوچ لو پہلے انجام دل کا " tariiq-e-ishq-men-mujh-ko-koii-kaamil-nahiin-miltaa-akbar-allahabadi-ghazals," طریق عشق میں مجھ کو کوئی کامل نہیں ملتا گئے فرہاد و مجنوں اب کسی سے دل نہیں ملتا بھری ہے انجمن لیکن کسی سے دل نہیں ملتا ہمیں میں آ گیا کچھ نقص یا کامل نہیں ملتا پرانی روشنی میں اور نئی میں فرق اتنا ہے اسے کشتی نہیں ملتی اسے ساحل نہیں ملتا پہنچنا داد کو مظلوم کا مشکل ہی ہوتا ہے کبھی قاضی نہیں ملتے کبھی قاتل نہیں ملتا حریفوں پر خزانے ہیں کھلے یاں ہجر گیسو ہے وہاں پہ بل ہے اور یاں سانپ کا بھی بل نہیں ملتا یہ حسن و عشق ہی کا کام ہے شبہ کریں کس پر مزاج ان کا نہیں ملتا ہمارا دل نہیں ملتا چھپا ہے سینہ و رخ دل ستاں ہاتھوں سے کروٹ میں مجھے سوتے میں بھی وہ حسن سے غافل نہیں ملتا حواس و ہوش گم ہیں بحر عرفان الٰہی میں یہی دریا ہے جس میں موج کو ساحل نہیں ملتا کتاب دل مجھے کافی ہے اکبرؔ درس حکمت کو میں اسپنسر سے مستغنی ہوں مجھ سے مل نہیں ملتا " zid-hai-unhen-puuraa-miraa-armaan-na-karenge-akbar-allahabadi-ghazals," ضد ہے انہیں پورا مرا ارماں نہ کریں گے منہ سے جو نہیں نکلی ہے اب ہاں نہ کریں گے کیوں زلف کا بوسہ مجھے لینے نہیں دیتے کہتے ہیں کہ واللہ پریشاں نہ کریں گے ہے ذہن میں اک بات تمہارے متعلق خلوت میں جو پوچھو گے تو پنہاں نہ کریں گے واعظ تو بناتے ہیں مسلمان کو کافر افسوس یہ کافر کو مسلماں نہ کریں گے کیوں شکر گزاری کا مجھے شوق ہے اتنا سنتا ہوں وہ مجھ پر کوئی احساں نہ کریں گے دیوانہ نہ سمجھے ہمیں وہ سمجھے شرابی اب چاک کبھی جیب و گریباں نہ کریں گے وہ جانتے ہیں غیر مرے گھر میں ہے مہماں آئیں گے تو مجھ پر کوئی احساں نہ کریں گے " dil-miraa-jis-se-bahaltaa-koii-aisaa-na-milaa-akbar-allahabadi-ghazals," دل مرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا بت کے بندے ملے اللہ کا بندا نہ ملا بزم یاراں سے پھری باد بہاری مایوس ایک سر بھی اسے آمادۂ سودا نہ ملا گل کے خواہاں تو نظر آئے بہت عطر فروش طالب زمزمۂ بلبل شیدا نہ ملا واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے کر دیا کعبہ کو گم اور کلیسا نہ ملا رنگ چہرے کا تو کالج نے بھی رکھا قائم رنگ باطن میں مگر باپ سے بیٹا نہ ملا سید اٹھے جو گزٹ لے کے تو لاکھوں لائے شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسا نہ ملا ہوشیاروں میں تو اک اک سے سوا ہیں اکبرؔ مجھ کو دیوانوں میں لیکن کوئی تجھ سا نہ ملا " aankhen-mujhe-talvon-se-vo-malne-nahiin-dete-akbar-allahabadi-ghazals," آنکھیں مجھے تلووں سے وہ ملنے نہیں دیتے ارمان مرے دل کے نکلنے نہیں دیتے خاطر سے تری یاد کو ٹلنے نہیں دیتے سچ ہے کہ ہمیں دل کو سنبھلنے نہیں دیتے کس ناز سے کہتے ہیں وہ جھنجھلا کے شب وصل تم تو ہمیں کروٹ بھی بدلنے نہیں دیتے پروانوں نے فانوس کو دیکھا تو یہ بولے کیوں ہم کو جلاتے ہو کہ جلنے نہیں دیتے حیران ہوں کس طرح کروں عرض تمنا دشمن کو تو پہلو سے وہ ٹلنے نہیں دیتے دل وہ ہے کہ فریاد سے لبریز ہے ہر وقت ہم وہ ہیں کہ کچھ منہ سے نکلنے نہیں دیتے گرمئ محبت میں وہ ہیں آہ سے مانع پنکھا نفس سرد کا جھلنے نہیں دیتے " huun-main-parvaana-magar-shama-to-ho-raat-to-ho-akbar-allahabadi-ghazals," ہوں میں پروانہ مگر شمع تو ہو رات تو ہو جان دینے کو ہوں موجود کوئی بات تو ہو دل بھی حاضر سر تسلیم بھی خم کو موجود کوئی مرکز ہو کوئی قبلۂ حاجات تو ہو دل تو بے چین ہے اظہار ارادت کے لیے کسی جانب سے کچھ اظہار کرامات تو ہو دل کشا بادۂ صافی کا کسے ذوق نہیں باطن افروز کوئی پیر خرابات تو ہو گفتنی ہے دل پر درد کا قصہ لیکن کس سے کہیے کوئی مستفسر حالات تو ہو داستان غم دل کون کہے کون سنے بزم میں موقع اظہار خیالات تو ہو وعدے بھی یاد دلاتے ہیں گلے بھی ہیں بہت وہ دکھائی بھی تو دیں ان سے ملاقات تو ہو کوئی واعظ نہیں فطرت سے بلاغت میں سوا مگر انسان میں کچھ فہم اشارات تو ہو " dard-to-maujuud-hai-dil-men-davaa-ho-yaa-na-ho-akbar-allahabadi-ghazals," درد تو موجود ہے دل میں دوا ہو یا نہ ہو بندگی حالت سے ظاہر ہے خدا ہو یا نہ ہو جھومتی ہے شاخ گل کھلتے ہیں غنچے دم بہ دم با اثر گلشن میں تحریک صبا ہو یا نہ ہو وجد میں لاتے ہیں مجھ کو بلبلوں کے زمزمے آپ کے نزدیک با معنی صدا ہو یا نہ ہو کر دیا ہے زندگی نے بزم ہستی میں شریک اس کا کچھ مقصود کوئی مدعا ہو یا نہ ہو کیوں سول سرجن کا آنا روکتا ہے ہم نشیں اس میں ہے اک بات آنر کی شفا ہو یا نہ ہو مولوی صاحب نہ چھوڑیں گے خدا گو بخش دے گھیر ہی لیں گے پولس والے سزا ہو یا نہ ہو ممبری سے آپ پر تو وارنش ہو جائے گی قوم کی حالت میں کچھ اس سے جلا ہو یا نہ ہو معترض کیوں ہو اگر سمجھے تمہیں صیاد دل ایسے گیسو ہوں تو شبہ دام کا ہو یا نہ ہو " har-qadam-kahtaa-hai-tuu-aayaa-hai-jaane-ke-liye-akbar-allahabadi-ghazals-3," ہر قدم کہتا ہے تو آیا ہے جانے کے لیے منزل ہستی نہیں ہے دل لگانے کے لیے کیا مجھے خوش آئے یہ حیرت سرائے بے ثبات ہوش اڑنے کے لیے ہے جان جانے کے لیے دل نے دیکھا ہے بساط قوت ادراک کو کیا بڑھے اس بزم میں آنکھیں اٹھانے کے لیے خوب امیدیں بندھیں لیکن ہوئیں حرماں نصیب بدلیاں اٹھیں مگر بجلی گرانے کے لیے سانس کی ترکیب پر مٹی کو پیار آ ہی گیا خود ہوئی قید اس کو سینے سے لگانے کے لیے جب کہا میں نے بھلا دو غیر کو ہنس کر کہا یاد پھر مجھ کو دلانا بھول جانے کے لیے دیدہ بازی وہ کہاں آنکھیں رہا کرتی ہیں بند جان ہی باقی نہیں اب دل لگانے کے لیے مجھ کو خوش آئی ہے مستی شیخ جی کو فربہی میں ہوں پینے کے لیے اور وہ ہیں کھانے کے لیے اللہ اللہ کے سوا آخر رہا کچھ بھی نہ یاد جو کیا تھا یاد سب تھا بھول جانے کے لیے سر کہاں کے ساز کیسا کیسی بزم سامعین جوش دل کافی ہے اکبرؔ تان اڑانے کے لیے " aaj-aaraaish-e-gesuu-e-dotaa-hotii-hai-akbar-allahabadi-ghazals," آج آرائش گیسوئے دوتا ہوتی ہے پھر مری جان گرفتار بلا ہوتی ہے شوق پابوسیٔ جاناں مجھے باقی ہے ہنوز گھاس جو اگتی ہے تربت پہ حنا ہوتی ہے پھر کسی کام کا باقی نہیں رہتا انساں سچ تو یہ ہے کہ محبت بھی بلا ہوتی ہے جو زمیں کوچۂ قاتل میں نکلتی ہے نئی وقف وہ بہر مزار شہدا ہوتی ہے جس نے دیکھی ہو وہ چتون کوئی اس سے پوچھے جان کیوں کر ہدف تیر قضا ہوتی ہے نزع کا وقت برا وقت ہے خالق کی پناہ ہے وہ ساعت کہ قیامت سے سوا ہوتی ہے روح تو ایک طرف ہوتی ہے رخصت تن سے آرزو ایک طرف دل سے جدا ہوتی ہے خود سمجھتا ہوں کہ رونے سے بھلا کیا حاصل پر کروں کیا یوں ہی تسکین ذرا ہوتی ہے روندتے پھرتے ہیں وہ مجمع اغیار کے ساتھ خوب توقیر مزار شہدا ہوتی ہے مرغ بسمل کی طرح لوٹ گیا دل میرا نگہ ناز کی تاثیر بھی کیا ہوتی ہے نالہ کر لینے دیں للہ نہ چھیڑیں احباب ضبط کرتا ہوں تو تکلیف سوا ہوتی ہے جسم تو خاک میں مل جاتے ہوئے دیکھتے ہیں روح کیا جانے کدھر جاتی ہے کیا ہوتی ہے ہوں فریب ستم یار کا قائل اکبرؔ مرتے مرتے نہ کھلا یہ کہ جفا ہوتی ہے " phir-gaii-aap-kii-do-din-men-tabiiat-kaisii-akbar-allahabadi-ghazals," پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی یہ وفا کیسی تھی صاحب یہ مروت کیسی دوست احباب سے ہنس بول کے کٹ جائے گی رات رند آزاد ہیں ہم کو شب فرقت کیسی جس حسیں سے ہوئی الفت وہی معشوق اپنا عشق کس چیز کو کہتے ہیں طبیعت کیسی ہے جو قسمت میں وہی ہوگا نہ کچھ کم نہ سوا آرزو کہتے ہیں کس چیز کو حسرت کیسی حال کھلتا نہیں کچھ دل کے دھڑکنے کا مجھے آج رہ رہ کے بھر آتی ہے طبیعت کیسی کوچۂ یار میں جاتا تو نظارہ کرتا قیس آوارہ ہے جنگل میں یہ وحشت کیسی " halqe-nahiin-hain-zulf-ke-halqe-hain-jaal-ke-akbar-allahabadi-ghazals," حلقے نہیں ہیں زلف کے حلقے ہیں جال کے ہاں اے نگاہ شوق ذرا دیکھ بھال کے پہنچے ہیں تا کمر جو ترے گیسوئے رسا معنی یہ ہیں کمر بھی برابر ہے بال کے بوس و کنار و وصل حسیناں ہے خوب شغل کمتر بزرگ ہوں گے خلاف اس خیال کے قامت سے تیرے صانع قدرت نے اے حسیں دکھلا دیا ہے حشر کو سانچے میں ڈھال کے شان دماغ عشق کے جلوے سے یہ بڑھی رکھتا ہے ہوش بھی قدم اپنے سنبھال کے زینت مقدمہ ہے مصیبت کا دہر میں سب شمع کو جلاتے ہیں سانچے میں ڈھال کے ہستی کے حق کے سامنے کیا اصل این و آں پتلے یہ سب ہیں آپ کے وہم و خیال کے تلوار لے کے اٹھتا ہے ہر طالب فروغ دور فلک میں ہیں یہ اشارے ہلال کے پیچیدہ زندگی کے کرو تم مقدمے دکھلا ہی دے گی موت نتیجہ نکال کے " charkh-se-kuchh-umiid-thii-hii-nahiin-akbar-allahabadi-ghazals," چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں آرزو میں نے کوئی کی ہی نہیں مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں چاہتا تھا بہت سی باتوں کو مگر افسوس اب وہ جی ہی نہیں جرأت عرض حال کیا ہوتی نظر لطف اس نے کی ہی نہیں اس مصیبت میں دل سے کیا کہتا کوئی ایسی مثال تھی ہی نہیں آپ کیا جانیں قدر یا اللہ جب مصیبت کوئی پڑی ہی نہیں شرک چھوڑا تو سب نے چھوڑ دیا میری کوئی سوسائٹی ہی نہیں پوچھا اکبرؔ ہے آدمی کیسا ہنس کے بولے وہ آدمی ہی نہیں " bahut-rahaa-hai-kabhii-lutf-e-yaar-ham-par-bhii-akbar-allahabadi-ghazals," بہت رہا ہے کبھی لطف یار ہم پر بھی گزر چکی ہے یہ فصل بہار ہم پر بھی عروس دہر کو آیا تھا پیار ہم پر بھی یہ بیسوا تھی کسی شب نثار ہم پر بھی بٹھا چکا ہے زمانہ ہمیں بھی مسند پر ہوا کیے ہیں جواہر نثار ہم پر بھی عدو کو بھی جو بنایا ہے تم نے محرم راز تو فخر کیا جو ہوا اعتبار ہم پر بھی خطا کسی کی ہو لیکن کھلی جو ان کی زباں تو ہو ہی جاتے ہیں دو ایک وار ہم پر بھی ہم ایسے رند مگر یہ زمانہ ہے وہ غضب کہ ڈال ہی دیا دنیا کا بار ہم پر بھی ہمیں بھی آتش الفت جلا چکی اکبرؔ حرام ہو گئی دوزخ کی نار ہم پر بھی " ummiid-tuutii-huii-hai-merii-jo-dil-miraa-thaa-vo-mar-chukaa-hai-akbar-allahabadi-ghazals," امید ٹوٹی ہوئی ہے میری جو دل مرا تھا وہ مر چکا ہے جو زندگانی کو تلخ کر دے وہ وقت مجھ پر گزر چکا ہے اگرچہ سینے میں سانس بھی ہے نہیں طبیعت میں جان باقی اجل کو ہے دیر اک نظر کی فلک تو کام اپنا کر چکا ہے غریب خانے کی یہ اداسی یہ نا درستی نہیں قدیمی چہل پہل بھی کبھی یہاں تھی کبھی یہ گھر بھی سنور چکا ہے یہ سینہ جس میں یہ داغ میں اب مسرتوں کا کبھی تھا مخزن وہ دل جو ارمان سے بھرا تھا خوشی سے اس میں ٹھہر چکا ہے غریب اکبر کے گرد کیوں میں خیال واعظ سے کوئی کہہ دے اسے ڈراتے ہو موت سے کیا وہ زندگی ہی سے ڈر چکا ہے " ishq-e-but-men-kufr-kaa-mujh-ko-adab-karnaa-padaa-akbar-allahabadi-ghazals," عشق بت میں کفر کا مجھ کو ادب کرنا پڑا جو برہمن نے کہا آخر وہ سب کرنا پڑا صبر کرنا فرقت محبوب میں سمجھے تھے سہل کھل گیا اپنی سمجھ کا حال جب کرنا پڑا تجربے نے حب دنیا سے سکھایا احتراز پہلے کہتے تھے فقط منہ سے اور اب کرنا پڑا شیخ کی مجلس میں بھی مفلس کی کچھ پرسش نہیں دین کی خاطر سے دنیا کو طلب کرنا پڑا کیا کہوں بے خود ہوا میں کس نگاہ مست سے عقل کو بھی میری ہستی کا ادب کرنا پڑا اقتضا فطرت کا رکتا ہے کہیں اے ہم نشیں شیخ صاحب کو بھی آخر کار شب کرنا پڑا عالم ہستی کو تھا مد نظر کتمان راز ایک شے کو دوسری شے کا سبب کرنا پڑا شعر غیروں کے اسے مطلق نہیں آئے پسند حضرت اکبرؔ کو بالآخر طلب کرنا پڑا " dil-e-maayuus-men-vo-shorishen-barpaa-nahiin-hotiin-akbar-allahabadi-ghazals," دل مایوس میں وہ شورشیں برپا نہیں ہوتیں امیدیں اس قدر ٹوٹیں کہ اب پیدا نہیں ہوتیں مری بیتابیاں بھی جزو ہیں اک میری ہستی کی یہ ظاہر ہے کہ موجیں خارج از دریا نہیں ہوتیں وہی پریاں ہیں اب بھی راجا اندر کے اکھاڑے میں مگر شہزادۂ گلفام پر شیدا نہیں ہوتیں یہاں کی عورتوں کو علم کی پروا نہیں بے شک مگر یہ شوہروں سے اپنے بے پروا نہیں ہوتیں تعلق دل کا کیا باقی میں رکھوں بزم دنیا سے وہ دل کش صورتیں اب انجمن آرا نہیں ہوتیں ہوا ہوں اس قدر افسردہ رنگ باغ ہستی سے ہوائیں فصل گل کی بھی نشاط افزا نہیں ہوتیں قضا کے سامنے بے کار ہوتے ہیں حواس اکبرؔ کھلی ہوتی ہیں گو آنکھیں مگر بینا نہیں ہوتیں " hayaa-se-sar-jhukaa-lenaa-adaa-se-muskuraa-denaa-akbar-allahabadi-ghazals," حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا یہ طرز احسان کرنے کا تمہیں کو زیب دیتا ہے مرض میں مبتلا کر کے مریضوں کو دوا دینا بلائیں لیتے ہیں ان کی ہم ان پر جان دیتے ہیں یہ سودا دید کے قابل ہے کیا لینا ہے کیا دینا خدا کی یاد میں محویت دل بادشاہی ہے مگر آساں نہیں ہے ساری دنیا کو بھلا دینا " apnii-girah-se-kuchh-na-mujhe-aap-diijiye-akbar-allahabadi-ghazals," اپنی گرہ سے کچھ نہ مجھے آپ دیجئے اخبار میں تو نام مرا چھاپ دیجئے دیکھو جسے وہ پانیر آفس میں ہے ڈٹا بہر خدا مجھے بھی کہیں چھاپ دیجئے چشم جہاں سے حالت اصلی چھپی نہیں اخبار میں جو چاہئے وہ چھاپ دیجئے دعویٰ بہت بڑا ہے ریاضی میں آپ کو طول شب فراق کو تو ناپ دیجئے سنتے نہیں ہیں شیخ نئی روشنی کی بات انجن کی ان کے کان میں اب بھاپ دیجئے اس بت کے در پہ غیر سے اکبرؔ نے کہہ دیا زر ہی میں دینے لایا ہوں جان آپ دیجئے " duniyaa-men-huun-duniyaa-kaa-talabgaar-nahiin-huun-akbar-allahabadi-ghazals," دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں زندہ ہوں مگر زیست کی لذت نہیں باقی ہر چند کہ ہوں ہوش میں ہشیار نہیں ہوں اس خانۂ ہستی سے گزر جاؤں گا بے لوث سایہ ہوں فقط نقش بہ دیوار نہیں ہوں افسردہ ہوں عبرت سے دوا کی نہیں حاجت غم کا مجھے یہ ضعف ہے بیمار نہیں ہوں وہ گل ہوں خزاں نے جسے برباد کیا ہے الجھوں کسی دامن سے میں وہ خار نہیں ہوں یا رب مجھے محفوظ رکھ اس بت کے ستم سے میں اس کی عنایت کا طلب گار نہیں ہوں گو دعوی تقوی نہیں درگاہ خدا میں بت جس سے ہوں خوش ایسا گنہ گار نہیں ہوں افسردگی و ضعف کی کچھ حد نہیں اکبرؔ کافر کے مقابل میں بھی دیں دار نہیں ہوں " khushii-hai-sab-ko-ki-operation-men-khuub-nishtar-ye-chal-rahaa-hai-akbar-allahabadi-ghazals," خوشی ہے سب کو کہ آپریشن میں خوب نشتر یہ چل رہا ہے کسی کو اس کی خبر نہیں ہے مریض کا دم نکل رہا ہے فنا اسی رنگ پر ہے قائم فلک وہی چال چل رہا ہے شکستہ و منتشر ہے وہ کل جو آج سانچے میں ڈھل رہا ہے یہ دیکھتے ہو جو کاسۂ سر غرور غفلت سے کل تھا مملو یہی بدن ناز سے پلا تھا جو آج مٹی میں گل رہا ہے سمجھ ہو جس کی بلیغ سمجھے نظر ہو جس کی وسیع دیکھے ابھی یہاں خاک بھی اڑے گی جہاں یہ قلزم ابل رہا ہے کہاں کا شرقی کہاں کا غربی تمام دکھ سکھ ہے یہ مساوی یہاں بھی اک بامراد خوش ہے وہاں بھی اک غم سے جل رہا ہے عروج قومی زوال قومی خدا کی قدرت کے ہیں کرشمے ہمیشہ رد و بدل کے اندر یہ امر پولٹیکل رہا ہے مزہ ہے اسپیچ کا ڈنر میں خبر یہ چھپتی ہے پانیر میں فلک کی گردش کے ساتھ ہی ساتھ کام یاروں کا چل رہا ہے " vo-havaa-na-rahii-vo-chaman-na-rahaa-vo-galii-na-rahii-vo-hasiin-na-rahe-akbar-allahabadi-ghazals," وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا وہ گلی نہ رہی وہ حسیں نہ رہے وہ فلک نہ رہا وہ سماں نہ رہا وہ مکاں نہ رہے وہ مکیں نہ رہے وہ گلوں میں گلوں کی سی بو نہ رہی وہ عزیزوں میں لطف کی خو نہ رہی وہ حسینوں میں رنگ وفا نہ رہا کہیں اور کی کیا وہ ہمیں نہ رہے نہ وہ آن رہی نہ امنگ رہی نہ وہ رندی و زہد کی جنگ رہی سوئے قبلہ نگاہوں کے رخ نہ رہے اور در پہ نقش جبیں نہ رہے نہ وہ جام رہے نہ وہ مست رہے نہ فدائی عہد الست رہے وہ طریقۂ کار جہاں نہ رہا وہ مشاغل رونق دیں نہ رہے ہمیں لاکھ زمانہ لبھائے تو کیا نئے رنگ جو چرخ دکھائے تو کیا یہ محال ہے اہل وفا کے لیے غم ملت و الفت دیں نہ رہے ترے کوچۂ زلف میں دل ہے مرا اب اسے میں سمجھتا ہوں دام بلا یہ عجیب ستم ہے عجیب جفا کہ یہاں نہ رہے تو کہیں نہ رہے یہ تمہارے ہی دم سے ہے بزم طرب ابھی جاؤ نہ تم نہ کرو یہ غضب کوئی بیٹھ کے لطف اٹھائے گا کیا کہ جو رونق بزم تمہیں نہ رہے جو تھیں چشم فلک کی بھی نور نظر وہی جن پہ نثار تھے شمس و قمر سو اب ایسی مٹی ہیں وہ انجمنیں کہ نشان بھی ان کے کہیں نہ رہے وہی صورتیں رہ گئیں پیش نظر جو زمانہ کو پھیریں ادھر سے ادھر مگر ایسے جمال جہاں آرا جو تھے رونق روئے زمیں نہ رہے غم و رنج میں اکبرؔ اگر ہے گھرا تو سمجھ لے کہ رنج کو بھی ہے فنا کسی شے کو نہیں ہے جہاں میں بقا وہ زیادہ ملول و حزیں نہ رہے " khudaa-alii-gadh-ke-madrase-ko-tamaam-amraaz-se-shifaa-de-akbar-allahabadi-ghazals," خدا علی گڑھ کی مدرسے کو تمام امراض سے شفا دے بھرے ہوئے ہیں رئیس زادے امیر زادے شریف زادے لطیف و خوش وضع چست و چالاک و صاف و پاکیزہ شاد و خرم طبیعتوں میں ہے ان کی جودت دلوں میں ان کے ہیں نیک ارادے کمال محنت سے پڑھ رہے ہیں کمال غیرت سے بڑھ رہے ہیں سوار مشرق کی راہ میں ہیں تو مغربی راہ میں پیادے ہر اک ہے ان میں کا بے شک ایسا کہ آپ اسے جانتے ہیں جیسا دکھائے محفل میں قد رعنا جو آپ آئیں تو سر جھکا دے فقیر مانگیں تو صاف کہہ دیں کہ تو ہے مضبوط جا کما کھا قبول فرمائیں آپ دعوت تو اپنا سرمایہ کل کھلا دے بتوں سے ان کو نہیں لگاوٹ مسوں کی لیتے نہیں وہ آہٹ تمام قوت ہے صرف خواندن نظر کے بھولے ہیں دل کی سادے نظر بھی آئے جو زلف پیچاں تو سمجھیں یہ کوئی پالسی ہے الکٹرک لائٹ اس کو سمجھیں جو برق وش کوئی کوئی دے نکلتے ہیں کر کے غول بندی بنام تہذیب و درد مندی یہ کہہ کے لیتے ہیں سب سے چندے ہمیں جو تم دو تمہیں خدا دے انہیں اسی بات پر یقین ہے کہ بس یہی اصل کار دیں ہے اسی سی ہوگا فروغ قومی اسی سے چمکیں گے باپ دادے مکان کالج کے سب مکیں ہیں ابھی انہیں تجربے نہیں ہیں خبر نہیں ہے کہ آگے چل کر ہے کیسی منزل ہیں کیسی جادے دلوں میں ان کے ہے نور ایماں قوی نہیں ہے مگر نگہباں ہوائے منطق ادائے طفلی یہ شمع ایسا نہ ہو بجھا دے فریب دے کر نکالے مطلب سکھائے تحقیر دین و مذہب مٹا دے آخر کو وضع ملت نمود ذاتی کو گر بڑھا دے یہی بس اکبرؔ کی التجا ہے جناب باری میں یہ دعا ہے علوم و حکمت کا درس ان کو پروفیسر دیں سمجھ خدا دے " ik-bosa-diijiye-miraa-iimaan-liijiye-akbar-allahabadi-ghazals," اک بوسہ دیجئے مرا ایمان لیجئے گو بت ہیں آپ بہر خدا مان لیجئے دل لے کے کہتے ہیں تری خاطر سے لے لیا الٹا مجھی پہ رکھتے ہیں احسان لیجئے غیروں کو اپنے ہاتھ سے ہنس کر کھلا دیا مجھ سے کبیدہ ہو کے کہا پان لیجئے مرنا قبول ہے مگر الفت نہیں قبول دل تو نہ دوں گا آپ کو میں جان لیجئے حاضر ہوا کروں گا میں اکثر حضور میں آج اچھی طرح سے مجھے پہچان لیجئے " hangaama-hai-kyuun-barpaa-thodii-sii-jo-pii-lii-hai-akbar-allahabadi-ghazals," ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے نا تجربہ کاری سے واعظ کی یہ ہیں باتیں اس رنگ کو کیا جانے پوچھو تو کبھی پی ہے اس مے سے نہیں مطلب دل جس سے ہے بیگانہ مقصود ہے اس مے سے دل ہی میں جو کھنچتی ہے اے شوق وہی مے پی اے ہوش ذرا سو جا مہمان نظر اس دم ایک برق تجلی ہے واں دل میں کہ صدمے دو یاں جی میں کہ سب سہہ لو ان کا بھی عجب دل ہے میرا بھی عجب جی ہے ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے سورج میں لگے دھبا فطرت کے کرشمے ہیں بت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے تعلیم کا شور ایسا تہذیب کا غل اتنا برکت جو نہیں ہوتی نیت کی خرابی ہے سچ کہتے ہیں شیخ اکبرؔ ہے طاعت حق لازم ہاں ترک مے و شاہد یہ ان کی بزرگی ہے " jo-tumhaare-lab-e-jaan-bakhsh-kaa-shaidaa-hogaa-akbar-allahabadi-ghazals," جو تمہارے لب جاں بخش کا شیدا ہوگا اٹھ بھی جائے گا جہاں سے تو مسیحا ہوگا وہ تو موسیٰ ہوا جو طالب دیدار ہوا پھر وہ کیا ہوگا کہ جس نے تمہیں دیکھا ہوگا قیس کا ذکر مرے شان جنوں کے آگے اگلے وقتوں کا کوئی بادیہ پیما ہوگا آرزو ہے مجھے اک شخص سے ملنے کی بہت نام کیا لوں کوئی اللہ کا بندا ہوگا لعل لب کا ترے بوسہ تو میں لیتا ہوں مگر ڈر یہ ہے خون جگر بعد میں پینا ہوگا " jazba-e-dil-ne-mire-taasiir-dikhlaaii-to-hai-akbar-allahabadi-ghazals," جذبۂ دل نے مرے تاثیر دکھلائی تو ہے گھنگھروؤں کی جانب در کچھ صدا آئی تو ہے عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے آپ کے سر کی قسم میرے سوا کوئی نہیں بے تکلف آئیے کمرے میں تنہائی تو ہے جب کہا میں نے تڑپتا ہے بہت اب دل مرا ہنس کے فرمایا تڑپتا ہوگا سودائی تو ہے دیکھیے ہوتی ہے کب راہی سوئے ملک عدم خانۂ تن سے ہماری روح گھبرائی تو ہے دل دھڑکتا ہے مرا لوں بوسۂ رخ یا نہ لوں نیند میں اس نے دلائی منہ سے سرکائی تو ہے دیکھیے لب تک نہیں آتی گل عارض کی یاد سیر گلشن سے طبیعت ہم نے بہلائی تو ہے میں بلا میں کیوں پھنسوں دیوانہ بن کر اس کے ساتھ دل کو وحشت ہو تو ہو کمبخت سودائی تو ہے خاک میں دل کو ملایا جلوۂ رفتار سے کیوں نہ ہو اے نوجواں اک شان رعنائی تو ہے یوں مروت سے تمہارے سامنے چپ ہو رہیں کل کے جلسوں کی مگر ہم نے خبر پائی تو ہے بادۂ گل رنگ کا ساغر عنایت کر مجھے ساقیا تاخیر کیا ہے اب گھٹا چھائی تو ہے جس کی الفت پر بڑا دعویٰ تھا کل اکبرؔ تمہیں آج ہم جا کر اسے دیکھ آئے ہرجائی تو ہے " jahaan-men-haal-miraa-is-qadar-zabuun-huaa-akbar-allahabadi-ghazals," جہاں میں حال مرا اس قدر زبون ہوا کہ مجھ کو دیکھ کے بسمل کو بھی سکون ہوا غریب دل نے بہت آرزوئیں پیدا کیں مگر نصیب کا لکھا کہ سب کا خون ہوا وہ اپنے حسن سے واقف میں اپنی عقل سے سیر انہوں نے ہوش سنبھالا مجھے جنون ہوا امید چشم مروت کہاں رہی باقی ذریعہ باتوں کا جب صرف ٹیلیفون ہوا نگاہ گرم کرسمس میں بھی رہی ہم پر ہمارے حق میں دسمبر بھی ماہ جون ہوا " tirii-zulfon-men-dil-uljhaa-huaa-hai-akbar-allahabadi-ghazals," تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے بلا کے پیچ میں آیا ہوا ہے نہ کیوں کر بوئے خوں نامے سے آئے اسی جلاد کا لکھا ہوا ہے چلے دنیا سے جس کی یاد میں ہم غضب ہے وہ ہمیں بھولا ہوا ہے کہوں کیا حال اگلی عشرتوں کا وہ تھا اک خواب جو بھولا ہوا ہے جفا ہو یا وفا ہم سب میں خوش ہیں کریں کیا اب تو دل اٹکا ہوا ہے ہوئی ہے عشق ہی سے حسن کی قدر ہمیں سے آپ کا شہرا ہوا ہے بتوں پر رہتی ہے مائل ہمیشہ طبیعت کو خدایا کیا ہوا ہے پریشاں رہتے ہو دن رات اکبرؔ یہ کس کی زلف کا سودا ہوا ہے " na-bahte-ashk-to-taasiir-men-sivaa-hote-akbar-allahabadi-ghazals," نہ بہتے اشک تو تاثیر میں سوا ہوتے صدف میں رہتے یہ موتی تو بے بہا ہوتے مجھ ایسے رند سے رکھتے ضرور ہی الفت جناب شیخ اگر عاشق خدا ہوتے گناہ گاروں نے دیکھا جمال رحمت کو کہاں نصیب یہ ہوتا جو بے خطا ہوتے جناب حضرت ناصح کا واہ کیا کہنا جو ایک بات نہ ہوتی تو اولیا ہوتے مذاق عشق نہیں شیخ میں یہ ہے افسوس یہ چاشنی بھی جو ہوتی تو کیا سے کیا ہوتے محل شکر ہیں اکبرؔ یہ درفشاں نظمیں ہر اک زباں کو یہ موتی نہیں عطا ہوتے " khatm-kiyaa-sabaa-ne-raqs-gul-pe-nisaar-ho-chukii-akbar-allahabadi-ghazals," ختم کیا صبا نے رقص گل پہ نثار ہو چکی جوش نشاط ہو چکا صوت ہزار ہو چکی رنگ بنفشہ مٹ گیا سنبل تر نہیں رہا صحن چمن میں زینت نقش و نگار ہو چکی مستی لالہ اب کہاں اس کا پیالہ اب کہاں دور طرب گزر گیا آمد یار ہو چکی رت وہ جو تھی بدل گئی آئی بس اور نکل گئی تھی جو ہوا میں نکہت مشک تتار ہو چکی اب تک اسی روش پہ ہے اکبرؔ مست و بے خبر کہہ دے کوئی عزیز من فصل بہار ہو چکی " saans-lete-hue-bhii-dartaa-huun-akbar-allahabadi-ghazals," سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں یہ نہ سمجھیں کہ آہ کرتا ہوں بحر ہستی میں ہوں مثال حباب مٹ ہی جاتا ہوں جب ابھرتا ہوں اتنی آزادی بھی غنیمت ہے سانس لیتا ہوں بات کرتا ہوں شیخ صاحب خدا سے ڈرتے ہوں میں تو انگریزوں ہی سے ڈرتا ہوں آپ کیا پوچھتے ہیں میرا مزاج شکر اللہ کا ہے مرتا ہوں یہ بڑا عیب مجھ میں ہے اکبرؔ دل میں جو آئے کہہ گزرتا ہوں " aah-jo-dil-se-nikaalii-jaaegii-akbar-allahabadi-ghazals," آہ جو دل سے نکالی جائے گی کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی اس نزاکت پر یہ شمشیر جفا آپ سے کیوں کر سنبھالی جائے گی کیا غم دنیا کا ڈر مجھ رند کو اور اک بوتل چڑھا لی جائے گی شیخ کی دعوت میں مے کا کام کیا احتیاطاً کچھ منگا لی جائے گی یاد ابرو میں ہے اکبرؔ محو یوں کب تری یہ کج خیالی جائے گی " na-ruuh-e-mazhab-na-qalb-e-aarif-na-shaairaana-zabaan-baaqii-akbar-allahabadi-ghazals," نہ روح مذہب نہ قلب عارف نہ شاعرانہ زبان باقی زمیں ہماری بدل گئی ہے اگرچہ ہے آسمان باقی شب گزشتہ کے ساز و ساماں کے اب کہاں ہیں نشان باقی زبان شمع سحر پہ حسرت کی رہ گئی داستان باقی جو ذکر آتا ہے آخرت کا تو آپ ہوتے ہیں صاف منکر خدا کی نسبت بھی دیکھتا ہوں یقین رخصت گمان باقی فضول ہے ان کی بد دماغی کہاں ہے فریاد اب لبوں پر یہ وار پر وار اب عبث ہیں کہاں بدن میں ہے جان باقی میں اپنے مٹنے کے غم میں نالاں ادھر زمانہ ہے شاد و خنداں اشارہ کرتی ہے چشم دوراں جو آن باقی جہان باقی اسی لیے رہ گئی ہیں آنکھیں کہ میرے مٹنے کا رنگ دیکھیں سنوں وہ باتیں جو ہوش اڑائیں اسی لیے ہیں یہ کان باقی تعجب آتا ہے طفل دل پر کہ ہو گیا مست نظم اکبرؔ ابھی مڈل پاس تک نہیں ہے بہت سے ہیں امتحان باقی " unhen-nigaah-hai-apne-jamaal-hii-kii-taraf-akbar-allahabadi-ghazals," انہیں نگاہ ہے اپنے جمال ہی کی طرف نظر اٹھا کے نہیں دیکھتے کسی کی طرف توجہ اپنی ہو کیا فن شاعری کی طرف نظر ہر ایک کی جاتی ہے عیب ہی کی طرف لکھا ہوا ہے جو رونا مرے مقدر میں خیال تک نہیں جاتا کبھی ہنسی کی طرف تمہارا سایہ بھی جو لوگ دیکھ لیتے ہیں وہ آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھتے پری کی طرف بلا میں پھنستا ہے دل مفت جان جاتی ہے خدا کسی کو نہ لے جائے اس گلی کی طرف کبھی جو ہوتی ہے تکرار غیر سے ہم سے تو دل سے ہوتے ہو در پردہ تم اسی کی طرف نگاہ پڑتی ہے ان پر تمام محفل کی وہ آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھتے کسی کی طرف نگاہ اس بت خود بیں کی ہے مرے دل پر نہ آئنہ کی طرف ہے نہ آرسی کی طرف قبول کیجیئے للہ تحفۂ دل کو نظر نہ کیجیئے اس کی شکستگی کی طرف یہی نظر ہے جو اب قاتل زمانہ ہوئی یہی نظر ہے کہ اٹھتی نہ تھی کسی کی طرف غریب خانہ میں للٰلہ دو گھڑی بیٹھو بہت دنوں میں تم آئے ہو اس گلی کی طرف ذرا سی دیر ہی ہو جائے گی تو کیا ہوگا گھڑی گھڑی نہ اٹھاؤ نظر گھڑی کی طرف جو گھر میں پوچھے کوئی خوف کیا ہے کہہ دینا چلے گئے تھے ٹہلتے ہوئے کسی کی طرف ہزار جلوۂ حسن بتاں ہو اے اکبرؔ تم اپنا دھیان لگائے رہو اسی کی طرف " jab-yaas-huii-to-aahon-ne-siine-se-nikalnaa-chhod-diyaa-akbar-allahabadi-ghazals," جب یاس ہوئی تو آہوں نے سینے سے نکلنا چھوڑ دیا اب خشک مزاج آنکھیں بھی ہوئیں دل نے بھی مچلنا چھوڑ دیا ناوک فگنی سے ظالم کی جنگل میں ہے اک سناٹا سا مرغان خوش الحاں ہو گئے چپ آہو نے اچھلنا چھوڑ دیا کیوں کبر و غرور اس دور پہ ہے کیوں دوست فلک کو سمجھا ہے گردش سے یہ اپنی باز آیا یا رنگ بدلنا چھوڑ دیا بدلی وہ ہوا گزرا وہ سماں وہ راہ نہیں وہ لوگ نہیں تفریح کہاں اور سیر کجا گھر سے بھی نکلنا چھوڑ دیا وہ سوز و گداز اس محفل میں باقی نہ رہا اندھیر ہوا پروانوں نے جلنا چھوڑ دیا شمعوں نے پگھلنا چھوڑ دیا ہر گام پہ چند آنکھیں نگراں ہر موڑ پہ اک لیسنس طلب اس پارک میں آخر اے اکبرؔ میں نے تو ٹہلنا چھوڑ دیا کیا دین کو قوت دیں یہ جواں جب حوصلہ افزا کوئی نہیں کیا ہوش سنبھالیں یہ لڑکے خود اس نے سنبھلنا چھوڑ دیا اقبال مساعد جب نہ رہا رکھے یہ قدم جس منزل میں اشجار سے سایہ دور ہوا چشموں نے ابلنا چھوڑ دیا اللہ کی راہ اب تک ہے کھلی آثار و نشاں سب قائم ہیں اللہ کے بندوں نے لیکن اس راہ میں چلنا چھوڑ دیا جب سر میں ہوائے طاعت تھی سرسبز شجر امید کا تھا جب صرصر عصیاں چلنے لگی اس پیڑ نے پھلنا چھوڑ دیا اس حور لقا کو گھر لائے ہو تم کو مبارک اے اکبرؔ لیکن یہ قیامت کی تم نے گھر سے جو نکلنا چھوڑ دیا " gale-lagaaen-karen-pyaar-tum-ko-eid-ke-din-akbar-allahabadi-ghazals," گلے لگائیں کریں پیار تم کو عید کے دن ادھر تو آؤ مرے گلعذار عید کے دن غضب کا حسن ہے آرائشیں قیامت کی عیاں ہے قدرت پروردگار عید کے دن سنبھل سکی نہ طبیعت کسی طرح میری رہا نہ دل پہ مجھے اختیار عید کے دن وہ سال بھر سے کدورت بھری جو تھی دل میں وہ دور ہو گئی بس ایک بار عید کے دن لگا لیا انہیں سینہ سے جوش الفت میں غرض کہ آ ہی گیا مجھ کو پیار عید کے دن کہیں ہے نغمۂ بلبل کہیں ہے خندۂ گل عیاں ہے جوش شباب بہار عید کے دن سویاں دودھ شکر میوہ سب مہیا ہے مگر یہ سب ہے مجھے ناگوار عید کے دن ملے اگر لب شیریں کا تیرے اک بوسہ تو لطف ہو مجھے البتہ یار عید کے دن " haal-e-dil-main-sunaa-nahiin-saktaa-akbar-allahabadi-ghazals," حال دل میں سنا نہیں سکتا لفظ معنیٰ کو پا نہیں سکتا عشق نازک مزاج ہے بے حد عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا ہوش عارف کی ہے یہی پہچان کہ خودی میں سما نہیں سکتا پونچھ سکتا ہے ہم نشیں آنسو داغ دل کو مٹا نہیں سکتا مجھ کو حیرت ہے اس کی قدرت پر الم اس کو گھٹا نہیں سکتا " apne-pahluu-se-vo-gairon-ko-uthaa-hii-na-sake-akbar-allahabadi-ghazals," اپنے پہلو سے وہ غیروں کو اٹھا ہی نہ سکے ان کو ہم قصۂ غم اپنا سنا ہی نہ سکے ذہن میرا وہ قیامت کہ دو عالم پہ محیط آپ ایسے کہ مرے ذہن میں آ ہی نہ سکے دیکھ لیتے جو انہیں تو مجھے رکھتے معذور شیخ صاحب مگر اس بزم میں جا ہی نہ سکے عقل مہنگی ہے بہت عشق خلاف تہذیب دل کو اس عہد میں ہم کام میں لا ہی نہ سکے ہم تو خود چاہتے تھے چین سے بیٹھیں کوئی دم آپ کی یاد مگر دل سے بھلا ہی نہ سکے عشق کامل ہے اسی کا کہ پتنگوں کی طرح تاب نظارۂ معشوق کی لا ہی نہ سکے دام ہستی کی بھی ترکیب عجب رکھی ہے جو پھنسے اس میں وہ پھر جان بچا ہی نہ سکے مظہر جلوۂ جاناں ہے ہر اک شے اکبرؔ بے ادب آنکھ کسی سمت اٹھا ہی نہ سکے ایسی منطق سے تو دیوانگی بہتر اکبرؔ کہ جو خالق کی طرف دل کو جھکا ہی نہ سکے " falsafii-ko-bahs-ke-andar-khudaa-miltaa-nahiin-akbar-allahabadi-ghazals," فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں معرفت خالق کی عالم میں بہت دشوار ہے شہر تن میں جب کہ خود اپنا پتا ملتا نہیں غافلوں کے لطف کو کافی ہے دنیاوی خوشی عاقلوں کو بے غم عقبیٰ مزا ملتا نہیں کشتئ دل کی الٰہی بحر ہستی میں ہو خیر ناخدا ملتے ہیں لیکن با خدا ملتا نہیں غافلوں کو کیا سناؤں داستان عشق یار سننے والے ملتے ہیں درد آشنا ملتا نہیں زندگانی کا مزا ملتا تھا جن کی بزم میں ان کی قبروں کا بھی اب مجھ کو پتا ملتا نہیں صرف ظاہر ہو گیا سرمایۂ زیب و صفا کیا تعجب ہے جو باطن با صفا ملتا نہیں پختہ طبعوں پر حوادث کا نہیں ہوتا اثر کوہساروں میں نشان نقش پا ملتا نہیں شیخ صاحب برہمن سے لاکھ برتیں دوستی بے بھجن گائے تو مندر سے ٹکا ملتا نہیں جس پہ دل آیا ہے وہ شیریں ادا ملتا نہیں زندگی ہے تلخ جینے کا مزا ملتا نہیں لوگ کہتے ہیں کہ بد نامی سے بچنا چاہئے کہہ دو بے اس کے جوانی کا مزا ملتا نہیں اہل ظاہر جس قدر چاہیں کریں بحث و جدال میں یہ سمجھا ہوں خودی میں تو خدا ملتا نہیں چل بسے وہ دن کہ یاروں سے بھری تھی انجمن ہائے افسوس آج صورت آشنا ملتا نہیں منزل عشق و توکل منزل اعزاز ہے شاہ سب بستے ہیں یاں کوئی گدا ملتا نہیں بار تکلیفوں کا مجھ پر بار احساں سے ہے سہل شکر کی جا ہے اگر حاجت روا ملتا نہیں چاندنی راتیں بہار اپنی دکھاتی ہیں تو کیا بے ترے مجھ کو تو لطف اے مہ لقا ملتا نہیں معنیٔ دل کا کرے اظہار اکبرؔ کس طرح لفظ موزوں بہر کشف مدعا ملتا نہیں " maanii-ko-bhulaa-detii-hai-suurat-hai-to-ye-hai-akbar-allahabadi-ghazals," معنی کو بھلا دیتی ہے صورت ہے تو یہ ہے نیچر بھی سبق سیکھ لے زینت ہے تو یہ ہے کمرے میں جو ہنستی ہوئی آئی مس رعنا ٹیچر نے کہا علم کی آفت ہے تو یہ ہے یہ بات تو اچھی ہے کہ الفت ہو مسوں سے حور ان کو سمجھتے ہیں قیامت ہے تو یہ ہے پیچیدہ مسائل کے لیے جاتے ہیں انگلینڈ زلفوں میں الجھ آتے ہیں شامت ہے تو یہ ہے پبلک میں ذرا ہاتھ ملا لیجئے مجھ سے صاحب مرے ایمان کی قیمت ہے تو یہ ہے " bithaaii-jaaengii-parde-men-biibayaan-kab-tak-akbar-allahabadi-ghazals," بٹھائی جائیں گی پردے میں بیبیاں کب تک بنے رہو گے تم اس ملک میں میاں کب تک حرم سرا کی حفاظت کو تیغ ہی نہ رہی تو کام دیں گی یہ چلمن کی تیلیاں کب تک میاں سے بی بی ہیں پردہ ہے ان کو فرض مگر میاں کا علم ہی اٹھا تو پھر میاں کب تک طبیعتوں کا نمو ہے ہوائے مغرب میں یہ غیرتیں یہ حرارت یہ گرمیاں کب تک عوام باندھ لیں دوہر تو تھرڈ وانٹر میں سکنڈ‌ و فرسٹ کی ہوں بند کھڑکیاں کب تک جو منہ دکھائی کی رسموں پہ ہے مصر ابلیس چھپیں گی حضرت حوا کی بیٹیاں کب تک جناب حضرت اکبرؔ ہیں حامئ پردہ مگر وہ کب تک اور ان کی رباعیاں کب تک " havaa-e-shab-bhii-hai-ambar-afshaan-uruuj-bhii-hai-mah-e-mubiin-kaa-akbar-allahabadi-ghazals," ہوائے شب بھی ہے عنبر افشاں عروج بھی ہے مہ مبیں کا نثار ہونے کی دو اجازت محل نہیں ہے نہیں نہیں کا اگر ہو ذوق سجود پیدا ستارہ ہو اوج پر جبیں کا نشان سجدہ زمین پر ہو تو فخر ہے وہ رخ زمیں کا صبا بھی اس گل کے پاس آئی تو میرے دل کو ہوا یہ کھٹکا کوئی شگوفہ نہ یہ کھلائے پیام لائی نہ ہو کہیں کا نہ مہر و مہ پر مری نظر ہے نہ لالہ و گل کی کچھ خبر ہے فروغ دل کے لیے ہے کافی تصور اس روئے آتشیں کا نہ علم فطرت میں تم ہو ماہر نہ ذوق طاعت ہے تم سے ظاہر یہ بے اصولی بہت بری ہے تمہیں نہ رکھے گی یہ کہیں کا " rang-e-sharaab-se-mirii-niyyat-badal-gaii-akbar-allahabadi-ghazals," رنگ شراب سے مری نیت بدل گئی واعظ کی بات رہ گئی ساقی کی چل گئی طیار تھے نماز پہ ہم سن کے ذکر حور جلوہ بتوں کا دیکھ کے نیت بدل گئی مچھلی نے ڈھیل پائی ہے لقمے پہ شاد ہے صیاد مطمئن ہے کہ کانٹا نگل گئی چمکا ترا جمال جو محفل میں وقت شام پروانہ بیقرار ہوا شمع جل گئی عقبیٰ کی باز پرس کا جاتا رہا خیال دنیا کی لذتوں میں طبیعت بہل گئی حسرت بہت ترقیٔ دختر کی تھی انہیں پردہ جو اٹھ گیا تو وہ آخر نکل گئی " agar-dil-vaaqif-e-nairangii-e-tab-e-sanam-hotaa-akbar-allahabadi-ghazals," اگر دل واقف نیرنگیٔ طبع صنم ہوتا زمانہ کی دو رنگی کا اسے ہرگز نہ غم ہوتا یہ پابند مصیبت دل کے ہاتھوں ہم تو رہتے ہیں نہیں تو چین سے کٹتی نہ دل ہوتا نہ غم ہوتا انہیں کی ہے وفائی کا یہ ہے آٹھوں پہر صدمہ وہی ہوتے جو قابو میں تو پھر کاہے کو غم ہوتا لب و چشم صنم گر دیکھنے پاتے کہیں شاعر کوئی شیریں سخن ہوتا کوئی جادو رقم ہوتا بہت اچھا ہوا آئے نہ وہ میری عیادت کو جو وہ آتے تو غیر آتے جو غیر آتے تو غم ہوتا اگر قبریں نظر آتیں نہ دارا و سکندر کی مجھے بھی اشتیاق دولت و جاہ و حشم ہوتا لئے جاتا ہے جوش شوق ہم کو راہ الفت میں نہیں تو ضعف سے دشوار چلنا دو قدم ہوتا نہ رہنے پائے دیواروں میں روزن شکر ہے ورنہ تمہیں تو دل لگی ہوتی غریبوں پر ستم ہوتا " kahaan-vo-ab-lutf-e-baahamii-hai-mohabbaton-men-bahut-kamii-hai-akbar-allahabadi-ghazals," کہاں وہ اب لطف باہمی ہے محبتوں میں بہت کمی ہے چلی ہے کیسی ہوا الٰہی کہ ہر طبیعت میں برہمی ہے مری وفا میں ہے کیا تزلزل مری اطاعت میں کیا کمی ہے یہ کیوں نگاہیں پھری ہیں مجھ سے مزاج میں کیوں یہ برہمی ہے وہی ہے فضل خدا سے اب تک ترقی کار حسن و الفت نہ وہ ہیں مشق ستم میں قاصر نہ خون دل کی یہاں کمی ہے عجیب جلوے ہیں ہوش دشمن کہ وہم کے بھی قدم رکے ہیں عجیب منظر ہیں حیرت افزا نظر جہاں تھی وہیں تھمی ہے نہ کوئی تکریم باہمی ہے نہ پیار باقی ہے اب دلوں میں یہ صرف تحریر میں ڈیر سر ہے یا جناب مکرمی ہے کہاں کے مسلم کہاں کے ہندو بھلائی ہیں سب نے اگلی رسمیں عقیدے سب کے ہیں تین تیرہ نہ گیارہویں ہے نہ اسٹمی ہے نظر مری اور ہی طرف ہے ہزار رنگ زمانہ بدلے ہزار باتیں بنائے ناصح جمی ہے دل میں جو کچھ جمی ہے اگرچہ میں رند محترم ہوں مگر اسے شیخ سے نہ پوچھو کہ ان کے آگے تو اس زمانے میں ساری دنیا جہنمی ہے " kyaa-jaaniye-sayyad-the-haq-aagaah-kahaan-tak-akbar-allahabadi-ghazals," کیا جانیے سید تھے حق آگاہ کہاں تک سمجھے نہ کہ سیدھی ہے مری راہ کہاں تک منطق بھی تو اک چیز ہے اے قبلہ و کعبہ دے سکتی ہے کام آپ کی واللہ کہاں تک افلاک تو اس عہد میں ثابت ہوئے معدوم اب کیا کہوں جاتی ہے مری آہ کہاں تک کچھ صنعت و حرفت پہ بھی لازم ہے توجہ آخر یہ گورنمنٹ سے تنخواہ کہاں تک مرنا بھی ضروری ہے خدا بھی ہے کوئی چیز اے حرص کے بندو ہوس جاہ کہاں تک تحسین کے لائق ترا ہر شعر ہے اکبرؔ احباب کریں بزم میں اب واہ کہاں تک " jurm-e-ulfat-pe-hamen-log-sazaa-dete-hain-sahir-ludhianvi-ghazals," جرم الفت پہ ہمیں لوگ سزا دیتے ہیں کیسے نادان ہیں شعلوں کو ہوا دیتے ہیں ہم سے دیوانے کہیں ترک وفا کرتے ہیں جان جائے کہ رہے بات نبھا دیتے ہیں آپ دولت کے ترازو میں دلوں کو تولیں ہم محبت سے محبت کا صلہ دیتے ہیں تخت کیا چیز ہے اور لعل و جواہر کیا ہیں عشق والے تو خدائی بھی لٹا دیتے ہیں ہم نے دل دے بھی دیا عہد وفا لے بھی لیا آپ اب شوق سے دے لیں جو سزا دیتے ہیں " is-taraf-se-guzre-the-qaafile-bahaaron-ke-sahir-ludhianvi-ghazals-3," اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے آج تک سلگتے ہیں زخم رہ گزاروں کے خلوتوں کے شیدائی خلوتوں میں کھلتے ہیں ہم سے پوچھ کر دیکھو راز پردہ داروں کے گیسوؤں کی چھاؤں میں دل نواز چہرے ہیں یا حسیں دھندلکوں میں پھول ہیں بہاروں کے پہلے ہنس کے ملتے ہیں پھر نظر چراتے ہیں آشنا صفت ہیں لوگ اجنبی دیاروں کے تم نے صرف چاہا ہے ہم نے چھو کے دیکھے ہیں پیرہن گھٹاؤں کے جسم برق پاروں کے شغل مے پرستی گو جشن نامرادی تھا یوں بھی کٹ گئے کچھ دن تیرے سوگواروں کے " ye-vaadiyaan-ye-fazaaen-bulaa-rahii-hain-tumhen-sahir-ludhianvi-ghazals," یہ وادیاں یہ فضائیں بلا رہی ہیں تمہیں خموشیوں کی صدائیں بلا رہی ہیں تمہیں ترس رہے ہیں جواں پھول ہونٹ چھونے کو مچل مچل کے ہوائیں بلا رہی ہیں تمہیں تمہاری زلفوں سے خوشبو کی بھیک لینے کو جھکی جھکی سی گھٹائیں بلا رہی ہیں تمہیں حسین چمپئی پیروں کو جب سے دیکھا ہے ندی کی مست ادائیں بلا رہی ہیں تمہیں مرا کہا نہ سنو ان کی بات تو سن لو ہر ایک دل کی دعائیں بلا رہی ہیں تمہیں " gulshan-gulshan-phuul-sahir-ludhianvi-ghazals," گلشن گلشن پھول دامن دامن دھول مرنے پر تعزیر جینے پر محصول ہر جذبہ مصلوب ہر خواہش مقتول عشق پریشاں حال ناز حسن ملول نعرۂ حق معتوب مکر و ریا مقبول سنورا نہیں جہاں آئے کئی رسول " chehre-pe-khushii-chhaa-jaatii-hai-aankhon-men-suruur-aa-jaataa-hai-sahir-ludhianvi-ghazals," چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے آنکھوں میں سرور آ جاتا ہے جب تم مجھے اپنا کہتے ہو اپنے پہ غرور آ جاتا ہے تم حسن کی خود اک دنیا ہو شاید یہ تمہیں معلوم نہیں محفل میں تمہارے آنے سے ہر چیز پہ نور آ جاتا ہے ہم پاس سے تم کو کیا دیکھیں تم جب بھی مقابل ہوتے ہو بیتاب نگاہوں کے آگے پردہ سا ضرور آ جاتا ہے جب تم سے محبت کی ہم نے تب جا کے کہیں یہ راز کھلا مرنے کا سلیقہ آتے ہی جینے کا شعور آ جاتا ہے " tirii-duniyaa-men-jiine-se-to-behtar-hai-ki-mar-jaaen-sahir-ludhianvi-ghazals," تری دنیا میں جینے سے تو بہتر ہے کہ مر جائیں وہی آنسو وہی آہیں وہی غم ہے جدھر جائیں کوئی تو ایسا گھر ہوتا جہاں سے پیار مل جاتا وہی بیگانے چہرے ہیں جہاں جائیں جدھر جائیں ارے او آسماں والے بتا اس میں برا کیا ہے خوشی کے چار جھونکے گر ادھر سے بھی گزر جائیں " barbaad-e-mohabbat-kii-duaa-saath-liye-jaa-sahir-ludhianvi-ghazals," برباد محبت کی دعا ساتھ لیے جا ٹوٹا ہوا اقرار وفا ساتھ لیے جا اک دل تھا جو پہلے ہی تجھے سونپ دیا تھا یہ جان بھی اے جان ادا ساتھ لیے جا تپتی ہوئی راہوں سے تجھے آنچ نہ پہنچے دیوانوں کے اشکوں کی گھٹا ساتھ لیے جا شامل ہے مرا خون جگر تیری حنا میں یہ کم ہو تو اب خون وفا ساتھ لیے جا ہم جرم محبت کی سزا پائیں گے تنہا جو تجھ سے ہوئی ہو وہ خطا ساتھ لیے جا " sazaa-kaa-haal-sunaaen-jazaa-kii-baat-karen-sahir-ludhianvi-ghazals," سزا کا حال سنائیں جزا کی بات کریں خدا ملا ہو جنہیں وہ خدا کی بات کریں انہیں پتہ بھی چلے اور وہ خفا بھی نہ ہوں اس احتیاط سے کیا مدعا کی بات کریں ہمارے عہد کی تہذیب میں قبا ہی نہیں اگر قبا ہو تو بند قبا کی بات کریں ہر ایک دور کا مذہب نیا خدا لایا کریں تو ہم بھی مگر کس خدا کی بات کریں وفا شعار کئی ہیں کوئی حسیں بھی تو ہو چلو پھر آج اسی بے وفا کی بات کریں " tarab-zaaron-pe-kyaa-biitii-sanam-khaanon-pe-kyaa-guzrii-sahir-ludhianvi-ghazals," طرب زاروں پہ کیا بیتی صنم خانوں پہ کیا گزری دل زندہ ترے مرحوم ارمانوں پہ کیا گزری زمیں نے خون اگلا آسماں نے آگ برسائی جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری ہمیں یہ فکر ان کی انجمن کس حال میں ہوگی انہیں یہ غم کہ ان سے چھٹ کے دیوانوں پہ کیا گزری مرا الحاد تو خیر ایک لعنت تھا سو ہے اب تک مگر اس عالم وحشت میں ایمانوں پہ کیا گزری یہ منظر کون سا منظر ہے پہچانا نہیں جاتا سیہ خانوں سے کچھ پوچھو شبستانوں پہ کیا گزری چلو وہ کفر کے گھر سے سلامت آ گئے لیکن خدا کی مملکت میں سوختہ جانوں پہ کیا گزری " aqaaed-vahm-hain-mazhab-khayaal-e-khaam-hai-saaqii-sahir-ludhianvi-ghazals," عقائد وہم ہیں مذہب خیال خام ہے ساقی ازل سے ذہن انساں بستۂ اوہام ہے ساقی حقیقت آشنائی اصل میں گم کردہ راہی ہے عروس آگہی پروردۂ ابہام ہے ساقی مبارک ہو ضعیفی کو خرد کی فلسفہ رانی جوانی بے نیاز عبرت انجام ہے ساقی ہوس ہوگی اسیر حلقۂ نیک و بد عالم محبت ماورائے فکر ننگ و نام ہے ساقی ابھی تک راستے کے پیچ و خم سے دل دھڑکتا ہے مرا ذوق طلب شاید ابھی تک خام ہے ساقی وہاں بھیجا گیا ہوں چاک کرنے پردۂ شب کو جہاں ہر صبح کے دامن پہ عکس شام ہے ساقی مرے ساغر میں مے ہے اور ترے ہاتھوں میں بربط ہے وطن کی سر زمیں میں بھوک سے کہرام ہے ساقی زمانہ برسر پیکار ہے پر ہول شعلوں سے ترے لب پر ابھی تک نغمہ خیام ہے ساقی " sansaar-kii-har-shai-kaa-itnaa-hii-fasaana-hai-sahir-ludhianvi-ghazals," سنسار کی ہر شے کا اتنا ہی فسانہ ہے اک دھند سے آنا ہے اک دھند میں جانا ہے یہ راہ کہاں سے ہے یہ راہ کہاں تک ہے یہ راز کوئی راہی سمجھا ہے نہ جانا ہے اک پل کی پلک پر ہے ٹھہری ہوئی یہ دنیا اک پل کے جھپکنے تک ہر کھیل سہانا ہے کیا جانے کوئی کس پر کس موڑ پر کیا بیتے اس راہ میں اے راہی ہر موڑ بہانا ہے ہم لوگ کھلونا ہیں اک ایسے کھلاڑی کا جس کو ابھی صدیوں تک یہ کھیل رچانا ہے " main-zinda-huun-ye-mushtahar-kiijiye-sahir-ludhianvi-ghazals-3," میں زندہ ہوں یہ مشتہر کیجیے مرے قاتلوں کو خبر کیجیے زمیں سخت ہے آسماں دور ہے بسر ہو سکے تو بسر کیجیے ستم کے بہت سے ہیں رد عمل ضروری نہیں چشم تر کیجیے وہی ظلم بار دگر ہے تو پھر وہی جرم بار دگر کیجیے قفس توڑنا بعد کی بات ہے ابھی خواہش بال و پر کیجیے " miltii-hai-zindagii-men-mohabbat-kabhii-kabhii-sahir-ludhianvi-ghazals," ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی ہوتی ہے دلبروں کی عنایت کبھی کبھی شرما کے منہ نہ پھیر نظر کے سوال پر لاتی ہے ایسے موڑ پہ قسمت کبھی کبھی کھلتے نہیں ہیں روز دریچے بہار کے آتی ہے جان من یہ قیامت کبھی کبھی تنہا نہ کٹ سکیں گے جوانی کے راستے پیش آئے گی کسی کی ضرورت کبھی کبھی پھر کھو نہ جائیں ہم کہیں دنیا کی بھیڑ میں ملتی ہے پاس آنے کی مہلت کبھی کبھی " khuddaariyon-ke-khuun-ko-arzaan-na-kar-sake-sahir-ludhianvi-ghazals-3," خودداریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے ہو کر خراب مے ترے غم تو بھلا دیے لیکن غم حیات کا درماں نہ کر سکے ٹوٹا طلسم عہد محبت کچھ اس طرح پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے ہر شے قریب آ کے کشش اپنی کھو گئی وہ بھی علاج شوق گریزاں نہ کر سکے کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے وہ بھی نشاط روح کا ساماں نہ کر سکے " ab-aaen-yaa-na-aaen-idhar-puuchhte-chalo-sahir-ludhianvi-ghazals," اب آئیں یا نہ آئیں ادھر پوچھتے چلو کیا چاہتی ہے ان کی نظر پوچھتے چلو ہم سے اگر ہے ترک تعلق تو کیا ہوا یارو کوئی تو ان کی خبر پوچھتے چلو جو خود کو کہہ رہے ہیں کہ منزل شناس ہیں ان کو بھی کیا خبر ہے مگر پوچھتے چلو کس منزل مراد کی جانب رواں ہیں ہم اے رہروان خاک بسر پوچھتے چلو " ye-zulf-agar-khul-ke-bikhar-jaae-to-achchhaa-sahir-ludhianvi-ghazals," یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا اس رات کی تقدیر سنور جائے تو اچھا جس طرح سے تھوڑی سی ترے ساتھ کٹی ہے باقی بھی اسی طرح گزر جائے تو اچھا دنیا کی نگاہوں میں بھلا کیا ہے برا کیا یہ بوجھ اگر دل سے اتر جائے تو اچھا ویسے تو تمہیں نے مجھے برباد کیا ہے الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا " ye-zamiin-kis-qadar-sajaaii-gaii-sahir-ludhianvi-ghazals," یہ زمیں کس قدر سجائی گئی زندگی کی تڑپ بڑھائی گئی آئینے سے بگڑ کے بیٹھ گئے جن کی صورت جنہیں دکھائی گئی دشمنوں ہی سے بھی تو نبھ جائے دوستوں سے تو آشنائی گئی نسل در نسل انتظار رہا قصر ٹوٹے نہ بے نوائی گئی زندگی کا نصیب کیا کہئے ایک سیتا تھی جو ستائی گئی ہم نہ اوتار تھے نہ پیغمبر کیوں یہ عظمت ہمیں دلائی گئی موت پائی صلیب پر ہم نے عمر بن باس میں بتائی گئی " har-qadam-marhala-e-daar-o-saliib-aaj-bhii-hai-sahir-ludhianvi-ghazals," ہر قدم مرحلۂ دار و صلیب آج بھی ہے جو کبھی تھا وہی انساں کا نصیب آج بھی ہے جگمگاتے ہیں افق پر یہ ستارے لیکن راستہ منزل ہستی کا مہیب آج بھی ہے سر مقتل جنہیں جانا تھا وہ جا بھی پہنچے سر منبر کوئی محتاط خطیب آج بھی ہے اہل دانش نے جسے امر مسلم مانا اہل دل کے لیے وہ بات عجیب آج بھی ہے یہ تری یاد ہے یا میری اذیت کوشی ایک نشتر سا رگ جاں کے قریب آج بھی ہے کون جانے یہ ترا شاعر آشفتہ مزاج کتنے مغرور خداؤں کا رقیب آج بھی ہے " parbaton-ke-pedon-par-shaam-kaa-baseraa-hai-sahir-ludhianvi-ghazals," پربتوں کے پیڑوں پر شام کا بسیرا ہے سرمئی اجالا ہے چمپئی اندھیرا ہے دونوں وقت ملتے ہیں دو دلوں کی صورت سے آسماں نے خوش ہو کر رنگ سا بکھیرا ہے ٹھہرے ٹھہرے پانی میں گیت سرسراتے ہیں بھیگے بھیگے جھونکوں میں خوشبوؤں کا ڈیرا ہے کیوں نہ جذب ہو جائیں اس حسیں نظارے میں روشنی کا جھرمٹ ہے مستیوں کا گھیرا ہے " jab-kabhii-un-kii-tavajjoh-men-kamii-paaii-gaii-sahir-ludhianvi-ghazals," جب کبھی ان کی توجہ میں کمی پائی گئی از سر نو داستان شوق دہرائی گئی بک گئے جب تیرے لب پھر تجھ کو کیا شکوہ اگر زندگانی بادہ و ساغر سے بہلائی گئی اے غم دنیا تجھے کیا علم تیرے واسطے کن بہانوں سے طبیعت راہ پر لائی گئی ہم کریں ترک وفا اچھا چلو یوں ہی سہی اور اگر ترک وفا سے بھی نہ رسوائی گئی کیسے کیسے چشم و عارض گرد غم سے بجھ گئے کیسے کیسے پیکروں کی شان زیبائی گئی دل کی دھڑکن میں توازن آ چلا ہے خیر ہو میری نظریں بجھ گئیں یا تیری رعنائی گئی ان کا غم ان کا تصور ان کے شکوے اب کہاں اب تو یہ باتیں بھی اے دل ہو گئیں آئی گئی جرأت انساں پہ گو تادیب کے پہرے رہے فطرت انساں کو کب زنجیر پہنائی گئی عرصۂ ہستی میں اب تیشہ زنوں کا دور ہے رسم چنگیزی اٹھی توقیر دارائی گئی " har-tarah-ke-jazbaat-kaa-elaan-hain-aankhen-sahir-ludhianvi-ghazals," ہر طرح کے جذبات کا اعلان ہیں آنکھیں شبنم کبھی شعلہ کبھی طوفان ہیں آنکھیں آنکھوں سے بڑی کوئی ترازو نہیں ہوتی تلتا ہے بشر جس میں وہ میزان ہیں آنکھیں آنکھیں ہی ملاتی ہیں زمانے میں دلوں کو انجان ہیں ہم تم اگر انجان ہیں آنکھیں لب کچھ بھی کہیں اس سے حقیقت نہیں کھلتی انسان کے سچ جھوٹ کی پہچان ہیں آنکھیں آنکھیں نہ جھکیں تیری کسی غیر کے آگے دنیا میں بڑی چیز مری جان! ہیں آنکھیں " main-zindagii-kaa-saath-nibhaataa-chalaa-gayaa-sahir-ludhianvi-ghazals," میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا جو کھو گیا میں اس کو بھلاتا چلا گیا غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا " na-to-zamiin-ke-liye-hai-na-aasmaan-ke-liye-sahir-ludhianvi-ghazals," نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لیے ترا وجود ہے اب صرف داستاں کے لیے پلٹ کے سوئے چمن دیکھنے سے کیا ہوگا وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کے لیے غرض پرست جہاں میں وفا تلاش نہ کر یہ شے بنی تھی کسی دوسرے جہاں کے لیے " tum-apnaa-ranj-o-gam-apnii-pareshaanii-mujhe-de-do-sahir-ludhianvi-ghazals," تم اپنا رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو تمہیں غم کی قسم اس دل کی ویرانی مجھے دے دو یہ مانا میں کسی قابل نہیں ہوں ان نگاہوں میں برا کیا ہے اگر یہ دکھ یہ حیرانی مجھے دے دو میں دیکھوں تو سہی دنیا تمہیں کیسے ستاتی ہے کوئی دن کے لئے اپنی نگہبانی مجھے دے دو وہ دل جو میں نے مانگا تھا مگر غیروں نے پایا ہے بڑی شے ہے اگر اس کی پشیمانی مجھے دے دو " ahl-e-dil-aur-bhii-hain-ahl-e-vafaa-aur-bhii-hain-sahir-ludhianvi-ghazals," اہل دل اور بھی ہیں اہل وفا اور بھی ہیں ایک ہم ہی نہیں دنیا سے خفا اور بھی ہیں ہم پہ ہی ختم نہیں مسلک شوریدہ سری چاک دل اور بھی ہیں چاک قبا اور بھی ہیں کیا ہوا گر مرے یاروں کی زبانیں چپ ہیں میرے شاہد مرے یاروں کے سوا اور بھی ہیں سر سلامت ہے تو کیا سنگ ملامت کی کمی جان باقی ہے تو پیکان قضا اور بھی ہیں منصف شہر کی وحدت پہ نہ حرف آ جائے لوگ کہتے ہیں کہ ارباب جفا اور بھی ہیں " dekhaa-to-thaa-yuunhii-kisii-gaflat-shiaar-ne-sahir-ludhianvi-ghazals," دیکھا تو تھا یوں ہی کسی غفلت شعار نے دیوانہ کر دیا دل بے اختیار نے اے آرزو کے دھندلے خرابو جواب دو پھر کس کی یاد آئی تھی مجھ کو پکارنے تجھ کو خبر نہیں مگر اک سادہ لوح کو برباد کر دیا ترے دو دن کے پیار نے میں اور تم سے ترک محبت کی آرزو دیوانہ کر دیا ہے غم روزگار نے اب اے دل تباہ ترا کیا خیال ہے ہم تو چلے تھے کاکل گیتی سنوارنے " bhadkaa-rahe-hain-aag-lab-e-nagmagar-se-ham-sahir-ludhianvi-ghazals," بھڑکا رہے ہیں آگ لب نغمہ گر سے ہم خاموش کیا رہیں گے زمانے کے ڈر سے ہم کچھ اور بڑھ گئے جو اندھیرے تو کیا ہوا مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم " duur-rah-kar-na-karo-baat-qariib-aa-jaao-sahir-ludhianvi-ghazals," دور رہ کر نہ کرو بات قریب آ جاؤ یاد رہ جائے گی یہ رات قریب آ جاؤ ایک مدت سے تمنا تھی تمہیں چھونے کی آج بس میں نہیں جذبات قریب آ جاؤ سرد جھونکوں سے بھڑکتے ہیں بدن میں شعلے جان لے لے گی یہ برسات قریب آ جاؤ اس قدر ہم سے جھجکنے کی ضرورت کیا ہے زندگی بھر کا ہے اب ساتھ قریب آ جاؤ " bhuule-se-mohabbat-kar-baithaa-naadaan-thaa-bechaaraa-dil-hii-to-hai-sahir-ludhianvi-ghazals," بھولے سے محبت کر بیٹھا، ناداں تھا بچارا، دل ہی تو ہے ہر دل سے خطا ہو جاتی ہے، بگڑو نہ خدارا، دل ہی تو ہے اس طرح نگاہیں مت پھیرو، ایسا نہ ہو دھڑکن رک جائے سینے میں کوئی پتھر تو نہیں احساس کا مارا، دل ہی تو ہے جذبات بھی ہندو ہوتے ہیں چاہت بھی مسلماں ہوتی ہے دنیا کا اشارہ تھا لیکن سمجھا نہ اشارا، دل ہی تو ہے بیداد گروں کی ٹھوکر سے سب خواب سہانے چور ہوئے اب دل کا سہارا غم ہی تو ہے اب غم کا سہارا دل ہی تو ہے " har-chand-mirii-quvvat-e-guftaar-hai-mahbuus-sahir-ludhianvi-ghazals," ہر چند مری قوت گفتار ہے محبوس خاموش مگر طبع خود آرا نہیں ہوتی معمورۂ احساس میں ہے حشر سا برپا انسان کی تذلیل گوارا نہیں ہوتی نالاں ہوں میں بیداریٔ احساس کے ہاتھوں دنیا مرے افکار کی دنیا نہیں ہوتی بیگانہ صفت جادۂ منزل سے گزر جا ہر چیز سزاوار نظارہ نہیں ہوتی فطرت کی مشیت بھی بڑی چیز ہے لیکن فطرت کبھی بے بس کا سہارا نہیں ہوتی " tang-aa-chuke-hain-kashmakash-e-zindagii-se-ham-sahir-ludhianvi-ghazals," تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم مایوسئ مآل محبت نہ پوچھیے اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے گو دب گئے ہیں بار غم زندگی سے ہم گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم اللہ رے فریب مشیت کہ آج تک دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم " kyaa-jaanen-tirii-ummat-kis-haal-ko-pahunchegii-sahir-ludhianvi-ghazals," کیا جانیں تری امت کس حال کو پہنچے گی بڑھتی چلی جاتی ہے تعداد اماموں کی ہر گوشۂ مغرب میں ہر خطۂ مشرق میں تشریح دگرگوں ہے اب تیرے پیاموں کی وہ لوگ جنہیں کل تک دعویٰ تھا رفاقت کا تذلیل پہ اترے ہیں اپنوں ہی کے ناموں کی بگڑے ہوئے تیور ہیں نو عمر سیاست کے بپھری ہوئی سانسیں ہیں نو مشق نظاموں کی طبقوں سے نکل کر ہم فرقوں میں نہ بٹ جائیں بن کر نہ بگڑ جائے تقدیر غلاموں کی " apnaa-dil-pesh-karuun-apnii-vafaa-pesh-karuun-sahir-ludhianvi-ghazals," اپنا دل پیش کروں اپنی وفا پیش کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا تجھے کیا پیش کروں تیرے ملنے کی خوشی میں کوئی نغمہ چھیڑوں یا ترے درد جدائی کا گلا پیش کروں میرے خوابوں میں بھی تو میرے خیالوں میں بھی تو کون سی چیز تجھے تجھ سے جدا پیش کروں جو ترے دل کو لبھائے وہ ادا مجھ میں نہیں کیوں نہ تجھ کو کوئی تیری ہی ادا پیش کروں " dekhaa-hai-zindagii-ko-kuchh-itne-qariib-se-sahir-ludhianvi-ghazals-1," دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے اے روح عصر جاگ کہاں سو رہی ہے تو آواز دے رہے ہیں پیمبر صلیب سے اس رینگتی حیات کا کب تک اٹھائیں بار بیمار اب الجھنے لگے ہیں طبیب سے ہر گام پر ہے مجمع عشاق منتظر مقتل کی راہ ملتی ہے کوئے حبیب سے اس طرح زندگی نے دیا ہے ہمارا ساتھ جیسے کوئی نباہ رہا ہو رقیب سے " dekhaa-hai-zindagii-ko-kuchh-itnaa-qariib-se-sahir-ludhianvi-ghazals," دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنا قریب سے چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے کہنے کو دل کی بات جنہیں ڈھونڈتے تھے ہم محفل میں آ گئے ہیں وہ اپنے نصیب سے نیلام ہو رہا تھا کسی نازنیں کا پیار قیمت نہیں چکائی گئی اک غریب سے تیری وفا کی لاش پہ لا میں ہی ڈال دوں ریشم کا یہ کفن جو ملا ہے رقیب سے " merii-taqdiir-men-jalnaa-hai-to-jal-jaauungaa-sahir-ludhianvi-ghazals," میری تقدیر میں جلنا ہے تو جل جاؤں گا تیرا وعدہ تو نہیں ہوں جو بدل جاؤں گا سوز بھر دو مرے سپنے میں غم الفت کا میں کوئی موم نہیں ہوں جو پگھل جاؤں گا درد کہتا ہے یہ گھبرا کے شب فرقت میں آہ بن کر ترے پہلو سے نکل جاؤں گا مجھ کو سمجھاؤ نہ ساحرؔ میں اک دن خود ہی ٹھوکریں کھا کے محبت میں سنبھل جاؤں گا " kabhii-khud-pe-kabhii-haalaat-pe-ronaa-aayaa-sahir-ludhianvi-ghazals," کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا " ab-koii-gulshan-na-ujde-ab-vatan-aazaad-hai-sahir-ludhianvi-ghazals," اب کوئی گلشن نہ اجڑے اب وطن آزاد ہے روح گنگا کی ہمالہ کا بدن آزاد ہے کھیتیاں سونا اگائیں وادیاں موتی لٹائیں آج گوتم کی زمیں تلسی کا بن آزاد ہے مندروں میں سنکھ باجے مسجدوں میں ہو اذاں شیخ کا دھرم اور دین برہمن آزاد ہے لوٹ کیسی بھی ہو اب اس دیش میں رہنے نہ پائے آج سب کے واسطے دھرتی کا دھن آزاد ہے " itnii-hasiin-itnii-javaan-raat-kyaa-karen-sahir-ludhianvi-ghazals," اتنی حسین اتنی جواں رات کیا کریں جاگے ہیں کچھ عجیب سے جذبات کیا کریں پیڑوں کے بازوؤں میں مہکتی ہے چاندنی بے چین ہو رہے ہیں خیالات کیا کریں سانسوں میں گھل رہی ہے کسی سانس کی مہک دامن کو چھو رہا ہے کوئی ہات کیا کریں شاید تمہارے آنے سے یہ بھید کھل سکے حیران ہیں کہ آج نئی بات کیا کریں " fan-jo-naadaar-tak-nahiin-pahunchaa-sahir-ludhianvi-ghazals," فن جو نادار تک نہیں پہنچا ابھی معیار تک نہیں پہنچا اس نے بر وقت بے رخی برتی شوق آزار تک نہیں پہنچا عکس مے ہو کہ جلوۂ گل ہو رنگ رخسار تک نہیں پہنچا حرف انکار سر بلند رہا ضعف اقرار تک نہیں پہنچا حکم سرکار کی پہنچ مت پوچھ اہل سرکار تک نہیں پہنچا عدل گاہیں تو دور کی شے ہیں قتل اخبار تک نہیں پہنچا انقلابات دہر کی بنیاد حق جو حق دار تک نہیں پہنچا وہ مسیحا نفس نہیں جس کا سلسلہ دار تک نہیں پہنچا " tod-lenge-har-ik-shai-se-rishta-tod-dene-kii-naubat-to-aae-sahir-ludhianvi-ghazals," توڑ لیں گے ہر اک شے سے رشتہ توڑ دینے کی نوبت تو آئے ہم قیامت کے خود منتظر ہیں پر کسی دن قیامت تو آئے ہم بھی سقراط ہیں عہد نو کے تشنہ لب ہی نہ مر جائیں یارو زہر ہو یا مئے آتشیں ہو کوئی جام شہادت تو آئے ایک تہذیب ہے دوستی کی ایک معیار ہے دشمنی کا دوستوں نے مروت نہ سیکھی دشمنوں کو عداوت تو آئے رند رستے میں آنکھیں بچھائیں جو کہے بن سنے مان جائیں ناصح نیک طینت کسی شب سوئے کوئے ملامت تو آئے علم و تہذیب تاریخ و منطق لوگ سوچیں گے ان مسئلوں پر زندگی کے مشقت کدے میں کوئی عہد فراغت تو آئے کانپ اٹھیں قصر شاہی کے گنبد تھرتھرائے زمیں معبدوں کی کوچہ گردوں کی وحشت تو جاگے غم زدوں کو بغاوت تو آئے " sansaar-se-bhaage-phirte-ho-bhagvaan-ko-tum-kyaa-paaoge-sahir-ludhianvi-ghazals," سنسار سے بھاگے پھرتے ہو بھگوان کو تم کیا پاؤ گے اس لوک کو بھی اپنا نہ سکے اس لوک میں بھی پچھتاؤ گے یہ پاپ ہے کیا یہ پن ہے کیا ریتوں پر دھرم کی مہریں ہیں ہر یگ میں بدلتے دھرموں کو کیسے آدرش بناؤ گے یہ بھوگ بھی ایک تپسیا ہے تم تیاگ کے مارے کیا جانو اپمان رچیتا کا ہوگا رچنا کو اگر ٹھکراؤ گے ہم کہتے ہیں یہ جگ اپنا ہے تم کہتے ہو جھوٹا سپنا ہے ہم جنم بتا کر جائیں گے تم جنم گنوا کر جاؤ گے " havas-nasiib-nazar-ko-kahiin-qaraar-nahiin-sahir-ludhianvi-ghazals," ہوس نصیب نظر کو کہیں قرار نہیں میں منتظر ہوں مگر تیرا انتظار نہیں ہمیں سے رنگ گلستاں ہمیں سے رنگ بہار ہمیں کو نظم گلستاں پہ اختیار نہیں ابھی نہ چھیڑ محبت کے گیت اے مطرب ابھی حیات کا ماحول خوش گوار نہیں تمہارے عہد وفا کو میں عہد کیا سمجھوں مجھے خود اپنی محبت پہ اعتبار نہیں نہ جانے کتنے گلے اس میں مضطرب ہیں ندیم وہ ایک دل جو کسی کا گلہ گزار نہیں گریز کا نہیں قائل حیات سے لیکن جو سچ کہوں کہ مجھے موت ناگوار نہیں یہ کس مقام پہ پہنچا دیا زمانے نے کہ اب حیات پہ تیرا بھی اختیار نہیں " mohabbat-tark-kii-main-ne-garebaan-sii-liyaa-main-ne-sahir-ludhianvi-ghazals," محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے زمانے اب تو خوش ہو زہر یہ بھی پی لیا میں نے ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں کہ اب تک کس تمنا کے سہارے جی لیا میں نے انہیں اپنا نہیں سکتا مگر اتنا بھی کیا کم ہے کہ کچھ مدت حسیں خوابوں میں کھو کر جی لیا میں نے بس اب تو دامن دل چھوڑ دو بے کار امیدو بہت دکھ سہہ لیے میں نے بہت دن جی لیا میں نے " lab-pe-paabandii-to-hai-ehsaas-par-pahraa-to-hai-sahir-ludhianvi-ghazals," لب پہ پابندی تو ہے احساس پر پہرا تو ہے پھر بھی اہل دل کو احوال بشر کہنا تو ہے خون اعدا سے نہ ہو خون شہیداں ہی سے ہو کچھ نہ کچھ اس دور میں رنگ چمن نکھرا تو ہے اپنی غیرت بیچ ڈالیں اپنا مسلک چھوڑ دیں رہنماؤں میں بھی کچھ لوگوں کا یہ منشا تو ہے ہے جنہیں سب سے زیادہ دعویٔ حب الوطن آج ان کی وجہ سے حب وطن رسوا تو ہے بجھ رہے ہیں ایک اک کر کے عقیدوں کے دیے اس اندھیرے کا بھی لیکن سامنا کرنا تو ہے جھوٹ کیوں بولیں فروغ مصلحت کے نام پر زندگی پیاری سہی لیکن ہمیں مرنا تو ہے " sharmaa-ke-yuun-na-dekh-adaa-ke-maqaam-se-sahir-ludhianvi-ghazals," شرما کے یوں نہ دیکھ ادا کے مقام سے اب بات بڑھ چکی ہے حیا کے مقام سے تصویر کھینچ لی ہے ترے شوخ حسن کی میری نظر نے آج خطا کے مقام سے دنیا کو بھول کر مری بانہوں میں جھول جا آواز دے رہا ہوں وفا کے مقام سے دل کے معاملے میں نتیجے کی فکر کیا آگے ہے عشق جرم و سزا کے مقام سے " bujhaa-diye-hain-khud-apne-haathon-mohabbaton-ke-diye-jalaa-ke-sahir-ludhianvi-ghazals," بجھا دیے ہیں خود اپنے ہاتھوں محبتوں کے دیے جلا کے مری وفا نے اجاڑ دی ہیں امید کی بستیاں بسا کے تجھے بھلا دیں گے اپنے دل سے یہ فیصلہ تو کیا ہے لیکن نہ دل کو معلوم ہے نہ ہم کو جئیں گے کیسے تجھے بھلا کے کبھی ملیں گے جو راستے میں تو منہ پھرا کر پلٹ پڑیں گے کہیں سنیں گے جو نام تیرا تو چپ رہیں گے نظر جھکا کے نہ سوچنے پر بھی سوچتی ہوں کہ زندگانی میں کیا رہے گا تری تمنا کو دفن کر کے ترے خیالوں سے دور جا کے " ponchh-kar-ashk-apnii-aankhon-se-muskuraao-to-koii-baat-bane-sahir-ludhianvi-ghazals," پونچھ کر اشک اپنی آنکھوں سے مسکراؤ تو کوئی بات بنے سر جھکانے سے کچھ نہیں ہوتا سر اٹھاؤ تو کوئی بات بنے زندگی بھیک میں نہیں ملتی زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے اپنا حق سنگ دل زمانے سے چھین پاؤ تو کوئی بات بنے رنگ اور نسل ذات اور مذہب جو بھی ہے آدمی سے کمتر ہے اس حقیقت کو تم بھی میری طرح مان جاؤ تو کوئی بات بنے نفرتوں کے جہان میں ہم کو پیار کی بستیاں بسانی ہیں دور رہنا کوئی کمال نہیں پاس آؤ تو کوئی بات بنے " bahut-ghutan-hai-koii-suurat-e-bayaan-nikle-sahir-ludhianvi-ghazals," بہت گھٹن ہے کوئی صورت بیاں نکلے اگر صدا نہ اٹھے کم سے کم فغاں نکلے فقیر شہر کے تن پر لباس باقی ہے امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے حقیقتیں ہیں سلامت تو خواب بہتیرے ملال کیوں ہو کہ کچھ خواب رائیگاں نکلے ادھر بھی خاک اڑی ہے ادھر بھی خاک اڑی جہاں جہاں سے بہاروں کے کارواں نکلے ستم کے دور میں ہم اہل دل ہی کام آئے زباں پہ ناز تھا جن کو وہ بے زباں نکلے " sadiyon-se-insaan-ye-suntaa-aayaa-hai-sahir-ludhianvi-ghazals," صدیوں سے انسان یہ سنتا آیا ہے دکھ کی دھوپ کے آگے سکھ کا سایا ہے ہم کو ان سستی خوشیوں کا لوبھ نہ دو ہم نے سوچ سمجھ کر غم اپنایا ہے جھوٹ تو قاتل ٹھہرا اس کا کیا رونا سچ نے بھی انساں کا خوں بہایا ہے پیدائش کے دن سے موت کی زد میں ہیں اس مقتل میں کون ہمیں لے آیا ہے اول اول جس دل نے برباد کیا آخر آخر وہ دل ہی کام آیا ہے اتنے دن احسان کیا دیوانوں پر جتنے دن لوگوں نے ساتھ نبھایا ہے " sang-e-jafaa-kaa-gam-nahiin-dast-e-talab-kaa-dar-nahiin-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," سنگ جفا کا غم نہیں دست طلب کا ڈر نہیں اپنا ہے اس پر آشیاں نخل جو بارور نہیں سنتے ہو اہل قافلہ میں کوئی راہ بر نہیں دیکھ رہا ہوں تم میں سے ایک بھی راہ پر نہیں موت کا گھر ہے آسماں اس سے کہیں مفر نہیں نکلیں تو کوئی در نہیں بھاگیں تو رہ گزر نہیں پہلے جگر پر آہ کا نام نہ تھا نشاں نہ تھا آخر کار یہ ہوا آہ تو ہے جگر نہیں صبح ازل سے تا ابد قصہ نہ ہوگا یہ تمام جور فلک کی داستاں ایسی بھی مختصر نہیں برگ خزاں رسیدہ ہوں چھیڑ نہ مجھ کو اے نسیم ذوق فغاں کا ہے مجھے شکوۂ ابر تر نہیں منکر حشر ہے کدھر دیکھے تو آنکھ کھول کر حشر کی جو خبر نہ دے ایسی کوئی سحر نہیں شبنم و گل کو دیکھ کر وجد نہ آئے کس طرح خندہ بے سبب نہیں گریہ بے اثر نہیں تیرے فقیر کا غرور تاجوروں سے ہے سوا طرف کلہ میں دے شکن اس کو یہ درد سر نہیں کوشک و قصر و بام و در تو نے بنا کئے تو کیا حیف ہے خانماں خراب دل میں کسی کے گھیر نہیں نالہ کشی رقیب سے میری طرح محال ہے دل نہیں حوصلہ نہیں زہرہ نہیں جگر نہیں شاطر پیر آسماں واہ ری تیری دست برد خسرو و کیقباد کی تیغ نہیں کمر نہیں شان کریم کی یہ ہے ہاں سے ہو پیشتر عطا لطف عطا کا کیا ہو جب ہاں سے ہو پیشتر نہیں لاکھ وہ بے رخی کرے لاکھ وہ کج روی کرے کچھ تو ملال اس کا ہو دل کو مرے مگر نہیں سن کے برا نہ مانئے سچ کو نہ جھوٹ جانئے ذکر ہے کچھ گلہ نہیں بات ہے نیشتر نہیں " kis-liye-phirte-hain-ye-shams-o-qamar-donon-saath-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," کس لیے پھرتے ہیں یہ شمس و قمر دونوں ساتھ کس کو یہ ڈھونڈتے ہیں برہنہ سر دونوں ساتھ کیسی یارب یہ ہوا صبح شب وصل چلی بجھ گیا دل مرا اور شمع سحر دونوں ساتھ بعد میرے نہ رہا عشق کی منزل کا نشاں مٹ گئے راہرو و راہ گزر دونوں ساتھ اے جنوں دیکھ اسی صحرا میں اکیلا ہوں میں رہتے جس دشت میں ہیں خوف و خطر دونوں ساتھ مجھ کو حیرت ہے شب عیش کی کوتاہی پر یا خدا آئے تھے کیا شام و سحر دونوں ساتھ اس نے پھیری نگۂ ناز یہ معلوم ہوا کھنچ گیا سینے سے تیر اور جگر دونوں ساتھ غم کو دی دل نے جگہ دل کو جگہ پہلو نے ایک گوشے میں کریں گے یہ بسر دونوں ساتھ اس کو روکوں میں الٰہی کہ سنبھالوں اس کو کہ تڑپنے لگے دل اور جگر دونوں ساتھ ناز بڑھتا گیا بڑھتے گئے جوں جوں گیسو بلکہ لینے لگے اب زلف و کمر دونوں ساتھ تجھ سے مطلب ہے نہیں دنیا و عقبیٰ سے غرض تو نہیں جب تو اجڑ جائیں یہ گھر دونوں ساتھ بات سننا نہ کسی چاہنے والے کی کبھی کان میں پھونک رہے ہیں یہ گہر دونوں ساتھ آندھیاں آہ کی بھی اشک کا سیلاب بھی ہے دیتے ہیں دل کی خرابی کی خبر دونوں ساتھ کیا کہوں زہرہ و خورشید کا عالم اے نظمؔ نکلے خلوت سے جوں ہی وقت سحر دونوں ساتھ " hansii-men-vo-baat-main-ne-kah-dii-ki-rah-gae-aap-dang-ho-kar-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," ہنسی میں وہ بات میں نے کہہ دی کہ رہ گئے آپ دنگ ہو کر چھپا ہوا تھا جو راز دل میں کھلا وہ چہرہ کا رنگ ہو کر ہمیشہ کوچ و مقام اپنا رہا ہے خضر رہ طریقت رکا تو میں سنگ میل بن کر چلا تو آواز چنگ ہو کر نہ توڑتے آرسی اگر تم تو اتنے یوسف نظر نہ آتے یہ قافلہ کھینچ لائی سارا شکست آئینہ زنگ ہو کر شباب و پیری کا آنا جانا غضب کا پر درد ہے فسانہ یہ رہ گئی بن کے گرد حسرت وہ اڑ گیا رخ سے رنگ ہو کر جو راز دل سے زباں تک آیا تو اس کو قابو میں پھر نہ پایا زباں سے نکلا کلام بن کر کماں سے چھوٹا خدنگ ہو کر غضب ہے بحر فنا کا دھارا کہ مجھ کو الجھا کے مارا مارا نفس نے موجوں کا جال بن کر لحد نے کام نہنگ ہو کر ملا دل نا حفاظ مجھ کو تو کیا کسی کا لحاظ مجھ کو کہیں گریباں نہ پھاڑ ڈالیں جناب ناصح بھی تنگ ہو کر جو اب کی مینائے مے کو توڑا چلے گی تلوار محتسب سے لہو بھی رندوں کا دیکھ لینا بہا مئے لالہ رنگ ہو کر نہ ضبط سے شکوہ لب تک آیا نہ صبر نے آہ کھینچنے دی رہا دہن میں وہ قفل بن کر گرایا چھاتی پہ سنگ ہو کر سمجھ لے صوفی اگر یہ نکتہ ہے ایک بزم سماع ہستی تو نو پیالے یہ آسماں کے بجیں ابھی جل ترنگ ہو کر بھلا ہو افسردہ خاطری کا کہ حسرتوں کو دبا کے رکھا بچا لیا ہرزگی سے اس نے لحاظ ناموس و ننگ ہو کر جگر خراشی سے پائی فرصت نہ سینہ کاوی سے ناخنوں نے گلا گریباں نے گھونٹ ڈالا جنوں کی شورش سے تنگ ہو کر بدل کے دنیا نے بھیس صدہا اسے ڈرایا اسے لبھایا کبھی زن پیر زال بن کر کبھی بت شوخ و شنگ ہو کر اٹھے تھے تلوار کھینچ کر تم تو پھر تأمل نہ چاہئے تھا کہ رہ گئی میرے دل کی حسرت شہید تیغ درنگ ہو کر جو ولولے تھے وہ دب گئے سب ہجوم لیت و لعل میں حیدرؔ جو حوصلے تھے وہ دل ہی دل میں رہے دریغ و درنگ ہو کر " bidat-masnuun-ho-gaii-hai-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," بدعت مسنون ہو گئی ہے امت مطعون ہو گئی ہے کیا کہنا تری دعا کا زاہد گردوں کا ستون ہو گئی ہے رہنے دو اجل جو گھات میں ہے مجھ پر مفتون ہو گئی ہے حسرت کو غبار دل میں ڈھونڈو زندہ مدفون ہو گئی ہے وحشت کا تھا نام اول اول اب تو وہ جنون ہو گئی ہے واعظ نے بری نظر سے دیکھا مے شیشے میں خون ہو گئی ہے عارض کے قرین گلاب کا پھول ہم رنگ کی دون ہو گئی ہے بندہ ہوں ترا زبان شیریں دنیا ممنون ہو گئی ہے حیدرؔ شب غم میں مرگ ناگاہ شادی کا شگون ہو گئی ہے " mujh-ko-samjho-yaadgaar-e-raftagaan-e-lucknow-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," مجھ کو سمجھو یادگار رفتگان لکھنؤ ہوں قد آدم غبار کاروان لکھنؤ خون حسرت کہہ رہا ہے داستان لکھنؤ رہ گیا ہے اب یہی رنگیں بیان لکھنؤ گوش عبرت سے سنے کوئی مری فریاد ہے بلبل خونیں نوائے بوستان لکھنؤ میرے ہر آنسو میں اک آئینۂ تصویر ہے میرے ہر نالہ میں ہے طرز فغان لکھنؤ ڈھونڈھتا ہے اب کسے لے کر چراغ آفتاب کیوں مٹایا اے فلک تو نے نشان لکھنؤ لکھنؤ جن سے عبارت تھی ہوئے وہ ناپدید ہے نشان لکھنؤ باقی نہ شان لکھنؤ اب نظر آتا نہیں وہ مجمع اہل کمال کھا گئے ان کو زمین و آسمان لکھنؤ پہلے تھا اہل زباں کا دور اب گردش میں ہیں چاہئے تھی تیغ اردو کو فسان لکھنؤ مرثیہ گو کتنے یکتائے زمانہ تھے یہاں کوئی تو اتنوں میں ہوتا نوحہ خوان لکھنؤ یہ غبار ناتواں خاکستر پروانہ ہے خاندان اپنا تھا شمع دودمان لکھنؤ چلتا تھا جب گھٹنیوں اپنے یہاں طفل رضیع سجدہ کرتے تھے اسے گردن کشان لکھنؤ عہد پیرانہ سری میں کیوں نہ شیریں ہو سخن بچپنے میں میں نے چوسی ہے زبان لکھنؤ گلشن فردوس پر کیا ناز ہے رضواں تجھے پوچھ اس کے دل سے جو ہے رتبہ دان لکھنؤ بوئے انس آتی ہے حیدرؔ خاک مٹیا برج سے جمع ہیں اک جا وطن آوارگان لکھنؤ " udaa-kar-kaag-shiishe-se-mai-e-gul-guun-nikaltii-hai-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," اڑا کر کاگ شیشہ سے مے گلگوں نکلتی ہے شرابی جمع ہیں مے خانہ میں ٹوپی اچھلتی ہے بہار مے کشی آئی چمن کی رت بدلتی ہے گھٹا مستانہ اٹھتی ہے ہوا مستانہ چلتی ہے زخود رفتہ طبیعت کب سنبھالے سے سنبھلتی ہے نہ بن آتی ہے ناصح سے نہ کچھ واعظ کی چلتی ہے یہ کس کی ہے تمنا چٹکیاں لیتی ہے جو دل میں یہ کس کی آرزو ہے جو کلیجہ کو مسلتی ہے وہ دیوانہ ہے جو اس فصل میں فصدیں نہ کھلوائے رگ ہر شاخ گل سے خون کی ندی ابلتی ہے سحر ہوتے ہی دم نکلا غش آتے ہی اجل آئی کہاں ہوں میں نسیم صبح پنکھا کس کو جھلتی ہے تمتع ایک کا ہے ایک کے نقصاں سے عالم میں کہ سایہ پھیلتا جاتا ہے جوں جوں دھوپ ڈھلتی ہے بنا رکھی ہے غم پر زیست کی یہ ہو گیا ثابت نہ لپکا آہ کا چھوٹے گا جب تک سانس چلتی ہے قرار اک دم نہیں آتا ہے خون بے گنہ پی کر کہ اب تو خود بہ خود تلوار رہ رہ کر اگلتی ہے جہنم کی نہ آنچ آئے گی مے خواروں پہ او واعظ شراب آلودہ ہو جو شے وہ کب آتش میں جلتی ہے نہ دکھلانا الٰہی ایک آفت ہے شب فرقت نہ جو کاٹے سے کٹتی ہے نہ جو ٹالے سے ٹلتی ہے یہ اچھا شغل وحشت میں نکالا تو نے اے حیدرؔ گریباں میں الجھنے سے طبیعت تو بہلتی ہے " is-vaaste-adam-kii-manzil-ko-dhuundte-hain-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," اس واسطے عدم کی منزل کو ڈھونڈتے ہیں مدت سے دوستوں کی محفل کو ڈھونڈتے ہیں یہ دل کے پار ہو کر پھر دل کو ڈھونڈتے ہیں تیر نگاہ اس کے بسمل کو ڈھونڈتے ہیں اک لہر میں نہ تھے ہم کیوں اے حباب دیکھا یوں آنکھ بند کر کے ساحل کو ڈھونڈتے ہیں طرز کرم کی شاہد ہیں میوہ دار شاخیں اس طرح سر جھکا کر سائل کو ڈھونڈتے ہیں ہے وصل و ہجر اپنا اے قیس طرفہ مضموں محمل میں بیٹھے ہیں اور محمل کو ڈھونڈتے ہیں طول امل کا رستہ ممکن نہیں کہ طے ہو منزل پہ بھی پہنچ کر منزل کو ڈھونڈتے ہیں حسرت شباب کی ہے ایام شیب میں بھی معدوم کی ہوس ہے زائل کو ڈھونڈتے ہیں اٹھتے ہیں ولولے کچھ ہر بار درد بن کر کیا جانیے جگر کو یا دل کو ڈھونڈتے ہیں زخم جگر کا میرے ہے رشک دوستوں کو مرتا ہوں میں کہ یہ کیوں قاتل کو ڈھونڈتے ہیں اہل ہوس کی کشتی یک بام و دو ہوا ہے دریائے عشق میں بھی ساحل کو ڈھونڈتے ہیں آیا جو رحم مجھ پر اس میں بھی چال ہے کچھ سینہ پہ ہاتھ رکھ کر اب دل کو ڈھونڈتے ہیں کرتے ہیں کار فرہاد آساں زمین میں بھی مشکل پسند ہیں ہم مشکل کو ڈھونڈتے ہیں اے خضر پئے خجستہ بہر خدا کرم کر بھٹکے ہوئے مسافر منزل کو ڈھونڈتے ہیں دل خواہ تیرے عشوے دل جو ترے اشارے وہ دل ٹٹولتے ہیں یہ دل کو ڈھونڈتے ہیں اے نظمؔ کیا بتائیں حج و طواف اپنا کعبے میں بھی کسی کی محمل کو ڈھونڈتے ہیں " subha-hai-zunnaar-kyuun-kaisii-kahii-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," سبحہ ہے زنار کیوں کیسی کہی زاہد عیار کیوں کیسی کہی کٹ گئے اغیار کیوں کیسی کہی چھا گئی ہر بار کیوں کیسی کہی ہیں یہ سب اقرار جھوٹے یا نہیں کیجئے اقرار کیوں کیسی کہی روٹھنے سے آپ کا مطلب یہ ہے اس کو آئے پیار کیوں کیسی کہی کہہ دیا میں نے سحر ہے جھوٹ موٹ ہو گئے بیدار کیوں کیسی کہی ایک تو کہتے ہیں صدہا بھپتیاں اور پھر اصرار کیوں کیسی کہی ناصحا یہ بحث دیوانوں کے ساتھ عقل کی ہے مار کیوں کیسی کہی یا خفا تھے یا ذرا سی بات پر ہو گئی بوچھار کیوں کیسی کہی مجھ سے بیعت کر لے تو بھی واعظا ہاتھ لانا یار کیوں کیسی کہی سرمہ دے کر دل کے لینے کا ہے قصد آنکھ تو کر چار کیوں کیسی کہی جان دے دے چل کے در پر یار کے او دل بیمار کیوں کیسی کہی کیا ہی بگڑے ہو پتے کی بات پر ہو گئے بیزار کیوں کیسی کہی اب تو حیدرؔ اور ہی کچھ رنگ ہیں مانتا ہوں یار کیوں کیسی کہی " ehsaan-le-na-himmat-e-mardaana-chhod-kar-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," احسان لے نہ ہمت مردانہ چھوڑ کر رستہ بھی چل تو سبزۂ بیگانہ چھوڑ کر مرنے کے بعد پھر نہیں کوئی شریک حال جاتا ہے شمع کشتہ کو پروانہ چھوڑ کر ہونٹوں پہ آج تک ہیں شب عیش کے مزے ساقی کا لب لیا لب پیمانہ چھوڑ کر افعی نہیں کھلی ہوئی زلفوں کا عکس ہے جاتے کہاں ہو آئینہ و شانہ چھوڑ کر طول امل پہ دل نہ لگانا کہ اہل بزم جائیں گے ناتمام یہ افسانہ چھوڑ کر لبریز جام عمر ہوا آ گئی اجل لو اٹھ گئے بھرا ہوا پیمانہ چھوڑ کر اس پیر زال دہر کی ہم ٹھوکروں میں ہیں جب سے گئی ہے ہمت مردانہ چھوڑ کر پہروں ہمارا آپ میں آنا محال ہے کوسوں نکل گیا دل دیوانہ چھوڑ کر اترا جو شیشہ طاق سے زاہد کا ہے یہ حال کرتا ہے رقص سجدۂ شکرانہ چھوڑ کر یہ سمعۂ و ریا تو نشانی ہے کفر کی زنار باندھ سبحۂ صد دانہ چھوڑ کر رندان مے کدہ بھی ہیں اے خضر منتظر بستی میں آئیے کبھی ویرانہ چھوڑ کر احسان سر پہ لغزش مستانہ کا ہوا ہم دو قدم نہ جا سکے مے خانہ چھوڑ کر وادی بہت مہیب ہے بیم و امید کا دیکھیں گے شیر پر دل دیوانہ چھوڑ کر رو رو کے کر رہی ہے صراحی وداع اسے جاتا ہے دور دور جو پیمانہ چھوڑ کر توبہ تو کی ہے نظمؔ بنا ہوگی کس طرح کیوں کر جیو گے مشرب رندانہ چھوڑ کر " abas-hai-naaz-e-istignaa-pe-kal-kii-kyaa-khabar-kyaa-ho-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," عبث ہے ناز استغنا پہ کل کی کیا خبر کیا ہو خدا معلوم یہ سامان کیا ہو جائے سر کیا ہو یہ آہ بے اثر کیا ہو یہ نخل بے ثمر کیا ہو نہ ہو جب درد ہی یارب تو دل کیا ہو جگر کیا ہو جہاں انسان کھو جاتا ہو خود پھر اس کی محفل میں رسائی کس طرح ہو دخل کیوں کر ہو گزر کیا ہو نہ پوچھوں گا میں یہ بھی جام میں ہے زہر یا امرت تمہارے ہاتھ سے اندیشۂ نفع و ضرر کیا ہو مروت سے ہو بیگانہ وفا سے دور ہو کوسوں یہ سچ ہے نازنیں ہو خوب صورت ہو مگر کیا ہو شگوفے دیکھ کر مٹھی میں زر کو مسکراتے ہیں کہ جب عمر اس قدر کوتاہ رکھتے ہیں تو زر کیا ہو رہا کرتی ہے یہ حیرت مجھے زہد ریائی پر خدا سے جو نہیں ڈرتا اسے بندہ کا ڈر کیا ہو کہا میں نے کہ نظمؔ مبتلا مرتا ہے حسرت میں کہا اس نے اگر مر جائے تو میرا ضرر کیا ہو کہا میں نے کہ ہے سوز جگر اور اف نہیں کرتا کہا اس کی اجازت ہی نہیں پھر نوحہ گر کیا ہو کہا میں نے کہ دے اس کو اجازت آہ کرنے کی کہا اس نے بھڑک اٹھے اگر سوز جگر کیا ہو کہا میں نے کہ آنسو آنکھ کا لیکن نہیں تھمتا کہا آنکھیں کوئی تلووں سے مل ڈالے اگر کیا ہو کہا میں نے قدم بھر پر ہے وہ صورت دکھا آؤ کہا منہ پھیر کر اتنا کسی کو درد سر کیا ہو کہا میں نے اثر مطلق نہیں کیا سنگ دل ہے تو کہا جب دل ہو پتھر کا تو پتھر پر اثر کیا ہو کہا میں نے جو مر جائے تو کیا ہو سوچ تو دل میں کہا ناعاقبت اندیش نے کچھ سوچ کر کیا ہو کہا میں نے خبر بھی ہے کہ دی جاں اس نے گھٹ گھٹ کر کہا مر جائے چپکے سے تو پھر مجھ کو خبر کیا ہو " koii-mai-de-yaa-na-de-ham-rind-e-be-parvaa-hain-aap-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," کوئی مے دے یا نہ دے ہم رند بے پروا ہیں آپ ساقیا اپنی بغل میں شیشۂ صہبا ہیں آپ غافل و ہشیار وہ تمثال یک آئینہ ہیں ورطۂ حیرت میں ناداں آپ ہیں دانا ہیں آپ کیوں رہے میری دعا منت کش بال ملک نالۂ مستانہ میرے آسماں پیما ہیں آپ ہے تعجب خضر کو اور آب حیواں کی طلب اور پھر عزلت گزین دامن صحرا ہیں آپ منزل طول امل درپیش اور مہلت ہے کم راہ کس سے پوچھئے حیرت میں نقش پا ہیں آپ حق سے طالب دید کے ہوں ہم بصیر ایسے نہیں ہم کو جو کوتہ نظر سمجھیں وہ نا بینا ہیں آپ گل ہمہ تن زخم ہیں پھر بھی ہمہ تن گوش ہیں بے اثر کچھ نالہ ہائے بلبل شیدا ہیں آپ حرص سے شکوہ کروں کیا ہاتھ پھیلانے کا میں کہتی ہے وہ اپنے ہاتھوں خلق میں رسوا ہیں آپ ہم سے اے اہل تنعم منہ چھپانا چاہئے دم بھرا کرتے ہیں ہم اور آئنہ سیما ہیں آپ " pursish-jo-hogii-tujh-se-jallaad-kyaa-karegaa-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," پرسش جو ہوگی تجھ سے جلاد کیا کرے گا لے خون میں نے بخشا تو یاد کیا کرے گا ہوں دام میں پر افشاں اور سادگی سے حیراں کیوں تیز کی ہیں چھریاں صیاد کیا کرے گا ظالم یہ سوچ کر اب دیتا ہے بوسۂ لب جب ہونٹ سی دیئے پھر فریاد کیا کرے گا زنجیر تار داماں ہے طوق اک گریباں زور جنوں نہ کم ہو حداد کیا کرے گا ہم ڈوب کر مریں گے حسرت رہے گی تجھ کو جب خاک ہی نہ ہوگی برباد کیا کرے گا یعقوب قطع کر دیں امید وصل دل سے یوسف سا بندہ کوئی آزاد کیا کرے گا دل لے کے پوچھتا ہے تو کس کا شیفتہ ہے بھولا ابھی سے ظالم پھر یاد کیا کرے گا اے خط بیاض عارض درکار ہے جو تجھ کو تحریر حسن کی کچھ روداد کیا کرے گا کنج قفس سے اک دن ہوگی رہائی اپنی مر جائیں گے تو آخر صیاد کیا کرے گا مثل سپند دل ہے بیتاب سوز غم میں رہ جائے گا تڑپ کر فریاد کیا کرے گا اے شیخ بھر گیا ہے کیوں وعظ کی ہوا میں ریش سفید اپنی برباد کیا کرے گا ظلم و ستم سے بھی اب ظالم نے ہاتھ کھینچا اس سے ستم وہ بڑھ کر ایجاد کیا کرے گا ازبسکہ بے ہنر ہوں میں ننگ معترض ہوں مضموں پہ میرے کوئی ایراد کیا کرے گا اے نظمؔ جس کو چاہے وہ دے بہشت دوزخ نمرود کیا کرے گا شداد کیا کرے گا " kyaa-kaarvaan-e-hastii-guzraa-ravaa-ravii-men-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," کیا کاروان ہستی گزرا روا روی میں فردا کو میں نے دیکھا گرد و غبار دی میں تھے محو لالہ و گل کس کیف بے خودی میں زخم جگر کے ٹانکے ٹوٹے ہنسی ہنسی میں یاران بزم عشرت ڈھونڈوں کہاں میں تم کو تاروں کی چھاؤں میں یا پچھلے کی چاندنی میں ہر عقدہ میں جہاں کے پوشیدہ ہے کشاکش ہے موج خندۂ گل پنہاں کلی کلی میں زخموں میں خود چمک ہے اور اس پہ یہ ستم ہے رنگ پریدہ سے میں رہتا ہوں چاندنی میں ہم کس شمار میں تھے پرسش جو ہم سے ہوتی یہ امتیاز پایا آشوب آگہی میں حکم قضا ہو جیسا سرزد ہو فعل ویسا بندہ کا دخل بھی ہے پھر اس کہی بدی میں رفتار سایہ کو ہے پست و بلند یکساں ٹھوکر کبھی نہ کھائے راہ فروتنی میں وجد آ گیا فلک کو غش آ گیا زمیں کو دو طرح کے اثر تھے اک صوت سرمدی میں تعبیر اس کی شاید ایک واپسیں نفس ہو جو خواب دیکھتے تھے ہم ساری زندگی میں لائی حباب تک کو سیل فنا بہا کر اک آہ کھینچنے کو اک دم کی زندگی میں محشر کی آفتوں کا دھڑکا نہیں رہا اب سو حشر میں نے دیکھے دو دن کی زندگی میں پہلو میں تو ہو اے دل پھر حسرتیں ہزاروں کس بات کی کمی ہے تیری سلامتی میں پرسان حال وہ ہو اور سامنے بلا کر کیا جانیے زباں سے کیا نکلے بے خودی میں تو ایک ظل ہستی پھر کیسی خود پرستی سایہ کی پرورش ہے دامان بے خودی میں حائل بس اک نفس ہے محشر میں اور ہم میں پردہ حباب کا ہے فردا میں اور دی میں آنکھیں دکھا رہی ہے دن سے مجھے شب غم آثار تیرگی کے ہیں دن کی روشنی میں تو نے تو اپنے در سے مجھ کو اٹھا دیا ہے پرچھائیں پھر رہی ہے میری اسی گلی میں سجدہ کا حکم مجھ کو تو نے تو اب دیا ہے پہلے ہی لکھ چکا ہوں میں خط بندگی میں اے نظمؔ چھیڑ کر ہم تجھ کو ہوئے پشیماں کیا جانتے تھے ظالم رو دے گا دل لگی میں " ye-aah-e-be-asar-kyaa-ho-ye-nakhl-e-be-samar-kyaa-ho-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," یہ آہ بے اثر کیا ہو یہ نخل بے ثمر کیا ہو نہ ہو جب درد ہی یا رب تو دل کیا ہو جگر کیا ہو بغل گیر آرزو سے ہیں مرادیں آرزو مجھ سے یہاں اس وقت تو اک عید ہے تم جلوہ گر کیا ہو مقدر میں یہ لکھا ہے کٹے گی عمر مر مر کر ابھی سے مر گئے ہم دیکھیے اب عمر بھر کیا ہو مروت سے ہو بیگانہ وفا سے دور ہو کوسوں یہ سچ ہے نازنیں ہو خوبصورت ہو مگر کیا ہو لگا کر زخم میں ٹانکے قضا تیری نہ آ جائے جو وہ سفاک سن پائے بتا اے چارہ گر کیا ہو قیامت کے بکھیڑے پڑ گئے آتے ہی دنیا میں یہ مانا ہم نے مر جانا تو ممکن ہے مگر کیا ہو کہا میں نے کہ نظمؔ مبتلا مرتا ہے حسرت میں کہا اس نے اگر مر جائے تو میرا ضرر کیا ہو " ye-huaa-maaal-hubaab-kaa-jo-havaa-men-bhar-ke-ubhar-gayaa-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," یہ ہوا مآل حباب کا جو ہوا میں بھر کے ابھر گیا کہ صدا ہے لطمۂ موج کی سر پر غرور کدھر گیا مجھے جذب دل نے اے جز بہک کے رکھا قدم کوئی مجھے پر لگائے شوق نے کہیں تھک کے میں جو ٹھہر گیا مجھے پیری اور شباب میں جو ہے امتیاز تو اس قدر کوئی جھونکا باد سحر کا تھا مرے پاس سے جو گزر گیا اثر اس کے عشوۂ ناز کا جو ہوا وہ کس سے بیاں کروں مجھے تو اجل کی ہے آرزو اسے وہم ہے کہ یہ مر گیا تجھے اے خطیب چمن نہیں خبر اپنے خطبۂ شوق میں کہ کتاب گل کا ورق ورق تری بے خودی سے بکھر گیا کسے تو سناتا ہے ہم نشیں کہ ہے عشوۂ دشمن عقل و دیں ترے کہنے کا ہے مجھے یقیں میں ترے ڈرانے سے ڈر گیا کروں ذکر کیا میں شباب کا سنے کون قصہ یہ خواب کا یہ وہ رات تھی کہ گزر گئی یہ وہ نشہ تھا کہ اتر گیا دل ناتواں کو تکان ہو مجھے اس کی تاب نہ تھی ذرا غم انتظار سے بچ گیا تھا نوید وصل سے مر گیا مرے صبر و تاب کے سامنے نہ ہجوم خوف و رجا رہا وہ چمک کے برق رہ گئی وہ گرج کے ابر گزر گیا مجھے بحر غم سے عبور کی نہیں فکر اے مرے چارہ گر نہیں کوئی چارہ کار اب مرے سر سے آب گزر گیا مجھے راز عشق کے ضبط میں جو مزہ ملا ہے نہ پوچھیے مے انگبیں کا یہ گھونٹ تھا کہ گلے سے میرے اتر گیا نہیں اب جہان میں دوستی کبھی راستے میں جو مل گئے نہیں مطلب ایک کو ایک سے یہ ادھر چلا وہ ادھر گیا اگر آ کے غصہ نہیں رہا تو لگی تھی آگ کہ بجھ گئی جو حسد کا جوش فرو ہوا تو یہ زہر چڑھ کے اتر گیا تجھے نظمؔ وادئ شوق میں عبث احتیاط ہے اس قدر کہیں گرتے گرتے سنبھل گیا کہیں چلتے چلتے ٹھہر گیا " phirii-huii-mirii-aankhen-hain-teg-zan-kii-taraf-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," پھری ہوئی مری آنکھیں ہیں تیغ زن کی طرف چلا ہے چھوڑ کے بسمل مجھے ہرن کی طرف بنایا توڑ کے آئینہ آئینہ خانہ نہ دیکھی راہ جو خلوت سے انجمن کی طرف رہ وفا کو نہ چھوڑا وہ عندلیب ہوں میں چھٹا قفس سے تو پرواز کی چمن کی طرف گریز چاہئے طول امل سے سالک کو سنا ہے راہ یہ جاتی ہے راہزن کی طرف سرائے دہر میں سوؤ گے غافلو کب تک اٹھو تو کیا تمہیں جانا نہیں وطن کی طرف جو اہل دل ہیں الگ ہیں وہ اہل ظاہر سے نہ میں ہوں شیخ کی جانب نہ برہمن کی طرف جہان حادثہ آگین میں بشر کا ورود گزر حباب کا دریائے موجزن کی طرف اسی امید پہ ہم دن خزاں کے کاٹتے ہیں کبھی تو باد بہار آئے گی چمن کی طرف بچھڑ کے تجھ سے مجھے ہے امید ملنے کی سنا ہے روح کو آنا ہے پھر بدن کی طرف گواہ کون مرے قتل کا ہو محشر میں ابھی سے سارا زمانہ ہے تیغ زن کی طرف خبر دی اٹھ کے قیامت نے اس کے آنے کی خدا ہی خیر کرے رخ ہے انجمن کی طرف وہ اپنے رخ کی صباحت کو آپ دیکھتے ہیں جھکے ہوئے گل نرگس ہیں یاسمن کی طرف تمام بزم ہے کیا محو اس کی باتوں میں نظر دہن کی طرف کان ہے سخن کی طرف اسیر ہو گیا دل گیسوؤں میں خوب ہوا چلا تھا ڈوب کے مرنے چہ ذقن کی طرف یہ میکشوں کی ادا ابر تر بھی سیکھ گئے کنار جو سے جو اٹھے چلے چمن کی طرف زہے نصیب جو ہو کربلا کی موت اے نظمؔ کہ اڑ کے خاک شفا آئے خود کفن کی طرف " tanhaa-nahiin-huun-gar-dil-e-diivaana-saath-hai-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," تنہا نہیں ہوں گر دل دیوانہ ساتھ ہے وہ ہرزہ گرد ہوں کہ پری خانہ ساتھ ہے ہنگامہ اک پری کی سواری کا دیکھنا کیا دھوم ہے کہ سیکڑوں دیوانہ ساتھ ہے دل میں ہیں لاکھ طرح کے حیلے بھرے ہوئے پھر مشورہ کو آئینہ و شانہ ساتھ ہے روز سیہ میں ساتھ کوئی دے تو جانیے جب تک فروغ شمع ہے پروانہ ساتھ ہے دیتا نہیں ہے ساتھ تہی دست کا کوئی جب تک کہ مے ہے شیشہ میں پیمانہ ساتھ ہے سیکھا ہوں میکدہ میں طریق فروتنی جب تک کہ سر ہے سجدۂ شکرانہ ساتھ ہے جو بے بصر ہیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں دور دور اور ہر قدم پہ جلوۂ جانانہ ساتھ ہے کیا خوف ہو ہمیں زن دنیا کے مکر کا اپنی مدد کو ہمت مردانہ ساتھ ہے غم کی کتاب سے دل صد پارہ کم نہیں جس بزم میں گئے یہی افسانہ ساتھ ہے مانند گرد باد ہوں خانہ بدوش میں صحرا میں ہوں مگر مرا کاشانہ ساتھ ہے " aa-ke-mujh-tak-kashtii-e-mai-saaqiyaa-ultii-phirii-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," آ کے مجھ تک کشتیٔ مے ساقیا الٹی پھری آج کیا ندی بہی الٹی ہوا الٹی پھری آتے آتے لب پر آہ نارسا الٹی پھری وہ بھی میرا ہی دبانے کو گلا الٹی پھری مڑ کے دیکھا اس نے اور وار ابرووں کا چل گیا اک چھری سیدھی پھری اور اک ذرا الٹی پھری لا سکا نظارۂ رخسار روشن کی نہ تاب جا کے آئینہ پہ چہرہ کی ضیا الٹی پھری راست بازوں ہی کو پیسا آسماں نے رات دن وائے قسمت جب پھری یہ آسیا الٹی پھری جو بڑا بول ایک دن بولے تھے پیش آیا وہی گنبد گردوں سے ٹکرا کر صدا الٹی پھری رزق کھا کر غیر کی قسمت کا زنبور عسل تو نے دیکھا حلق تک جا کر غذا الٹی پھری تو ستائش گر ہے اس کا جو ہے تیرا مدح خواں یہ تو اے مشفق ضمیر مرحبا الٹی پھری جس پر آئی تھی طبیعت کی اسی نے کچھ نہ قدر جنس دل مانند جنس ناروا الٹی پھری یا تو کشی ڈوبتی تھی یا چلی ساحل سے دور وائے ناکامی پھری بھی تو ہوا الٹی پھری گرنے والا ہے کسی دشمن پہ کیا تیر شہاب آسماں تک جا کے کیوں آہ رسا الٹی پھری جی گیا میں اس کے آ جانے سے دشمن مر گیا دیکھ کر عیسیٰ کو بالیں پر قضا الٹی پھری مر گیا بے موت میں آخر اجل بھی دور ہے کوچۂ قاتل کا بتلا کر پتا الٹی پھری ہجر کی شب مجھ کو الٹی سانس لیتے دیکھ کر ایک ہی دم میں وہاں جا کر صبا الٹی پھری ہے مرا ویرانۂ غم نظمؔ ایسا ہولناک موج سیل آئی تو لے کر بوریا الٹی پھری " junuun-ke-valvale-jab-ghut-gae-dil-men-nihaan-ho-kar-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," جنوں کے ولولے جب گھٹ گئے دل میں نہاں ہو کر تو اٹھے ہیں دھواں ہو کر گرے ہیں بجلیاں ہو کر کچھ آگے بڑھ چلے سامان راحت لا مکاں ہو کر فلک پیچھے رہا جاتا ہے گرد کارواں ہو کر کسی دن تو چلے اے آسماں باد مراد ایسی کہ اتریں کشتئ مے پر گھٹائیں بادباں ہو کر نہ جانے کس بیاباں مرگ نے مٹی نہیں پائی بگولے جا رہے ہیں کارواں در کارواں ہو کر وفور ضبط سے بیتابیٔ دل بڑھ نہیں سکتی گلے تک آ کے رہ جاتے ہیں نالے ہچکیاں ہو کر گلو گیر اب تو ایسا انقلاب رنگ عالم ہے کہ نغمے نکلے منقار عنادل سے فغاں ہو کر جو ہو کر ابر سے مایوس خود سینچے کبھی دہقاں جلا دیں کھیت کو پانی کی لہریں بجلیاں ہو کر جہاں میں واشد خاطر کے ساماں ہو گئے لاشے جگہ راحت کی نا ممکن ہوئی ہے لا مکاں ہو کر ہنسے کوئی نہ بجلی کے سوا اس دار ماتم میں اگر رہ جائے سارا کھیت کشت زعفراں ہو کر الم میں آشیاں کے اس قدر تنکے چنے میں نے کہ آخر باعث تسکیں ہوے ہیں آشیاں ہو کر گھٹائیں گھر کے کیا کیا حسرت فرہاد پر روئیں چمن تک آ گئیں نہریں پہاڑوں سے رواں ہو کر دل شیدا نے پایا عشق میں معراج کا رتبہ یہاں اکثر بتوں کے ظلم ٹوٹے آسماں ہو کر جو ڈرتے ڈرتے دل سے ایک حرف شوق نکلا تھا وہ اس کے سامنے آیا زباں پر داستاں ہو کر نکل آئے ہیں ہر اقرار میں انکار کے پہلو بنا دیتی ہیں حیراں تیری باتیں مکر یاں ہو کر نزاکت کا یہ عالم پھول بھی توڑے تو بل کھا کر نہ جانے دل مرا کس طرح توڑا پہلواں ہو کر تدرو و کبک پر ہنس کر اٹھے خود لڑکھڑاتے ہیں سبک کرتے ہیں ان کو پائنچے بار گراں ہو کر گلا گھونٹا ہے ضبط غم نے کچھ ایسا کہ مشکل ہے کہ نکلے منہ سے آواز شکست دل فغاں ہو کر پتہ اندیشۂ سالک نے پایا منزل دل کا تو پلٹا لا مکاں سے آسماں در آسماں ہو کر ہوئی پھر دیکھیے آ بستن شادی و غم دنیا ابھی پیدا ہوئے تھے رنج و راحت تو اماں ہو کر جو نکلی ہوگی کوئی آرزو تو یہ بھی نکلے گا تمہارا تیر حسرت بن گیا دل میں نہاں ہو کر اتر جائے گا تو او آفتاب حسن کوٹھے سے گرے گا سایۂ دیوار ہم پر آسماں ہو کر " yuun-main-siidhaa-gayaa-vahshat-men-bayaabaan-kii-taraf-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," یوں میں سیدھا گیا وحشت میں بیاباں کی طرف ہاتھ جس طرح سے آتا ہے گریباں کی طرف بیٹھے بیٹھے دل غمگیں کو یہ کیا لہر آئی اٹھ کے طوفان چلا دیدۂ گریاں کی طرف دیکھنا لالۂ خود رو کا لہکنا ساقی کوہ سے دوڑ گئی آگ بیاباں کی طرف رو دیا دیکھ کے اکثر میں بہار شبنم ہنس دیا دیکھ کے اکثر گل خنداں کی طرف بات چھپتی نہیں پڑتی ہیں نگاہیں سب کی اس کے دامن کی طرف میرے گریباں کی طرف سیکڑوں داغ گنہ دھو گئے رحمت سے تری کیا گھٹا جھوم کے آئی تھی گلستاں کی طرف چشم آئینہ پریشاں نظری سیکھ گئی دیکھتا تھا یہ بہت زلف پریشاں کی طرف سر جھکائے ہوئے ہے نظمؔ بسان خامہ سمت سجدے کی ہے تیری خط فرماں کی طرف " yuun-to-na-tere-jism-men-hain-ziinhaar-haath-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," یوں تو نہ تیرے جسم میں ہیں زینہار ہاتھ دینے کے اے کریم مگر ہیں ہزار ہاتھ انگڑائیوں میں پھیلتے ہیں بار بار ہاتھ شیشہ کی سمت بڑھتے ہیں بے اختیار ہاتھ ڈوبے ہیں ترک سعی سے افسوس تو یہ ہے ساحل تھا ہاتھ بھر پہ لگاتے جو چار ہاتھ آتی ہے جب نسیم تو کہتی ہے موج بحر یوں آبرو سمیٹ اگر ہوں ہزار ہاتھ درپئے ہیں میرے قتل کے احباب اور میں خوش ہوں کہ میرے خون میں رنگتے ہیں یار ہاتھ دامن کشاں چلی ہے بدن سے نکل کے روح کھنچتے ہیں پھیلتے ہیں جو یوں بار بار ہاتھ مٹتا نہیں نوشتۂ قسمت کسی طرح پتھر سے سر کو پھوڑ کہ زانو پہ مار ہاتھ ساقی سنبھالنا کہ ہے لبریز جام مے لغزش ہے میرے پاؤں میں اور رعشہ دار ہاتھ مطرب سے پوچھ مسئلہ جبر و اختیار کیا تال سم پہ اٹھتے ہیں بے اختیار ہاتھ میں اور ہوں علائق دنیا کے دام میں میرا نہ ایک ہاتھ نہ اس کے ہزار ہاتھ اے نظمؔ وصل میں بھی رہا تو نہ چین سے دل کو ہوا قرار تو ہے بے قرار ہاتھ " is-mahiina-bhar-kahaan-thaa-saaqiyaa-achchhii-tarah-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," اس مہینہ بھر کہاں تھا ساقیا اچھی طرح آ ادھر آ عید تو مل لیں ذرا اچھی طرح انگلیاں کانوں میں رکھ کر اے مسافر سن ذرا آ رہی ہے صاف آواز درا اچھی طرح چشم موسیٰ لا سکی اک اس کے جلوہ کی نہ تاب چشم دل سے جس کو دیکھا بارہا اچھی طرح فاصلہ ایسا نہیں کچھ عرش کی زنجیر سے کیا کہوں بڑھتا نہیں دست دعا اچھی طرح اہل صورت کو نہیں ہے اچھی سیرت سے غرض اچھی صورت چاہئے اچھی ادا اچھی طرح شاہدان لالہ و گل کی خبر لائی ہے کچھ سال بھر کے بعد آئی اے صبا اچھی طرح سیکھ لے گی بل کی لینا تا کمر آنے تو دو بل ابھی کرتی نہیں زلف دوتا اچھی طرح شیشہ و جام و سبو بھر لے مئے گل رنگ سے آج ساقی گھر کے آئی ہے گھٹا اچھی طرح لیتے ہیں اہل جنوں کیا کیا تصور کے مزے آنکھ سے پریوں کو دیکھا بارہا اچھی طرح دے رہی ہے اس کی خاموشی صدائے دورباش یہ نہیں کہتا کہ نظمؔ مبتلا اچھی طرح " aa-gayaa-phir-ramazaan-kyaa-hogaa-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," آ گیا پھر رمضاں کیا ہوگا ہائے اے پیر مغاں کیا ہوگا باغ جنت میں سماں کیا ہوگا تو نہیں جب تو وہاں کیا ہوگا خوش وہ ہوتا ہے مرے نالوں سے اور انداز فغاں کیا ہوگا دور کی راہ ہے ساماں ہیں بڑے اتنی مہلت ہے کہاں کیا ہوگا دیکھ لو رنگ پریدہ کو مرے دل جلے گا تو دھواں کیا ہوگا ہوگا بس ایک نگہ میں جو تمام وہ بہ حسرت نگراں کیا ہوگا ہم نے مانا کہ ملا ملک جہاں نہ رہے ہم تو جہاں کیا ہوگا مر کے جب خاک میں ملنا ٹھہرا پھر یہ تربت کا نشاں کیا ہوگا جس طرح دل ہوا ٹکڑے از خود چاک اس طرح کتاں کیا ہوگا یا ترا ذکر ہے یا نام ترا اور پھر ورد زباں کیا ہوگا عشق سے باز نہ آنا حیدرؔ راز ہونے دے عیاں کیا ہوگا " kyaa-kahen-kis-se-pyaar-kar-baithe-syed-ali-haider-taba-tabai-ghazals," کیا کہیں کس سے پیار کر بیٹھے اپنے دل کو فگار کر بیٹھے صبر کی اک قبا جو باقی تھی اس کو بھی تار تار کر بیٹھے آج پھر ان کی آمد آمد ہے ہم خزاں کو بہار کر بیٹھے وائے اس بت کا وعدۂ فردا عمر بھر انتظار کر بیٹھے خود جو غم ہیں تو آئنہ حیراں کس غضب کا سنگھار کر بیٹھے ہم تہی دست تجھ کو کیا دیتے جان تجھ پر نثار کر بیٹھے " nadaamat-hai-banaa-kar-is-chaman-men-aashiyaan-mujh-ko-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," ندامت ہے بنا کر اس چمن میں آشیاں مجھ کو ملا ہمدم یہاں کوئی نہ کوئی ہم زباں مجھ کو دکھائے جا روانی توسن عمر رواں مجھ کو ہلال برق سے رکھ ہم رکاب و ہم عناں مجھ کو بنایا ناتوانی نے سلیمان زماں مجھ کو اڑا کر لے چلے موج نسیم بوستاں مجھ کو دم صبح ازل سے میں نوا سنجوں میں ہوں تیرے بتایا بلبل سدرہ نے انداز فغاں مجھ کو مری باتوں میں کیا معلوم کب سوئے وہ کب جاگے سرے سے اس لیے کہنی پڑی پھر داستاں مجھ کو بہا کر قافلہ سے دور جسم زار کو پھینکا کہ موج سیل تھی بانگ درائے کارواں مجھ کو یہ دل کی بے قراری خاک ہو کر بھی نہ جائے گی سناتی ہے لب ساحل سے یہ ریگ رواں مجھ کو اڑائی خاک جس صحرا میں تیرے واسطے میں نے تھکا ماندہ ملا ان منزلوں میں آسماں مجھ کو تصور شمع کا جس کو جلا دے ہوں وہ پروانہ لگ اٹھی آگ دل میں جب نظر آیا دھواں مجھ کو وہ جس عالم میں جا پہنچا وہاں میں کس طرح جاؤں ہوا دل آپ سے باہر پنہا کر بیڑیاں مجھ کو غبار راہ سے اے نظمؔ یہ آواز آتی ہے گئی اے عمر رفتہ تو کدھر پھینکا کہاں مجھ کو " kisii-se-bas-ki-umiid-e-kushuud-e-kaar-nahiin-nazm-tabaa-tabaaii-ghazals," کسی سے بس کہ امید کشود کار نہیں مجھے اجل کے بھی آنے کا اعتبار نہیں جواب نامہ کا قاصد مزار پر لایا کہ جانتا تھا اسے تاب انتظار نہیں یہ کہہ کے اٹھ گئی بالیں سے میری شمع سحر تمام ہو گئی شب اور تجھے قرار نہیں جو تو ہو پاس تو حور و قصور سب کچھ ہو جو تو نہیں تو نہیں بلکہ زینہار نہیں خزاں کے آنے سے پہلے ہی تھا مجھے معلوم کہ رنگ و بوئے چمن کا کچھ اعتبار نہیں غزل کہی ہے کہ موتی پروئے ہیں اے نظمؔ وہ کون شعر ہے جو در شاہوار نہیں " gavaahii-kaise-tuuttii-muaamla-khudaa-kaa-thaa-parveen-shakir-ghazals," گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا گلاب قیمت شگفت شام تک چکا سکے ادا وہ دھوپ کو ہوا جو قرض بھی صبا کا تھا بکھر گیا ہے پھول تو ہمیں سے پوچھ گچھ ہوئی حساب باغباں سے ہے کیا دھرا ہوا کا تھا لہو چشیدہ ہاتھ اس نے چوم کر دکھا دیا جزا وہاں ملی جہاں کہ مرحلہ سزا کا تھا جو بارشوں سے قبل اپنا رزق گھر میں بھر چکا وہ شہر مور سے نہ تھا پہ دوربیں بلا کا تھا " vo-ham-nahiin-jinhen-sahnaa-ye-jabr-aa-jaataa-parveen-shakir-ghazals," وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آ جاتا تری جدائی میں کس طرح صبر آ جاتا فصیلیں توڑ نہ دیتے جو اب کے اہل قفس تو اور طرح کا اعلان جبر آ جاتا وہ فاصلہ تھا دعا اور مستجابی میں کہ دھوپ مانگنے جاتے تو ابر آ جاتا وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا وزیر و شاہ بھی خس خانوں سے نکل آتے اگر گمان میں انگار قبر آ جاتا " apnii-tanhaaii-mire-naam-pe-aabaad-kare-parveen-shakir-ghazals," اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے کون ہوگا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے اتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگے وا قفس میں کوئی در خود مرا صیاد کرے سلب بینائی کے احکام ملے ہیں جو کبھی روشنی چھونے کی خواہش کوئی شب زاد کرے سوچ رکھنا بھی جرائم میں ہے شامل اب تو وہی معصوم ہے ہر بات پہ جو صاد کرے جب لہو بول پڑے اس کے گواہوں کے خلاف قاضئ شہر کچھ اس باب میں ارشاد کرے اس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجود میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے " vo-to-khush-buu-hai-havaaon-men-bikhar-jaaegaa-parveen-shakir-ghazals," وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے موسم گل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا " ik-hunar-thaa-kamaal-thaa-kyaa-thaa-parveen-shakir-ghazals," اک ہنر تھا کمال تھا کیا تھا مجھ میں تیرا جمال تھا کیا تھا تیرے جانے پہ اب کے کچھ نہ کہا دل میں ڈر تھا ملال تھا کیا تھا برق نے مجھ کو کر دیا روشن تیرا عکس جلال تھا کیا تھا ہم تک آیا تو بہر لطف و کرم تیرا وقت زوال تھا کیا تھا جس نے تہہ سے مجھے اچھال دیا ڈوبنے کا خیال تھا کیا تھا جس پہ دل سارے عہد بھول گیا بھولنے کا سوال تھا کیا تھا تتلیاں تھے ہم اور قضا کے پاس سرخ پھولوں کا جال تھا کیا تھا " vaqt-e-rukhsat-aa-gayaa-dil-phir-bhii-ghabraayaa-nahiin-parveen-shakir-ghazals," وقت رخصت آ گیا دل پھر بھی گھبرایا نہیں اس کو ہم کیا کھوئیں گے جس کو کبھی پایا نہیں زندگی جتنی بھی ہے اب مستقل صحرا میں ہے اور اس صحرا میں تیرا دور تک سایا نہیں میری قسمت میں فقط درد تہہ ساغر ہی ہے اول شب جام میری سمت وہ لایا نہیں تیری آنکھوں کا بھی کچھ ہلکا گلابی رنگ تھا ذہن نے میرے بھی اب کے دل کو سمجھایا نہیں کان بھی خالی ہیں میرے اور دونوں ہاتھ بھی اب کے فصل گل نے مجھ کو پھول پہنایا نہیں " chalne-kaa-hausla-nahiin-ruknaa-muhaal-kar-diyaa-parveen-shakir-ghazals," چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا " agarche-tujh-se-bahut-ikhtilaaf-bhii-na-huaa-parveen-shakir-ghazals," اگرچہ تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہوا مگر یہ دل تری جانب سے صاف بھی نہ ہوا تعلقات کے برزخ میں ہی رکھا مجھ کو وہ میرے حق میں نہ تھا اور خلاف بھی نہ ہوا عجب تھا جرم محبت کہ جس پہ دل نے مرے سزا بھی پائی نہیں اور معاف بھی نہ ہوا ملامتوں میں کہاں سانس لے سکیں گے وہ لوگ کہ جن سے کوئے جفا کا طواف بھی نہ ہوا عجب نہیں ہے کہ دل پر جمی ملی کائی بہت دنوں سے تو یہ حوض صاف بھی نہ ہوا ہوائے دہر ہمیں کس لیے بجھاتی ہے ہمیں تو تجھ سے کبھی اختلاف بھی نہ ہوا " taraash-kar-mire-baazuu-udaan-chhod-gayaa-parveen-shakir-ghazals," تراش کر مرے بازو اڑان چھوڑ گیا ہوا کے پاس برہنہ کمان چھوڑ گیا رفاقتوں کا مری اس کو دھیان کتنا تھا زمین لے لی مگر آسمان چھوڑ گیا عجیب شخص تھا بارش کا رنگ دیکھ کے بھی کھلے دریچے پہ اک پھول دان چھوڑ گیا جو بادلوں سے بھی مجھ کو چھپائے رکھتا تھا بڑھی ہے دھوپ تو بے سائبان چھوڑ گیا نکل گیا کہیں ان دیکھے پانیوں کی طرف زمیں کے نام کھلا بادبان چھوڑ گیا عقاب کو تھی غرض فاختہ پکڑنے سے جو گر گئی تو یوں ہی نیم جان چھوڑ گیا نہ جانے کون سا آسیب دل میں بستا ہے کہ جو بھی ٹھہرا وہ آخر مکان چھوڑ گیا عقب میں گہرا سمندر ہے سامنے جنگل کس انتہا پہ مرا مہربان چھوڑ گیا " kyaa-kare-merii-masiihaaii-bhii-karne-vaalaa-parveen-shakir-ghazals-3," کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا زندگی سے کسی سمجھوتے کے با وصف اب تک یاد آتا ہے کوئی مارنے مرنے والا اس کو بھی ہم ترے کوچے میں گزار آئے ہیں زندگی میں وہ جو لمحہ تھا سنورنے والا اس کا انداز سخن سب سے جدا تھا شاید بات لگتی ہوئی لہجہ وہ مکرنے والا شام ہونے کو ہے اور آنکھ میں اک خواب نہیں کوئی اس گھر میں نہیں روشنی کرنے والا دسترس میں ہیں عناصر کے ارادے کس کے سو بکھر کے ہی رہا کوئی بکھرنے والا اسی امید پہ ہر شام بجھائے ہیں چراغ ایک تارا ہے سر بام ابھرنے والا " kuu-ba-kuu-phail-gaii-baat-shanaasaaii-kii-parveen-shakir-ghazals," کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی " harf-e-taaza-naii-khushbuu-men-likhaa-chaahtaa-hai-parveen-shakir-ghazals," حرف تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے باب اک اور محبت کا کھلا چاہتا ہے ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اس کی اور یہ دل کہ اسے حد سے سوا چاہتا ہے اک حجاب تہہ اقرار ہے مانع ورنہ گل کو معلوم ہے کیا دست صبا چاہتا ہے ریت ہی ریت ہے اس دل میں مسافر میرے اور یہ صحرا ترا نقش کف پا چاہتا ہے یہی خاموشی کئی رنگ میں ظاہر ہوگی اور کچھ روز کہ وہ شوخ کھلا چاہتا ہے رات کو مان لیا دل نے مقدر لیکن رات کے ہاتھ پہ اب کوئی دیا چاہتا ہے تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے " baarish-huii-to-phuulon-ke-tan-chaak-ho-gae-parveen-shakir-ghazals," بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہو گئے موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہو گئے بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس سورج کی شہ پہ تنکے بھی بے باک ہو گئے بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب دریا کے رخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے سورج دماغ لوگ بھی ابلاغ فکر میں زلف شب فراق کے پیچاک ہو گئے جب بھی غریب شہر سے کچھ گفتگو ہوئی لہجے ہوائے شام کے نمناک ہو گئے " bahut-royaa-vo-ham-ko-yaad-kar-ke-parveen-shakir-ghazals," بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے ہماری زندگی برباد کر کے پلٹ کر پھر یہیں آ جائیں گے ہم وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کر کے رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے مگر ہاں منت صیاد کر کے بدن میرا چھوا تھا اس نے لیکن گیا ہے روح کو آباد کر کے ہر آمر طول دینا چاہتا ہے مقرر ظلم کی میعاد کر کے " gulaab-haath-men-ho-aankh-men-sitaara-ho-parveen-shakir-ghazals," گلاب ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو کوئی وجود محبت کا استعارہ ہو میں گہرے پانی کی اس رو کے ساتھ بہتی رہوں جزیرہ ہو کہ مقابل کوئی کنارہ ہو کبھی کبھار اسے دیکھ لیں کہیں مل لیں یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے محبتوں میں جو احسان ہو تمہارا ہو یہ اتنی رات گئے کون دستکیں دے گا کہیں ہوا کا ہی اس نے نہ روپ دھارا ہو افق تو کیا ہے در کہکشاں بھی چھو آئیں مسافروں کو اگر چاند کا اشارا ہو میں اپنے حصے کے سکھ جس کے نام کر ڈالوں کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو اگر وجود میں آہنگ ہے تو وصل بھی ہے وہ چاہے نظم کا ٹکڑا کہ نثر پارہ ہو " chaarasaazon-kii-aziyyat-nahiin-dekhii-jaatii-parveen-shakir-ghazals," چارہ سازوں کی اذیت نہیں دیکھی جاتی تیرے بیمار کی حالت نہیں دیکھی جاتی دینے والے کی مشیت پہ ہے سب کچھ موقوف مانگنے والے کی حاجت نہیں دیکھی جاتی دن بہل جاتا ہے لیکن ترے دیوانوں کی شام ہوتی ہے تو وحشت نہیں دیکھی جاتی تمکنت سے تجھے رخصت تو کیا ہے لیکن ہم سے ان آنکھوں کی حسرت نہیں دیکھی جاتی کون اترا ہے یہ آفاق کی پہنائی میں آئنہ خانے کی حیرت نہیں دیکھی جاتی " kuchh-to-havaa-bhii-sard-thii-kuchh-thaa-tiraa-khayaal-bhii-parveen-shakir-ghazals," کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی دل تو چمک سکے گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لیں شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا اب جو پلٹ کے دیکھیے بات تھی کچھ محال بھی میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی اس کی سخن طرازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی گاہ قریب شاہ رگ گاہ بعید وہم و خواب اس کی رفاقتوں میں رات ہجر بھی تھا وصال بھی اس کے ہی بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا موج ہوائے کوئے یار کچھ تو مرا خیال بھی " paa-ba-gil-sab-hain-rihaaii-kii-kare-tadbiir-kaun-parveen-shakir-ghazals," پا بہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون دست بستہ شہر میں کھولے مری زنجیر کون میرا سر حاضر ہے لیکن میرا منصف دیکھ لے کر رہا ہے میری فرد جرم کو تحریر کون آج دروازوں پہ دستک جانی پہچانی سی ہے آج میرے نام لاتا ہے مری تعزیر کون کوئی مقتل کو گیا تھا مدتوں پہلے مگر ہے در خیمہ پہ اب تک صورت تصویر کون میری چادر تو چھنی تھی شام کی تنہائی میں بے ردائی کو مری پھر دے گیا تشہیر کون سچ جہاں پابستہ ملزم کے کٹہرے میں ملے اس عدالت میں سنے گا عدل کی تفسیر کون نیند جب خوابوں سے پیاری ہو تو ایسے عہد میں خواب دیکھے کون اور خوابوں کو دے تعبیر کون ریت ابھی پچھلے مکانوں کی نہ واپس آئی تھی پھر لب ساحل گھروندا کر گیا تعمیر کون سارے رشتے ہجرتوں میں ساتھ دیتے ہیں تو پھر شہر سے جاتے ہوئے ہوتا ہے دامن گیر کون دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون " shab-vahii-lekin-sitaara-aur-hai-parveen-shakir-ghazals," شب وہی لیکن ستارہ اور ہے اب سفر کا استعارہ اور ہے ایک مٹھی ریت میں کیسے رہے اس سمندر کا کنارہ اور ہے موج کے مڑنے میں کتنی دیر ہے ناؤ ڈالی اور دھارا اور ہے جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور تھا تیر سینے میں اتارا اور ہے متن میں تو جرم ثابت ہے مگر حاشیہ سارے کا سارا اور ہے ساتھ تو میرا زمیں دیتی مگر آسماں کا ہی اشارہ اور ہے دھوپ میں دیوار ہی کام آئے گی تیز بارش کا سہارا اور ہے ہارنے میں اک انا کی بات تھی جیت جانے میں خسارا اور ہے سکھ کے موسم انگلیوں پر گن لیے فصل غم کا گوشوارہ اور ہے دیر سے پلکیں نہیں جھپکیں مری پیش جاں اب کے نظارہ اور ہے اور کچھ پل اس کا رستہ دیکھ لوں آسماں پر ایک تارہ اور ہے حد چراغوں کی یہاں سے ختم ہے آج سے رستہ ہمارا اور ہے " charaag-e-raah-bujhaa-kyaa-ki-rahnumaa-bhii-gayaa-parveen-shakir-ghazals," چراغ راہ بجھا کیا کہ رہنما بھی گیا ہوا کے ساتھ مسافر کا نقش پا بھی گیا میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا بہت عزیز سہی اس کو میری دل داری مگر یہ ہے کہ کبھی دل مرا دکھا بھی گیا اب ان دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں وہ تانک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا سب آئے میری عیادت کو وہ بھی آیا تھا جو سب گئے تو مرا درد آشنا بھی گیا یہ غربتیں مری آنکھوں میں کیسی اتری ہیں کہ خواب بھی مرے رخصت ہیں رتجگا بھی گیا " bakht-se-koii-shikaayat-hai-na-aflaak-se-hai-parveen-shakir-ghazals," بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے وہ رویہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے بزم انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے اور مری ساری فضیلت اسی پوشاک سے ہے اتنی روشن ہے تری صبح کہ ہوتا ہے گماں یہ اجالا تو کسی دیدۂ نمناک سے ہے ہاتھ تو کاٹ دیے کوزہ گروں کے ہم نے معجزے کی وہی امید مگر چاک سے ہے " rasta-bhii-kathin-dhuup-men-shiddat-bhii-bahut-thii-parveen-shakir-ghazals," رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے زخمی تھا بہت پاؤں مسافت بھی بہت تھی سب دوست مرے منتظر پردۂ شب تھے دن میں تو سفر کرنے میں دقت بھی بہت تھی بارش کی دعاؤں میں نمی آنکھ کی مل جائے جذبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی بہت تھی کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی پھولوں کا بکھرنا تو مقدر ہی تھا لیکن کچھ اس میں ہواؤں کی سیاست بھی بہت تھی وہ بھی سر مقتل ہے کہ سچ جس کا تھا شاہد اور واقف احوال عدالت بھی بہت تھی اس ترک رفاقت پہ پریشاں تو ہوں لیکن اب تک کے ترے ساتھ پہ حیرت بھی بہت تھی خوش آئے تجھے شہر منافق کی امیری ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی " bajaa-ki-aankh-men-niindon-ke-silsile-bhii-nahiin-parveen-shakir-ghazals," بجا کہ آنکھ میں نیندوں کے سلسلے بھی نہیں شکست خواب کے اب مجھ میں حوصلے بھی نہیں نہیں نہیں یہ خبر دشمنوں نے دی ہوگی وہ آئے آ کے چلے بھی گئے ملے بھی نہیں یہ کون لوگ اندھیروں کی بات کرتے ہیں ابھی تو چاند تری یاد کے ڈھلے بھی نہیں ابھی سے میرے رفوگر کے ہاتھ تھکنے لگے ابھی تو چاک مرے زخم کے سلے بھی نہیں خفا اگرچہ ہمیشہ ہوئے مگر اب کے وہ برہمی ہے کہ ہم سے انہیں گلے بھی نہیں " dhanak-dhanak-mirii-poron-ke-khvaab-kar-degaa-parveen-shakir-ghazals," دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہوا کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں بدن کو ناؤ لہو کو چناب کر دے گا میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا انا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے وہ اٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا سکوت شہر سخن میں وہ پھول سا لہجہ سماعتوں کی فضا خواب خواب کر دے گا اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی تمہاری یاد کے نام انتساب کر دے گا " ab-itnii-saadgii-laaen-kahaan-se-parveen-shakir-ghazals," اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے زمیں کی خیر مانگیں آسماں سے اگر چاہیں تو وہ دیوار کر دیں ہمیں اب کچھ نہیں کہنا زباں سے ستارہ ہی نہیں جب ساتھ دیتا تو کشتی کام لے کیا بادباں سے بھٹکنے سے ملے فرصت تو پوچھیں پتا منزل کا میر کارواں سے توجہ برق کی حاصل رہی ہے سو ہے آزاد فکر آشیاں سے ہوا کو رازداں ہم نے بنایا اور اب ناراض خوشبو کے بیاں سے ضروری ہو گئی ہے دل کی زینت مکیں پہچانے جاتے ہیں مکاں سے فنا فی العشق ہونا چاہتے تھے مگر فرصت نہ تھی کار جہاں سے وگرنہ فصل گل کی قدر کیا تھی بڑی حکمت ہے وابستہ خزاں سے کسی نے بات کی تھی ہنس کے شاید زمانے بھر سے ہیں ہم خود گماں سے میں اک اک تیر پہ خود ڈھال بنتی اگر ہوتا وہ دشمن کی کماں سے جو سبزہ دیکھ کر خیمے لگائیں انہیں تکلیف کیوں پہنچے خزاں سے جو اپنے پیڑ جلتے چھوڑ جائیں انہیں کیا حق کہ روٹھیں باغباں سے " aks-e-khushbuu-huun-bikharne-se-na-roke-koii-parveen-shakir-ghazals," عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں میرے چہرے پہ ترا نام نہ پڑھ لے کوئی جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی میں تو اس دن سے ہراساں ہوں کہ جب حکم ملے خشک پھولوں کو کتابوں میں نہ رکھے کوئی اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی کوئی آہٹ کوئی آواز کوئی چاپ نہیں دل کی گلیاں بڑی سنسان ہیں آئے کوئی " dasne-lage-hain-khvaab-magar-kis-se-boliye-parveen-shakir-ghazals," ڈسنے لگے ہیں خواب مگر کس سے بولئے میں جانتی تھی پال رہی ہوں سنپولیے بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لیے پلکوں پہ کچی نیندوں کا رس پھیلتا ہو جب ایسے میں آنکھ دھوپ کے رخ کیسے کھولیے تیری برہنہ پائی کے دکھ بانٹتے ہوئے ہم نے خود اپنے پاؤں میں کانٹے چبھو لیے میں تیرا نام لے کے تذبذب میں پڑ گئی سب لوگ اپنے اپنے عزیزوں کو رو لیے خوش بو کہیں نہ جائے پہ اصرار ہے بہت اور یہ بھی آرزو کہ ذرا زلف کھولیے تصویر جب نئی ہے نیا کینوس بھی ہے پھر طشتری میں رنگ پرانے نہ گھولیے " ek-suuraj-thaa-ki-taaron-ke-gharaane-se-uthaa-parveen-shakir-ghazals," ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا کس سے پوچھوں ترے آقا کا پتہ اے رہوار یہ علم وہ ہے نہ اب تک کسی شانے سے اٹھا حلقۂ خواب کو ہی گرد گلو کس ڈالا دست قاتل کا بھی احساں نہ دوانے سے اٹھا پھر کوئی عکس شعاعوں سے نہ بننے پایا کیسا مہتاب مرے آئنہ خانے سے اٹھا کیا لکھا تھا سر محضر جسے پہچانتے ہی پاس بیٹھا ہوا ہر دوست بہانے سے اٹھا " kamaal-e-zabt-ko-khud-bhii-to-aazmaauungii-parveen-shakir-ghazals," کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا میں دل میں روؤں گی آنکھوں میں مسکراؤں گی وہ کیا گیا کہ رفاقت کے سارے لطف گئے میں کس سے روٹھ سکوں گی کسے مناؤں گی اب اس کا فن تو کسی اور سے ہوا منسوب میں کس کی نظم اکیلے میں گنگناؤں گی وہ ایک رشتۂ بے نام بھی نہیں لیکن میں اب بھی اس کے اشاروں پہ سر جھکاؤں گی بچھا دیا تھا گلابوں کے ساتھ اپنا وجود وہ سو کے اٹھے تو خوابوں کی راکھ اٹھاؤں گی سماعتوں میں گھنے جنگلوں کی سانسیں ہیں میں اب کبھی تری آواز سن نہ پاؤں گی جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محبت کا وہ کہہ رہا تھا کہ میں اس کو بھول جاؤں گی " qadmon-men-bhii-takaan-thii-ghar-bhii-qariib-thaa-parveen-shakir-ghazals," قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا پر کیا کریں کہ اب کے سفر ہی عجیب تھا نکلے اگر تو چاند دریچے میں رک بھی جائے اس شہر بے چراغ میں کس کا نصیب تھا آندھی نے ان رتوں کو بھی بے کار کر دیا جن کا کبھی ہما سا پرندہ نصیب تھا کچھ اپنے آپ سے ہی اسے کشمکش نہ تھی مجھ میں بھی کوئی شخص اسی کا رقیب تھا پوچھا کسی نے مول تو حیران رہ گیا اپنی نگاہ میں کوئی کتنا غریب تھا مقتل سے آنے والی ہوا کو بھی کب ملا ایسا کوئی دریچہ کہ جو بے صلیب تھا " kuchh-faisla-to-ho-ki-kidhar-jaanaa-chaahiye-parveen-shakir-ghazals," کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہیے پانی کو اب تو سر سے گزر جانا چاہیے نشتر بدست شہر سے چارہ گری کی لو اے زخم بے کسی تجھے بھر جانا چاہیے ہر بار ایڑیوں پہ گرا ہے مرا لہو مقتل میں اب بہ طرز دگر جانا چاہیے کیا چل سکیں گے جن کا فقط مسئلہ یہ ہے جانے سے پہلے رخت سفر جانا چاہیے سارا جوار بھاٹا مرے دل میں ہے مگر الزام یہ بھی چاند کے سر جانا چاہیے جب بھی گئے عذاب در و بام تھا وہی آخر کو کتنی دیر سے گھر جانا چاہیے تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے " khulii-aankhon-men-sapnaa-jhaanktaa-hai-parveen-shakir-ghazals," کھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے وہ سویا ہے کہ کچھ کچھ جاگتا ہے تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں مرا تن مور بن کر ناچتا ہے مجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے وہ میرے سب حوالے جانتا ہے میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ مجھے میری رضا سے مانگتا ہے کسی کے دھیان میں ڈوبا ہوا دل بہانے سے مجھے بھی ٹالتا ہے سڑک کو چھوڑ کر چلنا پڑے گا کہ میرے گھر کا کچا راستہ ہے " justujuu-khoe-huon-kii-umr-bhar-karte-rahe-parveen-shakir-ghazals," جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے چاند کے ہم راہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے راستوں کا علم تھا ہم کو نہ سمتوں کی خبر شہر نامعلوم کی چاہت مگر کرتے رہے ہم نے خود سے بھی چھپایا اور سارے شہر کو تیرے جانے کی خبر دیوار و در کرتے رہے وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے آج آیا ہے ہمیں بھی ان اڑانوں کا خیال جن کو تیرے زعم میں بے بال و پر کرتے رہے " gae-mausam-men-jo-khilte-the-gulaabon-kii-tarah-parveen-shakir-ghazals," گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے جل چکے ہیں مرے خیمے مرے خوابوں کی طرح ساعت دید کہ عارض ہیں گلابی اب تک اولیں لمحوں کے گلنار حجابوں کی طرح وہ سمندر ہے تو پھر روح کو شاداب کرے تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن شیلف میں رکھی ہوئی بند کتابوں کی طرح کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک گاہے گاہے ترے دلچسپ جوابوں کی طرح ہجر کی شب مری تنہائی پہ دستک دے گی تیری خوش بو مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح " ab-bhalaa-chhod-ke-ghar-kyaa-karte-parveen-shakir-ghazals," اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے شام کے وقت سفر کیا کرتے تیری مصروفیتیں جانتے ہیں اپنے آنے کی خبر کیا کرتے جب ستارے ہی نہیں مل پائے لے کے ہم شمس و قمر کیا کرتے وہ مسافر ہی کھلی دھوپ کا تھا سائے پھیلا کے شجر کیا کرتے خاک ہی اول و آخر ٹھہری کر کے ذرے کو گہر کیا کرتے رائے پہلے سے بنا لی تو نے دل میں اب ہم ترے گھر کیا کرتے عشق نے سارے سلیقے بخشے حسن سے کسب ہنر کیا کرتے " tuutii-hai-merii-niind-magar-tum-ko-is-se-kyaa-parveen-shakir-ghazals," ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا بجتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا تم موج موج مثل صبا گھومتے رہو کٹ جائیں میری سوچ کے پر تم کو اس سے کیا اوروں کا ہاتھ تھامو انہیں راستہ دکھاؤ میں بھول جاؤں اپنا ہی گھر تم کو اس سے کیا ابر گریز پا کو برسنے سے کیا غرض سیپی میں بن نہ پائے گہر تم کو اس سے کیا لے جائیں مجھ کو مال غنیمت کے ساتھ عدو تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے تنہا کٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا " terii-khushbuu-kaa-pataa-kartii-hai-parveen-shakir-ghazals," تیری خوشبو کا پتا کرتی ہے مجھ پہ احسان ہوا کرتی ہے چوم کر پھول کو آہستہ سے معجزہ باد صبا کرتی ہے کھول کر بند قبا گل کے ہوا آج خوشبو کو رہا کرتی ہے ابر برستے تو عنایت اس کی شاخ تو صرف دعا کرتی ہے زندگی پھر سے فضا میں روشن مشعل برگ حنا کرتی ہے ہم نے دیکھی ہے وہ اجلی ساعت رات جب شعر کہا کرتی ہے شب کی تنہائی میں اب تو اکثر گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے دل کو اس راہ پہ چلنا ہی نہیں جو مجھے تجھ سے جدا کرتی ہے زندگی میری تھی لیکن اب تو تیرے کہنے میں رہا کرتی ہے اس نے دیکھا ہی نہیں ورنہ یہ آنکھ دل کا احوال کہا کرتی ہے مصحف دل پہ عجب رنگوں میں ایک تصویر بنا کرتی ہے بے نیاز کف دریا انگشت ریت پر نام لکھا کرتی ہے دیکھ تو آن کے چہرہ میرا اک نظر بھی تری کیا کرتی ہے زندگی بھر کی یہ تاخیر اپنی رنج ملنے کا سوا کرتی ہے شام پڑتے ہی کسی شخص کی یاد کوچۂ جاں میں صدا کرتی ہے مسئلہ جب بھی چراغوں کا اٹھا فیصلہ صرف ہوا کرتی ہے مجھ سے بھی اس کا ہے ویسا ہی سلوک حال جو تیرا انا کرتی ہے دکھ ہوا کرتا ہے کچھ اور بیاں بات کچھ اور ہوا کرتی ہے " duaa-kaa-tuutaa-huaa-harf-sard-aah-men-hai-parveen-shakir-ghazals," دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے تری جدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے ترے بدلنے کے با وصف تجھ کو چاہا ہے یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے عذاب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا میں مطمئن ہوں مرا دل تری پناہ میں ہے بکھر چکا ہے مگر مسکرا کے ملتا ہے وہ رکھ رکھاؤ ابھی میرے کج کلاہ میں ہے جسے بہار کے مہمان خالی چھوڑ گئے وہ اک مکان ابھی تک مکیں کی چاہ میں ہے یہی وہ دن تھے جب اک دوسرے کو پایا تھا ہماری سال گرہ ٹھیک اب کے ماہ میں ہے میں بچ بھی جاؤں تو تنہائی مار ڈالے گی مرے قبیلے کا ہر فرد قتل گاہ میں ہے " teraa-ghar-aur-meraa-jangal-bhiigtaa-hai-saath-saath-parveen-shakir-ghazals," تیرا گھر اور میرا جنگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ ایسی برساتیں کہ بادل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ بچپنے کا ساتھ ہے پھر ایک سے دونوں کے دکھ رات کا اور میرا آنچل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ وہ عجب دنیا کہ سب خنجر بکف پھرتے ہیں اور کانچ کے پیالوں میں صندل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ بارش سنگ ملامت میں بھی وہ ہم راہ ہے میں بھی بھیگوں خود بھی پاگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے دکھ عجب ہوتے ہیں سکھ اس سے عجیب ہنس رہی ہیں اور کاجل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ بارشیں جاڑے کی اور تنہا بہت میرا کسان جسم اور اکلوتا کمبل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ " shauq-e-raqs-se-jab-tak-ungliyaan-nahiin-khultiin-parveen-shakir-ghazals," شوق رقص سے جب تک انگلیاں نہیں کھلتیں پاؤں سے ہواؤں کے بیڑیاں نہیں کھلتیں پیڑ کو دعا دے کر کٹ گئی بہاروں سے پھول اتنے بڑھ آئے کھڑکیاں نہیں کھلتیں پھول بن کے سیروں میں اور کون شامل تھا شوخی صبا سے تو بالیاں نہیں کھلتیں حسن کے سمجھنے کو عمر چاہئے جاناں دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں کوئی موجۂ شیریں چوم کر جگائے گی سورجوں کے نیزوں سے سیپیاں نہیں کھلتیں ماں سے کیا کہیں گی دکھ ہجر کا کہ خود پر بھی اتنی چھوٹی عمروں کی بچیاں نہیں کھلتیں شاخ شاخ سرگرداں کس کی جستجو میں ہیں کون سے سفر میں ہیں تتلیاں نہیں کھلتیں آدھی رات کی چپ میں کس کی چاپ ابھرتی ہے چھت پہ کون آتا ہے سیڑھیاں نہیں کھلتیں پانیوں کے چڑھنے تک حال کہہ سکیں اور پھر کیا قیامتیں گزریں بستیاں نہیں کھلتیں " ham-ne-hii-lautne-kaa-iraada-nahiin-kiyaa-parveen-shakir-ghazals," ہم نے ہی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا اس نے بھی بھول جانے کا وعدہ نہیں کیا دکھ اوڑھتے نہیں کبھی جشن طرب میں ہم ملبوس دل کو تن کا لبادہ نہیں کیا جو غم ملا ہے بوجھ اٹھایا ہے اس کا خود سر زیر بار ساغر و بادہ نہیں کیا کار جہاں ہمیں بھی بہت تھے سفر کی شام اس نے بھی التفات زیادہ نہیں کیا آمد پہ تیری عطر و چراغ و سبو نہ ہوں اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا " ashk-aankh-men-phir-atak-rahaa-hai-parveen-shakir-ghazals," اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے کنکر سا کوئی کھٹک رہا ہے میں اس کے خیال سے گریزاں وہ میری صدا جھٹک رہا ہے تحریر اسی کی ہے مگر دل خط پڑھتے ہوئے اٹک رہا ہے ہیں فون پہ کس کے ساتھ باتیں اور ذہن کہاں بھٹک رہا ہے صدیوں سے سفر میں ہے سمندر ساحل پہ تھکن ٹپک رہا ہے اک چاند صلیب شاخ گل پر بالی کی طرح لٹک رہا ہے " qaid-men-guzregii-jo-umr-bade-kaam-kii-thii-parveen-shakir-ghazals," قید میں گزرے گی جو عمر بڑے کام کی تھی پر میں کیا کرتی کہ زنجیر ترے نام کی تھی جس کے ماتھے پہ مرے بخت کا تارہ چمکا چاند کے ڈوبنے کی بات اسی شام کی تھی میں نے ہاتھوں کو ہی پتوار بنایا ورنہ ایک ٹوٹی ہوئی کشتی مرے کس کام کی تھی وہ کہانی کہ ابھی سوئیاں نکلیں بھی نہ تھیں فکر ہر شخص کو شہزادی کے انجام کی تھی یہ ہوا کیسے اڑا لے گئی آنچل میرا یوں ستانے کی تو عادت مرے گھنشیام کی تھی بوجھ اٹھاتے ہوئے پھرتی ہے ہمارا اب تک اے زمیں ماں تری یہ عمر تو آرام کی تھی " apnii-rusvaaii-tire-naam-kaa-charchaa-dekhuun-parveen-shakir-ghazals," اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں شام بھی ہو گئی دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری بھولنے والے میں کب تک ترا رستا دیکھوں ایک اک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں آج میں خود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں کاش صندل سے مری مانگ اجالے آ کر اتنے غیروں میں وہی ہاتھ جو اپنا دیکھوں تو مرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جان حیات جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکنا دیکھوں بند کر کے مری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے بوجھے جانے کا میں ہر روز تماشا دیکھوں سب ضدیں اس کی میں پوری کروں ہر بات سنوں ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکھوں پھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھل جائے پنکھڑی پنکھڑی ان ہونٹوں کا سایا دیکھوں میں نے جس لمحے کو پوجا ہے اسے بس اک بار خواب بن کر تری آنکھوں میں اترتا دیکھوں تو مری طرح سے یکتا ہے مگر میرے حبیب جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں ٹوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں " apnii-hii-sadaa-sunuun-kahaan-tak-parveen-shakir-ghazals," اپنی ہی صدا سنوں کہاں تک جنگل کی ہوا رہوں کہاں تک ہر بار ہوا نہ ہوگی در پر ہر بار مگر اٹھوں کہاں تک دم گھٹتا ہے گھر میں حبس وہ ہے خوشبو کے لئے رکوں کہاں تک پھر آ کے ہوائیں کھول دیں گی زخم اپنے رفو کروں کہاں تک ساحل پہ سمندروں سے بچ کر میں نام ترا لکھوں کہاں تک تنہائی کا ایک ایک لمحہ ہنگاموں سے قرض لوں کہاں تک گر لمس نہیں تو لفظ ہی بھیج میں تجھ سے جدا رہوں کہاں تک سکھ سے بھی تو دوستی کبھی ہو دکھ سے ہی گلے ملوں کہاں تک منسوب ہو ہر کرن کسی سے اپنے ہی لیے جلوں کہاں تک آنچل مرے بھر کے پھٹ رہے ہیں پھول اس کے لئے چنوں کہاں تک " mushkil-hai-ki-ab-shahr-men-nikle-koii-ghar-se-parveen-shakir-ghazals," مشکل ہے کہ اب شہر میں نکلے کوئی گھر سے دستار پہ بات آ گئی ہوتی ہوئی سر سے برسا بھی تو کس دشت کے بے فیض بدن پر اک عمر مرے کھیت تھے جس ابر کو ترسے کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے محنت مری آندھی سے تو منسوب نہیں تھی رہنا تھا کوئی ربط شجر کا بھی ثمر سے خود اپنے سے ملنے کا تو یارا نہ تھا مجھ میں میں بھیڑ میں گم ہو گئی تنہائی کے ڈر سے بے نام مسافت ہی مقدر ہے تو کیا غم منزل کا تعین کبھی ہوتا ہے سفر سے پتھرایا ہے دل یوں کہ کوئی اسم پڑھا جائے یہ شہر نکلتا نہیں جادو کے اثر سے نکلے ہیں تو رستے میں کہیں شام بھی ہوگی سورج بھی مگر آئے گا اس رہ گزر سے " baadbaan-khulne-se-pahle-kaa-ishaara-dekhnaa-parveen-shakir-ghazals," بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارہ دیکھنا یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اس سے مگر جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا کس شباہت کو لیے آیا ہے دروازے پہ چاند اے شب ہجراں ذرا اپنا ستارہ دیکھنا کیا قیامت ہے کہ جن کے نام پر پسپا ہوئے ان ہی لوگوں کو مقابل میں صف آرا دیکھنا جب بنام دل گواہی سر کی مانگی جائے گی خون میں ڈوبا ہوا پرچم ہمارا دیکھنا جیتنے میں بھی جہاں جی کا زیاں پہلے سے ہے ایسی بازی ہارنے میں کیا خسارہ دیکھنا آئنے کی آنکھ ہی کچھ کم نہ تھی میرے لیے جانے اب کیا کیا دکھائے گا تمہارا دیکھنا ایک مشت خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا " puuraa-dukh-aur-aadhaa-chaand-parveen-shakir-ghazals," پورا دکھ اور آدھا چاند ہجر کی شب اور ایسا چاند دن میں وحشت بہل گئی رات ہوئی اور نکلا چاند کس مقتل سے گزرا ہوگا اتنا سہما سہما چاند یادوں کی آباد گلی میں گھوم رہا ہے تنہا چاند میری کروٹ پر جاگ اٹھے نیند کا کتنا کچا چاند میرے منہ کو کس حیرت سے دیکھ رہا ہے بھولا چاند اتنے گھنے بادل کے پیچھے کتنا تنہا ہوگا چاند آنسو روکے نور نہائے دل دریا تن صحرا چاند اتنے روشن چہرے پر بھی سورج کا ہے سایا چاند جب پانی میں چہرہ دیکھا تو نے کس کو سوچا چاند برگد کی اک شاخ ہٹا کر جانے کس کو جھانکا چاند بادل کے ریشم جھولے میں بھور سمے تک سویا چاند رات کے شانے پر سر رکھے دیکھ رہا ہے سپنا چاند سوکھے پتوں کے جھرمٹ پر شبنم تھی یا ننھا چاند ہاتھ ہلا کر رخصت ہوگا اس کی صورت ہجر کا چاند صحرا صحرا بھٹک رہا ہے اپنے عشق میں سچا چاند رات کے شاید ایک بجے ہیں سوتا ہوگا میرا چاند " dil-kaa-kyaa-hai-vo-to-chaahegaa-musalsal-milnaa-parveen-shakir-ghazals," دل کا کیا ہے وہ تو چاہے گا مسلسل ملنا وہ ستم گر بھی مگر سوچے کسی پل ملنا واں نہیں وقت تو ہم بھی ہیں عدیم الفرصت اس سے کیا ملیے جو ہر روز کہے کل ملنا عشق کی رہ کے مسافر کا مقدر معلوم شہر کی سوچ میں ہو اور اسے جنگل ملنا اس کا ملنا ہے عجب طرح کا ملنا جیسے دشت امید میں اندیشے کا بادل ملنا دامن شب کو اگر چاک بھی کر لیں تو کہاں نور میں ڈوبا ہوا صبح کا آنچل ملنا " bichhdaa-hai-jo-ik-baar-to-milte-nahiin-dekhaa-parveen-shakir-ghazals," بچھڑا ہے جو اک بار تو ملتے نہیں دیکھا اس زخم کو ہم نے کبھی سلتے نہیں دیکھا اک بار جسے چاٹ گئی دھوپ کی خواہش پھر شاخ پہ اس پھول کو کھلتے نہیں دیکھا یک لخت گرا ہے تو جڑیں تک نکل آئیں جس پیڑ کو آندھی میں بھی ہلتے نہیں دیکھا کانٹوں میں گھرے پھول کو چوم آئے گی لیکن تتلی کے پروں کو کبھی چھلتے نہیں دیکھا کس طرح مری روح ہری کر گیا آخر وہ زہر جسے جسم میں کھلتے نہیں دیکھا " dil-kaa-khoj-na-paayaa-hargiz-dekhaa-khol-jo-qabron-ko-naji-shakir-ghazals," دل کا کھوج نہ پایا ہرگز دیکھا کھول جو قبروں کو جیتے جی ڈھونڈے سو پاوے خبر کرو بے خبروں کو توشک بالا پوش رضائی ہے بھولے مجنوں برسوں تک جب دکھلاوے زلف سجن کی بن میں آوتے ابروں کو کافر نفس ہر ایک کا ترسا زر کوں پایا بختوں سیں آتش کی پوجا میں گزری عمر تمام ان گبروں کو مرد جو عاجز ہو تن من سیں کہے خوش آمد باور کر محتاجی کا خاصا ہے روباہ کرے ہے ببروں کو وعدا چوک پھر آیا ناجیؔ درس کی خاطر پھڑکے مت چھوٹ گلے تیرے اے ظالم صبر کہاں بے صبروں کو " zikr-har-subh-o-shaam-hai-teraa-naji-shakir-ghazals," ذکر ہر صبح و شام ہے تیرا ورد عاشق کوں نام ہے تیرا مت کر آزاد دام زلف سیں دل بال باندھا غلام ہے تیرا لشکر غم نے دل سیں کوچ کیا جب سے اس میں مقام ہے تیرا جام مے کا پلانا ہے بے رنگ شوق جن کوں مدام ہے تیرا آج ناجیؔ سے رم نہ کر اے شوخ دیکھ مدت سیں رام ہے تیرا " ye-daur-guzraa-kabhii-na-dekhiin-piyaa-kii-ankhiyaan-khumaar-matiyaan-naji-shakir-ghazals," یہ دور گزرا کبھی نہ دیکھیں پیا کی انکھیاں خمار متیاں کہے تھے مردم شرابی ان کوں نکل گئیں اپنی دے غلطیاں سوائے گل کے وہ شوخ انکھیاں کسی طرف کو نہیں ہیں راغب تو برگ نرگس اوپر بجا ہے لکھوں جو اپنے سجن کوں پتیاں صنم کی زلفاں کو ہجر میں اب گئے ہیں مجھ نین ہیں خواب راحت لگے ہے کانٹا نظر میں سونا کٹیں گی کیسے یہ کالی رتیاں جو شمع رو کے دو لب ہیں شیریں تو سبزۂ خط بجا ہے اس پر زمین پکڑی ہے طوطیوں نے سنیں جو میٹھی پیا کی بتیاں خیال کر کر بھٹک رہا ہوں نظر جو آئے تیور ہیں بانکے بناؤ بنتا نہیں ہے ناجیؔ جو اس سجن کو لگاؤں چھتیاں " lab-e-shiiriin-hai-misrii-yuusuf-e-saanii-hai-ye-ladkaa-naji-shakir-ghazals," لب شیریں ہے مصری یوسف ثانی ہے یہ لڑکا نہ چھوڑے گا میرا دل چاہ کنعانی ہے یہ لڑکا لیا بوسہ کسی نے اور گریباں گیر ہے میرا ڈوبایا چاہتا ہے سب کو طوفانی ہے یہ لڑکا سر اوپر لال چیرا اور دہن جوں غنچۂ رنگیں بہار مدعا لعل بدخشانی ہے یہ لڑکا قیامت ہے جھمک بازو کے تعویذ طلائی کی حصار حسن کوں قائم کیا بانی ہے یہ لڑکا ہوئے روپوش اس کا حسن دیکھ انجم کے جوں خوباں چمکتا ہے برنگ مہر نورانی ہے یہ لڑکا قیامت قامت اس کا جن نے دیکھا سو ہوا بسمل مگر سر تا قدم تیغ سلیمانی ہے یہ لڑکا میں اپنا جان و دل قرباں کروں اوس پر سیتی ناجیؔ جسے دیکھیں سیں ہوئے عید رمضانی ہے یہ لڑکا " ai-sabaa-kah-bahaar-kii-baaten-naji-shakir-ghazals," اے صبا کہہ بہار کی باتیں اس بت گل عذار کی باتیں کس پہ چھوڑے نگاہ کا شہباز کیا کرے ہے شکار کی باتیں مہربانی سیں یا ہوں غصے سیں پیاری لگتی ہیں یار کی باتیں چھوڑتے کب ہیں نقد دل کوں صنم جب یہ کرتے ہیں پیار کی باتیں پوچھیے کچھ کہیں ہیں کچھ ناجیؔ آ پڑیں روزگار کی باتیں " kamar-kii-baat-sunte-hain-ye-kuchh-paaii-nahiin-jaatii-naji-shakir-ghazals," کمر کی بات سنتے ہیں یہ کچھ پائی نہیں جاتی کہے ہیں بات ایسی خیال میں میرے نہیں آتی جو چاہو سیر دریا وقف ہے مجھ چشم کی کشتی ہر ایک موئے پلک میرا ہے گویا گھاٹ خیراتی برنگ اس کے نہیں محبوب دل رونے کو عاشق کے سعادت خاں ہے لڑکا وضع کر لیتا ہے برساتی جو کوئی اصلی ہے ٹھنڈا گرم یاقوتی میں کیونکر ہو نہ لاوے تاب تیرے لب کی جو نامرد ہے ذاتی نہ دیکھا باغ میں نرگس نیں تجھ کوں شرم جانے سیں اسی غم میں ہوئی ہے سرنگوں وہ وقت نہیں پاتی کہاں ممکن ہے ناجیؔ سا کہ تقویٰ اور صلاح آوے نگاہ مست خوباں وہ نہیں لیتا خراباتی " tere-bhaaii-ko-chaahaa-ab-terii-kartaa-huun-paa-bosii-naji-shakir-ghazals," تیرے بھائی کو چاہا اب تیری کرتا ہوں پا بوسی مجھے سرتاج کر رکھ جان میں عاشق ہوں موروثی رفو کر دے ہیں ایسا پیار جو عاشق ہیں یکسو سیں پھڑا کر اور سیں شال اپنی کہتا ہے مجھے تو سی ہوا مخفی مزا اب شاہدی سیں شہد کی ظاہر مگر زنبور نے شیرینی ان ہونٹوں کی جا چوسی کسے یہ تاب جو اس کی تجلی میں رہے ٹھہرا رموز طور لاتی ہے سجن تیری کمر مو سی سماتا نئیں ازار اپنے میں ابتر دیکھ رنگ اس کا کرے کمخواب سو جانے کی یوں پاتے ہیں جاسوسی برنگ شمع کیوں یعقوب کی آنکھیں نہیں روشن زمانے میں سنا یوسف کا پیراہن تھا فانوسی نہ چھوڑوں اس لب عرفاں کو ناجیؔ اور لٹا دوں سب ملے گر مجھ کو ملک خسروی اور تاج کاؤسی " dekh-mohan-tirii-kamar-kii-taraf-naji-shakir-ghazals," دیکھ موہن تری کمر کی طرف پھر گیا مانی اپنے گھر کی طرف جن نے دیکھے ترے لب شیریں نظر اس کی نہیں شکر کی طرف ہے محال ان کا دام میں آنا دل ہے مائل بتاں کا زر کی طرف تیرے رخسار کی صفائی دیکھ چشم دانا کی نئیں گہر کی طرف ہیں خوشامد طلب سب اہل دول غور کرتے نئیں ہنر کی طرف ماہ رو نے سفر کیا ہے جدھر دل مرا ہے اسی نگر کی طرف حشر میں پاکباز ہے ناجیؔ بدعمل جائیں گے سقر کی طرف " dekhii-bahaar-ham-ne-kal-zor-mai-kade-men-naji-shakir-ghazals," دیکھی بہار ہم نے کل زور مے کدے میں ہنسنے سیں اوس سجن کے تھا شور مے کدے میں تھے جوش مل سیں ایسی شورش میں داغ دل کے گویا کہ کودتے ہیں یہ مور مے کدے میں پھندا رکھا تھا میں نے شاید کہ وہ پری رو دیکھے تو پاس میرے ہو دور مے کدے میں ہے آرزو کہ ہم دم وہ ماہ رو ہو میرا دے شام سیں جو پیالہ ہو بھور مے کدے میں ساقی وہی ہے میرا ناجیؔ کہ گر مروں میں مجھ واسطے بنا دے جا گور مے کدے میں " mah-rukhaan-kii-jo-mehrbaanii-hai-naji-shakir-ghazals," مہ رخاں کی جو مہربانی ہے یہ مدد مجھ پہ آسمانی ہے رشک سیں اس کے صاف چہرہ کے چشم پر آئنہ کی پانی ہے دام میں بو الہوس کے آیا نئیں کیوں کہ یہ باز آشیانی ہے چرب ہے شمع پر جمال اس کا شمع کی روشنی زبانی ہے اس کے رخسار دیکھ جیتا ہوں عارضی میری زندگانی ہے صرف صورت کا بند نئیں ناجیؔ عاشق صاحب معانی ہے " ishq-to-mushkil-hai-ai-dil-kaun-kahtaa-sahl-hai-bahadur-shah-zafar-ghazals," عشق تو مشکل ہے اے دل کون کہتا سہل ہے لیک نادانی سے اپنی تو نے سمجھا سہل ہے گر کھلے دل کی گرہ تجھ سے تو ہم جانیں تجھے اے صبا غنچے کا عقدہ کھول دینا سہل ہے ہمدمو دل کے لگانے میں کہو لگتا ہے کیا پر چھڑانا اس کا مشکل ہے لگانا سہل ہے گرچہ مشکل ہے بہت میرا علاج درد دل پر جو تو چاہے تو اے رشک مسیحا سہل ہے ہے بہت دشوار مرنا یہ سنا کرتے تھے ہم پر جدائی میں تری ہم نے جو دیکھا سہل ہے شمع نے جل کر جلایا بزم میں پروانے کو بن جلے اپنے جلانا کیا کسی کا سہل ہے عشق کا رستہ سراسر ہے دم شمشیر پر بوالہوس اس راہ میں رکھنا قدم کیا سہل ہے اے ظفرؔ کچھ ہو سکے تو فکر کر عقبیٰ کا تو کر نہ دنیا کا تردد کار دنیا سہل ہے " kaafir-tujhe-allaah-ne-suurat-to-parii-dii-bahadur-shah-zafar-ghazals," کافر تجھے اللہ نے صورت تو پری دی پر حیف ترے دل میں محبت نہ ذری دی دی تو نے مجھے سلطنت بحر و بر اے عشق ہونٹوں کو جو خشکی مری آنکھوں کو تری دی خال لب شیریں کا دیا بوسہ کب اس نے اک چاٹ لگانے کو مرے نیشکری دی کافر ترے سوائے سر زلف نے مجھ کو کیا کیا نہ پریشانی و آشفتہ سری دی محنت سے ہے عظمت کہ زمانے میں نگیں کو بے کاوش سینہ نہ کبھی ناموری دی صیاد نے دی رخصت پرواز پر افسوس تو نے نہ اجازت مجھے بے بال و پری دی کہتا ترا کچھ سوختہ جاں لیک اجل نے فرصت نہ اسے مثل چراغ سحری دی قسام ازل نے نہ رکھا ہم کو بھی محروم گرچہ نہ دیا کوئی ہنر بے ہنری دی اس چشم میں ہے سرمے کا دنبالہ پر آشوب کیوں ہاتھ میں بدمست کے بندوق بھری دی دل دے کے کیا ہم نے تری زلف کا سودا اک آپ بلا اپنے لیے مول خریدی ساقی نے دیا کیا مجھے اک ساغر سرشار گویا کہ دو عالم سے ظفرؔ بے خبری دی " hai-dil-ko-jo-yaad-aaii-falak-e-piir-kisii-kii-bahadur-shah-zafar-ghazals," ہے دل کو جو یاد آئی فلک پیر کسی کی آنکھوں کے تلے پھرتی ہے تصویر کسی کی گریہ بھی ہے نالہ بھی ہے اور آہ و فغاں بھی پر دل میں ہوئی اس کے نہ تاثیر کسی کی ہاتھ آئے ہے کیا خاک ترے خاک کف پا جب تک کہ نہ قسمت میں ہو اکسیر کسی کی یارو وہ ہے بگڑا ہوا باتیں نہ بناؤ کچھ پیش نہیں جانے کی تقریر کسی کی نازاں نہ ہو منعم کہ جہاں تیرا محل ہے ہووے گی یہاں پہلے بھی تعمیر کسی کی میری گرہ دل نہ کھلی ہے نہ کھلے گی جب تک نہ کھلے زلف گرہ گیر کسی کی آتا بھی اگر ہے تو وہ پھر جائے ہے الٹا جس وقت الٹ جائے ہے تقدیر کسی کی اس ابرو و مژگاں سے ظفرؔ تیز زیادہ خنجر نہ کسی کا ہے نہ شمشیر کسی کی جو دل سے ادھر جائے نظر دل ہو گرفتار مجرم ہو کوئی اور ہو تقصیر کسی کی " khvaah-kar-insaaf-zaalim-khvaah-kar-bedaad-tuu-bahadur-shah-zafar-ghazals," خواہ کر انصاف ظالم خواہ کر بیداد تو پر جو فریادی ہیں ان کی سن تو لے فریاد تو دم بدم بھرتے ہیں ہم تیری ہوا خواہی کا دم کر نہ بد خوؤں کے کہنے سے ہمیں برباد تو کیا گنہ کیا جرم کیا تقصیر میری کیا خطا بن گیا جو اس طرح حق میں مرے جلاد تو قید سے تیری کہاں جائیں گے ہم بے بال و پر کیوں قفس میں تنگ کرتا ہے ہمیں صیاد تو دل کو دل سے راہ ہے تو جس طرح سے ہم تجھے یاد کرتے ہیں کرے یوں ہی ہمیں بھی یاد تو دل ترا فولاد ہو تو آپ ہو آئینہ وار صاف یک باری سنے میری اگر روداد تو شاد و خرم ایک عالم کو کیا اس نے ظفرؔ پر سبب کیا ہے کہ ہے رنجیدہ و ناشاد تو " kyuunki-ham-duniyaa-men-aae-kuchh-sabab-khultaa-nahiin-bahadur-shah-zafar-ghazals," کیونکہ ہم دنیا میں آئے کچھ سبب کھلتا نہیں اک سبب کیا بھید واں کا سب کا سب کھلتا نہیں پوچھتا ہے حال بھی گر وہ تو مارے شرم کے غنچۂ تصویر کے مانند لب کھلتا نہیں شاہد مقصود تک پہنچیں گے کیونکر دیکھیے بند ہے باب تمنا ہے غضب کھلتا نہیں بند ہے جس خانۂ زنداں میں دیوانہ تیرا اس کا دروازہ پری رو روز و شب کھلتا نہیں دل ہے یہ غنچہ نہیں ہے اس کا عقدہ اے صبا کھولنے کا جب تلک آوے نہ ڈھب کھلتا نہیں عشق نے جن کو کیا خاطر گرفتہ ان کا دل لاکھ ہووے گرچہ سامان طرب کھلتا نہیں کس طرح معلوم ہووے اس کے دل کا مدعا مجھ سے باتوں میں ظفرؔ وہ غنچہ لب کھلتا نہیں " vaan-iraada-aaj-us-qaatil-ke-dil-men-aur-hai-bahadur-shah-zafar-ghazals," واں ارادہ آج اس قاتل کے دل میں اور ہے اور یہاں کچھ آرزو بسمل کے دل میں اور ہے وصل کی ٹھہراوے ظالم تو کسی صورت سے آج ورنہ ٹھہری کچھ ترے مائل کے دل میں اور ہے ہے ہلال و بدر میں اک نور پر جو روشنی دل میں ناقص کے ہے وہ کامل کے دل میں اور ہے پہلے تو ملتا ہے دل داری سے کیا کیا دل ربا باندھتا منصوبے پھر وہ مل کے دل میں اور ہے ہے مجھے بعد از سوال بوسہ خواہش وصل کی یہ تمنا ایک اس سائل کے دل میں اور ہے گو وہ محفل میں نہ بولا پا گئے چتون سے ہم آج کچھ اس رونق محفل کے دل میں اور ہے یوں تو ہے وہ ہی دل عالم کے دل میں اے ظفرؔ اس کا عالم مرد صاحب دل کے دل میں اور ہے " bharii-hai-dil-men-jo-hasrat-kahuun-to-kis-se-kahuun-bahadur-shah-zafar-ghazals," بھری ہے دل میں جو حسرت کہوں تو کس سے کہوں سنے ہے کون مصیبت کہوں تو کس سے کہوں جو تو ہو صاف تو کچھ میں بھی صاف تجھ سے کہوں ترے ہے دل میں کدورت کہوں تو کس سے کہوں نہ کوہ کن ہے نہ مجنوں کہ تھے مرے ہمدرد میں اپنا درد محبت کہوں تو کس سے کہوں دل اس کو آپ دیا آپ ہی پشیماں ہوں کہ سچ ہے اپنی ندامت کہوں تو کس سے کہوں کہوں میں جس سے اسے ہووے سنتے ہی وحشت پھر اپنا قصۂ وحشت کہوں تو کس سے کہوں رہا ہے تو ہی تو غم خوار اے دل غمگیں ترے سوا غم فرقت کہوں تو کس سے کہوں جو دوست ہو تو کہوں تجھ سے دوستی کی بات تجھے تو مجھ سے عداوت کہوں تو کس سے کہوں نہ مجھ کو کہنے کی طاقت کہوں تو کیا احوال نہ اس کو سننے کی فرصت کہوں تو کس سے کہوں کسی کو دیکھتا اتنا نہیں حقیقت میں ظفرؔ میں اپنی حقیقت کہوں تو کس سے کہوں " lagtaa-nahiin-hai-dil-miraa-ujde-dayaar-men-bahadur-shah-zafar-ghazals," لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں کانٹوں کو مت نکال چمن سے او باغباں یہ بھی گلوں کے ساتھ پلے ہیں بہار میں بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں " yaa-mujhe-afsar-e-shaahaana-banaayaa-hotaa-bahadur-shah-zafar-ghazals," یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا اپنا دیوانہ بنایا مجھے ہوتا تو نے کیوں خرد مند بنایا نہ بنایا ہوتا خاکساری کے لیے گرچہ بنایا تھا مجھے کاش خاک در جانانہ بنایا ہوتا نشۂ عشق کا گر ظرف دیا تھا مجھ کو عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا دل صد چاک بنایا تو بلا سے لیکن زلف مشکیں کا ترے شانہ بنایا ہوتا صوفیوں کے جو نہ تھا لائق صحبت تو مجھے قابل جلسۂ رندانہ بنایا ہوتا تھا جلانا ہی اگر دورئ ساقی سے مجھے تو چراغ در مے خانہ بنایا ہوتا شعلۂ حسن چمن میں نہ دکھایا اس نے ورنہ بلبل کو بھی پروانہ بنایا ہوتا روز معمورۂ دنیا میں خرابی ہے ظفرؔ ایسی بستی کو تو ویرانہ بنایا ہوتا " mohabbat-chaahiye-baaham-hamen-bhii-ho-tumhen-bhii-ho-bahadur-shah-zafar-ghazals," محبت چاہیے باہم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو خوشی ہو اس میں یا ہو غم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو غنیمت تم اسے سمجھو کہ اس خم خانہ میں یارو نصیب اک دم دل خرم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو دلاؤ حضرت دل تم نہ یاد خط سبز اس کا کہیں ایسا نہ ہو یہ سم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو ہمیشہ چاہتا ہے دل کہ مل کر کیجے مے نوشی میسر جام مے جم جم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو ہم اپنا عشق چمکائیں تم اپنا حسن چمکاؤ کہ حیراں دیکھ کر عالم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو رہے حرص و ہوا دائم عزیزو ساتھ جب اپنے نہ کیونکر فکر بیش و کم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو ظفرؔ سے کہتا ہے مجنوں کہیں درد دل محزوں جو غم سے فرصت اب اک دم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو " gaii-yak-ba-yak-jo-havaa-palat-nahiin-dil-ko-mere-qaraar-hai-bahadur-shah-zafar-ghazals," گئی یک بہ یک جو ہوا پلٹ نہیں دل کو میرے قرار ہے کروں اس ستم کو میں کیا بیاں مرا غم سے سینہ فگار ہے یہ رعایۂ ہند تبہ ہوئی کہوں کیا جو ان پہ جفا ہوئی جسے دیکھا حاکم وقت نے کہا یہ بھی قابل دار ہے یہ کسی نے ظلم بھی ہے سنا کہ دی پھانسی لوگوں کو بے گناہ وہی کلمہ گویوں کی سمت سے ابھی دل میں ان کے بخار ہے نہ تھا شہر دہلی یہ تھا چمن کہو کس طرح کا تھا یاں امن جو خطاب تھا وہ مٹا دیا فقط اب تو اجڑا دیار ہے یہی تنگ حال جو سب کا ہے یہ کرشمہ قدرت رب کا ہے جو بہار تھی سو خزاں ہوئی جو خزاں تھی اب وہ بہار ہے شب و روز پھول میں جو تلے کہو خار غم کو وہ کیا سہے ملے طوق قید میں جب انہیں کہا گل کے بدلے یہ ہار ہے سبھی جادہ ماتم سخت ہے کہو کیسی گردش بخت ہے نہ وہ تاج ہے نہ وہ تخت ہے نہ وہ شاہ ہے نہ دیار ہے جو سلوک کرتے تھے اور سے وہی اب ہیں کتنے ذلیل سے وہ ہیں تنگ چرخ کے جور سے رہا تن پہ ان کے نہ تار ہے نہ وبال تن پہ ہے سر مرا نہیں جان جانے کا ڈر ذرا کٹے غم ہی، نکلے جو دم مرا مجھے اپنی زندگی بار ہے کیا ہے غم ظفرؔ تجھے حشر کا جو خدا نے چاہا تو برملا ہمیں ہے وسیلہ رسول کا وہ ہمارا حامیٔ کار ہے " dekho-insaan-khaak-kaa-putlaa-banaa-kyaa-chiiz-hai-bahadur-shah-zafar-ghazals," دیکھو انساں خاک کا پتلا بنا کیا چیز ہے بولتا ہے اس میں کیا وہ بولتا کیا چیز ہے روبرو اس زلف کے دام بلا کیا چیز ہے اس نگہ کے سامنے تیر قضا کیا چیز ہے یوں تو ہیں سارے بتاں غارتگر ایمان و دیں ایک وہ کافر صنم نام خدا کیا چیز ہے جس نے دل میرا دیا دام محبت میں پھنسا وہ نہیں معلوم مج کو ناصحا کیا چیز ہے ہووے اک قطرہ جو زہراب محبت کا نصیب خضر پھر تو چشمۂ آب بقا کیا چیز ہے مرگ ہی صحت ہے اس کی مرگ ہی اس کا علاج عشق کا بیمار کیا جانے دوا کیا چیز ہے دل مرا بیٹھا ہے لے کر پھر مجھی سے وہ نگار پوچھتا ہے ہاتھ میں میرے بتا کیا چیز ہے خاک سے پیدا ہوئے ہیں دیکھ رنگا رنگ گل ہے تو یہ ناچیز لیکن اس میں کیا کیا چیز ہے جس کی تجھ کو جستجو ہے وہ تجھی میں ہے ظفرؔ ڈھونڈتا پھر پھر کے تو پھر جا بجا کیا چیز ہے " vaan-rasaaii-nahiin-to-phir-kyaa-hai-bahadur-shah-zafar-ghazals," واں رسائی نہیں تو پھر کیا ہے یہ جدائی نہیں تو پھر کیا ہے ہو ملاقات تو صفائی سے اور صفائی نہیں تو پھر کیا ہے دل ربا کو ہے دل ربائی شرط دل ربائی نہیں تو پھر کیا ہے گلہ ہوتا ہے آشنائی میں آشنائی نہیں تو پھر کیا ہے اللہ اللہ رے ان بتوں کا غرور یہ خدائی نہیں تو پھر کیا ہے موت آئی تو ٹل نہیں سکتی اور آئی نہیں تو پھر کیا ہے مگس قاب اغنیا ہونا ہے بے حیائی نہیں تو پھر کیا ہے بوسۂ لب دل شکستہ کو مومیائی نہیں تو پھر کیا ہے نہیں رونے میں گر ظفرؔ تاثیر جگ ہنسائی نہیں تو پھر کیا ہے " gaaliyaan-tankhvaah-thahrii-hai-agar-bat-jaaegii-bahadur-shah-zafar-ghazals," گالیاں تنخواہ ٹھہری ہے اگر بٹ جائے گی عاشقوں کے گھر مٹھائی لب شکر بٹ جائے گی روبرو گر ہوگا یوسف اور تو آ جائے گا اس کی جانب سے زلیخا کی نظر بٹ جائے گی رہزنوں میں ناز و غمزہ کی یہ جنس دین و دل جوں متاع بردہ آخر ہم دگر بٹ جائے گی ہوگا کیا گر بول اٹھے غیر باتوں میں مری پھر طبیعت میری اے بیداد گر بٹ جائے گی دولت دنیا نہیں جانے کی ہرگز تیرے ساتھ بعد تیرے سب یہیں اے بے خبر بٹ جائے گی کر لے اے دل جان کو بھی رنج و غم میں تو شریک یہ جو محنت تجھ پہ ہے کچھ کچھ مگر بٹ جائے گی مونگ چھاتی پہ جو دلتے ہیں کسی کی دیکھنا جوتیوں میں دال ان کی اے ظفرؔ بٹ جائے گی " zulf-jo-rukh-par-tire-ai-mehr-e-talat-khul-gaii-bahadur-shah-zafar-ghazals," زلف جو رخ پر ترے اے مہر طلعت کھل گئی ہم کو اپنی تیرہ روزی کی حقیقت کھل گئی کیا تماشا ہے رگ لیلیٰ میں ڈوبا نیشتر فصد مجنوں باعث جوش محبت کھل گئی دل کا سودا اک نگہ پر ہے تری ٹھہرا ہوا نرخ تو کیا پوچھتا ہے اب تو قیمت کھل گئی آئینے کو ناز تھا کیا اپنے روئے صاف پر آنکھ ہی پر دیکھتے ہی تیری صورت کھل گئی تھی اسیران قفس کو آرزو پرواز کی کھل گئی کھڑکی قفس کی کیا کہ قسمت کھل گئی تیرے عارض پر ہوا آخر غبار خط نمود کھل گئی آئینہ رو دل کی کدورت کھل گئی بے تکلف آئے تم کھولے ہوئے بند قبا اب گرہ دل کی ہمارے فی الحقیقت کھل گئی باندھی زاہد نے توکل پر کمر سو بار چست لیکن آخر باعث سستی ہمت کھل گئی کھلتے کھلتے رک گئے وہ ان کو تو نے اے ظفرؔ سچ کہو کس آنکھ سے دیکھا کہ چاہت کھل گئی " kyuunkar-na-khaaksaar-rahen-ahl-e-kiin-se-duur-bahadur-shah-zafar-ghazals," کیونکر نہ خاکسار رہیں اہل کیں سے دور دیکھو زمیں فلک سے فلک ہے زمیں سے دور پروانہ وصل شمع پہ دیتا ہے اپنی جاں کیونکر رہے دل اس کے رخ آتشیں سے دور مضمون وصل و ہجر جو نامہ میں ہے رقم ہے حرف بھی کہیں سے ملے اور کہیں سے دور گو تیر بے گماں ہے مرے پاس پر ابھی جائے نکل کے سینۂ چرخ بریں سے دور وہ کون ہے کہ جاتے نہیں آپ جس کے پاس لیکن ہمیشہ بھاگتے ہو تم ہمیں سے دور حیران ہوں کہ اس کے مقابل ہو آئینہ جو پر غرور کھنچتا ہے ماہ مبیں سے دور یاں تک عدو کا پاس ہے ان کو کہ بزم میں وہ بیٹھتے بھی ہیں تو مرے ہم نشیں سے دور منظور ہو جو دید تجھے دل کی آنکھ سے پہنچے تری نظر نگہ دور بیں سے دور دنیائے دوں کی دے نہ محبت خدا ظفرؔ انساں کو پھینک دے ہے یہ ایمان و دیں سے دور " baat-karnii-mujhe-mushkil-kabhii-aisii-to-na-thii-bahadur-shah-zafar-ghazals," بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی اس کی آنکھوں نے خدا جانے کیا کیا جادو کہ طبیعت مری مائل کبھی ایسی تو نہ تھی عکس رخسار نے کس کے ہے تجھے چمکایا تاب تجھ میں مہ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی اب کی جو راہ محبت میں اٹھائی تکلیف سخت ہوتی ہمیں منزل کبھی ایسی تو نہ تھی پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں آتی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی نگہ یار کو اب کیوں ہے تغافل اے دل وہ ترے حال سے غافل کبھی ایسی تو نہ تھی چشم قاتل مری دشمن تھی ہمیشہ لیکن جیسی اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی کیا سبب تو جو بگڑتا ہے ظفرؔ سے ہر بار خو تری حور شمائل کبھی ایسی تو نہ تھی " havaa-men-phirte-ho-kyaa-hirs-aur-havaa-ke-liye-bahadur-shah-zafar-ghazals," ہوا میں پھرتے ہو کیا حرص اور ہوا کے لیے غرور چھوڑ دو اے غافلو خدا کے لیے گرا دیا ہے ہمیں کس نے چاہ الفت میں ہم آپ ڈوبے کسی اپنے آشنا کے لیے جہاں میں چاہیئے ایوان و قصر شاہوں کو یہ ایک گنبد گردوں ہے بس گدا کے لیے وہ آئینہ ہے کہ جس کو ہے حاجت سیماب اک اضطراب ہے کافی دل صفا کے لیے تپش سے دل کا ہو کیا جانے سینے میں کیا حال جو تیرے تیر کا روزن نہ ہو ہوا کے لیے طبیب عشق کی دکاں میں ڈھونڈتے پھرتے یہ دردمند محبت تری دوا کے لیے جو ہاتھ آئے ظفرؔ خاک پائے فخراؔلدین تو میں رکھوں اسے آنکھوں کے توتیا کے لیے " ham-ne-tirii-khaatir-se-dil-e-zaar-bhii-chhodaa-bahadur-shah-zafar-ghazals," ہم نے تری خاطر سے دل زار بھی چھوڑا تو بھی نہ ہوا یار اور اک یار بھی چھوڑا کیا ہوگا رفوگر سے رفو میرا گریبان اے دست جنوں تو نے نہیں تار بھی چھوڑا دیں دے کے گیا کفر کے بھی کام سے عاشق تسبیح کے ساتھ اس نے تو زنار بھی چھوڑا گوشہ میں تری چشم سیہ مست کے دل نے کی جب سے جگہ خانۂ خمار بھی چھوڑا اس سے ہے غریبوں کو تسلی کہ اجل نے مفلس کو جو مارا تو نہ زردار بھی چھوڑا ٹیڑھے نہ ہو ہم سے رکھو اخلاص تو سیدھا تم پیار سے رکتے ہو تو لو پیار بھی چھوڑا کیا چھوڑیں اسیران محبت کو وہ جس نے صدقے میں نہ اک مرغ گرفتار بھی چھوڑا پہنچی مری رسوائی کی کیونکر خبر اس کو اس شوخ نے تو دیکھنا اخبار بھی چھوڑا کرتا تھا جو یاں آنے کا جھوٹا کبھی اقرار مدت سے ظفرؔ اس نے وہ اقرار بھی چھوڑا " karenge-qasd-ham-jis-dam-tumhaare-ghar-men-aavenge-bahadur-shah-zafar-ghazals," کریں گے قصد ہم جس دم تمہارے گھر میں آویں گے جو ہوگی عمر بھر کی راہ تو دم بھر میں آویں گے اگر ہاتھوں سے اس شیریں ادا کے ذبح ہوں گے ہم تو شربت کے سے گھونٹ آب دم خنجر میں آویں گے یہی گر جوش گریہ ہے تو بہہ کر ساتھ اشکوں کے ہزاروں پارۂ دل میرے چشم تر میں آویں گے گر اس قید بلا سے اب کی چھوٹیں گے تو پھر ہرگز نہ ہم دام فریب شوخ غارت گر میں آویں گے نہ جاتے گرچہ مر جاتے جو ہم معلوم کر جاتے کہ اتنا تنگ جا کر کوچہ دلبر میں آویں گے گریباں چاک لاکھوں ہاتھ سے اس مہر طلعت کے برنگ صبح محشر عرصۂ محشر میں آویں گے جو سرگردانی اپنی تیرے دیوانے دکھائیں گے تو پھر کیا کیا بگولے دشت کے چکر میں آویں گے ظفرؔ اپنا کرشمہ گر دکھایا چشم ساقی نے تماشے جام جم کے سب نظر ساغر میں آویں گے " main-huun-aasii-ki-pur-khataa-kuchh-huun-bahadur-shah-zafar-ghazals," میں ہوں عاصی کہ پر خطا کچھ ہوں تیرا بندہ ہوں اے خدا کچھ ہوں جزو و کل کو نہیں سمجھتا میں دل میں تھوڑا سا جانتا کچھ ہوں تجھ سے الفت نباہتا ہوں میں با وفا ہوں کہ بے وفا کچھ ہوں جب سے ناآشنا ہوں میں سب سے تب کہیں اس سے آشنا کچھ ہوں نشۂ عشق لے اڑا ہے مجھے اب مزے میں اڑا رہا کچھ ہوں خواب میرا ہے عین بیداری میں تو اس میں بھی دیکھتا کچھ ہوں گرچہ کچھ بھی نہیں ہوں میں لیکن اس پہ بھی کچھ نہ پوچھو کیا کچھ ہوں سمجھے وہ اپنا خاکسار مجھے خاک رہ ہوں کہ خاک پا کچھ ہوں چشم الطاف فخر دیں سے ہوں اے ظفرؔ کچھ سے ہو گیا کچھ ہوں " rukh-jo-zer-e-sumbul-e-pur-pech-o-taab-aa-jaaegaa-bahadur-shah-zafar-ghazals," رخ جو زیر سنبل پر پیچ و تاب آ جائے گا پھر کے برج سنبلہ میں آفتاب آ جائے گا تیرا احساں ہوگا قاصد گر شتاب آ جائے گا صبر مجھ کو دیکھ کر خط کا جواب آ جائے گا ہو نہ بیتاب اتنا گر اس کا عتاب آ جائے گا تو غضب میں اے دل خانہ خراب آ جائے گا اس قدر رونا نہیں بہتر بس اب اشکوں کو روک ورنہ طوفاں دیکھ اے چشم پر آب آ جائے گا پیش ہووے گا اگر تیرے گناہوں کا حساب تنگ ظالم عرصۂ روز حساب آ جائے گا دیکھ کر دست ستم میں تیری تیغ آب دار میرے ہر زخم جگر کے منہ میں آب آ جائے گا اپنی چشم مست کی گردش نہ اے ساقی دکھا دیکھ چکر میں ابھی جام شراب آ جائے گا خوب ہوگا ہاں جو سینہ سے نکل جائے گا تو چین مجھ کو اے دل پر اضطراب آ جائے گا اے ظفرؔ اٹھ جائے گا جب پردہ شرم و حجاب سامنے وہ یار میرے بے حجاب آ جائے گا " shaane-kii-har-zabaan-se-sune-koii-laaf-e-zulf-bahadur-shah-zafar-ghazals," شانے کی ہر زباں سے سنے کوئی لاف زلف چیرے ہے سینہ رات کو یہ موشگاف زلف جس طرح سے کہ کعبہ پہ ہے پوشش سیاہ اس طرح اس صنم کے ہے رخ پر غلاف زلف برہم ہے اس قدر جو مرے دل سے زلف یار شامت زدہ نے کیا کیا ایسا خلاف زلف مطلب نہ کفر و دیں سے نہ دیر و حرم سے کام کرتا ہے دل طواف عذار و طواف زلف ناف غزال چیں ہے کہ ہے نافۂ تتار کیونکر کہوں کہ ہے گرہ زلف ناف زلف آپس میں آج دست و گریباں ہے روز و شب اے مہروش زری کا نہیں موئے باف زلف کہتا ہے کوئی جیم کوئی لام زلف کو کہتا ہوں میں ظفرؔ کہ مسطح ہے کاف زلف " sab-rang-men-us-gul-kii-mire-shaan-hai-maujuud-bahadur-shah-zafar-ghazals," سب رنگ میں اس گل کی مرے شان ہے موجود غافل تو ذرا دیکھ وہ ہر آن ہے موجود ہر تار کا دامن کے مرے کر کے تبرک سربستہ ہر اک خار بیابان ہے موجود عریانی تن ہے یہ بہ از خلعت شاہی ہم کو یہ ترے عشق میں سامان ہے موجود کس طرح لگاوے کوئی داماں کو ترے ہاتھ ہونے کو تو اب دست و گریبان ہے موجود لیتا ہی رہا رات ترے رخ کی بلائیں تو پوچھ لے یہ زلف پریشان ہے موجود تم چشم حقیقت سے اگر آپ کو دیکھو آئینۂ حق میں دل انسان ہے موجود کہتا ہے ظفرؔ ہیں یہ سخن آگے سبھوں کے جو کوئی یہاں صاحب عرفان ہے موجود " hijr-ke-haath-se-ab-khaak-pade-jiine-men-bahadur-shah-zafar-ghazals," ہجر کے ہاتھ سے اب خاک پڑے جینے میں درد اک اور اٹھا آہ نیا سینے میں خون دل پینے سے جو کچھ ہے حلاوت ہم کو یہ مزا اور کسی کو نہیں مے پینے میں دل کو کس شکل سے اپنے نہ مصفا رکھوں جلوہ گر یار کی صورت ہے اس آئینے میں اشک و لخت جگر آنکھوں میں نہیں ہیں میرے ہیں بھرے لال و گہر عشق کے گنجینے میں شکل آئینہ ظفرؔ سے تو نہ رکھ دل میں خیال کچھ مزا بھی ہے بھلا جان مری لینے میں " na-durveshon-kaa-khirqa-chaahiye-na-taaj-e-shaahaanaa-bahadur-shah-zafar-ghazals," نہ درویشوں کا خرقہ چاہیئے نہ تاج شاہانا مجھے تو ہوش دے اتنا رہوں میں تجھ پہ دیوانا کتابوں میں دھرا ہے کیا بہت لکھ لکھ کے دھو ڈالیں ہمارے دل پہ نقش کالجحر ہے تیرا فرمانا غنیمت جان جو دم گزرے کیفیت سے گلشن میں دئے جا ساقیٔ پیماں شکن بھر بھر کے پیمانا نہ دیکھا وہ کہیں جلوہ جو دیکھا خانۂ دل میں بہت مسجد میں سر مارا بہت سا ڈھونڈا بت خانا کچھ ایسا ہو کہ جس سے منزل مقصود کو پہنچوں طریق پارسائی ہووے یا ہو راہ رندانا یہ ساری آمد و شد ہے نفس کی آمد و شد پر اسی تک آنا جانا ہے نہ پھر جانا نہ پھر آنا ظفرؔ وہ زاہد بے درد کی ہو حق سے بہتر ہے کرے گر رند درد دل سے ہاو ہوئے مستانا " ham-ye-to-nahiin-kahte-ki-gam-kah-nahiin-sakte-bahadur-shah-zafar-ghazals," ہم یہ تو نہیں کہتے کہ غم کہہ نہیں سکتے پر جو سبب غم ہے وہ ہم کہہ نہیں سکتے ہم دیکھتے ہیں تم میں خدا جانے بتو کیا اس بھید کو اللہ کی قسم کہہ نہیں سکتے رسوائے جہاں کرتا ہے رو رو کے ہمیں تو ہم تجھے کچھ اے دیدۂ نم کہہ نہیں سکتے کیا پوچھتا ہے ہم سے تو اے شوخ ستم گر جو تو نے کئے ہم پہ ستم کہہ نہیں سکتے ہے صبر جنہیں تلخ کلامی کو تمہاری شربت ہی بتاتے ہیں سم کہہ نہیں سکتے جب کہتے ہیں کچھ بات رکاوٹ کی ترے ہم رک جاتا ہے یہ سینہ میں دم کہہ نہیں سکتے اللہ رے ترا رعب کہ احوال دل اپنا دے دیتے ہیں ہم کر کے رقم کہہ نہیں سکتے طوبائے بہشتی ہے تمہارا قد رعنا ہم کیونکر کہیں سرو ارم کہہ نہیں سکتے جو ہم پہ شب ہجر میں اس ماہ لقا کے گزرے ہیں ظفرؔ رنج و الم کہہ نہیں سکتے " jab-ki-pahluu-men-hamaare-but-e-khud-kaam-na-ho-bahadur-shah-zafar-ghazals," جب کہ پہلو میں ہمارے بت خود کام نہ ہو گریے سے شام و سحر کیوں کہ ہمیں کام نہ ہو لے گیا دل کا جو آرام ہمارے یا رب اس دل آرام کو مطلق کبھی آرام نہ ہو جس کو سمجھے لب پاں خوردہ وہ مالیدہ مسی مردماں دیکھیو پھولی وہ کہیں شام نہ ہو آج تشریف گلستاں میں وہ مے کش لایا کف نرگس پہ دھرا کیونکہ بھلا جام نہ ہو کر مجھے قتل وہاں اب کہ نہ ہو کوئی جہاں تا مری جاں تو کہیں خلق میں بدنام نہ ہو دیکھ کر کھولیو تو کاکل پیچاں کی گرہ کہ مرا طائر دل اس کے تہ دام نہ ہو بن ترے اے بت خود کام یہ دل کو ہے خطر تیرے عاشق کا تمام آہ کہیں کام نہ ہو آج ہر ایک جو یارو نظر آتا ہے نڈھال اپنی ابرو کی وہ کھینچے ہوئے صمصام نہ ہو ہے مرے شوخ کی بالیدہ وہ کافر آنکھیں جس کے ہم چشم ذرا نرگس بادام نہ ہو صبح ہوتی ہی نہیں اور نہیں کٹتی رات رخ پہ کھولے وہ کہیں زلف سیاہ فام نہ ہو اے ظفرؔ چرخ پہ خورشید جو یوں کانپے ہے جلوہ گر آج کہیں یار لب بام نہ ہو " na-us-kaa-bhed-yaarii-se-na-ayyaarii-se-haath-aayaa-bahadur-shah-zafar-ghazals," نہ اس کا بھید یاری سے نہ عیاری سے ہاتھ آیا خدا آگاہ ہے دل کی خبرداری سے ہاتھ آیا نہ ہوں جن کے ٹھکانے ہوش وہ منزل کو کیا پہنچے کہ رستہ ہاتھ آیا جس کی ہشیاری سے ہاتھ آیا ہوا حق میں ہمارے کیوں ستم گر آسماں اتنا کوئی پوچھے کہ ظالم کیا ستم گاری سے ہاتھ آیا اگرچہ مال دنیا ہاتھ بھی آیا حریصوں کے تو دیکھا ہم نے کس کس ذلت و خواری سے ہاتھ آیا نہ کر ظالم دل آزاری جو یہ دل منظور ہے لینا کسی کا دل جو ہاتھ آیا تو دل داری سے ہاتھ آیا اگرچہ خاکساری کیمیا کا سہل نسخہ ہے ولیکن ہاتھ آیا جس کے دشواری سے ہاتھ آیا ہوئی ہرگز نہ تیرے چشم کے بیمار کو صحت نہ جب تک زہر تیرے خط زنگاری سے ہاتھ آیا کوئی یہ وحشیٔ رم دیدہ تیرے ہاتھ آیا تھا پر اے صیادوش دل کی گرفتاری سے ہاتھ آیا ظفرؔ جو دو جہاں میں گوہر مقصود تھا اپنا جناب فخر دیں کی وہ مددگاری سے ہاتھ آیا " nibaah-baat-kaa-us-hiila-gar-se-kuchh-na-huaa-bahadur-shah-zafar-ghazals," نباہ بات کا اس حیلہ گر سے کچھ نہ ہوا ادھر سے کیا نہ ہوا پر ادھر سے کچھ نہ ہوا جواب صاف تو لاتا اگر نہ لاتا خط لکھا نصیب کا جو نامہ بر سے کچھ نہ ہوا ہمیشہ فتنے ہی برپا کیے مرے سر پر ہوا یہ اور تو اس فتنہ گر سے کچھ نہ ہوا بلا سے گریۂ شب تو ہی کچھ اثر کرتا اگرچہ عشق میں آہ سحر سے کچھ نہ ہوا جلا جلا کے کیا شمع ساں تمام مجھے بس اور تو مجھے سوز جگر سے کچھ نہ ہوا رہیں عدو سے وہی گرم جوشیاں اس کی اس آہ سرد اور اس چشم تر سے کچھ نہ ہوا اٹھایا عشق میں کیا کیا نہ درد سر میں نے حصول پر مجھے اس درد سر سے کچھ نہ ہوا شب وصال میں بھی میری جان کو آرام عزیزو درد جدائی کے ڈر سے کچھ نہ ہوا نہ دوں گا دل اسے میں یہ ہمیشہ کہتا تھا وہ آج لے ہی گیا اور ظفرؔ سے کچھ نہ ہوا " shamshiir-e-barhana-maang-gazab-baalon-kii-mahak-phir-vaisii-hii-bahadur-shah-zafar-ghazals," شمشیر برہنہ مانگ غضب بالوں کی مہک پھر ویسی ہی جوڑے کی گندھاوٹ قہر خدا بالوں کی مہک پھر ویسی ہی آنکھیں ہیں کٹورا سی وہ ستم گردن ہے صراحی دار غضب اور اسی میں شراب سرخی پاں رکھتی ہے جھلک پھر ویسی ہی ہر بات میں اس کی گرمی ہے ہر ناز میں اس کے شوخی ہے قامت ہے قیامت چال پری چلنے میں پھڑک پھر ویسی ہی گر رنگ بھبوکا آتش ہے اور بینی شعلۂ سرکش ہے تو بجلی سی کوندے ہے پری عارض کی چمک پھر ویسی ہی نوخیز کچیں دو غنچہ ہیں ہے نرم شکم اک خرمن گل باریک کمر جو شاخ گل رکھتی ہے لچک پھر ویسی ہی ہے ناف کوئی گرداب بلا اور گول سریں رانیں ہیں صفا ہے ساق بلوریں شمع ضیا پاؤں کی کفک پھر ویسی ہی محرم ہے حباب آب رواں سورج کی کرن ہے اس پہ لپٹ جالی کی کرتی ہے وہ بلا گوٹے کی دھنک پھر ویسی ہی وہ گائے تو آفت لائے ہے ہر تال میں لیوے جان نکال ناچ اس کا اٹھائے سو فتنے گھنگرو کی جھنک پھر ویسی ہی ہر بات پہ ہم سے وہ جو ظفرؔ کرتا ہے لگاوٹ مدت سے اور اس کی چاہت رکھتے ہیں ہم آج تلک پھر ویسی ہی " qaaruun-uthaa-ke-sar-pe-sunaa-ganj-le-chalaa-bahadur-shah-zafar-ghazals," قاروں اٹھا کے سر پہ سنا گنج لے چلا دنیا سے کیا بخیل بجز رنج لے چلا منت تھی بوسۂ لب شیریں کہ دل مرا مجھ کو سوئے مزار شکر گنج لے چلا ساقی سنبھالتا ہے تو جلدی مجھے سنبھال ورنہ اڑا کے پاں نشۂ بنج لے چلا دوڑا کے ہاتھ چھاتی پہ ہم ان کی یوں پھرے جیسے کوئی چور آ کے ہو نارنج لے چلا چوسر کا لطف یہ ہے کہ جس وقت پو پڑے ہم بر چہار بولے تو برپنج لے چلا جس دم ظفرؔ نے پڑھ کے غزل ہاتھ سے رکھی آنکھوں پہ رکھ ہر ایک سخن سنج لے چلا " mar-gae-ai-vaah-un-kii-naaz-bardaarii-men-ham-bahadur-shah-zafar-ghazals," مر گئے اے واہ ان کی ناز برداری میں ہم دل کے ہاتھوں سے پڑے کیسی گرفتاری میں ہم سب پہ روشن ہے ہماری سوزش دل بزم میں شمع ساں جلتے ہیں اپنی گرم بازاری میں ہم یاد میں ہے تیرے دم کی آمد و شد پر خیال بے خبر سب سے ہیں اس دم کی خبرداری میں ہم جب ہنسایا گردش گردوں نے ہم کو شکل گل مثل شبنم ہیں ہمیشہ گریہ و زاری میں ہم چشم و دل بینا ہے اپنے روز و شب اے مردماں گرچہ سوتے ہیں بظاہر پر ہیں بیداری میں ہم دوش پر رخت سفر باندھے ہے کیا غنچہ صبا دیکھتے ہیں سب کو یاں جیسے کہ تیاری میں ہم کب تلک بے دید سے یا رب رکھیں چشم وفا لگ رہے ہیں آج کل تو دل کی غم خواری میں ہم دیکھ کر آئینہ کیا کہتا ہے یارو اب وہ شوخ ماہ سے صد چند بہتر ہیں ادا داری میں ہم اے ظفرؔ لکھ تو غزل بحر و قوافی پھیر کر خامۂ در ریز سے ہیں اب گہر باری میں ہم " na-do-dushnaam-ham-ko-itnii-bad-khuuii-se-kyaa-haasil-bahadur-shah-zafar-ghazals," نہ دو دشنام ہم کو اتنی بد خوئی سے کیا حاصل تمہیں دینا ہی ہوگا بوسہ خم روئی سے کیا حاصل دل آزاری نے تیری کر دیا بالکل مجھے بیدل نہ کر اب میری دل جوئی کہ دل جوئی سے کیا حاصل نہ جب تک چاک ہو دل پھانس کب دل کی نکلتی ہے جہاں ہو کام خنجر کا وہاں سوئی سے کیا حاصل برائی یا بھلائی گو ہے اپنے واسطے لیکن کسی کو کیوں کہیں ہم بد کہ بد گوئی سے کیا حاصل نہ کر فکر خضاب اے شیخ تو پیری میں جانے دے جواں ہونا نہیں ممکن سیہ روئی سے کیا حاصل چڑھائے آستیں خنجر بکف وہ یوں جو پھرتا ہے اسے کیا جانے ہے اس عربدہ جوئی سے کیا حاصل عبث پنبہ نہ رکھ داغ دل سوزاں پہ تو میرے کہ انگارے پہ ہوگا چارہ گر روئی سے کیا حاصل شمیم زلف ہو اس کی تو ہو فرحت مرے دل کو صبا ہووے گا مشک چیں کی خوشبوئی سے کیا حاصل نہ ہووے جب تلک انساں کو دل سے میل یک جانب ظفرؔ لوگوں کے دکھلانے کو یکسوئی سے کیا حاصل " nahiin-ishq-men-is-kaa-to-ranj-hamen-ki-qaraar-o-shakeb-zaraa-na-rahaa-bahadur-shah-zafar-ghazals," نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا غم عشق تو اپنا رفیق رہا کوئی اور بلا سے رہا نہ رہا دیا اپنی خودی کو جو ہم نے اٹھا وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا نہ رہا رہے پردے میں اب نہ وہ پردہ نشیں کوئی دوسرا اس کے سوا نہ رہا نہ تھی حال کی جب ہمیں خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا ترے رخ کے خیال میں کون سے دن اٹھے مجھ پہ نہ فتنۂ روز جزا تری زلف کے دھیان میں کون سی شب مرے سر پہ ہجوم بلا نہ رہا ہمیں ساغر بادہ کے دینے میں اب کرے دیر جو ساقی تو ہائے غضب کہ یہ عہد نشاط یہ دور طرب نہ رہے گا جہاں میں سدا نہ رہا کئی روز میں آج وہ مہر لقا ہوا میرے جو سامنے جلوہ نما مجھے صبر و قرار ذرا نہ رہا اسے پاس حجاب و حیا نہ رہا ترے خنجر و تیغ کی آب رواں ہوئی جب کہ سبیل ستم زدگاں گئے کتنے ہی قافلے خشک زباں کوئی تشنۂ آب بقا نہ رہا مجھے صاف بتائے نگار اگر تو یہ پوچھوں میں رو رو کے خون جگر ملے پاؤں سے کس کے ہیں دیدۂ تر کف پا پہ جو رنگ حنا نہ رہا اسے چاہا تھا میں نے کہ روک رکھوں مری جان بھی جائے تو جانے نہ دوں کئے لاکھ فریب کروڑ فسوں نہ رہا نہ رہا نہ رہا نہ رہا لگے یوں تو ہزاروں ہی تیر ستم کہ تڑپتے رہے پڑے خاک پہ ہم ولے ناز و کرشمہ کی تیغ دو دم لگی ایسی کہ تسمہ لگا نہ رہا ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا " jab-kabhii-dariyaa-men-hote-saya-afgan-aap-hain-bahadur-shah-zafar-ghazals," جب کبھی دریا میں ہوتے سایہ افگن آپ ہیں فلس ماہی کو بتاتے ماہ روشن آپ ہیں سیتے ہیں سوزن سے چاک سینہ کیا اے چارہ ساز خار غم سینے میں اپنے مثل سوزن آپ ہیں پیار سے کر کے حمائل غیر کی گردن میں ہاتھ مارتے تیغ ستم سے مجھ کو گردن آپ ہیں کھینچ کر آنکھوں میں اپنی سرمۂ دنبالہ دار کرتے پیدا سحر سے نرگس میں سوسن آپ ہیں دیکھ کر صحرا میں مجھ کو پہلے گھبرایا تھا قیس پھر جو پہچانا تو بولا حضرت من آپ ہیں جی دھڑکتا ہے کہیں تار رگ گل چبھ نہ جائے سیج پر پھولوں کی کرتے قصد خفتن آپ ہیں کیا مزا ہے تیغ قاتل میں کہ اکثر صید عشق آن کر اس پر رگڑتے اپنی گردن آپ ہیں مجھ سے تم کیا پوچھتے ہو کیسے ہیں ہم کیا کہیں جی ہی جانے ہے کہ جیسے مشفق من آپ ہیں پر غرور و پر تکبر پر جفا و پر ستم پر فریب و پر دغا پر مکر و پر فن آپ ہیں ظلم پیشہ ظلم شیوہ ظلم ران و ظلم دوست دشمن دل دشمن جاں دشمن تن آپ ہیں یکہ تاز و نیزہ باز و عربدہ جو تند خو تیغ زن دشنہ گزار و ناوک افگن آپ ہیں تسمہ کش طراز و غارت گر تاراج ساز کافر یغمائی و قزاق رہزن آپ ہیں فتنہ جو بیداد گر سفاک و اظلم کینہ ور گرم جنگ و گرم قتل و گرم کشتن آپ ہیں بد مزاج و بد دماغ و بد شعار و بد سلوک بد طریق و بد زباں بد عہد و بد ظن آپ ہیں بے مروت بے وفا نا مہرباں نا آشنا میرے قاتل میرے حاسد میرے دشمن آپ ہیں اے ظفرؔ کیا پائے قاتل کے ہے بوسے کی ہوس یوں جو بسمل ہو کے سرگرم طپیدن آپ ہیں " kyaa-kuchh-na-kiyaa-aur-hain-kyaa-kuchh-nahiin-karte-bahadur-shah-zafar-ghazals," کیا کچھ نہ کیا اور ہیں کیا کچھ نہیں کرتے کچھ کرتے ہیں ایسا بخدا کچھ نہیں کرتے اپنے مرض غم کا حکیم اور کوئی ہے ہم اور طبیبوں کی دوا کچھ نہیں کرتے معلوم نہیں ہم سے حجاب ان کو ہے کیسا اوروں سے تو وہ شرم و حیا کچھ نہیں کرتے گو کرتے ہیں ظاہر کو صفا اہل کدورت پر دل کو نہیں کرتے صفا کچھ نہیں کرتے وہ دلبری اب تک مری کچھ کرتے ہیں لیکن تاثیر ترے نالے دلا کچھ نہیں کرتے دل ہم نے دیا تھا تجھے امید وفا پر تم ہم سے نہیں کرتے وفا کچھ نہیں کرتے کرتے ہیں وہ اس طرح ظفرؔ دل پہ جفائیں ظاہر میں یہ جانو کہ جفا کچھ نہیں کرتے " tufta-jaanon-kaa-ilaaj-ai-ahl-e-daanish-aur-hai-bahadur-shah-zafar-ghazals," تفتہ جانوں کا علاج اے اہل دانش اور ہے عشق کی آتش بلا ہے اس کی سوزش اور ہے کیوں نہ وحشت میں چبھے ہر مو بشکل نیش تیز خار غم کی تیرے دیوانے کی کاوش اور ہے مطربو باساز آؤ تم ہماری بزم میں ساز و ساماں سے تمہاری اتنی سازش اور ہے تھوکتا بھی دختر رز پر نہیں مست الست جو کہ ہے اس فاحشہ پر غش وہ فاحش اور ہے تاب کیا ہمتاب ہووے اس سے خورشید فلک آفتاب داغ دل کی اپنے تابش اور ہے سب مٹا دیں دل سے ہیں جتنی کہ اس میں خواہشیں گر ہمیں معلوم ہو کچھ اس کی خواہش اور ہے ابر مت ہم چشم ہونا چشم دریا بار سے تیری بارش اور ہے اور اس کی بارش اور ہے ہے تو گردش چرخ کی بھی فتنہ انگیزی میں طاق تیری چشم فتنہ زا کی لیک گردش اور ہے بت پرستی جس سے ہووے حق پرستی اے ظفرؔ کیا کہوں تجھ سے کہ وہ طرز پرستش اور ہے " paan-khaa-kar-surma-kii-tahriir-phir-khiinchii-to-kyaa-bahadur-shah-zafar-ghazals," پان کھا کر سرمہ کی تحریر پھر کھینچی تو کیا جب مرا خوں ہو چکا شمشیر پھر کھینچی تو کیا اے مہوس جب کہ زر تیرے نصیبوں میں نہیں تو نے محنت بھی پئے اکسیر پھر کھینچی تو کیا گر کھنچے سینہ سے ناوک روح تو قالب سے کھینچ اے اجل جب کھنچ گیا وہ تیر پھر کھینچی تو کیا کھینچتا تھا پاؤں میرا پہلے ہی زنجیر سے اے جنوں تو نے مری زنجیر پھر کھینچی تو کیا دار ہی پر اس نے کھینچا جب سر بازار عشق لاش بھی میری پئے تشہیر پھر کھینچی تو کیا کھینچ اب نالہ کوئی ایسا کہ ہو اس کو اثر تو نے اے دل آہ پر تاثیر پھر کھینچی تو کیا چاہیئے اس کا تصور ہی سے نقشہ کھینچنا دیکھ کر تصویر کو تصویر پھر کھینچی تو کیا کھینچ لے اول ہی سے دل کی عنان اختیار تو نے گر اے عاشق دلگیر پھر کھینچی تو کیا کیا ہوا آگے اٹھائے گر ظفرؔ احسان عقل اور اگر اب منت تدبیر پھر کھینچی تو کیا " dekh-dil-ko-mire-o-kaafir-e-be-piir-na-tod-bahadur-shah-zafar-ghazals," دیکھ دل کو مرے او کافر بے پیر نہ توڑ گھر ہے اللہ کا یہ اس کی تو تعمیر نہ توڑ غل سدا وادئ وحشت میں رکھوں گا برپا اے جنوں دیکھ مرے پاؤں کی زنجیر نہ توڑ دیکھ ٹک غور سے آئینۂ دل کو میرے اس میں آتا ہے نظر عالم تصویر نہ توڑ تاج زر کے لیے کیوں شمع کا سر کاٹے ہے رشتۂ الفت پروانہ کو گل گیر نہ توڑ اپنے بسمل سے یہ کہتا تھا دم نزع وہ شوخ تھا جو کچھ عہد سو او عاشق دلگیر نہ توڑ رقص بسمل کا تماشا مجھے دکھلا کوئی دم دست و پا مار کے دم تو تہ شمشیر نہ توڑ سہم کر اے ظفرؔ اس شوخ کماندار سے کہہ کھینچ کر دیکھ مرے سینے سے تو تیر نہ توڑ " vaaqif-hain-ham-ki-hazrat-e-gam-aise-shakhs-hain-bahadur-shah-zafar-ghazals," واقف ہیں ہم کہ حضرت غم ایسے شخص ہیں اور پھر ہم ان کے یار ہیں ہم ایسے شخص ہیں دیوانے تیرے دشت میں رکھیں گے جب قدم مجنوں بھی لے گا ان کے قدم ایسے شخص ہیں جن پہ ہوں ایسے ظلم و ستم ہم نہیں وہ لوگ ہوں روز بلکہ لطف و کرم ایسے شخص ہیں یوں تو بہت ہیں اور بھی خوبان دل فریب پر جیسے پر فن آپ ہیں کم ایسے شخص ہیں کیا کیا جفا کشوں پہ ہیں ان دلبروں کے ظلم ایسوں کے سہتے ایسے ستم ایسے شخص ہیں دیں کیا ہے بلکہ دیجئے ایمان بھی انہیں زاہد یہ بت خدا کی قسم ایسے شخص ہیں آزردہ ہوں عدو کے جو کہنے پہ اے ظفرؔ نے ایسے شخص وہ ہیں نہ ہم ایسے شخص ہیں " kyaa-kahuun-dil-maail-e-zulf-e-dotaa-kyuunkar-huaa-bahadur-shah-zafar-ghazals," کیا کہوں دل مائل زلف دوتا کیونکر ہوا یہ بھلا چنگا گرفتار بلا کیونکر ہوا جن کو محراب عبادت ہو خم ابروئے یار ان کا کعبے میں کہو سجدہ ادا کیونکر ہوا دیدۂ حیراں ہمارا تھا تمہارے زیر پا ہم کو حیرت ہے کہ پیدا نقش پا کیونکر ہوا نامہ بر خط دے کے اس نو خط کو تو نے کیا کہا کیا خطا تجھ سے ہوئی اور وہ خفا کیونکر ہوا خاکساری کیا عجب کھووے اگر دل کا غبار خاک سے دیکھو کہ آئینہ صفا کیونکر ہوا جن کو یکتائی کا دعویٰ تھا وہ مثل آئینہ ان کو حیرت ہے کہ پیدا دوسرا کیونکر ہوا تیرے دانتوں کے تصور سے نہ تھا گر آب دار جو بہا آنسو وہ در بے بہا کیونکر ہوا جو نہ ہونا تھا ہوا ہم پر تمہارے عشق میں تم نے اتنا بھی نہ پوچھا کیا ہوا کیونکر ہوا وہ تو ہے نا آشنا مشہور عالم میں ظفرؔ پر خدا جانے وہ تجھ سے آشنا کیونکر ہوا " ye-qissa-vo-nahiin-tum-jis-ko-qissa-khvaan-se-suno-bahadur-shah-zafar-ghazals," یہ قصہ وہ نہیں تم جس کو قصہ خواں سے سنو مرے فسانۂ غم کو مری زباں سے سنو سناؤ درد دل اپنا تو دم بہ دم فریاد مثال نے مری ہر ایک استخواں سے سنو کرو ہزار ستم لے کے ذکر کیا یک یار شکایت اپنی تم اس اپنے نیم جاں سے سنو خدا کے واسطے اے ہمدمو نہ بولو تم پیام لایا ہے کیا نامہ بر وہاں سے سنو تمہارے عشق نے رسوا کیا جہاں میں ہمیں ہمارا ذکر نہ تم کیونکہ اک جہاں سے سنو سنو تم اپنی جو تیغ نگاہ کے اوصاف جو تم کو سننا ہو اس شوخ دلستاں سے سنو ظفرؔ وہ بوسہ تو کیا دے گا پر کوئی دشنام جو تم کو سننا ہو اس شوخ دلستاں سے سنو " hote-hote-chashm-se-aaj-ashk-baarii-rah-gaii-bahadur-shah-zafar-ghazals," ہوتے ہوتے چشم سے آج اشک باری رہ گئی آبرو بارے تری ابر بہاری رہ گئی آتے آتے اس طرف ان کی سواری رہ گئی دل کی دل میں آرزوئے جاں نثاری رہ گئی ہم کو خطرہ تھا کہ لوگوں میں تھا چرچا اور کچھ بات خط آنے سے تیرے پر ہماری رہ گئی ٹکڑے ٹکڑے ہو کے اڑ جائے گا سب سنگ مزار دل میں بعد از مرگ کچھ گر بے قراری رہ گئی اتنا ملیے خاک میں جو خاک میں ڈھونڈے کوئی خاکساری خاک کی گر خاکساری رہ گئی آؤ گر آنا ہے کیوں گن گن کے رکھتے ہو قدم اور کوئی دم کی ہے یاں دم شماری رہ گئی ہو گیا جس دن سے اپنے دل پر اس کو اختیار اختیار اپنا گیا بے اختیاری رہ گئی جب قدم اس کافر بدکیش کی جانب بڑھے دور پہنچے سو قدم پرہیزگاری رہ گئی کھینچتے ہی تیغ ادا کے دم ہوا اپنا ہوا آہ دل میں آرزوئے زخم کاری رہ گئی اور تو غم خوار سارے کر چکے غم خوارگی اب فقط ہے ایک غم کی غم گساری رہ گئی شکوہ عیاری کا یاروں سے بجا ہے اے ظفرؔ اس زمانے میں یہی ہے رسم یاری رہ گئی " jigar-ke-tukde-hue-jal-ke-dil-kabaab-huaa-bahadur-shah-zafar-ghazals," جگر کے ٹکڑے ہوئے جل کے دل کباب ہوا یہ عشق جان کو میرے کوئی عذاب ہوا کیا جو قتل مجھے تم نے خوب کام کیا کہ میں عذاب سے چھوٹا تمہیں ثواب ہوا کبھی تو شیفتہ اس نے کہا کبھی شیدا غرض کہ روز نیا اک مجھے خطاب ہوا پیوں نہ رشک سے خوں کیونکہ دم بہ دم اپنا کہ ساتھ غیر کے وہ آج ہم شراب ہوا تمہارے لب کے لب جام نے لیے بوسے لب اپنے کاٹا کیا میں نہ کامیاب ہوا گلی گلی تری خاطر پھرا بچشم پر آب لگا کے تجھ سے دل اپنا بہت خراب ہوا تری گلی میں بہائے پھرے ہے سیل سرشک ہمارا کاسۂ سر کیا ہوا حباب ہوا جواب خط کے نہ لکھنے سے یہ ہوا معلوم کہ آج سے ہمیں اے نامہ بر جواب ہوا منگائی تھی تری تصویر دل کی تسکیں کو مجھے تو دیکھتے ہی اور اضطراب ہوا ستم تمہارے بہت اور دن حساب کا ایک مجھے ہے سوچ یہ ہی کس طرح حساب ہوا ظفرؔ بدل کے ردیف اور تو غزل وہ سنا کہ جس کا تجھ سے ہر اک شعر انتخاب ہوا " vo-sau-sau-atkhaton-se-ghar-se-baahar-do-qadam-nikle-bahadur-shah-zafar-ghazals," وہ سو سو اٹھکھٹوں سے گھر سے باہر دو قدم نکلے بلا سے اس کی گر اس میں کسی مضطر کا دم نکلے کہاں آنسو کے قطرے خون دل سے ہیں بہم نکلے یہ دل میں جمع تھے مدت سے کچھ پیکان غم نکلے مرے مضمون سوز دل سے خط سب جل گیا میرا قلم سے حرف جو نکلے شرر ہی یک قلم نکلے نکال اے چارہ گر تو شوق سے لیکن سر پیکاں ادھر نکلے جگر سے تیر ادھر قالب سے دم نکلے تصور سے لب لعلیں کے تیرے ہم اگر رو دیں تو جو لخت جگر آنکھوں سے نکلے اک رقم نکلے نہیں ڈرتے اگر ہوں لاکھ زنداں یار زنداں سے جنون اب تو مثال نالۂ زنجیر ہم نکلے جگر پر داغ لب پر دود دل اور اشک دامن میں تری محفل سے ہم مانند شمع صبح دم نکلے اگر ہوتا زمانہ گیسوئے شب رنگ کا تیرے مری شب دیز سودا کا زیادہ تر قدم نکلے کجی جن کی طبیعت میں ہے کب ہوتی وہ سیدھی ہے کہو شاخ گل تصویر سے کس طرح خم نکلے شمار اک شب کیا ہم نے جو اپنے دل کے داغوں سے تو انجم چرخ ہشتم کے بہت سے ان سے کم نکلے خدا کے واسطے زاہد اٹھا پردہ نہ کعبہ کا کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے تمنا ہے یہ دل میں جب تلک ہے دم میں دم اپنے ظفرؔ منہ سے ہمارے نام اس کا دم بہ دم نکلے " na-daaim-gam-hai-ne-ishrat-kabhii-yuun-hai-kabhii-vuun-hai-bahadur-shah-zafar-ghazals," نہ دائم غم ہے نے عشرت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے تبدل یاں ہے ہر ساعت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے گریباں چاک ہوں گاہے اڑاتا خاک ہوں گاہے لیے پھرتی مجھے وحشت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے ابھی ہیں وہ مرے ہم دم ابھی ہو جائیں گے دشمن نہیں اک وضع پر صحبت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے جو شکل شیشہ گریاں ہوں تو مثل جام خنداں ہوں یہی ہے یاں کی کیفیت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے کسی وقت اشک ہیں جاری کسی وقت آہ اور زاری غرض حال غم فرقت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے کوئی دن ہے بہار گل پھر آخر ہے خزاں بالکل چمن ہے منزل عبرت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے ظفرؔ اک بات پر دائم وہ ہووے کس طرح قائم جو اپنی پھیرتا نیت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے " tukde-nahiin-hain-aansuon-men-dil-ke-chaar-paanch-bahadur-shah-zafar-ghazals," ٹکڑے نہیں ہیں آنسوؤں میں دل کے چار پانچ سرخاب بیٹھے پانی میں ہیں مل کے چار پانچ منہ کھولے ہیں یہ زخم جو بسمل کے چار پانچ پھر لیں گے بوسے خنجر قاتل کے چار پانچ کہنے ہیں مطلب ان سے ہمیں دل کے چار پانچ کیا کہیے ایک منہ ہیں وہاں مل کے چار پانچ دریا میں گر پڑا جو مرا اشک ایک گرم بت خانے لب پہ ہو گئے ساحل کے چار پانچ دو چار لاشے اب بھی پڑے تیرے در پہ ہیں اور آگے دب چکے ہیں تلے گل کے چار پانچ راہیں ہیں دو مجاز و حقیقت ہے جن کا نام رستے نہیں ہیں عشق کی منزل کے چار پانچ رنج و تعب مصیبت و غم یاس و درد و داغ آہ و فغاں رفیق ہیں یہ دل کے چار پانچ دو تین جھٹکے دوں جوں ہی وحشت کے زور میں زنداں میں ٹکڑے ہوویں سلاسل کے چار پانچ فرہاد و قیس و وامق و عذرا تھے چار دوست اب ہم بھی آ ملے تو ہوئے مل کے چار پانچ ناز و ادا و غمزہ نگہ پنجۂ مژہ ماریں ہیں ایک دل کو یہ پل پل کے چار پانچ ایما ہے یہ کہ دیویں گے نو دن کے بعد دل لکھ بھیجے خط میں شعر جو بیدل کے چار پانچ ہیرے کے نورتن نہیں تیرے ہوئے ہیں جما یہ چاندنی کے پھول مگر کھل کے چار پانچ مینائے نہہ فلک ہے کہاں بادۂ نشاط شیشے ہیں یہ تو زہر ہلاہل کے چار پانچ ناخن کریں ہیں زخموں کو دو دو ملا کے ایک تھے آٹھ دس سو ہو گئے اب چھل کے چار پانچ گر انجم فلک سے بھی تعداد کیجئے نکلیں زیادہ داغ مرے دل کے چار پانچ ماریں جو سر پہ سل کو اٹھا کر قلق سے ہم دس پانچ ٹکڑے سر کے ہوں اور سل کے چار پانچ مان اے ظفرؔ تو پنج تن و چار یار کو ہیں صدر دین کی یہی محفل کے چار پانچ " yaan-khaak-kaa-bistar-hai-gale-men-kafanii-hai-bahadur-shah-zafar-ghazals," یاں خاک کا بستر ہے گلے میں کفنی ہے واں ہاتھ میں آئینہ ہے گل پیرہنی ہے ہاتھوں سے ہمیں عشق کے دن رات نہیں چین فریاد و فغاں دن کو ہے شب نعرہ زنی ہے ہشیار ہو غفلت سے تو غافل نہ ہو اے دل اپنی تو نظر میں یہ جگہ بے وطنی ہے کچھ کہہ نہیں سکتا ہوں زباں سے کہ ذرا دیکھ کیا جائے ہے جس جائے نہ کچھ دم زدنی ہے مژگاں پہ مرے لخت جگر ہی نہیں یارو اس تار سے وہ رشتہ عقیق یمنی ہے لکھ اور غزل قافیے کو پھیر ظفرؔ تو اب طبع کی دریا کی تری موج زنی ہے " itnaa-na-apne-jaame-se-baahar-nikal-ke-chal-bahadur-shah-zafar-ghazals," اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل کم ظرف پر غرور ذرا اپنا ظرف دیکھ مانند جوش غم نہ زیادہ ابل کے چل فرصت ہے اک صدا کی یہاں سوز دل کے ساتھ اس پر سپند وار نہ اتنا اچھل کے چل یہ غول وش ہیں ان کو سمجھ تو نہ رہ نما سائے سے بچ کے اہل فریب و دغل کے چل اوروں کے بل پہ بل نہ کر اتنا نہ چل نکل بل ہے تو بل کے بل پہ تو کچھ اپنے بل کے چل انساں کو کل کا پتلا بنایا ہے اس نے آپ اور آپ ہی وہ کہتا ہے پتلے کو کل کے چل پھر آنکھیں بھی تو دیں ہیں کہ رکھ دیکھ کر قدم کہتا ہے کون تجھ کو نہ چل چل سنبھل کے چل ہے طرفہ امن گاہ نہاں خانۂ عدم آنکھوں کے روبرو سے تو لوگوں کے ٹل کے چل کیا چل سکے گا ہم سے کہ پہچانتے ہیں ہم تو لاکھ اپنی چال کو ظالم بدل کے چل ہے شمع سر کے بل جو محبت میں گرم ہو پروانہ اپنے دل سے یہ کہتا ہے جل کے چل بلبل کے ہوش نکہت گل کی طرح اڑا گلشن میں میرے ساتھ ذرا عطر مل کے چل گر قصد سوئے دل ہے ترا اے نگاہ یار دو چار تیر پیک سے آگے اجل کے چل جو امتحان طبع کرے اپنا اے ظفرؔ تو کہہ دو اس کو طور پہ تو اس غزل کے چل " hai-justujuu-ki-khuub-se-hai-khuub-tar-kahaan-altaf-hussain-hali-ghazals," ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں ہیں دور جام اول شب میں خودی سے دور ہوتی ہے آج دیکھیے ہم کو سحر کہاں یا رب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں اک عمر چاہیئے کہ گوارا ہو نیش عشق رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں بس ہو چکا بیاں کسل و رنج راہ کا خط کا مرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں کون و مکاں سے ہے دل وحشی کنارہ گیر اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں حالیؔ نشاط نغمہ و مے ڈھونڈھتے ہو اب آئے ہو وقت صبح رہے رات بھر کہاں " ab-vo-aglaa-saa-iltifaat-nahiin-altaf-hussain-hali-ghazals," اب وہ اگلا سا التفات نہیں جس پہ بھولے تھے ہم وہ بات نہیں مجھ کو تم سے اعتماد وفا تم کو مجھ سے پر التفات نہیں رنج کیا کیا ہیں ایک جان کے ساتھ زندگی موت ہے حیات نہیں یوں ہی گزرے تو سہل ہے لیکن فرصت غم کو بھی ثبات نہیں کوئی دل سوز ہو تو کیجے بیاں سرسری دل کی واردات نہیں ذرہ ذرہ ہے مظہر خورشید جاگ اے آنکھ دن ہے رات نہیں قیس ہو کوہ کن ہو یا حالیؔ عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں " us-ke-jaate-hii-ye-kyaa-ho-gaii-ghar-kii-suurat-altaf-hussain-hali-ghazals," اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت کس سے پیمان وفا باندھ رہی ہے بلبل کل نہ پہچان سکے گی گل تر کی صورت ہے غم روز جدائی نہ نشاط شب وصل ہو گئی اور ہی کچھ شام و سحر کی صورت اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت دیکھیے شیخ مصور سے کھچے یا نہ کھچے صورت اور آپ سے بے عیب بشر کی صورت واعظو آتش دوزخ سے جہاں کو تم نے یہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت کیا خبر زاہد قانع کو کہ کیا چیز ہے حرص اس نے دیکھی ہی نہیں کیسۂ زر کی صورت میں بچا تیر حوادث سے نشانہ بن کر آڑے آئی مری تسلیم سپر کی صورت شوق میں اس کے مزا درد میں اس کے لذت ناصحو اس سے نہیں کوئی مفر کی صورت حملہ اپنے پہ بھی اک بعد ہزیمت ہے ضرور رہ گئی ہے یہی اک فتح و ظفر کی صورت رہنماؤں کے ہوئے جاتے ہیں اوسان خطا راہ میں کچھ نظر آتی ہے خطر کی صورت یوں تو آیا ہے تباہی میں یہ بیڑا سو بار پر ڈراتی ہے بہت آج بھنور کی صورت ان کو حالیؔ بھی بلاتے ہیں گھر اپنے مہماں دیکھنا آپ کی اور آپ کے گھر کی صورت " kah-do-koii-saaqii-se-ki-ham-marte-hain-pyaase-altaf-hussain-hali-ghazals," کہہ دو کوئی ساقی سے کہ ہم مرتے ہیں پیاسے گر مے نہیں دے زہر ہی کا جام بلا سے جو کچھ ہے سو ہے اس کے تغافل کی شکایت قاصد سے ہے تکرار نہ جھگڑا ہے صبا سے دلالہ نے امید دلائی تو ہے لیکن دیتے نہیں کچھ دل کو تسلی یہ دلاسے ہے وصل تو تقدیر کے ہاتھ اے شہ خوباں یاں ہیں تو فقط تیری محبت کے ہیں پیاسے پیاسے ترے سرگشتہ ہیں جو راہ طلب میں ہونٹوں کو وہ کرتے نہیں تر آب بقا سے در گزرے دوا سے تو بھروسے پہ دعا کے در گزریں دعا سے بھی دعا ہے یہ خدا سے اک درد ہو بس آٹھ پہر دل میں کہ جس کو تخفیف دوا سے ہو نہ تسکین دعا سے حالیؔ دل انساں میں ہے گم دولت کونین شرمندہ ہوں کیوں غیر کے احسان و عطا سے جب وقت پڑے دیجیے دستک در دل پر جھکئے فقرا سے نہ جھمکیے امرا سے " dil-ko-dard-aashnaa-kiyaa-tuu-ne-altaf-hussain-hali-ghazals," دل کو درد آشنا کیا تو نے درد دل کو دوا کیا تو نے طبع انساں کو دی سرشت وفا خاک کو کیمیا کیا تو نے وصل جاناں محال ٹھہرایا قتل عاشق روا کیا تو نے تھا نہ جز غم بساط عاشق میں غم کو راحت فزا کیا تو نے جان تھی اک وبال فرقت میں شوق کو جاں گزا کیا تو نے تھی محبت میں ننگ منت غیر جذب دل کو رسا کیا تو نے راہ زاہد کو جب کہیں نہ ملی در مے خانہ وا کیا تو نے قطع ہونے ہی جب لگا پیوند غیر کو آشنا کیا تو نے تھی جہاں کارواں کو دینی راہ عشق کو رہنما کیا تو نے ناؤ بھر کر جہاں ڈبونی تھی عقل کو ناخدا کیا تو نے بڑھ گئی جب پدر کو مہر پسر اس کو اس سے جدا کیا تو نے جب ہوا ملک و مال رہزن ہوش بادشہ کو گدا کیا تو نے جب ملی کام جاں کو لذت درد درد کو بے دوا کیا تو نے جب دیا راہرو کو ذوق طلب سعی کو نارسا کیا تو نے پردۂ چشم تھے حجاب بہت حسن کو خود نما کیا تو نے عشق کو تاب انتظار نہ تھی غرفہ اک دل میں وا کیا تو نے حرم آباد اور دیر خراب جو کیا سب بجا کیا تو نے سخت افسردہ طبع تھی احباب ہم کو جادو نوا کیا تو نے پھر جو دیکھا تو کچھ نہ تھا یا رب کون پوچھے کہ کیا کیا تو نے حالیؔ اٹھا ہلا کے محفل کو آخر اپنا کہا کیا تو نے " ranj-aur-ranj-bhii-tanhaaii-kaa-altaf-hussain-hali-ghazals," رنج اور رنج بھی تنہائی کا وقت پہنچا مری رسوائی کا عمر شاید نہ کرے آج وفا کاٹنا ہے شب تنہائی کا تم نے کیوں وصل میں پہلو بدلا کس کو دعویٰ ہے شکیبائی کا ایک دن راہ پہ جا پہنچے ہم شوق تھا بادیہ پیمائی کا اس سے نادان ہی بن کر ملیے کچھ اجارہ نہیں دانائی کا سات پردوں میں نہیں ٹھہرتی آنکھ حوصلہ کیا ہے تماشائی کا درمیاں پائے نظر ہے جب تک ہم کو دعویٰ نہیں بینائی کا کچھ تو ہے قدر تماشائی کی ہے جو یہ شوق خود آرائی کا اس کو چھوڑا تو ہے لیکن اے دل مجھ کو ڈر ہے تری خود رائی کا بزم دشمن میں نہ جی سے اترا پوچھنا کیا تری زیبائی کا یہی انجام تھا اے فصل خزاں گل و بلبل کی شناسائی کا مدد اے جذبۂ توفیق کہ یاں ہو چکا کام توانائی کا محتسب عذر بہت ہیں لیکن اذن ہم کو نہیں گویائی کا ہوں گے حالیؔ سے بہت آوارہ گھر ابھی دور ہے رسوائی کا " haq-vafaa-ke-jo-ham-jataane-lage-altaf-hussain-hali-ghazals," حق وفا کے جو ہم جتانے لگے آپ کچھ کہہ کے مسکرانے لگے تھا یہاں دل میں طعن وصل عدو عذر ان کی زباں پہ آنے لگے ہم کو جینا پڑے گا فرقت میں وہ اگر ہمت آزمانے لگے ڈر ہے میری زباں نہ کھل جائے اب وہ باتیں بہت بنانے لگے جان بچتی نظر نہیں آتی غیر الفت بہت جتانے لگے تم کو کرنا پڑے گا عذر جفا ہم اگر درد دل سنانے لگے سخت مشکل ہے شیوۂ تسلیم ہم بھی آخر کو جی چرانے لگے جی میں ہے لوں رضائے پیر مغاں قافلے پھر حرم کو جانے لگے سر باطن کو فاش کر یا رب اہل ظاہر بہت ستانے لگے وقت رخصت تھا سخت حالیؔ پر ہم بھی بیٹھے تھے جب وہ جانے لگے " hai-ye-takiya-tirii-ataaon-par-altaf-hussain-hali-ghazals," ہے یہ تکیہ تری عطاؤں پر وہی اصرار ہے خطاؤں پر رہیں نا آشنا زمانہ سے حق ہے تیرا یہ آشناؤں پر رہروو با خبر رہو کہ گماں رہزنی کا ہے رہنماؤں پر ہے وہ دیر آشنا تو عیب ہے کیا مرتے ہیں ہم انہیں اداؤں پر اس کے کوچہ میں ہیں وہ بے پر و بال اڑتے پھرتے ہیں جو ہواؤں پر شہسواروں پہ بند ہے جو راہ وقف ہے یاں برہنہ پاؤں پر نہیں منعم کو اس کی بوند نصیب مینہ برستا ہے جو گداؤں پر نہیں محدود بخششیں تیری زاہدوں پر نہ پارساؤں پر حق سے درخواست عفو کی حالیؔ کیجے کس منہ سے ان خطاؤں پر " vasl-kaa-us-ke-dil-e-zaar-tamannaaii-hai-altaf-hussain-hali-ghazals," وصل کا اس کے دل زار تمنائی ہے نہ ملاقات ہے جس سے نہ شناسائی ہے قطع امید نے دل کر دیے یکسو صد شکر شکل مدت میں یہ اللہ نے دکھلائی ہے قوت دست خدائی ہے شکیبائی میں وقت جب آ کے پڑا ہے یہی کام آئی ہے ڈر نہیں غیر کا جو کچھ ہے سو اپنا ڈر ہے ہم نے جب کھائی ہے اپنے ہی سے زک کھائی ہے نشہ میں چور نہ ہوں جھانجھ میں مخمور نہ ہوں پند یہ پیر خرابات نے فرمائی ہے نظر آتی نہیں اب دل میں تمنا کوئی بعد مدت کے تمنا مری بر آئی ہے بات سچی کہی اور انگلیاں اٹھیں سب کی سچ میں حالیؔ کوئی رسوائی سی رسوائی ہے " jiite-jii-maut-ke-tum-munh-men-na-jaanaa-hargiz-altaf-hussain-hali-ghazals," جیتے جی موت کے تم منہ میں نہ جانا ہرگز دوستو دل نہ لگانا نہ لگانا ہرگز عشق بھی تاک میں بیٹھا ہے نظر بازوں کی دیکھنا شیر سے آنکھیں نہ لڑانا ہرگز ہاتھ ملنے نہ ہوں پیری میں اگر حسرت سے تو جوانی میں نہ یہ روگ بسانا ہرگز جتنے رستے تھے ترے ہو گئے ویراں اے عشق آ کے ویرانوں میں اب گھر نہ بسانا ہرگز کوچ سب کر گئے دلی سے ترے قدر شناس قدر یاں رہ کے اب اپنی نہ گنوانا ہرگز تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز ڈھونڈتا ہے دل شوریدہ بہانے مطرب دردانگیز غزل کوئی نہ گانا ہرگز صحبتیں اگلی مصور ہمیں یاد آئیں گی کوئی دلچسپ مرقع نہ دکھانا ہرگز لے کے داغ آئے گا سینے پہ بہت اے سیاح دیکھ اس شہر کے کھنڈروں میں نہ جانا ہرگز چپے چپے پہ ہیں یاں گوہر یکتا تہ خاک دفن ہوگا کہیں اتنا نہ خزانہ ہرگز مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو اے فلک اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز وہ تو بھولے تھے ہمیں ہم بھی انہیں بھول گئے ایسا بدلا ہے نہ بدلے گا زمانہ ہرگز ہم کو گر تو نے رلایا تو رلایا اے چرخ ہم پہ غیروں کو تو ظالم نہ ہنسانا ہرگز آخری دور میں بھی تجھ کو قسم ہے ساقی بھر کے اک جام نہ پیاسوں کو پلانا ہرگز بخت سوئے ہیں بہت جاگ کے اے دور زماں نہ ابھی نیند کے ماتوں کو جگانا ہرگز کبھی اے علم و ہنر گھر تھا تمہارا دلی ہم کو بھولے ہو تو گھر بھول نہ جانا ہرگز شاعری مر چکی اب زندہ نہ ہوگی یارو یاد کر کر کے اسے جی نہ کڑھانا ہرگز غالبؔ و شیفتہؔ و نیرؔ و آزردہؔ و ذوقؔ اب دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانا ہرگز مومنؔ و علویؔ و صہبائیؔ و ممنوںؔ کے بعد شعر کا نام نہ لے گا کوئی دانا ہرگز کر دیا مر کے یگانوں نے یگانہ ہم کو ورنہ یاں کوئی نہ تھا ہم میں یگانہ ہرگز داغؔ و مجروحؔ کو سن لو کہ پھر اس گلشن میں نہ سنے گا کوئی بلبل کا ترانہ ہرگز رات آخر ہوئی اور بزم ہوئی زیر و زبر اب نہ دیکھو گے کبھی لطف شبانہ ہرگز بزم ماتم تو نہیں بزم سخن ہے حالیؔ یاں مناسب نہیں رو رو کے رلانا ہرگز " koii-mahram-nahiin-miltaa-jahaan-men-altaf-hussain-hali-ghazals," کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں قفس میں جی نہیں لگتا کسی طرح لگا دو آگ کوئی آشیاں میں کوئی دن بوالہوس بھی شاد ہو لیں دھرا کیا ہے اشارات نہاں میں کہیں انجام آ پہنچا وفا کا گھلا جاتا ہوں اب کے امتحاں میں نیا ہے لیجئے جب نام اس کا بہت وسعت ہے میری داستاں میں دل پر درد سے کچھ کام لوں گا اگر فرصت ملی مجھ کو جہاں میں بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں " hashr-tak-yaan-dil-shakebaa-chaahiye-altaf-hussain-hali-ghazals," حشر تک یاں دل شکیبا چاہئے کب ملیں دلبر سے دیکھا چاہئے ہے تجلی بھی نقاب روئے یار اس کو کن آنکھوں سے دیکھا چاہئے غیر ممکن ہے نہ ہو تاثیر غم حال دل پھر اس کو لکھا چاہئے ہے دل افگاروں کی دل داری ضرور گر نہیں الفت مدارا چاہئے ہے کچھ اک باقی خلش امید کی یہ بھی مٹ جائے تو پھر کیا چاہئے دوستوں کی بھی نہ ہو پروا جسے بے نیازی اس کی دیکھا چاہئے بھا گئے ہیں آپ کے انداز و ناز کیجئے اغماض جتنا چاہئے شیخ ہے ان کی نگہ جادو بھری صحبت رنداں سے بچنا چاہئے لگ گئی چپ حالیؔ رنجور کو حال اس کا کس سے پوچھا چاہئے " haqiiqat-mahram-e-asraar-se-puuchh-altaf-hussain-hali-ghazals," حقیقت محرم اسرار سے پوچھ مزا انگور کا مے خوار سے پوچھ وفا اغیار کی اغیار سے سن مری الفت در و دیوار سے پوچھ ہماری آہ بے تاثیر کا حال کچھ اپنے دل سے کچھ اغیار سے پوچھ دلوں میں ڈالنا ذوق اسیری کمند گیسوئے خم دار سے پوچھ دل مہجور سے سن لذت وصل نشاط عافیت بیمار سے پوچھ نہیں جز گریۂ غم حاصل عشق ہماری چشم دریا بار سے پوچھ نہیں آب بقا جز جلوۂ دوست کسی لب تشنۂ دیدار سے پوچھ فریب وعدۂ دل دار کی قدر شہید خنجر انکار سے پوچھ فغان شوق کو مانع نہیں وصل یہ نکتہ عندلیب زار سے پوچھ تصور میں کیا کرتے ہیں جو ہم وہ تصویر خیال یار سے پوچھ متاع بے بہا ہے شعر حالیؔ مری قیمت مری گفتار سے پوچھ " dil-se-khayaal-e-dost-bhulaayaa-na-jaaegaa-altaf-hussain-hali-ghazals," دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا اے دل رضائے غیر ہے شرط رضائے دوست زنہار بار عشق اٹھایا نہ جائے گا دیکھی ہیں ایسی ان کی بہت مہربانیاں اب ہم سے منہ میں موت کے جایا نہ جائے گا مے تند و ظرف حوصلۂ اہل بزم تنگ ساقی سے جام بھر کے پلایا نہ جائے گا راضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی مگر دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا کیوں چھیڑتے ہو ذکر نہ ملنے کا رات کے پوچھیں گے ہم سبب تو بتایا نہ جائے گا بگڑیں نہ بات بات پہ کیوں جانتے ہیں وہ ہم وہ نہیں کہ ہم کو منایا نہ جائے گا ملنا ہے آپ سے تو نہیں حصر غیر پر کس کس سے اختلاط بڑھایا نہ جائے گا مقصود اپنا کچھ نہ کھلا لیکن اس قدر یعنی وہ ڈھونڈتے ہیں جو پایا نہ جائے گا جھگڑوں میں اہل دیں کے نہ حالیؔ پڑیں بس آپ قصہ حضور سے یہ چکایا نہ جائے گا " go-javaanii-men-thii-kaj-raaii-bahut-altaf-hussain-hali-ghazals," گو جوانی میں تھی کج رائی بہت پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت زیر برقع تو نے کیا دکھلا دیا جمع ہیں ہر سو تماشائی بہت ہٹ پہ اس کی اور پس جاتے ہیں دل راس ہے کچھ اس کو خود رائی بہت سرو یا گل آنکھ میں جچتے نہیں دل پہ ہے نقش اس کی رعنائی بہت چور تھا زخموں میں اور کہتا تھا دل راحت اس تکلیف میں پائی بہت آ رہی ہے چاہ یوسف سے صدا دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت وصل کے ہو ہو کے ساماں رہ گئے مینہ نہ برسا اور گھٹا چھائی بہت جاں نثاری پر وہ بول اٹھے مری ہیں فدائی کم تماشائی بہت ہم نے ہر ادنیٰ کو آلا کر دیا خاکساری اپنی کام آئی بہت کر دیا چپ واقعات دہر نے تھی کبھی ہم میں بھی گویائی بہت گھٹ گئیں خود تلخیاں ایام کی یا گئی کچھ بڑھ شکیبائی بہت ہم نہ کہتے تھے کہ حالیؔ چپ رہو راست گوئی میں ہے رسوائی بہت " main-to-main-gair-ko-marne-se-ab-inkaar-nahiin-altaf-hussain-hali-ghazals," میں تو میں غیر کو مرنے سے اب انکار نہیں اک قیامت ہے ترے ہاتھ میں تلوار نہیں کچھ پتا منزل مقصود کا پایا ہم نے جب یہ جانا کہ ہمیں طاقت رفتار نہیں چشم بد دور بہت پھرتے ہیں اغیار کے ساتھ غیرت عشق سے اب تک وہ خبردار نہیں ہو چکا ناز اٹھانے میں ہے گو کام تمام للہ الحمد کہ باہم کوئی تکرار نہیں مدتوں رشک نے اغیار سے ملنے نہ دیا دل نے آخر یہ دیا حکم کہ کچھ عار نہیں اصل مقصود کا ہر چیز میں ملتا ہے پتا ورنہ ہم اور کسی شے کے طلب گار نہیں بات جو دل میں چھپاتے نہیں بنتی حالیؔ سخت مشکل ہے کہ وہ قابل اظہار نہیں " ishq-ko-tark-e-junuun-se-kyaa-garaz-altaf-hussain-hali-ghazals," عشق کو ترک جنوں سے کیا غرض چرخ گرداں کو سکوں سے کیا غرض دل میں ہے اے خضر گر صدق طلب راہرو کو رہنموں سے کیا غرض حاجیو ہے ہم کو گھر والے سے کام گھر کے محراب و ستوں سے کیا غرض گنگنا کر آپ رو پڑتے ہیں جو ان کو چنگ و ارغنوں سے کیا غرض نیک کہنا نیک جس کو دیکھنا ہم کو تفتیش دروں سے کیا غرض دوست ہیں جب زخم دل سے بے خبر ان کو اپنے اشک خوں سے کیا غرض عشق سے ہے مجتنب زاہد عبث شیر کو صید زبوں سے کیا غرض کر چکا جب شیخ تسخیر قلوب اب اسے دنیائے دوں سے کیا غرض آئے ہو حالیؔ پئے تسلیم یاں آپ کو چون و چگوں سے کیا غرض " kabk-o-qumrii-men-hai-jhagdaa-ki-chaman-kis-kaa-hai-altaf-hussain-hali-ghazals," کبک و قمری میں ہے جھگڑا کہ چمن کس کا ہے کل بتا دے گی خزاں یہ کہ وطن کس کا ہے فیصلہ گردش دوراں نے کیا ہے سو بار مرو کس کا ہے بدخشان و ختن کس کا ہے دم سے یوسف کے جب آباد تھا یعقوب کا گھر چرخ کہتا تھا کہ یہ بیت حزن کس کا ہے مطمئن اس سے مسلماں نہ مسیحی نہ یہود دوست کیا جانئے یہ چرخ کہن کس کا ہے واعظ اک عیب سے تو پاک ہے یا ذات خدا ورنہ بے عیب زمانہ میں چلن کس کا ہے آج کچھ اور دنوں سے ہے سوا استغراق عزم تسخیر پھر اے شیخ زمن کس کا ہے آنکھ پڑتی ہے ہر اک اہل نظر کی تم پر تم میں روپ اے گل و نسرین و سمن کس کا ہے عشق ادھر عقل ادھر دھن میں چلے ہیں تیری رستہ اب دیکھیے دونوں میں کٹھن کس کا ہے شان دیکھی نہیں گر تو نے چمن میں اس کی ولولہ تجھ میں یہ اے مرغ چمن کس کا ہے ہیں فصاحت میں مثل واعظ و حالیؔ دونوں دیکھنا یہ ہے کہ بے لاگ سخن کس کا ہے " vaan-agar-jaaen-to-le-kar-jaaen-kyaa-altaf-hussain-hali-ghazals," واں اگر جائیں تو لے کر جائیں کیا منہ اسے ہم جا کے یہ دکھلائیں کیا دل میں ہے باقی وہی حرص گناہ پھر کیے سے اپنے ہم پچھتائیں کیا آؤ لیں اس کو ہمیں جا کر منا اس کی بے پروائیوں پر جائیں کیا دل کو مسجد سے نہ مندر سے ہے انس ایسے وحشی کو کہیں بہلائیں کیا جانتا دنیا کو ہے اک کھیل تو کھیل قدرت کے تجھے دکھلائیں کیا عمر کی منزل تو جوں توں کٹ گئی مرحلے اب دیکھیے پیش آئیں کیا دل کو سب باتوں کی ہے ناصح خبر سمجھے سمجھائے کو بس سمجھائیں کیا مان لیجے شیخ جو دعویٰ کرے اک بزرگ دیں کو ہم جھٹلائیں کیا ہو چکے حالیؔ غزل خوانی کے دن راگنی بے وقت کی اب گائیں کیا " ghar-hai-vahshat-khez-aur-bastii-ujaad-altaf-hussain-hali-ghazals," گھر ہے وحشت خیز اور بستی اجاڑ ہو گئی ایک اک گھڑی تجھ بن پہاڑ آج تک قصر امل ہے ناتمام بندھ چکی ہے بارہا کھل کھل کے پاڑ ہے پہنچنا اپنا چوٹی تک محال اے طلب نکلا بہت اونچا پہاڑ کھیلنا آتا ہے ہم کو بھی شکار پر نہیں زاہد کوئی ٹٹی کی آڑ دل نہیں روشن تو ہیں کس کام کے سو شبستاں میں اگر روشن ہیں جھاڑ عید اور نوروز ہے سب دل کے ساتھ دل نہیں حاضر تو دنیا ہے اجاڑ کھیت رستے پر ہے اور رہ رو سوار کشت ہے سرسبز اور نیچی ہے باڑ بات واعظ کی کوئی پکڑی گئی ان دنوں کم تر ہے کچھ ہم پر لتاڑ تم نے حالیؔ کھول کر ناحق زباں کر لیا ساری خدائی سے بگاڑ " junuun-kaar-farmaa-huaa-chaahtaa-hai-altaf-hussain-hali-ghazals," جنوں کار فرما ہوا چاہتا ہے قدم دشت پیما ہوا چاہتا ہے دم گریہ کس کا تصور ہے دل میں کہ اشک اشک دریا ہوا چاہتا ہے خط آنے لگے شکوہ آمیز ان کے ملاپ ان سے گویا ہوا چاہتا ہے بہت کام لینے تھے جس دل سے ہم کو وہ صرف تمنا ہوا چاہتا ہے ابھی لینے پائے نہیں دم جہاں میں اجل کا تقاضا ہوا چاہتا ہے مجھے کل کے وعدے پہ کرتے ہیں رخصت کوئی وعدہ پورا ہوا چاہتا ہے فزوں تر ہے کچھ ان دنوں ذوق عصیاں در رحمت اب وا ہوا چاہتا ہے قلق گر یہی ہے تو راز نہانی کوئی دن میں رسوا ہوا چاہتا ہے وفا شرط الفت ہے لیکن کہاں تک؟ دل اپنا بھی تجھ سا ہوا چاہتا ہے بہت حظ اٹھاتا ہے دل تجھ سے مل کر قلق دیکھیے کیا ہوا چاہتا ہے غم رشک کو تلخ سمجھے تھے ہمدم سو وہ بھی گوارا ہوا چاہتا ہے بہت چین سے دن گزرتے ہیں حالیؔ کوئی فتنہ برپا ہوا چاہتا ہے " khuubiyaan-apne-men-go-be-intihaa-paate-hain-ham-altaf-hussain-hali-ghazals," خوبیاں اپنے میں گو بے انتہا پاتے ہیں ہم پر ہر اک خوبی میں داغ اک عیب کا پاتے ہیں ہم خوف کا کوئی نشاں ظاہر نہیں افعال میں گو کہ دل میں متصل خوف خدا پاتے ہیں ہم کرتے ہیں طاعت تو کچھ خواہاں نمائش کے نہیں پر گنہ چھپ چھپ کے کرنے میں مزا پاتے ہیں ہم دیدہ و دل کو خیانت سے نہیں رکھ سکتے باز گرچہ دست و پا کو اکثر بے خطا پاتے ہیں ہم دل میں درد عشق نے مدت سے کر رکھا ہے گھر پر اسے آلودۂ حرص و ہوا پاتے ہیں ہم ہو کے نادم جرم سے پھر جرم کرتے ہیں وہی جرم سے گو آپ کو نادم سدا پاتے ہیں ہم ہیں فدا ان دوستوں پر جن میں ہو صدق و صفا پر بہت کم آپ میں صدق و صفا پاتے ہیں ہم گو کسی کو آپ سے ہونے نہیں دیتے خفا اک جہاں سے آپ کو لیکن خفا پاتے ہیں ہم جانتے اپنے سوا سب کو ہیں بے مہر و وفا اپنے میں گر شمۂ مہر و وفا پاتے ہیں ہم بخل سے منسوب کرتے ہیں زمانہ کو سدا گر کبھی توفیق ایثار و عطا پاتے ہیں ہم ہو اگر مقصد میں ناکامی تو کر سکتے ہیں صبر درد خودکامی کو لیکن بے دوا پاتے ہیں ہم ٹھہرتے جاتے ہیں جتنے چشم عالم میں بھلے حال نفس دوں کا اتنا ہی برا پاتے ہیں ہم جس قدر جھک جھک کے ملتے ہیں بزرگ و خورد سے کبر و ناز اتنا ہی اپنے میں سوا پاتے ہیں ہم گو بھلائی کرکے ہم جنسوں سے خوش ہوتا ہے جی تہہ نشیں اس میں مگر درد ریا پاتے ہیں ہم ہے ردائے نیک نامی دوش پر اپنے مگر داغ رسوائی کے کچھ زیر ردا پاتے ہیں ہم راہ کے طالب ہیں پر بے راہ پڑتے ہیں قدم دیکھیے کیا ڈھونڈھتے ہیں اور کیا پاتے ہیں ہم نور کے ہم نے گلے دیکھے ہیں اے حالیؔ مگر رنگ کچھ تیری الاپوں میں نیا پاتے ہیں ہم " aage-badhe-na-qissa-e-ishq-e-butaan-se-ham-altaf-hussain-hali-ghazals-3," آگے بڑھے نہ قصۂ عشق بتاں سے ہم سب کچھ کہا مگر نہ کھلے راز داں سے ہم اب بھاگتے ہیں سایۂ عشق بتاں سے ہم کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے کچھ آسماں سے ہم ہنستے ہیں اس کے گریۂ بے اختیار پر بھولے ہیں بات کہہ کے کوئی راز داں سے ہم اب شوق سے بگڑ کے ہی باتیں کیا کرو کچھ پا گئے ہیں آپ کے طرز بیاں سے ہم جنت میں تو نہیں اگر یہ زخم تیغ عشق بدلیں گے تجھ کو زندگیٔ جاوداں سے ہم " baat-kuchh-ham-se-ban-na-aaii-aaj-altaf-hussain-hali-ghazals," بات کچھ ہم سے بن نہ آئی آج بول کر ہم نے منہ کی کھائی آج چپ پر اپنی بھرم تھے کیا کیا کچھ بات بگڑی بنی بنائی آج شکوہ کرنے کی خو نہ تھی اپنی پر طبیعت ہی کچھ بھر آئی آج بزم ساقی نے دی الٹ ساری خوب بھر بھر کے خم لنڈھائی آج معصیت پر ہے دیر سے یا رب نفس اور شرع میں لڑائی آج غالب آتا ہے نفس دوں یا شرع دیکھنی ہے تری خدائی آج چور ہے دل میں کچھ نہ کچھ یارو نیند پھر رات بھر نہ آئی آج زد سے الفت کی بچ کے چلنا تھا مفت حالیؔ نے چوٹ کھائی آج " dhuum-thii-apnii-paarsaaii-kii-altaf-hussain-hali-ghazals," دھوم تھی اپنی پارسائی کی کی بھی اور کس سے آشنائی کی کیوں بڑھاتے ہو اختلاط بہت ہم کو طاقت نہیں جدائی کی منہ کہاں تک چھپاؤ گے ہم سے تم کو عادت ہے خود نمائی کی لاگ میں ہیں لگاؤ کی باتیں صلح میں چھیڑ ہے لڑائی کی ملتے غیروں سے ہو ملو لیکن ہم سے باتیں کرو صفائی کی دل رہا پائے بند الفت دام تھی عبث آرزو رہائی کی دل بھی پہلو میں ہو تو یاں کس سے رکھئے امید دل ربائی کی شہر و دریا سے باغ و صحرا سے بو نہیں آتی آشنائی کی نہ ملا کوئی غارت ایماں رہ گئی شرم پارسائی کی بخت ہم داستانی شیدا تو نے آخر کو نارسائی کی صحبت گاہ گاہی رشکی تو نے بھی ہم سے بے وفائی کی موت کی طرح جس سے ڈرتے تھے ساعت آ پہنچی اس جدائی کی زندہ پھرنے کی ہے ہوس حالیؔ انتہا ہے یہ بے حیائی کی " burii-aur-bhalii-sab-guzar-jaaegii-altaf-hussain-hali-ghazals," بری اور بھلی سب گزر جائے گی یہ کشتی یوں ہی پار اتر جائے گی ملے گا نہ گلچیں کو گل کا پتا ہر اک پنکھڑی یوں بکھر جائے گی رہیں گے نہ ملاح یہ دن سدا کوئی دن میں گنگا اتر جائے گی ادھر ایک ہم اور زمانہ ادھر یہ بازی تو سو بسوے ہر جائے گی بناوٹ کی شیخی نہیں رہتی شیخ یہ عزت تو جائے گی پر جائے گی نہ پوری ہوئی ہیں امیدیں نہ ہوں یوں ہی عمر ساری گزر جائے گی سنیں گے نہ حالیؔ کی کب تک صدا یہی ایک دن کام کر جائے گی " kar-ke-biimaar-dii-davaa-tuu-ne-altaf-hussain-hali-ghazals," کر کے بیمار دی دوا تو نے جان سے پہلے دل لیا تو نے رہرو تشنہ لب نہ گھبرانا اب لیا چشمۂ بقا تو نے شیخ جب دل ہی دیر میں نہ لگا آ کے مسجد سے کیا لیا تو نے دور ہو اے دل مآل اندیش کھو دیا عمر کا مزا تو نے ایک بیگانہ وار کر کے نگاہ کیا کیا چشم آشنا تو نے دل و دیں کھو کے آئے تھے سوئے دیر یاں بھی سب کچھ دیا خدا تو نے خوش ہے امید خلد پر حالیؔ کوئی پوچھے کہ کیا کیا تو نے " gam-e-furqat-hii-men-marnaa-ho-to-dushvaar-nahiin-altaf-hussain-hali-ghazals," غم فرقت ہی میں مرنا ہو تو دشوار نہیں شادی وصل بھی عاشق کو سزاوار نہیں خوبروئی کے لیے زشتیٔ خو بھی ہے ضرور سچ تو یہ ہے کہ کوئی تجھ سا طرح دار نہیں قول دینے میں تامل نہ قسم سے انکار ہم کو سچا نظر آتا کوئی اقرار نہیں کل خرابات میں اک گوشہ سے آتی تھی صدا دل میں سب کچھ ہے مگر رخصت گفتار نہیں حق ہوا کس سے ادا اس کی وفاداری کا جس کے نزدیک جفا باعث آزار نہیں دیکھتے ہیں کہ پہنچتی ہے وہاں کون سی راہ کعبہ و دیر سے کچھ ہم کو سروکار نہیں ہوں گے قائل وہ ابھی مطلع ثانی سن کر جو تجلی میں یہ کہتے ہیں کہ تکرار نہیں " ibtidaa-se-ham-zaiif-o-naa-tavaan-paidaa-hue-meer-anees-ghazals," ابتدا سے ہم ضعیف و ناتواں پیدا ہوئے اڑ گیا جب رنگ رخ سے استخواں پیدا ہوئے خاکساری نے دکھائیں رفعتوں پر رفعتیں اس زمیں سے واہ کیا کیا آسماں پیدا ہوئے علم خالق کا خزانہ ہے میان کاف و نون ایک کن کہنے سے یہ کون و مکاں پیدا ہوئے ضبط دیکھو سب کی سن لی اور کچھ اپنی کہی اس زباں دانی پر ایسے بے زباں پیدا ہوئے شور بختی آئی حصے میں انہیں کے وا نصیب تلخ کامی کے لیے شیریں زباں پیدا ہوئے احتیاط جسم کیا انجام کو سوچو انیسؔ خاک ہونے کو یہ مشت استخواں پیدا ہوئے " ishaare-kyaa-nigah-e-naaz-e-dil-rubaa-ke-chale-meer-anees-ghazals," اشارے کیا نگۂ ناز دل ربا کے چلے ستم کے تیر چلے نیمچے قضا کے چلے گنہ کا بوجھ جو گردن پہ ہم اٹھا کے چلے خدا کے آگے خجالت سے سر جھکا کے چلے طلب سے عار ہے اللہ سے فقیروں کو کہیں جو ہو گیا پھیرا صدا سنا کے چلے پکارے کہتی تھی حسرت سے نعش عاشق کی صنم کدھر کو ہمیں خاک میں ملا کے چلے مثال ماہیٔ بے آب موجیں تڑپا کیں حباب پھوٹ کے روئے جو تم نہا کے چلے مقام یوں ہوا اس کارگاہ دنیا میں کہ جیسے دن کو مسافر سرا میں آ کے چلے کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی چلے جو راہ تو چیونٹی کو بھی بچا کے چلے ملا جنہیں انہیں افتادگی سے اوج ملا انہیں نے کھائی ہے ٹھوکر جو سر اٹھا کے چلے انیسؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے " miraa-raaz-e-dil-aashkaaraa-nahiin-meer-anees-ghazals," مرا راز دل آشکارا نہیں وہ دریا ہوں جس کا کنارا نہیں وہ گل ہوں جدا سب سے ہے جس کا رنگ وہ بو ہوں کہ جو آشکارا نہیں وہ پانی ہوں شیریں نہیں جس میں شور وہ آتش ہوں جس میں شرارہ نہیں بہت زال دنیا نے دیں بازیاں میں وہ نوجواں ہوں جو ہارا نہیں جہنم سے ہم بے قراروں کو کیا جو آتش پہ ٹھہرے وہ پارا نہیں فقیروں کی مجلس ہے سب سے جدا امیروں کا یاں تک گزارا نہیں سکندر کی خاطر بھی ہے سد باب جو دارا بھی ہو تو مدارا نہیں کسی نے تری طرح سے اے انیسؔ عروس سخن کو سنوارا نہیں " numuud-o-buud-ko-aaqil-habaab-samjhe-hain-meer-anees-ghazals," نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں وہ جاگتے ہیں جو دنیا کو خواب سمجھے ہیں کبھی برا نہیں جانا کسی کو اپنے سوا ہر ایک ذرے کو ہم آفتاب سمجھے ہیں عجب نہیں ہے جو شیشوں میں بھر کے لے جائیں ان آنسوؤں کو فرشتے گلاب سمجھے ہیں زمانہ ایک طرح پر کبھی نہیں رہتا اسی کو اہل جہاں انقلاب سمجھے ہیں انہیں کو دار بقا کی ہے پختگی کا خیال جو بے ثباتی دہر خراب سمجھے ہیں شباب کھو کے بھی غفلت وہی ہے پیروں کو سحر کی نیند کو بھی شب کا خواب سمجھے ہیں لحد میں آئیں نکیرین آئیں بسم اللہ ہر اک سوال کا ہم بھی جواب سمجھے ہیں اگر غرور ہے اعدا کو اپنی کثرت پر تو اس حیات کو ہم بھی حباب سمجھے ہیں نہ کچھ خبر ہے حدیثوں کی ان سفیہوں کو نہ یہ معانی ام الکتاب سمجھے ہیں کبھی شقی متمتع نہ ہوں گے دنیا سے جسے یہ آب اسے ہم سراب سمجھے ہیں مزیل عقل ہے دنیا کی دولت اے منعم اسی کے نشے کو صوفی شراب سمجھے ہیں حرارتیں ہیں مآل حلاوت دنیا وہ زہر ہے جسے ہم شہد ناب سمجھے ہیں انیسؔ مخمل و دیبا سے کیا فقیروں کو اسی زمین کو ہم فرش خواب سمجھے ہیں " shahiid-e-ishq-hue-qais-naamvar-kii-tarah-meer-anees-ghazals," شہید عشق ہوئے قیس نامور کی طرح جہاں میں عیب بھی ہم نے کیے ہنر کی طرح کچھ آج شام سے چہرہ ہے فق سحر کی طرح ڈھلا ہی جاتا ہوں فرقت میں دوپہر کی طرح سیاہ بختوں کو یوں باغ سے نکال اے چرخ کہ چار پھول تو دامن میں ہوں سپر کی طرح تمام خلق ہے خواہان آبرو اے رب چھپا مجھے صدف قبر میں گہر کی طرح تجھی کو دیکھوں گا جب تک ہیں برقرار آنکھیں مری نظر نہ پھرے گی تری نظر کی طرح ہماری قبر پہ کیا احتیاج‌ عنبر و عود سلگ رہا ہے ہر اک استخواں اگر کی طرح نحیف و زار ہیں کیا زور باغباں سے چلے جہاں بٹھا دیا بس رہ گئے شجر کی طرح تمہارے حلقہ بہ گوشوں میں ایک ہم بھی ہیں پڑا رہے یہ سخن کان میں گہر کی طرح انیسؔ یوں ہوا حال جوانی و پیری بڑھے تھے نخل کی صورت گرے ثمر کی طرح " khud-naved-e-zindagii-laaii-qazaa-mere-liye-meer-anees-ghazals," خود نوید زندگی لائی قضا میرے لیے شمع کشتہ ہوں فنا میں ہے بقا میرے لیے زندگی میں تو نہ اک دم خوش کیا ہنس بول کر آج کیوں روتے ہیں میرے آشنا میرے لیے کنج عزلت میں مثال آسیا ہوں گوشہ گیر رزق پہنچاتا ہے گھر بیٹھے خدا میرے لیے تو سراپا اجر اے زاہد میں سر تا پا گناہ باغ جنت تیری خاطر کربلا میرے لیے نام روشن کر کے کیونکر بجھ نہ جاتا مثل شمع نا موافق تھی زمانہ کی ہوا میرے لیے ہر نفس آئینۂ دل سے یہ آتی ہے صدا خاک تو ہو جا تو حاصل ہو جلا میرے لیے خاک سے ہے خاک کو الفت تڑپتا ہوں انیسؔ کربلا کے واسطے میں کربلا میرے لیے " sadaa-hai-fikr-e-taraqqii-buland-biinon-ko-meer-anees-ghazals," سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو ہم آسمان سے لائے ہیں ان زمینوں کو پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو خیال صنعت صانع ہے پاک بینوں کو کمال فقر بھی شایاں ہے پاک بینوں کو یہ خاک تخت ہے ہم بوریا نشینوں کو لحد میں سوئے ہیں چھوڑا ہے شہ نشینوں کو قضا کہاں سے کہاں لے گئی مکینوں کو یہ جھریاں نہیں ہاتھوں پہ ضعف پیری نے چنا ہے جامۂ اصلی کی آستینوں کو لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو بھلا تردد بے جا سے ان میں کیا حاصل اٹھا چکے ہیں زمیندار جن زمینوں کو انہیں کو آج نہیں بیٹھنے کی جا ملتی معاف کرتے تھے جو لوگ کل زمینوں کو یہ زائروں کو ملیں سرفرازیاں ورنہ کہاں نصیب کہ چومیں ملک جبینوں کو سجایا ہم نے مضامیں کے تازہ پھولوں سے بسا دیا ہے ان اجڑی ہوئی زمینوں کو لحد بھی دیکھیے ان میں نصیب ہو کہ نہ ہو کہ خاک چھان کے پایا ہے جن زمینوں کو زوال طاقت و موئے سپید و ضعف بصر انہیں سے پائے بشر موت کے قرینوں کو نہیں خبر انہیں مٹی میں اپنے ملنے کی زمیں میں گاڑ کے بیٹھے ہیں جو دفینوں کو خبر نہیں انہیں کیا بندوبست پختہ کی جو غصب کرنے لگے غیر کی زمینوں کو جہاں سے اٹھ گئے جو لوگ پھر نہیں ملتے کہاں سے ڈھونڈ کے اب لائیں ہم نشینوں کو نظر میں پھرتی ہے وہ تیرگی و تنہائی لحد کی خاک ہے سرمہ مآل بینوں کو خیال خاطر احباب چاہیئے ہر دم انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو " koii-aniis-koii-aashnaa-nahiin-rakhte-meer-anees-ghazals," کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے کسی کی آس بغیر از خدا نہیں رکھتے کسی کو کیا ہو دلوں کی شکستگی کی خبر کہ ٹوٹنے میں یہ شیشے صدا نہیں رکھتے فقیر دوست جو ہو ہم کو سرفراز کرے کچھ اور فرش بجز بوریا نہیں رکھتے مسافرو شب اول بہت ہے تیرہ و تار چراغ قبر ابھی سے جلا نہیں رکھتے وہ لوگ کون سے ہیں اے خدائے کون و مکاں سخن سے کان کو جو آشنا نہیں رکھتے مسافران عدم کا پتہ ملے کیونکر وہ یوں گئے کہ کہیں نقش پا نہیں رکھتے تپ دروں غم فرقت ورم پیادہ روی مرض تو اتنے ہیں اور کچھ دوا نہیں رکھتے کھلے گا حال انہیں جب کہ آنکھ بند ہوئی جو لوگ الفت مشکل کشا نہیں رکھتے جہاں کی لذت و خواہش سے ہے بشر کا خمیر وہ کون ہیں کہ جو حرص و ہوا نہیں رکھتے انیسؔ بیچ کے جاں اپنی ہند سے نکلو جو توشۂ سفر کربلا نہیں رکھتے " vajd-ho-bulbul-e-tasviir-ko-jis-kii-buu-se-meer-anees-ghazals," وجد ہو بلبل تصویر کو جس کی بو سے اوس سے گل رنگ کا دعویٰ کرے پھر کس رو سے شمع کے رونے پہ بس صاف ہنسی آتی ہے آتش دل کہیں کم ہوتی ہے چار آنسو سے ایک دن وہ تھا کہ تکیہ تھا کسی کا بازو اب سر اٹھتا ہی نہیں اپنے سر زانو سے نزع میں ہوں مری مشکل کرو آساں یاروں کھولو تعویذ شفا جلد مرے بازو سے شوخیٔ چشم کا تو کس کی ہے دیوانہ انیسؔ آنکھیں ملتا ہے جو یوں نقش کف آہو سے " abhii-farmaan-aayaa-hai-vahaan-se-jaun-eliya-ghazals," ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے کہ ہٹ جاؤں میں اپنے درمیاں سے یہاں جو ہے تنفس ہی میں گم ہے پرندے اڑ رہے ہیں شاخ جاں سے دریچہ باز ہے یادوں کا اور میں ہوا سنتا ہوں پیڑوں کی زباں سے زمانہ تھا وہ دل کی زندگی کا تری فرقت کے دن لاؤں کہاں سے تھا اب تک معرکہ باہر کا درپیش ابھی تو گھر بھی جانا ہے یہاں سے فلاں سے تھی غزل بہتر فلاں کی فلاں کے زخم اچھے تھے فلاں سے خبر کیا دوں میں شہر رفتگاں کی کوئی لوٹے بھی شہر رفتگاں سے یہی انجام کیا تجھ کو ہوس تھا کوئی پوچھے تو میر داستاں سے " dil-jo-hai-aag-lagaa-duun-us-ko-jaun-eliya-ghazals," دل جو ہے آگ لگا دوں اس کو اور پھر خود ہی ہوا دوں اس کو جو بھی ہے اس کو گنوا بیٹھا ہے میں بھلا کیسے گنوا دوں اس کو تجھ گماں پر جو عمارت کی تھی سوچتا ہوں کہ میں ڈھا دوں اس کو جسم میں آگ لگا دوں اس کے اور پھر خود ہی بجھا دوں اس کو ہجر کی نذر تو دینی ہے اسے سوچتا ہوں کہ بھلا دوں اس کو جو نہیں ہے مرے دل کی دنیا کیوں نہ میں جونؔ مٹا دوں اس کو " tumhaaraa-hijr-manaa-luun-agar-ijaazat-ho-jaun-eliya-ghazals," تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو جنوں وہی ہے وہی میں مگر ہے شہر نیا یہاں بھی شور مچا لوں اگر اجازت ہو کسے ہے خواہش مرہم گری مگر پھر بھی میں اپنے زخم دکھا لوں اگر اجازت ہو تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو " iizaa-dahii-kii-daad-jo-paataa-rahaa-huun-main-jaun-eliya-ghazals," ایذا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں ہر ناز آفریں کو ستاتا رہا ہوں میں اے خوش خرام پاؤں کے چھالے تو گن ذرا تجھ کو کہاں کہاں نہ پھراتا رہا ہوں میں اک حسن بے مثال کی تمثیل کے لیے پرچھائیوں پہ رنگ گراتا رہا ہوں میں کیا مل گیا ضمیر ہنر بیچ کر مجھے اتنا کہ صرف کام چلاتا رہا ہوں میں روحوں کے پردہ پوش گناہوں سے بے خبر جسموں کی نیکیاں ہی گناتا رہا ہوں میں تجھ کو خبر نہیں کہ ترا کرب دیکھ کر اکثر ترا مذاق اڑاتا رہا ہوں میں شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں اک سطر بھی کبھی نہ لکھی میں نے تیرے نام پاگل تجھی کو یاد بھی آتا رہا ہوں میں جس دن سے اعتماد میں آیا ترا شباب اس دن سے تجھ پہ ظلم ہی ڈھاتا رہا ہوں میں اپنا مثالیہ مجھے اب تک نہ مل سکا ذروں کو آفتاب بناتا رہا ہوں میں بیدار کر کے تیرے بدن کی خود آگہی تیرے بدن کی عمر گھٹاتا رہا ہوں میں کل دوپہر عجیب سی اک بے دلی رہی بس تیلیاں جلا کے بجھاتا رہا ہوں میں " tang-aagosh-men-aabaad-karuungaa-tujh-ko-jaun-eliya-ghazals," تنگ آغوش میں آباد کروں گا تجھ کو ہوں بہت شاد کہ ناشاد کروں گا تجھ کو فکر ایجاد میں گم ہوں مجھے غافل نہ سمجھ اپنے انداز پر ایجاد کروں گا تجھ کو نشہ ہے راہ کی دوری کا کہ ہم راہ ہے تو جانے کس شہر میں آباد کروں گا تجھ کو میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو میں کہ رہتا ہوں بصد ناز گریزاں تجھ سے تو نہ ہوگا تو بہت یاد کروں گا تجھ کو " badaa-ehsaan-ham-farmaa-rahe-hain-jaun-eliya-ghazals," بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں کہ ان کے خط انہیں لوٹا رہے ہیں نہیں ترک محبت پر وہ راضی قیامت ہے کہ ہم سمجھا رہے ہیں یقیں کا راستہ طے کرنے والے بہت تیزی سے واپس آ رہے ہیں یہ مت بھولو کہ یہ لمحات ہم کو بچھڑنے کے لیے ملوا رہے ہیں تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے ابھی کچھ لوگ دھوکا کھا رہے ہیں تمہیں چاہیں گے جب چھن جاؤ گی تم ابھی ہم تم کو ارزاں پا رہے ہیں کسی صورت انہیں نفرت ہو ہم سے ہم اپنے عیب خود گنوا رہے ہیں وہ پاگل مست ہے اپنی وفا میں مری آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں دلیلوں سے اسے قائل کیا تھا دلیلیں دے کے اب پچھتا رہے ہیں تری بانہوں سے ہجرت کرنے والے نئے ماحول میں گھبرا رہے ہیں یہ جذب عشق ہے یا جذبۂ رحم ترے آنسو مجھے رلوا رہے ہیں عجب کچھ ربط ہے تم سے کہ تم کو ہم اپنا جان کر ٹھکرا رہے ہیں وفا کی یادگاریں تک نہ ہوں گی مری جاں بس کوئی دن جا رہے ہیں " nayaa-ik-rishta-paidaa-kyuun-karen-ham-jaun-eliya-ghazals," نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم خموشی سے ادا ہو رسم دوری کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں وفا داری کا دعویٰ کیوں کریں ہم وفا اخلاص قربانی محبت اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم نہیں دنیا کو جب پروا ہماری تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی یہاں کار مسیحا کیوں کریں ہم " ik-hunar-hai-jo-kar-gayaa-huun-main-jaun-eliya-ghazals," اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں سب کے دل سے اتر گیا ہوں میں کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں سن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں اب ہے بس اپنا سامنا در پیش ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں وہی ناز و ادا وہی غمزے سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں عجب الزام ہوں زمانے کا کہ یہاں سب کے سر گیا ہوں میں کبھی خود تک پہنچ نہیں پایا جب کہ واں عمر بھر گیا ہوں میں تم سے جاناں ملا ہوں جس دن سے بے طرح خود سے ڈر گیا ہوں میں کوئے جاناں میں سوگ برپا ہے کہ اچانک سدھر گیا ہوں میں " ai-subah-main-ab-kahaan-rahaa-huun-jaun-eliya-ghazals," اے صبح میں اب کہاں رہا ہوں خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں سب میرے بغیر مطمئن ہوں میں سب کے بغیر جی رہا ہوں کیا ہے جو بدل گئی ہے دنیا میں بھی تو بہت بدل گیا ہوں گو اپنے ہزار نام رکھ لوں پر اپنے سوا میں اور کیا ہوں میں جرم کا اعتراف کر کے کچھ اور ہے جو چھپا گیا ہوں میں اور فقط اسی کی خواہش اخلاق میں جھوٹ بولتا ہوں اک شخص جو مجھ سے وقت لے کر آج آ نہ سکا تو خوش ہوا ہوں ہر شخص سے بے نیاز ہو جا پھر سب سے یہ کہہ کہ میں خدا ہوں چرکے تو تجھے دیے ہیں میں نے پر خون بھی میں ہی تھوکتا ہوں رویا ہوں تو اپنے دوستوں میں پر تجھ سے تو ہنس کے ہی ملا ہوں اے شخص میں تیری جستجو سے بیزار نہیں ہوں تھک گیا ہوں میں شمع سحر کا نغمہ گر تھا اب تھک کے کراہنے لگا ہوں کل پر ہی رکھو وفا کی باتیں میں آج بہت بوجھا ہوا ہوں کوئی بھی نہیں ہے مجھ سے نادم بس طے یہ ہوا کہ میں برا ہوں " juz-gumaan-aur-thaa-hii-kyaa-meraa-jaun-eliya-ghazals," جز گماں اور تھا ہی کیا میرا فقط اک میرا نام تھا میرا نکہت پیرہن سے اس گل کی سلسلہ بے صبا رہا میرا مجھ کو خواہش ہی ڈھونڈنے کی نہ تھی مجھ میں کھویا رہا خدا میرا تھوک دے خون جان لے وہ اگر عالم ترک مدعا میرا جب تجھے میری چاہ تھی جاناں بس وہی وقت تھا کڑا میرا کوئی مجھ تک پہنچ نہیں پاتا اتنا آسان ہے پتا میرا آ چکا پیش وہ مروت سے اب چلوں کام ہو چکا میرا آج میں خود سے ہو گیا مایوس آج اک یار مر گیا میرا " jo-huaa-jaun-vo-huaa-bhii-nahiin-jaun-eliya-ghazals," جو ہوا جونؔ وہ ہوا بھی نہیں یعنی جو کچھ بھی تھا وہ تھا بھی نہیں بس گیا جب وہ شہر دل میں مرے پھر میں اس شہر میں رہا بھی نہیں اک عجب طور حال ہے کہ جو ہے یعنی میں بھی نہیں خدا بھی نہیں لمحوں سے اب معاملہ کیا ہو دل پہ اب کچھ گزر رہا بھی نہیں جانیے میں چلا گیا ہوں کہاں میں تو خود سے کہیں گیا بھی نہیں تو مرے دل میں آن کے بس جا اور تو میرے پاس آ بھی نہیں " ruuh-pyaasii-kahaan-se-aatii-hai-jaun-eliya-ghazals," روح پیاسی کہاں سے آتی ہے یہ اداسی کہاں سے آتی ہے ہے وہ یک سر سپردگی تو بھلا بد حواسی کہاں سے آتی ہے وہ ہم آغوش ہے تو پھر دل میں نا شناسی کہاں سے آتی ہے ایک زندان بے دلی اور شام یہ صبا سی کہاں سے آتی ہے تو ہے پہلو میں پھر تری خوشبو ہو کے باسی کہاں سے آتی ہے دل ہے شب سوختہ سوائے امید تو ندا سی کہاں سے آتی ہے میں ہوں تجھ میں اور آس ہوں تیری تو نراسی کہاں سے آتی ہے " har-dhadkan-haijaanii-thii-har-khaamoshii-tuufaanii-thii-jaun-eliya-ghazals," ہر دھڑکن ہیجانی تھی ہر خاموشی طوفانی تھی پھر بھی محبت صرف مسلسل ملنے کی آسانی تھی جس دن اس سے بات ہوئی تھی اس دن بھی بے کیف تھا میں جس دن اس کا خط آیا ہے اس دن بھی ویرانی تھی جب اس نے مجھ سے یہ کہا تھا عشق رفاقت ہی تو نہیں تب میں نے ہر شخص کی صورت مشکل سے پہچانی تھی جس دن وہ ملنے آئی ہے اس دن کی روداد یہ ہے اس کا بلاؤز نارنجی تھا اس کی ساری دھانی تھی الجھن سی ہونے لگتی تھی مجھ کو اکثر اور وہ یوں میرا مزاج عشق تھا شہری اس کی وفا دہقانی تھی اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو وہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی روحانی تھی نام پہ ہم قربان تھے اس کے لیکن پھر یہ طور ہوا اس کو دیکھ کے رک جانا بھی سب سے بڑی قربانی تھی مجھ سے بچھڑ کر بھی وہ لڑکی کتنی خوش خوش رہتی ہے اس لڑکی نے مجھ سے بچھڑ کر مر جانے کی ٹھانی تھی عشق کی حالت کچھ بھی نہیں تھی بات بڑھانے کا فن تھا لمحے لا فانی ٹھہرے تھے قطروں کی طغیانی تھی جس کو خود میں نے بھی اپنی روح کا عرفاں سمجھا تھا وہ تو شاید میرے پیاسے ہونٹوں کی شیطانی تھی تھا دربار کلاں بھی اس کا نوبت خانہ اس کا تھا تھی میرے دل کی جو رانی امروہے کی رانی تھی " bahut-dil-ko-kushaada-kar-liyaa-kyaa-jaun-eliya-ghazals," بہت دل کو کشادہ کر لیا کیا زمانے بھر سے وعدہ کر لیا کیا تو کیا سچ مچ جدائی مجھ سے کر لی تو خود اپنے کو آدھا کر لیا کیا ہنر مندی سے اپنی دل کا صفحہ مری جاں تم نے سادہ کر لیا کیا جو یکسر جان ہے اس کے بدن سے کہو کچھ استفادہ کر لیا کیا بہت کترا رہے ہو مغبچوں سے گناہ ترک بادہ کر لیا کیا یہاں کے لوگ کب کے جا چکے ہیں سفر جادہ بہ جادہ کر لیا کیا اٹھایا اک قدم تو نے نہ اس تک بہت اپنے کو ماندہ کر لیا کیا تم اپنی کج کلاہی ہار بیٹھیں بدن کو بے لبادہ کر لیا کیا بہت نزدیک آتی جا رہی ہو بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا " abhii-ik-shor-saa-uthaa-hai-kahiin-jaun-eliya-ghazals," ابھی اک شور سا اٹھا ہے کہیں کوئی خاموش ہو گیا ہے کہیں ہے کچھ ایسا کہ جیسے یہ سب کچھ اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے کہیں تجھ کو کیا ہو گیا کہ چیزوں کو کہیں رکھتا ہے ڈھونڈھتا ہے کہیں جو یہاں سے کہیں نہ جاتا تھا وہ یہاں سے چلا گیا ہے کہیں آج شمشان کی سی بو ہے یہاں کیا کوئی جسم جل رہا ہے کہیں ہم کسی کے نہیں جہاں کے سوا ایسی وہ خاص بات کیا ہے کہیں تو مجھے ڈھونڈ میں تجھے ڈھونڈوں کوئی ہم میں سے رہ گیا ہے کہیں کتنی وحشت ہے درمیان ہجوم جس کو دیکھو گیا ہوا ہے کہیں میں تو اب شہر میں کہیں بھی نہیں کیا مرا نام بھی لکھا ہے کہیں اسی کمرے سے کوئی ہو کے وداع اسی کمرے میں چھپ گیا ہے کہیں مل کے ہر شخص سے ہوا محسوس مجھ سے یہ شخص مل چکا ہے کہیں " kaam-kii-baat-main-ne-kii-hii-nahiin-jaun-eliya-ghazals," کام کی بات میں نے کی ہی نہیں یہ مرا طور زندگی ہی نہیں اے امید اے امید نو میداں مجھ سے میت تری اٹھی ہی نہیں میں جو تھا اس گلی کا مست خرام اس گلی میں مری چلی ہی نہیں یہ سنا ہے کہ میرے کوچ کے بعد اس کی خوشبو کہیں بسی ہی نہیں تھی جو اک فاختہ اداس اداس صبح وہ شاخ سے اڑی ہی نہیں مجھ میں اب میرا جی نہیں لگتا اور ستم یہ کہ میرا جی ہی نہیں وہ جو رہتی تھی دل محلے میں پھر وہ لڑکی مجھے ملی ہی نہیں جائیے اور خاک اڑائیے آپ اب وہ گھر کیا کہ وہ گلی ہی نہیں ہائے وہ شوق جو نہیں تھا کبھی ہائے وہ زندگی جو تھی ہی نہیں " us-ke-pahluu-se-lag-ke-chalte-hain-jaun-eliya-ghazals," اس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں ہم کہیں ٹالنے سے ٹلتے ہیں بند ہے مے کدوں کے دروازے ہم تو بس یوں ہی چل نکلتے ہیں میں اسی طرح تو بہلتا ہوں اور سب جس طرح بہلتے ہیں وہ ہے جان اب ہر ایک محفل کی ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں کیا تکلف کریں یہ کہنے میں جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں ہے اسے دور کا سفر در پیش ہم سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں شام فرقت کی لہلہا اٹھی وہ ہوا ہے کہ زخم بھرتے ہیں ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں تم بنو رنگ تم بنو خوشبو ہم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں " thiik-hai-khud-ko-ham-badalte-hain-jaun-eliya-ghazals," ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں شکریہ مشورت کا چلتے ہیں ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں ہے وہ جان اب ہر ایک محفل کی ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں کیا تکلف کریں یہ کہنے میں جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں ہے اسے دور کا سفر در پیش ہم سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں تم بنو رنگ تم بنو خوشبو ہم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں میں اسی طرح تو بہلتا ہوں اور سب جس طرح بہلتے ہیں ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں " zabt-kar-ke-hansii-ko-bhuul-gayaa-jaun-eliya-ghazals," ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا ذات در ذات ہم سفر رہ کر اجنبی اجنبی کو بھول گیا صبح تک وجہ جاں کنی تھی جو بات میں اسے شام ہی کو بھول گیا عہد وابستگی گزار کے میں وجہ وابستگی کو بھول گیا سب دلیلیں تو مجھ کو یاد رہیں بحث کیا تھی اسی کو بھول گیا کیوں نہ ہو ناز اس ذہانت پر ایک میں ہر کسی کو بھول گیا سب سے پر امن واقعہ یہ ہے آدمی آدمی کو بھول گیا قہقہہ مارتے ہی دیوانہ ہر غم زندگی کو بھول گیا خواب ہا خواب جس کو چاہا تھا رنگ ہا رنگ اسی کو بھول گیا کیا قیامت ہوئی اگر اک شخص اپنی خوش قسمتی کو بھول گیا سوچ کر اس کی خلوت انجمنی واں میں اپنی کمی کو بھول گیا سب برے مجھ کو یاد رہتے ہیں جو بھلا تھا اسی کو بھول گیا ان سے وعدہ تو کر لیا لیکن اپنی کم فرصتی کو بھول گیا بستیو اب تو راستہ دے دو اب تو میں اس گلی کو بھول گیا اس نے گویا مجھی کو یاد رکھا میں بھی گویا اسی کو بھول گیا یعنی تم وہ ہو واقعی؟ حد ہے میں تو سچ مچ سبھی کو بھول گیا آخری بت خدا نہ کیوں ٹھہرے بت شکن بت گری کو بھول گیا اب تو ہر بات یاد رہتی ہے غالباً میں کسی کو بھول گیا اس کی خوشیوں سے جلنے والا جونؔ اپنی ایذا دہی کو بھول گیا " dil-ne-vafaa-ke-naam-par-kaar-e-vafaa-nahiin-kiyaa-jaun-eliya-ghazals," دل نے وفا کے نام پر کار وفا نہیں کیا خود کو ہلاک کر لیا خود کو فدا نہیں کیا خیرہ سران شوق کا کوئی نہیں ہے جنبہ دار شہر میں اس گروہ نے کس کو خفا نہیں کیا جو بھی ہو تم پہ معترض اس کو یہی جواب دو آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا نسبت علم ہے بہت حاکم وقت کو عزیز اس نے تو کار جہل بھی بے علما نہیں کیا جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکم خدا دیا قرار ہم نے نہیں کیا وہ کام ہاں بہ خدا نہیں کیا " apne-sab-yaar-kaam-kar-rahe-hain-jaun-eliya-ghazals," اپنے سب یار کام کر رہے ہیں اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ آپ تو قتل عام کر رہے ہیں داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں ہم ہیں مصروف انتظام مگر جانے کیا انتظام کر رہے ہیں ہے وہ بے چارگی کا حال کہ ہم ہر کسی کو سلام کر رہے ہیں ایک قتالہ چاہیے ہم کو ہم یہ اعلان عام کر رہے ہیں کیا بھلا ساغر سفال کہ ہم ناف پیالے کو جام کر رہے ہیں ہم تو آئے تھے عرض مطلب کو اور وہ احترام کر رہے ہیں نہ اٹھے آہ کا دھواں بھی کہ وہ کوئے دل میں خرام کر رہے ہیں اس کے ہونٹوں پہ رکھ کے ہونٹ اپنے بات ہی ہم تمام کر رہے ہیں ہم عجب ہیں کہ اس کے کوچے میں بے سبب دھوم دھام کر رہے ہیں " aap-apnaa-gubaar-the-ham-to-jaun-eliya-ghazals," آپ اپنا غبار تھے ہم تو یاد تھے یادگار تھے ہم تو پردگی ہم سے کیوں رکھا پردہ تیرے ہی پردہ دار تھے ہم تو وقت کی دھوپ میں تمہارے لیے شجر سایہ دار تھے ہم تو اڑے جاتے ہیں دھول کے مانند آندھیوں پر سوار تھے ہم تو ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا سخت بے اعتبار تھے ہم تو شرم ہے اپنی بار باری کی بے سبب بار بار تھے ہم تو کیوں ہمیں کر دیا گیا مجبور خود ہی بے اختیار تھے ہم تو تم نے کیسے بھلا دیا ہم کو تم سے ہی مستعار تھے ہم تو خوش نہ آیا ہمیں جیے جانا لمحے لمحے پہ بار تھے ہم تو سہہ بھی لیتے ہمارے طعنوں کو جان من جاں نثار تھے ہم تو خود کو دوران حال میں اپنے بے طرح ناگوار تھے ہم تو تم نے ہم کو بھی کر دیا برباد نادر روزگار تھے ہم تو ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا جونؔ یاروں کے یار تھے ہم تو " saare-rishte-tabaah-kar-aayaa-jaun-eliya-ghazals," سارے رشتے تباہ کر آیا دل برباد اپنے گھر آیا آخرش خون تھوکنے سے میاں بات میں تیری کیا اثر آیا تھا خبر میں زیاں دل و جاں کا ہر طرف سے میں بے خبر آیا اب یہاں ہوش میں کبھی اپنے نہیں آؤں گا میں اگر آیا میں رہا عمر بھر جدا خود سے یاد میں خود کو عمر بھر آیا وہ جو دل نام کا تھا ایک نفر آج میں اس سے بھی مکر آیا مدتوں بعد گھر گیا تھا میں جاتے ہی میں وہاں سے ڈر آیا " be-qaraarii-sii-be-qaraarii-hai-jaun-eliya-ghazals," بے قراری سی بے قراری ہے وصل ہے اور فراق طاری ہے جو گزاری نہ جا سکی ہم سے ہم نے وہ زندگی گزاری ہے نگھرے کیا ہوئے کہ لوگوں پر اپنا سایہ بھی اب تو بھاری ہے بن تمہارے کبھی نہیں آئی کیا مری نیند بھی تمہاری ہے آپ میں کیسے آؤں میں تجھ بن سانس جو چل رہی ہے آری ہے اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں رات دن تیری انتظاری ہے ہجر ہو یا وصال ہو کچھ ہو ہم ہیں اور اس کی یادگاری ہے اک مہک سمت دل سے آئی تھی میں یہ سمجھا تری سواری ہے حادثوں کا حساب ہے اپنا ورنہ ہر آن سب کی باری ہے خوش رہے تو کہ زندگی اپنی عمر بھر کی امیدواری ہے " ham-jii-rahe-hain-koii-bahaana-kiye-bagair-jaun-eliya-ghazals," ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر اس کے بغیر اس کی تمنا کئے بغیر انبار اس کا پردۂ حرمت بنا میاں دیوار تک نہیں گری پردا کیے بغیر یاراں وہ جو ہے میرا مسیحائے جان و دل بے حد عزیز ہے مجھے اچھا کیے بغیر میں بستر خیال پہ لیٹا ہوں اس کے پاس صبح ازل سے کوئی تقاضا کیے بغیر اس کا ہے جو بھی کچھ ہے مرا اور میں مگر وہ مجھ کو چاہئے کوئی سودا کیے بغیر یہ زندگی جو ہے اسے معنیٰ بھی چاہیے وعدہ ہمیں قبول ہے ایفا کیے بغیر اے قاتلوں کے شہر بس اتنی ہی عرض ہے میں ہوں نہ قتل کوئی تماشا کیے بغیر مرشد کے جھوٹ کی تو سزا بے حساب ہے تم چھوڑیو نہ شہر کو صحرا کیے بغیر ان آنگنوں میں کتنا سکون و سرور تھا آرائش نظر تری پروا کیے بغیر یاراں خوشا یہ روز و شب دل کہ اب ہمیں سب کچھ ہے خوش گوار گوارا کیے بغیر گریہ کناں کی فرد میں اپنا نہیں ہے نام ہم گریہ کن ازل کے ہیں گریہ کیے بغیر آخر ہیں کون لوگ جو بخشے ہی جائیں گے تاریخ کے حرام سے توبہ کیے بغیر وہ سنی بچہ کون تھا جس کی جفا نے جونؔ شیعہ بنا دیا ہمیں شیعہ کیے بغیر اب تم کبھی نہ آؤ گے یعنی کبھی کبھی رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر " kis-se-izhaar-e-muddaaa-kiije-jaun-eliya-ghazals," کس سے اظہار مدعا کیجے آپ ملتے نہیں ہیں کیا کیجے ہو نہ پایا یہ فیصلہ اب تک آپ کیجے تو کیا کیا کیجے آپ تھے جس کے چارہ گر وہ جواں سخت بیمار ہے دعا کیجے ایک ہی فن تو ہم نے سیکھا ہے جس سے ملیے اسے خفا کیجے ہے تقاضا مری طبیعت کا ہر کسی کو چراغ پا کیجے ہے تو بارے یہ عالم اسباب بے سبب چیخنے لگا کیجے آج ہم کیا گلہ کریں اس سے گلۂ تنگیٔ قبا کیجے نطق حیوان پر گراں ہے ابھی گفتگو کم سے کم کیا کیجے حضرت زلف غالیہ افشاں نام اپنا صبا صبا کیجے زندگی کا عجب معاملہ ہے ایک لمحے میں فیصلہ کیجے مجھ کو عادت ہے روٹھ جانے کی آپ مجھ کو منا لیا کیجے ملتے رہیے اسی تپاک کے ساتھ بے وفائی کی انتہا کیجے کوہ کن کو ہے خودکشی خواہش شاہ بانو سے التجا کیجے مجھ سے کہتی تھیں وہ شراب آنکھیں آپ وہ زہر مت پیا کیجے رنگ ہر رنگ میں ہے داد طلب خون تھوکوں تو واہ وا کیجے " aish-e-ummiid-hii-se-khatra-hai-jaun-eliya-ghazals," عیش امید ہی سے خطرہ ہے دل کو اب دل دہی سے خطرہ ہے ہے کچھ ایسا کہ اس کی جلوت میں ہمیں اپنی کمی سے خطرہ ہے جس کے آغوش کا ہوں دیوانہ اس کے آغوش ہی سے خطرہ ہے یاد کی دھوپ تو ہے روز کی بات ہاں مجھے چاندنی سے خطرہ ہے ہے عجب کچھ معاملہ درپیش عقل کو آگہی سے خطرہ ہے شہر غدار جان لے کہ تجھے ایک امروہوی سے خطرہ ہے ہے عجب طور حالت گریہ کہ مژہ کو نمی سے خطرہ ہے حال خوش لکھنؤ کا دلی کا بس انہیں مصحفیؔ سے خطرہ ہے آسمانوں میں ہے خدا تنہا اور ہر آدمی سے خطرہ ہے میں کہوں کس طرح یہ بات اس سے تجھ کو جانم مجھی سے خطرہ ہے آج بھی اے کنار بان مجھے تیری اک سانولی سے خطرہ ہے ان لبوں کا لہو نہ پی جاؤں اپنی تشنہ لبی سے خطرہ ہے جونؔ ہی تو ہے جونؔ کے درپئے میرؔ کو میرؔ ہی سے خطرہ ہے اب نہیں کوئی بات خطرے کی اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے " sar-hii-ab-phodiye-nadaamat-men-jaun-eliya-ghazals," سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں نیند آنے لگی ہے فرقت میں ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر سوچتا ہوں تری حمایت میں روح نے عشق کا فریب دیا جسم کو جسم کی عداوت میں اب فقط عادتوں کی ورزش ہے روح شامل نہیں شکایت میں عشق کو درمیاں نہ لاؤ کہ میں چیختا ہوں بدن کی عسرت میں یہ کچھ آسان تو نہیں ہے کہ ہم روٹھتے اب بھی ہیں مروت میں وہ جو تعمیر ہونے والی تھی لگ گئی آگ اس عمارت میں زندگی کس طرح بسر ہوگی دل نہیں لگ رہا محبت میں حاصل کن ہے یہ جہان خراب یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں پھر بنایا خدا نے آدم کو اپنی صورت پہ ایسی صورت میں اور پھر آدمی نے غور کیا چھپکلی کی لطیف صنعت میں اے خدا جو کہیں نہیں موجود کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں " dil-kii-takliif-kam-nahiin-karte-jaun-eliya-ghazals," دل کی تکلیف کم نہیں کرتے اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے جان جاں تجھ کو اب تری خاطر یاد ہم کوئی دم نہیں کرتے دوسری ہار کی ہوس ہے سو ہم سر تسلیم خم نہیں کرتے وہ بھی پڑھتا نہیں ہے اب دل سے ہم بھی نالے کو نم نہیں کرتے جرم میں ہم کمی کریں بھی تو کیوں تم سزا بھی تو کم نہیں کرتے " ab-kisii-se-miraa-hisaab-nahiin-jaun-eliya-ghazals," اب کسی سے مرا حساب نہیں میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں خون کے گھونٹ پی رہا ہوں میں یہ مرا خون ہے شراب نہیں میں شرابی ہوں میری آس نہ چھین تو مری آس ہے سراب نہیں نوچ پھینکے لبوں سے میں نے سوال طاقت شوخئ جواب نہیں اب تو پنجاب بھی نہیں پنجاب اور خود جیسا اب دو آب نہیں غم ابد کا نہیں ہے آن کا ہے اور اس کا کوئی حساب نہیں بودش اک رو ہے ایک رو یعنی اس کی فطرت میں انقلاب نہیں " aaj-lab-e-guhar-fishaan-aap-ne-vaa-nahiin-kiyaa-jaun-eliya-ghazals," آج لب گہر فشاں آپ نے وا نہیں کیا تذکرۂ خجستۂ آب و ہوا نہیں کیا کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا جانے تری نہیں کے ساتھ کتنے ہی جبر تھے کہ تھے میں نے ترے لحاظ میں تیرا کہا نہیں کیا مجھ کو یہ ہوش ہی نہ تھا تو مرے بازوؤں میں ہے یعنی تجھے ابھی تلک میں نے رہا نہیں کیا تو بھی کسی کے باب میں عہد شکن ہو غالباً میں نے بھی ایک شخص کا قرض ادا نہیں کیا ہاں وہ نگاہ ناز بھی اب نہیں ماجرا طلب ہم نے بھی اب کی فصل میں شور بپا نہیں کیا " kitne-aish-se-rahte-honge-kitne-itraate-honge-jaun-eliya-ghazals," کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے شام ہوئے خوش باش یہاں کے میرے پاس آ جاتے ہیں میرے بجھنے کا نظارہ کرنے آ جاتے ہوں گے وہ جو نہ آنے والا ہے نا اس سے مجھ کو مطلب تھا آنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آتے ہوں گے اس کی یاد کی باد صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگا یوں ہی میرے بال ہیں بکھرے اور بکھر جاتے ہوں گے یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے میرا سانس اکھڑتے ہی سب بین کریں گے روئیں گے یعنی میرے بعد بھی یعنی سانس لیے جاتے ہوں گے " jii-hii-jii-men-vo-jal-rahii-hogii-jaun-eliya-ghazals," جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی چاندنی میں ٹہل رہی ہوگی چاند نے تان لی ہے چادر ابر اب وہ کپڑے بدل رہی ہوگی سو گئی ہوگی وہ شفق اندام سبز قندیل جل رہی ہوگی سرخ اور سبز وادیوں کی طرف وہ مرے ساتھ چل رہی ہوگی چڑھتے چڑھتے کسی پہاڑی پر اب وہ کروٹ بدل رہی ہوگی پیڑ کی چھال سے رگڑ کھا کر وہ تنے سے پھسل رہی ہوگی نیلگوں جھیل ناف تک پہنے صندلیں جسم مل رہی ہوگی ہو کے وہ خواب عیش سے بیدار کتنی ہی دیر شل رہی ہوگی " ab-vo-ghar-ik-viiraana-thaa-bas-viiraana-zinda-thaa-jaun-eliya-ghazals," اب وہ گھر اک ویرانہ تھا بس ویرانہ زندہ تھا سب آنکھیں دم توڑ چکی تھیں اور میں تنہا زندہ تھا ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا وہ جو کبوتر اس موکھے میں رہتے تھے کس دیس اڑے ایک کا نام نوازندہ تھا اور اک کا بازندہ تھا وہ دوپہر اپنی رخصت کی ایسا ویسا دھوکا تھی اپنے اندر اپنی لاش اٹھائے میں جھوٹا زندہ تھا تھیں وہ گھر راتیں بھی کہانی وعدے اور پھر دن گننا آنا تھا جانے والے کو جانے والا زندہ تھا دستک دینے والے بھی تھے دستک سننے والے بھی تھا آباد محلہ سارا ہر دروازہ زندہ تھا پیلے پتوں کو سہ پہر کی وحشت پرسا دیتی تھی آنگن میں اک اوندھے گھڑے پر بس اک کوا زندہ تھا " khuub-hai-shauq-kaa-ye-pahluu-bhii-jaun-eliya-ghazals," خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھی میں بھی برباد ہو گیا تو بھی حسن مغموم تمکنت میں تری فرق آیا نہ یک سر مو بھی یہ نہ سوچا تھا زیر سایۂ زلف کہ بچھڑ جائے گی یہ خوش بو بھی حسن کہتا تھا چھیڑنے والے چھیڑنا ہی تو بس نہیں چھو بھی ہائے وہ اس کا موج خیز بدن میں تو پیاسا رہا لب جو بھی یاد آتے ہیں معجزے اپنے اور اس کے بدن کا جادو بھی یاسمیں اس کی خاص محرم راز یاد آیا کرے گی اب تو بھی یاد سے اس کی ہے مرا پرہیز اے صبا اب نہ آئیو تو بھی ہیں یہی جونؔ ایلیا جو کبھی سخت مغرور بھی تھے بد خو بھی " siina-dahak-rahaa-ho-to-kyaa-chup-rahe-koii-jaun-eliya-ghazals," سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی ثابت ہوا سکون دل و جاں کہیں نہیں رشتوں میں ڈھونڈھتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی ترک تعلقات کوئی مسئلہ نہیں یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے کوئی دیوار جانتا تھا جسے میں وہ دھول تھی اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب میرے خلاف زہر اگلتا پھرے کوئی اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی " haalat-e-haal-ke-sabab-haalat-e-haal-hii-gaii-jaun-eliya-ghazals," حالت حال کے سبب حالت حال ہی گئی شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی تیرا فراق جان جاں عیش تھا کیا مرے لیے یعنی ترے فراق میں خوب شراب پی گئی تیرے وصال کے لیے اپنے کمال کے لیے حالت دل کہ تھی خراب اور خراب کی گئی اس کی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ عمر گزار دیجیے عمر گزار دی گئی ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی بعد بھی تیرے جان جاں دل میں رہا عجب سماں یاد رہی تری یہاں پھر تری یاد بھی گئی اس کے بدن کو دی نمود ہم نے سخن میں اور پھر اس کے بدن کے واسطے ایک قبا بھی سی گئی مینا بہ مینا مے بہ مے جام بہ جام جم بہ جم ناف پیالے کی ترے یاد عجب سہی گئی کہنی ہے مجھ کو ایک بات آپ سے یعنی آپ سے آپ کے شہر وصل میں لذت ہجر بھی گئی صحن خیال یار میں کی نہ بسر شب فراق جب سے وہ چاندنا گیا جب سے وہ چاندنی گئی " zindagii-kyaa-hai-ik-kahaanii-hai-jaun-eliya-ghazals," زندگی کیا ہے اک کہانی ہے یہ کہانی نہیں سنانی ہے ہے خدا بھی عجیب یعنی جو نہ زمینی نہ آسمانی ہے ہے مرے شوق وصل کو یہ گلہ اس کا پہلو سرائے فانی ہے اپنی تعمیر جان و دل کے لیے اپنی بنیاد ہم کو ڈھانی ہے یہ ہے لمحوں کا ایک شہر ازل یاں کی ہر بات ناگہانی ہے چلیے اے جان شام آج تمہیں شمع اک قبر پر جلانی ہے رنگ کی اپنی بات ہے ورنہ آخرش خون بھی تو پانی ہے اک عبث کا وجود ہے جس سے زندگی کو مراد پانی ہے شام ہے اور صحن میں دل کے اک عجب حزن آسمانی ہے " be-dilii-kyaa-yuunhii-din-guzar-jaaenge-jaun-eliya-ghazals," بے دلی کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے رقص ہے رنگ پر رنگ ہم رقص ہیں سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے یہ خراباتیان خرد باختہ صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم بے خبر آئے ہیں بے خبر جائیں گے " chalo-baad-e-bahaarii-jaa-rahii-hai-jaun-eliya-ghazals," چلو باد بہاری جا رہی ہے پیا جی کی سواری جا رہی ہے شمال جاودان سبز جاں سے تمنا کی عماری جا رہی ہے فغاں اے دشمن دار دل و جاں مری حالت سدھاری جا رہی ہے ہے پہلو میں ٹکے کی اک حسینہ تری فرقت گزاری جا رہی ہے جو ان روزوں مرا غم ہے وہ یہ ہے کہ غم سے بردباری جا رہی ہے ہے سینے میں عجب اک حشر برپا کہ دل سے بے قراری جا رہی ہے میں پیہم ہار کر یہ سوچتا ہوں وہ کیا شے ہے جو ہاری جا رہی ہے دل اس کے رو بہ رو ہے اور گم صم کوئی عرضی گزاری جا رہی ہے وہ سید بچہ ہو اور شیخ کے ساتھ میاں عزت ہماری جا رہی ہے ہے برپا ہر گلی میں شور نغمہ مری فریاد ماری جا رہی ہے وہ یاد اب ہو رہی ہے دل سے رخصت میاں پیاروں کی پیاری جا رہی ہے دریغا تیری نزدیکی میاں جان تری دوری پہ واری جا رہی ہے بہت بد حال ہیں بستی ترے لوگ تو پھر تو کیوں سنواری جا رہی ہے تری مرہم نگاہی اے مسیحا خراش دل پہ واری جا رہی ہے خرابے میں عجب تھا شور برپا دلوں سے انتظاری جا رہی ہے " sharmindagii-hai-ham-ko-bahut-ham-mile-tumhen-jaun-eliya-ghazals," شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں تم سر بہ سر خوشی تھے مگر غم ملے تمہیں میں اپنے آپ میں نہ ملا اس کا غم نہیں غم تو یہ ہے کہ تم بھی بہت کم ملے تمہیں ہے جو ہمارا ایک حساب اس حساب سے آتی ہے ہم کو شرم کہ پیہم ملے تمہیں تم کو جہان شوق و تمنا میں کیا ملا ہم بھی ملے تو درہم و برہم ملے تمہیں اب اپنے طور ہی میں نہیں تم سو کاش کہ خود میں خود اپنا طور کوئی دم ملے تمہیں اس شہر حیلہ جو میں جو محرم ملے مجھے فریاد جان جاں وہی محرم ملے تمہیں دیتا ہوں تم کو خشکئ مژگاں کی میں دعا مطلب یہ ہے کہ دامن پر نم ملے تمہیں میں ان میں آج تک کبھی پایا نہیں گیا جاناں جو میرے شوق کے عالم ملے تمہیں تم نے ہمارے دل میں بہت دن سفر کیا شرمندہ ہیں کہ اس میں بہت خم ملے تمہیں یوں ہو کہ اور ہی کوئی حوا ملے مجھے ہو یوں کہ اور ہی کوئی آدم ملے تمہیں " aakhirii-baar-aah-kar-lii-hai-jaun-eliya-ghazals," آخری بار آہ کر لی ہے میں نے خود سے نباہ کر لی ہے اپنے سر اک بلا تو لینی تھی میں نے وہ زلف اپنے سر لی ہے دن بھلا کس طرح گزارو گے وصل کی شب بھی اب گزر لی ہے جاں نثاروں پہ وار کیا کرنا میں نے بس ہاتھ میں سپر لی ہے جو بھی مانگو ادھار دوں گا میں اس گلی میں دکان کر لی ہے میرا کشکول کب سے خالی تھا میں نے اس میں شراب بھر لی ہے اور تو کچھ نہیں کیا میں نے اپنی حالت تباہ کر لی ہے شیخ آیا تھا محتسب کو لیے میں نے بھی ان کی وہ خبر لی ہے " umr-guzregii-imtihaan-men-kyaa-jaun-eliya-ghazals," عمر گزرے گی امتحان میں کیا داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا میری ہر بات بے اثر ہی رہی نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں ہم غریبوں کی آن بان میں کیا خود کو جانا جدا زمانے سے آ گیا تھا مرے گمان میں کیا شام ہی سے دکان دید ہے بند نہیں نقصان تک دکان میں کیا اے مرے صبح و شام دل کی شفق تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا بولتے کیوں نہیں مرے حق میں آبلے پڑ گئے زبان میں کیا خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا آ رہا ہے مرے گمان میں کیا دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہت خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا ہے نسیم بہار گرد آلود خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا " tuu-bhii-chup-hai-main-bhii-chup-huun-ye-kaisii-tanhaaii-hai-jaun-eliya-ghazals," تو بھی چپ ہے میں بھی چپ ہوں یہ کیسی تنہائی ہے تیرے ساتھ تری یاد آئی کیا تو سچ مچ آئی ہے شاید وہ دن پہلا دن تھا پلکیں بوجھل ہونے کا مجھ کو دیکھتے ہی جب اس کی انگڑائی شرمائی ہے اس دن پہلی بار ہوا تھا مجھ کو رفاقت کا احساس جب اس کے ملبوس کی خوشبو گھر پہنچانے آئی ہے حسن سے عرض شوق نہ کرنا حسن کو زک پہنچانا ہے ہم نے عرض شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے ہم کو اور تو کچھ نہیں سوجھا البتہ اس کے دل میں سوز رقابت پیدا کر کے اس کی نیند اڑائی ہے ہم دونوں مل کر بھی دلوں کی تنہائی میں بھٹکیں گے پاگل کچھ تو سوچ یہ تو نے کیسی شکل بنائی ہے عشق پیچاں کی صندل پر جانے کس دن بیل چڑھے کیاری میں پانی ٹھہرا ہے دیواروں پر کائی ہے حسن کے جانے کتنے چہرے حسن کے جانے کتنے نام عشق کا پیشہ حسن پرستی عشق بڑا ہرجائی ہے آج بہت دن بعد میں اپنے کمرے تک آ نکلا تھا جوں ہی دروازہ کھولا ہے اس کی خوشبو آئی ہے ایک تو اتنا حبس ہے پھر میں سانسیں روکے بیٹھا ہوں ویرانی نے جھاڑو دے کے گھر میں دھول اڑائی ہے " ham-to-jaise-vahaan-ke-the-hii-nahiin-jaun-eliya-ghazals," ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں بے اماں تھے اماں کے تھے ہی نہیں ہم کہ ہیں تیری داستاں یکسر ہم تری داستاں کے تھے ہی نہیں ان کو آندھی میں ہی بکھرنا تھا بال و پر آشیاں کے تھے ہی نہیں اب ہمارا مکان کس کا ہے ہم تو اپنے مکاں کے تھے ہی نہیں ہو تری خاک آستاں پہ سلام ہم ترے آستاں کے تھے ہی نہیں ہم نے رنجش میں یہ نہیں سوچا کچھ سخن تو زباں کے تھے ہی نہیں دل نے ڈالا تھا درمیاں جن کو لوگ وہ درمیاں کے تھے ہی نہیں اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں " apnaa-khaaka-lagtaa-huun-jaun-eliya-ghazals," اپنا خاکہ لگتا ہوں ایک تماشا لگتا ہوں آئینوں کو زنگ لگا اب میں کیسا لگتا ہوں اب میں کوئی شخص نہیں اس کا سایا لگتا ہوں سارے رشتے تشنہ ہیں کیا میں دریا لگتا ہوں اس سے گلے مل کر خود کو تنہا تنہا لگتا ہوں خود کو میں سب آنکھوں میں دھندلا دھندلا لگتا ہوں میں ہر لمحہ اس گھر سے جانے والا لگتا ہوں کیا ہوئے وہ سب لوگ کہ میں سونا سونا لگتا ہوں مصلحت اس میں کیا ہے میری ٹوٹا پھوٹا لگتا ہوں کیا تم کو اس حال میں بھی میں دنیا کا لگتا ہوں کب کا روگی ہوں ویسے شہر مسیحا لگتا ہوں میرا تالو تر کر دو سچ مچ پیاسا لگتا ہوں مجھ سے کما لو کچھ پیسے زندہ مردہ لگتا ہوں میں نے سہے ہیں مکر اپنے اب بیچارہ لگتا ہوں " ek-hii-muzhda-subh-laatii-hai-jaun-eliya-ghazals," ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے رنگ موسم ہے اور باد صبا شہر کوچوں میں خاک اڑاتی ہے فرش پر کاغذ اڑتے پھرتے ہیں میز پر گرد جمتی جاتی ہے سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر اب کسے رات بھر جگاتی ہے میں بھی اذن نوا گری چاہوں بے دلی بھی تو لب ہلاتی ہے سو گئے پیڑ جاگ اٹھی خوشبو زندگی خواب کیوں دکھاتی ہے اس سراپا وفا کی فرقت میں خواہش غیر کیوں ستاتی ہے آپ اپنے سے ہم سخن رہنا ہم نشیں سانس پھول جاتی ہے کیا ستم ہے کہ اب تری صورت غور کرنے پہ یاد آتی ہے کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے " aadmii-vaqt-par-gayaa-hogaa-jaun-eliya-ghazals," آدمی وقت پر گیا ہوگا وقت پہلے گزر گیا ہوگا وہ ہماری طرف نہ دیکھ کے بھی کوئی احسان دھر گیا ہوگا خود سے مایوس ہو کے بیٹھا ہوں آج ہر شخص مر گیا ہوگا شام تیرے دیار میں آخر کوئی تو اپنے گھر گیا ہوگا مرہم ہجر تھا عجب اکسیر اب تو ہر زخم بھر گیا ہوگا " ghar-se-ham-ghar-talak-gae-honge-jaun-eliya-ghazals," گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے اپنے ہی آپ تک گئے ہوں گے ہم جو اب آدمی ہیں پہلے کبھی جام ہوں گے چھلک گئے ہوں گے وہ بھی اب ہم سے تھک گیا ہوگا ہم بھی اب اس سے تھک گئے ہوں گے شب جو ہم سے ہوا معاف کرو نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے کتنے ہی لوگ حرص شہرت میں دار پر خود لٹک گئے ہوں گے شکر ہے اس نگاہ کم کا میاں پہلے ہی ہم کھٹک گئے ہوں گے ہم تو اپنی تلاش میں اکثر از سما تا سمک گئے ہوں گے اس کا لشکر جہاں تہاں یعنی ہم بھی بس بے کمک گئے ہوں گے جونؔ اللہ اور یہ عالم بیچ میں ہم اٹک گئے ہوں گے " gaahe-gaahe-bas-ab-yahii-ho-kyaa-jaun-eliya-ghazals," گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا یاد ہیں اب بھی اپنے خواب تمہیں مجھ سے مل کر اداس بھی ہو کیا بس مجھے یوں ہی اک خیال آیا سوچتی ہو تو سوچتی ہو کیا اب مری کوئی زندگی ہی نہیں اب بھی تم میری زندگی ہو کیا کیا کہا عشق جاودانی ہے! آخری بار مل رہی ہو کیا ہاں فضا یاں کی سوئی سوئی سی ہے تو بہت تیز روشنی ہو کیا میرے سب طنز بے اثر ہی رہے تم بہت دور جا چکی ہو کیا دل میں اب سوز انتظار نہیں شمع امید بجھ گئی ہو کیا اس سمندر پہ تشنہ کام ہوں میں بان تم اب بھی بہہ رہی ہو کیا " khud-apne-dil-men-kharaashen-utaarnaa-hongii-mohsin-naqvi-ghazals," خود اپنے دل میں خراشیں اتارنا ہوں گی ابھی تو جاگ کے راتیں گزارنا ہوں گی ترے لیے مجھے ہنس ہنس کے بولنا ہوگا مرے لیے تجھے زلفیں سنوارنا ہوں گی تری صدا سے تجھی کو تراشنا ہوگا ہوا کی چاپ سے شکلیں ابھارنا ہوں گی ابھی تو تیری طبیعت کو جیتنے کے لیے دل و نگاہ کی شرطیں بھی ہارنا ہوں گی ترے وصال کی خواہش کے تیز رنگوں سے ترے فراق کی صبحیں نکھارنا ہوں گی یہ شاعری یہ کتابیں یہ آیتیں دل کی نشانیاں یہ سبھی تجھ پہ وارنا ہوں گی " jab-se-us-ne-shahr-ko-chhodaa-har-rasta-sunsaan-huaa-mohsin-naqvi-ghazals," جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا سوچ رہا ہوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ہوا صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں مفت میں ہم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ہوا میرے حال پہ حیرت کیسی درد کے تنہا موسم میں پتھر بھی رو پڑتے ہیں انسان تو پھر انسان ہوا اتنی دیر میں اجڑے دل پر کتنے محشر بیت گئے جتنی دیر میں تجھ کو پا کر کھونے کا امکان ہوا کل تک جس کے گرد تھا رقصاں اک انبوہ ستاروں کا آج اسی کو تنہا پا کر میں تو بہت حیران ہوا اس کے زخم چھپا کر رکھیے خود اس شخص کی نظروں سے اس سے کیسا شکوہ کیجے وہ تو ابھی نادان ہوا جن اشکوں کی پھیکی لو کو ہم بے کار سمجھتے تھے ان اشکوں سے کتنا روشن اک تاریک مکان ہوا یوں بھی کم آمیز تھا محسنؔ وہ اس شہر کے لوگوں میں لیکن میرے سامنے آ کر اور بھی کچھ انجان ہوا " ham-jo-pahunche-sar-e-maqtal-to-ye-manzar-dekhaa-mohsin-naqvi-ghazals," ہم جو پہنچے سر مقتل تو یہ منظر دیکھا سب سے اونچا تھا جو سر نوک سناں پر دیکھا ہم سے مت پوچھ کہ کب چاند ابھرتا ہے یہاں ہم نے سورج بھی ترے شہر میں آ کر دیکھا ایسے لپٹے ہیں در و بام سے اب کے جیسے حادثوں نے بڑی مدت میں مرا گھر دیکھا اب یہ سوچا ہے کہ اوروں کا کہا مانیں گے اپنی آنکھوں پہ بھروسا تو بہت کر دیکھا ایک اک پل میں اترتا رہا صدیوں کا عذاب ہجر کی رات گزاری ہے کہ محشر دیکھا مجھ سے مت پوچھ مری تشنہ لبی کے تیور ریت چمکی تو یہ سمجھو کہ سمندر دیکھا دکھ ہی ایسا تھا کہ محسنؔ ہوا گم سم ورنہ غم چھپا کر اسے ہنستے ہوئے اکثر دیکھا " azaab-e-diid-men-aankhen-lahuu-lahuu-kar-ke-mohsin-naqvi-ghazals," عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے میں شرمسار ہوا تیری جستجو کر کے کھنڈر کی تہ سے بریدہ بدن سروں کے سوا ملا نہ کچھ بھی خزانوں کی آرزو کر کے سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے چلیں گے ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے مسافت شب ہجراں کے بعد بھید کھلا ہوا دکھی ہے چراغوں کی آبرو کر کے زمیں کی پیاس اسی کے لہو کو چاٹ گئی وہ خوش ہوا تھا سمندر کو آب جو کر کے یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخ رو کر کے جلوس اہل وفا کس کے در پہ پہنچا ہے نشان‌ طوق وفا زینت گلو کر کے اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ہے ہماری آنکھ تری دید سے وضو کر کے کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا محسنؔ ملا ہے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے " zakhm-ke-phuul-se-taskiin-talab-kartii-hai-mohsin-naqvi-ghazals," زخم کے پھول سے تسکین طلب کرتی ہے بعض اوقات مری روح غضب کرتی ہے جو تری زلف سے اترے ہوں مرے آنگن میں چاندنی ایسے اندھیروں کا ادب کرتی ہے اپنے انصاف کی زنجیر نہ دیکھو کہ یہاں مفلسی ذہن کی فریاد بھی کب کرتی ہے صحن گلشن میں ہواؤں کی صدا غور سے سن ہر کلی ماتم‌ صد جشن طرب کرتی ہے صرف دن ڈھلنے پہ موقوف نہیں ہے محسنؔ زندگی زلف کے سائے میں بھی شب کرتی ہے " khumaar-e-mausam-e-khushbuu-had-e-chaman-men-khulaa-mohsin-naqvi-ghazals," خمار موسم خوشبو حد چمن میں کھلا مری غزل کا خزانہ ترے بدن میں کھلا تم اس کا حسن کبھی اس کی بزم میں دیکھو کہ ماہتاب سدا شب کے پیرہن میں کھلا عجب نشہ تھا مگر اس کی بخشش لب میں کہ یوں تو ہم سے بھی کیا کیا نہ وہ سخن میں کھلا نہ پوچھ پہلی ملاقات میں مزاج اس کا وہ رنگ رنگ میں سمٹا کرن کرن میں کھلا بدن کی چاپ نگہ کی زباں بھی ہوتی ہے یہ بھید ہم پہ مگر اس کی انجمن میں کھلا کہ جیسے ابر ہوا کی گرہ سے کھل جائے سفر کی شام مرا مہرباں تھکن میں کھلا کہوں میں کس سے نشانی تھی کس مسیحا کی وہ ایک زخم کہ محسنؔ مرے کفن میں کھلا " ashk-apnaa-ki-tumhaaraa-nahiin-dekhaa-jaataa-mohsin-naqvi-ghazals," اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا آگ کی ضد پہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے اب تو ابرو کا اشارا نہیں دیکھا جاتا کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا " har-ek-shab-yuunhii-dekhengii-suu-e-dar-aankhen-mohsin-naqvi-ghazals," ہر ایک شب یوں ہی دیکھیں گی سوئے در آنکھیں تجھے گنوا کے نہ سوئیں گی عمر بھر آنکھیں طلوع صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جائیں کہیں یہ دشت شب میں ستاروں کی ہم سفر آنکھیں ستم یہ کم تو نہیں دل گرفتگی کے لئے میں شہر بھر میں اکیلا ادھر ادھر آنکھیں شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں میں زخم زخم ہوا جب تو مجھ پہ بھید کھلا کہ پتھروں کو سمجھتی رہیں گہر آنکھیں میں اپنے اشک سنبھالوں گا کب تلک محسنؔ زمانہ سنگ بکف ہے تو شیشہ گر آنکھیں " ye-kah-gae-hain-musaafir-lute-gharon-vaale-mohsin-naqvi-ghazals," یہ کہہ گئے ہیں مسافر لٹے گھروں والے ڈریں ہوا سے پرندے کھلے پروں والے یہ میرے دل کی ہوس دشت بے کراں جیسی وہ تیری آنکھ کے تیور سمندروں والے ہوا کے ہاتھ میں کاسے ہیں زرد پتوں کے کہاں گئے وہ سخی سبز چادروں والے کہاں ملیں گے وہ اگلے دنوں کے شہزادے پہن کے تن پہ لبادے گداگروں والے پہاڑیوں میں گھرے یہ بجھے بجھے رستے کبھی ادھر سے گزرتے تھے لشکروں والے انہی پہ ہو کبھی نازل عذاب آگ اجل وہی نگر کبھی ٹھہریں پیمبروں والے ترے سپرد کروں آئینے مقدر کے ادھر تو آ مرے خوش رنگ پتھروں والے کسی کو دیکھ کے چپ چپ سے کیوں ہوئے محسنؔ کہاں گئے وہ ارادے سخن وروں والے " jab-hijr-ke-shahr-men-dhuup-utrii-main-jaag-padaa-to-khvaab-huaa-mohsin-naqvi-ghazals," جب ہجر کے شہر میں دھوپ اتری میں جاگ پڑا تو خواب ہوا مری سوچ خزاں کی شاخ بنی ترا چہرہ اور گلاب ہوا برفیلی رت کی تیز ہوا کیوں جھیل میں کنکر پھینک گئی اک آنکھ کی نیند حرام ہوئی اک چاند کا عکس خراب ہوا ترے ہجر میں ذہن پگھلتا تھا ترے قرب میں آنکھیں جلتی ہیں تجھے کھونا ایک قیامت تھا ترا ملنا اور عذاب ہوا بھرے شہر میں ایک ہی چہرہ تھا جسے آج بھی گلیاں ڈھونڈتی ہیں کسی صبح اسی کی دھوپ کھلی کسی رات وہی مہتاب ہوا بڑی عمر کے بعد ان آنکھوں میں کوئی ابر اترا تری یادوں کا مرے دل کی زمیں آباد ہوئی مرے غم کا نگر شاداب ہوا کبھی وصل میں محسنؔ دل ٹوٹا کبھی ہجر کی رت نے لاج رکھی کسی جسم میں آنکھیں کھو بیٹھے کوئی چہرہ کھلی کتاب ہوا " kis-ne-sang-e-khaamoshii-phenkaa-bhare-baazaar-par-mohsin-naqvi-ghazals," کس نے سنگ خامشی پھینکا بھرے بازار پر اک سکوت مرگ طاری ہے در و دیوار پر تو نے اپنی زلف کے سائے میں افسانے کہے مجھ کو زنجیریں ملی ہیں جرأت اظہار پر شاخ عریاں پر کھلا اک پھول اس انداز سے جس طرح تازہ لہو چمکے نئی تلوار پر سنگ دل احباب کے دامن میں رسوائی کے پھول میں نے دیکھا ہے نیا منظر فراز دار پر اب کوئی تہمت بھی وجہ کرب رسوائی نہیں زندگی اک عمر سے چپ ہے ترے اصرار پر میں سر مقتل حدیث زندگی کہتا رہا انگلیاں اٹھتی رہیں محسنؔ مرے کردار پر " ye-dil-ye-paagal-dil-miraa-kyuun-bujh-gayaa-aavaargii-mohsin-naqvi-ghazals," یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا میں نے کہا تو کون ہے اس نے کہا آوارگی لوگو بھلا اس شہر میں کیسے جئیں گے ہم جہاں ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی یہ درد کی تنہائیاں یہ دشت کا ویراں سفر ہم لوگ تو اکتا گئے اپنی سنا آوارگی اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا مرے غم کا سبب صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا آوارگی اس سمت وحشی خواہشوں کی زد میں پیمان وفا اس سمت لہروں کی دھمک کچا گھڑا آوارگی کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا میں نے خواب میں محسنؔ مجھے راس آئے گی شاید سدا آوارگی " itnii-muddat-baad-mile-ho-mohsin-naqvi-ghazals," اتنی مدت بعد ملے ہو کن سوچوں میں گم پھرتے ہو اتنے خائف کیوں رہتے ہو ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے رات گئے تک کیوں جاگے ہو میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں تم دریا سے بھی گہرے ہو کون سی بات ہے تم میں ایسی اتنے اچھے کیوں لگتے ہو پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا تھا پتھر بن کر کیا تکتے ہو جاؤ جیت کا جشن مناؤ میں جھوٹا ہوں تم سچے ہو اپنے شہر کے سب لوگوں سے میری خاطر کیوں الجھے ہو کہنے کو رہتے ہو دل میں پھر بھی کتنے دور کھڑے ہو رات ہمیں کچھ یاد نہیں تھا رات بہت ہی یاد آئے ہو ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصے اپنی کہو اب تم کیسے ہو محسنؔ تم بدنام بہت ہو جیسے ہو پھر بھی اچھے ہو " ab-ke-baarish-men-to-ye-kaar-e-ziyaan-honaa-hii-thaa-mohsin-naqvi-ghazals," اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا کس کے بس میں تھا ہوا کی وحشتوں کو روکنا برگ گل کو خاک شعلے کو دھواں ہونا ہی تھا جب کوئی سمت سفر طے تھی نہ حد رہ گزر اے مرے رہ رو سفر تو رائیگاں ہونا ہی تھا مجھ کو رکنا تھا اسے جانا تھا اگلے موڑ تک فیصلہ یہ اس کے میرے درمیاں ہونا ہی تھا چاند کو چلنا تھا بہتی سیپیوں کے ساتھ ساتھ معجزہ یہ بھی تہہ آب رواں ہونا ہی تھا میں نئے چہروں پہ کہتا تھا نئی غزلیں سدا میری اس عادت سے اس کو بد گماں ہونا ہی تھا شہر سے باہر کی ویرانی بسانا تھی مجھے اپنی تنہائی پہ کچھ تو مہرباں ہونا ہی تھا اپنی آنکھیں دفن کرنا تھیں غبار خاک میں یہ ستم بھی ہم پہ زیر آسماں ہونا ہی تھا بے صدا بستی کی رسمیں تھیں یہی محسنؔ مرے میں زباں رکھتا تھا مجھ کو بے زباں ہونا ہی تھا " saanson-ke-is-hunar-ko-na-aasaan-khayaal-kar-mohsin-naqvi-ghazals," سانسوں کے اس ہنر کو نہ آساں خیال کر زندہ ہوں ساعتوں کو میں صدیوں میں ڈھال کر مالی نے آج کتنی دعائیں وصول کیں کچھ پھول اک فقیر کی جھولی میں ڈال کر کل یوم ہجر زرد زمانوں کا یوم ہے شب بھر نہ جاگ مفت میں آنکھیں نہ لال کر اے گرد باد لوٹ کے آنا ہے پھر مجھے رکھنا مرے سفر کی اذیت سنبھال کر محراب میں دیے کی طرح زندگی گزار منہ زور آندھیوں میں نہ خود کو نڈھال کر شاید کسی نے بخل زمیں پر کیا ہے طنز گہرے سمندروں سے جزیرے نکال کر یہ نقد جاں کہ اس کا لٹانا تو سہل ہے گر بن پڑے تو اس سے بھی مشکل سوال کر محسنؔ برہنہ سر چلی آئی ہے شام غم غربت نہ دیکھ اس پہ ستاروں کی شال کر " ek-pal-men-zindagii-bhar-kii-udaasii-de-gayaa-mohsin-naqvi-ghazals," ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا وہ جدا ہوتے ہوئے کچھ پھول باسی دے گیا نوچ کر شاخوں کے تن سے خشک پتوں کا لباس زرد موسم بانجھ رت کو بے لباسی دے گیا صبح کے تارے مری پہلی دعا تیرے لیے تو دل بے صبر کو تسکیں ذرا سی دے گیا لوگ ملبوں میں دبے سائے بھی دفنانے لگے زلزلہ اہل زمیں کو بد حواسی دے گیا تند جھونکے کی رگوں میں گھول کر اپنا دھواں اک دیا اندھی ہوا کو خود شناسی دے گیا لے گیا محسنؔ وہ مجھ سے ابر بنتا آسماں اس کے بدلے میں زمیں صدیوں کی پیاسی دے گیا " ab-vo-tuufaan-hai-na-vo-shor-havaaon-jaisaa-mohsin-naqvi-ghazals," اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا دل کا عالم ہے ترے بعد خلاؤں جیسا کاش دنیا مرے احساس کو واپس کر دے خامشی کا وہی انداز صداؤں جیسا پاس رہ کر بھی ہمیشہ وہ بہت دور ملا اس کا انداز تغافل تھا خداؤں جیسا کتنی شدت سے بہاروں کو تھا احساس‌ مآل پھول کھل کر بھی رہا زرد خزاؤں جیسا کیا قیامت ہے کہ دنیا اسے سردار کہے جس کا انداز سخن بھی ہو گداؤں جیسا پھر تری یاد کے موسم نے جگائے محشر پھر مرے دل میں اٹھا شور ہواؤں جیسا بارہا خواب میں پا کر مجھے پیاسا محسنؔ اس کی زلفوں نے کیا رقص گھٹاؤں جیسا " bhadkaaen-mirii-pyaas-ko-aksar-tirii-aankhen-mohsin-naqvi-ghazals," بھڑکائیں مری پیاس کو اکثر تری آنکھیں صحرا مرا چہرا ہے سمندر تری آنکھیں پھر کون بھلا داد تبسم انہیں دے گا روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں خالی جو ہوئی شام غریباں کی ہتھیلی کیا کیا نہ لٹاتی رہیں گوہر تیری آنکھیں بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن کھلتی ہیں بہت دل میں اتر کر تری آنکھیں اب تک مری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تری آنکھیں ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تری آنکھیں میں سنگ صفت ایک ہی رستے میں کھڑا ہوں شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تری آنکھیں یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسنؔ وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تری آنکھیں " saare-lahje-tire-be-zamaan-ek-main-mohsin-naqvi-ghazals," سارے لہجے ترے بے زماں ایک میں اس بھرے شہر میں رائیگاں ایک میں وصل کے شہر کی روشنی ایک تو ہجر کے دشت میں کارواں ایک میں بجلیوں سے بھری بارشیں زور پر اپنی بستی میں کچا مکاں ایک میں حسرتوں سے اٹے آسماں کے تلے جلتی بجھتی ہوئی کہکشاں ایک میں مجھ کو فارغ دنوں کی امانت سمجھ بھولی بسری ہوئی داستاں ایک میں رونقیں شور میلے جھمیلے ترے اپنی تنہائی کا رازداں ایک میں ایک میں اپنی ہی زندگی کا بھرم اپنی ہی موت پر نوحہ خواں ایک میں اس طرف سنگ باری ہر اک بام سے اس طرف آئنوں کی دکاں ایک میں وہ نہیں ہے تو محسنؔ یہ مت سوچنا اب بھٹکتا پھروں گا کہاں ایک میں " vo-dilaavar-jo-siyah-shab-ke-shikaarii-nikle-mohsin-naqvi-ghazals," وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے وہ بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پجاری نکلے سب کے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیں باتیں میری میرے دشمن مرے لفظوں کے بھکاری نکلے اک جنازہ اٹھا مقتل میں عجب شان کے ساتھ جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے ہم وہ پتھر ہیں جو ہر دور میں بھاری نکلے عکس کوئی ہو خد و خال تمہارے دیکھوں بزم کوئی ہو مگر بات تمہاری نکلے اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا محسنؔ میرے قاتل تو مرے اپنے حواری نکلے " main-dil-pe-jabr-karuungaa-tujhe-bhulaa-duungaa-mohsin-naqvi-ghazals," میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا یہ تیرگی مرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو میں تیرے شہر کے سارے دیئے بجھا دوں گا ہوا کا ہاتھ بٹاؤں گا ہر تباہی میں ہرے شجر سے پرندے میں خود اڑا دوں گا وفا کروں گا کسی سوگوار چہرے سے پرانی قبر پہ کتبہ نیا سجا دوں گا اسی خیال میں گزری ہے شام درد اکثر کہ درد حد سے بڑھے گا تو مسکرا دوں گا تو آسمان کی صورت ہے گر پڑے گا کبھی زمیں ہوں میں بھی مگر تجھ کو آسرا دوں گا بڑھا رہی ہیں مرے دکھ نشانیاں تیری میں تیرے خط تری تصویر تک جلا دوں گا بہت دنوں سے مرا دل اداس ہے محسنؔ اس آئنے کو کوئی عکس اب نیا دوں گا " ba-naam-e-taaqat-koii-ishaara-nahiin-chalegaa-mohsin-naqvi-ghazals," بنام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا اداس نسلوں پہ اب اجارہ نہیں چلے گا ہم اپنی دھرتی سے اپنی ہر سمت خود تلاشیں ہماری خاطر کوئی ستارہ نہیں چلے گا حیات اب شام غم کی تشیبہ خود بنے گی تمہاری زلفوں کا استعارہ نہیں چلے گا چلو سروں کا خراج نوک سناں کو بخشیں کہ جاں بچانے کا استخارہ نہیں چلے گا ہمارے جذبے بغاوتوں کو تراشتے ہیں ہمارے جذبوں پہ بس تمہارا نہیں چلے گا ازل سے قائم ہیں دونوں اپنی ضدوں پہ محسنؔ چلے گا پانی مگر کنارہ نہیں چلے گا " zabaan-rakhtaa-huun-lekin-chup-khadaa-huun-mohsin-naqvi-ghazals," زباں رکھتا ہوں لیکن چپ کھڑا ہوں میں آوازوں کے بن میں گھر گیا ہوں مرے گھر کا دریچہ پوچھتا ہے میں سارا دن کہاں پھرتا رہا ہوں مجھے میرے سوا سب لوگ سمجھیں میں اپنے آپ سے کم بولتا ہوں ستاروں سے حسد کی انتہا ہے میں قبروں پر چراغاں کر رہا ہوں سنبھل کر اب ہواؤں سے الجھنا میں تجھ سے پیشتر بجھنے لگا ہوں مری قربت سے کیوں خائف ہے دنیا سمندر ہوں میں خود میں گونجتا ہوں مجھے کب تک سمیٹے گا وہ محسنؔ میں اندر سے بہت ٹوٹا ہوا ہوں " agarche-main-ik-chataan-saa-aadmii-rahaa-huun-mohsin-naqvi-ghazals," اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں مگر ترے بعد حوصلہ ہے کہ جی رہا ہوں وہ ریزہ ریزہ مرے بدن میں اتر رہا ہے میں قطرہ قطرہ اسی کی آنکھوں کو پی رہا ہوں تری ہتھیلی پہ کس نے لکھا ہے قتل میرا مجھے تو لگتا ہے میں ترا دوست بھی رہا ہوں کھلی ہیں آنکھیں مگر بدن ہے تمام پتھر کوئی بتائے میں مر چکا ہوں کہ جی رہا ہوں کہاں ملے گی مثال میری ستم گری کی کہ میں گلابوں کے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں نہ پوچھ مجھ سے کہ شہر والوں کا حال کیا تھا کہ میں تو خود اپنے گھر میں بھی دو گھڑی رہا ہوں ملا تو بیتے دنوں کا سچ اس کی آنکھ میں تھا وہ آشنا جس سے مدتوں اجنبی رہا ہوں بھلا دے مجھ کو کہ بے وفائی بجا ہے لیکن گنوا نہ مجھ کو کہ میں تری زندگی رہا ہوں وہ اجنبی بن کے اب ملے بھی تو کیا ہے محسنؔ یہ ناز کم ہے کہ میں بھی اس کا کبھی رہا ہوں " aap-kii-aankh-se-gahraa-hai-mirii-ruuh-kaa-zakhm-mohsin-naqvi-ghazals," آپ کی آنکھ سے گہرا ہے مری روح کا زخم آپ کیا سوچ سکیں گے مری تنہائی کو میں تو دم توڑ رہا تھا مگر افسردہ حیات خود چلی آئی مری حوصلہ افزائی کو لذت غم کے سوا تیری نگاہوں کے بغیر کون سمجھا ہے مرے زخم کی گہرائی کو میں بڑھاؤں گا تری شہرت خوشبو کا نکھار تو دعا دے مرے افسانۂ رسوائی کو وہ تو یوں کہیے کہ اک قوس قزح پھیل گئی ورنہ میں بھول گیا تھا تری انگڑائی کو " ajiib-khauf-musallat-thaa-kal-havelii-par-mohsin-naqvi-ghazals," عجیب خوف مسلط تھا کل حویلی پر لہو چراغ جلاتی رہی ہتھیلی پر سنے گا کون مگر احتجاج خوشبو کا کہ سانپ زہر چھڑکتا رہا چنبیلی پر شب فراق مری آنکھ کو تھکن سے بچا کہ نیند وار نہ کر دے تری سہیلی پر وہ بے وفا تھا تو پھر اتنا مہرباں کیوں تھا بچھڑ کے اس سے میں سوچوں اسی پہیلی پر جلا نہ گھر کا اندھیرا چراغ سے محسنؔ ستم نہ کر مری جاں اپنے یار بیلی پر " main-chup-rahaa-ki-zahr-yahii-mujh-ko-raas-thaa-mohsin-naqvi-ghazals," میں چپ رہا کہ زہر یہی مجھ کو راس تھا وہ سنگ لفظ پھینک کے کتنا اداس تھا اکثر مری قبا پہ ہنسی آ گئی جسے کل مل گیا تو وہ بھی دریدہ لباس تھا میں ڈھونڈھتا تھا دور خلاؤں میں ایک جسم چہروں کا اک ہجوم مرے آس پاس تھا تم خوش تھے پتھروں کو خدا جان کے مگر مجھ کو یقین ہے وہ تمہارا قیاس تھا بخشا ہے جس نے روح کو زخموں کا پیرہن محسنؔ وہ شخص کتنا طبیعت شناس تھا " gazlon-kii-dhanak-odh-mire-shola-badan-tuu-mohsin-naqvi-ghazals," غزلوں کی دھنک اوڑھ مرے شعلہ بدن تو ہے میرا سخن تو مرا موضوع سخن تو کلیوں کی طرح پھوٹ سر شاخ تمنا خوشبو کی طرح پھیل چمن تا بہ چمن تو نازل ہو کبھی ذہن پہ آیات کی صورت آیات میں ڈھل جا کبھی جبریل دہن تو اب کیوں نہ سجاؤں میں تجھے دیدہ و دل میں لگتا ہے اندھیرے میں سویرے کی کرن تو پہلے نہ کوئی رمز سخن تھی نہ کنایہ اب نقطۂ تکمیل ہنر محور فن تو یہ کم تو نہیں تو مرا معیار نظر ہے اے دوست مرے واسطے کچھ اور نہ بن تو ممکن ہو تو رہنے دے مجھے ظلمت جاں میں ڈھونڈے گا کہاں چاندنی راتوں کا کفن تو " fazaa-kaa-habs-shaguufon-ko-baas-kyaa-degaa-mohsin-naqvi-ghazals," فضا کا حبس شگوفوں کو باس کیا دے گا بدن دریدہ کسی کو لباس کیا دے گا یہ دل کہ قحط انا سے غریب ٹھہرا ہے مری زباں کو زر التماس کیا دے گا جو دے سکا نہ پہاڑوں کو برف کی چادر وہ میری بانجھ زمیں کو کپاس کیا دے گا یہ شہر یوں بھی تو دہشت بھرا نگر ہے یہاں دلوں کا شور ہوا کو ہراس کیا دے گا وہ زخم دے کے مجھے حوصلہ بھی دیتا ہے اب اس سے بڑھ کے طبیعت شناس کیا دے گا جو اپنی ذات سے باہر نہ آ سکا اب تک وہ پتھروں کو متاع حواس کیا دے گا وہ میرے اشک بجھائے گا کس طرح محسنؔ سمندروں کو وہ صحرا کی پیاس کیا دے گا " havaa-e-hijr-men-jo-kuchh-thaa-ab-ke-khaak-huaa-mohsin-naqvi-ghazals," ہوائے ہجر میں جو کچھ تھا اب کے خاک ہوا کہ پیرہن تو گیا تھا بدن بھی چاک ہوا اب اس سے ترک تعلق کروں تو مر جاؤں بدن سے روح کا اس درجہ اشتراک ہوا یہی کہ سب کی کمانیں ہمیں پہ ٹوٹی ہیں چلو حساب صف دوستاں تو پاک ہوا وہ بے سبب یوں ہی روٹھا ہے لمحہ بھر کے لئے یہ سانحہ نہ سہی پھر بھی کرب‌ ناک ہوا اسی کے قرب نے تقسیم کر دیا آخر وہ جس کا ہجر مجھے وجہ انہماک ہوا شدید وار نہ دشمن دلیر تھا محسنؔ میں اپنی بے خبری سے مگر ہلاک ہوا " kathin-tanhaaiyon-se-kaun-khelaa-main-akelaa-mohsin-naqvi-ghazals," کٹھن تنہائیوں سے کون کھیلا میں اکیلا بھرا اب بھی مرے گاؤں کا میلہ میں اکیلا بچھڑ کر تجھ سے میں شب بھر نہ سویا کون رویا بجز میرے یہ دکھ بھی کس نے جھیلا میں اکیلا یہ بے آواز بنجر بن کے باسی یہ اداسی یہ دہشت کا سفر جنگل یہ بیلہ میں اکیلا میں دیکھوں کب تلک منظر سہانے سب پرانے وہی دنیا وہی دل کا جھمیلا میں اکیلا وہ جس کے خوف سے صحرا سدھارے لوگ سارے گزرنے کو ہے طوفاں کا وہ ریلا میں اکیلا " ab-ye-sochuun-to-bhanvar-zehn-men-pad-jaate-hain-mohsin-naqvi-ghazals," اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں کیسے چہرے ہیں جو ملتے ہی بچھڑ جاتے ہیں کیوں ترے درد کو دیں تہمت ویرانئ دل زلزلوں میں تو بھرے شہر اجڑ جاتے ہیں موسم زرد میں اک دل کو بچاؤں کیسے ایسی رت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں اب کوئی کیا مرے قدموں کے نشاں ڈھونڈے گا تیز آندھی میں تو خیمے بھی اکھڑ جاتے ہیں شغل ارباب ہنر پوچھتے کیا ہو کہ یہ لوگ پتھروں میں بھی کبھی آئنے جڑ جاتی ہیں سوچ کا آئنہ دھندلا ہو تو پھر وقت کے ساتھ چاند چہروں کے خد و خال بگڑ جاتے ہیں شدت غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی کچھ دیئے تند ہواؤں سے بھی لڑ جاتے ہیں وہ بھی کیا لوگ ہیں محسنؔ جو وفا کی خاطر خود تراشیدہ اصولوں پہ بھی اڑ جاتے ہیں " ujde-hue-logon-se-gurezaan-na-huaa-kar-mohsin-naqvi-ghazals," اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آ کر ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے تو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسنؔ دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر " qatl-chhupte-the-kabhii-sang-kii-diivaar-ke-beach-mohsin-naqvi-ghazals," قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ رزق ملبوس مکاں سانس مرض قرض دوا منقسم ہو گیا انساں انہی افکار کے بیچ دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسنؔ آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ " main-kal-tanhaa-thaa-khilqat-so-rahii-thii-mohsin-naqvi-ghazals," میں کل تنہا تھا خلقت سو رہی تھی مجھے خود سے بھی وحشت ہو رہی تھی اسے جکڑا ہوا تھا زندگی نے سرہانے موت بیٹھی رو رہی تھی کھلا مجھ پر کہ میری خوش نصیبی مرے رستے میں کانٹے بو رہی تھی مجھے بھی نارسائی کا ثمر دے مجھے تیری تمنا جو رہی تھی مرا قاتل مرے اندر چھپا تھا مگر بد نام خلقت ہو رہی تھی بغاوت کر کے خود اپنے لہو سے غلامی داغ اپنے دھو رہی تھی لبوں پر تھا سکوت مرگ لیکن مرے دل میں قیامت سو رہی تھی بجز موج فنا دنیا میں محسنؔ ہماری جستجو کس کو رہی تھی " maarka-ab-ke-huaa-bhii-to-phir-aisaa-hogaa-mohsin-naqvi-ghazals," معرکہ اب کے ہوا بھی تو پھر ایسا ہوگا تیرے دریا پہ مری پیاس کا پہرہ ہوگا اس کی آنکھیں ترے چہرے پہ بہت بولتی ہیں اس نے پلکوں سے ترا جسم تراشا ہوگا کتنے جگنو اسی خواہش میں مرے ساتھ چلے کوئی رستہ ترے گھر کو بھی تو جاتا ہوگا میں بھی اپنے کو بھلائے ہوئے پھرتا ہوں بہت آئنہ اس نے بھی کچھ روز نہ دیکھا ہوگا رات جل تھل مری آنکھوں میں اتر آیا تھا صورت ابر کوئی ٹوٹ کے برسا ہوگا یہ مسیحائی اسے بھول گئی ہے محسنؔ یا پھر ایسا ہے مرا زخم ہی گہرا ہوگا " nayaa-hai-shahr-nae-aasre-talaash-karuun-mohsin-naqvi-ghazals," نیا ہے شہر نئے آسرے تلاش کروں تو کھو گیا ہے کہاں اب تجھے تلاش کروں جو دشت میں بھی جلاتے تھے فصل گل کے چراغ میں شہر میں بھی وہی آبلے تلاش کروں تو عکس ہے تو کبھی میری چشم تر میں اتر ترے لیے میں کہاں آئنے تلاش کروں تجھے حواس کی آوارگی کا علم کہاں کبھی میں تجھ کو ترے سامنے تلاش کروں غزل کہوں کبھی سادہ سے خط لکھوں اس کو اداس دل کے لیے مشغلے تلاش کروں مرے وجود سے شاید ملے سراغ ترا کبھی میں خود کو ترے واسطے تلاش کروں میں چپ رہوں کبھی بے وجہ ہنس پڑوں محسنؔ اسے گنوا کے عجب حوصلے تلاش کروں " phir-vahii-main-huun-vahii-shahr-badar-sannaataa-mohsin-naqvi-ghazals," پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا مجھ کو ڈس لے نہ کہیں خاک بسر سناٹا دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو ہجر والوں نے لیا رخت سفر سناٹا کس سے پوچھوں کہ کہاں ہے مرا رونے والا اس طرف میں ہوں مرے گھر سے ادھر سناٹا تو صداؤں کے بھنور میں مجھے آواز تو دے تجھ کو دے گا مرے ہونے کی خبر سناٹا اس کو ہنگامۂ منزل کی خبر کیا دو گے جس نے پایا ہو سر راہ گزر سناٹا حاصل کنج قفس وہم بکف تنہائی رونق شام سفر تا بہ سحر سناٹا قسمت شاعر سیماب صفت دشت کی موت قیمت ریزۂ الماس ہنر سناٹا جان محسنؔ مری تقدیر میں کب لکھا ہے ڈوبتا چاند ترا قرب گجر سناٹا " jugnuu-guhar-charaag-ujaale-to-de-gayaa-mohsin-naqvi-ghazals," جگنو گہر چراغ اجالے تو دے گیا وہ خود کو ڈھونڈنے کے حوالے تو دے گیا اب اس سے بڑھ کے کیا ہو وراثت فقیر کی بچوں کو اپنی بھیک کے پیالے تو دے گیا اب میری سوچ سائے کی صورت ہے اس کے گرد میں بجھ کے اپنے چاند کو ہالے تو دے گیا شاید کہ فصل سنگ زنی کچھ قریب ہے وہ کھیلنے کو برف کے گالے تو دے گیا اہل طلب پہ اس کے لیے فرض ہے دعا خیرات میں وہ چند نوالے تو دے گیا محسنؔ اسے قبا کی ضرورت نہ تھی مگر دنیا کو روز و شب کے دوشالے تو دے گیا " zikr-e-shab-e-firaaq-se-vahshat-use-bhii-thii-mohsin-naqvi-ghazals," ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی اس رات دیر تک وہ رہا محو گفتگو مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی مجھ سے بچھڑ کے شہر میں گھل مل گیا وہ شخص حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید سائے سے پیار دھوپ سے نفرت اسے بھی تھی محسنؔ میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی " tire-badan-se-jo-chhuu-kar-idhar-bhii-aataa-hai-mohsin-naqvi-ghazals," ترے بدن سے جو چھو کر ادھر بھی آتا ہے مثال رنگ وہ جھونکا نظر بھی آتا ہے تمام شب جہاں جلتا ہے اک اداس دیا ہوا کی راہ میں اک ایسا گھر بھی آتا ہے وہ مجھ کو ٹوٹ کے چاہے گا چھوڑ جائے گا مجھے خبر تھی اسے یہ ہنر بھی آتا ہے اجاڑ بن میں اترتا ہے ایک جگنو بھی ہوا کے ساتھ کوئی ہم سفر بھی آتا ہے وفا کی کون سی منزل پہ اس نے چھوڑا تھا کہ وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے جہاں لہو کے سمندر کی حد ٹھہرتی ہے وہیں جزیرۂ لعل و گہر بھی آتا ہے چلے جو ذکر فرشتوں کی پارسائی کا تو زیر بحث مقام بشر بھی آتا ہے ابھی سناں کو سنبھالے رہیں عدو میرے کہ ان صفوں میں کہیں میرا سر بھی آتا ہے کبھی کبھی مجھے ملنے بلندیوں سے کوئی شعاع صبح کی صورت اتر بھی آتا ہے اسی لیے میں کسی شب نہ سو سکا محسنؔ وہ ماہتاب کبھی بام پر بھی آتا ہے " bichhad-ke-mujh-se-ye-mashgala-ikhtiyaar-karnaa-mohsin-naqvi-ghazals," بچھڑ کے مجھ سے یہ مشغلہ اختیار کرنا ہوا سے ڈرنا بجھے چراغوں سے پیار کرنا کھلی زمینوں میں جب بھی سرسوں کے پھول مہکیں تم ایسی رت میں سدا مرا انتظار کرنا جو لوگ چاہیں تو پھر تمہیں یاد بھی نہ آئیں کبھی کبھی تم مجھے بھی ان میں شمار کرنا کسی کو الزام بے وفائی کبھی نہ دینا مری طرح اپنے آپ کو سوگوار کرنا تمام وعدے کہاں تلک یاد رکھ سکو گے جو بھول جائیں وہ عہد بھی استوار کرنا یہ کس کی آنکھوں نے بادلوں کو سکھا دیا ہے کہ سینۂ سنگ سے رواں آبشار کرنا میں زندگی سے نہ کھل سکا اس لیے بھی محسنؔ کہ بہتے پانی پہ کب تلک اعتبار کرنا " labon-pe-harf-e-rajaz-hai-zirah-utaar-ke-bhii-mohsin-naqvi-ghazals," لبوں پہ حرف رجز ہے زرہ اتار کے بھی میں جشن فتح مناتا ہوں جنگ ہار کے بھی اسے لبھا نہ سکا میرے بعد کا موسم بہت اداس لگا خال و خد سنوار کے بھی اب ایک پل کا تغافل بھی سہہ نہیں سکتے ہم اہل دل کبھی عادی تھے انتظار کے بھی وہ لمحہ بھر کی کہانی کہ عمر بھر میں کہی ابھی تو خود سے تقاضے تھے اختصار کے بھی زمین اوڑھ لی ہم نے پہنچ کے منزل پر کہ ہم پہ قرض تھے کچھ گرد رہ گزار کے بھی مجھے نہ سن مرے بے شکل اب دکھائی تو دے میں تھک گیا ہوں فضا میں تجھے پکار کے بھی مری دعا کو پلٹنا تھا پھر ادھر محسنؔ بہت اجاڑ تھے منظر افق سے پار کے بھی " ujad-ujad-ke-sanvartii-hai-tere-hijr-kii-shaam-mohsin-naqvi-ghazals," اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے مری کہ شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام اجاڑ گھر میں کوئی چاند کب اترتا ہے سوال مجھ سے یہ کرتی ہے تیرے ہجر کی شام مرے سفر میں اک ایسا بھی موڑ آتا ہے جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ہجر کی شام بہت عزیز ہیں دل کو یہ زخم زخم رتیں انہی رتوں میں نکھرتی ہے تیرے ہجر کی شام یہ میرا دل یہ سراسر نگارخانۂ غم سدا اسی میں اترتی ہے تیرے ہجر کی شام جہاں جہاں بھی ملیں تیری قربتوں کے نشاں وہاں وہاں سے ابھرتی ہے تیرے ہجر کی شام یہ حادثہ تجھے شاید اداس کر دے گا کہ میرے ساتھ ہی مرتی ہے تیرے ہجر کی شام " ufuq-agarche-pighaltaa-dikhaaii-padtaa-hai-jaan-nisar-akhtar-ghazals," افق اگرچہ پگھلتا دکھائی پڑتا ہے مجھے تو دور سویرا دکھائی پڑتا ہے ہمارے شہر میں بے چہرہ لوگ بستے ہیں کبھی کبھی کوئی چہرہ دکھائی پڑتا ہے چلو کہ اپنی محبت سبھی کو بانٹ آئیں ہر ایک پیار کا بھوکا دکھائی پڑتا ہے جو اپنی ذات سے اک انجمن کہا جائے وہ شخص تک مجھے تنہا دکھائی پڑتا ہے نہ کوئی خواب نہ کوئی خلش نہ کوئی خمار یہ آدمی تو ادھورا دکھائی پڑتا ہے لچک رہی ہیں شعاعوں کی سیڑھیاں پیہم فلک سے کوئی اترتا دکھائی پڑتا ہے چمکتی ریت پہ یہ غسل آفتاب ترا بدن تمام سنہرا دکھائی پڑتا ہے " mauj-e-gul-mauj-e-sabaa-mauj-e-sahar-lagtii-hai-jaan-nisar-akhtar-ghazals," موج گل موج صبا موج سحر لگتی ہے سر سے پا تک وہ سماں ہے کہ نظر لگتی ہے ہم نے ہر گام پہ سجدوں کے جلائے ہیں چراغ اب ہمیں تیری گلی راہ گزر لگتی ہے لمحے لمحے میں بسی ہے تری یادوں کی مہک آج کی رات تو خوشبو کا سفر لگتی ہے جل گیا اپنا نشیمن تو کوئی بات نہیں دیکھنا یہ ہے کہ اب آگ کدھر لگتی ہے ساری دنیا میں غریبوں کا لہو بہتا ہے ہر زمیں مجھ کو مرے خون سے تر لگتی ہے کوئی آسودہ نہیں اہل سیاست کے سوا یہ صدی دشمن ارباب ہنر لگتی ہے واقعہ شہر میں کل تو کوئی ایسا نہ ہوا یہ تو اخبار کے دفتر کی خبر لگتی ہے لکھنؤ کیا تری گلیوں کا مقدر تھا یہی ہر گلی آج تری خاک بسر لگتی ہے " mai-kashii-ab-mirii-aadat-ke-sivaa-kuchh-bhii-nahiin-jaan-nisar-akhtar-ghazals," میکشی اب مری عادت کے سوا کچھ بھی نہیں یہ بھی اک تلخ حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں فتنۂ عقل کے جویا مری دنیا سے گزر میری دنیا میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں دل میں وہ شورش جذبات کہاں تیرے بغیر ایک خاموش قیامت کے سوا کچھ بھی نہیں مجھ کو خود اپنی جوانی کی قسم ہے کہ یہ عشق اک جوانی کی شرارت کے سوا کچھ بھی نہیں " tamaam-umr-azaabon-kaa-silsila-to-rahaa-jaan-nisar-akhtar-ghazals," تمام عمر عذابوں کا سلسلہ تو رہا یہ کم نہیں ہمیں جینے کا حوصلہ تو رہا گزر ہی آئے کسی طرح تیرے دیوانے قدم قدم پہ کوئی سخت مرحلہ تو رہا چلو نہ عشق ہی جیتا نہ عقل ہار سکی تمام وقت مزے کا مقابلہ تو رہا میں تیری ذات میں گم ہو سکا نہ تو مجھ میں بہت قریب تھے ہم پھر بھی فاصلہ تو رہا یہ اور بات کہ ہر چھیڑ لاابالی تھی تری نظر کا دلوں سے معاملہ تو رہا " ashaar-mire-yuun-to-zamaane-ke-liye-hain-jaan-nisar-akhtar-ghazals," اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹا دیں کچھ درد کلیجے سے لگانے کے لیے ہیں سوچو تو بڑی چیز ہے تہذیب بدن کی ورنہ یہ فقط آگ بجھانے کے لیے ہیں آنکھوں میں جو بھر لو گے تو کانٹوں سے چبھیں گے یہ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لیے ہیں دیکھوں ترے ہاتھوں کو تو لگتا ہے ترے ہاتھ مندر میں فقط دیپ جلانے کے لیے ہیں یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں " laakh-aavaara-sahii-shahron-ke-futpaathon-pe-ham-jaan-nisar-akhtar-ghazals," لاکھ آوارہ سہی شہروں کے فٹ پاتھوں پہ ہم لاش یہ کس کی لیے پھرتے ہیں ان ہاتھوں پہ ہم اب انہیں باتوں کو سنتے ہیں تو آتی ہے ہنسی بے طرح ایمان لے آئے تھے جن باتوں پہ ہم کوئی بھی موسم ہو دل کی آگ کم ہوتی نہیں مفت کا الزام رکھ دیتے برساتوں پہ ہم زلف سے چھنتی ہوئی اس کے بدن کی تابشیں ہنس دیا کرتے تھے اکثر چاندنی راتوں پہ ہم اب انہیں پہچانتے بھی شرم آتی ہے ہمیں فخر کرتے تھے کبھی جن کی ملاقاتوں پہ ہم " sau-chaand-bhii-chamkenge-to-kyaa-baat-banegii-jaan-nisar-akhtar-ghazals," سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی تم آئے تو اس رات کی اوقات بنے گی ان سے یہی کہہ آئیں کہ اب ہم نہ ملیں گے آخر کوئی تقریب ملاقات بنے گی اے ناوک غم دل میں ہے اک بوند لہو کی کچھ اور تو کیا ہم سے مدارات بنے گی یہ ہم سے نہ ہوگا کہ کسی ایک کو چاہیں اے عشق ہماری نہ ترے سات بنے گی یہ کیا ہے کہ بڑھتے چلو بڑھتے چلو آگے جب بیٹھ کے سوچیں گے تو کچھ بات بنے گی " aahat-sii-koii-aae-to-lagtaa-hai-ki-tum-ho-jaan-nisar-akhtar-ghazals," آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو جب شاخ کوئی ہاتھ لگاتے ہی چمن میں شرمائے لچک جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو صندل سے مہکتی ہوئی پر کیف ہوا کا جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو اوڑھے ہوئے تاروں کی چمکتی ہوئی چادر ندی کوئی بل کھائے تو لگتا ہے کہ تم ہو جب رات گئے کوئی کرن میرے برابر چپ چاپ سی سو جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو " diida-o-dil-men-koii-husn-bikhartaa-hii-rahaa-jaan-nisar-akhtar-ghazals," دیدہ و دل میں کوئی حسن بکھرتا ہی رہا لاکھ پردوں میں چھپا کوئی سنورتا ہی رہا روشنی کم نہ ہوئی وقت کے طوفانوں میں دل کے دریا میں کوئی چاند اترتا ہی رہا راستے بھر کوئی آہٹ تھی کہ آتی ہی رہی کوئی سایہ مرے بازو سے گزرتا ہی رہا مٹ گیا پر تری بانہوں نے سمیٹا نہ مجھے شہر در شہر میں گلیوں میں بکھرتا ہی رہا لمحہ لمحہ رہے آنکھوں میں اندھیرے لیکن کوئی سورج مرے سینے میں ابھرتا ہی رہا " mujhe-maaluum-hai-main-saarii-duniyaa-kii-amaanat-huun-jaan-nisar-akhtar-ghazals," مجھے معلوم ہے میں ساری دنیا کی امانت ہوں مگر وہ لمحہ جب میں صرف اپنا ہو سا جاتا ہوں میں تم سے دور رہتا ہوں تو میرے ساتھ رہتی ہو تمہارے پاس آتا ہوں تو تنہا ہو سا جاتا ہوں میں چاہے سچ ہی بولوں ہر طرح سے اپنے بارے میں مگر تم مسکراتی ہو تو جھوٹا ہو سا جاتا ہوں ترے گل رنگ ہونٹوں سے دہکتی زندگی پی کر میں پیاسا اور پیاسا اور پیاسا ہو سا جاتا ہوں تجھے بانہوں میں بھر لینے کی خواہش یوں ابھرتی ہے کہ میں اپنی نظر میں آپ رسوا ہو سا جاتا ہوں " hausla-kho-na-diyaa-terii-nahiin-se-ham-ne-jaan-nisar-akhtar-ghazals," حوصلہ کھو نہ دیا تیری نہیں سے ہم نے کتنی شکنوں کو چنا تیری جبیں سے ہم نے وہ بھی کیا دن تھے کہ دیوانہ بنے پھرتے تھے سن لیا تھا ترے بارے میں کہیں سے ہم نے جس جگہ پہلے پہل نام ترا آتا ہے داستاں اپنی سنائی ہے وہیں سے ہم نے یوں تو احسان حسینوں کے اٹھائے ہیں بہت پیار لیکن جو کیا ہے تو تمہیں سے ہم نے کچھ سمجھ کر ہی خدا تجھ کو کہا ہے ورنہ کون سی بات کہی اتنے یقیں سے ہم نے " maanaa-ki-rang-rang-tiraa-pairahan-bhii-hai-jaan-nisar-akhtar-ghazals," مانا کہ رنگ رنگ ترا پیرہن بھی ہے پر اس میں کچھ کرشمہ عکس بدن بھی ہے عقل معاش و حکمت دنیا کے باوجود ہم کو عزیز عشق کا دیوانہ پن بھی ہے مطرب بھی تو ندیم بھی تو ساقیا بھی تو تو جان انجمن ہی نہیں انجمن بھی ہے بازو چھوا جو تو نے تو اس دن کھلا یہ راز تو صرف رنگ و بو ہی نہیں ہے بدن بھی ہے یہ دور کس طرح سے کٹے گا پہاڑ سا یارو بتاؤ ہم میں کوئی کوہ کن بھی ہے " zamiin-hogii-kisii-qaatil-kaa-daamaan-ham-na-kahte-the-jaan-nisar-akhtar-ghazals," زمیں ہوگی کسی قاتل کا داماں ہم نہ کہتے تھے اکارت جائے گا خون شہیداں ہم نہ کہتے تھے علاج چاک پیراہن ہوا تو اس طرح ہوگا سیا جائے گا کانٹوں سے گریباں ہم نہ کہتے تھے ترانے کچھ دئیے لفظوں میں خود کو قید کر لیں گے عجب انداز سے پھیلے گا زنداں ہم نہ کہتے تھے کوئی اتنا نہ ہوگا لاش بھی لے جا کے دفنا دے انہیں سڑکوں پہ مر جائے گا انساں ہم نہ کہتے تھے نظر لپٹی ہے شعلوں میں لہو تپتا ہے آنکھوں میں اٹھا ہی چاہتا ہے کوئی طوفاں ہم نہ کہتے تھے چھلکتے جام میں بھیگی ہوئی آنکھیں اتر آئیں ستائے گی کسی دن یاد یاراں ہم نہ کہتے تھے نئی تہذیب کیسے لکھنؤ کو راس آئے گی اجڑ جائے گا یہ شہر غزالاں ہم نہ کہتے تھے " ai-dard-e-ishq-tujh-se-mukarne-lagaa-huun-main-jaan-nisar-akhtar-ghazals," اے درد عشق تجھ سے مکرنے لگا ہوں میں مجھ کو سنبھال حد سے گزرنے لگا ہوں میں پہلے حقیقتوں ہی سے مطلب تھا اور اب ایک آدھ بات فرض بھی کرنے لگا ہوں میں ہر آن ٹوٹتے یہ عقیدوں کے سلسلے لگتا ہے جیسے آج بکھرنے لگا ہوں میں اے چشم یار میرا سدھرنا محال تھا تیرا کمال ہے کہ سدھرنے لگا ہوں میں یہ مہر و ماہ ارض و سما مجھ میں کھو گئے اک کائنات بن کے ابھرنے لگا ہوں میں اتنوں کا پیار مجھ سے سنبھالا نہ جائے گا لوگو تمہارے پیار سے ڈرنے لگا ہوں میں دلی کہاں گئیں ترے کوچوں کی رونقیں گلیوں سے سر جھکا کے گزرنے لگا ہوں میں " chaunk-chaunk-uthtii-hai-mahlon-kii-fazaa-raat-gae-jaan-nisar-akhtar-ghazals," چونک چونک اٹھتی ہے محلوں کی فضا رات گئے کون دیتا ہے یہ گلیوں میں صدا رات گئے یہ حقائق کی چٹانوں سے تراشی دنیا اوڑھ لیتی ہے طلسموں کی ردا رات گئے چبھ کے رہ جاتی ہے سینے میں بدن کی خوشبو کھول دیتا ہے کوئی بند قبا رات گئے آؤ ہم جسم کی شمعوں سے اجالا کر لیں چاند نکلا بھی تو نکلے گا ذرا رات گئے تو نہ اب آئے تو کیا آج تلک آتی ہے سیڑھیوں سے ترے قدموں کی صدا رات گئے " vo-log-hii-har-daur-men-mahbuub-rahe-hain-jaan-nisar-akhtar-ghazals," وہ لوگ ہی ہر دور میں محبوب رہے ہیں جو عشق میں طالب نہیں مطلوب رہے ہیں طوفان کی آواز تو آتی نہیں لیکن لگتا ہے سفینے سے کہیں ڈوب رہے ہیں ان کو نہ پکارو غم دوراں کے لقب سے جو درد کسی نام سے منسوب رہے ہیں ہم بھی تری صورت کے پرستار ہیں لیکن کچھ اور بھی چہرے ہمیں مرغوب رہے ہیں الفاظ میں اظہار محبت کے طریقے خود عشق کی نظروں میں بھی معیوب رہے ہیں اس عہد بصیرت میں بھی نقاد ہمارے ہر ایک بڑے نام سے مرعوب رہے ہیں اتنا بھی نہ گھبراؤ نئی طرز ادا سے ہر دور میں بدلے ہوئے اسلوب رہے ہیں " zulfen-siina-naaf-kamar-jaan-nisar-akhtar-ghazals," زلفیں سینہ ناف کمر ایک ندی میں کتنے بھنور صدیوں صدیوں میرا سفر منزل منزل راہ گزر کتنا مشکل کتنا کٹھن جینے سے جینے کا ہنر گاؤں میں آ کر شہر بسے گاؤں بچارے جائیں کدھر پھونکنے والے سوچا بھی پھیلے گی یہ آگ کدھر لاکھ طرح سے نام ترا بیٹھا لکھوں کاغذ پر چھوٹے چھوٹے ذہن کے لوگ ہم سے ان کی بات نہ کر پیٹ پہ پتھر باندھ نہ لے ہاتھ میں سجتے ہیں پتھر رات کے پیچھے رات چلے خواب ہوا ہر خواب سحر شب بھر تو آوارہ پھرے لوٹ چلیں اب اپنے گھر " aae-kyaa-kyaa-yaad-nazar-jab-padtii-in-daalaanon-par-jaan-nisar-akhtar-ghazals," آئے کیا کیا یاد نظر جب پڑتی ان دالانوں پر اس کا کاغذ چپکا دینا گھر کے روشن دانوں پر آج بھی جیسے شانے پر تم ہاتھ مرے رکھ دیتی ہو چلتے چلتے رک جاتا ہوں ساری کی دوکانوں پر برکھا کی تو بات ہی چھوڑو چنچل ہے پروائی بھی جانے کس کا سبز دوپٹا پھینک گئی ہے دھانوں پر شہر کے تپتے فٹ پاتھوں پر گاؤں کے موسم ساتھ چلیں بوڑھے برگد ہاتھ سا رکھ دیں میرے جلتے شانوں پر سستے داموں لے تو آتے لیکن دل تھا بھر آیا جانے کس کا نام کھدا تھا پیتل کے گل دانوں پر اس کا کیا من بھید بتاؤں اس کا کیا انداز کہوں بات بھی میری سننا چاہے ہاتھ بھی رکھے کانوں پر اور بھی سینہ کسنے لگتا اور کمر بل کھا جاتی جب بھی اس کے پاؤں پھسلنے لگتے تھے ڈھلوانوں پر شعر تو ان پر لکھے لیکن اوروں سے منسوب کئے ان کو کیا کیا غصہ آیا نظموں کے عنوانوں پر یارو اپنے عشق کے قصے یوں بھی کم مشہور نہیں کل تو شاید ناول لکھے جائیں ان رومانوں پر " aankhen-churaa-ke-ham-se-bahaar-aae-ye-nahiin-jaan-nisar-akhtar-ghazals," آنکھیں چرا کے ہم سے بہار آئے یہ نہیں حصے میں اپنے صرف غبار آئے یہ نہیں کوئے غم حیات میں سب عمر کاٹ دی تھوڑا سا وقت واں بھی گزار آئے یہ نہیں خود عشق قرب جسم بھی ہے قرب‌‌ جاں کے ساتھ ہم دور ہی سے ان کو پکار آئے یہ نہیں آنکھوں میں دل کھلے ہوں تو موسم کی قید کیا فصل بہار ہی میں بہار آئے یہ نہیں اب کیا کریں کہ حسن جہاں ہے عزیز ہے تیرے سوا کسی پہ نہ پیار آئے یہ نہیں وعدوں کو خون دل سے لکھو تب تو بات ہے کاغذ پہ قسمتوں کو سنوار آئے یہ نہیں کچھ روز اور کل کی مروت میں کاٹ لیں دل کو یقین وعدۂ یار آئے یہ نہیں " ranj-o-gam-maange-hai-andoh-o-balaa-maange-hai-jaan-nisar-akhtar-ghazals," رنج و غم مانگے ہے اندوہ و بلا مانگے ہے دل وہ مجرم ہے کہ خود اپنی سزا مانگے ہے چپ ہے ہر زخم گلو چپ ہے شہیدوں کا لہو دست قاتل ہے جو محنت کا صلہ مانگے ہے تو بھی اک دولت نایاب ہے پر کیا کہیے زندگی اور بھی کچھ تیرے سوا مانگے ہے کھوئی کھوئی یہ نگاہیں یہ خمیدہ پلکیں ہاتھ اٹھائے کوئی جس طرح دعا مانگے ہے راس اب آئے گی اشکوں کی نہ آہوں کی فضا آج کا پیار نئی آب و ہوا مانگے ہے بانسری کا کوئی نغمہ نہ سہی چیخ سہی ہر سکوت شب غم کوئی صدا مانگے ہے لاکھ منکر سہی پر ذوق پرستش میرا آج بھی کوئی صنم کوئی خدا مانگے ہے سانس ویسے ہی زمانے کی رکی جاتی ہے وہ بدن اور بھی کچھ تنگ قبا مانگے ہے دل ہر اک حال سے بیگانہ ہوا جاتا ہے اب توجہ نہ تغافل نہ ادا مانگے ہے " tuluu-e-subh-hai-nazren-uthaa-ke-dekh-zaraa-jaan-nisar-akhtar-ghazals," طلوع صبح ہے نظریں اٹھا کے دیکھ ذرا شکست ظلمت شب مسکرا کے دیکھ ذرا غم بہار و غم یار ہی نہیں سب کچھ غم جہاں سے بھی دل کو لگا کے دیکھ ذرا بہار کون سی سوغات لے کے آئی ہے ہمارے زخم تمنا تو آ کے دیکھ ذرا ہر ایک سمت سے اک آفتاب ابھرے گا چراغ دیر و حرم تو بجھا کے دیکھ ذرا وجود عشق کی تاریخ کا پتہ تو چلے ورق الٹ کے تو ارض و سما کے دیکھ ذرا ملے تو تو ہی ملے اور کچھ قبول نہیں جہاں میں حوصلے اہل وفا کے دیکھ ذرا تری نظر سے ہے رشتہ مرے گریباں کا کدھر ہے میری طرف مسکرا کے دیکھ ذرا " ham-ne-kaatii-hain-tirii-yaad-men-raaten-aksar-jaan-nisar-akhtar-ghazals," ہم نے کاٹی ہیں تری یاد میں راتیں اکثر دل سے گزری ہیں ستاروں کی براتیں اکثر اور تو کون ہے جو مجھ کو تسلی دیتا ہاتھ رکھ دیتی ہیں دل پر تری باتیں اکثر حسن شائستۂ تہذیب الم ہے شاید غم زدہ لگتی ہیں کیوں چاندنی راتیں اکثر حال کہنا ہے کسی سے تو مخاطب ہے کوئی کتنی دلچسپ ہوا کرتی ہیں باتیں اکثر عشق رہزن نہ سہی عشق کے ہاتھوں پھر بھی ہم نے لٹتی ہوئی دیکھی ہیں براتیں اکثر ہم سے اک بار بھی جیتا ہے نہ جیتے گا کوئی وہ تو ہم جان کے کھا لیتے ہیں ماتیں اکثر ان سے پوچھو کبھی چہرے بھی پڑھے ہیں تم نے جو کتابوں کی کیا کرتے ہیں باتیں اکثر ہم نے ان تند ہواؤں میں جلائے ہیں چراغ جن ہواؤں نے الٹ دی ہیں بساطیں اکثر " log-kahte-hain-ki-tuu-ab-bhii-khafaa-hai-mujh-se-jaan-nisar-akhtar-ghazals," لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے تیری آنکھوں نے تو کچھ اور کہا ہے مجھ سے ہائے اس وقت کو کوسوں کہ دعا دوں یارو جس نے ہر درد مرا چھین لیا ہے مجھ سے دل کا یہ حال کہ دھڑکے ہی چلا جاتا ہے ایسا لگتا ہے کوئی جرم ہوا ہے مجھ سے کھو گیا آج کہاں رزق کا دینے والا کوئی روٹی جو کھڑا مانگ رہا ہے مجھ سے اب مرے قتل کی تدبیر تو کرنی ہوگی کون سا راز ہے تیرا جو چھپا ہے مجھ سے " achchhaa-hai-un-se-koii-taqaazaa-kiyaa-na-jaae-jaan-nisar-akhtar-ghazals," اچھا ہے ان سے کوئی تقاضا کیا نہ جائے اپنی نظر میں آپ کو رسوا کیا نہ جائے ہم ہیں ترا خیال ہے تیرا جمال ہے اک پل بھی اپنے آپ کو تنہا کیا نہ جائے اٹھنے کو اٹھ تو جائیں تری انجمن سے ہم پر تیری انجمن کو بھی سونا کیا نہ جائے ان کی روش جدا ہے ہماری روش جدا ہم سے تو بات بات پہ جھگڑا کیا نہ جائے ہر چند اعتبار میں دھوکے بھی ہیں مگر یہ تو نہیں کسی پہ بھروسا کیا نہ جائے لہجہ بنا کے بات کریں ان کے سامنے ہم سے تو اس طرح کا تماشا کیا نہ جائے انعام ہو خطاب ہو ویسے ملے کہاں جب تک سفارشوں کو اکٹھا کیا نہ جائے اس وقت ہم سے پوچھ نہ غم روزگار کے ہم سے ہر ایک گھونٹ کو کڑوا کیا نہ جائے " dil-ko-har-lamha-bachaate-rahe-jazbaat-se-ham-jaan-nisar-akhtar-ghazals," دل کو ہر لمحہ بچاتے رہے جذبات سے ہم اتنے مجبور رہے ہیں کبھی حالات سے ہم نشۂ مے سے کہیں پیاس بجھی ہے دل کی تشنگی اور بڑھا لائے خراجات سے ہم آج تو مل کے بھی جیسے نہ ملے ہوں تجھ سے چونک اٹھتے تھے کبھی تیری ملاقات سے ہم عشق میں آج بھی ہے نیم نگاہی کا چلن پیار کرتے ہیں اسی حسن روایات سے ہم مرکز دیدۂ خوبان جہاں ہیں بھی تو کیا ایک نسبت بھی تو رکھتے ہیں تری ذات سے ہم " tuu-is-qadar-mujhe-apne-qariib-lagtaa-hai-jaan-nisar-akhtar-ghazals," تو اس قدر مجھے اپنے قریب لگتا ہے تجھے الگ سے جو سوچوں عجیب لگتا ہے جسے نہ حسن سے مطلب نہ عشق سے سروکار وہ شخص مجھ کو بہت بد نصیب لگتا ہے حدود ذات سے باہر نکل کے دیکھ ذرا نہ کوئی غیر نہ کوئی رقیب لگتا ہے یہ دوستی یہ مراسم یہ چاہتیں یہ خلوص کبھی کبھی مجھے سب کچھ عجیب لگتا ہے افق پہ دور چمکتا ہوا کوئی تارا مجھے چراغ دیار حبیب لگتا ہے " ham-se-bhaagaa-na-karo-duur-gazaalon-kii-tarah-jaan-nisar-akhtar-ghazals," ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح خودبخود نیند سی آنکھوں میں گھلی جاتی ہے مہکی مہکی ہے شب غم ترے بالوں کی طرح تیرے بن رات کے ہاتھوں پہ یہ تاروں کے ایاغ خوبصورت ہیں مگر زہر کے پیالوں کی طرح اور کیا اس سے زیادہ کوئی نرمی برتوں دل کے زخموں کو چھوا ہے ترے گالوں کی طرح گنگناتے ہوئے اور آ کبھی ان سینوں میں تیری خاطر جو مہکتے ہیں شوالوں کی طرح تیری زلفیں تری آنکھیں ترے ابرو ترے لب اب بھی مشہور ہیں دنیا میں مثالوں کی طرح ہم سے مایوس نہ ہو اے شب دوراں کہ ابھی دل میں کچھ درد چمکتے ہیں اجالوں کی طرح مجھ سے نظریں تو ملاؤ کہ ہزاروں چہرے میری آنکھوں میں سلگتے ہیں سوالوں کی طرح اور تو مجھ کو ملا کیا مری محنت کا صلہ چند سکے ہیں مرے ہاتھ میں چھالوں کی طرح جستجو نے کسی منزل پہ ٹھہرنے نہ دیا ہم بھٹکتے رہے آوارہ خیالوں کی طرح زندگی جس کو ترا پیار ملا وہ جانے ہم تو ناکام رہے چاہنے والوں کی طرح " khud-ba-khud-mai-hai-ki-shiishe-men-bharii-aave-hai-jaan-nisar-akhtar-ghazals," خود بہ خود مے ہے کہ شیشے میں بھری آوے ہے کس بلا کی تمہیں جادو نظری آوے ہے دل میں در آوے ہے ہر صبح کوئی یاد ایسے جوں دبے پاؤں نسیم سحری آوے ہے اور بھی زخم ہوئے جاتے ہیں گہرے دل کے ہم تو سمجھے تھے تمہیں چارہ گری آوے ہے ایک قطرہ بھی لہو جب نہ رہے سینے میں تب کہیں عشق میں کچھ بے جگری آوے ہے چاک داماں و گریباں کے بھی آداب ہیں کچھ ہر دوانے کو کہاں جامہ دری آوے ہے شجر عشق تو مانگے ہے لہو کے آنسو تب کہیں جا کے کوئی شاخ ہری آوے ہے تو کبھی راگ کبھی رنگ کبھی خوشبو ہے کیسی کیسی نہ تجھے عشوہ گری آوے ہے آپ اپنے کو بھلانا کوئی آسان نہیں بڑی مشکل سے میاں بے خبری آوے ہے اے مرے شہر نگاراں ترا کیا حال ہوا چپے چپے پہ مرے آنکھ بھری آوے ہے صاحبو حسن کی پہچان کوئی کھیل نہیں دل لہو ہو تو کہیں دیدہ وری آوے ہے " zindagii-tujh-ko-bhulaayaa-hai-bahut-din-ham-ne-jaan-nisar-akhtar-ghazals," زندگی تجھ کو بھلایا ہے بہت دن ہم نے وقت خوابوں میں گنوایا ہے بہت دن ہم نے اب یہ نیکی بھی ہمیں جرم نظر آتی ہے سب کے عیبوں کو چھپایا ہے بہت دن ہم نے تم بھی اس دل کو دکھا لو تو کوئی بات نہیں اپنا دل آپ دکھایا ہے بہت دن ہم نے مدتوں ترک تمنا پہ لہو رویا ہے عشق کا قرض چکایا ہے بہت دن ہم نے کیا پتا ہو بھی سکے اس کی تلافی کہ نہیں شاعری تجھ کو گنوایا ہے بہت دن ہم نے " tumhaare-jashn-ko-jashn-e-farozaan-ham-nahiin-kahte-jaan-nisar-akhtar-ghazals," تمہارے جشن کو جشن فروزاں ہم نہیں کہتے لہو کی گرم بوندوں کو چراغاں ہم نہیں کہتے اگر حد سے گزر جائے دوا تو بن نہیں جاتا کسی بھی درد کو دنیا کا درماں ہم نہیں کہتے نظر کی انتہا کوئی نہ دل کی انتہا کوئی کسی بھی حسن کو حسن فراواں ہم نہیں کہتے کسی عاشق کے شانے پر بکھر جائے تو کیا کہنا مگر اس زلف کو زلف پریشاں ہم نہیں کہتے نہ بوئے گل مہکتی ہے نہ شاخ گل لچکتی ہے ابھی اپنے گلستاں کو گلستاں ہم نہیں کہتے بہاروں سے جنوں کو ہر طرح نسبت سہی لیکن شگفت گل کو عاشق کا گریباں ہم نہیں کہتے ہزاروں سال بیتے ہیں ہزاروں سال بیتیں گے بدل جائے گی کل تقدیر انساں ہم نہیں کہتے " vo-ham-se-aaj-bhii-daaman-kashaan-chale-hai-miyaan-jaan-nisar-akhtar-ghazals," وہ ہم سے آج بھی دامن کشاں چلے ہے میاں کسی پہ زور ہمارا کہاں چلے ہے میاں جہاں بھی تھک کے کوئی کارواں ٹھہرتا ہے وہیں سے ایک نیا کارواں چلے ہے میاں جو ایک سمت گماں ہے تو ایک سمت یقیں یہ زندگی تو یوں ہی درمیاں چلے ہے میاں بدلتے رہتے ہیں بس نام اور تو کیا ہے ہزاروں سال سے اک داستاں چلے ہے میاں ہر اک قدم ہے نئی آزمائشوں کا ہجوم تمام عمر کوئی امتحاں چلے ہے میاں وہیں پہ گھومتے رہنا تو کوئی بات نہیں زمیں چلے ہے تو آگے کہاں چلے ہے میاں وہ ایک لمحۂ حیرت کہ لفظ ساتھ نہ دیں نہیں چلے ہے نہ ایسے میں ہاں چلے ہے میاں " subh-ke-dard-ko-raaton-kii-jalan-ko-bhuulen-jaan-nisar-akhtar-ghazals," صبح کے درد کو راتوں کی جلن کو بھولیں کس کے گھر جائیں کہ اس وعدہ شکن کو بھولیں آج تک چوٹ دبائے نہیں دبتی دل کی کس طرح اس صنم سنگ بدن کو بھولیں اب سوا اس کے مداوائے غم دل کیا ہے اتنی پی جائیں کہ ہر رنج و محن کو بھولیں اور تہذیب غم عشق نبھا دیں کچھ دن آخری وقت میں کیا اپنے چلن کو بھولیں " jism-kii-har-baat-hai-aavaargii-ye-mat-kaho-jaan-nisar-akhtar-ghazals," جسم کی ہر بات ہے آوارگی یہ مت کہو ہم بھی کر سکتے ہیں ایسی شاعری یہ مت کہو اس نظر کی اس بدن کی گنگناہٹ تو سنو ایک سی ہوتی ہے ہر اک راگنی یہ مت کہو ہم سے دیوانوں کے بن دنیا سنورتی کس طرح عقل کے آگے ہے کیا دیوانگی یہ مت کہو کٹ سکی ہیں آج تک سونے کی زنجیریں کہاں ہم بھی اب آزاد ہیں یارو ابھی یہ مت کہو پاؤں اتنے تیز ہیں اٹھتے نظر آتے نہیں آج تھک کر رہ گیا ہے آدمی یہ مت کہو جتنے وعدے کل تھے اتنے آج بھی موجود ہیں ان کے وعدوں میں ہوئی ہے کچھ کمی یہ مت کہو دل میں اپنے درد کی چھٹکی ہوئی ہے چاندنی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے تیرگی یہ مت کہو " bahut-dil-kar-ke-honton-kii-shagufta-taazgii-dii-hai-jaan-nisar-akhtar-ghazals," بہت دل کر کے ہونٹوں کی شگفتہ تازگی دی ہے چمن مانگا تھا پر اس نے بمشکل اک کلی دی ہے مرے خلوت کدے کے رات دن یوں ہی نہیں سنورے کسی نے دھوپ بخشی ہے کسی نے چاندنی دی ہے نظر کو سبز میدانوں نے کیا کیا وسعتیں بخشیں پگھلتے آبشاروں نے ہمیں دریا دلی دی ہے محبت ناروا تقسیم کی قائل نہیں پھر بھی مری آنکھوں کو آنسو تیرے ہونٹوں کو ہنسی دی ہے مری آوارگی بھی اک کرشمہ ہے زمانے میں ہر اک درویش نے مجھ کو دعائے خیر ہی دی ہے کہاں ممکن تھا کوئی کام ہم جیسے دوانوں سے تمہیں نے گیت لکھوائے تمہیں نے شاعری دی ہے " har-ek-ruuh-men-ik-gam-chhupaa-lage-hai-mujhe-jaan-nisar-akhtar-ghazals," ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے یہ زندگی تو کوئی بد دعا لگے ہے مجھے پسند خاطر اہل وفا ہے مدت سے یہ دل کا داغ جو خود بھی بھلا لگے ہے مجھے جو آنسوؤں میں کبھی رات بھیگ جاتی ہے بہت قریب وہ آواز پا لگے ہے مجھے میں سو بھی جاؤں تو کیا میری بند آنکھوں میں تمام رات کوئی جھانکتا لگے ہے مجھے میں جب بھی اس کے خیالوں میں کھو سا جاتا ہوں وہ خود بھی بات کرے تو برا لگے ہے مجھے میں سوچتا تھا کہ لوٹوں گا اجنبی کی طرح یہ میرا گاؤں تو پہچانتا لگے ہے مجھے نہ جانے وقت کی رفتار کیا دکھاتی ہے کبھی کبھی تو بڑا خوف سا لگے ہے مجھے بکھر گیا ہے کچھ اس طرح آدمی کا وجود ہر ایک فرد کوئی سانحہ لگے ہے مجھے اب ایک آدھ قدم کا حساب کیا رکھئے ابھی تلک تو وہی فاصلہ لگے ہے مجھے حکایت غم دل کچھ کشش تو رکھتی ہے زمانہ غور سے سنتا ہوا لگے ہے مجھے " jab-lagen-zakhm-to-qaatil-ko-duaa-dii-jaae-jaan-nisar-akhtar-ghazals," جب لگیں زخم تو قاتل کو دعا دی جائے ہے یہی رسم تو یہ رسم اٹھا دی جائے دل کا وہ حال ہوا ہے غم دوراں کے تلے جیسے اک لاش چٹانوں میں دبا دی جائے انہیں گل رنگ دریچوں سے سحر جھانکے گی کیوں نہ کھلتے ہوئے زخموں کو دعا دی جائے کم نہیں نشے میں جاڑے کی گلابی راتیں اور اگر تیری جوانی بھی ملا دی جائے ہم سے پوچھو کہ غزل کیا ہے غزل کا فن کیا چند لفظوں میں کوئی آگ چھپا دی جائے " har-ek-shakhs-pareshaan-o-darba-dar-saa-lage-jaan-nisar-akhtar-ghazals," ہر ایک شخص پریشان و در بدر سا لگے یہ شہر مجھ کو تو یارو کوئی بھنور سا لگے اب اس کے طرز تجاہل کو کیا کہے کوئی وہ بے خبر تو نہیں پھر بھی بے خبر سا لگے ہر ایک غم کو خوشی کی طرح برتنا ہے یہ دور وہ ہے کہ جینا بھی اک ہنر سا لگے نشاط صحبت رنداں بہت غنیمت ہے کہ لمحہ لمحہ پر آشوب و پر خطر سا لگے کسے خبر ہے کہ دنیا کا حشر کیا ہوگا کبھی کبھی تو مجھے آدمی سے ڈر سا لگے وہ تند وقت کی رو ہے کہ پاؤں ٹک نہ سکیں ہر آدمی کوئی اکھڑا ہوا شجر سا لگے جہان نو کے مکمل سنگار کی خاطر صدی صدی کا زمانہ بھی مختصر سا لگے " tum-pe-kyaa-biit-gaii-kuchh-to-bataao-yaaro-jaan-nisar-akhtar-ghazals," تم پہ کیا بیت گئی کچھ تو بتاؤ یارو میں کوئی غیر نہیں ہوں کہ چھپاؤ یارو ان اندھیروں سے نکلنے کی کوئی راہ کرو خون دل سے کوئی مشعل ہی جلاؤ یارو ایک بھی خواب نہ ہو جن میں وہ آنکھیں کیا ہیں اک نہ اک خواب تو آنکھوں میں بساؤ یارو بوجھ دنیا کا اٹھاؤں گا اکیلا کب تک ہو سکے تم سے تو کچھ ہاتھ بٹاؤ یارو زندگی یوں تو نہ بانہوں میں چلی آئے گی غم دوراں کے ذرا ناز اٹھاؤ یارو عمر بھر قتل ہوا ہوں میں تمہاری خاطر آخری وقت تو سولی نہ چڑھاؤ یارو اور کچھ دیر تمہیں دیکھ کے جی لوں ٹھہرو میری بالیں سے ابھی اٹھ کے نہ جاؤ یارو " aaj-muddat-men-vo-yaad-aae-hain-jaan-nisar-akhtar-ghazals," آج مدت میں وہ یاد آئے ہیں در و دیوار پہ کچھ سائے ہیں آبگینوں سے نہ ٹکرا پائے کوہساروں سے تو ٹکرائے ہیں زندگی تیرے حوادث ہم کو کچھ نہ کچھ راہ پہ لے آئے ہیں سنگ ریزوں سے خزف پاروں سے کتنے ہیرے کبھی چن لائے ہیں اتنے مایوس تو حالات نہیں لوگ کس واسطے گھبرائے ہیں ان کی جانب نہ کسی نے دیکھا جو ہمیں دیکھ کے شرمائے ہیں " muddat-huii-us-jaan-e-hayaa-ne-ham-se-ye-iqraar-kiyaa-jaan-nisar-akhtar-ghazals," مدت ہوئی اس جان حیا نے ہم سے یہ اقرار کیا جتنے بھی بد نام ہوئے ہم اتنا اس نے پیار کیا پہلے بھی خوش چشموں میں ہم چوکنا سے رہتے تھے تیری سوئی آنکھوں نے تو اور ہمیں ہوشیار کیا جاتے جاتے کوئی ہم سے اچھے رہنا کہہ تو گیا پوچھے لیکن پوچھنے والے کس نے یہ بیمار کیا قطرہ قطرہ صرف ہوا ہے عشق میں اپنے دل کا لہو شکل دکھائی تب اس نے جب آنکھوں کو خوں بار کیا ہم پر کتنی بار پڑے یہ دورے بھی تنہائی کے جو بھی ہم سے ملنے آیا ملنے سے انکار کیا عشق میں کیا نقصان نفع ہے ہم کو کیا سمجھاتے ہو ہم نے ساری عمر ہی یارو دل کا کاروبار کیا محفل پر جب نیند سی چھائی سب کے سب خاموش ہوئے ہم نے تب کچھ شعر سنایا لوگوں کو بے دار کیا اب تم سوچو اب تم جانو جو چاہو اب رنگ بھرو ہم نے تو اک نقشہ کھینچا اک خاکہ تیار کیا دیش سے جب پردیش سدھارے ہم پر یہ بھی وقت پڑا نظمیں چھوڑی غزلیں چھوڑی گیتوں کا بیوپار کیا " zindagii-ye-to-nahiin-tujh-ko-sanvaaraa-hii-na-ho-jaan-nisar-akhtar-ghazals," زندگی یہ تو نہیں تجھ کو سنوارا ہی نہ ہو کچھ نہ کچھ ہم نے ترا قرض اتارا ہی نہ ہو دل کو چھو جاتی ہے یوں رات کی آواز کبھی چونک اٹھتا ہوں کہیں تو نے پکارا ہی نہ ہو کبھی پلکوں پہ چمکتی ہے جو اشکوں کی لکیر سوچتا ہوں ترے آنچل کا کنارا ہی نہ ہو زندگی ایک خلش دے کے نہ رہ جا مجھ کو درد وہ دے جو کسی طرح گوارا ہی نہ ہو شرم آتی ہے کہ اس شہر میں ہم ہیں کہ جہاں نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارا ہی نہ ہو " zaraa-sii-baat-pe-har-rasm-tod-aayaa-thaa-jaan-nisar-akhtar-ghazals," ذرا سی بات پہ ہر رسم توڑ آیا تھا دل تباہ نے بھی کیا مزاج پایا تھا گزر گیا ہے کوئی لمحۂ شرر کی طرح ابھی تو میں اسے پہچان بھی نہ پایا تھا معاف کر نہ سکی میری زندگی مجھ کو وہ ایک لمحہ کہ میں تجھ سے تنگ آیا تھا شگفتہ پھول سمٹ کر کلی بنے جیسے کچھ اس کمال سے تو نے بدن چرایا تھا پتا نہیں کہ مرے بعد ان پہ کیا گزری میں چند خواب زمانے میں چھوڑ آیا تھا " aise-chup-hain-ki-ye-manzil-bhii-kadii-ho-jaise-ahmad-faraz-ghazals," ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے تیرا ملنا بھی جدائی کی گھڑی ہو جیسے اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں راستے میں کوئی دیوار کھڑی ہو جیسے کتنے ناداں ہیں ترے بھولنے والے کہ تجھے یاد کرنے کے لیے عمر پڑی ہو جیسے تیرے ماتھے کی شکن پہلے بھی دیکھی تھی مگر یہ گرہ اب کے مرے دل میں پڑی ہو جیسے منزلیں دور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے آج دل کھول کے روئے ہیں تو یوں خوش ہیں فرازؔ چند لمحوں کی یہ راحت بھی بڑی ہو جیسے " qurbaton-men-bhii-judaaii-ke-zamaane-maange-ahmad-faraz-ghazals," قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیے اب یہی ترک تعلق کے بہانے مانگے اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لٹ بھی چکے اور محبت وہی انداز پرانے مانگے زندگی ہم ترے داغوں سے رہے شرمندہ اور تو ہے کہ سدا آئینہ خانے مانگے دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جان فرازؔ مل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے " saaqiyaa-ek-nazar-jaam-se-pahle-pahle-ahmad-faraz-ghazals," ساقیا ایک نظر جام سے پہلے پہلے ہم کو جانا ہے کہیں شام سے پہلے پہلے نو گرفتار وفا سعئ رہائی ہے عبث ہم بھی الجھے تھے بہت دام سے پہلے پہلے خوش ہو اے دل کہ محبت تو نبھا دی تو نے لوگ اجڑ جاتے ہیں انجام سے پہلے پہلے اب ترے ذکر پہ ہم بات بدل دیتے ہیں کتنی رغبت تھی ترے نام سے پہلے پہلے سامنے عمر پڑی ہے شب تنہائی کی وہ مجھے چھوڑ گیا شام سے پہلے پہلے کتنا اچھا تھا کہ ہم بھی جیا کرتے تھے فرازؔ غیر معروف سے گمنام سے پہلے پہلے " ajab-junuun-e-masaafat-men-ghar-se-niklaa-thaa-ahmad-faraz-ghazals," عجب جنون مسافت میں گھر سے نکلا تھا خبر نہیں ہے کہ سورج کدھر سے نکلا تھا یہ کون پھر سے انہیں راستوں میں چھوڑ گیا ابھی ابھی تو عذاب سفر سے نکلا تھا یہ تیر دل میں مگر بے سبب نہیں اترا کوئی تو حرف لب چارہ گر سے نکلا تھا یہ اب جو آگ بنا شہر شہر پھیلا ہے یہی دھواں مرے دیوار و در سے نکلا تھا میں رات ٹوٹ کے رویا تو چین سے سویا کہ دل کا زہر مری چشم تر سے نکلا تھا یہ اب جو سر ہیں خمیدہ کلاہ کی خاطر یہ عیب بھی تو ہم اہل ہنر سے نکلا تھا وہ قیس اب جسے مجنوں پکارتے ہیں فرازؔ تری طرح کوئی دیوانہ گھر سے نکلا تھا " havaa-ke-zor-se-pindaar-e-baam-o-dar-bhii-gayaa-ahmad-faraz-ghazals," ہوا کے زور سے پندار بام و در بھی گیا چراغ کو جو بچاتے تھے ان کا گھر بھی گیا پکارتے رہے محفوظ کشتیوں والے میں ڈوبتا ہوا دریا کے پار اتر بھی گیا اب احتیاط کی دیوار کیا اٹھاتے ہو جو چور دل میں چھپا تھا وہ کام کر بھی گیا میں چپ رہا کہ اسی میں تھی عافیت جاں کی کوئی تو میری طرح تھا جو دار پر بھی گیا سلگتے سوچتے ویران موسموں کی طرح کڑا تھا عہد جوانی مگر گزر بھی گیا جسے بھلا نہ سکا اس کو یاد کیا رکھتا جو نام لب پہ رہا ذہن سے اتر بھی گیا پھٹی پھٹی ہوئی آنکھوں سے یوں نہ دیکھ مجھے تجھے تلاش ہے جس شخص کی وہ مر بھی گیا مگر فلک کو عداوت اسی کے گھر سے تھی جہاں فرازؔ نہ تھا سیل غم ادھر بھی گیا " dukh-fasaana-nahiin-ki-tujh-se-kahen-ahmad-faraz-ghazals," دکھ فسانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں دل بھی مانا نہیں کہ تجھ سے کہیں آج تک اپنی بیکلی کا سبب خود بھی جانا نہیں کہ تجھ سے کہیں بے طرح حال دل ہے اور تجھ سے دوستانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں ایک تو حرف آشنا تھا مگر اب زمانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں قاصدا ہم فقیر لوگوں کا اک ٹھکانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں اے خدا درد دل ہے بخشش دوست آب و دانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں اب تو اپنا بھی اس گلی میں فرازؔ آنا جانا نہیں کہ تجھ سے کہیں " huii-hai-shaam-to-aankhon-men-bas-gayaa-phir-tuu-ahmad-faraz-ghazals," ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تو کہاں گیا ہے مرے شہر کے مسافر تو مری مثال کہ اک نخل خشک صحرا ہوں ترا خیال کہ شاخ چمن کا طائر تو میں جانتا ہوں کہ دنیا تجھے بدل دے گی میں مانتا ہوں کہ ایسا نہیں بظاہر تو ہنسی خوشی سے بچھڑ جا اگر بچھڑنا ہے یہ ہر مقام پہ کیا سوچتا ہے آخر تو فضا اداس ہے رت مضمحل ہے میں چپ ہوں جو ہو سکے تو چلا آ کسی کی خاطر تو فرازؔ تو نے اسے مشکلوں میں ڈال دیا زمانہ صاحب زر اور صرف شاعر تو " ab-aur-kyaa-kisii-se-maraasim-badhaaen-ham-ahmad-faraz-ghazals," اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم یہ بھی بہت ہے تجھ کو اگر بھول جائیں ہم صحرائے زندگی میں کوئی دوسرا نہ تھا سنتے رہے ہیں آپ ہی اپنی صدائیں ہم اس زندگی میں اتنی فراغت کسے نصیب اتنا نہ یاد آ کہ تجھے بھول جائیں ہم تو اتنی دل زدہ تو نہ تھی اے شب فراق آ تیرے راستے میں ستارے لٹائیں ہم وہ لوگ اب کہاں ہیں جو کہتے تھے کل فرازؔ ہے ہے خدا نہ کردہ تجھے بھی رلائیں ہم " rog-aise-bhii-gam-e-yaar-se-lag-jaate-hain-ahmad-faraz-ghazals," روگ ایسے بھی غم یار سے لگ جاتے ہیں در سے اٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے بعد میں سیکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب بنتی ہے رو نہ پائیں تو گلے یار سے لگ جاتے ہیں کترنیں غم کی جو گلیوں میں اڑی پھرتی ہیں گھر میں لے آؤ تو انبار سے لگ جاتے ہیں داغ دامن کے ہوں دل کے ہوں کہ چہرے کے فرازؔ کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں " us-ne-sukuut-e-shab-men-bhii-apnaa-payaam-rakh-diyaa-ahmad-faraz-ghazals," اس نے سکوت شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا ہجر کی رات بام پر ماہ تمام رکھ دیا آمد دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی میں نے بھی اک چراغ سا دل سر شام رکھ دیا شدت تشنگی میں بھی غیرت مے کشی رہی اس نے جو پھیر لی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں میں نے تو سب حساب جاں بر سر عام رکھ دیا اب کے بہار نے بھی کیں ایسی شرارتیں کہ بس کبک دری کی چال میں تیرا خرام رکھ دیا جو بھی ملا اسی کا دل حلقہ بگوش یار تھا اس نے تو سارے شہر کو کر کے غلام رکھ دیا اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا " kathin-hai-raahguzar-thodii-duur-saath-chalo-ahmad-faraz-ghazals-1," کٹھن ہے راہ گزر تھوڑی دور ساتھ چلو بہت کڑا ہے سفر تھوڑی دور ساتھ چلو تمام عمر کہاں کوئی ساتھ دیتا ہے یہ جانتا ہوں مگر تھوڑی دور ساتھ چلو نشے میں چور ہوں میں بھی تمہیں بھی ہوش نہیں بڑا مزہ ہو اگر تھوڑی دور ساتھ چلو یہ ایک شب کی ملاقات بھی غنیمت ہے کسے ہے کل کی خبر تھوڑی دور ساتھ چلو ابھی تو جاگ رہے ہیں چراغ راہوں کے ابھی ہے دور سحر تھوڑی دور ساتھ چلو طواف منزل جاناں ہمیں بھی کرنا ہے فرازؔ تم بھی اگر تھوڑی دور ساتھ چلو " juz-tire-koii-bhii-din-raat-na-jaane-mere-ahmad-faraz-ghazals," جز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے تو کہاں ہے مگر اے دوست پرانے میرے تو بھی خوشبو ہے مگر میرا تجسس بے کار برگ آوارہ کی مانند ٹھکانے میرے شمع کی لو تھی کہ وہ تو تھا مگر ہجر کی رات دیر تک روتا رہا کوئی سرہانے میرے خلق کی بے خبری ہے کہ مری رسوائی لوگ مجھ کو ہی سناتے ہیں فسانے میرے لٹ کے بھی خوش ہوں کہ اشکوں سے بھرا ہے دامن دیکھ غارت گر دل یہ بھی خزانے میرے آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے کاش تو بھی میری آواز کہیں سنتا ہو پھر پکارا ہے تجھے دل کی صدا نے میرے کاش تو بھی کبھی آ جائے مسیحائی کو لوگ آتے ہیں بہت دل کو دکھانے میرے کاش اوروں کی طرح میں بھی کبھی کہہ سکتا بات سن لی ہے مری آج خدا نے میرے تو ہے کس حال میں اے زود فراموش مرے مجھ کو تو چھین لیا عہد وفا نے میرے چارہ گر یوں تو بہت ہیں مگر اے جان فرازؔ جز ترے اور کوئی زخم نہ جانے میرے " ab-ke-tajdiid-e-vafaa-kaa-nahiin-imkaan-jaanaan-ahmad-faraz-ghazals," اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں زندگی تیری عطا تھی سو ترے نام کی ہے ہم نے جیسے بھی بسر کی ترا احساں جاناں دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہے فسردہ تو بھی دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر بے پیے بھی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں رگ مینا سلگ اٹھی کہ رگ جاں جاناں مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا غم دوراں سے جدا ہے غم جاناں جاناں اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں سر بہ زانو ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں جس کو دیکھو وہی زنجیر بہ پا لگتا ہے شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں " agarche-zor-havaaon-ne-daal-rakkhaa-hai-ahmad-faraz-ghazals," اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے محبتوں میں تو ملنا ہے یا اجڑ جانا مزاج عشق میں کب اعتدال رکھا ہے ہوا میں نشہ ہی نشہ فضا میں رنگ ہی رنگ یہ کس نے پیرہن اپنا اچھال رکھا ہے بھلے دنوں کا بھروسا ہی کیا رہیں نہ رہیں سو میں نے رشتۂ غم کو بحال رکھا ہے ہم ایسے سادہ دلوں کو وہ دوست ہو کہ خدا سبھی نے وعدۂ فردا پہ ٹال رکھا ہے حساب لطف حریفاں کیا ہے جب تو کھلا کہ دوستوں نے زیادہ خیال رکھا ہے بھری بہار میں اک شاخ پر کھلا ہے گلاب کہ جیسے تو نے ہتھیلی پہ گال رکھا ہے فرازؔ عشق کی دنیا تو خوبصورت تھی یہ کس نے فتنۂ ہجر و وصال رکھا ہے " karuun-na-yaad-magar-kis-tarah-bhulaauun-use-ahmad-faraz-ghazals," کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاؤں اسے غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے وہ خار خار ہے شاخ گلاب کی مانند میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں کے میں کیسے بات کروں اب کہاں سے لاؤں اسے مگر وہ زود فراموش زود رنج بھی ہے کہ روٹھ جائے اگر یاد کچھ دلاؤں اسے وہی جو دولت دل ہے وہی جو راحت جاں تمہاری بات پہ اے ناصحو گنواؤں اسے جو ہم سفر سر منزل بچھڑ رہا ہے فرازؔ عجب نہیں ہے اگر یاد بھی نہ آؤں اسے " jab-bhii-dil-khol-ke-roe-honge-ahmad-faraz-ghazals," جب بھی دل کھول کے روئے ہوں گے لوگ آرام سے سوئے ہوں گے بعض اوقات بہ مجبوریٔ دل ہم تو کیا آپ بھی روئے ہوں گے صبح تک دست صبا نے کیا کیا پھول کانٹوں میں پروئے ہوں گے وہ سفینے جنہیں طوفاں نہ ملے ناخداؤں نے ڈبوئے ہوں گے رات بھر ہنستے ہوئے تاروں نے ان کے عارض بھی بھگوئے ہوں گے کیا عجب ہے وہ ملے بھی ہوں فرازؔ ہم کسی دھیان میں کھوئے ہوں گے " is-qadar-musalsal-thiin-shiddaten-judaaii-kii-ahmad-faraz-ghazals," اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی ورنہ اب تلک یوں تھا خواہشوں کی بارش میں یا تو ٹوٹ کر رویا یا غزل سرائی کی تج دیا تھا کل جن کو ہم نے تیری چاہت میں آج ان سے مجبوراً تازہ آشنائی کی ہو چلا تھا جب مجھ کو اختلاف اپنے سے تو نے کس گھڑی ظالم میری ہم نوائی کی ترک کر چکے قاصد کوئے نامراداں کو کون اب خبر لاوے شہر آشنائی کی طنز و طعنہ و تہمت سب ہنر ہیں ناصح کے آپ سے کوئی پوچھے ہم نے کیا برائی کی پھر قفس میں شور اٹھا قیدیوں کا اور صیاد دیکھنا اڑا دے گا پھر خبر رہائی کی دکھ ہوا جب اس در پر کل فرازؔ کو دیکھا لاکھ عیب تھے اس میں خو نہ تھی گدائی کی " ab-kyaa-sochen-kyaa-haalaat-the-kis-kaaran-ye-zahr-piyaa-hai-ahmad-faraz-ghazals," اب کیا سوچیں کیا حالات تھے کس کارن یہ زہر پیا ہے ہم نے اس کے شہر کو چھوڑا اور آنکھوں کو موند لیا ہے اپنا یہ شیوہ تو نہیں تھا اپنے غم اوروں کو سونپیں خود تو جاگتے یا سوتے ہیں اس کو کیوں بے خواب کیا ہے خلقت کے آوازے بھی تھے بند اس کے دروازے بھی تھے پھر بھی اس کوچے سے گزرے پھر بھی اس کا نام لیا ہے ہجر کی رت جاں لیوا تھی پر غلط سبھی اندازے نکلے تازہ رفاقت کے موسم تک میں بھی جیا ہوں وہ بھی جیا ہے ایک فرازؔ تمہیں تنہا ہو جو اب تک دکھ کے رسیا ہو ورنہ اکثر دل والوں نے درد کا رستہ چھوڑ دیا ہے " yuunhii-mar-mar-ke-jien-vaqt-guzaare-jaaen-ahmad-faraz-ghazals," یوں ہی مر مر کے جئیں وقت گزارے جائیں زندگی ہم ترے ہاتھوں سے نہ مارے جائیں اب زمیں پر کوئی گوتم نہ محمد نہ مسیح آسمانوں سے نئے لوگ اتارے جائیں وہ جو موجود نہیں اس کی مدد چاہتے ہیں وہ جو سنتا ہی نہیں اس کو پکارے جائیں باپ لرزاں ہے کہ پہنچی نہیں بارات اب تک اور ہم جولیاں دلہن کو سنوارے جائیں ہم کہ نادان جواری ہیں سبھی جانتے ہیں دل کی بازی ہو تو جی جان سے ہارے جائیں تج دیا تم نے در یار بھی اکتا کے فرازؔ اب کہاں ڈھونڈھنے غم خوار تمہارے جائیں " saamne-us-ke-kabhii-us-kii-sataaish-nahiin-kii-ahmad-faraz-ghazals," سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی دل نے چاہا بھی اگر ہونٹوں نے جنبش نہیں کی اہل محفل پہ کب احوال کھلا ہے اپنا میں بھی خاموش رہا اس نے بھی پرسش نہیں کی جس قدر اس سے تعلق تھا چلا جاتا ہے اس کا کیا رنج ہو جس کی کبھی خواہش نہیں کی یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے اس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی اک تو ہم کو ادب آداب نے پیاسا رکھا اس پہ محفل میں صراحی نے بھی گردش نہیں کی ہم کہ دکھ اوڑھ کے خلوت میں پڑے رہتے ہیں ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی اے مرے ابر کرم دیکھ یہ ویرانۂ جاں کیا کسی دشت پہ تو نے کبھی بارش نہیں کی کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے مقتل شہر میں ٹھہرے رہے جنبش نہیں کی وہ ہمیں بھول گیا ہو تو عجب کیا ہے فرازؔ ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی " avval-avval-kii-dostii-hai-abhii-ahmad-faraz-ghazals," اول اول کی دوستی ہے ابھی اک غزل ہے کہ ہو رہی ہے ابھی میں بھی شہر وفا میں نو وارد وہ بھی رک رک کے چل رہی ہے ابھی میں بھی ایسا کہاں کا زود شناس وہ بھی لگتا ہے سوچتی ہے ابھی دل کی وارفتگی ہے اپنی جگہ پھر بھی کچھ احتیاط سی ہے ابھی گرچہ پہلا سا اجتناب نہیں پھر بھی کم کم سپردگی ہے ابھی کیسا موسم ہے کچھ نہیں کھلتا بوندا باندی بھی دھوپ بھی ہے ابھی خود کلامی میں کب یہ نشہ تھا جس طرح روبرو کوئی ہے ابھی قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی فصل گل میں بہار پہلا گلاب کس کی زلفوں میں ٹانکتی ہے ابھی مدتیں ہو گئیں فرازؔ مگر وہ جو دیوانگی کہ تھی ہے ابھی " tere-qariib-aa-ke-badii-uljhanon-men-huun-ahmad-faraz-ghazals," تیرے قریب آ کے بڑی الجھنوں میں ہوں میں دشمنوں میں ہوں کہ ترے دوستوں میں ہوں مجھ سے گریز پا ہے تو ہر راستہ بدل میں سنگ راہ ہوں تو سبھی راستوں میں ہوں تو آ چکا ہے سطح پہ کب سے خبر نہیں بے درد میں ابھی انہیں گہرائیوں میں ہوں اے یار خوش دیار تجھے کیا خبر کہ میں کب سے اداسیوں کے گھنے جنگلوں میں ہوں تو لوٹ کر بھی اہل تمنا کو خوش نہیں یاں لٹ کے بھی وفا کے انہی قافلوں میں ہوں بدلا نہ میرے بعد بھی موضوع گفتگو میں جا چکا ہوں پھر بھی تری محفلوں میں ہوں مجھ سے بچھڑ کے تو بھی تو روئے گا عمر بھر یہ سوچ لے کہ میں بھی تری خواہشوں میں ہوں تو ہنس رہا ہے مجھ پہ مرا حال دیکھ کر اور پھر بھی میں شریک ترے قہقہوں میں ہوں خود ہی مثال لالۂ صحرا لہو لہو اور خود فرازؔ اپنے تماشائیوں میں ہوں " jis-samt-bhii-dekhuun-nazar-aataa-hai-ki-tum-ho-ahmad-faraz-ghazals," جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو اے جان جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو یہ خواب ہے خوشبو ہے کہ جھونکا ہے کہ پل ہے یہ دھند ہے بادل ہے کہ سایا ہے کہ تم ہو اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں میں ہوں کہ کوئی اور ہے دنیا ہے کہ تم ہو دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو یہ عمر گریزاں کہیں ٹھہرے تو یہ جانوں ہر سانس میں مجھ کو یہی لگتا ہے کہ تم ہو ہر بزم میں موضوع سخن دل زدگاں کا اب کون ہے شیریں ہے کہ لیلیٰ ہے کہ تم ہو اک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں اک موج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تم ہو وہ وقت نہ آئے کہ دل زار بھی سوچے اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو آباد ہم آشفتہ سروں سے نہیں مقتل یہ رسم ابھی شہر میں زندہ ہے کہ تم ہو اے جان فرازؔ اتنی بھی توفیق کسے تھی ہم کو غم ہستی بھی گوارا ہے کہ تم ہو " tujh-se-mil-kar-to-ye-lagtaa-hai-ki-ai-ajnabii-dost-ahmad-faraz-ghazals," تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست تو مری پہلی محبت تھی مری آخری دوست لوگ ہر بات کا افسانہ بنا دیتے ہیں یہ تو دنیا ہے مری جاں کئی دشمن کئی دوست تیرے قامت سے بھی لپٹی ہے امر بیل کوئی میری چاہت کو بھی دنیا کی نظر کھا گئی دوست یاد آئی ہے تو پھر ٹوٹ کے یاد آئی ہے کوئی گزری ہوئی منزل کوئی بھولی ہوئی دوست اب بھی آئے ہو تو احسان تمہارا لیکن وہ قیامت جو گزرنی تھی گزر بھی گئی دوست تیرے لہجے کی تھکن میں ترا دل شامل ہے ایسا لگتا ہے جدائی کی گھڑی آ گئی دوست بارش سنگ کا موسم ہے مرے شہر میں تو تو یہ شیشے سا بدن لے کے کہاں آ گئی دوست میں اسے عہد شکن کیسے سمجھ لوں جس نے آخری خط میں یہ لکھا تھا فقط آپ کی دوست " silsile-tod-gayaa-vo-sabhii-jaate-jaate-ahmad-faraz-ghazals," سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے جشن مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی پا بجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے " sunaa-hai-log-use-aankh-bhar-ke-dekhte-hain-ahmad-faraz-ghazals," سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا سو رہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں " ab-ke-ham-bichhde-to-shaayad-kabhii-khvaabon-men-milen-ahmad-faraz-ghazals," اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں اب نہ وہ میں نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فرازؔ جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں " qurbat-bhii-nahiin-dil-se-utar-bhii-nahiin-jaataa-ahmad-faraz-ghazals," قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا وہ شخص کوئی فیصلہ کر بھی نہیں جاتا آنکھیں ہیں کہ خالی نہیں رہتی ہیں لہو سے اور زخم جدائی ہے کہ بھر بھی نہیں جاتا وہ راحت جاں ہے مگر اس در بدری میں ایسا ہے کہ اب دھیان ادھر بھی نہیں جاتا ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر پاؤں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا پاگل ہوئے جاتے ہو فرازؔ اس سے ملے کیا اتنی سی خوشی سے کوئی مر بھی نہیں جاتا " khaamosh-ho-kyuun-daad-e-jafaa-kyuun-nahiin-dete-ahmad-faraz-ghazals," خاموش ہو کیوں داد جفا کیوں نہیں دیتے بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے وحشت کا سبب روزن زنداں تو نہیں ہے مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے اک یہ بھی تو انداز علاج غم جاں ہے اے چارہ گرو درد بڑھا کیوں نہیں دیتے منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے رہزن ہو تو حاضر ہے متاع دل و جاں بھی رہبر ہو تو منزل کا پتہ کیوں نہیں دیتے کیا بیت گئی اب کے فرازؔ اہل چمن پر؟ یاران قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے " jo-gair-the-vo-isii-baat-par-hamaare-hue-ahmad-faraz-ghazals," جو غیر تھے وہ اسی بات پر ہمارے ہوئے کہ ہم سے دوست بہت بے خبر ہمارے ہوئے کسے خبر وہ محبت تھی یا رقابت تھی بہت سے لوگ تجھے دیکھ کر ہمارے ہوئے اب اک ہجوم شکستہ دلاں ہے ساتھ اپنے جنہیں کوئی نہ ملا ہم سفر ہمارے ہوئے کسی نے غم تو کسی نے مزاج غم بخشا سب اپنی اپنی جگہ چارہ گر ہمارے ہوئے بجھا کے طاق کی شمعیں نہ دیکھ تاروں کو اسی جنوں میں تو برباد گھر ہمارے ہوئے وہ اعتماد کہاں سے فرازؔ لائیں گے کسی کو چھوڑ کے وہ اب اگر ہمارے ہوئے " is-se-pahle-ki-be-vafaa-ho-jaaen-ahmad-faraz-ghazals," اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں تو کہ یکتا تھا بے شمار ہوا ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں ہم اگر منزلیں نہ بن پائے منزلوں تک کا راستا ہو جائیں دیر سے سوچ میں ہیں پروانے راکھ ہو جائیں یا ہوا ہو جائیں عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا خاک ہو جائیں کیمیا ہو جائیں اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے ایسے لپٹیں تری قبا ہو جائیں بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں " vahshaten-badhtii-gaiin-hijr-ke-aazaar-ke-saath-ahmad-faraz-ghazals," وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ اب تو ہم بات بھی کرتے نہیں غم خوار کے ساتھ ہم نے اک عمر بسر کی ہے غم یار کے ساتھ میرؔ دو دن نہ جئے ہجر کے آزار کے ساتھ اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں طاق پر عزت سادات بھی دستار کے ساتھ اس قدر خوف ہے اب شہر کی گلیوں میں کہ لوگ چاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ ایک تو خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ شہر کا شہر ہی ناصح ہو تو کیا کیجئے گا ورنہ ہم رند تو بھڑ جاتے ہیں دو چار کے ساتھ ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ جو شرف ہم کو ملا کوچۂ جاناں سے فرازؔ سوئے مقتل بھی گئے ہیں اسی پندار کے ساتھ " shoala-thaa-jal-bujhaa-huun-havaaen-mujhe-na-do-ahmad-faraz-ghazals," شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو جو زہر پی چکا ہوں تمہیں نے مجھے دیا اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو یہ بھی بڑا کرم ہے سلامت ہے جسم ابھی اے خسروان شہر قبائیں مجھے نہ دو ایسا نہ ہو کبھی کہ پلٹ کر نہ آ سکوں ہر بار دور جا کے صدائیں مجھے نہ دو کب مجھ کو اعتراف محبت نہ تھا فرازؔ کب میں نے یہ کہا ہے سزائیں مجھے نہ دو " zindagii-se-yahii-gila-hai-mujhe-ahmad-faraz-ghazals," زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے تو محبت سے کوئی چال تو چل ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے دل دھڑکتا نہیں ٹپکتا ہے کل جو خواہش تھی آبلہ ہے مجھے ہم سفر چاہیئے ہجوم نہیں اک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے کوہ کن ہو کہ قیس ہو کہ فرازؔ سب میں اک شخص ہی ملا ہے مجھے " ab-shauq-se-ki-jaan-se-guzar-jaanaa-chaahiye-ahmad-faraz-ghazals," اب شوق سے کہ جاں سے گزر جانا چاہیئے بول اے ہوائے شہر کدھر جانا چاہیئے کب تک اسی کو آخری منزل کہیں گے ہم کوئے مراد سے بھی ادھر جانا چاہیئے وہ وقت آ گیا ہے کہ ساحل کو چھوڑ کر گہرے سمندروں میں اتر جانا چاہیئے اب رفتگاں کی بات نہیں کارواں کی ہے جس سمت بھی ہو گرد سفر جانا چاہیئے کچھ تو ثبوت خون تمنا کہیں ملے ہے دل تہی تو آنکھ کو بھر جانا چاہیئے یا اپنی خواہشوں کو مقدس نہ جانتے یا خواہشوں کے ساتھ ہی مر جانا چاہیئے " abhii-kuchh-aur-karishme-gazal-ke-dekhte-hain-ahmad-faraz-ghazals," ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں فرازؔ اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں جدائیاں تو مقدر ہیں پھر بھی جان سفر کچھ اور دور ذرا ساتھ چل کے دیکھتے ہیں رہ وفا میں حریف خرام کوئی تو ہو سو اپنے آپ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں یہ کون لوگ ہیں موجود تیری محفل میں جو لالچوں سے تجھے مجھ کو جل کے دیکھتے ہیں یہ قرب کیا ہے کہ یک جاں ہوئے نہ دور رہے ہزار ایک ہی قالب میں ڈھل کے دیکھتے ہیں نہ تجھ کو مات ہوئی ہے نہ مجھ کو مات ہوئی سو اب کے دونوں ہی چالیں بدل کے دیکھتے ہیں یہ کون ہے سر ساحل کہ ڈوبنے والے سمندروں کی تہوں سے اچھل کے دیکھتے ہیں ابھی تلک تو نہ کندن ہوئے نہ راکھ ہوئے ہم اپنی آگ میں ہر روز جل کے دیکھتے ہیں بہت دنوں سے نہیں ہے کچھ اس کی خیر خبر چلو فرازؔ کو اے یار چل کے دیکھتے ہیں " kyaa-aise-kam-sukhan-se-koii-guftuguu-kare-ahmad-faraz-ghazals," کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفتگو کرے جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے اب تو ہمیں بھی ترک مراسم کا دکھ نہیں پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تو کرے تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی خود کو گنوا کے کون تری جستجو کرے اب تو یہ آرزو ہے کہ وہ زخم کھائیے تا زندگی یہ دل نہ کوئی آرزو کرے تجھ کو بھلا کے دل ہے وہ شرمندۂ نظر اب کوئی حادثہ ہی ترے روبرو کرے چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فرازؔ دنیا تو عرض حال سے بے آبرو کرے " aankh-se-duur-na-ho-dil-se-utar-jaaegaa-ahmad-faraz-ghazals," آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا " main-to-maqtal-men-bhii-qismat-kaa-sikandar-niklaa-ahmad-faraz-ghazals," میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا قرعۂ فال مرے نام کا اکثر نکلا تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا میں نے اس جان بہاراں کو بہت یاد کیا جب کوئی پھول مری شاخ ہنر پر نکلا شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا تو یہیں ہار گیا ہے مرے بزدل دشمن مجھ سے تنہا کے مقابل ترا لشکر نکلا میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فرازؔ ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا " har-koii-dil-kii-hathelii-pe-hai-sahraa-rakkhe-ahmad-faraz-ghazals," ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا اے مری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام ترا کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے کم نہیں طمع عبادت بھی تو حرص زر سے فقر تو وہ ہے کہ جو دین نہ دنیا رکھے ہنس نہ اتنا بھی فقیروں کے اکیلے پن پر جا خدا میری طرح تجھ کو بھی تنہا رکھے یہ قناعت ہے اطاعت ہے کہ چاہت ہے فرازؔ ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے " ye-kyaa-ki-sab-se-bayaan-dil-kii-haalaten-karnii-ahmad-faraz-ghazals," یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی فرازؔ تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی یہ قرب کیا ہے کہ تو سامنے ہے اور ہمیں شمار ابھی سے جدائی کی ساعتیں کرنی کوئی خدا ہو کہ پتھر جسے بھی ہم چاہیں تمام عمر اسی کی عبادتیں کرنی سب اپنے اپنے قرینے سے منتظر اس کے کسی کو شکر کسی کو شکایتیں کرنی ہم اپنے دل سے ہی مجبور اور لوگوں کو ذرا سی بات پہ برپا قیامتیں کرنی ملیں جب ان سے تو مبہم سی گفتگو کرنا پھر اپنے آپ سے سو سو وضاحتیں کرنی یہ لوگ کیسے مگر دشمنی نباہتے ہیں ہمیں تو راس نہ آئیں محبتیں کرنی کبھی فرازؔ نئے موسموں میں رو دینا کبھی تلاش پرانی رفاقتیں کرنی " aashiqii-men-miir-jaise-khvaab-mat-dekhaa-karo-ahmad-faraz-ghazals," عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو جستہ جستہ پڑھ لیا کرنا مضامین وفا پر کتاب عشق کا ہر باب مت دیکھا کرو اس تماشے میں الٹ جاتی ہیں اکثر کشتیاں ڈوبنے والوں کو زیر آب مت دیکھا کرو مے کدے میں کیا تکلف مے کشی میں کیا حجاب بزم ساقی میں ادب آداب مت دیکھا کرو ہم سے درویشوں کے گھر آؤ تو یاروں کی طرح ہر جگہ خس خانہ و برفاب مت دیکھا کرو مانگے تانگے کی قبائیں دیر تک رہتی نہیں یار لوگوں کے لقب القاب مت دیکھا کرو تشنگی میں لب بھگو لینا بھی کافی ہے فرازؔ جام میں صہبا ہے یا زہراب مت دیکھا کرو " us-ko-judaa-hue-bhii-zamaana-bahut-huaa-ahmad-faraz-ghazals," اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا ڈھلتی نہ تھی کسی بھی جتن سے شب فراق اے مرگ ناگہاں ترا آنا بہت ہوا ہم خلد سے نکل تو گئے ہیں پر اے خدا اتنے سے واقعے کا فسانہ بہت ہوا اب ہم ہیں اور سارے زمانے کی دشمنی اس سے ذرا سا ربط بڑھانا بہت ہوا اب کیوں نہ زندگی پہ محبت کو وار دیں اس عاشقی میں جان سے جانا بہت ہوا اب تک تو دل کا دل سے تعارف نہ ہو سکا مانا کہ اس سے ملنا ملانا بہت ہوا کیا کیا نہ ہم خراب ہوئے ہیں مگر یہ دل اے یاد یار تیرا ٹھکانہ بہت ہوا کہتا تھا ناصحوں سے مرے منہ نہ آئیو پھر کیا تھا ایک ہو کا بہانہ بہت ہوا لو پھر ترے لبوں پہ اسی بے وفا کا ذکر احمد فرازؔ تجھ سے کہا نہ بہت ہوا " terii-baaten-hii-sunaane-aae-ahmad-faraz-ghazals-3," تیری باتیں ہی سنانے آئے دوست بھی دل ہی دکھانے آئے پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں تیرے آنے کے زمانے آئے ایسی کچھ چپ سی لگی ہے جیسے ہم تجھے حال سنانے آئے عشق تنہا ہے سر منزل غم کون یہ بوجھ اٹھانے آئے اجنبی دوست ہمیں دیکھ کہ ہم کچھ تجھے یاد دلانے آئے دل دھڑکتا ہے سفر کے ہنگام کاش پھر کوئی بلانے آئے اب تو رونے سے بھی دل دکھتا ہے شاید اب ہوش ٹھکانے آئے کیا کہیں پھر کوئی بستی اجڑی لوگ کیوں جشن منانے آئے سو رہو موت کے پہلو میں فرازؔ نیند کس وقت نہ جانے آئے " guftuguu-achchhii-lagii-zauq-e-nazar-achchhaa-lagaa-ahmad-faraz-ghazals," گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا مدتوں کے بعد کوئی ہم سفر اچھا لگا دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں اس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول شاخ سے بڑھ کر کف دل دار پر اچھا لگا کوئی مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے تیغ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا میرؔ کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فرازؔ تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا " aisaa-hai-ki-sab-khvaab-musalsal-nahiin-hote-ahmad-faraz-ghazals," ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے اندر کی فضاؤں کے کرشمے بھی عجب ہیں مینہ ٹوٹ کے برسے بھی تو بادل نہیں ہوتے کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آساں نہیں ہوتیں کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے شائستگیٔ غم کے سبب آنکھوں کے صحرا نمناک تو ہو جاتے ہیں جل تھل نہیں ہوتے کیسے ہی تلاطم ہوں مگر قلزم جاں میں کچھ یاد جزیرے ہیں کہ اوجھل نہیں ہوتے عشاق کے مانند کئی اہل ہوس بھی پاگل تو نظر آتے ہیں پاگل نہیں ہوتے سب خواہشیں پوری ہوں فرازؔ ایسا نہیں ہے جیسے کئی اشعار مکمل نہیں ہوتے " phir-usii-rahguzaar-par-shaayad-ahmad-faraz-ghazals," پھر اسی رہ گزار پر شاید ہم کبھی مل سکیں مگر شاید جن کے ہم منتظر رہے ان کو مل گئے اور ہم سفر شاید جان پہچان سے بھی کیا ہوگا پھر بھی اے دوست غور کر شاید اجنبیت کی دھند چھٹ جائے چمک اٹھے تری نظر شاید زندگی بھر لہو رلائے گی یاد یاران بے خبر شاید جو بھی بچھڑے وہ کب ملے ہیں فرازؔ پھر بھی تو انتظار کر شاید " tujhe-hai-mashq-e-sitam-kaa-malaal-vaise-hii-ahmad-faraz-ghazals," تجھے ہے مشق ستم کا ملال ویسے ہی ہماری جان تھی جاں پر وبال ویسے ہی چلا تھا ذکر زمانے کی بے وفائی کا سو آ گیا ہے تمہارا خیال ویسے ہی ہم آ گئے ہیں تہ دام تو نصیب اپنا وگرنہ اس نے تو پھینکا تھا جال ویسے ہی میں روکنا ہی نہیں چاہتا تھا وار اس کا گری نہیں مرے ہاتھوں سے ڈھال ویسے ہی زمانہ ہم سے بھلا دشمنی تو کیا رکھتا سو کر گیا ہے ہمیں پائمال ویسے ہی مجھے بھی شوق نہ تھا داستاں سنانے کا فرازؔ اس نے بھی پوچھا تھا حال ویسے ہی " ranjish-hii-sahii-dil-hii-dukhaane-ke-liye-aa-ahmad-faraz-ghazals," رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ اک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لیے آ اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ " dost-ban-kar-bhii-nahiin-saath-nibhaane-vaalaa-ahmad-faraz-ghazals," دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا اب اسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار مرا سخت نادم ہے مجھے دام میں لانے والا صبح دم چھوڑ گیا نکہت گل کی صورت رات کو غنچۂ دل میں سمٹ آنے والا کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے وہ جو اک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا منتظر کس کا ہوں ٹوٹی ہوئی دہلیز پہ میں کون آئے گا یہاں کون ہے آنے والا کیا خبر تھی جو مری جاں میں گھلا ہے اتنا ہے وہی مجھ کو سر دار بھی لانے والا میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا " zikr-aae-to-mire-lab-se-duaaen-niklen-gulzar-ghazals," ذکر آئے تو مرے لب سے دعائیں نکلیں شمع جلتی ہے تو لازم ہے شعاعیں نکلیں وقت کی ضرب سے کٹ جاتے ہیں سب کے سینے چاند کا چھلکا اتر جائے تو قاشیں نکلیں دفن ہو جائیں کہ زرخیز زمیں لگتی ہے کل اسی مٹی سے شاید مری شاخیں نکلیں چند امیدیں نچوڑی تھیں تو آہیں ٹپکیں دل کو پگھلائیں تو ہو سکتا ہے سانسیں نکلیں غار کے منہ پہ رکھا رہنے دو سنگ خورشید غار میں ہاتھ نہ ڈالو کہیں راتیں نکلیں " garm-laashen-giriin-fasiilon-se-gulzar-ghazals," گرم لاشیں گریں فصیلوں سے آسماں بھر گیا ہے چیلوں سے سولی چڑھنے لگی ہے خاموشی لوگ آئے ہیں سن کے میلوں سے کان میں ایسے اتری سرگوشی برف پھسلی ہو جیسے ٹیلوں سے گونج کر ایسے لوٹتی ہے صدا کوئی پوچھے ہزاروں میلوں سے پیاس بھرتی رہی مرے اندر آنکھ ہٹتی نہیں تھی جھیلوں سے لوگ کندھے بدل بدل کے چلے گھاٹ پہنچے بڑے وسیلوں سے " aisaa-khaamosh-to-manzar-na-fanaa-kaa-hotaa-gulzar-ghazals," ایسا خاموش تو منظر نہ فنا کا ہوتا میری تصویر بھی گرتی تو چھناکا ہوتا یوں بھی اک بار تو ہوتا کہ سمندر بہتا کوئی احساس تو دریا کی انا کا ہوتا سانس موسم کی بھی کچھ دیر کو چلنے لگتی کوئی جھونکا تری پلکوں کی ہوا کا ہوتا کانچ کے پار ترے ہاتھ نظر آتے ہیں کاش خوشبو کی طرح رنگ حنا کا ہوتا کیوں مری شکل پہن لیتا ہے چھپنے کے لیے ایک چہرہ کوئی اپنا بھی خدا کا ہوتا " sabr-har-baar-ikhtiyaar-kiyaa-gulzar-ghazals," صبر ہر بار اختیار کیا ہم سے ہوتا نہیں ہزار کیا عادتاً تم نے کر دیئے وعدے عادتاً ہم نے اعتبار کیا ہم نے اکثر تمہاری راہوں میں رک کر اپنا ہی انتظار کیا پھر نہ مانگیں گے زندگی یارب یہ گنہ ہم نے ایک بار کیا " vo-khat-ke-purze-udaa-rahaa-thaa-gulzar-ghazals," وہ خط کے پرزے اڑا رہا تھا ہواؤں کا رخ دکھا رہا تھا بتاؤں کیسے وہ بہتا دریا جب آ رہا تھا تو جا رہا تھا کچھ اور بھی ہو گیا نمایاں میں اپنا لکھا مٹا رہا تھا دھواں دھواں ہو گئی تھیں آنکھیں چراغ کو جب بجھا رہا تھا منڈیر سے جھک کے چاند کل بھی پڑوسیوں کو جگا رہا تھا اسی کا ایماں بدل گیا ہے کبھی جو میرا خدا رہا تھا وہ ایک دن ایک اجنبی کو مری کہانی سنا رہا تھا وہ عمر کم کر رہا تھا میری میں سال اپنے بڑھا رہا تھا خدا کی شاید رضا ہو اس میں تمہارا جو فیصلہ رہا تھا " ek-parvaaz-dikhaaii-dii-hai-gulzar-ghazals," ایک پرواز دکھائی دی ہے تیری آواز سنائی دی ہے صرف اک صفحہ پلٹ کر اس نے ساری باتوں کی صفائی دی ہے پھر وہیں لوٹ کے جانا ہوگا یار نے کیسی رہائی دی ہے جس کی آنکھوں میں کٹی تھیں صدیاں اس نے صدیوں کی جدائی دی ہے زندگی پر بھی کوئی زور نہیں دل نے ہر چیز پرائی دی ہے آگ میں کیا کیا جلا ہے شب بھر کتنی خوش رنگ دکھائی دی ہے " aankhon-men-jal-rahaa-hai-pa-bujhtaa-nahiin-dhuaan-gulzar-ghazals," آنکھوں میں جل رہا ہے پہ بجھتا نہیں دھواں اٹھتا تو ہے گھٹا سا برستا نہیں دھواں پلکوں کے ڈھانپنے سے بھی رکتا نہیں دھواں کتنی انڈیلیں آنکھیں پہ بجھتا نہیں دھواں آنکھوں سے آنسوؤں کے مراسم پرانے ہیں مہماں یہ گھر میں آئیں تو چبھتا نہیں دھواں چولھے نہیں جلائے کہ بستی ہی جل گئی کچھ روز ہو گئے ہیں اب اٹھتا نہیں دھواں کالی لکیریں کھینچ رہا ہے فضاؤں میں بورا گیا ہے منہ سے کیوں کھلتا نہیں دھواں آنکھوں کے پوچھنے سے لگا آگ کا پتہ یوں چہرہ پھیر لینے سے چھپتا نہیں دھواں چنگاری اک اٹک سی گئی میرے سینے میں تھوڑا سا آ کے پھونک دو اڑتا نہیں دھواں " sahmaa-sahmaa-daraa-saa-rahtaa-hai-gulzar-ghazals," سہما سہما ڈرا سا رہتا ہے جانے کیوں جی بھرا سا رہتا ہے کائی سی جم گئی ہے آنکھوں پر سارا منظر ہرا سا رہتا ہے ایک پل دیکھ لوں تو اٹھتا ہوں جل گیا گھر ذرا سا رہتا ہے سر میں جنبش خیال کی بھی نہیں زانوؤں پر دھرا سا رہتا ہے " din-kuchh-aise-guzaartaa-hai-koii-gulzar-ghazals," دن کچھ ایسے گزارتا ہے کوئی جیسے احساں اتارتا ہے کوئی دل میں کچھ یوں سنبھالتا ہوں غم جیسے زیور سنبھالتا ہے کوئی آئنہ دیکھ کر تسلی ہوئی ہم کو اس گھر میں جانتا ہے کوئی پیڑ پر پک گیا ہے پھل شاید پھر سے پتھر اچھالتا ہے کوئی دیر سے گونجتے ہیں سناٹے جیسے ہم کو پکارتا ہے کوئی " os-padii-thii-raat-bahut-aur-kohra-thaa-garmaaish-par-gulzar-ghazals," اوس پڑی تھی رات بہت اور کہرہ تھا گرمائش پر سیلی سی خاموشی میں آواز سنی فرمائش پر فاصلے ہیں بھی اور نہیں بھی ناپا تولا کچھ بھی نہیں لوگ بضد رہتے ہیں پھر بھی رشتوں کی پیمائش پر منہ موڑا اور دیکھا کتنی دور کھڑے تھے ہم دونوں آپ لڑے تھے ہم سے بس اک کروٹ کی گنجائش پر کاغذ کا اک چاند لگا کر رات اندھیری کھڑکی پر دل میں کتنے خوش تھے اپنی فرقت کی آرائش پر دل کا حجرہ کتنی بار اجڑا بھی اور بسایا بھی ساری عمر کہاں ٹھہرا ہے کوئی ایک رہائش پر دھوپ اور چھاؤں بانٹ کے تم نے آنگن میں دیوار چنی کیا اتنا آسان ہے زندہ رہنا اس آسائش پر شاید تین نجومی میری موت پہ آ کر پہنچیں گے ایسا ہی اک بار ہوا تھا عیسیٰ کی پیدائش پر " gulon-ko-sunnaa-zaraa-tum-sadaaen-bhejii-hain-gulzar-ghazals," گلوں کو سننا ذرا تم صدائیں بھیجی ہیں گلوں کے ہاتھ بہت سی دعائیں بھیجی ہیں جو آفتاب کبھی بھی غروب ہوتا نہیں ہمارا دل ہے اسی کی شعاعیں بھیجی ہیں اگر جلائے تمہیں بھی شفا ملے شاید اک ایسے درد کی تم کو شعاعیں بھیجی ہیں تمہاری خشک سی آنکھیں بھلی نہیں لگتیں وہ ساری چیزیں جو تم کو رلائیں، بھیجی ہیں سیاہ رنگ چمکتی ہوئی کناری ہے پہن لو اچھی لگیں گی گھٹائیں بھیجی ہیں تمہارے خواب سے ہر شب لپٹ کے سوتے ہیں سزائیں بھیج دو ہم نے خطائیں بھیجی ہیں اکیلا پتا ہوا میں بہت بلند اڑا زمیں سے پاؤں اٹھاؤ ہوائیں بھیجی ہیں " phuul-ne-tahnii-se-udne-kii-koshish-kii-gulzar-ghazals," پھول نے ٹہنی سے اڑنے کی کوشش کی اک طائر کا دل رکھنے کی کوشش کی کل پھر چاند کا خنجر گھونپ کے سینے میں رات نے میری جاں لینے کی کوشش کی کوئی نہ کوئی رہبر رستہ کاٹ گیا جب بھی اپنی رہ چلنے کی کوشش کی کتنی لمبی خاموشی سے گزرا ہوں ان سے کتنا کچھ کہنے کی کوشش کی ایک ہی خواب نے ساری رات جگایا ہے میں نے ہر کروٹ سونے کی کوشش کی ایک ستارہ جلدی جلدی ڈوب گیا میں نے جب تارے گننے کی کوشش کی نام مرا تھا اور پتہ اپنے گھر کا اس نے مجھ کو خط لکھنے کی کوشش کی ایک دھوئیں کا مرغولہ سا نکلا ہے مٹی میں جب دل بونے کی کوشش کی " phuulon-kii-tarah-lab-khol-kabhii-gulzar-ghazals," پھولوں کی طرح لب کھول کبھی خوشبو کی زباں میں بول کبھی الفاظ پرکھتا رہتا ہے آواز ہماری تول کبھی انمول نہیں لیکن پھر بھی پوچھ تو مفت کا مول کبھی کھڑکی میں کٹی ہیں سب راتیں کچھ چورس تھیں کچھ گول کبھی یہ دل بھی دوست زمیں کی طرح ہو جاتا ہے ڈانوا ڈول کبھی " havaa-ke-siing-na-pakdo-khaded-detii-hai-gulzar-ghazals," ہوا کے سینگ نہ پکڑو کھدیڑ دیتی ہے زمیں سے پیڑوں کے ٹانکے ادھیڑ دیتی ہے میں چپ کراتا ہوں ہر شب امڈتی بارش کو مگر یہ روز گئی بات چھیڑ دیتی ہے زمیں سا دوسرا کوئی سخی کہاں ہوگا ذرا سا بیج اٹھا لے تو پیڑ دیتی ہے رندھے گلے کی دعاؤں سے بھی نہیں کھلتا در حیات جسے موت بھیڑ دیتی ہے " tujh-ko-dekhaa-hai-jo-dariyaa-ne-idhar-aate-hue-gulzar-ghazals," تجھ کو دیکھا ہے جو دریا نے ادھر آتے ہوئے کچھ بھنور ڈوب گئے پانی میں چکراتے ہوئے ہم نے تو رات کو دانتوں سے پکڑ کر رکھا چھینا جھپٹی میں افق کھلتا گیا جاتے ہوئے میں نہ ہوں گا تو خزاں کیسے کٹے گی تیری شوخ پتے نے کہا شاخ سے مرجھاتے ہوئے حسرتیں اپنی بلکتیں نہ یتیموں کی طرح ہم کو آواز ہی دے لیتے ذرا جاتے ہوئے سی لیے ہونٹ وہ پاکیزہ نگاہیں سن کر میلی ہو جاتی ہے آواز بھی دہراتے ہوئے " haath-chhuuten-bhii-to-rishte-nahiin-chhodaa-karte-gulzar-ghazals," ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے جس کی آواز میں سلوٹ ہو نگاہوں میں شکن ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے لگ کے ساحل سے جو بہتا ہے اسے بہنے دو ایسے دریا کا کبھی رخ نہیں موڑا کرتے جاگنے پر بھی نہیں آنکھ سے گرتیں کرچیں اس طرح خوابوں سے آنکھیں نہیں پھوڑا کرتے شہد جینے کا ملا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا جانے والوں کے لیے دل نہیں تھوڑا کرتے جا کے کہسار سے سر مارو کہ آواز تو ہو خستہ دیواروں سے ماتھا نہیں پھوڑا کرتے " dikhaaii-dete-hain-dhund-men-jaise-saae-koii-gulzar-ghazals," دکھائی دیتے ہیں دھند میں جیسے سائے کوئی مگر بلانے سے وقت لوٹے نہ آئے کوئی مرے محلے کا آسماں سونا ہو گیا ہے بلندیوں پہ اب آ کے پیچے لڑائے کوئی وہ زرد پتے جو پیڑ سے ٹوٹ کر گرے تھے کہاں گئے بہتے پانیوں میں بلائے کوئی ضعیف برگد کے ہاتھ میں رعشہ آ گیا ہے جٹائیں آنکھوں پہ گر رہی ہیں اٹھائے کوئی مزار پہ کھول کر گریباں دعائیں مانگیں جو آئے اب کے تو لوٹ کر پھر نہ جائے کوئی " zindagii-yuun-huii-basar-tanhaa-gulzar-ghazals," زندگی یوں ہوئی بسر تنہا قافلہ ساتھ اور سفر تنہا اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں عمر گزری ہے اس قدر تنہا رات بھر باتیں کرتے ہیں تارے رات کاٹے کوئی کدھر تنہا ڈوبنے والے پار جا اترے نقش پا اپنے چھوڑ کر تنہا دن گزرتا نہیں ہے لوگوں میں رات ہوتی نہیں بسر تنہا ہم نے دروازے تک تو دیکھا تھا پھر نہ جانے گئے کدھر تنہا " ped-ke-patton-men-halchal-hai-khabar-daar-se-hain-gulzar-ghazals," پیڑ کے پتوں میں ہلچل ہے خبردار سے ہیں شام سے تیز ہوا چلنے کے آثار سے ہیں ناخدا دیکھ رہا ہے کہ میں گرداب میں ہوں اور جو پل پہ کھڑے لوگ ہیں اخبار سے ہیں چڑھتے سیلاب میں ساحل نے تو منہ ڈھانپ لیا لوگ پانی کا کفن لینے کو تیار سے ہیں کل تواریخ میں دفنائے گئے تھے جو لوگ ان کے سائے ابھی دروازوں پہ بیدار سے ہیں وقت کے تیر تو سینے پہ سنبھالے ہم نے اور جو نیل پڑے ہیں تری گفتار سے ہیں روح سے چھیلے ہوئے جسم جہاں بکتے ہیں ہم کو بھی بیچ دے ہم بھی اسی بازار سے ہیں جب سے وہ اہل سیاست میں ہوئے ہیں شامل کچھ عدو کے ہیں تو کچھ میرے طرف دار سے ہیں " koii-khaamosh-zakhm-lagtii-hai-gulzar-ghazals," کوئی خاموش زخم لگتی ہے زندگی ایک نظم لگتی ہے بزم یاراں میں رہتا ہوں تنہا اور تنہائی بزم لگتی ہے اپنے سائے پہ پاؤں رکھتا ہوں چھاؤں چھالوں کو نرم لگتی ہے چاند کی نبض دیکھنا اٹھ کر رات کی سانس گرم لگتی ہے یہ روایت کہ درد مہکے رہیں دل کی دیرینہ رسم لگتی ہے " khulii-kitaab-ke-safhe-ulatte-rahte-hain-gulzar-ghazals," کھلی کتاب کے صفحے الٹتے رہتے ہیں ہوا چلے نہ چلے دن پلٹتے رہتے ہیں بس ایک وحشت منزل ہے اور کچھ بھی نہیں کہ چند سیڑھیاں چڑھتے اترتے رہتے ہیں مجھے تو روز کسوٹی پہ درد کستا ہے کہ جاں سے جسم کے بخیے ادھڑتے رہتے ہیں کبھی رکا نہیں کوئی مقام صحرا میں کہ ٹیلے پاؤں تلے سے سرکتے رہتے ہیں یہ روٹیاں ہیں یہ سکے ہیں اور دائرے ہیں یہ ایک دوجے کو دن بھر پکڑتے رہتے ہیں بھرے ہیں رات کے ریزے کچھ ایسے آنکھوں میں اجالا ہو تو ہم آنکھیں جھپکتے رہتے ہیں " zikr-hotaa-hai-jahaan-bhii-mire-afsaane-kaa-gulzar-ghazals," ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مرے افسانے کا ایک دروازہ سا کھلتا ہے کتب خانے کا ایک سناٹا دبے پاؤں گیا ہو جیسے دل سے اک خوف سا گزرا ہے بچھڑ جانے کا بلبلہ پھر سے چلا پانی میں غوطے کھانے نہ سمجھنے کا اسے وقت نہ سمجھانے کا میں نے الفاظ تو بیجوں کی طرح چھانٹ دیئے ایسا میٹھا ترا انداز تھا فرمانے کا کس کو روکے کوئی رستے میں کہاں بات کرے نہ تو آنے کی خبر ہے نہ پتا جانے کا " ham-to-kitnon-ko-mah-jabiin-kahte-gulzar-ghazals," ہم تو کتنوں کو مہ جبیں کہتے آپ ہیں اس لیے نہیں کہتے چاند ہوتا نہ آسماں پہ اگر ہم کسے آپ سا حسیں کہتے آپ کے پاؤں پھر کہاں پڑتے ہم زمیں کو اگر زمیں کہتے آپ نے اوروں سے کہا سب کچھ ہم سے بھی کچھ کبھی کہیں کہتے آپ کے بعد آپ ہی کہیے وقت کو کیسے ہم نشیں کہتے وہ بھی واحد ہے میں بھی واحد ہوں کس سبب سے ہم آفریں کہتے " dard-halkaa-hai-saans-bhaarii-hai-gulzar-ghazals," درد ہلکا ہے سانس بھاری ہے جئے جانے کی رسم جاری ہے آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے رات کو چاندنی تو اوڑھا دو دن کی چادر ابھی اتاری ہے شاخ پر کوئی قہقہہ تو کھلے کیسی چپ سی چمن پہ طاری ہے کل کا ہر واقعہ تمہارا تھا آج کی داستاں ہماری ہے " ruke-ruke-se-qadam-ruk-ke-baar-baar-chale-gulzar-ghazals," رکے رکے سے قدم رک کے بار بار چلے قرار دے کے ترے در سے بے قرار چلے اٹھائے پھرتے تھے احسان جسم کا جاں پر چلے جہاں سے تو یہ پیرہن اتار چلے نہ جانے کون سی مٹی وطن کی مٹی تھی نظر میں دھول جگر میں لیے غبار چلے سحر نہ آئی کئی بار نیند سے جاگے تھی رات رات کی یہ زندگی گزار چلے ملی ہے شمع سے یہ رسم عاشقی ہم کو گناہ ہاتھ پہ لے کر گناہ گار چلے " be-sabab-muskuraa-rahaa-hai-chaand-gulzar-ghazals," بے سبب مسکرا رہا ہے چاند کوئی سازش چھپا رہا ہے چاند جانے کس کی گلی سے نکلا ہے جھینپا جھینپا سا آ رہا ہے چاند کتنا غازہ لگایا ہے منہ پر دھول ہی دھول اڑا رہا ہے چاند کیسا بیٹھا ہے چھپ کے پتوں میں باغباں کو ستا رہا ہے چاند سیدھا سادہ افق سے نکلا تھا سر پہ اب چڑھتا جا رہا ہے چاند چھو کے دیکھا تو گرم تھا ماتھا دھوپ میں کھیلتا رہا ہے چاند " biite-rishte-talaash-kartii-hai-gulzar-ghazals," بیتے رشتے تلاش کرتی ہے خوشبو غنچے تلاش کرتی ہے جب گزرتی ہے اس گلی سے صبا خط کے پرزے تلاش کرتی ہے اپنے ماضی کی جستجو میں بہار پیلے پتے تلاش کرتی ہے ایک امید بار بار آ کر اپنے ٹکڑے تلاش کرتی ہے بوڑھی پگڈنڈی شہر تک آ کر اپنے بیٹے تلاش کرتی ہے " koii-atkaa-huaa-hai-pal-shaayad-gulzar-ghazals," کوئی اٹکا ہوا ہے پل شاید وقت میں پڑ گیا ہے بل شاید لب پہ آئی مری غزل شاید وہ اکیلے ہیں آج کل شاید دل اگر ہے تو درد بھی ہوگا اس کا کوئی نہیں ہے حل شاید جانتے ہیں ثواب رحم و کرم ان سے ہوتا نہیں عمل شاید آ رہی ہے جو چاپ قدموں کی کھل رہے ہیں کہیں کنول شاید راکھ کو بھی کرید کر دیکھو ابھی جلتا ہو کوئی پل شاید چاند ڈوبے تو چاند ہی نکلے آپ کے پاس ہوگا حل شاید " tinkaa-tinkaa-kaante-tode-saarii-raat-kataaii-kii-gulzar-ghazals," تنکا تنکا کانٹے توڑے ساری رات کٹائی کی کیوں اتنی لمبی ہوتی ہے چاندنی رات جدائی کی نیند میں کوئی اپنے آپ سے باتیں کرتا رہتا ہے کال کنوئیں میں گونجتی ہے آواز کسی سودائی کی سینے میں دل کی آہٹ جیسے کوئی جاسوس چلے ہر سائے کا پیچھا کرنا عادت ہے ہرجائی کی آنکھوں اور کانوں میں کچھ سناٹے سے بھر جاتے ہیں کیا تم نے اڑتی دیکھی ہے ریت کبھی تنہائی کی تاروں کی روشن فصلیں اور چاند کی ایک درانتی تھی ساہو نے گروی رکھ لی تھی میری رات کٹائی کی " har-ek-gam-nichod-ke-har-ik-baras-jiye-gulzar-ghazals," ہر ایک غم نچوڑ کے ہر اک برس جیے دو دن کی زندگی میں ہزاروں برس جیے صدیوں پہ اختیار نہیں تھا ہمارا دوست دو چار لمحے بس میں تھے دو چار بس جیے صحرا کے اس طرف سے گئے سارے کارواں سن سن کے ہم تو صرف صدائے جرس جیے ہونٹوں میں لے کے رات کے آنچل کا اک سرا آنکھوں پہ رکھ کے چاند کے ہونٹوں کا مس جیے محدود ہیں دعائیں مرے اختیار میں ہر سانس پر سکون ہو تو سو برس جیے " shaam-se-aankh-men-namii-sii-hai-gulzar-ghazals," شام سے آنکھ میں نمی سی ہے آج پھر آپ کی کمی سی ہے دفن کر دو ہمیں کہ سانس آئے نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے کون پتھرا گیا ہے آنکھوں میں برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر عادت اس کی بھی آدمی سی ہے آئیے راستے الگ کر لیں یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے " jab-bhii-aankhon-men-ashk-bhar-aae-gulzar-ghazals," جب بھی آنکھوں میں اشک بھر آئے لوگ کچھ ڈوبتے نظر آئے اپنا محور بدل چکی تھی زمیں ہم خلا سے جو لوٹ کر آئے چاند جتنے بھی گم ہوئے شب کے سب کے الزام میرے سر آئے چند لمحے جو لوٹ کر آئے رات کے آخری پہر آئے ایک گولی گئی تھی سوئے فلک اک پرندے کے بال و پر آئے کچھ چراغوں کی سانس ٹوٹ گئی کچھ بہ مشکل دم سحر آئے مجھ کو اپنا پتا ٹھکانہ ملے وہ بھی اک بار میرے گھر آئے " shaam-se-aaj-saans-bhaarii-hai-gulzar-ghazals," شام سے آج سانس بھاری ہے بے قراری سی بے قراری ہے آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے رات کو دے دو چاندنی کی ردا دن کی چادر ابھی اتاری ہے شاخ پر کوئی قہقہہ تو کھلے کیسی چپ سی چمن میں طاری ہے کل کا ہر واقعہ تمہارا تھا آج کی داستاں ہماری ہے " khushbuu-jaise-log-mile-afsaane-men-gulzar-ghazals," خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں ایک پرانا خط کھولا انجانے میں شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے دھوپ انڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں جانے کس کا ذکر ہے اس افسانے میں درد مزے لیتا ہے جو دہرانے میں دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں ہم اس موڑ سے اٹھ کر اگلے موڑ چلے ان کو شاید عمر لگے گی آنے میں " kahiin-to-gard-ude-yaa-kahiin-gubaar-dikhe-gulzar-ghazals," کہیں تو گرد اڑے یا کہیں غبار دکھے کہیں سے آتا ہوا کوئی شہسوار دکھے خفا تھی شاخ سے شاید کہ جب ہوا گزری زمیں پہ گرتے ہوئے پھول بے شمار دکھے رواں ہیں پھر بھی رکے ہیں وہیں پہ صدیوں سے بڑے اداس لگے جب بھی آبشار دکھے کبھی تو چونک کے دیکھے کوئی ہماری طرف کسی کی آنکھ میں ہم کو بھی انتظار دکھے کوئی طلسمی صفت تھی جو اس ہجوم میں وہ ہوئے جو آنکھ سے اوجھل تو بار بار دکھے " jab-bhii-ye-dil-udaas-hotaa-hai-gulzar-ghazals," جب بھی یہ دل اداس ہوتا ہے جانے کون آس پاس ہوتا ہے آنکھیں پہچانتی ہیں آنکھوں کو درد چہرہ شناس ہوتا ہے گو برستی نہیں سدا آنکھیں ابر تو بارہ ماس ہوتا ہے چھال پیڑوں کی سخت ہے لیکن نیچے ناخن کے ماس ہوتا ہے زخم کہتے ہیں دل کا گہنہ ہے درد دل کا لباس ہوتا ہے ڈس ہی لیتا ہے سب کو عشق کبھی سانپ موقع شناس ہوتا ہے صرف اتنا کرم کیا کیجے آپ کو جتنا راس ہوتا ہے " kaanch-ke-piichhe-chaand-bhii-thaa-aur-kaanch-ke-uupar-kaaii-bhii-gulzar-ghazals," کانچ کے پیچھے چاند بھی تھا اور کانچ کے اوپر کائی بھی تینوں تھے ہم وہ بھی تھے اور میں بھی تھا تنہائی بھی یادوں کی بوچھاروں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں سوندھی سوندھی لگتی ہے تب ماضی کی رسوائی بھی دو دو شکلیں دکھتی ہیں اس بہکے سے آئینے میں میرے ساتھ چلا آیا ہے آپ کا اک سودائی بھی کتنی جلدی میلی کرتا ہے پوشاکیں روز فلک صبح ہی رات اتاری تھی اور شام کو شب پہنائی بھی خاموشی کا حاصل بھی اک لمبی سی خاموشی تھی ان کی بات سنی بھی ہم نے اپنی بات سنائی بھی کل ساحل پر لیٹے لیٹے کتنی ساری باتیں کیں آپ کا ہنکارا نہ آیا چاند نے بات کرائی بھی " mujhe-andhere-men-be-shak-bithaa-diyaa-hotaa-gulzar-ghazals-1," مجھے اندھیرے میں بے شک بٹھا دیا ہوتا مگر چراغ کی صورت جلا دیا ہوتا نہ روشنی کوئی آتی مرے تعاقب میں جو اپنے آپ کو میں نے بجھا دیا ہوتا یہ درد جسم کے یارب بہت شدید لگے مجھے صلیب پہ دو پل سلا دیا ہوتا یہ شکر ہے کہ مرے پاس تیرا غم تو رہا وگرنہ زندگی نے تو رلا دیا ہوتا " kabhii-dhanak-sii-utartii-thii-un-nigaahon-men-fahmida-riaz-ghazals," کبھی دھنک سی اترتی تھی ان نگاہوں میں وہ شوخ رنگ بھی دھیمے پڑے ہواؤں میں میں تیز گام چلی جا رہی تھی اس کی سمت کشش عجیب تھی اس دشت کی صداؤں میں وہ اک صدا جو فریب صدا سے بھی کم ہے نہ ڈوب جائے کہیں تند رو ہواؤں میں سکوت شام ہے اور میں ہوں گوش بر آواز کہ ایک وعدے کا افسوں سا ہے فضاؤں میں مری طرح یوں ہی گم کردہ راہ چھوڑے گی تم اپنی بانہہ نہ دینا ہوا کی بانہوں میں نقوش پاؤں کے لکھتے ہیں منزل نا یافت مرا سفر تو ہے تحریر میری راہوں میں " ye-kis-ke-aansuon-ne-us-naqsh-ko-mitaayaa-fahmida-riaz-ghazals," یہ کس کے آنسوؤں نے اس نقش کو مٹایا جو میرے لوح دل پر تو نے کبھی بنایا تھا دل جب اس پہ مائل تھا شوق سخت مشکل ترغیب نے اسے بھی آسان کر دکھایا اک گرد باد میں تو اوجھل ہوا نظر سے اس دشت بے ثمر سے جز خاک کچھ نہ پایا اے چوب خشک صحرا وہ باد شوق کیا تھی میری طرح برہنہ جس نے تجھے بنایا پھر ہم ہیں نیم شب ہے اندیشۂ عبث ہے وہ واہمہ کہ جس سے تیرا یقین آیا " ye-pairahan-jo-mirii-ruuh-kaa-utar-na-sakaa-fahmida-riaz-ghazals," یہ پیرہن جو مری روح کا اتر نہ سکا تو نخ بہ نخ کہیں پیوست ریشۂ دل تھا مجھے مآل سفر کا ملال کیوں کر ہو کہ جب سفر ہی مرا فاصلوں کا دھوکا تھا میں جب فراق کی راتوں میں اس کے ساتھ رہی وہ پھر وصال کے لمحوں میں کیوں اکیلا تھا وہ واسطے کی ترا درمیاں بھی کیوں آئے خدا کے ساتھ مرا جسم کیوں نہ ہو تنہا سراب ہوں میں تری پیاس کیا بجھاؤں گی اس اشتیاق سے تشنہ زباں قریب نہ لا سراب ہوں کہ بدن کی یہی شہادت ہے ہر ایک عضو میں بہتا ہے ریت کا دریا جو میرے لب پہ ہے شاید وہی صداقت ہے جو میرے دل میں ہے اس حرف رایگاں پہ نہ جا جسے میں توڑ چکی ہوں وہ روشنی کا طلسم شعاع نور ازل کے سوا کچھ اور نہ تھا " patthar-se-visaal-maangtii-huun-fahmida-riaz-ghazals," پتھر سے وصال مانگتی ہوں میں آدمیوں سے کٹ گئی ہوں شاید پاؤں سراغ الفت مٹھی میں خاک بھر رہی ہوں ہر لمس ہے جب تپش سے عاری کس آنچ سے یوں پگھل رہی ہوں وہ خواہش بوسہ بھی نہیں اب حیرت سے ہونٹ کاٹتی ہوں اک طفلک جستجو ہوں شاید میں اپنے بدن سے کھیلتی ہوں اب طبع کسی پہ کیوں ہو راغب انسانوں کو برت چکی ہوں " jo-mujh-men-chhupaa-meraa-galaa-ghont-rahaa-hai-fahmida-riaz-ghazals," جو مجھ میں چھپا میرا گلا گھونٹ رہا ہے یا وہ کوئی ابلیس ہے یا میرا خدا ہے جب سر میں نہیں عشق تو چہرے پہ چمک ہے یہ نخل خزاں آئی تو شاداب ہوا ہے کیا میرا زیاں ہے جو مقابل ترے آ جاؤں یہ امر تو معلوم کہ تو مجھ سے بڑا ہے میں بندہ و ناچار کہ سیراب نہ ہو پاؤں اے ظاہر و موجود مرا جسم دعا ہے ہاں اس کے تعاقب سے مرے دل میں ہے انکار وہ شخص کسی کو نہ ملے گا نہ ملا ہے کیوں نور ابد دل میں گزر کر نہیں پاتا سینے کی سیاہی سے نیا حرف لکھا ہے " chaar-suu-hai-badii-vahshat-kaa-samaan-fahmida-riaz-ghazals," چار سو ہے بڑی وحشت کا سماں کسی آسیب کا سایہ ہے یہاں کوئی آواز سی ہے مرثیہ خواں شہر کا شہر بنا گورستاں ایک مخلوق جو بستی ہے یہاں جس پہ انساں کا گزرتا ہے گماں خود تو ساکت ہے مثال تصویر جنبش غیر سے ہے رقص کناں کوئی چہرہ نہیں جز زیر نقاب نہ کوئی جسم ہے جز بے دل و جاں علما ہیں دشمن فہم و تحقیق کودنی شیوۂ دانش منداں شاعر قوم پہ بن آئی ہے کذب کیسے ہو تصوف میں نہاں لب ہیں مصروف قصیدہ گوئی اور آنکھوں میں ہے ذلت عریاں سبز خط عاقبت و دیں کے اسیر پارسا خوش تن و نو خیز جواں یہ زن نغمہ گر و عشق شعار یاس و حسرت سے ہوئی ہے حیراں کس سے اب آرزوئے وصل کریں اس خرابے میں کوئی مرد کہاں " zakhm-jhele-daag-bhii-khaae-bahut-meer-taqi-meer-ghazals," زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت جب نہ تب جاگہ سے تم جایا کیے ہم تو اپنی اور سے آئے بہت دیر سے سوئے حرم آیا نہ ٹک ہم مزاج اپنا ادھر لائے بہت پھول گل شمس و قمر سارے ہی تھے پر ہمیں ان میں تمہیں بھائے بہت گر بکا اس شور سے شب کو ہے تو روویں گے سونے کو ہم سایے بہت وہ جو نکلا صبح جیسے آفتاب رشک سے گل پھول مرجھائے بہت میرؔ سے پوچھا جو میں عاشق ہو تم ہو کے کچھ چپکے سے شرمائے بہت " kyaa-kahuun-tum-se-main-ki-kyaa-hai-ishq-meer-taqi-meer-ghazals," کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق جان کا روگ ہے بلا ہے عشق عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق عشق ہے طرز و طور عشق کے تئیں کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق عشق معشوق عشق عاشق ہے یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق گر پرستش خدا کی ثابت کی کسو صورت میں ہو بھلا ہے عشق دل کش ایسا کہاں ہے دشمن جاں مدعی ہے پہ مدعا ہے عشق ہے ہمارے بھی طور کا عاشق جس کسی کو کہیں ہوا ہے عشق کوئی خواہاں نہیں محبت کا تو کہے جنس ناروا ہے عشق میرؔ جی زرد ہوتے جاتے ہو کیا کہیں تم نے بھی کیا ہے عشق " mir-taqi-mir-ghazals-5," آگے جمال یار کے معذور ہو گیا گل اک چمن میں دیدۂ بے نور ہو گیا اک چشم منتظر ہے کہ دیکھے ہے کب سے راہ جوں زخم تیری دوری میں ناسور ہو گیا قسمت تو دیکھ شیخ کو جب لہر آئی تب دروازہ شیرہ خانے کا معمور ہو گیا پہنچا قریب مرگ کے وہ صید ناقبول جو تیری صید گاہ سے ٹک دور ہو گیا دیکھا یہ ناؤ نوش کہ نیش فراق سے سینہ تمام خانۂ زنبور ہو گیا اس ماہ چاردہ کا چھپے عشق کیونکے آہ اب تو تمام شہر میں مشہور ہو گیا شاید کسو کے دل کو لگی اس گلی میں چوٹ میری بغل میں شیشۂ دل چور ہو گیا لاشہ مرا تسلی نہ زیر زمیں ہوا جب تک نہ آن کر وہ سر گور ہو گیا دیکھا جو میں نے یار تو وہ میرؔ ہی نہیں تیرے غم فراق میں رنجور ہو گیا " hamaare-aage-tiraa-jab-kisuu-ne-naam-liyaa-meer-taqi-meer-ghazals," ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا قسم جو کھائیے تو طالع زلیخا کی عزیز مصر کا بھی صاحب اک غلام لیا خراب رہتے تھے مسجد کے آگے مے خانے نگاہ مست نے ساقی کی انتقام لیا وہ کج روش نہ ملا راستے میں مجھ سے کبھی نہ سیدھی طرح سے ان نے مرا سلام لیا مزا دکھاویں گے بے رحمی کا تری صیاد گر اضطراب اسیری نے زیر دام لیا مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا اگرچہ گوشہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میرؔ پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لیا " jab-naam-tiraa-liijiye-tab-chashm-bhar-aave-mir-taqi-mir-ghazals," جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے تلوار کا بھی مارا خدا رکھے ہے ظالم یہ تو ہو کوئی گور غریباں میں در آوے مے خانہ وہ منظر ہے کہ ہر صبح جہاں شیخ دیوار پہ خورشید کا مستی سے سر آوے کیا جانیں وے مرغان گرفتار چمن کو جن تک کہ بصد ناز نسیم سحر آوے تو صبح قدم رنجہ کرے ٹک تو ہے ورنہ کس واسطے عاشق کی شب غم بسر آوے ہر سو سر تسلیم رکھے صید حرم ہیں وہ صید فگن تیغ بکف تا کدھر آوے دیواروں سے سر مارتے پھرنے کا گیا وقت اب تو ہی مگر آپ کبھو در سے در آوے واعظ نہیں کیفیت مے خانہ سے آگاہ یک جرعہ بدل ورنہ یہ مندیل دھر آوے صناع ہیں سب خوار ازاں جملہ ہوں میں بھی ہے عیب بڑا اس میں جسے کچھ ہنر آوے اے وہ کہ تو بیٹھا ہے سر راہ پہ زنہار کہیو جو کبھو میرؔ بلاکش ادھر آوے مت دشت محبت میں قدم رکھ کہ خضر کو ہر گام پہ اس رہ میں سفر سے حذر آوے " banii-thii-kuchh-ik-us-se-muddat-ke-baad-mir-taqi-mir-ghazals," بنی تھی کچھ اک اس سے مدت کے بعد سو پھر بگڑی پہلی ہی صحبت کے بعد جدائی کے حالات میں کیا کہوں قیامت تھی ایک ایک ساعت کے بعد موا کوہ کن بے ستوں کھود کر یہ راحت ہوئی ایسی محنت کے بعد لگا آگ پانی کو دوڑے ہے تو یہ گرمی تری اس شرارت کے بعد کہے کو ہمارے کب ان نے سنا کوئی بات مانی سو منت کے بعد سخن کی نہ تکلیف ہم سے کرو لہو ٹپکے ہے اب شکایت کے بعد نظر میرؔ نے کیسی حسرت سے کی بہت روئے ہم اس کی رخصت کے بعد " jiite-jii-kuucha-e-dildaar-se-jaayaa-na-gayaa-mir-taqi-mir-ghazals," جیتے جی کوچۂ دل دار سے جایا نہ گیا اس کی دیوار کا سر سے مرے سایہ نہ گیا کاو کاو مژۂ یار و دل زار و نزار گتھ گئے ایسے شتابی کہ چھڑایا نہ گیا وہ تو کل دیر تلک دیکھتا ایدھر کو رہا ہم سے ہی حال تباہ اپنا دکھایا نہ گیا گرم رو راہ فنا کا نہیں ہو سکتا پتنگ اس سے تو شمع نمط سر بھی کٹایا نہ گیا پاس ناموس محبت تھا کہ فرہاد کے پاس بے ستوں سامنے سے اپنے اٹھایا نہ گیا خاک تک کوچۂ دل دار کی چھانی ہم نے جستجو کی پہ دل گم شدہ پایا نہ گیا آتش تیز جدائی میں یکایک اس بن دل جلا یوں کہ تنک جی بھی جلایا نہ گیا مہ نے آ سامنے شب یاد دلایا تھا اسے پھر وہ تا صبح مرے جی سے بھلایا نہ گیا زیر شمشیر ستم میرؔ تڑپنا کیسا سر بھی تسلیم محبت میں ہلایا نہ گیا جی میں آتا ہے کہ کچھ اور بھی موزوں کیجے درد دل ایک غزل میں تو سنایا نہ گیا " aarzuuen-hazaar-rakhte-hain-mir-taqi-mir-ghazals," آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں برق کم حوصلہ ہے ہم بھی تو دل کو بے قرار رکھتے ہیں غیر ہی مورد عنایت ہے ہم بھی تو تم سے پیار رکھتے ہیں نہ نگہ نے پیام نے وعدہ نام کو ہم بھی یار رکھتے ہیں ہم سے خوش زمزمہ کہاں یوں تو لب و لہجہ ہزار رکھتے ہیں چوٹٹے دل کے ہیں بتاں مشہور بس یہی اعتبار رکھتے ہیں پھر بھی کرتے ہیں میرؔ صاحب عشق ہیں جواں اختیار رکھتے ہیں " ishq-hamaare-khayaal-padaa-hai-khvaab-gaii-aaraam-gayaa-mir-taqi-mir-ghazals," عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا عشق کیا سو دین گیا ایمان گیا اسلام گیا دل نے ایسا کام کیا کچھ جس سے میں ناکام گیا کس کس اپنی کل کو رووے ہجراں میں بے کل اس کا خواب گئی ہے تاب گئی ہے چین گیا آرام گیا آیا یاں سے جانا ہی تو جی کا چھپانا کیا حاصل آج گیا یا کل جاوے گا صبح گیا یا شام گیا ہائے جوانی کیا کیا کہیے شور سروں میں رکھتے تھے اب کیا ہے وہ عہد گیا وہ موسم وہ ہنگام گیا گالی جھڑکی خشم و خشونت یہ تو سر دست اکثر ہیں لطف گیا احسان گیا انعام گیا اکرام گیا لکھنا کہنا ترک ہوا تھا آپس میں تو مدت سے اب جو قرار کیا ہے دل سے خط بھی گیا پیغام گیا نالۂ میرؔ سواد میں ہم تک دوشیں شب سے نہیں آیا شاید شہر سے اس ظالم کے عاشق وہ بدنام گیا " thaa-mustaaar-husn-se-us-ke-jo-nuur-thaa-meer-taqi-meer-ghazals," تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا ہنگامہ گرم کن جو دل ناصبور تھا پیدا ہر ایک نالے سے شور نشور تھا پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم یک شعلہ برق خرمن صد کوہ طور تھا مجلس میں رات ایک ترے پرتوے بغیر کیا شمع کیا پتنگ ہر اک بے حضور تھا اس فصل میں کہ گل کا گریباں بھی ہے ہوا دیوانہ ہو گیا سو بہت ذی شعور تھا منعم کے پاس قاقم و سنجاب تھا تو کیا اس رند کی بھی رات گزر گئی جو عور تھا ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سپہر اس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آ گیا یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر میں بھی کبھو کسو کا سر پر غرور تھا تھا وہ تو رشک حور بہشتی ہمیں میں میرؔ سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا " ashk-aankhon-men-kab-nahiin-aataa-mir-taqi-mir-ghazals," اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا لوہو آتا ہے جب نہیں آتا ہوش جاتا نہیں رہا لیکن جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا صبر تھا ایک مونس ہجراں سو وہ مدت سے اب نہیں آتا دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا عشق کو حوصلہ ہے شرط ارنہ بات کا کس کو ڈھب نہیں آتا جی میں کیا کیا ہے اپنے اے ہمدم پر سخن تا بلب نہیں آتا دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے عشق بن یہ ادب نہیں آتا " us-kaa-khayaal-chashm-se-shab-khvaab-le-gayaa-mir-taqi-mir-ghazals," اس کا خیال چشم سے شب خواب لے گیا قسمے کہ عشق جی سے مرے تاب لے گیا کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا آوے جو مصطبہ میں تو سن لو کہ راہ سے واعظ کو ایک جام مئے ناب لے گیا نے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوش آیا جو سیل عشق سب اسباب لے گیا میرے حضور شمع نے گریہ جو سر کیا رویا میں اس قدر کہ مجھے آب لے گیا احوال اس شکار زبوں کا ہے جائے رحم جس ناتواں کو مفت نہ قصاب لے گیا منہ کی جھلک سے یار کے بے ہوش ہو گئے شب ہم کو میرؔ پرتو مہتاب لے گیا " kuchh-mauj-e-havaa-pechaan-ai-miir-nazar-aaii-mir-taqi-mir-ghazals," کچھ موج ہوا پیچاں اے میرؔ نظر آئی شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی مغرور بہت تھے ہم آنسو کی سرایت پر سو صبح کے ہونے کو تاثیر نظر آئی گل بار کرے ہے گا اسباب سفر شاید غنچے کی طرح بلبل دلگیر نظر آئی اس کی تو دل آزاری بے ہیچ ہی تھی یارو کچھ تم کو ہماری بھی تقصیر نظر آئی " hastii-apnii-habaab-kii-sii-hai-meer-taqi-meer-ghazals," ہستی اپنی حباب کی سی ہے یہ نمائش سراب کی سی ہے نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے چشم دل کھول اس بھی عالم پر یاں کی اوقات خواب کی سی ہے بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں حالت اب اضطراب کی سی ہے نقطۂ خال سے ترا ابرو بیت اک انتخاب کی سی ہے میں جو بولا کہا کہ یہ آواز اسی خانہ خراب کی سی ہے آتش غم میں دل بھنا شاید دیر سے بو کباب کی سی ہے دیکھیے ابر کی طرح اب کے میری چشم پر آب کی سی ہے میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں ساری مستی شراب کی سی ہے " aah-jis-vaqt-sar-uthaatii-hai-mir-taqi-mir-ghazals," آہ جس وقت سر اٹھاتی ہے عرش پر برچھیاں چلاتی ہے ناز بردار لب ہے جاں جب سے تیرے خط کی خبر کو پاتی ہے اے شب ہجر راست کہہ تجھ کو بات کچھ صبح کی بھی آتی ہے چشم بددور چشم تر اے میرؔ آنکھیں طوفان کو دکھاتی ہے " umr-bhar-ham-rahe-sharaabii-se-mir-taqi-mir-ghazals," عمر بھر ہم رہے شرابی سے دل پر خوں کی اک گلابی سے جی ڈھا جائے ہے سحر سے آہ رات گزرے گی کس خرابی سے کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے برقعہ اٹھتے ہی چاند سا نکلا داغ ہوں اس کی بے حجابی سے کام تھے عشق میں بہت پر میرؔ ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے " chalte-ho-to-chaman-ko-chaliye-kahte-hain-ki-bahaaraan-hai-meer-taqi-meer-ghazals," چلتے ہو تو چمن کو چلئے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے رنگ ہوا سے یوں ٹپکے ہے جیسے شراب چواتے ہیں آگے ہو مے خانے کے نکلو عہد بادہ گساراں ہے عشق کے میداں داروں میں بھی مرنے کا ہے وصف بہت یعنی مصیبت ایسی اٹھانا کار کار گزاراں ہے دل ہے داغ جگر ہے ٹکڑے آنسو سارے خون ہوئے لوہو پانی ایک کرے یہ عشق لالہ عذاراں ہے کوہ کن و مجنوں کی خاطر دشت و کوہ میں ہم نہ گئے عشق میں ہم کو میرؔ نہایت پاس عزت داراں ہے " mir-taqi-mir-ghazals-76," آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا اس باؤ نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا سمجھی نہ باد صبح کہ آ کر اٹھا دیا اس فتنۂ زمانہ کو ناحق جگا دیا پوشیدہ راز عشق چلا جائے تھا سو آج بے طاقتی نے دل کی وہ پردہ اٹھا دیا اس موج خیز دہر میں ہم کو قضا نے آہ پانی کے بلبلے کی طرح سے مٹا دیا تھی لاگ اس کی تیغ کو ہم سے سو عشق نے دونوں کو معرکے میں گلے سے ملا دیا سب شور ما و من کو لیے سر میں مر گئے یاروں کو اس فسانے نے آخر سلا دیا آوارگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا اجزا بدن کے جتنے تھے پانی ہو بہہ گئے آخر گداز عشق نے ہم کو بہا دیا کیا کچھ نہ تھا ازل میں نہ تالا جو تھے درست ہم کو دل شکستہ قضا نے دلا دیا گویا محاسبہ مجھے دینا تھا عشق کا اس طور دل سی چیز کو میں نے لگا دیا مدت رہے گی یاد ترے چہرے کی جھلک جلوے کو جس نے ماہ کے جی سے بھلا دیا ہم نے تو سادگی سے کیا جی کا بھی زیاں دل جو دیا تھا سو تو دیا سر جدا دیا بوئی کباب سوختہ آئی دماغ میں شاید جگر بھی آتش غم نے جلا دیا تکلیف درد دل کی عبث ہم نشیں نے کی درد سخن نے میرے سبھوں کو رلا دیا ان نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میرؔ ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا " ultii-ho-gaiin-sab-tadbiiren-kuchh-na-davaa-ne-kaam-kiyaa-meer-taqi-meer-ghazals," الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مے خانے میں جبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا کاش اب برقعہ منہ سے اٹھا دے ورنہ پھر کیا حاصل ہے آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار کو اپنے عام کیا یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا صبح چمن میں اس کو کہیں تکلیف ہوا لے آئی تھی رخ سے گل کو مول لیا قامت سے سرو غلام کیا ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیئے بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے استغنا کی چوگنی ان نے جوں جوں میں ابرام کیا ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا " ham-aap-hii-ko-apnaa-maqsuud-jaante-hain-mir-taqi-mir-ghazals," ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں اپنے سوائے کس کو موجود جانتے ہیں عجز و نیاز اپنا اپنی طرف ہے سارا اس مشت خاک کو ہم مسجود جانتے ہیں صورت پذیر ہم بن ہرگز نہیں وے مانے اہل نظر ہمیں کو معبود جانتے ہیں عشق ان کی عقل کو ہے جو ماسوا ہمارے ناچیز جانتے ہیں نا بود جانتے ہیں اپنی ہی سیر کرنے ہم جلوہ گر ہوئے تھے اس رمز کو ولیکن معدود جانتے ہیں یا رب کسے ہے ناقہ ہر غنچہ اس چمن کا راہ وفا کو ہم تو مسدود جانتے ہیں یہ ظلم بے نہایت دشوار تر کہ خوباں بد وضعیوں کو اپنی محمود جانتے ہیں کیا جانے داب صحبت از خویش رفتگاں کا مجلس میں شیخ صاحب کچھ کود جانتے ہیں مر کر بھی ہاتھ آوے تو میرؔ مفت ہے وہ جی کے زیان کو بھی ہم سود جانتے ہیں " lazzat-se-nahiin-khaalii-jaanon-kaa-khapaa-jaanaa-mir-taqi-mir-ghazals," لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جانا کب خضر و مسیحا نے مرنے کا مزہ جانا ہم جاہ و حشم یاں کا کیا کہیے کہ کیا جانا خاتم کو سلیماں کی انگشتر پا جانا یہ بھی ہے ادا کوئی خورشید نمط پیارے منہ صبح دکھا جانا پھر شام چھپا جانا کب بندگی میری سی بندہ کرے گا کوئی جانے ہے خدا اس کو میں تجھ کو خدا جانا تھا ناز بہت ہم کو دانست پر اپنی بھی آخر وہ برا نکلا ہم جس کو بھلا جانا گردن کشی کیا حاصل مانند بگولے کی اس دشت میں سر گاڑے جوں سیل چلا جانا اس گریۂ خونیں کا ہو ضبط تو بہتر ہے اچھا نہیں چہرے پر لوہو کا بہا جانا یہ نقش دلوں پر سے جانے کا نہیں اس کو عاشق کے حقوق آ کر ناحق بھی مٹا جانا ڈھب دیکھنے کا ایدھر ایسا ہی تمہارا تھا جاتے تو ہو پر ہم سے ٹک آنکھ ملا جانا اس شمع کی مجلس میں جانا ہمیں پھر واں سے اک زخم زباں تازہ ہر روز اٹھا جانا اے شور قیامت ہم سوتے ہی نہ رہ جاویں اس راہ سے نکلے تو ہم کو بھی جگا جانا کیا پانی کے مول آ کر مالک نے گہر بیچا ہے سخت گراں سستا یوسف کا بکا جانا ہے میری تری نسبت روح اور جسد کی سی کب آپ سے میں تجھ کو اے جان جدا جانا جاتی ہے گزر جی پر اس وقت قیامت سی یاد آوے ہے جب تیرا یکبارگی آ جانا برسوں سے مرے اس کی رہتی ہے یہی صحبت تیغ اس کو اٹھانا تو سر مجھ کو جھکا جانا کب میرؔ بسر آئے تم ویسے فریبی سے دل کو تو لگا بیٹھے لیکن نہ لگا جانا " baaten-hamaarii-yaad-rahen-phir-baaten-aisii-na-suniyegaa-meer-taqi-meer-ghazals," باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا پڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا سعی و تلاش بہت سی رہے گی اس انداز کے کہنے کی صحبت میں علما فضلا کی جا کر پڑھیے گنیے گا دل کی تسلی جب کہ ہوگی گفت و شنود سے لوگوں کی آگ پھنکے گی غم کی بدن میں اس میں جلیے بھنیے گا گرم اشعار میرؔ درونہ داغوں سے یہ بھر دیں گے زرد رو شہر میں پھریے گا گلیوں میں نے گل چنیے گا " yaaro-mujhe-muaaf-rakho-main-nashe-men-huun-mir-taqi-mir-ghazals," یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں ایک ایک قرط دور میں یوں ہی مجھے بھی دو جام شراب پر نہ کرو میں نشے میں ہوں مستی سے درہمی ہے مری گفتگو کے بیچ جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو میں نشے میں ہوں یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانند جام مے یا تھوڑی دور ساتھ چلو میں نشے میں ہوں معذور ہوں جو پاؤں مرا بے طرح پڑے تم سرگراں تو مجھ سے نہ ہو میں نشے میں ہوں بھاگی نماز جمعہ تو جاتی نہیں ہے کچھ چلتا ہوں میں بھی ٹک تو رہو میں نشے میں ہوں نازک مزاج آپ قیامت ہیں میرؔ جی جوں شیشہ میرے منہ نہ لگو میں نشے میں ہوں " aae-hain-miir-kaafir-ho-kar-khudaa-ke-ghar-men-mir-taqi-mir-ghazals," آئے ہیں میرؔ کافر ہو کر خدا کے گھر میں پیشانی پر ہے قشقہ زنار ہے کمر میں نازک بدن ہے کتنا وہ شوخ چشم دلبر جان اس کے تن کے آگے آتی نہیں نظر میں سینے میں تیر اس کے ٹوٹے ہیں بے نہایت سوراخ پڑ گئے ہیں سارے مرے جگر میں آئندہ شام کو ہم رویا کڑھا کریں گے مطلق اثر نہ دیکھا نالیدن سحر میں بے سدھ پڑا رہوں ہوں اس مست ناز بن میں آتا ہے ہوش مجھ کو اب تو پہر پہر میں سیرت سے گفتگو ہے کیا معتبر ہے صورت ہے ایک سوکھی لکڑی جو بو نہ ہو اگر میں ہمسایۂ مغاں میں مدت سے ہوں چنانچہ اک شیرہ خانے کی ہے دیوار میرے گھر میں اب صبح و شام شاید گریے پہ رنگ آوے رہتا ہے کچھ جھمکتا خوناب چشم تر میں عالم میں آب و گل کے کیونکر نباہ ہوگا اسباب گر پڑا ہے سارا مرا سفر میں " sher-ke-parde-men-main-ne-gam-sunaayaa-hai-bahut-mir-taqi-mir-ghazals," شعر کے پردے میں میں نے غم سنایا ہے بہت مرثیے نے دل کے میرے بھی رلایا ہے بہت بے سبب آتا نہیں اب دم بہ دم عاشق کو غش درد کھینچا ہے نہایت رنج اٹھایا ہے بہت وادی و کہسار میں روتا ہوں ڈاڑھیں مار مار دلبران شہر نے مجھ کو ستایا ہے بہت وا نہیں ہوتا کسو سے دل گرفتہ عشق کا ظاہراً غمگیں اسے رہنا خوش آیا ہے بہت میرؔ گم گشتہ کا ملنا اتفاقی امر ہے جب کبھو پایا ہے خواہش مند پایا ہے بہت " faqiiraana-aae-sadaa-kar-chale-meer-taqi-meer-ghazals," فقیرانہ آئے صدا کر چلے کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم سو اس عہد کو اب وفا کر چلے شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی کہ مقدور تک تو دوا کر چلے پڑے ایسے اسباب پایان کار کہ ناچار یوں جی جلا کر چلے وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے ہر اک چیز سے دل اٹھا کر چلے کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ سو تم ہم سے منہ بھی چھپا کر چلے بہت آرزو تھی گلی کی تری سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی حق بندگی ہم ادا کر چلے پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے جھڑے پھول جس رنگ گلبن سے یوں چمن میں جہاں کے ہم آ کر چلے نہ دیکھا غم دوستاں شکر ہے ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے گئی عمر در بند فکر غزل سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے " chaman-men-gul-ne-jo-kal-daava-e-jamaal-kiyaa-meer-taqi-meer-ghazals," چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا فلک نے آہ تری رہ میں ہم کو پیدا کر برنگ سبزۂ نورستہ پائمال کیا رہی تھی دم کی کشاکش گلے میں کچھ باقی سو اس کی تیغ نے جھگڑا ہی انفصال کیا مری اب آنکھیں نہیں کھلتیں ضعف سے ہمدم نہ کہہ کہ نیند میں ہے تو یہ کیا خیال کیا بہار رفتہ پھر آئی ترے تماشے کو چمن کو یمن قدم نے ترے نہال کیا جواب نامہ سیاہی کا اپنی ہے وہ زلف کسو نے حشر کو ہم سے اگر سوال کیا لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا " mir-taqi-mir-ghazals-80," آئے ہیں میرؔ منہ کو بنائے خفا سے آج شاید بگڑ گئی ہے کچھ اس بے وفا سے آج واشد ہوئی نہ دل کو فقیروں کے بھی ملے کھلتی نہیں گرہ یہ کسو کی دعا سے آج جینے میں اختیار نہیں ورنہ ہم نشیں ہم چاہتے ہیں موت تو اپنی خدا سے آج ساقی ٹک ایک موسم گل کی طرف بھی دیکھ ٹپکا پڑے ہے رنگ چمن میں ہوا سے آج تھا جی میں اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے میرؔ پر کچھ کہا گیا نہ غم دل حیا سے آج " jis-sar-ko-guruur-aaj-hai-yaan-taaj-varii-kaa-meer-taqi-meer-ghazals," جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا شرمندہ ترے رخ سے ہے رخسار پری کا چلتا نہیں کچھ آگے ترے کبک دری کا آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا ہر زخم جگر داور محشر سے ہمارا انصاف طلب ہے تری بیداد گری کا اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا صد موسم گل ہم کو تہ بال ہی گزرے مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا اس رنگ سے جھمکے ہے پلک پر کہ کہے تو ٹکڑا ہے مرا اشک عقیق جگری کا کل سیر کیا ہم نے سمندر کو بھی جا کر تھا دست نگر پنجۂ مژگاں کی تری کا لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا ٹک میرؔ جگر سوختہ کی جلد خبر لے کیا یار بھروسا ہے چراغ سحری کا " kyaa-haqiiqat-kahuun-ki-kyaa-hai-ishq-meer-taqi-meer-ghazals," کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق حق شناسوں کے ہاں خدا ہے عشق دل لگا ہو تو جی جہاں سے اٹھا موت کا نام پیار کا ہے عشق اور تدبیر کو نہیں کچھ دخل عشق کے درد کی دوا ہے عشق کیا ڈبایا محیط میں غم کے ہم نے جانا تھا آشنا ہے عشق عشق سے جا نہیں کوئی خالی دل سے لے عرش تک بھرا ہے عشق کوہ کن کیا پہاڑ کاٹے گا پردے میں زور آزما ہے عشق عشق ہے عشق کرنے والوں کو کیسا کیسا بہم کیا ہے عشق کون مقصد کو عشق بن پہنچا آرزو عشق مدعا ہے عشق میرؔ مرنا پڑے ہے خوباں پر عشق مت کر کہ بد بلا ہے عشق " ishq-men-zillat-huii-khiffat-huii-tohmat-huii-mir-taqi-mir-ghazals," عشق میں ذلت ہوئی خفت ہوئی تہمت ہوئی آخر آخر جان دی یاروں نے یہ صحبت ہوئی عکس اس بے دید کا تو متصل پڑتا تھا صبح دن چڑھے کیا جانوں آئینے کی کیا صورت ہوئی لوح سینہ پر مری سو نیزۂ خطی لگے خستگی اس دل شکستہ کی اسی بابت ہوئی کھولتے ہی آنکھیں پھر یاں موندنی ہم کو پڑیں دید کیا کوئی کرے وہ کس قدر مہلت ہوئی پاؤں میرا کلبۂ احزاں میں اب رہتا نہیں رفتہ رفتہ اس طرف جانے کی مجھ کو لت ہوئی مر گیا آوارہ ہو کر میں تو جیسے گرد باد پر جسے یہ واقعہ پہنچا اسے وحشت ہوئی شاد و خوش طالع کوئی ہوگا کسو کو چاہ کر میں تو کلفت میں رہا جب سے مجھے الفت ہوئی دل کا جانا آج کل تازہ ہوا ہو تو کہوں گزرے اس بھی سانحے کو ہم نشیں مدت ہوئی شوق دل ہم نا توانوں کا لکھا جاتا ہے کب اب تلک آپ ہی پہنچنے کی اگر طاقت ہوئی کیا کف دست ایک میداں تھا بیاباں عشق کا جان سے جب اس میں گزرے تب ہمیں راحت ہوئی یوں تو ہم عاجز ترین خلق عالم ہیں ولے دیکھیو قدرت خدا کی گر ہمیں قدرت ہوئی گوش زد چٹ پٹ ہی مرنا عشق میں اپنے ہوا کس کو اس بیماری جانکاہ سے فرصت ہوئی بے زباں جو کہتے ہیں مجھ کو سو چپ رہ جائیں گے معرکے میں حشر کے گر بات کی رخصت ہوئی ہم نہ کہتے تھے کہ نقش اس کا نہیں نقاش سہل چاند سارا لگ گیا تب نیم رخ صورت ہوئی اس غزل پر شام سے تو صوفیوں کو وجد تھا پھر نہیں معلوم کچھ مجلس کی کیا حالت ہوئی کم کسو کو میرؔ کی میت کی ہاتھ آئی نماز نعش پر اس بے سر و پا کی بلا کثرت ہوئی " ba-rang-e-buu-e-gul-us-baag-ke-ham-aashnaa-hote-mir-taqi-mir-ghazals," برنگ بوئے گل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے کہ ہم راہ صبا ٹک سیر کرتے پھر ہوا ہوتے سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو وگرنہ ہم خدا تھے گر دل بے مدعا ہوتے فلک اے کاش ہم کو خاک ہی رکھتا کہ اس میں ہم غبار راہ ہوتے یا کسو کی خاک پا ہوتے الٰہی کیسے ہوتے ہیں جنہیں ہے بندگی خواہش ہمیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے خدا ہوتے تو ہے کس ناحیے سے اے دیار عشق کیا جانوں ترے باشندگاں ہم کاش سارے بے وفا ہوتے اب ایسے ہیں کہ صانع کے مزاج اوپر بہم پہنچے جو خاطر خواہ اپنے ہم ہوئے ہوتے تو کیا ہوتے کہیں جو کچھ ملامت گر بجا ہے میرؔ کیا جانیں انہیں معلوم تب ہوتا کہ ویسے سے جدا ہوتے " mir-taqi-mir-ghazals-82," آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد ابھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد جینا مرا تو تجھ کو غنیمت ہے نا سمجھ کھینچے گا کون پھر یہ ترے ناز میرے بعد شمع مزار اور یہ سوز جگر مرا ہر شب کریں گے زندگی ناساز میرے بعد حسرت ہے اس کے دیکھنے کی دل میں بے قیاس اغلب کہ میری آنکھیں رہیں باز میرے بعد کرتا ہوں میں جو نالے سرانجام باغ میں منہ دیکھو پھر کریں گے ہم آواز میرے بعد بن گل موا ہی میں تو پہ تو جا کے لوٹیو صحن چمن میں اے پر پرواز میرے بعد بیٹھا ہوں میرؔ مرنے کو اپنے میں مستعد پیدا نہ ہوں گے مجھ سے بھی جانباز میرے بعد " jab-rone-baithtaa-huun-tab-kyaa-kasar-rahe-hai-mir-taqi-mir-ghazals," جب رونے بیٹھتا ہوں تب کیا کسر رہے ہے رومال دو دو دن تک جوں ابر تر رہے ہے آہ سحر کی میری برچھی کے وسوسے سے خورشید کے منہ اوپر اکثر سپر رہے ہے آگہ تو رہیے اس کی طرز رہ و روش سے آنے میں اس کے لیکن کس کو خبر رہے ہے ان روزوں اتنی غفلت اچھی نہیں ادھر سے اب اضطراب ہم کو دو دو پہر رہے ہے آب حیات کی سی ساری روش ہے اس کی پر جب وہ اٹھ چلے ہے ایک آدھ مر رہے ہے تلوار اب لگا ہے بے ڈول پاس رکھنے خون آج کل کسو کا وہ شوخ کر رہے ہے در سے کبھو جو آتے دیکھا ہے میں نے اس کو تب سے ادھر ہی اکثر میری نظر رہے ہے آخر کہاں تلک ہم اک روز ہو چکیں گے برسوں سے وعدۂ شب ہر صبح پر رہے ہے میرؔ اب بہار آئی صحرا میں چل جنوں کر کوئی بھی فصل گل میں نادان گھر رہے ہے " aa-jaaen-ham-nazar-jo-koii-dam-bahut-hai-yaan-mir-taqi-mir-ghazals," آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں مہلت ہمیں بسان شرر کم بہت ہے یاں یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں نہیں یعنی کہ دل کے جانے کا ماتم بہت ہے یاں حاصل ہے کیا سواے ترائی کے دہر میں اٹھ آسماں تلے سے کہ شبنم بہت ہے یاں مائل بہ غیر ہونا تجھ ابرو کا عیب ہے تھی زور یہ کماں ولے خم چم بہت ہے یاں ہم رہروان راہ فنا دیر رہ چکے وقفہ بسان صبح کوئی دم بہت ہے یاں اس بت کدے میں معنی کا کس سے کریں سوال آدم نہیں ہے صورت آدم بہت ہے یاں عالم میں لوگ ملنے کی گوں اب نہیں رہے ہر چند ایسا ویسا تو عالم بہت ہے یاں ویسا چمن سے سادہ نکلتا نہیں کوئی رنگینی ایک اور خم و چم بہت ہے یاں اعجاز عیسوی سے نہیں بحث عشق میں تیری ہی بات جان مجسم بہت ہے یاں میرے ہلاک کرنے کا غم ہے عبث تمہیں تم شاد زندگانی کرو غم بہت ہے یاں دل مت لگا رخ عرق آلود یار سے آئینے کو اٹھا کہ زمیں نم بہت ہے یاں شاید کہ کام صبح تک اپنا کھنچے نہ میرؔ احوال آج شام سے درہم بہت ہے یاں " aao-kabhuu-to-paas-hamaare-bhii-naaz-se-mir-taqi-mir-ghazals," آؤ کبھو تو پاس ہمارے بھی ناز سے کرنا سلوک خوب ہے اہل نیاز سے پھرتے ہو کیا درختوں کے سائے میں دور دور کر لو موافقت کسو بے برگ و ساز سے ہجراں میں اس کے زندگی کرنا بھلا نہ تھا کوتاہی جو نہ ہووے یہ عمر دراز سے مانند سبحہ عقدے نہ دل کے کبھو کھلے جی اپنا کیوں کہ اچٹے نہ روزے نماز سے کرتا ہے چھید چھید ہمارا جگر تمام وہ دیکھنا ترا مژۂ نیم باز سے دل پر ہو اختیار تو ہرگز نہ کریے عشق پرہیز کریے اس مرض جاں گداز سے آگے بچھا کے نطع کو لاتے تھے تیغ و طشت کرتے تھے یعنی خون تو اک امتیاز سے مانع ہوں کیوں کہ گریۂ خونیں کے عشق میں ہے ربط خاص چشم کو افشائے راز سے شاید شراب خانے میں شب کو رہے تھے میرؔ کھیلے تھا ایک مغبچہ مہر نماز سے " jo-is-shor-se-miir-rotaa-rahegaa-mir-taqi-mir-ghazals," جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا میں وہ رونے والا جہاں سے چلا ہوں جسے ابر ہر سال روتا رہے گا مجھے کام رونے سے اکثر ہے ناصح تو کب تک مرے منہ کو دھوتا رہے گا بس اے گریہ آنکھیں تری کیا نہیں ہیں کہاں تک جہاں کو ڈبوتا رہے گا مرے دل نے وہ نالہ پیدا کیا ہے جرس کے بھی جو ہوش کھوتا رہے گا تو یوں گالیاں غیر کو شوق سے دے ہمیں کچھ کہے گا تو ہوتا رہے گا بس اے میرؔ مژگاں سے پونچھ آنسوؤں کو تو کب تک یہ موتی پروتا رہے گا " jin-ke-liye-apne-to-yuun-jaan-nikalte-hain-mir-taqi-mir-ghazals," جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں کیا تیر ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے جس زخم کو چیروں ہوں پیکان نکلتے ہیں مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں کس کا ہے قماش ایسا گودڑ بھرے ہیں سارے دیکھو نہ جو لوگوں کے دیوان نکلتے ہیں گہ لوہو ٹپکتا ہے گہ لخت دل آنکھوں سے یا ٹکڑے جگر ہی کے ہر آن نکلتے ہیں کریے تو گلہ کس سے جیسی تھی ہمیں خواہش اب ویسے ہی یہ اپنے ارمان نکلتے ہیں جاگہ سے بھی جاتے ہو منہ سے بھی خشن ہو کر وے حرف نہیں ہیں جو شایان نکلتے ہیں سو کاہے کو اپنی تو جوگی کی سی پھیری ہے برسوں میں کبھو ایدھر ہم آن نکلتے ہیں ان آئینہ رویوں کے کیا میرؔ بھی عاشق ہیں جب گھر سے نکلتے ہیں حیران نکلتے ہیں " dekh-to-dil-ki-jaan-se-uthtaa-hai-mir-taqi-mir-ghazals," دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے خانۂ دل سے زینہار نہ جا کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا شور اک آسماں سے اٹھتا ہے لڑتی ہے اس کی چشم شوخ جہاں ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے سدھ لے گھر کی بھی شعلۂ آواز دود کچھ آشیاں سے اٹھتا ہے بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے عشق اک میرؔ بھاری پتھر ہے کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے " pattaa-pattaa-buutaa-buutaa-haal-hamaaraa-jaane-hai-meer-taqi-meer-ghazals," پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہر گوش کو بالے تک اس کو فلک چشم مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے کیا ہی شکار فریبی پر مغرور ہے وہ صیاد بچہ طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساریٰ جانے ہے مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے رخنوں سے دیوار چمن کے منہ کو لے ہے چھپا یعنی ان سوراخوں کے ٹک رہنے کو سو کا نظارہ جانے ہے تشنۂ خوں ہے اپنا کتنا میرؔ بھی ناداں تلخی کش دم دار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے " is-ahd-men-ilaahii-mohabbat-ko-kyaa-huaa-mir-taqi-mir-ghazals," اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا امیدوار وعدۂ دیدار مر چلے آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا کب تک تظلم آہ بھلا مرگ کے تئیں کچھ پیش آیا واقعہ رحمت کو کیا ہوا اس کے گئے پر ایسے گئے دل سے ہم نشیں معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا بخشش نے مجھ کو ابر کرم کی کیا خجل اے چشم جوش اشک ندامت کو کیا ہوا جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف اے کشتۂ ستم تری غیرت کو کیا ہوا تھی صعب عاشقی کی بدایت ہی میرؔ پر کیا جانیے کہ حال نہایت کو کیا ہوا " ab-jo-ik-hasrat-e-javaanii-hai-mir-taqi-mir-ghazals," اب جو اک حسرت جوانی ہے عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے رشک یوسف ہے آہ وقت عزیز عمر اک بار کاروانی ہے گریہ ہر وقت کا نہیں بے ہیچ دل میں کوئی غم نہانی ہے ہم قفس زاد قیدی ہیں ورنہ تا چمن ایک پرفشانی ہے اس کی شمشیر تیز ہے ہمدم مر رہیں گے جو زندگانی ہے غم و رنج و الم نکو یاں سے سب تمہاری ہی مہربانی ہے خاک تھی موجزن جہاں میں اور ہم کو دھوکا یہ تھا کہ پانی ہے یاں ہوئے میرؔ تم برابر خاک واں وہی ناز و سرگرانی ہے " jin-jin-ko-thaa-ye-ishq-kaa-aazaar-mar-gae-mir-taqi-mir-ghazals," جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے ہوتا نہیں ہے اس لب نوخط پہ کوئی سبز عیسیٰ و خضر کیا سبھی یک بار مر گئے یوں کانوں کان گل نے نہ جانا چمن میں آہ سر کو پٹک کے ہم پس دیوار مر گئے صد کارواں وفا ہے کوئی پوچھتا نہیں گویا متاع دل کے خریدار مر گئے مجنوں نہ دشت میں ہے نہ فرہاد کوہ میں تھا جن سے لطف زندگی وے یار مر گئے گر زندگی یہی ہے جو کرتے ہیں ہم اسیر تو وے ہی جی گئے جو گرفتار مر گئے افسوس وے شہید کہ جو قتل گاہ میں لگتے ہی اس کے ہاتھ کی تلوار مر گئے تجھ سے دو چار ہونے کی حسرت کے مبتلا جب جی ہوئے وبال تو ناچار مر گئے گھبرا نہ میرؔ عشق میں اس سہل زیست پر جب بس چلا نہ کچھ تو مرے یار مر گئے " mir-taqi-mir-ghazals-36," راہ دور عشق میں روتا ہے کیا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا قافلے میں صبح کے اک شور ہے یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا سبز ہوتی ہی نہیں یہ سرزمیں تخم خواہش دل میں تو بوتا ہے کیا یہ نشان عشق ہیں جاتے نہیں داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا غیرت یوسف ہے یہ وقت عزیز میرؔ اس کو رائیگاں کھوتا ہے کیا " gam-rahaa-jab-tak-ki-dam-men-dam-rahaa-mir-taqi-mir-ghazals," غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا دل کے جانے کا نہایت غم رہا حسن تھا تیرا بہت عالم فریب خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک قطرۂ خوں تھا مژہ پر جم رہا سنتے ہیں لیلیٰ کے خیمے کو سیاہ اس میں مجنوں کا مگر ماتم رہا جامۂ احرام زاہد پر نہ جا تھا حرم میں لیک نامحرم رہا زلفیں کھولیں تو تو ٹک آیا نظر عمر بھر یاں کام دل برہم رہا اس کے لب سے تلخ ہم سنتے رہے اپنے حق میں آب حیواں سم رہا میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا صبح پیری شام ہونے آئی میرؔ تو نہ چیتا یاں بہت دن کم رہا " baare-duniyaa-men-raho-gam-zada-yaa-shaad-raho-mir-taqi-mir-ghazals," بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو عشق پیچے کی طرح حسن گرفتاری ہے لطف کیا سرو کی مانند گر آزاد رہو ہم کو دیوانگی شہروں ہی میں خوش آتی ہے دشت میں قیس رہو کوہ میں فرہاد رہو وہ گراں خواب جو ہے ناز کا اپنے سو ہے داد بیداد رہو شب کو کہ فریاد رہو میرؔ ہم مل کے بہت خوش ہوئے تم سے پیارے اس خرابے میں مری جان تم آباد رہو " munh-takaa-hii-kare-hai-jis-tis-kaa-mir-taqi-mir-ghazals," منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں دل ہوا ہے چراغ مفلس کا تھے برے مغبچوں کے تیور لیک شیخ مے خانے سے بھلا کھسکا داغ آنکھوں سے کھل رہے ہیں سب ہاتھ دستہ ہوا ہے نرگس کا بحر کم ظرف ہے بسان حباب کاسہ لیس اب ہوا ہے تو جس کا فیض اے ابر چشم تر سے اٹھا آج دامن وسیع ہے اس کا تاب کس کو جو حال میرؔ سنے حال ہی اور کچھ ہے مجلس کا " aam-hukm-e-sharaab-kartaa-huun-mir-taqi-mir-ghazals," عام حکم شراب کرتا ہوں محتسب کو کباب کرتا ہوں ٹک تو رہ اے بنائے ہستی تو تجھ کو کیسا خراب کرتا ہوں بحث کرتا ہوں ہو کے ابجد خواں کس قدر بے حساب کرتا ہوں کوئی بجھتی ہے یہ بھڑک میں عبث تشنگی پر عتاب کرتا ہوں سر تلک آب تیغ میں ہوں غرق اب تئیں آب آب کرتا ہوں جی میں پھرتا ہے میرؔ وہ میرے جاگتا ہوں کہ خواب کرتا ہوں " mir-taqi-mir-ghazals-190," ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے جن کی خاطر کی استخواں شکنی سو ہم ان کے نشان تیر ہوئے نہیں آتے کسو کی آنکھوں میں ہو کے عاشق بہت حقیر ہوئے آگے یہ بے ادائیاں کب تھیں ان دنوں تم بہت شریر ہوئے اپنے روتے ہی روتے صحرا کے گوشے گوشے میں آب گیر ہوئے ایسی ہستی عدم میں داخل ہے نے جواں ہم نہ طفل شیر ہوئے ایک دم تھی نمود بود اپنی یا سفیدی کی یا اخیر ہوئے یعنی مانند صبح دنیا میں ہم جو پیدا ہوئے سو پیر ہوئے مت مل اہل دول کے لڑکوں سے میرؔ جی ان سے مل فقیر ہوئے " baar-haa-gor-e-dil-jhankaa-laayaa-mir-taqi-mir-ghazals," بارہا گور دل جھنکا لایا اب کے شرط وفا بجا لایا قدر رکھتی نہ تھی متاع دل سارے عالم میں میں دکھا لایا دل کہ یک قطرہ خوں نہیں ہے بیش ایک عالم کے سر بلا لایا سب پہ جس بار نے گرانی کی اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا دل مجھے اس گلی میں لے جا کر اور بھی خاک میں ملا لایا ابتدا ہی میں مر گئے سب یار عشق کی کون انتہا لایا اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ پھر ملیں گے اگر خدا لایا " tuu-aashnaa-e-jazba-e-ulfat-nahiin-rahaa-noon-meem-rashid-ghazals," تو آشنائے جذبۂ الفت نہیں رہا دل میں ترے وہ ذوق محبت نہیں رہا پھر نغمہ ہائے قم تو فضا میں ہیں گونجتے تو ہی حریف ذوق سماعت نہیں رہا آئیں کہاں سے آنکھ میں آتش چکانیاں دل آشنائے سوز محبت نہیں رہا گل ہائے حسن یار میں دامن کش نظر میں اب حریص گلشن جنت نہیں رہا شاید جنوں ہے مائل فرزانگی مرا میں وہ نہیں وہ عالم وحشت نہیں رہا ممنون ہوں میں تیرا بہت مرگ ناگہاں میں اب اسیر گردش قسمت نہیں رہا جلوہ گہہ خیال میں وہ آ گئے ہیں آج لو میں رہین زحمت خلوت نہیں رہا کیا فائدہ ہے دعوئے عشق حسین سے سر میں اگر وہ شوق شہادت نہیں رہا " jo-be-sabaat-ho-us-sarkhushii-ko-kyaa-kiije-noon-meem-rashid-ghazals," جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجے یہ زندگی ہے تو پھر زندگی کو کیا کیجے رکا جو کام تو دیوانگی ہی کام آئی نہ کام آئے تو فرزانگی کو کیا کیجے یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا مگر سرشت کی آوارگی کو کیا کیجے کسی کو دیکھ کے اک موج لب پہ آ تو گئی اٹھے نہ دل سے تو ایسی ہنسی کو کیا کیجے ہمیں تو آپ نے سوز الم ہی بخشا تھا جو نور بن گئی اس تیرگی کو کیا کیجے ہمارے حصے کا اک جرعہ بھی نہیں باقی نگاہ دوست کی مے خانگی کو کیا کیجے جہاں غریب کو نان جویں نہیں ملتی وہاں حکیم کے درس خودی کو کیا کیجے وصال دوست سے بھی کم نہ ہو سکی راشدؔ ازل سے پائی ہوئی تشنگی کو کیا کیجے " tire-karam-se-khudaaii-men-yuun-to-kyaa-na-milaa-noon-meem-rashid-ghazals," ترے کرم سے خدائی میں یوں تو کیا نہ ملا مگر جو تو نہ ملا زیست کا مزا نہ ملا حیات شوق کی یہ گرمیاں کہاں ہوتیں خدا کا شکر ہمیں نالۂ رسا نہ ملا ازل سے فطرت آزاد ہی تھی آوارہ یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا یہ کائنات کسی کا غبار راہ سہی دلیل راہ جو بنتا وہ نقش پا نہ ملا یہ دل شہید فریب نگاہ ہو نہ سکا وہ لاکھ ہم سے بہ انداز محرمانہ ملا کنار موج میں مرنا تو ہم کو آتا ہے نشان ساحل الفت ملا ملا نہ ملا تری تلاش ہی تھی مایۂ بقائے وجود بلا سے ہم کو سر منزل بقا نہ ملا " hasrat-e-intizaar-e-yaar-na-puuchh-noon-meem-rashid-ghazals," حسرت انتظار یار نہ پوچھ ہائے وہ شدت انتظار نہ پوچھ رنگ گلشن دم بہار نہ پوچھ وحشت قلب بے قرار نہ پوچھ صدمۂ عندلیب زار نہ پوچھ تلخ انجامئ بہار نہ پوچھ غیر پر لطف میں رہین ستم مجھ سے آئین بزم یار نہ پوچھ دے دیا درد مجھ کو دل کے عوض ہائے لطف ستم شعار نہ پوچھ پھر ہوئی یاد مے کشی تازہ مستی ابر نو بہار نہ پوچھ مجھ کو دھوکا ہے تار بستر کا نا توانئ جسم یار نہ پوچھ میں ہوں نا آشنائے وصل ہنوز مجھ سے کیف وصال یار نہ پوچھ " ze-haal-e-miskiin-makun-tagaaful-duraae-nainaan-banaae-batiyaan-ameer-khusrau-ghazals," زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم بہ برد تسکیں کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں بحق آں مہ کہ روز محشر بداد مارا فریب خسروؔ سپیت من کے دورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں " vo-sanam-jab-suun-basaa-diida-e-hairaan-men-aa-wali-mohammad-wali-ghazals," وو صنم جب سوں بسا دیدۂ حیران میں آ آتش عشق پڑی عقل کے سامان میں آ ناز دیتا نہیں گر رخصت گل گشت چمن اے چمن‌‌ زار حیا دل کے گلستان میں آ عیش ہے عیش کہ اس مہ کا خیال روشن شمع روشن کیا مجھ دل کے شبستاں میں آ یاد آتا ہے مجھے وو دو گل باغ وفا اشک کرتے ہیں مکاں گوشۂ دامان میں آ موج بے تابیٔ دل اشک میں ہوئی جلوہ نما جب بسی زلف صنم طبع پریشان میں آ نالہ و آہ کی تفصیل نہ پوچھو مجھ سوں دفتر درد بسا عشق کے دیوان میں آ پنجۂ عشق نے بیتاب کیا جب سوں مجھے چاک دل تب سوں بسا چاک گریبان میں آ دیکھ اے اہل نظر سبزۂ خط میں لب لعل رنگ یاقوت چھپا ہے خط ریحاں میں آ حسن تھا پردۂ تجرید میں سب سوں آزاد طالب عشق ہوا صورت انسان میں آ شیخ یہاں بات تری پیش نہ جاوے ہرگز عقل کوں چھوڑ کے مت مجلس رندان میں آ درد منداں کو بجز درد نہیں صید مراد اے شہ ملک جنوں غم کے بیابان میں آ حاکم وقت ہے تجھ گھر میں رقیب بد خو دیو مختار ہوا ملک سلیمان میں آ چشمۂ آب بقا جگ میں کیا ہے حاصل یوسف حسن ترے چاہ زنخدان میں آ جگ کے خوباں کا نمک ہو کے نمک پروردہ چھپ رہا آ کے ترے لب کے نمک دان میں آ بس کہ مجھ حال سوں ہمسر ہے پریشانی میں درد کہتی ہے مرا زلف ترے کان میں آ غم سوں تیرے ہے ترحم کا محل حال ولیؔ ظلم کو چھوڑ سجن شیوۂ احسان میں آ " huaa-zaahir-khat-e-ruu-e-nigaar-aahista-aahista-wali-mohammad-wali-ghazals," ہوا ظاہر خط روئے نگار آہستہ آہستہ کہ جیوں گلشن میں آتی ہے بہار آہستہ آہستہ کیا ہوں رفتہ رفتہ رام اس کی چشم وحشی کوں کہ جیوں آہو کوں کرتے ہیں شکار آہستہ آہستہ جو اپنے تن کوں مثل جوئبار اول کیا پانی ہوا اس سرو قد سوں ہم کنار آہستہ آہستہ برنگ قطرۂ سیماب میرے دل کی جنبش سوں ہوا ہے دل صنم کا بے قرار آہستہ آہستہ اسے کہنا بجا ہے عشق کے گل زار کا بلبل جو گل رویاں میں پایا اعتبار آہستہ آہستہ مرا دل اشک ہو پہنچا ہے کوچے میں سریجن کے گیا کعبے میں یہ کشتی سوار آہستہ آہستہ ولیؔ مت حاسداں کی بات سوں دل کوں مکدر کر کہ آخر دل سوں جاوے گا غبار آہستہ آہستہ " sohbat-e-gair-muun-jaayaa-na-karo-wali-mohammad-wali-ghazals," صحبت غیر موں جایا نہ کرو درد منداں کوں کڑھایا نہ کرو حق پرستی کا اگر دعویٰ ہے بے گناہاں کوں ستایا نہ کرو اپنی خوبی کے اگر طالب ہو اپنے طالب کوں جلایا نہ کرو ہے اگر خاطر عشاق عزیز غیر کوں درس دکھایا نہ کرو مجھ کو ترشی کا ہے پرہیز صنم چین ابرو کوں دکھایا نہ کرو دل کوں ہوتی ہے سجن، بیتابی زلف کوں ہاتھ لگایا نہ کرو نگہ تلخ سوں اپنی ظالم زہر کا جام پلایا نہ کرو ہم کوں برداشت نہیں غصے کی بے سبب غصے میں آیا نہ کرو پاک بازاں میں ہے مشہور ولیؔ اس سوں چہرے کوں چھپایا نہ کرو " dekhnaa-har-subh-tujh-rukhsaar-kaa-wali-mohammad-wali-ghazals," دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا ہے مطالعہ مطلع انوار کا بلبل و پروانہ کرنا دل کے تئیں کام ہے تجھ چہرۂ گل نار کا صبح تیرا درس پایا تھا صنم شوق دل محتاج ہے تکرار کا ماہ کے سینے اپر اے شمع رو داغ ہے تجھ حسن کی جھلکار کا دل کوں دیتا ہے ہمارے پیچ و تاب پیچ تیرے طرۂ طرار کا جو سنیا تیرے دہن سوں یک بچن بھید پایا نسخۂ اسرار کا چاہتا ہے اس جہاں میں گر بہشت جا تماشا دیکھ اس رخسار کا آرسی کے ہاتھ سوں ڈرتا ہے خط چور کوں ہے خوف چوکیدار کا سرکشی آتش مزاجی ہے سبب ناصحوں کو گرمئ بازار کا اے ولیؔ کیوں سن سکے ناصح کی بات جو دوانا ہے پری رخسار کا " ishq-men-sabr-o-razaa-darkaar-hai-wali-mohammad-wali-ghazals," عشق میں صبر و رضا درکار ہے فکر اسباب وفا درکار ہے چاک کرنے جامۂ صبر و قرار دلبر رنگیں قبا درکار ہے ہر صنم تسخیر دل کیونکر سکے دل ربائی کوں ادا درکار ہے زلف کوں وا کر کہ شاہ عشق کوں سایۂ بال ہما درکار ہے رکھ قدم مجھ دیدۂ خوں بار پر گر تجھے رنگ حنا درکار ہے دیکھ اس کی چشم شہلا کوں اگر نرگس باغ حیا درکار ہے عزم اس کے وصل کا ہے اے ولیؔ لیکن امداد خدا درکار ہے " ruuh-bakhshii-hai-kaam-tujh-lab-kaa-wali-mohammad-wali-ghazals," روح بخشی ہے کام تجھ لب کا دم عیسیٰ ہے نام تجھ لب کا حسن کے خضر نے کیا لبریز آب حیواں سوں جام تجھ لب کا منطق و حکمت و معانی پر مشتمل ہے کلام تجھ لب کا جنت حسن میں کیا حق نے حوض کوثر مقام تجھ لب کا رگ یاقوت کے قلم سوں لکھیں خط پرستاں پیام تجھ لب کا سبزہ و برگ و لالہ رکھتے ہیں شوق دل میں دوام تجھ لب کا غرق شکر ہوئے ہیں کام و زباں جب لیا ہوں میں نام تجھ لب کا مثل یاقوت خط میں ہے شاگرد ساغر مے مدام تجھ لب کا ہے ولیؔ کی زباں کو لذت بخش ذکر ہر صبح و شام تجھ لب کا " kuucha-e-yaar-ain-kaasii-hai-wali-mohammad-wali-ghazals," کوچۂ یار عین کاسی ہے جوگئی دل وہاں کا باسی ہے پی کے بیراگ کی اداسی سوں دل پہ میرے سدا اداسی ہے اے صنم تجھ جبیں اپر یہ خال ہندوی ہر دوار باسی ہے زلف تیری ہے موج جمنا کی تل نزک اس کے جیوں سناسی ہے گھر ترا ہے یہ رشک دیول چیں اس میں مدت سوں دل اپاسی ہے یہ سیہ زلف تجھ زنخداں پر ناگنی جیوں کنوے پہ پیاسی ہے طاس خورشید غرق ہے جب سوں بر میں تیرے لباس تاسی ہے جس کی گفتار میں نہیں ہے مزا سخن اس کا طعام باسی ہے اے ولیؔ جو لباس تن پہ رکھا عاشقاں کے نزک لباسی ہے " mat-gusse-ke-shoale-suun-jalte-kuun-jalaatii-jaa-wali-mohammad-wali-ghazals," مت غصہ کے شعلے سوں جلتے کوں جلاتی جا ٹک مہر کے پانی سوں تو آگ بجھاتی جا تجھ چال کی قیمت سوں دل نیں ہے مرا واقف اے مان بھری چنچل ٹک بھاؤ بتاتی جا اس رات اندھاری میں مت بھول پڑوں تجھ سوں ٹک پاؤں کے جھانجھر کی جھنکار سناتی جا مجھ دل کے کبوتر کوں باندھا ہے تری لٹ نے یہ کام دھرم کا ہے ٹک اس کو چھڑاتی جا تجھ مکھ کی پرستش میں گئی عمر مری ساری اے بت کی پجن‌ ہاری ٹک اس کو پجاتی جا تجھ عشق میں جل جل کر سب تن کوں کیا کاجل یہ روشنی افزا ہے انکھیا کو لگاتی جا تجھ نیہ میں دل جل جل جوگی کی لیا صورت یک بار اسے موہن چھاتی سوں لگاتی جا تجھ گھر کی طرف سندر آتا ہے ولیؔ دائم مشتاق درس کا ہے ٹک درس دکھاتی جا " aashiq-ke-mukh-pe-nain-ke-paanii-ko-dekh-tuun-wali-mohammad-wali-ghazals," عاشق کے مکھ پہ نین کے پانی کو دیکھ توں اس آرسی میں راز نہانی کوں دیکھ توں سن بے قرار دل کی اول آہ شعلہ خیز تب اس حرف میں دل کے معانی کوں دیکھ توں خوبی سوں تجھ حضور و شمع دم زنی میں ہے اس بے حیا کی چرب زبانی کوں دیکھ توں دریا پہ جا کے موج رواں پر نظر نہ کر انجھواں کی میرے آ کے روانی کوں دیکھ توں تجھ شوق کا جو داغ ولیؔ کے جگر میں ہے بے طاقتی میں اس کی نشانی کوں دیکھ توں " bhadke-hai-dil-kii-aatish-tujh-neh-kii-havaa-suun-wali-mohammad-wali-ghazals," بھڑکے ہے دل کی آتش تجھ نیہ کی ہوا سوں شعلہ نمط جلا دل تجھ حسن شعلہ زا سوں گل کے چراغ گل ہو یک بار جھڑ پڑیں سب مجھ آہ کی حکایت بولیں اگر صبا سوں نکلی ہے جست کر کر ہر سنگ دل سوں آتش چقماق جب پلک کی جھاڑا ہے توں ادا سوں سجدہ بدل رکھے سر سر تا قدم عرق ہو تجھ با حیا کے پگ پر آ کر حنا حیا سوں یاں درد ہے پرم کا بیہودہ سر کہے مت یہ بات سن ولیؔ کی جا کر کہو دوا سوں " yaad-karnaa-har-ghadii-us-yaar-kaa-wali-mohammad-wali-ghazals," یاد کرنا ہر گھڑی اس یار کا ہے وظیفہ مجھ دل بیمار کا آرزوئے چشمۂ کوثر نئیں تشنہ لب ہوں شربت دیدار کا عاقبت کیا ہووے گا معلوم نئیں دل ہوا ہے مبتلا دل دار کا کیا کہے تعریف دل ہے بے نظیر حرف حرف اس مخزن اسرار کا گر ہوا ہے طالب آزادگی بند مت ہو سبحہ و زنار کا مسند گل منزل شبنم ہوئی دیکھ رتبہ دیدۂ بیدار کا اے ولیؔ ہونا سریجن پر نثار مدعا ہے چشم گوہر بار کا " main-tujhe-aayaa-huun-iimaan-buujh-kar-wali-mohammad-wali-ghazals," میں تجھے آیا ہوں ایماں بوجھ کر باعث جمعیت جاں بوجھ کر بلبل شیراز کوں کرتا ہوں یاد حسن کوں تیرے گلستاں بوجھ کر دل چلا ہے عشق کا ہو جوہری لب ترے لعل بدخشاں بوجھ کر ہر نہ کرتی ہے نظارے کی مشق خط کوں تیرے خط ریحاں بوجھ کر اے سجن آیا ہوں ہو بے اختیار تجھ کوں اپنا راحت جاں بوجھ کر زلف تیری کیوں نہ کھائے پیچ و تاب حال مجھ دل کا پریشاں بوجھ کر رحم کر اس پر کہ آیا ہے ولیؔ درد دل کا تجھ کوں درماں بوجھ کر " jab-tujh-araq-ke-vasf-men-jaarii-qalam-huaa-wali-mohammad-wali-ghazals," جب تجھ عرق کے وصف میں جاری قلم ہوا عالم میں اس کا ناؤں جواہر رقم ہوا نقطے پہ تیرے خال کے باندھا ہے جن نے دل وو دائرہ میں عشق کے ثابت قدم ہوا تجھ فطرت بلند کی خوبی کوں لکھ قلم مشہور جگ کے بیچ عطارد رقم ہوا طاقت نہیں کہ حشر میں ہووے وو دادخواہ جس بے گنہ پہ تیری نگہ سوں ستم ہوا بے منت شراب ہوں سر شار انبساط تجھ نین کا خیال مجھے جام جم ہوا جن نے بیاں لکھا ہے مرے رنگ زرد کا اس کوں خطاب غیب سوں زریں رقم ہوا شہرت ہوئی ہے جب سے ترے شعر کی ولیؔ مشتاق تجھ سخن کا عرب تا عجم ہوا " jab-sanam-kuun-khayaal-e-baag-huaa-wali-mohammad-wali-ghazals," جب صنم کوں خیال باغ ہوا طالب نشۂ فراغ ہوا فوج عشاق دیکھ ہر جانب نازنیں صاحب دماغ ہوا رشک سوں تجھ لباں کی سرخی پر جگر لالہ داغ داغ ہوا دل عشاق کیوں نہ ہو روشن جب خیال صنم چراغ ہوا اے ولیؔ گل بدن کوں باغ میں دیکھ دل صد چاک باغ باغ ہوا " aaj-distaa-hai-haal-kuchh-kaa-kuchh-wali-mohammad-wali-ghazals," آج دستا ہے حال کچھ کا کچھ کیوں نہ گزرے خیال کچھ کا کچھ دل بے دل کوں آج کرتی ہے شوخ چنچل کی چال کچھ کا کچھ مجکو لگتا ہے اے پری پیکر آج تیرا جمال کچھ کا کچھ اثر بادۂ جوانی ہے کر گیا ہوں سوال کچھ کا کچھ اے ولیؔ دل کوں آج کرتی ہے بوئے باغ وصال کچھ کا کچھ " mushtaaq-hain-ushshaaq-tirii-baankii-adaa-ke-wali-mohammad-wali-ghazals," مشتاق ہیں عشاق تری بانکی ادا کے زخمی ہیں محباں تری شمشیر جفا کے ہر پیچ میں چیرے کے ترے لپٹے ہیں عاشق عالم کے دلاں بند ہیں تجھ بند قبا کے لرزاں ہے ترے دست اگے پنجۂ خورشید تجھ حسن اگے مات ملائک ہیں سما کے تجھ زلف کے حلقے میں ہے دل بے سر و بے پا ٹک مہر کرو حال اپر بے سر و پا کے تنہا نہ ولیؔ جگ منیں لکھتا ہے ترے وصف دفتر لکھے عالم نے تری مدح و ثنا کے " agar-gulshan-taraf-vo-nau-khat-e-rangiin-adaa-nikle-wali-mohammad-wali-ghazals," اگر گلشن طرف وو نو خط رنگیں ادا نکلے گل و ریحاں سوں رنگ و بو شتابی پیشوا نکلے کھلے ہر غنچۂ دل جیوں گل شاداب شادی سوں اگر ٹک گھر سوں باہر وو بہار دل کشا نکلے غنیم غم کیا ہے فوج بندی عشق بازاں پر بجا ہے آج وو راجہ اگر نوبت بجا نکلے نثار اس کے قدم اوپر کروں انجھواں کے گوہر سب اگر کرنے کوں دل جوئی وو سرو خوش ادا نکلے صنم آئے کروں گا نالۂ جاں سوز کوں ظاہر مگر اس سنگ دل سوں مہربانی کی صدا نکلے رہے مانند لعل بے بہا شاہاں کے تاج اوپر محبت میں جو کوئی اسباب ظاہر کوں بہا نکلے بخیلی درس کی ہرگز نہ کیجو اے پری پیکر ولیؔ تیری گلی میں جب کہ مانند گدا نکلے " fidaa-e-dilbar-e-rangiin-adaa-huun-wali-mohammad-wali-ghazals," فدائے دلبر رنگیں ادا ہوں شہید شاہد گل گوں قبا ہوں ہر اک مہ رو کے ملنے کا نہیں ذوق سخن کے آشنا کا آشنا ہوں کیا ہوں ترک نرگس کا تماشا طلب گار نگاہ با‌ حیا ہوں نہ کر شمشاد کی تعریف مجھ پاس کہ میں اس سرو قد کا مبتلا ہوں کیا میں عرض اس خورشید رو سوں تو شاہ حسن میں تیرا گدا ہوں سدا رکھتا ہوں شوق اس کے سخن کا ہمیشہ تشنۂ آب بقا ہوں قدم پر اس کے رکھتا ہوں سدا سر ولیؔ ہم مشرب رنگ حنا ہوں " tiraa-majnuun-huun-sahraa-kii-qasam-hai-wali-mohammad-wali-ghazals," ترا مجنوں ہوں صحرا کی قسم ہے طلب میں ہوں تمنا کی قسم ہے سراپا ناز ہے تو اے پری رو مجھے تیرے سراپا کی قسم ہے دیا حق حسن بالا دست تجکوں مجھے تجھ سرو بالا کی قسم ہے کیا تجھ زلف نے جگ کوں دوانا تری زلفاں کے سودا کی قسم ہے دو رنگی ترک کر ہر اک سے مت مل تجھے تجھ قد رعنا کی قسم ہے کیا تجھ عشق نے عالم کوں مجنوں مجھے تجھ رشک لیلیٰ کی قسم ہے ولیؔ مشتاق ہے تیری نگہ کا مجھے تجھ چشم شہلا کی قسم ہے " dil-talabgaar-e-naaz-e-mah-vash-hai-wali-mohammad-wali-ghazals," دل طلب گار ناز مہوش ہے لطف اس کا اگرچہ دل کش ہے مجھ سوں کیوں کر ملے گا حیراں ہوں شوخ ہے بے وفا ہے سرکش ہے کیا تری زلف کیا ترے ابرو ہر طرف سوں مجھے کشاکش ہے تجھ بن اے داغ بخش سینہ و دل چمن لالہ دشت آتش ہے اے ولیؔ تجربے سوں پایا ہوں شعلۂ آہ شوق بے غش ہے " sajan-tuk-naaz-suun-mujh-paas-aa-aahista-aahista-wali-mohammad-wali-ghazals," سجن ٹک ناز سوں مجھ پاس آ آہستہ آہستہ چھپی باتیں اپس دل کی سنا آہستہ آہستہ غرض گویاں کی باتاں کوں نہ لا خاطر منیں ہرگز سجن اس بات کوں خاطر میں لا آہستہ آہستہ ہر اک کی بات سننے پر توجہ مت کر اے ظالم رقیباں اس سیں ہوئیں گے جدا آہستہ آہستہ مبادا محتسب بدمست سن کر تان میں آوے طنبورہ آہ کا اے دل بجا آہستہ آہستہ ولیؔ ہرگز اپس کے دل کوں سینے میں نہ رکھ غمگیں کہ بر لاوے گا مطلب کوں خدا آہستہ آہستہ " jis-dilrubaa-suun-dil-kuun-mire-ittihaad-hai-wali-mohammad-wali-ghazals," جس دل ربا سوں دل کوں مرے اتحاد ہے دیدار اس کا میری انکھاں کی مراد ہے رکھتا ہے بر میں دلبر رنگیں خیال کوں مانند آرسی کے جو صاف اعتقاد ہے شاید کہ دام عشق میں تازہ ہوا ہے بند وعدے پہ گل رخاں کے جسے اعتماد ہے باقی رہے گا جور و ستم روز حشر لگ تجھ زلف کی جفا میں نپٹ امتداد ہے مقصود دل ہے اس کا خیال اے ولیؔ مجھے جیوں مجھ زباں پہ نام محمد مراد ہے " khuub-ruu-khuub-kaam-karte-hain-wali-mohammad-wali-ghazals," خوب رو خوب کام کرتے ہیں یک نگہ میں غلام کرتے ہیں دیکھ خوباں کوں وقت ملنے کے کس ادا سوں سلام کرتے ہیں کیا وفادار ہیں کہ ملنے میں دل سوں سب رام رام کرتے ہیں کم نگاہی سوں دیکھتے ہیں ولے کام اپنا تمام کرتے ہیں کھولتے ہیں جب اپنی زلفاں کوں صبح عاشق کوں شام کرتے ہیں صاحب لفظ اس کوں کہہ سکیے جس سوں خوباں کلام کرتے ہیں دل لجاتے ہیں اے ولیؔ میرا سرو قد جب خرام کرتے ہیں " jise-ishq-kaa-tiir-kaarii-lage-wali-mohammad-wali-ghazals," جسے عشق کا تیر کاری لگے اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے نہ چھوڑے محبت دم مرگ تک جسے یار جانی سوں یاری لگے نہ ہووے اسے جگ میں ہرگز قرار جسے عشق کی بے قراری لگے ہر اک وقت مجھ عاشق پاک کوں پیارے تری بات پیاری لگے ولیؔ کوں کہے تو اگر یک بچن رقیباں کے دل میں کٹاری لگے " muflisii-sab-bahaar-khotii-hai-wali-mohammad-wali-ghazals," مفلسی سب بہار کھوتی ہے مرد کا اعتبار کھوتی ہے کیونکے حاصل ہو مج کو جمعیت زلف تیری قرار کھوتی ہے ہر سحر شوخ کی نگہ کی شراب مجھ انکھاں کا خمار کھوتی ہے کیونکے ملنا صنم کا ترک کروں دلبری اختیار کھوتی ہے اے ولیؔ آب اس پری رو کی مجھ سنے کا غبار کھوتی ہے " dil-kuun-tujh-baaj-be-qaraarii-hai-wali-mohammad-wali-ghazals," دل کوں تجھ باج بے قراری ہے چشم کا کام اشک باری ہے شب فرقت میں مونس و ہم دم بے قراروں کوں آہ و زاری ہے اے عزیزاں مجھے نہیں برداشت سنگ دل کا فراق بھاری ہے فیض سوں تجھ فراق کے ساجن چشم گریاں کا کام جاری ہے فوقیت لے گیا ہوں بلبل سوں گرچہ منصب میں دو ہزاری ہے عشق بازوں کے حق میں قاتل کی ہر نگہ خنجر و کٹاری ہے آتش ہجر لالہ رو سوں ولیؔ داغ سینے میں یادگاری ہے " tujh-lab-kii-sifat-laal-e-badakhshaan-suun-kahuungaa-wali-mohammad-wali-ghazals," تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا دی بادشہی حق نے تجھے حسن نگر کی یو کشور ایراں میں سلیماں سوں کہوں گا تعریف ترے قد کی الف وار سریجن جا سرو گلستاں کوں خوش الحاں سوں کہوں گا مجھ پر نہ کرو ظلم تم اے لیلی خوباں مجنوں ہوں ترے غم کوں بیاباں سوں کہوں گا دیکھا ہوں تجھے خواب میں اے مایۂ خوبی اس خواب کو جا یوسف کنعاں سوں کہوں گا جلتا ہوں شب و روز ترے غم میں اے ساجن یہ سوز ترا مشعل سوزاں سوں کہوں گا یک نقطہ ترے صفحۂ رخ پر نئیں بے جا اس مکھ کو ترے صفحۂ قرآں سوں کہوں گا قربان پری مکھ پہ ہوئی چوب سی جل کر یہ بات عجائب مہ تاباں سوں کہوں گا بے صبر نہ ہو اے ولیؔ اس درد سوں ہرگز جلتا ہوں ترے درد میں درماں سوں کہوں گا " shagl-behtar-hai-ishq-baazii-kaa-wali-mohammad-wali-ghazals," شغل بہتر ہے عشق بازی کا کیا حقیقی و کیا مجازی کا ہر زباں پر ہے مثل شانہ مدام ذکر تجھ زلف کی درازی کا آج تیری بھواں نے مسجد میں ہوش کھویا ہے ہر نمازی کا گر نئیں راز عشق سوں آگاہ فخر بے جا ہے فخر رازی کا اے ولیؔ سرو قد کو دیکھوں گا وقت آیا ہے سرفرازی کا " main-aashiqii-men-tab-suun-afsaana-ho-rahaa-huun-wali-mohammad-wali-ghazals," میں عاشقی میں تب سوں افسانہ ہو رہا ہوں تیری نگہ کا جب سوں دیوانہ ہو رہا ہوں اے آشنا کرم سوں یک بار آ درس دے تجھ باج سب جہاں سوں بیگانہ ہو رہا ہوں باتاں لگن کی مت پوچھ اے شمع بزم خوبی مدت سے تجھ جھلک کا پروانہ ہو رہا ہوں شاید وو گنج خوبی آوے کسی طرف سوں اس واسطے سراپا ویرانہ ہو رہا ہوں سودائے زلف خوباں رکھتا ہوں دل میں دائم زنجیر عاشقی کا دیوانہ ہو رہا ہوں برجا ہے گر سنوں نئیں ناصح تری نصیحت میں جام عشق پی کر مستانہ ہو رہا ہوں کس سوں ولیؔ اپس کا احوال جا کہوں میں سر تا قدم میں غم سوں غم خانہ ہو رہا ہوں " aaj-sarsabz-koh-o-sahraa-hai-wali-mohammad-wali-ghazals," آج سر سبز کوہ و صحرا ہے ہر طرف سیر ہے تماشا ہے چہرۂ یار و قامت زیبا گل رنگین و سرو رعنا ہے معنی حسن و معنی خوبی صورت یار سوں ہویدا ہے دم جاں بخش نو خطاں مج کوں چشمۂ خضر ہے مسیحا ہے کمر نازک و دہان صنم فکر باریک ہے معما ہے مو بہ مو اس کوں ہے پریشانی زلف مشکیں کا جس کوں سودا ہے کیا حقیقت ہے تجھ تواضع کی یو تلطف ہے یا مداوا ہے سبب دل ربائی عاشق مہر ہے لطف ہے دلاسا ہے جوں ولیؔ رات دن ہے محو خیال جس کوں تجھ وصل کی تمنا ہے " takht-jis-be-khaanamaan-kaa-dast-e-viiraanii-huaa-wali-mohammad-wali-ghazals," تخت جس بے خانماں کا دشت ویرانی ہوا سر اپر اس کے بگولا تاج سلطانی ہوا کیوں نہ صافی اس کوں حاصل ہو جو مثل آرسی اپنے جوہر کی حیا سوں سر بسر پانی ہوا زندگی ہے جس کوں دائم عالم باقی منیں جلوہ گر کب اس انگے یو عالم فانی ہوا بیکسی کے حال میں یک آن میں تنہا نہیں غم ترا سینے میں میرے ہمدم جانی ہوا اے ولیؔ غیرت سوں سورج کیوں جلے نئیں رات دن جگ منیں وو ماہ رشک ماہ کنعانی ہوا " chhupaa-huun-main-sadaa-e-baansulii-men-wali-mohammad-wali-ghazals," چھپا ہوں میں صدائے بانسلی میں کہ تا جاؤں پری رو کی گلی میں نہ تھی طاقت مجھے آنے کی لیکن بزور آہ پہنچا تجھ گلی میں عیاں ہے رنگ کی شوخی سوں اے شوخ بدن تیرا قبائے صندلی میں جو ہے تیرے دہن میں رنگ و خوبی کہاں یہ رنگ یہ خوبی کلی میں کیا جیوں لفظ میں معنی سریجن مقام اپنا دل و جان ولیؔ میں " kamar-us-dilrubaa-kii-dilrubaa-hai-wali-mohammad-wali-ghazals," کمر اس دل ربا کی دل ربا ہے نگہ اس خوش ادا کی خوش ادا ہے سجن کے حسن کوں ٹک فکر سوں دیکھ کہ یہ آئینۂ معنی نما ہے یہ خط ہے جوہر آئینہ راز اسے مشک ختن کہنا بجا ہے ہوا معلوم تجھ زلفاں سوں اے شوخ کہ شاہ حسن پر ظل ہما ہے نہ ہووے کوہ کن کیوں آ کے عاشق جو وو شیریں ادا گل گوں قبا ہے نہ پوچھو آہ و زاری کی حقیقت عزیزاں عاشقی کا مقتضا ہے ولیؔ کوں مت ملامت کر اے واعظ ملامت عاشقوں پر کب روا ہے " ishq-betaab-e-jaan-gudaazii-hai-wali-mohammad-wali-ghazals," عشق بیتاب جاں گدازی ہے حسن مشتاق دل نوازی ہے اشک خونیں سوں جو کیا ہے وضو مذہب عشق میں نمازی ہے جو ہوا راز عشق سوں آگاہ وو زمانے کا فخر رازی ہے پاک بازاں سوں یوں ہوا مفہوم عشق مضمون پاک بازی ہے جا کے پہنچی ہے حد ظلمت کوں بسکہ تجھ زلف میں درازی ہے تجربے سوں ہوا مجھے ظاہر ناز مفہوم بے نیازی ہے اے ولیؔ عیش ظاہری کا سبب جلوۂ شاہد مجازی ہے " tiraa-lab-dekh-haivaan-yaad-aave-wali-mohammad-wali-ghazals," ترا لب دیکھ حیواں یاد آوے ترا مکھ دیکھ کنعاں یاد آوے ترے دو نین جب دیکھوں نظر بھر مجھے تب نرگسستاں یاد آوے تری زلفاں کی طولانی کوں دیکھے مجھے لیل زمستاں یاد آوے ترے خط کا زمرد رنگ دیکھے بہار سنبلستاں یاد آوے ترے مکھ کے چمن کے دیکھنے سوں مجھے فردوس رضواں یاد آوے تری زلفاں میں یو مکھ جو کہ دیکھے اسے شمع شبستاں یاد آوے جو کوئی دیکھے مری انکھیاں کو روتے اسے ابر بہاراں یاد آوے جو میرے حال کی گردش کوں دیکھے اسے گرداب گرداں یاد آوے ولیؔ میرا جنوں جو کوئی کہ دیکھے اسے کوہ و بیاباں یاد آوے " hue-hain-raam-piitam-ke-nayan-aahista-aahista-wali-mohammad-wali-ghazals," ہوئے ہیں رام پیتم کے نین آہستہ آہستہ کہ جیوں پھاندے میں آتے ہیں ہرن آہستہ آہستہ مرا دل مثل پروانے کے تھا مشتاق جلنے کا لگی اس شمع سوں آخر لگن آہستہ آہستہ گریباں صبر کا مت چاک کر اے خاطر مسکیں سنے گا بات وو شیریں بچن آہستہ آہستہ گل و بلبل کا گلشن میں خلل ہووے تو برجا ہے چمن میں جب چلے وو گل بدن آہستہ آہستہ ولیؔ سینے میں میرے پنجۂ عشق ستم گر نے کیا ہے چاک دل کا پیرہن آہستہ آہستہ " dil-huaa-hai-miraa-kharaab-e-sukhan-wali-mohammad-wali-ghazals," دل ہوا ہے مرا خراب‌ سخن دیکھ کر حسن بے حجاب سخن بزم معنی میں سر خوشی ہے اسے جس کوں ہے نشۂ شراب سخن راہ مضمون تازہ بند نہیں تا قیامت کھلا ہے باب سخن جلوہ پیرا ہو شاہد معنی جب زباں سوں اٹھے نقاب سخن گوہر اس کی نظر میں جا نہ کرے جن نے دیکھا ہے آب و تاب سخن ہرجا‌ گویاں کی بات کیونکہ سنے جو سنا نغمۂ رباب سخن ہے تری بات اے نزاکت فہم لوح دیباچۂ کتاب سخن ہے سخن جگ منیں عدیم المثال جز سخن نیں دجا جواب سخن اے ولیؔ درد سر کبھو نہ رہے جب ملے صندل و گلاب سخن " kiyaa-mujh-ishq-ne-zaalim-kuun-aab-aahista-aahista-wali-mohammad-wali-ghazals," کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ کہ آتش گل کوں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ وفاداری نے دل بر کی بجھایا آتش غم کوں کہ گرمی دفع کرتا ہے گلاب آہستہ آہستہ عجب کچھ لطف رکھتا ہے شب خلوت میں گل رو سوں خطاب آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ مرے دل کوں کیا بے خود تری انکھیاں نے آخر کوں کہ جیوں بے ہوش کرتی ہے شراب آہستہ آہستہ ہوا تجھ عشق سوں اے آتشیں رو دل مرا پانی کہ جیوں گلتا ہے آتش سوں گلاب آہستہ آہستہ ادا و ناز سوں آتا ہے وو روشن جبیں گھر سوں کہ جیوں مشرق سوں نکلے آفتاب آہستہ آہستہ ولیؔ مجھ دل میں آتا ہے خیال یار بے پروا کہ جیوں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ " sharaab-e-shauq-sen-sarshaar-hain-ham-wali-mohammad-wali-ghazals," شراب شوق سیں سرشار ہیں ہم کبھو بے خود کبھو ہشیار ہیں ہم دو رنگی سوں تری اے سرو رعنا کبھو راضی کبھو بیزار ہیں ہم ترے تسخیر کرنے میں سریجن کبھی ناداں کبھی عیار ہیں ہم صنم تیرے نین کی آرزو میں کبھو سالم کبھی بیمار ہیں ہم ولیؔ وصل و جدائی سوں سجن کی کبھو صحرا کبھو گل زار ہیں ہم " vo-naazniin-adaa-men-ejaaz-hai-saraapaa-wali-mohammad-wali-ghazals," وہ نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا خوبی میں گل رخاں سوں ممتاز ہے سراپا اے شوخ تجھ نین میں دیکھا نگاہ کر کر عاشق کے مارنے کا انداز ہے سراپا جگ کے ادا شناساں ہے جن کی فکر عالی تجھ قد کوں دیکھ بولے یو ناز ہے سراپا کیوں ہو سکیں جگت کے دل بر ترے برابر تو حسن ہور ادا میں اعجاز ہے سراپا گاہے اے عیسوی دم یک بات لطف سوں کر جاں بخش مجھ کو تیرا آواز ہے سراپا مجھ پر ولیؔ ہمیشہ دل دار مہرباں ہے ہر چند حسب ظاہر طناز ہے سراپا " haadson-kii-zad-pe-hain-to-muskuraanaa-chhod-den-waseem-barelvi-ghazals," حادثوں کی زد پہ ہیں تو مسکرانا چھوڑ دیں زلزلوں کے خوف سے کیا گھر بنانا چھوڑ دیں تم نے میرے گھر نہ آنے کی قسم کھائی تو ہے آنسوؤں سے بھی کہو آنکھوں میں آنا چھوڑ دیں پیار کے دشمن کبھی تو پیار سے کہہ کے تو دیکھ ایک تیرا در ہی کیا ہم تو زمانہ چھوڑ دیں گھونسلے ویران ہیں اب وہ پرندے ہی کہاں اک بسیرے کے لئے جو آب و دانہ چھوڑ دیں " duaa-karo-ki-koii-pyaas-nazr-e-jaam-na-ho-waseem-barelvi-ghazals," دعا کرو کہ کوئی پیاس نذر جام نہ ہو وہ زندگی ہی نہیں ہے جو ناتمام نہ ہو جو مجھ میں تجھ میں چلا آ رہا ہے صدیوں سے کہیں حیات اسی فاصلے کا نام نہ ہو کوئی چراغ نہ آنسو نہ آرزوئے سحر خدا کرے کہ کسی گھر میں ایسی شام نہ ہو عجیب شرط لگائی ہے احتیاطوں نے کہ تیرا ذکر کروں اور تیرا نام نہ ہو صبا مزاج کی تیزی بھی ایک نعمت ہے اگر چراغ بجھانا ہی ایک کام نہ ہو وسیمؔ کتنی ہی صبحیں لہو لہو گزریں اک ایسی صبح بھی آئے کہ جس کی شام نہ ہو " mujhe-to-qatra-hii-honaa-bahut-sataataa-hai-waseem-barelvi-ghazals," مجھے تو قطرہ ہی ہونا بہت ستاتا ہے اسی لیے تو سمندر پہ رحم آتا ہے وہ اس طرح بھی مری اہمیت گھٹاتا ہے کہ مجھ سے ملنے میں شرطیں بہت لگاتا ہے بچھڑتے وقت کسی آنکھ میں جو آتا ہے تمام عمر وہ آنسو بہت رلاتا ہے کہاں پہنچ گئی دنیا اسے پتہ ہی نہیں جو اب بھی ماضی کے قصے سنائے جاتا ہے اٹھائے جائیں جہاں ہاتھ ایسے جلسے میں وہی برا جو کوئی مسئلہ اٹھاتا ہے نہ کوئی عہدہ نہ ڈگری نہ نام کی تختی میں رہ رہا ہوں یہاں میرا گھر بتاتا ہے سمجھ رہا ہو کہیں خود کو میری کمزوری تو اس سے کہہ دو مجھے بھولنا بھی آتا ہے " mere-gam-ko-jo-apnaa-bataate-rahe-waseem-barelvi-ghazals," میرے غم کو جو اپنا بتاتے رہے وقت پڑنے پہ ہاتھوں سے جاتے رہے بارشیں آئیں اور فیصلہ کر گئیں لوگ ٹوٹی چھتیں آزماتے رہے آنکھیں منظر ہوئیں کان نغمہ ہوئے گھر کے انداز ہی گھر سے جاتے رہے شام آئی تو بچھڑے ہوئے ہم سفر آنسوؤں سے ان آنکھوں میں آتے رہے ننھے بچوں نے چھو بھی لیا چاند کو بوڑھے بابا کہانی سناتے رہے دور تک ہاتھ میں کوئی پتھر نہ تھا پھر بھی ہم جانے کیوں سر بچاتے رہے شاعری زہر تھی کیا کریں اے وسیمؔ لوگ پیتے رہے ہم پلاتے رہے " shaam-tak-subh-kii-nazron-se-utar-jaate-hain-waseem-barelvi-ghazals-3," شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں پھر وہی تلخئ حالات مقدر ٹھہری نشے کیسے بھی ہوں کچھ دن میں اتر جاتے ہیں اک جدائی کا وہ لمحہ کہ جو مرتا ہی نہیں لوگ کہتے تھے کہ سب وقت گزر جاتے ہیں گھر کی گرتی ہوئی دیواریں ہی مجھ سے اچھی راستہ چلتے ہوئے لوگ ٹھہر جاتے ہیں ہم تو بے نام ارادوں کے مسافر ہیں وسیمؔ کچھ پتہ ہو تو بتائیں کہ کدھر جاتے ہیں " kyaa-bataauun-kaisaa-khud-ko-dar-ba-dar-main-ne-kiyaa-waseem-barelvi-ghazals," کیا بتاؤں کیسا خود کو در بدر میں نے کیا عمر بھر کس کس کے حصے کا سفر میں نے کیا تو تو نفرت بھی نہ کر پائے گا اس شدت کے ساتھ جس بلا کا پیار تجھ سے بے خبر میں نے کیا کیسے بچوں کو بتاؤں راستوں کے پیچ و خم زندگی بھر تو کتابوں کا سفر میں نے کیا کس کو فرصت تھی کہ بتلاتا تجھے اتنی سی بات خود سے کیا برتاؤ تجھ سے چھوٹ کر میں نے کیا چند جذباتی سے رشتوں کے بچانے کو وسیمؔ کیسا کیسا جبر اپنے آپ پر میں نے کیا " kyaa-dukh-hai-samundar-ko-bataa-bhii-nahiin-saktaa-waseem-barelvi-ghazals," کیا دکھ ہے سمندر کو بتا بھی نہیں سکتا آنسو کی طرح آنکھ تک آ بھی نہیں سکتا تو چھوڑ رہا ہے تو خطا اس میں تری کیا ہر شخص مرا ساتھ نبھا بھی نہیں سکتا پیاسے رہے جاتے ہیں زمانے کے سوالات کس کے لیے زندہ ہوں بتا بھی نہیں سکتا گھر ڈھونڈ رہے ہیں مرا راتوں کے پجاری میں ہوں کہ چراغوں کو بجھا بھی نہیں سکتا ویسے تو اک آنسو ہی بہا کر مجھے لے جائے ایسے کوئی طوفان ہلا بھی نہیں سکتا " zindagii-tujh-pe-ab-ilzaam-koii-kyaa-rakkhe-waseem-barelvi-ghazals," زندگی تجھ پہ اب الزام کوئی کیا رکھے اپنا احساس ہی ایسا ہے جو تنہا رکھے کن شکستوں کے شب و روز سے گزرا ہوگا وہ مصور جو ہر اک نقش ادھورا رکھے خشک مٹی ہی نے جب پاؤں جمانے نہ دیئے بہتے دریا سے پھر امید کوئی کیا رکھے آ غم دوست اسی موڑ پہ ہو جاؤں جدا جو مجھے میرا ہی رہنے دے نہ تیرا رکھے آرزوؤں کے بہت خواب تو دیکھو ہو وسیمؔ جانے کس حال میں بے درد زمانہ رکھے " biite-hue-din-khud-ko-jab-dohraate-hain-waseem-barelvi-ghazals," بیتے ہوئے دن خود کو جب دہراتے ہیں ایک سے جانے ہم کتنے ہو جاتے ہیں ہم بھی دل کی بات کہاں کہہ پاتے ہیں آپ بھی کچھ کہتے کہتے رہ جاتے ہیں خوشبو اپنے رستہ خود طے کرتی ہے پھول تو ڈالی کے ہو کر رہ جاتے ہیں روز نیا اک قصہ کہنے والے لوگ کہتے کہتے خود قصہ ہو جاتے ہیں کون بچائے گا پھر توڑنے والوں سے پھول اگر شاخوں سے دھوکا کھاتے ہیں " main-aasmaan-pe-bahut-der-rah-nahiin-saktaa-waseem-barelvi-ghazals," میں آسماں پہ بہت دیر رہ نہیں سکتا مگر یہ بات زمیں سے تو کہہ نہیں سکتا کسی کے چہرے کو کب تک نگاہ میں رکھوں سفر میں ایک ہی منظر تو رہ نہیں سکتا یہ آزمانے کی فرصت تجھے کبھی مل جائے میں آنکھوں آنکھوں میں کیا بات کہہ نہیں سکتا سہارا لینا ہی پڑتا ہے مجھ کو دریا کا میں ایک قطرہ ہوں تنہا تو بہہ نہیں سکتا لگا کے دیکھ لے جو بھی حساب آتا ہو مجھے گھٹا کے وہ گنتی میں رہ نہیں سکتا یہ چند لمحوں کی بے اختیاریاں ہیں وسیمؔ گنہ سے رشتہ بہت دیر رہ نہیں سکتا " jahaan-dariyaa-kahiin-apne-kinaare-chhod-detaa-hai-waseem-barelvi-ghazals," جہاں دریا کہیں اپنے کنارے چھوڑ دیتا ہے کوئی اٹھتا ہے اور طوفان کا رخ موڑ دیتا ہے مجھے بے دست و پا کر کے بھی خوف اس کا نہیں جاتا کہیں بھی حادثہ گزرے وہ مجھ سے جوڑ دیتا ہے بچھڑ کے تجھ سے کچھ جانا اگر تو اس قدر جانا وہ مٹی ہوں جسے دریا کنارے چھوڑ دیتا ہے محبت میں ذرا سی بے وفائی تو ضروری ہے وہی اچھا بھی لگتا ہے جو وعدے توڑ دیتا ہے " kitnaa-dushvaar-thaa-duniyaa-ye-hunar-aanaa-bhii-waseem-barelvi-ghazals," کتنا دشوار تھا دنیا یہ ہنر آنا بھی تجھ سے ہی فاصلہ رکھنا تجھے اپنانا بھی کیسی آداب نمائش نے لگائیں شرطیں پھول ہونا ہی نہیں پھول نظر آنا بھی دل کی بگڑی ہوئی عادت سے یہ امید نہ تھی بھول جائے گا یہ اک دن ترا یاد آنا بھی جانے کب شہر کے رشتوں کا بدل جائے مزاج اتنا آساں تو نہیں لوٹ کے گھر آنا بھی ایسے رشتے کا بھرم رکھنا کوئی کھیل نہیں تیرا ہونا بھی نہیں اور ترا کہلانا بھی خود کو پہچان کے دیکھے تو ذرا یہ دریا بھول جائے گا سمندر کی طرف جانا بھی جاننے والوں کی اس بھیڑ سے کیا ہوگا وسیمؔ اس میں یہ دیکھیے کوئی مجھے پہچانا بھی " main-apne-khvaab-se-bichhdaa-nazar-nahiin-aataa-waseem-barelvi-ghazals," میں اپنے خواب سے بچھڑا نظر نہیں آتا تو اس صدی میں اکیلا نظر نہیں آتا عجب دباؤ ہے ان باہری ہواؤں کا گھروں کا بوجھ بھی اٹھتا نظر نہیں آتا میں تیری راہ سے ہٹنے کو ہٹ گیا لیکن مجھے تو کوئی بھی رستہ نظر نہیں آتا میں اک صدا پہ ہمیشہ کو گھر تو چھوڑ آیا مگر پکارنے والا نظر نہیں آتا دھواں بھرا ہے یہاں تو سبھی کی آنکھوں میں کسی کو گھر مرا جلتا نظر نہیں آتا غزل سرائی کا دعویٰ تو سب کرے ہیں وسیمؔ مگر وہ میرؔ سا لہجہ نظر نہیں آتا " apne-chehre-se-jo-zaahir-hai-chhupaaen-kaise-waseem-barelvi-ghazals," اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے گھر سجانے کا تصور تو بہت بعد کا ہے پہلے یہ طے ہو کہ اس گھر کو بچائیں کیسے لاکھ تلواریں بڑھی آتی ہوں گردن کی طرف سر جھکانا نہیں آتا تو جھکائیں کیسے قہقہہ آنکھ کا برتاؤ بدل دیتا ہے ہنسنے والے تجھے آنسو نظر آئیں کیسے پھول سے رنگ جدا ہونا کوئی کھیل نہیں اپنی مٹی کو کہیں چھوڑ کے جائیں کیسے کوئی اپنی ہی نظر سے تو ہمیں دیکھے گا ایک قطرے کو سمندر نظر آئیں کیسے جس نے دانستہ کیا ہو نظر انداز وسیمؔ اس کو کچھ یاد دلائیں تو دلائیں کیسے " bhalaa-gamon-se-kahaan-haar-jaane-vaale-the-waseem-barelvi-ghazals," بھلا غموں سے کہاں ہار جانے والے تھے ہم آنسوؤں کی طرح مسکرانے والے تھے ہمیں نے کر دیا اعلان گمرہی ورنہ ہمارے پیچھے بہت لوگ آنے والے تھے انہیں تو خاک میں ملنا ہی تھا کہ میرے تھے یہ اشک کون سے اونچے گھرانے والے تھے انہیں قریب نہ ہونے دیا کبھی میں نے جو دوستی میں حدیں بھول جانے والے تھے میں جن کو جان کے پہچان بھی نہیں سکتا کچھ ایسے لوگ مرا گھر جلانے والے تھے ہمارا المیہ یہ تھا کہ ہم سفر بھی ہمیں وہی ملے جو بہت یاد آنے والے تھے وسیمؔ کیسی تعلق کی راہ تھی جس میں وہی ملے جو بہت دل دکھانے والے تھے " khul-ke-milne-kaa-saliiqa-aap-ko-aataa-nahiin-waseem-barelvi-ghazals," کھل کے ملنے کا سلیقہ آپ کو آتا نہیں اور میرے پاس کوئی چور دروازہ نہیں وہ سمجھتا تھا اسے پا کر ہی میں رہ جاؤں گا اس کو میری پیاس کی شدت کا اندازہ نہیں جا دکھا دنیا کو مجھ کو کیا دکھاتا ہے غرور تو سمندر ہے تو ہے میں تو مگر پیاسا نہیں کوئی بھی دستک کرے آہٹ ہو یا آواز دے میرے ہاتھوں میں مرا گھر تو ہے دروازہ نہیں اپنوں کو اپنا کہا چاہے کسی درجے کے ہوں اور جب ایسا کیا میں نے تو شرمایا نہیں اس کی محفل میں انہیں کی روشنی جن کے چراغ میں بھی کچھ ہوتا تو میرا بھی دیا ہوتا نہیں تجھ سے کیا بچھڑا مری ساری حقیقت کھل گئی اب کوئی موسم ملے تو مجھ سے شرماتا نہیں " sab-ne-milaae-haath-yahaan-tiirgii-ke-saath-waseem-barelvi-ghazals," سب نے ملائے ہاتھ یہاں تیرگی کے ساتھ کتنا بڑا مذاق ہوا روشنی کے ساتھ شرطیں لگائی جاتی نہیں دوستی کے ساتھ کیجے مجھے قبول مری ہر کمی کے ساتھ تیرا خیال تیری طلب تیری آرزو میں عمر بھر چلا ہوں کسی روشنی کے ساتھ دنیا مرے خلاف کھڑی کیسے ہو گئی میری تو دشمنی بھی نہیں تھی کسی کے ساتھ کس کام کی رہی یہ دکھاوے کی زندگی وعدے کیے کسی سے گزاری کسی کے ساتھ دنیا کو بے وفائی کا الزام کون دے اپنی ہی نبھ سکی نہ بہت دن کسی کے ساتھ قطرے وہ کچھ بھی پائیں یہ ممکن نہیں وسیمؔ بڑھنا جو چاہتے ہیں سمندر کشی کے ساتھ " dukh-apnaa-agar-ham-ko-bataanaa-nahiin-aataa-waseem-barelvi-ghazals," دکھ اپنا اگر ہم کو بتانا نہیں آتا تم کو بھی تو اندازہ لگانا نہیں آتا پہنچا ہے بزرگوں کے بیانوں سے جو ہم تک کیا بات ہوئی کیوں وہ زمانہ نہیں آتا میں بھی اسے کھونے کا ہنر سیکھ نہ پایا اس کو بھی مجھے چھوڑ کے جانا نہیں آتا اس چھوٹے زمانے کے بڑے کیسے بنوگے لوگوں کو جب آپس میں لڑانا نہیں آتا ڈھونڈھے ہے تو پلکوں پہ چمکنے کے بہانے آنسو کو مری آنکھ میں آنا نہیں آتا تاریخ کی آنکھوں میں دھواں ہو گئے خود ہی تم کو تو کوئی گھر بھی جلانا نہیں آتا " apne-har-har-lafz-kaa-khud-aaiina-ho-jaauungaa-waseem-barelvi-ghazals," اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہو جاؤں گا اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاؤں گا تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاؤں گا مجھ کو چلنے دو اکیلا ہے ابھی میرا سفر راستہ روکا گیا تو قافلہ ہو جاؤں گا ساری دنیا کی نظر میں ہے مرا عہد وفا اک ترے کہنے سے کیا میں بے وفا ہو جاؤں گا " chalo-ham-hii-pahal-kar-den-ki-ham-se-bad-gumaan-kyuun-ho-waseem-barelvi-ghazals," چلو ہم ہی پہل کر دیں کہ ہم سے بد گماں کیوں ہو کوئی رشتہ ذرا سی ضد کی خاطر رائیگاں کیوں ہو میں زندہ ہوں تو اس زندہ ضمیری کی بدولت ہی جو بولے تیرے لہجے میں بھلا میری زباں کیوں ہو سوال آخر یہ اک دن دیکھنا ہم ہی اٹھائیں گے نہ سمجھے جو زمیں کے غم وہ اپنا آسماں کیوں ہو ہماری گفتگو کی اور بھی سمتیں بہت سی ہیں کسی کا دل دکھانے ہی کو پھر اپنی زباں کیوں ہو بکھر کر رہ گیا ہمسائیگی کا خواب ہی ورنہ دیئے اس گھر میں روشن ہوں تو اس گھر میں دھواں کیوں ہو محبت آسماں کو جب زمیں کرنے کی ضد ٹھہری تو پھر بزدل اصولوں کی شرافت درمیاں کیوں ہو امیدیں ساری دنیا سے وسیمؔ اور خود میں ایسے غم کسی پہ کچھ نہ ظاہر ہو تو کوئی مہرباں کیوں ہو " tahriir-se-varna-mirii-kyaa-ho-nahiin-saktaa-waseem-barelvi-ghazals," تحریر سے ورنہ مری کیا ہو نہیں سکتا اک تو ہے جو لفظوں میں ادا ہو نہیں سکتا آنکھوں میں خیالات میں سانسوں میں بسا ہے چاہے بھی تو مجھ سے وہ جدا ہو نہیں سکتا جینا ہے تو یہ جبر بھی سہنا ہی پڑے گا قطرہ ہوں سمندر سے خفا ہو نہیں سکتا گمراہ کئے ہوں گے کئی پھول سے جذبے ایسے تو کوئی راہنما ہو نہیں سکتا قد میرا بڑھانے کا اسے کام ملا ہے جو اپنے ہی پیروں پہ کھڑا ہو نہیں سکتا اے پیار ترے حصے میں آیا تری قسمت وہ درد جو چہروں سے ادا ہو نہیں سکتا " rang-be-rang-hon-khushbuu-kaa-bharosa-jaae-waseem-barelvi-ghazals," رنگ بے رنگ ہوں خوشبو کا بھروسہ جائے میری آنکھوں سے جو دنیا تجھے دیکھا جائے ہم نے جس راہ کو چھوڑا پھر اسے چھوڑ دیا اب نہ جائیں گے ادھر چاہے زمانہ جائے میں نے مدت سے کوئی خواب نہیں دیکھا ہے ہاتھ رکھ دے مری آنکھوں پہ کہ نیند آ جائے میں گناہوں کا طرف دار نہیں ہوں پھر بھی رات کو دن کی نگاہوں سے نہ دیکھا جائے کچھ بڑی سوچوں میں یہ سوچیں بھی شامل ہیں وسیمؔ کس بہانے سے کوئی شہر جلایا جائے " haveliyon-men-mirii-tarbiyat-nahiin-hotii-waseem-barelvi-ghazals," حویلیوں میں مری تربیت نہیں ہوتی تو آج سر پہ ٹپکنے کو چھت نہیں ہوتی ہمارے گھر کا پتہ پوچھنے سے کیا حاصل اداسیوں کی کوئی شہریت نہیں ہوتی چراغ گھر کا ہو محفل کا ہو کہ مندر کا ہوا کے پاس کوئی مصلحت نہیں ہوتی ہمیں جو خود میں سمٹنے کا فن نہیں آتا تو آج ایسی تری سلطنت نہیں ہوتی وسیمؔ شہر میں سچائیوں کے لب ہوتے تو آج خبروں میں سب خیریت نہیں ہوتی " sirf-teraa-naam-le-kar-rah-gayaa-waseem-barelvi-ghazals," صرف تیرا نام لے کر رہ گیا آج دیوانہ بہت کچھ کہہ گیا کیا مری تقدیر میں منزل نہیں فاصلہ کیوں مسکرا کر رہ گیا زندگی دنیا میں ایسا اشک تھی جو ذرا پلکوں پہ ٹھہرا بہہ گیا اور کیا تھا اس کی پرسش کا جواب اپنے ہی آنسو چھپا کر رہ گیا اس سے پوچھ اے کامیاب زندگی جس کا افسانہ ادھورا رہ گیا ہائے کیا دیوانگی تھی اے وسیمؔ جو نہ کہنا چاہیے تھا کہہ گیا " kahaan-savaab-kahaan-kyaa-azaab-hotaa-hai-waseem-barelvi-ghazals," کہاں ثواب کہاں کیا عذاب ہوتا ہے محبتوں میں کب اتنا حساب ہوتا ہے بچھڑ کے مجھ سے تم اپنی کشش نہ کھو دینا اداس رہنے سے چہرا خراب ہوتا ہے اسے پتا ہی نہیں ہے کہ پیار کی بازی جو ہار جائے وہی کامیاب ہوتا ہے جب اس کے پاس گنوانے کو کچھ نہیں ہوتا تو کوئی آج کا عزت مآب ہوتا ہے جسے میں لکھتا ہوں ایسے کہ خود ہی پڑھ پاؤں کتاب زیست میں ایسا بھی باب ہوتا ہے بہت بھروسہ نہ کر لینا اپنی آنکھوں پر دکھائی دیتا ہے جو کچھ وہ خواب ہوتا ہے " sabhii-kaa-dhuup-se-bachne-ko-sar-nahiin-hotaa-waseem-barelvi-ghazals," سبھی کا دھوپ سے بچنے کو سر نہیں ہوتا ہر آدمی کے مقدر میں گھر نہیں ہوتا کبھی لہو سے بھی تاریخ لکھنی پڑتی ہے ہر ایک معرکہ باتوں سے سر نہیں ہوتا میں اس کی آنکھ کا آنسو نہ بن سکا ورنہ مجھے بھی خاک میں ملنے کا ڈر نہیں ہوتا مجھے تلاش کروگے تو پھر نہ پاؤ گے میں اک صدا ہوں صداؤں کا گھر نہیں ہوتا ہماری آنکھ کے آنسو کی اپنی دنیا ہے کسی فقیر کو شاہوں کا ڈر نہیں ہوتا میں اس مکان میں رہتا ہوں اور زندہ ہوں وسیمؔ جس میں ہوا کا گزر نہیں ہوتا " ye-hai-to-sab-ke-liye-ho-ye-zid-hamaarii-hai-waseem-barelvi-ghazals," یہ ہے تو سب کے لیے ہو یہ ضد ہماری ہے اس ایک بات پہ دنیا سے جنگ جاری ہے اڑان والو اڑانوں پہ وقت بھاری ہے پروں کی اب کے نہیں حوصلوں کی باری ہے میں قطرہ ہو کے بھی طوفاں سے جنگ لیتا ہوں مجھے بچانا سمندر کی ذمہ داری ہے اسی سے جلتے ہیں صحرائے آرزو میں چراغ یہ تشنگی تو مجھے زندگی سے پیاری ہے کوئی بتائے یہ اس کے غرور بے جا کو وہ جنگ میں نے لڑی ہی نہیں جو ہاری ہے ہر ایک سانس پہ پہرا ہے بے یقینی کا یہ زندگی تو نہیں موت کی سواری ہے دعا کرو کہ سلامت رہے مری ہمت یہ اک چراغ کئی آندھیوں پہ بھاری ہے " andheraa-zehn-kaa-samt-e-safar-jab-khone-lagtaa-hai-waseem-barelvi-ghazals," اندھیرا ذہن کا سمت سفر جب کھونے لگتا ہے کسی کا دھیان آتا ہے اجالا ہونے لگتا ہے وہ جتنی دور ہو اتنا ہی میرا ہونے لگتا ہے مگر جب پاس آتا ہے تو مجھ سے کھونے لگتا ہے کسی نے رکھ دیے ممتا بھرے دو ہاتھ کیا سر پر مرے اندر کوئی بچہ بلک کر رونے لگتا ہے محبت چار دن کی اور اداسی زندگی بھر کی یہی سب دیکھتا ہے اور کبیراؔ رونے لگتا ہے سمجھتے ہی نہیں نادان کے دن کی ہے ملکیت پرائے کھیتوں پہ اپنوں میں جھگڑا ہونے لگتا ہے یہ دل بچ کر زمانے بھر سے چلنا چاہے ہے لیکن جب اپنی راہ چلتا ہے اکیلا ہونے لگتا ہے " tumhaarii-raah-men-mittii-ke-ghar-nahiin-aate-waseem-barelvi-ghazals," تمہاری راہ میں مٹی کے گھر نہیں آتے اسی لئے تو تمہیں ہم نظر نہیں آتے محبتوں کے دنوں کی یہی خرابی ہے یہ روٹھ جائیں تو پھر لوٹ کر نہیں آتے جنہیں سلیقہ ہے تہذیب غم سمجھنے کا انہیں کے رونے میں آنسو نظر نہیں آتے خوشی کی آنکھ میں آنسو کی بھی جگہ رکھنا برے زمانے کبھی پوچھ کر نہیں آتے بساط عشق پہ بڑھنا کسے نہیں آتا یہ اور بات کہ بچنے کے گھر نہیں آتے وسیمؔ ذہن بناتے ہیں تو وہی اخبار جو لے کے ایک بھی اچھی خبر نہیں آتے " lahuu-na-ho-to-qalam-tarjumaan-nahiin-hotaa-waseem-barelvi-ghazals," لہو نہ ہو تو قلم ترجماں نہیں ہوتا ہمارے دور میں آنسو زباں نہیں ہوتا جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا یہ کس مقام پہ لائی ہے میری تنہائی کہ مجھ سے آج کوئی بد گماں نہیں ہوتا بس اک نگاہ مری راہ دیکھتی ہوتی یہ سارا شہر مرا میزباں نہیں ہوتا ترا خیال نہ ہوتا تو کون سمجھاتا زمیں نہ ہو تو کوئی آسماں نہیں ہوتا میں اس کو بھول گیا ہوں یہ کون مانے گا کسی چراغ کے بس میں دھواں نہیں ہوتا وسیمؔ صدیوں کی آنکھوں سے دیکھیے مجھ کو وہ لفظ ہوں جو کبھی داستاں نہیں ہوتا " chaand-kaa-khvaab-ujaalon-kii-nazar-lagtaa-hai-waseem-barelvi-ghazals," چاند کا خواب اجالوں کی نظر لگتا ہے تو جدھر ہو کے گزر جائے خبر لگتا ہے اس کی یادوں نے اگا رکھے ہیں سورج اتنے شام کا وقت بھی آئے تو سحر لگتا ہے ایک منظر پہ ٹھہرنے نہیں دیتی فطرت عمر بھر آنکھ کی قسمت میں سفر لگتا ہے میں نظر بھر کے ترے جسم کو جب دیکھتا ہوں پہلی بارش میں نہایا سا شجر لگتا ہے بے سہارا تھا بہت پیار کوئی پوچھتا کیا تو نے کاندھے پہ جگہ دی ہے تو سر لگتا ہے تیری قربت کے یہ لمحے اسے راس آئیں کیا صبح ہونے کا جسے شام سے ڈر لگتا ہے " kuchh-itnaa-khauf-kaa-maaraa-huaa-bhii-pyaar-na-ho-waseem-barelvi-ghazals," کچھ اتنا خوف کا مارا ہوا بھی پیار نہ ہو وہ اعتبار دلائے اور اعتبار نہ ہو ہوا خلاف ہو موجوں پہ اختیار نہ ہو یہ کیسی ضد ہے کہ دریا کسی سے پار نہ ہو میں گاؤں لوٹ رہا ہوں بہت دنوں کے بعد خدا کرے کہ اسے میرا انتظار نہ ہو ذرا سی بات پہ گھٹ گھٹ کے صبح کر دینا مری طرح بھی کوئی میرا غم گسار نہ ہو دکھی سماج میں آنسو بھرے زمانے میں اسے یہ کون بتائے کہ اشک بار نہ ہو گناہ گاروں پہ انگلی اٹھائے دیتے ہو وسیمؔ آج کہیں تم بھی سنگسار نہ ہو " main-is-umiid-pe-duubaa-ki-tuu-bachaa-legaa-waseem-barelvi-ghazals," میں اس امید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا اب اس کے بعد مرا امتحان کیا لے گا یہ ایک میلہ ہے وعدہ کسی سے کیا لے گا ڈھلے گا دن تو ہر اک اپنا راستہ لے گا میں بجھ گیا تو ہمیشہ کو بجھ ہی جاؤں گا کوئی چراغ نہیں ہوں کہ پھر جلا لے گا کلیجہ چاہئے دشمن سے دشمنی کے لئے جو بے عمل ہے وہ بدلہ کسی سے کیا لے گا میں اس کا ہو نہیں سکتا بتا نہ دینا اسے لکیریں ہاتھ کی اپنی وہ سب جلا لے گا ہزار توڑ کے آ جاؤں اس سے رشتہ وسیمؔ میں جانتا ہوں وہ جب چاہے گا بلا لے گا " udaasiyon-men-bhii-raste-nikaal-letaa-hai-waseem-barelvi-ghazals," اداسیوں میں بھی رستے نکال لیتا ہے عجیب دل ہے گروں تو سنبھال لیتا ہے یہ کیسا شخص ہے کتنی ہی اچھی بات کہو کوئی برائی کا پہلو نکال لیتا ہے ڈھلے تو ہوتی ہے کچھ اور احتیاط کی عمر کہ بہتے بہتے یہ دریا اچھال لیتا ہے بڑے بڑوں کی طرح داریاں نہیں چلتیں عروج تیری خبر جب زوال لیتا ہے جب اس کے جام میں اک بوند تک نہیں ہوتی وہ میری پیاس کو پھر بھی سنبھال لیتا ہے " aate-aate-miraa-naam-saa-rah-gayaa-waseem-barelvi-ghazals," آتے آتے مرا نام سا رہ گیا اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی دن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا وہ مرے سامنے ہی گیا اور میں راستے کی طرح دیکھتا رہ گیا جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا آندھیوں کے ارادے تو اچھے نہ تھے یہ دیا کیسے جلتا ہوا رہ گیا اس کو کاندھوں پہ لے جا رہے ہیں وسیمؔ اور وہ جینے کا حق مانگتا رہ گیا " use-samajhne-kaa-koii-to-raasta-nikle-waseem-barelvi-ghazals," اسے سمجھنے کا کوئی تو راستہ نکلے میں چاہتا بھی یہی تھا وہ بے وفا نکلے کتاب ماضی کے اوراق الٹ کے دیکھ ذرا نہ جانے کون سا صفحہ مڑا ہوا نکلے میں تجھ سے ملتا تو تفصیل میں نہیں جاتا مری طرف سے ترے دل میں جانے کیا نکلے جو دیکھنے میں بہت ہی قریب لگتا ہے اسی کے بارے میں سوچو تو فاصلہ نکلے تمام شہر کی آنکھوں میں سرخ شعلے ہیں وسیمؔ گھر سے اب ایسے میں کوئی کیا نکلے " vo-mere-ghar-nahiin-aataa-main-us-ke-ghar-nahiin-jaataa-waseem-barelvi-ghazals," وہ میرے گھر نہیں آتا میں اس کے گھر نہیں جاتا مگر ان احتیاطوں سے تعلق مر نہیں جاتا برے اچھے ہوں جیسے بھی ہوں سب رشتے یہیں کے ہیں کسی کو ساتھ دنیا سے کوئی لے کر نہیں جاتا گھروں کی تربیت کیا آ گئی ٹی وی کے ہاتھوں میں کوئی بچہ اب اپنے باپ کے اوپر نہیں جاتا کھلے تھے شہر میں سو در مگر اک حد کے اندر ہی کہاں جاتا اگر میں لوٹ کے پھر گھر نہیں جاتا محبت کے یہ آنسو ہیں انہیں آنکھوں میں رہنے دو شریفوں کے گھروں کا مسئلہ باہر نہیں جاتا وسیمؔ اس سے کہو دنیا بہت محدود ہے میری کسی در کا جو ہو جائے وہ پھر در در نہیں جاتا " mohabbat-naa-samajh-hotii-hai-samjhaanaa-zaruurii-hai-waseem-barelvi-ghazals," محبت نا سمجھ ہوتی ہے سمجھانا ضروری ہے جو دل میں ہے اسے آنکھوں سے کہلانا ضروری ہے اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے نئی عمروں کی خود مختاریوں کو کون سمجھائے کہاں سے بچ کے چلنا ہے کہاں جانا ضروری ہے تھکے ہارے پرندے جب بسیرے کے لیے لوٹیں سلیقہ مند شاخوں کا لچک جانا ضروری ہے بہت بے باک آنکھوں میں تعلق ٹک نہیں پاتا محبت میں کشش رکھنے کو شرمانا ضروری ہے سلیقہ ہی نہیں شاید اسے محسوس کرنے کا جو کہتا ہے خدا ہے تو نظر آنا ضروری ہے مرے ہونٹوں پہ اپنی پیاس رکھ دو اور پھر سوچو کہ اس کے بعد بھی دنیا میں کچھ پانا ضروری ہے " apne-andaaz-kaa-akelaa-thaa-waseem-barelvi-ghazals," اپنے انداز کا اکیلا تھا اس لئے میں بڑا اکیلا تھا پیار تو جنم کا اکیلا تھا کیا مرا تجربہ اکیلا تھا ساتھ تیرا نہ کچھ بدل پایا میرا ہی راستہ اکیلا تھا بخشش بے حساب کے آگے میرا دست دعا اکیلا تھا تیری سمجھوتے باز دنیا میں کون میرے سوا اکیلا تھا جو بھی ملتا گلے لگا لیتا کس قدر آئنا اکیلا تھا " hamaaraa-azm-e-safar-kab-kidhar-kaa-ho-jaae-waseem-barelvi-ghazals," ہمارا عزم سفر کب کدھر کا ہو جائے یہ وہ نہیں جو کسی رہ گزر کا ہو جائے اسی کو جینے کا حق ہے جو اس زمانے میں ادھر کا لگتا رہے اور ادھر کا ہو جائے کھلی ہواؤں میں اڑنا تو اس کی فطرت ہے پرندہ کیوں کسی شاخ شجر کا ہو جائے میں لاکھ چاہوں مگر ہو تو یہ نہیں سکتا کہ تیرا چہرا مری ہی نظر کا ہو جائے مرا نہ ہونے سے کیا فرق اس کو پڑنا ہے پتہ چلے جو کسی کم نظر کا ہو جائے وسیمؔ صبح کی تنہائی سفر سوچو مشاعرہ تو چلو رات بھر کا ہو جائے " kahaan-qatre-kii-gam-khvaarii-kare-hai-waseem-barelvi-ghazals," کہاں قطرہ کی غم خواری کرے ہے سمندر ہے اداکاری کرے ہے کوئی مانے نہ مانے اس کی مرضی مگر وہ حکم تو جاری کرے ہے نہیں لمحہ بھی جس کی دسترس میں وہی صدیوں کی تیاری کرے ہے بڑے آدرش ہیں باتوں میں لیکن وہ سارے کام بازاری کرے ہے ہماری بات بھی آئے تو جانیں وہ باتیں تو بہت ساری کرے ہے یہی اخبار کی سرخی بنے گا ذرا سا کام چنگاری کرے ہے بلاوا آئے گا چل دیں گے ہم بھی سفر کی کون تیاری کرے ہے " vo-mujh-ko-kyaa-bataanaa-chaahtaa-hai-waseem-barelvi-ghazals," وہ مجھ کو کیا بتانا چاہتا ہے جو دنیا سے چھپانا چاہتا ہے مجھے دیکھو کہ میں اس کو ہی چاہوں جسے سارا زمانہ چاہتا ہے قلم کرنا کہاں ہے اس کا منشا وہ میرا سر جھکانا چاہتا ہے شکایت کا دھواں آنکھوں سے دل تک تعلق ٹوٹ جانا چاہتا ہے تقاضہ وقت کا کچھ بھی ہو یہ دل وہی قصہ پرانا چاہتا ہے " apne-saae-ko-itnaa-samjhaane-de-waseem-barelvi-ghazals," اپنے سائے کو اتنا سمجھانے دے مجھ تک میرے حصے کی دھوپ آنے دے ایک نظر میں کئی زمانے دیکھے تو بوڑھی آنکھوں کی تصویر بنانے دے بابا دنیا جیت کے میں دکھلا دوں گا اپنی نظر سے دور تو مجھ کو جانے دے میں بھی تو اس باغ کا ایک پرندہ ہوں میری ہی آواز میں مجھ کو گانے دے پھر تو یہ اونچا ہی ہوتا جائے گا بچپن کے ہاتھوں میں چاند آ جانے دے فصلیں پک جائیں تو کھیت سے بچھڑیں گی روتی آنکھ کو پیار کہاں سمجھانے دے " ham-apne-aap-ko-ik-masala-banaa-na-sake-waseem-barelvi-ghazals," ہم اپنے آپ کو اک مسئلہ بنا نہ سکے اسی لئے تو کسی کی نظر میں آ نہ سکے ہم آنسوؤں کی طرح واسطے نبھا نہ سکے رہے جن آنکھوں میں ان میں ہی گھر بنا نہ سکے پھر آندھیوں نے سکھایا وہاں سفر کا ہنر جہاں چراغ ہمیں راستہ دکھا نہ سکے جو پیش پیش تھے بستی بچانے والوں میں لگی جب آگ تو اپنا بھی گھر بچا نہ سکے مرے خدا کسی ایسی جگہ اسے رکھنا جہاں کوئی مرے بارے میں کچھ بتا نہ سکے تمام عمر کی کوشش کا بس یہی حاصل کسی کو اپنے مطابق کوئی بنا نہ سکے تسلیوں پہ بہت دن جیا نہیں جاتا کچھ ایسا ہو کے ترا اعتبار آ نہ سکے " main-ye-nahiin-kahtaa-ki-miraa-sar-na-milegaa-waseem-barelvi-ghazals," میں یہ نہیں کہتا کہ مرا سر نہ ملے گا لیکن مری آنکھوں میں تجھے ڈر نہ ملے گا سر پر تو بٹھانے کو ہے تیار زمانہ لیکن ترے رہنے کو یہاں گھر نہ ملے گا جاتی ہے چلی جائے یہ مے خانے کی رونق کم ظرفوں کے ہاتھوں میں تو ساغر نہ ملے گا دنیا کی طلب ہے تو قناعت ہی نہ کرنا قطرے ہی سے خوش ہو تو سمندر نہ ملے گا " mirii-vafaaon-kaa-nashsha-utaarne-vaalaa-waseem-barelvi-ghazals," مری وفاؤں کا نشہ اتارنے والا کہاں گیا مجھے ہنس ہنس کے ہارنے والا ہماری جان گئی جائے دیکھنا یہ ہے کہیں نظر میں نہ آ جائے مارنے والا بس ایک پیار کی بازی ہے بے غرض بازی نہ کوئی جیتنے والا نہ کوئی ہارنے والا بھرے مکاں کا بھی اپنا نشہ ہے کیا جانے شراب خانے میں راتیں گزارنے والا میں اس کا دن بھی زمانے میں بانٹ کر رکھ دوں وہ میری راتوں کو چھپ کر گزارنے والا وسیمؔ ہم بھی بکھرنے کا حوصلہ کرتے ہمیں بھی ہوتا جو کوئی سنوارنے والا " tuu-samajhtaa-hai-ki-rishton-kii-duhaaii-denge-waseem-barelvi-ghazals," تو سمجھتا ہے کہ رشتوں کی دہائی دیں گے ہم تو وہ ہیں ترے چہرے سے دکھائی دیں گے ہم کو محسوس کیا جائے ہے خوشبو کی طرح ہم کوئی شور نہیں ہیں جو سنائی دیں گے فیصلہ لکھا ہوا رکھا ہے پہلے سے خلاف آپ کیا صاحب عدالت میں صفائی دیں گے پچھلی صف میں ہی سہی ہے تو اسی محفل میں آپ دیکھیں گے تو ہم کیوں نہ دکھائی دیں گے " duur-se-hii-bas-dariyaa-dariyaa-lagtaa-hai-waseem-barelvi-ghazals," دور سے ہی بس دریا دریا لگتا ہے ڈوب کے دیکھو کتنا پیاسا لگتا ہے تنہا ہو تو گھبرایا سا لگتا ہے بھیڑ میں اس کو دیکھ کے اچھا لگتا ہے آج یہ ہے کل اور یہاں ہوگا کوئی سوچو تو سب کھیل تماشا لگتا ہے میں ہی نہ مانوں میرے بکھرنے میں ورنہ دنیا بھر کو ہاتھ تمہارا لگتا ہے ذہن سے کاغذ پر تصویر اترتے ہی ایک مصور کتنا اکیلا لگتا ہے پیار کے اس نشہ کو کوئی کیا سمجھے ٹھوکر میں جب سارا زمانہ لگتا ہے بھیڑ میں رہ کر اپنا بھی کب رہ پاتا چاند اکیلا ہے تو سب کا لگتا ہے شاخ پہ بیٹھی بھولی بھالی اک چڑیا کیا جانے اس پر بھی نشانہ لگتا ہے " zaraa-saa-qatra-kahiin-aaj-agar-ubhartaa-hai-waseem-barelvi-ghazals," ذرا سا قطرہ کہیں آج اگر ابھرتا ہے سمندروں ہی کے لہجے میں بات کرتا ہے کھلی چھتوں کے دیئے کب کے بجھ گئے ہوتے کوئی تو ہے جو ہواؤں کے پر کترتا ہے شرافتوں کی یہاں کوئی اہمیت ہی نہیں کسی کا کچھ نہ بگاڑو تو کون ڈرتا ہے یہ دیکھنا ہے کہ صحرا بھی ہے سمندر بھی وہ میری تشنہ لبی کس کے نام کرتا ہے تم آ گئے ہو، تو کچھ چاندنی سی باتیں ہوں زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے زمیں کی کیسی وکالت ہو پھر نہیں چلتی جب آسماں سے کوئی فیصلہ اترتا ہے " nahiin-ki-apnaa-zamaana-bhii-to-nahiin-aayaa-waseem-barelvi-ghazals," نہیں کہ اپنا زمانہ بھی تو نہیں آیا ہمیں کسی سے نبھانا بھی تو نہیں آیا جلا کے رکھ لیا ہاتھوں کے ساتھ دامن تک تمہیں چراغ بجھانا بھی تو نہیں آیا نئے مکان بنائے تو فاصلوں کی طرح ہمیں یہ شہر بسانا بھی تو نہیں آیا وہ پوچھتا تھا مری آنکھ بھیگنے کا سبب مجھے بہانہ بنانا بھی تو نہیں آیا وسیمؔ دیکھنا مڑ مڑ کے وہ اسی کی طرف کسی کو چھوڑ کے جانا بھی تو نہیں آیا " vo-dhal-rahaa-hai-to-ye-bhii-rangat-badal-rahii-hai-javed-akhtar-ghazals," وہ ڈھل رہا ہے تو یہ بھی رنگت بدل رہی ہے زمین سورج کی انگلیوں سے پھسل رہی ہے جو مجھ کو زندہ جلا رہے ہیں وہ بے خبر ہیں کہ میری زنجیر دھیرے دھیرے پگھل رہی ہے میں قتل تو ہو گیا تمہاری گلی میں لیکن مرے لہو سے تمہاری دیوار گل رہی ہے نہ جلنے پاتے تھے جس کے چولھے بھی ہر سویرے سنا ہے کل رات سے وہ بستی بھی جل رہی ہے میں جانتا ہوں کہ خامشی میں ہی مصلحت ہے مگر یہی مصلحت مرے دل کو کھل رہی ہے کبھی تو انسان زندگی کی کرے گا عزت یہ ایک امید آج بھی دل میں پل رہی ہے " dast-bardaar-agar-aap-gazab-se-ho-jaaen-javed-akhtar-ghazals," دست بردار اگر آپ غضب سے ہو جائیں ہر ستم بھول کے ہم آپ کے اب سے ہو جائیں چودھویں شب ہے تو کھڑکی کے گرا دو پردے کون جانے کہ وہ ناراض ہی شب سے ہو جائیں ایک خوشبو کی طرح پھیلتے ہیں محفل میں ایسے الفاظ ادا جو ترے لب سے ہو جائیں نہ کوئی عشق ہے باقی نہ کوئی پرچم ہے لوگ دیوانے بھلا کس کے سبب سے ہو جائیں باندھ لو ہاتھ کہ پھیلیں نہ کسی کے آگے سی لو یہ لب کہ کہیں وہ نہ طلب سے ہو جائیں بات تو چھیڑ مرے دل کوئی قصہ تو سنا کیا عجب ان کے بھی جذبات عجب سے ہو جائیں " ba-zaahir-kyaa-hai-jo-haasil-nahiin-hai-javed-akhtar-ghazals," بظاہر کیا ہے جو حاصل نہیں ہے مگر یہ تو مری منزل نہیں ہے یہ تودہ ریت کا ہے بیچ دریا یہ بہہ جائے گا یہ ساحل نہیں ہے بہت آسان ہے پہچان اس کی اگر دکھتا نہیں تو دل نہیں ہے مسافر وہ عجب ہے کارواں میں کہ جو ہم راہ ہے شامل نہیں ہے بس اک مقتول ہی مقتول کب ہے بس اک قاتل ہی تو قاتل نہیں ہے کبھی تو رات کو تم رات کہہ دو یہ کام اتنا بھی اب مشکل نہیں ہے " dard-ke-phuul-bhii-khilte-hain-bikhar-jaate-hain-javed-akhtar-ghazals," درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بھر جاتے ہیں راستہ روکے کھڑی ہے یہی الجھن کب سے کوئی پوچھے تو کہیں کیا کہ کدھر جاتے ہیں چھت کی کڑیوں سے اترتے ہیں مرے خواب مگر میری دیواروں سے ٹکرا کے بکھر جاتے ہیں نرم الفاظ بھلی باتیں مہذب لہجے پہلی بارش ہی میں یہ رنگ اتر جاتے ہیں اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں " yahii-haalaat-ibtidaa-se-rahe-javed-akhtar-ghazals," یہی حالات ابتدا سے رہے لوگ ہم سے خفا خفا سے رہے ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا کیوں گلہ ہم کو پھر ہوا سے رہے بحث شطرنج شعر موسیقی تم نہیں تھے تو یہ دلاسے رہے زندگی کی شراب مانگتے ہو ہم کو دیکھو کہ پی کے پیاسے رہے اس کے بندوں کو دیکھ کر کہئے ہم کو امید کیا خدا سے رہے " phirte-hain-kab-se-dar-ba-dar-ab-is-nagar-ab-us-nagar-ik-duusre-ke-ham-safar-main-aur-mirii-aavaargii-javed-akhtar-ghazals," پھرتے ہیں کب سے در بدر اب اس نگر اب اس نگر اک دوسرے کے ہم سفر میں اور مری آوارگی نا آشنا ہر رہگزر نا مہرباں ہر اک نظر جائیں تو اب جائیں کدھر میں اور مری آوارگی ہم بھی کبھی آباد تھے ایسے کہاں برباد تھے بے فکر تھے آزاد تھے مسرور تھے دل شاد تھے وہ چال ایسی چل گیا ہم بجھ گئے دل جل گیا نکلے جلا کے اپنا گھر میں اور مری آوارگی جینا بہت آسان تھا اک شخص کا احسان تھا ہم کو بھی اک ارمان تھا جو خواب کا سامان تھا اب خواب ہے نے آرزو ارمان ہے نے جستجو یوں بھی چلو خوش ہیں مگر میں اور مری آوارگی وہ ماہ وش وہ ماہ رو وہ ماہ کام ہو بہو تھیں جس کی باتیں کو بہ کو اس سے عجب تھی گفتگو پھر یوں ہوا وہ کھو گئی تو مجھ کو ضد سی ہو گئی لائیں گے اس کو ڈھونڈ کر میں اور مری آوارگی یہ دل ہی تھا جو سہ گیا وہ بات ایسی کہہ گیا کہنے کو پھر کیا رہ گیا اشکوں کا دریا بہہ گیا جب کہہ کے وہ دل بر گیا تیرے لیے میں مر گیا روتے ہیں اس کو رات بھر میں اور مری آوارگی اب غم اٹھائیں کس لیے آنسو بہائیں کس لیے یہ دل جلائیں کس لیے یوں جاں گنوائیں کس لیے پیشہ نہ ہو جس کا ستم ڈھونڈیں گے اب ایسا صنم ہوں گے کہیں تو کارگر میں اور مری آوارگی آثار ہیں سب کھوٹ کے امکان ہیں سب چوٹ کے گھر بند ہیں سب گوٹ کے اب ختم ہیں سب ٹوٹکے قسمت کا سب یہ پھیر ہے اندھیر ہے اندھیر ہے ایسے ہوئے ہیں بے اثر میں اور مری آوارگی جب ہمدم و ہمراز تھا تب اور ہی انداز تھا اب سوز ہے تب ساز تھا اب شرم ہے تب ناز تھا اب مجھ سے ہو تو ہو بھی کیا ہے ساتھ وہ تو وہ بھی کیا اک بے ہنر اک بے ثمر میں اور مری آوارگی " jidhar-jaate-hain-sab-jaanaa-udhar-achchhaa-nahiin-lagtaa-javed-akhtar-ghazals," جدھر جاتے ہیں سب جانا ادھر اچھا نہیں لگتا مجھے پامال رستوں کا سفر اچھا نہیں لگتا غلط باتوں کو خاموشی سے سننا حامی بھر لینا بہت ہیں فائدے اس میں مگر اچھا نہیں لگتا مجھے دشمن سے بھی خودداری کی امید رہتی ہے کسی کا بھی ہو سر قدموں میں سر اچھا نہیں لگتا بلندی پر انہیں مٹی کی خوشبو تک نہیں آتی یہ وہ شاخیں ہیں جن کو اب شجر اچھا نہیں لگتا یہ کیوں باقی رہے آتش زنو یہ بھی جلا ڈالو کہ سب بے گھر ہوں اور میرا ہو گھر اچھا نہیں لگتا " dard-apnaataa-hai-paraae-kaun-javed-akhtar-ghazals," درد اپناتا ہے پرائے کون کون سنتا ہے اور سنائے کون کون دہرائے پھر وہی باتیں غم ابھی سویا ہے جگائے کون اب سکوں ہے تو بھولنے میں ہے لیکن اس شخص کو بھلائے کون وہ جو اپنے ہیں کیا وہ اپنے ہیں کون دکھ جھیلے آزمائے کون آج پھر دل ہے کچھ اداس اداس دیکھیے آج یاد آئے کون " bahaana-dhuundte-rahte-hain-koii-rone-kaa-javed-akhtar-ghazals," بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کوئی رونے کا ہمیں یہ شوق ہے کیا آستیں بھگونے کا اگر پلک پہ ہے موتی تو یہ نہیں کافی ہنر بھی چاہئے الفاظ میں پرونے کا جو فصل خواب کی تیار ہے تو یہ جانو کہ وقت آ گیا پھر درد کوئی بونے کا یہ زندگی بھی عجب کاروبار ہے کہ مجھے خوشی ہے پانے کی کوئی نہ رنج کھونے کا ہے پاش پاش مگر پھر بھی مسکراتا ہے وہ چہرہ جیسے ہو ٹوٹے ہوئے کھلونے کا " aaj-main-ne-apnaa-phir-saudaa-kiyaa-javed-akhtar-ghazals," آج میں نے اپنا پھر سودا کیا اور پھر میں دور سے دیکھا کیا زندگی بھر میرے کام آئے اصول ایک اک کر کے انہیں بیچا کیا بندھ گئی تھی دل میں کچھ امید سی خیر تم نے جو کیا اچھا کیا کچھ کمی اپنی وفاؤں میں بھی تھی تم سے کیا کہتے کہ تم نے کیا کیا کیا بتاؤں کون تھا جس نے مجھے اس بھری دنیا میں ہے تنہا کیا " jiinaa-mushkil-hai-ki-aasaan-zaraa-dekh-to-lo-javed-akhtar-ghazals," جینا مشکل ہے کہ آسان ذرا دیکھ تو لو لوگ لگتے ہیں پریشان ذرا دیکھ تو لو پھر مقرر کوئی سرگرم سر منبر ہے کس کے ہے قتل کا سامان ذرا دیکھ تو لو یہ نیا شہر تو ہے خوب بسایا تم نے کیوں پرانا ہوا ویران ذرا دیکھ تو لو ان چراغوں کے تلے ایسے اندھیرے کیوں ہے تم بھی رہ جاؤ گے حیران ذرا دیکھ تو لو تم یہ کہتے ہو کہ میں غیر ہوں پھر بھی شاید نکل آئے کوئی پہچان ذرا دیکھ تو لو یہ ستائش کی تمنا یہ صلے کی پرواہ کہاں لائے ہیں یہ ارمان ذرا دیکھ تو لو " hamaare-shauq-kii-ye-intihaa-thii-javed-akhtar-ghazals," ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی قدم رکھا کہ منزل راستا تھی بچھڑ کے ڈار سے بن بن پھرا وہ ہرن کو اپنی کستوری سزا تھی کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا مرے انجام کی وہ ابتدا تھی محبت مر گئی مجھ کو بھی غم ہے مرے اچھے دنوں کی آشنا تھی جسے چھو لوں میں وہ ہو جائے سونا تجھے دیکھا تو جانا بد دعا تھی مریض خواب کو تو اب شفا ہے مگر دنیا بڑی کڑوی دوا تھی " dukh-ke-jangal-men-phirte-hain-kab-se-maare-maare-log-javed-akhtar-ghazals," دکھ کے جنگل میں پھرتے ہیں کب سے مارے مارے لوگ جو ہوتا ہے سہہ لیتے ہیں کیسے ہیں بے چارے لوگ جیون جیون ہم نے جگ میں کھیل یہی ہوتے دیکھا دھیرے دھیرے جیتی دنیا دھیرے دھیرے ہارے لوگ وقت سنگھاسن پر بیٹھا ہے اپنے راگ سناتا ہے سنگت دینے کو پاتے ہیں سانسوں کے اکتارے لوگ نیکی اک دن کام آتی ہے ہم کو کیا سمجھاتے ہو ہم نے بے بس مرتے دیکھے کیسے پیارے پیارے لوگ اس نگری میں کیوں ملتی ہے روٹی سپنوں کے بدلے جن کی نگری ہے وہ جانیں ہم ٹھہرے بنجارے لوگ " main-paa-sakaa-na-kabhii-is-khalish-se-chhutkaaraa-javed-akhtar-ghazals," میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا وہ مجھ سے جیت بھی سکتا تھا جانے کیوں ہارا برس کے کھل گئے آنسو نتھر گئی ہے فضا چمک رہا ہے سر شام درد کا تارا کسی کی آنکھ سے ٹپکا تھا اک امانت ہے مری ہتھیلی پہ رکھا ہوا یہ انگارا جو پر سمیٹے تو اک شاخ بھی نہیں پائی کھلے تھے پر تو مرا آسمان تھا سارا وہ سانپ چھوڑ دے ڈسنا یہ میں بھی کہتا ہوں مگر نہ چھوڑیں گے لوگ اس کو گر نہ پھنکارا " ye-mujh-se-puuchhte-hain-chaaragar-kyuun-javed-akhtar-ghazals," یہ مجھ سے پوچھتے ہیں چارہ گر کیوں کہ تو زندہ تو ہے اب تک مگر کیوں جو رستہ چھوڑ کے میں جا رہا ہوں اسی رستے پہ جاتی ہے نظر کیوں تھکن سے چور پاس آیا تھا اس کے گرا سوتے میں مجھ پر یہ شجر کیوں سنائیں گے کبھی فرصت میں تم کو کہ ہم برسوں رہے ہیں در بہ در کیوں یہاں بھی سب ہیں بیگانہ ہی مجھ سے کہوں میں کیا کہ یاد آیا ہے گھر کیوں میں خوش رہتا اگر سمجھا نہ ہوتا یہ دنیا ہے تو میں ہوں دیدہ ور کیوں " dard-kuchh-din-to-mehmaan-thahre-javed-akhtar-ghazals," درد کچھ دن تو میہماں ٹھہرے ہم بضد ہیں کہ میزباں ٹھہرے صرف تنہائی صرف ویرانی یہ نظر جب اٹھے جہاں ٹھہرے کون سے زخم پر پڑاؤ کیا درد کے قافلے کہاں ٹھہرے کیسے دل میں خوشی بسا لوں میں کیسے مٹھی میں یہ دھواں ٹھہرے تھی کہیں مصلحت کہیں جرأت ہم کہیں ان کے درمیاں ٹھہرے " main-khud-bhii-sochtaa-huun-ye-kyaa-meraa-haal-hai-javed-akhtar-ghazals," میں خود بھی سوچتا ہوں یہ کیا میرا حال ہے جس کا جواب چاہئے وہ کیا سوال ہے گھر سے چلا تو دل کے سوا پاس کچھ نہ تھا کیا مجھ سے کھو گیا ہے مجھے کیا ملال ہے آسودگی سے دل کے سبھی داغ دھل گئے لیکن وہ کیسے جائے جو شیشے میں بال ہے بے دست و پا ہوں آج تو الزام کس کو دوں کل میں نے ہی بنا تھا یہ میرا ہی جال ہے پھر کوئی خواب دیکھوں کوئی آرزو کروں اب اے دل تباہ ترا کیا خیال ہے " khulaa-hai-dar-pa-tiraa-intizaar-jaataa-rahaa-javed-akhtar-ghazals," کھلا ہے در پہ ترا انتظار جاتا رہا خلوص تو ہے مگر اعتبار جاتا رہا کسی کی آنکھ میں مستی تو آج بھی ہے وہی مگر کبھی جو ہمیں تھا خمار جاتا رہا کبھی جو سینے میں اک آگ تھی وہ سرد ہوئی کبھی نگاہ میں جو تھا شرار جاتا رہا عجب سا چین تھا ہم کو کہ جب تھے ہم بے چین قرار آیا تو جیسے قرار جاتا رہا کبھی تو میری بھی سنوائی ہوگی محفل میں میں یہ امید لیے بار بار جاتا رہا " ye-tasallii-hai-ki-hain-naashaad-sab-javed-akhtar-ghazals," یہ تسلی ہے کہ ہیں ناشاد سب میں اکیلا ہی نہیں برباد سب سب کی خاطر ہیں یہاں سب اجنبی اور کہنے کو ہیں گھر آباد سب بھول کے سب رنجشیں سب ایک ہیں میں بتاؤں سب کو ہوگا یاد سب سب کو دعوائے وفا سب کو یقیں اس اداکاری میں ہیں استاد سب شہر کے حاکم کا یہ فرمان ہے قید میں کہلائیں گے آزاد سب چار لفظوں میں کہو جو بھی کہو اس کو کب فرصت سنے فریاد سب تلخیاں کیسے نہ ہوں اشعار میں ہم پہ جو گزری ہمیں ہے یاد سب " zaraa-mausam-to-badlaa-hai-magar-pedon-kii-shaakhon-par-nae-patton-ke-aane-men-abhii-kuchh-din-lagenge-javed-akhtar-ghazals," ذرا موسم تو بدلا ہے مگر پیڑوں کی شاخوں پر نئے پتوں کے آنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے بہت سے زرد چہروں پر غبار غم ہے کم بے شک پر ان کو مسکرانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے کبھی ہم کو یقیں تھا زعم تھا دنیا ہماری جو مخالف ہے تو ہو جائے مگر تم مہرباں ہو ہمیں یہ بات ویسے یاد تو اب کیا ہے لیکن ہاں اسے یکسر بھلانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے جہاں اتنے مصائب ہوں جہاں اتنی پریشانی کسی کا بے وفا ہونا ہے کوئی سانحہ کیا بہت معقول ہے یہ بات لیکن اس حقیقت تک دل ناداں کو لانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے کوئی ٹوٹے ہوئے شیشے لئے افسردہ و مغموم کب تک یوں گزارے بے طلب بے آرزو دن تو ان خوابوں کی کرچیں ہم نے پلکوں سے جھٹک دیں پر نئے ارماں سجانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے توہم کی سیہ شب کو کرن سے چاک کر کے آگہی ہر ایک آنگن میں نیا سورج اتارے مگر افسوس یہ سچ ہے وہ شب تھی اور یہ سورج ہے یہ سب کو مان جانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے پرانی منزلوں کا شوق تو کس کو ہے باقی اب نئی ہیں منزلیں ہیں سب کے دل میں جن کے ارماں بنا لینا نئی منزل نہ تھا مشکل مگر اے دل نئے رستے بنانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے اندھیرے ڈھل گئے روشن ہوئے منظر زمیں جاگی فلک جاگا تو جیسے جاگ اٹھی زندگانی مگر کچھ یاد ماضی اوڑھ کے سوئے ہوئے لوگوں کو لگتا ہے جگانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے " yaad-use-bhii-ek-adhuuraa-afsaana-to-hogaa-javed-akhtar-ghazals," یاد اسے بھی ایک ادھورا افسانہ تو ہوگا کل رستے میں اس نے ہم کو پہچانا تو ہوگا ڈر ہم کو بھی لگتا ہے رستے کے سناٹے سے لیکن ایک سفر پر اے دل اب جانا تو ہوگا کچھ باتوں کے مطلب ہیں اور کچھ مطلب کی باتیں جو یہ فرق سمجھ لے گا وہ دیوانہ تو ہوگا دل کی باتیں نہیں ہے تو دلچسپ ہی کچھ باتیں ہوں زندہ رہنا ہے تو دل کو بہلانا تو ہوگا جیت کے بھی وہ شرمندہ ہے ہار کے بھی ہم نازاں کم سے کم وہ دل ہی دل میں یہ مانا تو ہوگا " gam-hote-hain-jahaan-zehaanat-hotii-hai-javed-akhtar-ghazals," غم ہوتے ہیں جہاں ذہانت ہوتی ہے دنیا میں ہر شے کی قیمت ہوتی ہے اکثر وہ کہتے ہیں وہ بس میرے ہیں اکثر کیوں کہتے ہیں حیرت ہوتی ہے تب ہم دونوں وقت چرا کر لاتے تھے اب ملتے ہیں جب بھی فرصت ہوتی ہے اپنی محبوبہ میں اپنی ماں دیکھیں بن ماں کے لڑکوں کی فطرت ہوتی ہے اک کشتی میں ایک قدم ہی رکھتے ہیں کچھ لوگوں کی ایسی عادت ہوتی ہے " jism-damaktaa-zulf-ghanerii-rangiin-lab-aankhen-jaaduu-javed-akhtar-ghazals," جسم دمکتا، زلف گھنیری، رنگیں لب، آنکھیں جادو سنگ مرمر، اودا بادل، سرخ شفق، حیراں آہو بھکشو دانی، پیاسا پانی، دریا ساگر، جل گاگر گلشن خوشبو، کوئل کوکو، مستی دارو، میں اور تو بانبی ناگن، چھایا آنگن، گھنگھرو چھن چھن، آشا من آنکھیں کاجل، پربت بادل، وہ زلفیں اور یہ بازو راتیں مہکی، سانسیں دہکی، نظریں بہکی، رت لہکی سپن سلونا، پریم کھلونا، پھول بچھونا، وہ پہلو تم سے دوری، یہ مجبوری، زخم کاری، بیداری، تنہا راتیں، سپنے کاتیں، خود سے باتیں، میری خو " kabhii-kabhii-main-ye-sochtaa-huun-ki-mujh-ko-terii-talaash-kyuun-hai-javed-akhtar-ghazals," کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ مجھ کو تیری تلاش کیوں ہے کہ جب ہیں سارے ہی تار ٹوٹے تو ساز میں ارتعاش کیوں ہے کوئی اگر پوچھتا یہ ہم سے بتاتے ہم گر تو کیا بتاتے بھلا ہو سب کا کہ یہ نہ پوچھا کہ دل پہ ایسی خراش کیوں ہے اٹھا کے ہاتھوں سے تم نے چھوڑا چلو نہ دانستہ تم نے توڑا اب الٹا ہم سے تو یہ نہ پوچھو کہ شیشہ یہ پاش پاش کیوں ہے عجب دو راہے پہ زندگی ہے کبھی ہوس دل کو کھینچتی ہے کبھی یہ شرمندگی ہے دل میں کہ اتنی فکر معاش کیوں ہے نہ فکر کوئی نہ جستجو ہے نہ خواب کوئی نہ آرزو ہے یہ شخص تو کب کا مر چکا ہے تو بے کفن پھر یہ لاش کیوں ہے " khvaab-ke-gaanv-men-pale-hain-ham-javed-akhtar-ghazals," خواب کے گاؤں میں پلے ہیں ہم پانی چھلنی میں لے چلے ہیں ہم چھاچھ پھونکیں کہ اپنے بچپن میں دودھ سے کس طرح جلے ہیں ہم خود ہیں اپنے سفر کی دشواری اپنے پیروں کے آبلے ہیں ہم تو تو مت کہہ ہمیں برا دنیا تو نے ڈھالا ہے اور ڈھلے ہیں ہم کیوں ہیں کب تک ہیں کس کی خاطر ہیں بڑے سنجیدہ مسئلے ہیں ہم " pyaas-kii-kaise-laae-taab-koii-javed-akhtar-ghazals," پیاس کی کیسے لائے تاب کوئی نہیں دریا تو ہو سراب کوئی زخم دل میں جہاں مہکتا ہے اسی کیاری میں تھا گلاب کوئی رات بجتی تھی دور شہنائی رویا پی کر بہت شراب کوئی دل کو گھیرے ہیں روزگار کے غم ردی میں کھو گئی کتاب کوئی کون سا زخم کس نے بخشا ہے اس کا رکھے کہاں حساب کوئی پھر میں سننے لگا ہوں اس دل کی آنے والا ہے پھر عذاب کوئی شب کی دہلیز پر شفق ہے لہو پھر ہوا قتل آفتاب کوئی " main-kab-se-kitnaa-huun-tanhaa-tujhe-pataa-bhii-nahiin-javed-akhtar-ghazals," میں کب سے کتنا ہوں تنہا تجھے پتا بھی نہیں ترا تو کوئی خدا ہے مرا خدا بھی نہیں کبھی یہ لگتا ہے اب ختم ہو گیا سب کچھ کبھی یہ لگتا ہے اب تک تو کچھ ہوا بھی نہیں کبھی تو بات کی اس نے کبھی رہا خاموش کبھی تو ہنس کے ملا اور کبھی ملا بھی نہیں کبھی جو تلخ کلامی تھی وہ بھی ختم ہوئی کبھی گلہ تھا ہمیں ان سے اب گلہ بھی نہیں وہ چیخ ابھری بڑی دیر گونجی ڈوب گئی ہر ایک سنتا تھا لیکن کوئی ہلا بھی نہیں " kal-jahaan-diivaar-thii-hai-aaj-ik-dar-dekhiye-javed-akhtar-ghazals," کل جہاں دیوار تھی ہے آج اک در دیکھیے کیا سمائی تھی بھلا دیوانے کے سر دیکھیے پر سکوں لگتی ہے کتنی جھیل کے پانی پہ بط پیروں کی بے تابیاں پانی کے اندر دیکھیے چھوڑ کر جس کو گئے تھے آپ کوئی اور تھا اب میں کوئی اور ہوں واپس تو آ کر دیکھیے ذہن انسانی ادھر آفاق کی وسعت ادھر ایک منظر ہے یہاں اندر کہ باہر دیکھیے عقل یہ کہتی دنیا ملتی ہے بازار میں دل مگر یہ کہتا ہے کچھ اور بہتر دیکھیے " sach-ye-hai-be-kaar-hamen-gam-hotaa-hai-javed-akhtar-ghazals," سچ یہ ہے بیکار ہمیں غم ہوتا ہے جو چاہا تھا دنیا میں کم ہوتا ہے ڈھلتا سورج پھیلا جنگل رستہ گم ہم سے پوچھو کیسا عالم ہوتا ہے غیروں کو کب فرصت ہے دکھ دینے کی جب ہوتا ہے کوئی ہمدم ہوتا ہے زخم تو ہم نے ان آنکھوں سے دیکھے ہیں لوگوں سے سنتے ہیں مرہم ہوتا ہے ذہن کی شاخوں پر اشعار آ جاتے ہیں جب تیری یادوں کا موسم ہوتا ہے " kin-lafzon-men-itnii-kadvii-itnii-kasiilii-baat-likhuun-javed-akhtar-ghazals," کن لفظوں میں اتنی کڑوی اتنی کسیلی بات لکھوں شعر کی میں تہذیب بنا ہوں یا اپنے حالات لکھوں غم نہیں لکھوں کیا میں غم کو جشن لکھوں کیا ماتم کو جو دیکھے ہیں میں نے جنازے کیا ان کو بارات لکھوں کیسے لکھوں میں چاند کے قصے کیسے لکھوں میں پھول کی بات ریت اڑائے گرم ہوا تو کیسے میں برسات لکھوں کس کس کی آنکھوں میں دیکھے میں نے زہر بجھے خنجر خود سے بھی جو میں نے چھپائے کیسے وہ صدمات لکھوں تخت کی خواہش لوٹ کی لالچ کمزوروں پر ظلم کا شوق لیکن ان کا فرمانا ہے میں ان کو جذبات لکھوں قاتل بھی مقتول بھی دونوں نام خدا کا لیتے تھے کوئی خدا ہے تو وہ کہاں تھا میری کیا اوقات لکھوں اپنی اپنی تاریکی کو لوگ اجالا کہتے ہیں تاریکی کے نام لکھوں تو قومیں فرقے ذات لکھوں جانے یہ کیسا دور ہے جس میں جرأت بھی تو مشکل ہے دن ہو اگر تو اس کو لکھوں دن رات اگر ہو رات لکھوں " kis-liye-kiije-bazm-aaraaii-javed-akhtar-ghazals," کس لئے کیجے بزم آرائی پر سکوں ہو گئی ہے تنہائی پھر خموشی نے ساز چھیڑا ہے پھر خیالات نے لی انگڑائی یوں سکوں آشنا ہوئے لمحے بوند میں جیسے آئے گہرائی اک سے اک واقعہ ہوا لیکن نہ گئی تیرے غم کی یکتائی کوئی شکوہ نہ غم نہ کوئی یاد بیٹھے بیٹھے بس آنکھ بھر آئی ڈھلکی شانوں سے ہر یقیں کی قبا زندگی لے رہی ہے انگڑائی " ye-duniyaa-tum-ko-raas-aae-to-kahnaa-javed-akhtar-ghazals," یہ دنیا تم کو راس آئے تو کہنا نہ سر پتھر سے ٹکرائے تو کہنا یہ گل کاغذ ہیں یہ زیور ہیں پیتل سمجھ میں جب یہ آ جائے تو کہنا بہت خوش ہو کہ اس نے کچھ کہا ہے نہ کہہ کر وہ مکر جائے تو کہنا بدل جاؤ گے تم غم سن کے میرے کبھی دل غم سے گھبرائے تو کہنا دھواں جو کچھ گھروں سے اٹھ رہا ہے نہ پورے شہر پر چھائے تو کہنا " shahr-ke-dukaan-daaro-kaarobaar-e-ulfat-men-suud-kyaa-ziyaan-kyaa-hai-tum-na-jaan-paaoge-javed-akhtar-ghazals," شہر کے دکاں دارو کاروبار الفت میں سود کیا زیاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے دل کے دام کتنے ہیں خواب کتنے مہنگے ہیں اور نقد جاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے کوئی کیسے ملتا ہے پھول کیسے کھلتا ہے آنکھ کیسے جھکتی ہے سانس کیسے رکتی ہے کیسے رہ نکلتی ہے کیسے بات چلتی ہے شوق کی زباں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے وصل کا سکوں کیا ہے ہجر کا جنوں کیا ہے حسن کا فسوں کیا ہے عشق کا دروں کیا ہے تم مریض دانائی مصلحت کے شیدائی راہ گمرہاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے زخم کیسے پھلتے ہیں داغ کیسے جلتے ہیں درد کیسے ہوتا ہے کوئی کیسے روتا ہے اشک کیا ہے نالے کیا دشت کیا ہے چھالے کیا آہ کیا فغاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے نامراد دل کیسے صبح و شام کرتے ہیں کیسے زندہ رہتے ہیں اور کیسے مرتے ہیں تم کو کب نظر آئی غم زدوں کی تنہائی زیست بے اماں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے جانتا ہوں میں تم کو ذوق شاعری بھی ہے شخصیت سجانے میں اک یہ ماہری بھی ہے پھر بھی حرف چنتے ہو صرف لفظ سنتے ہو ان کے درمیاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے " nigal-gae-sab-kii-sab-samundar-zamiin-bachii-ab-kahiin-nahiin-hai-javed-akhtar-ghazals," نگل گئے سب کی سب سمندر زمیں بچی اب کہیں نہیں ہے بچاتے ہم اپنی جان جس میں وہ کشتی بھی اب کہیں نہیں ہے بہت دنوں بعد پائی فرصت تو میں نے خود کو پلٹ کے دیکھا مگر میں پہچانتا تھا جس کو وہ آدمی اب کہیں نہیں ہے گزر گیا وقت دل پہ لکھ کر نہ جانے کیسی عجیب باتیں ورق پلٹتا ہوں میں جو دل کے تو سادگی اب کہیں نہیں ہے وہ آگ برسی ہے دوپہر میں کہ سارے منظر جھلس گئے ہیں یہاں سویرے جو تازگی تھی وہ تازگی اب کہیں نہیں ہے تم اپنے قصبوں میں جا کے دیکھو وہاں بھی اب شہر ہی بسے ہیں کہ ڈھونڈھتے ہو جو زندگی تم وہ زندگی اب کہیں نہیں ہے " abhii-zamiir-men-thodii-sii-jaan-baaqii-hai-javed-akhtar-ghazals," ابھی ضمیر میں تھوڑی سی جان باقی ہے ابھی ہمارا کوئی امتحان باقی ہے ہمارے گھر کو تو اجڑے ہوئے زمانہ ہوا مگر سنا ہے ابھی وہ مکان باقی ہے ہماری ان سے جو تھی گفتگو وہ ختم ہوئی مگر سکوت سا کچھ درمیان باقی ہے ہمارے ذہن کی بستی میں آگ ایسی لگی کہ جو تھا خاک ہوا اک دکان باقی ہے وہ زخم بھر گیا عرصہ ہوا مگر اب تک ذرا سا درد ذرا سا نشان باقی ہے ذرا سی بات جو پھیلی تو داستان بنی وہ بات ختم ہوئی داستان باقی ہے اب آیا تیر چلانے کا فن تو کیا آیا ہمارے ہاتھ میں خالی کمان باقی ہے " mujh-ko-yaqiin-hai-sach-kahtii-thiin-jo-bhii-ammii-kahtii-thiin-javed-akhtar-ghazals," مجھ کو یقیں ہے سچ کہتی تھیں جو بھی امی کہتی تھیں جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں ایک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں ایک وہ دن جب آؤ کھیلیں ساری گلیاں کہتی تھیں ایک یہ دن جب جاگی راتیں دیواروں کو تکتی ہیں ایک وہ دن جب شاموں کی بھی پلکیں بوجھل رہتی تھیں ایک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں ایک وہ دن جب دل میں بھولی بھالی باتیں رہتی تھیں ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا ایک وہ دن جب ایک ذرا سی بات پہ ندیاں بہتی تھیں ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رہتا ہے ایک وہ گھر جس گھر میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں " dil-men-mahak-rahe-hain-kisii-aarzuu-ke-phuul-javed-akhtar-ghazals," دل میں مہک رہے ہیں کسی آرزو کے پھول پلکوں پہ کھلنے والے ہیں شاید لہو کے پھول اب تک ہے کوئی بات مجھے یاد حرف حرف اب تک میں چن رہا ہوں کسی گفتگو کے پھول کلیاں چٹک رہی تھیں کہ آواز تھی کوئی اب تک سماعتوں میں ہیں اک خوش گلو کے پھول میرے لہو کا رنگ ہے ہر نوک خار پر صحرا میں ہر طرف ہیں مری جستجو کے پھول دیوانے کل جو لوگ تھے پھولوں کے عشق میں اب ان کے دامنوں میں بھرے ہیں رفو کے پھول " suukhii-tahnii-tanhaa-chidiyaa-phiikaa-chaand-javed-akhtar-ghazals," سوکھی ٹہنی تنہا چڑیا پھیکا چاند آنکھوں کے صحرا میں ایک نمی کا چاند اس ماتھے کو چومے کتنے دن بیتے جس ماتھے کی خاطر تھا اک ٹیکا چاند پہلے تو لگتی تھی کتنی بیگانہ کتنا مبہم ہوتا ہے پہلی کا چاند کم ہو کیسے ان خوشیوں سے تیرا غم لہروں میں کب بہتا ہے ندی کا چاند آؤ اب ہم اس کے بھی ٹکڑے کر لیں ڈھاکہ راولپنڈی اور دلی کا چاند " ham-ne-dhuunden-bhii-to-dhuunden-hain-sahaare-kaise-javed-akhtar-ghazals," ہم نے ڈھونڈیں بھی تو ڈھونڈیں ہیں سہارے کیسے ان سرابوں پہ کوئی عمر گزارے کیسے ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھے وہ تاریکی تھی آ گئے ہاتھ میں کیا جانے ستارے کیسے ہر طرف شور اسی نام کا ہے دنیا میں کوئی اس کو جو پکارے تو پکارے کیسے دل بجھا جتنے تھے ارمان سبھی خاک ہوئے راکھ میں پھر یہ چمکتے ہیں شرارے کیسے نہ تو دم لیتی ہے تو اور نہ ہوا تھمتی ہے زندگی زلف تری کوئی سنوارے کیسے " na-khushii-de-to-kuchh-dilaasa-de-javed-akhtar-ghazals," نہ خوشی دے تو کچھ دلاسہ دے دوست جیسے ہو مجھ کو بہلا دے آگہی سے ملی ہے تنہائی آ مری جان مجھ کو دھوکہ دے اب تو تکمیل کی بھی شرط نہیں زندگی اب تو اک تمنا دے اے سفر اتنا رائیگاں تو نہ جا نہ ہو منزل کہیں تو پہنچا دے ترک کرنا ہے گر تعلق تو خود نہ جا تو کسی سے کہلا دے " shukr-hai-khairiyat-se-huun-saahab-javed-akhtar-ghazals," شکر ہے خیریت سے ہوں صاحب آپ سے اور کیا کہوں صاحب اب سمجھنے لگا ہوں سود و زیاں اب کہاں مجھ میں وہ جنوں صاحب ذلت زیست یا شکست ضمیر یہ سہوں میں کہ وہ سہوں صاحب ہم تمہیں یاد کرتے رو لیتے دو گھڑی ملتا جو سکوں صاحب شام بھی ڈھل رہی ہے گھر بھی ہے دور کتنی دیر اور میں رکوں صاحب اب جھکوں گا تو ٹوٹ جاؤں گا کیسے اب اور میں جھکوں صاحب کچھ روایات کی گواہی پر کتنا جرمانہ میں بھروں صاحب " mere-dil-men-utar-gayaa-suuraj-javed-akhtar-ghazals," میرے دل میں اتر گیا سورج تیرگی میں نکھر گیا سورج درس دے کر ہمیں اجالے کا خود اندھیرے کے گھر گیا سورج ہم سے وعدہ تھا اک سویرے کا ہائے کیسا مکر گیا سورج چاندنی عکس چاند آئینہ آئینے میں سنور گیا سورج ڈوبتے وقت زرد تھا اتنا لوگ سمجھے کہ مر گیا سورج " yaqiin-kaa-agar-koii-bhii-silsila-nahiin-rahaa-javed-akhtar-ghazals," یقین کا اگر کوئی بھی سلسلہ نہیں رہا تو شکر کیجیے کہ اب کوئی گلا نہیں رہا نہ ہجر ہے نہ وصل ہے اب اس کو کوئی کیا کہے کہ پھول شاخ پر تو ہے مگر کھلا نہیں رہا خزانہ تم نہ پائے تو غریب جیسے ہو گئے پلک پہ اب کوئی بھی موتی جھلملا نہیں رہا بدل گئی ہے زندگی بدل گئے ہیں لوگ بھی خلوص کا جو تھا کبھی وہ اب صلا نہیں رہا جو دشمنی بخیل سے ہوئی تو اتنی خیر ہے کہ زہر اس کے پاس ہے مگر پلا نہیں رہا لہو میں جذب ہو سکا نہ علم تو یہ حال ہے کوئی سوال ذہن کو جو دے جلا نہیں رہا " dil-kaa-har-dard-kho-gayaa-jaise-javed-akhtar-ghazals," دل کا ہر درد کھو گیا جیسے میں تو پتھر کا ہو گیا جیسے داغ باقی نہیں کہ نقش کہوں کوئی دیوار دھو گیا جیسے جاگتا ذہن غم کی دھوپ میں تھا چھاؤں پاتے ہی سو گیا جیسے دیکھنے والا تھا کل اس کا تپاک پھر سے وہ غیر ہو گیا جیسے کچھ بچھڑنے کے بھی طریقے ہیں خیر جانے دو جو گیا جیسے " hamaare-dil-men-ab-talkhii-nahiin-hai-javed-akhtar-ghazals," ہمارے دل میں اب تلخی نہیں ہے مگر وہ بات پہلے سی نہیں ہے مجھے مایوس بھی کرتی نہیں ہے یہی عادت تری اچھی نہیں ہے بہت سے فائدے ہیں مصلحت میں مگر دل کی تو یہ مرضی نہیں ہے ہر اک کی داستاں سنتے ہیں جیسے کبھی ہم نے محبت کی نہیں ہے ہے اک دروازے بن دیوار دنیا مفر غم سے یہاں کوئی نہیں ہے " saarii-hairat-hai-mirii-saarii-adaa-us-kii-hai-javed-akhtar-ghazals," ساری حیرت ہے مری ساری ادا اس کی ہے بے گناہی ہے مری اور سزا اس کی ہے میرے الفاظ میں جو رنگ ہے وہ اس کا ہے میرے احساس میں جو ہے وہ فضا اس کی ہے شعر میرے ہیں مگر ان میں محبت اس کی پھول میرے ہیں مگر باد صبا اس کی ہے اک محبت کی یہ تصویر ہے دو رنگوں میں شوق سب میرا ہے اور ساری حیا اس کی ہے ہم نے کیا اس سے محبت کی اجازت لی تھی دل شکن ہی سہی پر بات بجا اس کی ہے ایک میرے ہی سوا سب کو پکارے ہے کوئی میں نے پہلے ہی کہا تھا یہ صدا اس کی ہے خون سے سینچی ہے میں نے جو زمیں مر مر کے وہ زمیں ایک ستم گر نے کہا اس کی ہے اس نے ہی اس کو اجاڑا ہے اسے لوٹا ہے یہ زمیں اس کی اگر ہے بھی تو کیا اس کی ہے " jab-aaiina-koii-dekho-ik-ajnabii-dekho-javed-akhtar-ghazals," جب آئینہ کوئی دیکھو اک اجنبی دیکھو کہاں پہ لائی ہے تم کو یہ زندگی دیکھو محبتوں میں کہاں اپنے واسطے فرصت جسے بھی چاہے وہ چاہے مری خوشی دیکھو جو ہو سکے تو زیادہ ہی چاہنا مجھ کو کبھی جو میری محبت میں کچھ کمی دیکھو جو دور جائے تو غم ہے جو پاس آئے تو درد نہ جانے کیا ہے وہ کمبخت آدمی دیکھو اجالا تو نہیں کہہ سکتے اس کو ہم لیکن ذرا سی کم تو ہوئی ہے یہ تیرگی دیکھو " vo-zamaana-guzar-gayaa-kab-kaa-javed-akhtar-ghazals," وہ زمانہ گزر گیا کب کا تھا جو دیوانہ مر گیا کب کا ڈھونڈھتا تھا جو اک نئی دنیا لوٹ کے اپنے گھر گیا کب کا وہ جو لایا تھا ہم کو دریا تک پار اکیلے اتر گیا کب کا اس کا جو حال ہے وہی جانے اپنا تو زخم بھر گیا کب کا خواب در خواب تھا جو شیرازہ اب کہاں ہے بکھر گیا کب کا " ham-to-bachpan-men-bhii-akele-the-javed-akhtar-ghazals," ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے صرف دل کی گلی میں کھیلے تھے اک طرف مورچے تھے پلکوں کے اک طرف آنسوؤں کے ریلے تھے تھیں سجی حسرتیں دکانوں پر زندگی کے عجیب میلے تھے خود کشی کیا دکھوں کا حل بنتی موت کے اپنے سو جھمیلے تھے ذہن و دل آج بھوکے مرتے ہیں ان دنوں ہم نے فاقے جھیلے تھے " misaal-is-kii-kahaan-hai-koii-zamaane-men-javed-akhtar-ghazals," مثال اس کی کہاں ہے کوئی زمانے میں کہ سارے کھونے کے غم پائے ہم نے پانے میں وہ شکل پگھلی تو ہر شے میں ڈھل گئی جیسے عجیب بات ہوئی ہے اسے بھلانے میں جو منتظر نہ ملا وہ تو ہم ہیں شرمندہ کہ ہم نے دیر لگا دی پلٹ کے آنے میں لطیف تھا وہ تخیل سے خواب سے نازک گنوا دیا اسے ہم نے ہی آزمانے میں سمجھ لیا تھا کبھی اک سراب کو دریا پر اک سکون تھا ہم کو فریب کھانے میں جھکا درخت ہوا سے تو آندھیوں نے کہا زیادہ فرق نہیں جھکنے ٹوٹ جانے میں " ._shaaer-e-fitrat-huun-jab-bhii-fikr-farmaataa-huun-main-jigar-moradabadi-ghazals, ._ham-ko-mitaa-sake-ye-zamaane-men-dam-nahiin-jigar-moradabadi-ghazals, ._har-ek-baat-pe-kahte-ho-tum-ki-tuu-kyaa-hai-mirza-ghalib-ghazals, ._phir-huaa-vaqt-ki-ho-baal-kushaa-mauj-e-sharaab-mirza-ghalib-ghazals, ._ye-na-thii-hamaarii-qismat-ki-visaal-e-yaar-hotaa-mirza-ghalib-ghazals, ._ham-par-tumhaarii-chaah-kaa-ilzaam-hii-to-hai-faiz-ahmad-faiz-ghazals, ._aalam-e-aab-o-khaak-o-baad-sirr-e-ayaan-hai-tuu-ki-main-allama-iqbal-ghazals, ._dekhaa-hai-zindagii-ko-kuchh-itnaa-qariib-se-sahir-ludhianvi-ghazals, ._mir-taqi-mir-ghazals-36,